• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

موطأ امام مالک روایۃ ابن القاسم (یونیکوڈ)

مظاہر امیر

مشہور رکن
شمولیت
جولائی 15، 2016
پیغامات
1,427
ری ایکشن اسکور
411
پوائنٹ
190
هشامٌ ، عن فاطمة بنت المنذر
ثلاثة أحاديث
480- مالكٌ عن هشام بن عروة عن فاطمة ابنة المنذر عن أسماء بنت أبي بكرٍ أنها قالت : سألت امرأةٌ رسول الله صلى الله عليه وسلم فقالت : يا رسول الله ، أرأيت إحدانا إذا أصاب ثوبها الدم من الحيضة كيف تصنع؟ فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم : ( (إذا أصاب ثوب إحداكن الدم من الحيضة ، فلتقرصه ثم لتنضحه بماءٍ ثم لتصلي فيه) ) .

سیدہ اسماءبنت ابی بکر رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ ایک عورت نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا: یا رسول اللہ ! یہ فرمایئے کہ اگر ہم میں سے کسی کے کپڑے کو حیض کا خون لگ جائے تو وہ کیا کرے ؟ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : جب تم میں سے کسی کے کپڑے کو حیض کا خون لگ جائے تو وہ اسے کھرچ لے پھر اس پر پانی بہا دے تاکہ اس میں نماز پڑھ سکے ۔

سندہ صحیح

«480- الموطأ (رواية يحيیٰي بن يحيیٰي 60/1 ، 61 ح 131 ، ك 2 ب 28 ح 103 ، وفي سنده خطأ فاحش) التمهيد 228/22 ، 229 ، الاستذكار : 110
و أخرجه مسلم (291) من حديث مالك به»
------------------
481- وبه : أنها قالت : أتيت عائشة أم المؤمنين حين خسفت الشمس ، فإذا الناس قيامٌ يصلون وإذا هي قائمةٌ ، فقلت : ما للناس؟ فأشارت بيدها إلى السماء وقالت : سبحان الله ، فقلت : آيةٌ؟ فأشارت : أن نعم ، قالت : فقمت حتى تجلاني الغشي فجعلت أصب فوق رأسي الماء ، فحمد الله رسول الله صلى الله عليه وسلم وأثنى عليه ثم قال : ( (ما من شيءٍ كنت لم أره إلا وقد رأيته في مقامي هذا حتى الجنة والنار ، ولقد أوحي إلي أنكم تفتنون في القبور مثل أو قريباً من فتنة الدجال) ) -لا أدري أيتهما قالت أسماء- يؤتى أحدكم فيقال له : ما علمك بهذا الرجل؟ فأما المؤمن أو الموقن -لا أدري أي ذلك قالت أسماء- ( (فيقول : هو محمد رسول الله جاءنا بالبينات والهدى ، فأجبنا وآمنا واتبعنا ، فيقال له : نم صالحاً فقد علمنا إن كنت لمؤمناً ، وأما المنافق أو المرتاب) ) -لا أدري أيتهما قالت أسماء- ( (فيقول : لا أدري ، سمعت الناس يقولون شيئاً فقلته) ) .

اور اسی سند کے ساتھ ( اسماءبنت ابی بکر رضی اللہ عنہا سے ) روایت ہے کہ میں ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس سورج گرہن کے وقت آئی تو لوگ کھڑے نماز پڑھ رہے تھے اور وہ بھی کھڑی ( نماز پڑھ رہی) تھیں ۔ میں نے کہا: لوگوں کو کیا ہوا ہے ؟ تو انہوں نے ہاتھ سے آسمان کی طرف اشارہ کیا اور کہا: سبحان اللہ ۔ میں نے کہا: کوئی نشانی ہے ؟ تو انہوں نے ( سر کے ) اشارے سے جواب دیا کہ جی ہاں ! پھر میں بھی کھڑی ہو گئی حتیٰ کہ مجھ پر غشی چھا گئی ۔ میں اپنے سر پر پانی ڈالنے لگی ۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ کی حمد و ثنا بیان کی پھر فرمایا : میں نے جو چیز پہلے نہیں دیکھی تھی وہ آج اس مقام پر دیکھ لی ہے حتیٰ کہ میں نے جنت اور جہنم دیکھ لیں اور مجھ پر وحی کی گئی ہے کہ تم لوگوں کو قبروں میں آزمایا جاتا ہے ، دجال کے فتنے کی طرح یا اس کے قریب ۔ راوی کو معلوم نہیں کہ سیدہ اسماء رضی اللہ عنہا نے کون سے الفاظ کہے تھے ۔ تم میں سے ہر آدمی کو لایا جاتا ہے پھر پوچھا جاتا ہے کہ اس آدمی کے بارے میں تو کیا جانتا ہے ؟ مؤمن یا موقن ( یقین کرنے والا) کہتا ہے کہ وہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہیں ، ہمارے پاس واضح دلیلیں اور ہدایت لے کر آئے تو ہم نے قبول کیا اور ایمان لائے اور آپ کی اتباع کی ۔ راوی کو معلوم نہیں کہ اسماءنے مؤمن کا لفظ کہا تھا یا موقن کا ۔ پھر اسے کہا: جاتا ہے : اچھی طرح سو جا ، ہم جانتے تھے کہ تو مؤمن ہے ۔ رہا منافق یا شکی آدمی تو وہ کہتا ہے : مجھے پتا نہیں میں تو لوگوں کو ایک بات کرتے ہوئے سنتا تو وہی کہہ دیتا تھا ۔ راوی کو یاد نہیں کہ اسماء نے منافق کا لفظ کہا: تھا یا شکی کا ۔

سندہ صحیح

«481- الموطأ (رواية يحيیٰي بن يحيیٰي 188/1 ، 189 ح 448 ، ك 12 ب 2 ح 4 ) التمهيد 245/22 ، 246 ، الاستذكار : 417
و أخرجه البخاري (184) من حديث مالك به »
------------------
482- وبه : أن أسماء ابنة أبي بكرٍ كانت إذا أتيت بالمرأة قد حمت تدعو لها ، أخذت الماء فصبته بينها وبين جيبها ، وقالت : إن رسول الله صلى الله عليه وسلم كان يأمرنا أن نبردها بالماء.

اور اسی سند کے ساتھ سیدہ اسماءبنت ابی بکر رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ جب ان کے پاس بخار میں مبتلا کوئی عورت لائی جاتی تو وہ اس کے لئے دعا کرتیں ، پانی منگواتیں پھر اس کے گریبان کے درمیان ڈالتیں اور فرماتیں ؛ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں حکم دیتے کہ اسے ( بخار کو)پانی سے ٹھنڈا کریں ۔

سندہ صحیح

« 482- الموطأ (رواية يحيیٰي بن يحيیٰي 945/2 ح 1844 ، ك 50 ب 6 ح 15) التمهيد 227/22 ، الاستذكار : 1759
و أخرجه البخاري (5724) من حديث مالك به ومسلم (2211/82) من حديث هشام بن عروة به »
------------------
 

مظاہر امیر

مشہور رکن
شمولیت
جولائی 15، 2016
پیغامات
1,427
ری ایکشن اسکور
411
پوائنٹ
190
هشامٌ ، عن عبادٍ
حديثٌ واحدٌ
483- مالكٌ عن هشام بن عروة عن عباد بن عبد الله بن الزبير عن عائشة زوج النبي صلى الله عليه وسلم أنها أخبرته أنها سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم قبل أن يموت وهو مستندٌ إلى صدرها وأصغت إليه يقول : ( (اللهم اغفر لي ، وارحمني ، وألحقني بالرفيق الأعلى) ) .
كمل حديث هشام بن عروة ، وهو أربعةٌ وثلاثون حديثاً.

نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بیوی سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات سے پہلے سنا ، وہ ان کی طرف متوجہ تھیں اور آپ ان کے سینے سے ٹیک لگائے فرما رہے تھے : اے اللہ ! مجھ پر ( اپنی رحمت کا) پردہ ڈال اور رحم فرما اور مجھے الرفیق الاعلیٰ کے ساتھ ملا دے ۔
ہشام بن عروہ کی ( بیان کردہ) حدیثیں مکمل ہوئیں اور یہ چونتیس حدیثیں ہیں ۔

سندہ صحیح

«483- الموطأ (رواية يحيیٰي بن يحيیٰي 238/1ح 565 ، ك 16 ب 16 ح 46 ) التمهيد 254/22 ، الاستذكار : 519
و أخرجه مسلم (2444) من حديث مالك به »
------------------
 

مظاہر امیر

مشہور رکن
شمولیت
جولائی 15، 2016
پیغامات
1,427
ری ایکشن اسکور
411
پوائنٹ
190
هاشم بن هاشمٍ
حديثٌ واحدٌ
484- مالكٌ حدثني هاشم بن هاشم بن عتبة بن أبي وقاص عن عبد الله بن نسطاسٍ عن جابر بن عبد الله أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال : ( (من حلف على منبري هذا بيمينٍ آثمةٍ ، تبوأ مقعده من النار) ) .

سیدنا جابر بن عبداللہ ( الانصاری رضی اللہ عنہ ) سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : جس نے میرے اس منبر پر جھوٹی قسم کھائی تو اس نے اپنا ٹھکانا آگ میں بنا لیا ۔

سندہ صحیح

«484- الموطأ (رواية يحيیٰي بن يحيیٰي 727/2 ح 1472 ، ك 36 ب 8 ح 10 ، عليٰ تصحيف في المطبوع وهو في النسخة الباكستانية ص 636 عل الصواب)التمهيد 82/22 ، الاستذكار : 1395
و أخرجه أحمد (343/3) والنسائي في الكبريٰ (491/3 ح 6018) من حديث مالك به وصححه ابن حبان ( الموارد : 1192) وابن الجارود (927)و الحاكم (296/4 ، 297) ووافقه الذهبي»
------------------
 

مظاہر امیر

مشہور رکن
شمولیت
جولائی 15، 2016
پیغامات
1,427
ری ایکشن اسکور
411
پوائنٹ
190
هلال بن أسامة
حديثٌ واحدٌ
485- مالكٌ عن هلال بن أسامة عن عطاء بن يسارٍ عن عمر بن الحكم أنه قال : أتيت رسول الله صلى الله عليه وسلم فقلت : يا رسول الله إن جاريةً لي كانت ترعى غنماً لي فجئتها وقد فقدت شاةً من الغنم ، فسألتها عنها فقالت : أكلها الذئب فأسفت عليها ، وكنت من بني آدم فلطمت وجهها ، وعلي رقبةٌ أفأعتقها؟ فقال لها رسول الله صلى الله عليه وسلم : ( (أين الله؟) ) فقالت : في السماء ، قال لها : ( (من أنا؟) ) قالت : أنت رسول الله ، قال : ( (أعتقها) ) .

سیدنا عمر بن الحکم رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آکر عرض کیا : یا رسول اللہ ! میری ایک لونڈی میری بکریاں چراتی تھی ۔ جب میں اس کے پاس آیا تو ایک بکری گم تھی ۔ میں نے اس کے بارے میں اس سے پوچھا: تو وہ بولی: اسے بھیڑیا کھا گیا ہے ۔ مجھے اس پر غصہ آیا اور میں آدم علیہ السلام کی اولاد میں سے ہوں ۔ پس میں نے اس کے چہرے پر تھپڑمارے ۔ مجھ پر ایک غلام آزاد کرنا ضروری ہے ، کیا میں اسے آزاد کر دوں؟ پھر ( جب وہ اپنی لونڈی لائے تو) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے لونڈی سے پوچھا: اللہ کہاں ہے ؟ اس نے کہا: آسمان پر ہے ۔ آپ نے پوچھا: میں کون ہوں؟ اس نے کہا: آپ اللہ کے رسول ہیں ۔ آپ نے فرمایا : اسے آزاد کر دو ۔

سندہ صحیح

«485- الموطأ (رواية يحيیٰي بن يحيیٰي 776/2 ، 777 ح 1550 ، ك 38 ب 6 ح 8 ) التمهيد 75/22 ، الاستذكار : 1479
و أخرجه النسائي في الكبريٰ (418/4 ح 7756) من حديث مالك به ورواه مسلم (537) من حديث هلال به وقال : ” معاوية بن الحكم“ وهو الصواب »
تنبيه : روایت مذکورہ میں عمر کے بجائے معایہ کا لفظ صحیح ہے یعنی اس حدیث کے راوی سیدنا معاویہ بن الحکم السلمی رضی اللہ عنہ ہیں جیسا کہ صحیح مسلم وغیرہ میں لکھا ہوا ہے ۔

------------------
 

مظاہر امیر

مشہور رکن
شمولیت
جولائی 15، 2016
پیغامات
1,427
ری ایکشن اسکور
411
پوائنٹ
190
486- مالكٌ عن وهب بن كيسان عن جابر بن عبد الله أنه قال : بعث رسول الله صلى الله عليه وسلم بعثاً قبل الساحل وأمر عليهم أبا عبيدة بن الجراح وهم ثلاثمائةٍ وأنا فيهم ، فخرجنا حتى إذا كنا ببعض الطريق فني الزاد ، فأمر أبو عبيدة بأزواد ذلك الجيش فجمع ذلك كله ، فكان مزودي تمرٍ ؛ قال : فكان يقوتناه كل يومٍ قليلاً قليلاً حتى فني ولم تصبنا إلا تمرةٌ تمرةٌ فقلت : وما تغني تمرةٌ؟ فقال : لقد وجدنا فقدها حيث فنيت. قال : ثم انتهينا إلى البحر فإذا حوتٌ مثل الظرب ، فأكل منه ذلك الجيش ثمان عشرة ليلةً ثم أمر أبو عبيدة بضلعين من أضلاعه فنصبا ، ثم أمر براحلةٍ فرحلت ، ثم مرت تحتهما ولم تصبهما.

سیدنا جابر بن عبداللہ ( الانصاری رضی اللہ عنہ ) سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ساحل کی طرف تین سو صحابہ کا ایک دستہ بھیجا اور ان کا امیر سیدنا ابوعبیدہ بن الجراح رضی اللہ عنہ کو بنایا ، میں بھی ان میں تھا ۔ ہم روانہ ہوئے حتی کہ راستے میں زاد راہ ختم ہوگیا تو ابوعبیدہ رضی اللہ عنہ نے حکم دیا کہ لشکر میں باقی ماندہ خوراک اکٹھی کی جائے ۔ پھر یہ ساری خوراک اکٹھی کرلی گئی تو کھجوروں کی دو تھیلیاں ہوئیں ۔ اسے ہم بطور خوراک روزانہ تھوڑا تھوڑا استعمال کرتے رہے حتیٰ کہ یہ بھی ختم ہو گئیں اور ہمیں صرف ایک ایک کھجور ملتی تھی ۔
( وہب بن کیسان رحمہ اللہ راوی نے ) کہا: میں نے پوچھا: ایک کھجور سے کیا ہوتا تھا؟ تو انہوں نے فرمایا : جب یہ بھی ختم ہوگئی تو پھر ہمیں اس کی قدر محسوس ہوئی ۔ پھر ہم سمندر کے پاس پہنچے تو ٹیلے کی مانند ایک ( بڑی) مچھلی پڑی تھی تو اس لشکر نے اٹھارہ راتیں اس میں سے کھایا ۔ پھر سیدنا ابوعبیدہ رضی اللہ عنہ نے حکم دیا کہ اس کی دو پسلیاں کھڑی کی گئیں تو انہوں نے حکم دیا کہ ایک اونٹنی پر کجاوہ رکھا جائے ، چنانچہ وہ ان کے نیچے سے گزر گئی اور ان سے لگی نہیں ۔

سندہ صحیح
متفق عليه
«486- الموطأ (رواية يحيیٰي بن يحيیٰي 930/2 ، 931 ح 1794 ، ك 49 ب 10 ح 24) التمهيد 11/23 ، وقال : ” هذا حديث صحيح مجتمع عليٰ صحته“ الاستذكار : 1727
و أخرجه البخاري (2483) ومسلم (1935/21) من حديث مالك به »
------------------
 

مظاہر امیر

مشہور رکن
شمولیت
جولائی 15، 2016
پیغامات
1,427
ری ایکشن اسکور
411
پوائنٹ
190
باب الياء
سبعةٌ لجميعهم خمسةٌ وثلاثون حديثاً
يحيى بن سعيد
له عن عدي بن ثابتٍ الأنصاري حديثان
487- مالكٌ عن يحيى بن سعيدٍ عن عديٍ بن ثابتٍ الأنصاري عن البراء بن عازبٍ أنه قال : صليت مع رسول الله صلى الله عليه وسلم العتمة ، فقرأ بها بالتين والزيتون.

سیدنا براء بن عازب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ عشاء کی نماز پڑھی تو آپ نے اس میں«والتین و الزیتون» ( سورت) کی تلاوت فرمائی ۔

سندہ صحیح

«487- الموطأ (رواية يحيیٰي بن يحيیٰي 79/1 ، 80ح 172 ، ك 3 ب 5 ح 27 نحو المعنيٰ) التمهيد 223/23 ، الاستذكار : 149
و أخرجه النسائي (173/2 ح 1001) من حديث مالك به ورواه مسلم (464/176) من حديث يحي بن سعيد الانصاري به وروه البخاري(767) من حديث عدي بن ثابت به »
------------------
488- وبه : عن عدي بن ثابت الأنصاري أن عبد الله بن يزيد الخطمي أخبره أن أبا أيوب الأنصاري أخبره أنه صلى مع رسول الله صلى الله عليه وسلم في حجة الوداع المغرب والعشاء بالمزدلفة جميعاً.

سیدنا ابوایوب الانصاری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے حجتہ الوداع میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مزدلفہ میں مغرب اور عشاءکی نمازیں جمع کرکے پڑھیں ۔

سندہ صحیح

«488- الموطأ (رواية يحيیٰي بن يحيیٰي 401/1 ح 926 ، ك 20 ب 65 ح 198) التمهيد 225/23 ، الاستذكار : 866
و أخرجه البخاري (4414) من حديث مالك به »
------------------
الأعرج
حديثٌ واحدٌ
489- وعن يحيى بن سعيدٍ عن عبد الرحمن الأعرج عن عبد الله بن بحينة أنه قال : إن رسول الله صلى الله عليه وسلم قام من اثنتين من الظهر لم يجلس فيهما ، فلما قضى صلاته سجد سجدتين ثم سلم بعد ذلك.

سیدنا عبداللہ بن بحینہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ظہر کی دو رکعتوں کے بعد ( تشہد میں) بیٹھے بغیر کھڑے ہو گئے ۔ جب نماز مکمل ہوئی تو دو سجدے کئے پھر ان کے بعد سلام پھیرا ۔

سندہ صحیح

«489- الموطأ (رواية يحيیٰي بن يحيیٰي 96/1 ، 97 ح 215 ، ك 3 ب 17 ح 66) التمهيد 226/23
و أخرجه البخاري (1225) من حديث مالك به»
------------------
محمدٌ التيمي
حديثٌ واحدٌ
490- مالكٌ عن يحيى بن سعيدٍ عن محمد بن إبراهيم بن الحارث التيمي عن أبي حازمٍ التمار عن البياضي : أن رسول الله صلى الله عليه وسلم خرج على الناس وهم يصلون ، وقد علت أصواتهم بالقراءة ، فقال : ( (إن المصلي مناجٍ ربه ، فلينظر ما يناجيه به ، ولا يجهر بعضكم على بعضٍ بالقرآن) ) .

البیاضی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں کے پاس آئے اور لوگ نماز پڑھ رہے تھے ۔ لوگوں کی آوازیں قرأت کی وجہ سے بلند تھیں تو آپ نے فرمایا : نمازی اپنے رب سے سرگوشی کرتا ہے لہٰذا اسے دیکھنا چاہئے کہ وہ کیا سرگوشی کرتا ہے اور ایک دوسرے پر جہر کے ساتھ قرآن نہ پڑھو ۔

صحيح
«490- الموطأ (رواية يحيیٰي بن يحيیٰي 80/1 ح 174 ، ك 3 ب 6 ح 29) التمهيد 315/23 ، الاستذكار : 153
و أخرجه أحمد (344/4) من حديث مالك به وصححه ابن عبدالبر وللحديث شاهد عند ابي داود (1332) وسنده صحيح»
------------------
 

مظاہر امیر

مشہور رکن
شمولیت
جولائی 15، 2016
پیغامات
1,427
ری ایکشن اسکور
411
پوائنٹ
190
محمد بن إبراهيم بن الحارث التيمي
491- وعن محمد بن إبراهيم بن الحارث التيمي عن أبي سلمة بن عبد الرحمن عن أبي سعيدٍ الخدري أنه قال : ( (سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول : يخرج فيكم قومٌ تحقرون صلاتكم مع صلاتهم ، وصيامكم مع صيامهم ، وعملكم مع عملهم ، يقرؤون القرآن لا يجاوز حناجرهم ، يمرقون من الدين كما يمرق السهم من الرمية ، تنظر في النصل فلا ترى شيئاً ، ثم تنظر في القدح فلا ترى شيئاً ثم تنظر في الريش فلا ترى شيئاً ، وتتمارى في الفوق) ) .

سیدنا ابوسعید الخدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا : ” تم میں ایسی قوم نکلے گی کہ تم اپنی نمازوں کو ان کی نمازوں کی نسبت ، اپنے روزوں کو ان کے روزوں کے مقابلے میں اور اپنے عمل کو ان کے عمل کے مقابلے میں حقیر سمجھو گے ، وہ قرآن پڑھیں گے ( لیکن ) وہ ان کے حلق سے نیچے نہیں اترے گا ، وہ دین سے اس طرح نکل جائیں جیسے تیر اپنے شکار سے پار نکل جاتا ہے ۔ تم یر کی اَنّی ( پھل) دیکھو تو اس میں کچھ ( خون وغیرہ ) نہ پاؤ ، اگر تیر کی لکڑی دیکھو تو اس میں بھی کچھ نہ پاؤ ، اگر اس کا بر دیکھو تو اس میں کچھ نشان نہ پاؤ اور تیر کے سوفار ( جہاں کمان کی تان ٹکتی ہے ) کے بارے میں شک کرو ( کہ اس میں کوئی اثر ہے یا نہیں ) “ ۔

سندہ صحیح

«491- الموطأ (رواية يحيیٰي بن يحيیٰي 204/1 ، 205 ح 479 ، ك 15 ب 4 ح 10 ) التمهيد 320/23 ، وقال : ” هذا حديث صحيح الإسناد ثابت“ ، الاستذكار : 448
و أخرجه البخاري (5058) من حديث مالك به »
------------------
492- وعن محمد بن إبراهيم عن عيسى بن طلحة بن عبيد الله عن عمير بن سلمة الضمري أنه أخبره عن البهزي : أن رسول الله صلى الله عليه وسلم خرج يريد مكة وهو محرمٌ ، حتى إذا كان بالروحاء إذا حمارٌ وحشيٌ عقيرٌ ، فذكر لرسول الله صلى الله عليه وسلم فقال :( (دعوه ، فإنه يوشك أن يأتي صاحبه فجاء البهزي وهو صاحبه إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم فقال : يا رسول الله ، شأنكم بهذا الحمار ، فأمر رسول الله صلى الله عليه وسلم أبا بكرٍ فقسمه بين الرفاق ، ثم مضى حتى إذا كان بالأثاية بين الرويثة والعرج إذا ظبيٌ حاقفٌ في ظلٍ وفيه سهمٌ ، فزعم أن رسول الله صلى الله عليه وسلم أمر رجلاً أن يقف عنده لا يريبه أحدٌ من الناس حتى تجاوزه. ) )

سیدنا البہزی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مکہ جانے کے لئے ( مدینے سے ) نکلے اور آپ حالت احرام میں تھے ۔ جب آپ روحاء ( کے مقام) پر پہنچے تو وہاں ایک گورخر رخمی حالت میں کونچیں کٹا ہوا پڑا تھا ۔ پھر جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کے بارے میں بتایا گیا تو آپ نے فرمایا : اسے چھوڑ دو ، ہو سکتا ہے کہ اس کا مالک یا اسے شکار کرنے والا آ جائے ۔ پھر بہزی رضی اللہ عنہ آ گئے جو اس کے مالک یا شکار کرنے والے تھے تو انہوں نے کہا: یا رسول اللہ ! آپ اسے لے لیں ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابوبکر ( الصدیق رضی اللہ عنہ ) کو حکم دیا کہ اسے ساتھیوں میں تقسیم کر دیں پھر آپ چلے حتی کہ رویثہ اور عرج کے درمیان اثایہ ( مقام پر) پہنچے تو دیکھا کہ ایک ہرن سر جھکائے سائے میں کھڑا ہے اور اسے ایک تیر لگا ہوا ہے ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک آدمی کو حکم دیا کہ وہ اس کے پاس کھڑا رہے تاکہ لوگوں میں سے کوئی اسے نہ چھیڑے حتیٰ کہ لوگ یہاں سے آگے چلے جائیں ۔

سندہ صحیح

«492- الموطأ (رواية يحيیٰي بن يحيیٰي 351/1ح 797 ، ك 20 ب 24 ح 79 ) التمهيد 341/23 ، الاستذكار : 749
و أخرجه النسائي (182/5 ، 183 ح 2820) من حديث ابن القاسم عن مالك به وصححه ابن حبان (الموارد : 983)
وفي رواية يحيیٰي بن يحيیٰي : ” حَتَّي يُجَاوِزَهُ“ ۔ »
------------------
سليمان بن يسارٍ
حديثٌ واحدٌ
493- مالكٌ عن يحيى بن سعيدٍ عن سليمان بن يسارٍ : أن عبد الله بن عباسٍ وأبا سلمة بن عبد الرحمن اختلفا في المرأة تنفس بعد وفاة زوجها بليالٍ ، فقال ابن عباسٍ : آخر الأجلين ، وقال أبو سلمة : إذا نفست فقد حلت. فجاء أبو هريرة فقال : أنا مع ابن أخي ، يعني أبا سلمة. فبعثوا كريباً مولى ابن عباس إلى أم سلمة زوج النبي صلى الله عليه وسلم يسألها عن ذلك ، فجاءهم فأخبرهم أنها قالت : ولدت سبيعة الأسلمية بعد وفاة زوجها بليالٍ ، فذكرت ذلك لرسول الله صلى الله عليه وسلم فقال : ( (قد حللت فانكحي من شئت) ) .

سلیمان بن یسار رحمہ اللہ سے روایت ہے کہ سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ اور ابوسلمہ بن عبدالرحمٰن رحمہ اللہ کا ایسی عورت کے بارے میں اختلاف ہوا جس کے ہاں اس کے شوہر کی وفات کے چند دن بعد بچے کی پیدائش ہوئی ۔ سیدنا ابن عباس نے کہا: دونوں عدتوں میں سے جو بعد میں ختم ہو یعنی چار مہینے اور دس دن عدت گزارے گی اور ابوسلمہ نے کہا: اس کے بچے کی پیدائش ہو گئی لہٰذا اس کی عدت ختم ہو گئی ۔ پھر سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ تشریف لائے تو فرمایا : میں اپنے بھتیجے یعنی ابوسلمہ کے ساتھ ہوں پھر انہوں نے یہ مسئلہ پوچھنے کے لئے سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ کے آزاد کردہ غلام کریب رحمہ اللہ کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بیوی سیدہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا کی طرف بھیجا ۔ پھر اس ( کریب)نے آکر انہیں بتایا کہ سیدہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا : سیدہ سبیعہ الاسلمیہ رضی اللہ عنہا کے ہاں ان کے خاوند کی وفات کے چند دن بعد بچے کی پیدائش ہوئی تو انہوں نے اس کا ذکر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کیا ۔ آپ نے فرمایا : تمہاری عدت ختم ہوگئی ہے لہٰذا جس سے چاہو نکاح کرلو ۔

صحيح

«493- الموطأ (رواية يحيیٰي بن يحيیٰي 590/2 ح 1289 ، ك 29 ب 30 ح 86) التمهيد 150/23 ، الاستذكار : 1207
و أخرجه النسائي (193/6 ح 3544) من حديث ابن القاسم عن مالك به ۔ ورواه مسلم (1485/57 ، دارالسلام : 3723) من حديث يحيٰ بن سعيد الانصاري به ۔ ورواه البخاري (4909) »
------------------
 

مظاہر امیر

مشہور رکن
شمولیت
جولائی 15، 2016
پیغامات
1,427
ری ایکشن اسکور
411
پوائنٹ
190
عمرة بنت عبد الرحمن
ستة أحاديث
494- مالكٌ عن يحيى بن سعيد عن عمرة بنت عبد الرحمن عن عائشة زوج النبي صلى الله عليه وسلم أنها قالت : إن كان رسول الله صلى الله عليه وسلم ليصلي الصبح ، فينصرف النساء متلفعاتٍ بمروطهن ما يعرفن من الغلس.

نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بیوی سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم صبح کی نماز ( اس قدر اندھیرے میں) پڑھتے کہ پھر عورتیں چادروں میں لپٹی ہوئی واپس ہوتیں تو اندھیرے کی وجہ سے وہ پہچانی نہیں جاتی تھیں ۔

سندہ صحیح
متفق عليه
«494- الموطأ (رواية يحيیٰي بن يحيیٰي 5/1 ح 3 ، ك 1 ب 1 ح 4) التمهيد 385/23 ، الاستذكار : 4
و أخرجه البخاري (867) ومسلم (645) من حديث مالك به»
------------------
495- وبه : أن يهودية جاءت تسألها ، فقالت لها : أعاذك الله من عذاب القبر. فسألت عائشة رسول الله صلى الله عليه وسلم : أيعذب الناس في قبورهم؟ فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم عائذاً بالله من ذلك ، ثم ركب رسول الله صلى الله عليه وسلم ذات غداةٍ مركباً ، فخسف بالشمس فرجع ضحى ، فمر بين ظهراني الحجر ، ثم قام يصلي وقام الناس وراءه فقام قياماً طويلاً ، ثم ركع ركوعاً طويلاً ، ثم رفع فقام قياماً طويلاً وهو دون القيام الأول ، ثم ركع ركوعاً طويلاً وهو دون الركوع الأول ، ثم رفع فسجد ، ثم قام قياماً طويلاً وهو دون القيام الأول ، ثم ركع ركوعاً طويلاً وهو دون الركوع الأول ، ثم رفع فقام قياماً طويلاً وهو دون القيام الأول ثم ركع ركوعاً طويلاً وهو دون الركوع الأول ، ثم رفع فسجد ، ثم انصرف فقال ما شاء الله أن يقول ، ثم أمرهم أن يتعوذوا من عذاب القبر.

اور اسی سند کے ساتھ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ ایک یہودی عورت ان سے مانگنے آئی تو کہا: اللہ تجھے عذاب قبر سے بچائے تو سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا: کیا لوگوں کو ان کی قبروں میں عذاب ہوتا ہے ؟ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : اس سے اللہ کی پناہ ، پھر ایک صبح آپ اپنی سواری پر سوار ہوئے ، سورج کو گرہن لگا تو آپ دوپہر سے پہلے واپس آکر حجروں کے پاس سے گزرے پھر نماز پڑھنے کے لئے کھڑے ہوئے اور لوگوں نے بھی آپ کے پیچھے نماز پڑھنی شروع کی ، آپ نے بہت لمبا قیام کیا پھر بہت لمبا رکوع کیا پھر اٹھ کر ( دوبارہ) لمبا قیام کیا جو پہلے قیام سے کم تھا پھر لمبا رکوع کیا جو پہلے رکوع سے کم تھا پھر ( رکوع سے سر) اٹھایا تو سجدہ کیا ۔ پھر ( دوسرا ) لمبا قیام کیا جو پہلے قیام سے کم تھا پھر لمبا رکوع کیا جو پہلے رکوع سے کم تھا پھر اٹھ کر لمبا قیام کیا جو پہلے قیام سے کم تھا پھر لمبا رکوع کیا جو پہلے رکوع سے کم تھا پھر ( رکوع سے سر) اٹھایا تو سجدہ کیا پھر ( نماز سے ) فارغ ہوئے تو جو اللہ نے چاہا بیان کیا پھر لوگوں کو حکم دیا کہ وہ عذاب قبر سے اللہ کی پناہ مانگیں ۔

سندہ صحیح

«495- الموطأ (رواية يحيیٰي بن يحيیٰي 187/1 ، 188 ح 447 ، ك 12 ب 1 ح 3) التمهيد 391/23 ، الاستذكار : 416
و أخرجه البخاري (1049 ، 1050) من حديث مالك به»
------------------
496- وبه : أن عائشة قالت : لو أدرك رسول الله صلى الله عليه وسلم ما أحدث النساء ، لمنعهن المسجد كما منعه نساء بني إسرائيل. قال يحيى : فقلت لعمرة : أَوَ منع نساء بني إسرائيل المسجد؟ قال : فقالت عمرة : نعم.

سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ عورتوں نے آج کل جو باتیں نکال لی ہیں ، اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دیکھتے تو انھیں مسجد ( جانے ) سے روک دیتے جس طرح کہ بنی اسرائیل کی عورتوں کو منع کر دیا گیا تھا ۔ یحییٰ ( بن سعید الانصاری ، راوی) نے عمرہ ( بنت عبدالرحمٰن رحمہما اللہ) سے پوچھا: کیا بنی اسرائیل کی عورتوں کو منع کر دیا گیا تھا؟ تو انہوں نے کہا: جی ہاں !

سندہ صحیح

«496- الموطأ (رواية يحيیٰي بن يحيیٰي 198/1 ح 469 ، ك 14 ب 6 ح 15) التمهيد 394/23 ، الاستذكار : 438
و أخرجه البخاري (869) من حديث مالك به»
------------------
497- وبه : أنها سمعت عائشة تقول : خرجنا مع رسول الله صلى الله عليه وسلم بخمس ليالٍ بقين من ذي القعدة ولا نرى إلا أنه الحج فلما دنونا من مكة أمر رسول الله صلى الله عليه وسلم من لم يكن معه هديٌ إذا طاف بالبيت وسعى بين الصفا والمروة أن يحل. قالت : عائشة : فدخل علينا يوم النحر بلحم بقرٍ ، فقلت : ما هذا؟ فقالوا : نحر رسول الله صلى الله عليه وسلم عن أزواجه.
قال يحيى : فذكرت هذا الحديث للقاسم بن محمدٍ فقال : أتتك بالحديث على وجهه.

سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ( مدینے سے ) نکلے تو ذوالقعدہ کی پانچ راتیں باقی تھیں اور ہمارا صرف حج کا ارادہ تھا پھر جب ہم مکہ کے قریب پہنچے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا کہ جس کے پاس قربانی کے جانور نہیں ہیں ، اگر اس نے بیت اللہ کا طواف اور صفا و مروہ کی سعی کر لی ہے تو احرام کھول دے ۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا : پھر قربانی والے دن ہمارے پاس گائے کا گوشت لایا گیا تو میں نے کہا: یہ کیا ہے ؟ لوگوں نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی بیویوں کی طرف سے قربانی کی ہے ۔
یحییٰ ( بن سعید الانصاری) نے کہا: پھر میں نے یہ حدیث قاسم بن محمد کے سامنے بیان کی تو انہوں نے فرمایا : عمرہ نے تمھیں یہ حدیث بالکل اصل کے مطابق سنائی ہے ۔

سندہ صحیح

«497- الموطأ (رواية يحيیٰي بن يحيیٰي 393/1 ح 907 ، ك 20 ب 58 ح 179) التمهيد 356/23 ، الاستذكار : 847
و أخرجه البخاري (1709) من حديث مالك به»
------------------
498- وعن عمرة ابنة عبد الرحمن بن سعد بن زرارة الأنصاري أنها أخبرته عن حبيبة بنت سهلٍ الأنصارية أنها كانت تحت ثابت بن قيس بن شماسٍ ، وأن رسول الله صلى الله عليه وسلم خرج إلى الصبح فوجد حبيبة بنت سهلٍ عند بابه في الغلس ، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم : ( (من هذه؟) ) فقالت : أنا حبيبة بنت سهلٍ ، فقال : ( (ما شأنك؟) ) فقالت : لا أنا ولا ثابت ابن قيسٍ لزوجها. فلما جاء ثابت بن قيس قال له رسول الله صلى الله عليه وسلم : ( (هذه حبيبة بنت سهلٍ ، قد ذكرت ما شاء الله أن تذكر) ) ؛ فقالت حبيبة : يا رسول الله ، كل ما أعطاني فهو عندي ، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم لثابتٍ ( (خذ منها) ) فأخذ منها ، وجلست في أهلها.

حبیبہ بنت سہل الانصاریہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ وہ ثابت بن قیس بن شماس رضی اللہ عنہ کے نکاح میں تھیں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم صبح ( کی نماز) کے لئے نکلے تو اندھیرے میں اپنے دروازے کے پاس حبیبہ بنت سہل رضی اللہ عنہ کو پایا ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : یہ کون ہے ؟ اس نے کہا: میں حبیبہ بنت سہل ہوں تو آپ نے پوچھا: کیا بات ہے ؟ انہوں نے کہا: میں اور ثابت بن قیس ( اکٹھے ) نہیں رہ سکتے ۔ ثابت بن قیس ان کے خاوند تھے ۔ پھر جب ثابت بن قیس رضی اللہ عنہ آئے تو ان سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : حبیبہ بنت سہل نے جو اللہ کو منظور تھا تذکرہ کیا ہے ۔ پھر حبیبہ نے کہا: یا رسول اللہ ! انہوں نے جو کچھ مجھے دیا ہے وہ سب میرے پاس موجود ہے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ثابت رضی اللہ عنہ سے فرمایا : اس سے لے لو ۔ تو انہوں نے اس سے لے لیا ( اور اسے ایک طلاق دے دی)اور حبیبہ اپنے گھر میں ( عدت گزارنے کے لئے ) بیٹھ گئیں ۔

صحيح
«498- الموطأ (رواية يحيیٰي بن يحيیٰي 564/2 ح 1228 ، ك 29 ب 11 ح 31) التمهيد 367/23 وقال : ” وهو حديث ثابت مسند متصل“ ، الاستذكار : 1148
و أخرجه أبوداود (2227) من حديث مالك ، و النسائي (169/6 ح 3492) من حديث ابن القاسم عن مالك به وصححه ابن حبان (الموارد : 1326) »
------------------
499- وبه : عن عائشة زوج النبي صلى الله عليه وسلم أنها قالت : ما طال علي وما نسيت : القطع في ربع دينارٍ فصاعداً.

نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بیوی عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا : نہ تو لمبا وقت گزرا ہے اور نہ میں بھولی ہوں : چھوتھائی دینار یا اس سے زیادہ ( کی چوری) میں ہاتھ کاٹا جاتا ہے ۔

سندہ صحیح

«499- الموطأ (رواية يحيیٰي بن يحيیٰي 832/2 ح 1619 ، ك 41 ب 7 ح 24) التمهيد 380/23 ، الاستذكار : 1547
و أخرجه النسائي (79/8 ح 4931) من حديث مالك به وله حكم المرفوع وللحديث شواهد عند البخاري (6791) ومسلم (1684)وغيرهما»
------------------
 

مظاہر امیر

مشہور رکن
شمولیت
جولائی 15، 2016
پیغامات
1,427
ری ایکشن اسکور
411
پوائنٹ
190
بشير بن يسارٍ
حديثان
500- مالكٌ عن يحيى بن سعيدٍ عن بشير بن يسارٍ مولى بني حارثة أن سويد ابن النعمان أخبره أنه خرج مع رسول الله صلى الله عليه وسلم عام خيبر ، حتى إذا كانوا بالصهباء وهي من أدنى خيبر صلى العصر ، ثم دعا بالأزواد فلم يؤت إلا بالسويق ، فأمر به فثري فأكل وأكلنا ، ثم قام إلى المغرب فمضمض ومضمضنا ، ثم صلى ولم يتوضأ.

سیدنا سوید بن نعمان رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ وہ خیبر کے سال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ گئے حتیٰ کہ جب خیبر کے نزدیک الصہبا ( مقام) پر پہنچے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عصر کی نماز پڑھی پھر زاد سفر منگوایا گیا تو ستوؤں کے علاوہ کچھ بھی نہ ملا ۔ پس آپ نے حکم دیا تو انہیں پانی میں بھگویا گیا پھر آپ نے اور ہم نے کھایا ۔ آپ مغرب ( کی نماز) کے لئے اٹھے تو کلی کی اور ہم نے بھی کلی کی پھر آپ نے نماز پڑھائی اور ( دوبارہ ) وضو نہیں کیا ۔

سندہ صحیح

«500- الموطأ (رواية يحيیٰي بن يحيیٰي 26/1 ح 48 ، ك 2 ب 5 ح 20) التمهيد 176/23 وقال : ” هذا حديث صحيح إسناده ثابت معناه“
و أخرجه البخاري (209) من حديث مالك به»
------------------
501- وبه : عن بشير بن يسارٍ عن أبي بردة بن نيارٍ أنه ذبح أضحيته قبل أن يذبح رسول الله صلى الله عليه وسلم يوم الأضحى ، فزعم أن رسول الله صلى الله عليه وسلم أمره أن يعود بضحيةٍ أخرى ، فقال أبو بردة : لا أجد إلا جذعاً ، فقال له رسول الله صلى الله عليه وسلم : ( (إن لم تجد إلا جذعاً فاذبحه) ) .

سیدنا ابوبردہ بن نیار رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے عید الاضحی کے دن اپنی قربانی کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی قربانی ( یعنی نماز عید) سے پہلے ذبح کر دیا تو کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں حکم دیا کہ دوبارہ قربانی کرو ۔ سیدنا ابوبردہ رضی اللہ عنہ نے کہا: میرے پاس صرف ایک جذع ( بکری کا ایک سالہ بچہ) ہے تو انھیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : اگر تمھارے پاس جذع کے سوا کچھ بھی نہیں ہے تو اسے ہی ذبح کر دو ۔

سندہ صحیح

«501- الموطأ (رواية يحيیٰي بن يحيیٰي 483/2 ح 1063 ، ك 23 ب 3 ح 4) التمهيد 180/23 ، الاستذكار : 997
و أخرجه الدارمي (1969) من حديث مالك به وله شواهد عند البخاري (955) ومسلم (1961) وغيرهما»
------------------
 

مظاہر امیر

مشہور رکن
شمولیت
جولائی 15، 2016
پیغامات
1,427
ری ایکشن اسکور
411
پوائنٹ
190
محمد بن يحيى بن حبان
ثلاثة أحاديث
502- مالكٌ عن يحيى بن سعيدٍ عن محمد بن يحيى بن حبان عن عمه واسع ابن حبان عن ابن عمر أنه كان يقول : إن ناساً يقولون : إذا قعدت على حاجتك فلا تستقبل القبلة ولا بيت المقدس. قال عبد الله بن عمر : لقد ارتقيت على ظهر بيتٍ لنا ، فرأيت رسول الله صلى الله عليه وسلم على لبنتين مستقبلاً بيت المقدس لحاجته وقال : ( (لعلك من الذين يصلون على أوراكهم) ) فقلت : لا أدري والله ، يعني الذي يسجد ولا يرتفع عن الأرض ، يسجد وهو لاصقٌ بالأرض.

سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما فرمایا کرتے تھے کہ لوگ کہتے ہیں کہ اگر تم قضائے حاجت کے لئے بیٹھو تو نہ قبلے کی طرف رخ کرو اور نہ بیت المقدس کی طرف ۔ سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا : میں اپنے گھر کی چھت پر چڑھا تھا تو دیکھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بیت المقدس کی طرف رخ کئے قضائے حاجت کر رہے تھے ۔ پھر انہوں نے ( واسع بن حبان رحمہ اللہ سے ) فرمایا : ہو سکتا ہے کہ تم ان لوگوں میں سے ہو جو سرینوں پر نماز پڑھتے ہیں؟ ( واسع بن حبان رحمہ اللہ نے کہا) میں نے کہا: اللہ کی قسم ! میں نہیں جانتا ۔
( امام مالک نے فرمایا : ) یعنی وہ شخص جو سجدہ کرتا ہے تو زمین سے بلند نہیں ہوتا بلکہ زمین سے چمٹے ہوئے سجدہ کرتا ہے ۔

سندہ صحیح

«502- الموطأ (رواية يحيیٰي بن يحيیٰي 193/1 ، 194 ح 457 ، ك 14 ب 2 ح 3) التمهيد 303/23 مختصراً ، الاستذكار : 426
و أخرجه البخاري (145) من حديث مالك به»
------------------
503- وبه : عن محمد بن يحيى بن حبان عن ابن محيريز أن رجلاً من بني كنانة يدعى المخدجي سمع رجلاً في الشام يدعى أبا محمد يقول : إن الوتر واجبٌ قال المخدجي : فرحت إلى عبادة ابن الصامت فاعترضت له وهو رائحٌ إلى المسجد فأخبرته بالذي قال أبو محمدٍ فقال عبادة : كذب أبو محمدٍ سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول : خمس صلوات كتبهن الله على العباد فمن جاء بهن لم يضيع منهن شيئياً استخفافاً بحقهن كان له عهدٌ عند الله أن يدخله الجنة ومن لم يأت بهن استخفافاً بحقهن فليس له عند الله عهدٌ إن شاء عذبه وإن شاء أدخله الجنة.

ابن محیریز رحمہ اللہ سے روایت ہے کہ بنو کنانہ کے ایک آدمی مخدجی نے شام میں ابومحمد کو کہتے ہوئے سنا کہ وتر واجب ہے ۔ مخدجی نے کہا: کہ پھر میں سیدنا عبادہ بن الصامت رضی اللہ عنہ کے پاس گیا ۔ جب میں ان کے آمنے سامنے آیا تو وہ مسجد کو جا رہے تھے پھر میں نے انھیں ابومحمد والی بات بتائی تو سیدنا عبادہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا : ابومحمد نے غلط کہا: ہے ، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ اللہ نے اپنے بندوں پر پانچ نمازیں فرض کی ہیں ، پس جو شخص ( قیامت کے دن) انھیں لے کر آئے گا ، اس نے ان کے حق کا استخفاف کرتے ہوئے ان میں سے کچھ بھی ضائع نہیں کیا ہوگا تو اللہ کا اس کے ساتھ وعدہ ہے کہ وہ اسے جنت میں داخل کرے گا ۔ اور جو شخص ان کے حق کا استخفاف کرتے ہوئے انھیں لے کر نہیں آئے گا تو اس کے س اتھ اللہ کا کوئی وعدہ نہیں ہے ۔ اگر چاہے تو عذاب دے اور اگر چاہے تو جنت میں داخل کر دے ۔

سندہ حسن
«503- الموطأ (رواية يحيیٰي بن يحيیٰي 123/1 ح 267 ، ك 7 ب 3 ح 14) التمهيد 288/23 ، الاستذكار : 283
و أخرجه أبوداود (1420) و النسائي (230/1 ح 462) من حديث مالك به وصححه ابن حبان (موارد الظمآن : 252 ، 253) وله شاهد عند ابي داؤد (325) والحديث به صحيح»
------------------
504- وبه : عن محمد بن يحيى بن حبان عن ابن أبي عمرة الأنصاري أن زيد ابن خالد الجهني قال : توفي رجلٌ يوم خيبر ، وإنهم ذكروه لرسول الله صلى الله عليه وسلم ، فزعم أنه قال لهم : ( (صلوا على صاحبكم) ) فتغيرت وجوه الناس لذلك ، فزعم أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال : إن ( (صاحبكم قد غل في سبيل الله) ) قال : ففتحنا متاعه ، فوجدنا فيه خرزاتٍ من خرز يهود ما يساوين درهمين.

سیدنا زید بن خالد الجہنی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ خیبر والے دن ایک آدمی فوت ہو گیا اور انھوں نے اس کا ذکر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے کیا ۔ پھر زید نے کہا: کہ آپ نے انھیں فرمایا : اپنے ساتھی کا جنازہ پڑھو ، یہ سن کر لوگوں کے چہرے متغیر ہو گئے ۔ پھر ( زید نے ) کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : تمھارے ساتھی نے مال غنیمت میں سے خیانت کی ہے ۔ ( زید نے ) کہا: کہ ہم نے اس کا سامان کھولا تو اسمیں یہودیوں کے منکوں میں سے چند منکے تھے جو دو درہموں کے بھی برابر نہیں تھے ۔

صحيح
«504- الموطأ (رواية يحيیٰي بن يحيیٰي 458/2 ح 1010 ، ك 21 ب 13 ح 23 بسند مختلف وعنده : ” يوم حنين“ وهو وهم كما في التمهيد 286/23 ، و الاستذكار : 194/14) التمهيد 285/23 ، الاستذكار : 947
و أخرجه البيھقي (101/9) من حديث مالك به ببعض الاختلاف ورواه أبوداود (2710) من حديث يحي بن سعيد الانصاري عن ابي عمرة عن زيد بن خالد به وسنده حسن لذاته و صححه ابن الجارود (1081) وابن حبان ( الاحسان 4833 ، نسخة أخريٰ : 4853) والحاكم عليٰ شرط الشيخين (127/2) ووافقه الذهبي وأخطأ من ضعفه »
------------------
 
Top