• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

مودودی کا مسلک

رانا ابوبکر

تکنیکی ناظم
شمولیت
مارچ 24، 2011
پیغامات
2,075
ری ایکشن اسکور
3,040
پوائنٹ
432
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
1
۔مذہب حنفیہ میں جو مقام روایت کا ہے وہی درایت کا بھی ہے، کیا یہ صحیح ہے ؟ اس کی دلیل مولانا مودودی کا مسلک اعتدال والا مضمون پیش کیا گیا ہے ؟ مولانا مودودی کا یہ مسلک کس حد تک قابل برداشت ہے ؟
اہلحدیث اور احناف کے نقطۂ نظر سےکن اشخاص کو روایتِ حدیث اور مصنفینِ حدیث کی کتب پر جرح وتعدیل کرنے کا حق ہے ؟ مولانا مودودی نے احادیث اور کتب احادیث پر جس انداز سے بحث کی ہے کیا ان سے قبل بھی ایسا ہوا ؟ عیسیٰ بن ابان کا یہ نظریہ تو نہیں تھا ؟
نیز مولانا مودودی نے ترجمان القرآن ماہ مئی ؁ 55ء کے ص 163 پر فرمایا ہے کہ:
ایک گروہ روایت پرستی میں غلو کرکے اس حد تک پہنچ گیا ہے۔ کہ اسے بخاری و مسلم رحمہما اللہ کے چند راویوں کی صداقت زیادہ عزیز ہے اوراس بات کی پرواہ نہیں ہے کہ اس سے ایک نبی پر جھوٹ کا الزام عاید ہوتا ہے۔ آگے چل کر فرماتے ہیں:
نہ فن حدیث کے نقطۂ نظر سے کسی حدیث کی سند کا مضبوط ہونا اس بات کا مستلزم ہے کہ اس کا متن خواہ کتنا ہی قابل اعتراض ہو مگر اسے ضرور آنکھیں بند کرکے مان لیا جائے۔ سند کے قوی اور قابل اعتماد ہونے کے باوجود بھی ایسے اسباب ہوتے ہیں کہ جن کی وجہ سے ایک متن غلط صورت میں نقل ہوجاتا ہے اور ایسے مضامین پر مشتمل ہوتا ہے جن کی قباحت خود پکار رہی ہوتی ہے کہ یہ باتیں نبیﷺ کی فرمائی ہوئی نہیں ہوسکتیں۔ اس لئے سند کے ساتھ متن کا دیکھنا بھی ضروری ہوتا ہے اور اگر متن میں واقعی کوئی قباحت ہو تو پھر اس کی صحت میں خواہ مخواہ اصرار کرنا صحیح نہیں۔ آگے چل کر فرماتے ہیں: کیا یہ کوئی معقول بات ہے کہ جس حدیث کا متن ایسی باتوں پر مشتمل ہو اس کو ہم نبیﷺ کی طرف منسوب کرنے پر صرف اس لئے اصرار کریں کہ اس کی سند مجروح نہیں ہے۔ اس طرح کی افراط پسندیاں معاملہ کو بگاڑ کر اس تفریط تک پہنچا دیتی ہیں جس کا مظاہرہ منکرین حدیث کر رہے ہیں۔ اھ مجھے سمجھ نہیں آتی کہ کسی روایت کو قوی تصور کر کے بھی قبول نہ کرنا کوئی معنی رکھتا ہے۔ سند کے قوی ہونے کے بعد تو چھان بین کرنے کا مطلب اس کے سوا اور کوئی نہیں ہوسکتا کہ صاحب قرآن کے الفاظ پر جرح ہو جو میرے خیال میں کسی طرح بھی جائز نہیں۔ آپ تفصیل سے سمجھائیں کہ سند کے قوی ہونے کے باوجود کون سے ایسے اسباب ہو سکتے ہیں جن کی وجہ سے ایک متن غلط صورت میں نقل ہوجاتا ہے؟ بخاری ومسلم رحمہما اللہ کے قطعی طورپر صحیح ہونے پر امت کا اجماع ہے مگر ان کے متعلق بھی ایسے الفاظ استعمال کرنا کیا ان کی عظمت پر چوٹ نہیں؟ ازراہِ کرم کتاب وسنت کی روشنی میں جواب دیں جزاكم الله خيرا
 
Top