محدثین کی ابو حنیفہ پر جرح
ایک منفرد اور علمی کتاب
الصحیفۃ من کلام ائمۃ
الجرح و التعدیل علی ابی حنیفۃ
پیش لفظ
ان الحمد للہ نحمدہ و نستعینہ من یھداللہ فلا مضل لہ ومن یضلل فلا ھادی لہ واشھد ان لا الہ الااللہ وحدہ لاشریک لہ واشھد ان محمد ا عبدہ ورسولہ فان خیر الحدیث کتاب اللہ وخیر الھدی ھد محمد رسول اللہﷺ وشر الامور محدثاتھا وکل بدعۃ ضلالۃ
اما بعد:
دین السلام کی بنیادی چیزوں پر ہے، ایک اللہ تعالی کی کتاب قرآن مجید اور دوسری رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت و حدیث۔ اللہ تعالی نے قرآن مجید مین متعدد مقامات پر ان دونوں کی اطاعت و تابعداری کا حکم فرمایا۔ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اپنے آخری ایام میں ان ہی کے بارے میں فرمایا۔
تَرَکْتُ فِیْکُمْ اَمَرَیْنِ لَنْ تَضِلُّوْا مَا تَمَسَّکْتُمْ بِھِمَا: کِتَابُ اﷲِ وَسُنَّۃُ رَسُوْلِہٖ
(مشکوۃ شریف:جلد اول:حدیث نمبر 181)
ترجمہ: "میں تم میں دو چیزیں چھوڑ کر چلا ہوں تم گمراہ نہیں ہوگے جب تک مضبوطی سے ان کو پکڑے رکھو گے کتاب اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت"
اس حدیث مبارکہ سے معلوم ہوا جو بھی قرآٰن و حدیث کو چھوڑ دے گا وہ گمراہ ہوجائےگا۔ ابو حنیفہ کا شمار بھی ان لوگوں میں ہوتا ہے جنہوں نے قرآن و حدیث کو چھوڑ دیا۔
اور ابو حنیفہ نے قرآن و حدیث چھوڑ کر قیاس میں خوب مہارت حاصل کی۔ حالانکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے قیاس کرنے کی ممانت ہے ۔ امام المحدیثین امام بخاری نے حدیث بیان دین کے مسائل میں رائے پر عمل کرنے کی مذمت، اسی طرح بے ضرورت قیاس کرنے کی۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان بیان کیا ہے۔
ان اللہ لا ینزع العلم بعد ان اعطاکموہ انتزاعا ولکن ینتزعہ منھم مع قبض العلماء بعلمھم فیبقی ناس جھال یستفون فیفتون برایھم فیضلون ویصلون (صحیح بخاری جلد 3 کتاب الاعتصام باب 1214 حدیث 2150 ص 932)
بے شک اللہ تعالی یہ نہیں کرنے کا کہ علم تم کو دے کر پھر تم سے چھین لے بلکہ علم اس طرح اٹھائےگا کہ عالم لوگ مرجائیں گے۔ ان کے ساتھ علم بھی چلا جائے گا۔ اور چند جاہل لوگ رہ جائیں گے۔ ان سے کوئی مسئلا پوچھے گا تو اپنی رائے سے بات کرین گے۔ آپ بھی گمراہوں گے دوسروں کو بھی گمراہ کریں گے۔
حضرت علی رضہ اللہ عنہ نے قیاس کا رد ان الفاظ میں کیا ہے۔
لوکان الدین بالرای لکان اسفل الخف اولی بالمسح من اعلاوقد رایت رسول اللہﷺ یمسح علی ظاھر خفیہ (سنن ابوداؤد ج اول کتاب الطھارۃ باب کیف المسح حدیث 162 ص 100)
اگر دین قیاس پر ہوتا تو موزے کے نیچے کی طرف مسح کرنا بہتر ہوتا۔ اوپر کی طرف سے حالانکہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا مسح کرتے تھے موزوں کے اوپر۔