- شمولیت
- نومبر 01، 2013
- پیغامات
- 2,035
- ری ایکشن اسکور
- 1,227
- پوائنٹ
- 425
تمہید:
میری ایک تھریڈ "منکرین حدیث سے پچاس سوالات" میں اس لنک پر بات ہو رہی تھی تو وہاں کچھ بھائیوں نے منکرین حدیث کے ایک گروپ سے مکالمہ کرنے کی طرف توجہ دلائی اور پھر فیس بک پر طلحہ خان بھائی نے گروپ سے رابطہ کر کے مجھے بتایا کہ ان میں سے ایک یہاں اسی فورم پر آپ سے انکار حدیث پر مکالمہ کرنے کے لئے تیار ہے آپ تھریڈ بنا دیں پس میں نے اسی سلسلے میں یہ لنک بنایا ہے اور اب میں @طلحہ خان بھائی سے گزارش کرتا ہوں کہ وہ ان کو یہاں پر دعوت دیں تاکہ مکالمہ شروع کیا جا سکے اسی طرح محترم @123456789 بھائی سے بھی گزارش ہے کہ وہ اوپر والے لنک یعنی منکرین حدیث سے پچاس سوالات کی بجائے پہلے ادھر اصولی مکالمہ میں ہمارا ساتھ دیں پھر وہاں پر فروعی معاملات پر مزید بات بھی ہو گی بلکہ شاید ادھر ہی دوسرے مرحلے میں ان معاملات پر بات ہو جائے
مکالمے کا طریقہ کار:
مکالمے کا اصل موضوع تو انکار حدیث ہی ہے البتہ اسکو دو مرحلوں میں تقسیم کر لیتے ہیں پہلے مرحلے میں ہم بنیادی اصولوں کو طے کریں گے یعنی پہلے مرحلے میں اس اصول پر بات ہو گی کہ آیا قرآن کی طرح صحیح حدیث بھی حجت ہے کہ نہیں- اسکے طے ہونے کے بعد پھر آگے بات کو بڑھائیں گے
طریقہ ایسے ہو گا کہ
1- ایک طرف قرآن کو رکھیں گے اور دوسری طرف صحیح احادیث کو رکھیں گے
2- جو احادیث کو حجت نہیں سمجھتا صرف قرآن کو حجت سمجھتا ہے وہ پہلے وہ بنیادی معیار بتائے گا کہ جو معیار کسی کلام کے منزل من اللہ ہونے کے لئے ضروری ہے اور جو اسکے لائق اتباع ہونے کے لئے ضروری ہے اور ان معیار پر قرآن تو پورا اترتا ہے مگر احادیث پورا نہیں اترتی ہیں مثلا کچھ لوگ یہ نظریہ رکھتے ہیں کہ جو چیز اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں لکھی گئی تھی وہ حجت ہے دوسری حجت نہیں پس اسی معیار کے تحت وہ کہتے ہیں کہ چونکہ قرآن لکھا گیا تھا اور احادیث بعد میں لکھی گئی تھیں پس قرآن حجت ہوا مگر احادیث حجت نہ ہوئیں
3-مخالف (یعنی ہم) اس معیار کو پرکھے گا اور اس پر مکالمہ کرے گا کہ آیا یہ معیار درست ہیں کہ نہیں
4-پھر جو معیار مکالمہ کے بعد متفقہ طور پر درست ثابت ہو جائیں گے ان معیارات پر قرآن و احادیث دونوں کو پرکھا جائے گا کہ کون اس پر پورا اترتا ہے چنانچہ اس پر مکالمہ ہو گا
5-اسکے بعد قرآن و احادیث میں جو کوئی اس متفقہ معیارات پر پورا اترے گا اس کو متفقہ طور پر حجت سمجھا جائے گا
گزارش:
تمام بھائیوں سے گزارش ہے کہ وہ پہلے طریقہ طے ہو جانے دیں اسکے بعد طریقہ کار کے مطابق جو سوال کیا جائے گا اسی سے متعلقہ جواب کوئی بھی دے سکتا ہے کسی پر کوئی پابندی نہیں لیکن ایسی کاپی پیسٹ نہ کی جائے کہ اس موضوع سے متعلقہ ساری باتوں کو کسی ایک سوال کے جواب میں کاپی کر دیا جائے پس جو سوال پوچھا جائے یا جو بات شروع کی جائے تو صرف اتنا ہی جواب دیا جائے جزاکم اللہ خیرا
نوٹ: ابھی ابتدائی طور پر میں نے ایک طریقہ یا خاکہ پیش کیا ہے اس پر کوئی بھائی رائے دے کر اسکو مزید بہتر بنا سکتا ہے جزاک اللہ خیرا
میری ایک تھریڈ "منکرین حدیث سے پچاس سوالات" میں اس لنک پر بات ہو رہی تھی تو وہاں کچھ بھائیوں نے منکرین حدیث کے ایک گروپ سے مکالمہ کرنے کی طرف توجہ دلائی اور پھر فیس بک پر طلحہ خان بھائی نے گروپ سے رابطہ کر کے مجھے بتایا کہ ان میں سے ایک یہاں اسی فورم پر آپ سے انکار حدیث پر مکالمہ کرنے کے لئے تیار ہے آپ تھریڈ بنا دیں پس میں نے اسی سلسلے میں یہ لنک بنایا ہے اور اب میں @طلحہ خان بھائی سے گزارش کرتا ہوں کہ وہ ان کو یہاں پر دعوت دیں تاکہ مکالمہ شروع کیا جا سکے اسی طرح محترم @123456789 بھائی سے بھی گزارش ہے کہ وہ اوپر والے لنک یعنی منکرین حدیث سے پچاس سوالات کی بجائے پہلے ادھر اصولی مکالمہ میں ہمارا ساتھ دیں پھر وہاں پر فروعی معاملات پر مزید بات بھی ہو گی بلکہ شاید ادھر ہی دوسرے مرحلے میں ان معاملات پر بات ہو جائے
مکالمے کا طریقہ کار:
مکالمے کا اصل موضوع تو انکار حدیث ہی ہے البتہ اسکو دو مرحلوں میں تقسیم کر لیتے ہیں پہلے مرحلے میں ہم بنیادی اصولوں کو طے کریں گے یعنی پہلے مرحلے میں اس اصول پر بات ہو گی کہ آیا قرآن کی طرح صحیح حدیث بھی حجت ہے کہ نہیں- اسکے طے ہونے کے بعد پھر آگے بات کو بڑھائیں گے
طریقہ ایسے ہو گا کہ
1- ایک طرف قرآن کو رکھیں گے اور دوسری طرف صحیح احادیث کو رکھیں گے
2- جو احادیث کو حجت نہیں سمجھتا صرف قرآن کو حجت سمجھتا ہے وہ پہلے وہ بنیادی معیار بتائے گا کہ جو معیار کسی کلام کے منزل من اللہ ہونے کے لئے ضروری ہے اور جو اسکے لائق اتباع ہونے کے لئے ضروری ہے اور ان معیار پر قرآن تو پورا اترتا ہے مگر احادیث پورا نہیں اترتی ہیں مثلا کچھ لوگ یہ نظریہ رکھتے ہیں کہ جو چیز اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں لکھی گئی تھی وہ حجت ہے دوسری حجت نہیں پس اسی معیار کے تحت وہ کہتے ہیں کہ چونکہ قرآن لکھا گیا تھا اور احادیث بعد میں لکھی گئی تھیں پس قرآن حجت ہوا مگر احادیث حجت نہ ہوئیں
3-مخالف (یعنی ہم) اس معیار کو پرکھے گا اور اس پر مکالمہ کرے گا کہ آیا یہ معیار درست ہیں کہ نہیں
4-پھر جو معیار مکالمہ کے بعد متفقہ طور پر درست ثابت ہو جائیں گے ان معیارات پر قرآن و احادیث دونوں کو پرکھا جائے گا کہ کون اس پر پورا اترتا ہے چنانچہ اس پر مکالمہ ہو گا
5-اسکے بعد قرآن و احادیث میں جو کوئی اس متفقہ معیارات پر پورا اترے گا اس کو متفقہ طور پر حجت سمجھا جائے گا
گزارش:
تمام بھائیوں سے گزارش ہے کہ وہ پہلے طریقہ طے ہو جانے دیں اسکے بعد طریقہ کار کے مطابق جو سوال کیا جائے گا اسی سے متعلقہ جواب کوئی بھی دے سکتا ہے کسی پر کوئی پابندی نہیں لیکن ایسی کاپی پیسٹ نہ کی جائے کہ اس موضوع سے متعلقہ ساری باتوں کو کسی ایک سوال کے جواب میں کاپی کر دیا جائے پس جو سوال پوچھا جائے یا جو بات شروع کی جائے تو صرف اتنا ہی جواب دیا جائے جزاکم اللہ خیرا
نوٹ: ابھی ابتدائی طور پر میں نے ایک طریقہ یا خاکہ پیش کیا ہے اس پر کوئی بھائی رائے دے کر اسکو مزید بہتر بنا سکتا ہے جزاک اللہ خیرا