• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

موطأ امام مالک روایۃ ابن القاسم (یونیکوڈ)

مظاہر امیر

مشہور رکن
شمولیت
جولائی 15، 2016
پیغامات
1,427
ری ایکشن اسکور
411
پوائنٹ
190
عبادة بن الوليد
حديثٌ واحدٌ
505- مالكٌ عن يحيى بن سعيدٍ عن عبادة بن الوليد بن عبادة بن الصامت قال : أخبرني أبي عن عبادة بن الصامت قال : بايعنا رسول الله صلى الله عليه وسلم على السمع والطاعة ، في اليسر والعسر ، والمكره والمنشط ، ولا ننازع الأمر أهله ، وأن نقول أو نقوم بالحق حيثما كنا ، لا نخاف في الله لومة لائمٍ.

سیدنا عبادہ بن الصامت رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اس چیز پر بیعت کی کہ ہم سنیں گے اور اطاعت کریں گے چاہے آسانی ہو یا تنگی ، چاہے خوش ہوں یا ناخوش ، اور حکمرانوں سے جنگ نہیں کریں گے ۔ ہم جہاں بھی ہوں گے حق کہیں گے اور حق پر ثابت قدم رہیں گے ۔ ہم اللہ کے بارے میں کسی ملامت کرنے والے کی پروا نہیں کریں گے ۔

سندہ صحیح

«505- الموطأ (رواية يحيیٰي بن يحيیٰي 445/2 ح 990 ، ك 21 ب 1 ح 5) التمهيد 271/23 ، الاستذكار : 929
و أخرجه البخاري (7199 ، 7200) من حديث مالك به»
------------------
 

مظاہر امیر

مشہور رکن
شمولیت
جولائی 15، 2016
پیغامات
1,427
ری ایکشن اسکور
411
پوائنٹ
190
أبو صالحٍ السمان
حديثٌ واحدٌ
506- مالكٌ عن يحيى بن سعيدٍ عن أبي صالحٍ السمان عن أبي هريرة أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال : ( (لولا أن أشق على أمتي ، لأحببت أن لا أتخلف عن سريةٍ تخرج في سبيل الله ، ولكن لا أجد ما أحملهم عليه ، ولا يجدون ما يتحملون عليه فيخرجون ، ويشق عليهم أن يتخلفوا بعدي ، فوددت أني أقاتل في سبيل الله فأقتل ، ثم أحيا فأقتل ، ثم أحيا فأقتل. ) )

سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : اگر مجھے اپنی امت کی مشقت کا خیال نہ ہوتا تو مجھے یہ پسند تھا کہ میں کسی جہادی دستے سے پیچھے نہ رہوں جو اللہ کے راستے میں نکلتا ہے لیکن میرے پاس تمھاری سواری کے لئے کوئی چیز نہیں ہے اور نہ لوگوں کے پاس سواریاں ہیں تاکہ وہ ( اللہ کے راستے میں) نکلیں اور لوگوں کو اس میں تکلیف ہو گی کہ وہ مجھ سے پیچھے رہ جائیں ۔ پس میں چاہتا ہوں کہ اللہ کے راستے میں قتال کروں تو قتل کیا جاؤں پھر زندہ کیا جاؤں تو قتل کیا جاؤں پھر زندہ کیا جاؤں تو قتل کیا جاؤں ۔

سندہ صحیح

«506- الموطأ (رواية يحيیٰي بن يحيیٰي 465/2 ح 1027 ، ك 21 ب 18 ح 40) التمهيد 227/23 ، الاستذكار : 964
و أخرجه النسائي في الكبريٰ (259/5 ح 8835) من حديث مالك به ورواه البخاري (2972) ومسلم (1876/6) من حديث يحي بن سعيد الانصاري به
وفي رواية يحي بن يحي : ” وَلٰكِنِّيْ“ ۔ »
------------------
 

مظاہر امیر

مشہور رکن
شمولیت
جولائی 15، 2016
پیغامات
1,427
ری ایکشن اسکور
411
پوائنٹ
190
سعيدٌ المقبري
حديثٌ واحدٌ
507- مالكٌ عن يحيى بن سعيدٍ عن سعيد بن أبي سعيدٍ المقبري عن عبد الله بن أبي قتادة عن أبيه أنه قال : جاء رجلٌ إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم فقال : يا رسول الله ، إن قتلت في سبيل الله صابراً محتسباً مقبلاً غير مدبرٍ ، أيكفر الله عني خطاياي؟ فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم : ( (نعم ) ) فلما أدبر الرجل ناداه رسول الله صلى الله عليه وسلم أو أمر به فنودي له ، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم : ( (كيف قلت؟) ) فأعاد عليه قوله ، فقال له النبي صلى الله عليه وسلم : ( (نعم إلا الدين ، كذلك قال لي جبريل) ) .

سیدنا ابوقتادہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک آدمی نے آکر کہا: یا رسول اللہ ! اگر میں اللہ کے راستے میں اس حالت میں قتل ہو جاؤں کہ میں صبر کرنے والا ، نیت خالص والا ، آگے بڑھ کر حملہ کرنے والا اور پیٹھ نہ پھیرنے والا ہوا تو کیا اللہ میری خطائیں معاف فرمادے گا؟ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : جی ہاں ! پھر جب وہ آدمی پیٹھ پھیر کر واپس چلا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے بلایا یا بلانے کا حکم دیا پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے کہا: تو نے کیسے کہا تھا؟ اس نے اپنی بات دوبارہ کہی تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے فرمایا : جی ہاں ! سوائے قرض کے ، اسی طرح مجھے جبریل نے کہا ہے ۔

سندہ صحیح

« 507- الموطأ (رواية يحيیٰي بن يحيیٰي 461/2 ح 1018 ، ك 21 ب 14 ح 31) التمهيد 231/23 ، الاستذكار : 955
و أخرجه النسائي (34/6 ح 3158) من حديث ابن القاسم عن مالك به ورواه مسلم (1885/117) من حديث يحي بن سعيد الانصاري به
من رواية يحي بن يحي وجاء في الأصل : ” بْنِ سَعِيْدِ“ وهو خطأ ۔ »
------------------
عمر بن كثيرٍ بن أفلح
حديثٌ واحدٌ
508- مالكٌ عن يحيى بن سعيدٍ عن عمر بن كثير بن أفلح عن أبي محمدٍ مولى أبي قتادة عن أبي قتادة بن ربعي أنه قال : خرجنا مع رسول الله صلى الله عليه وسلم عام حنينٍ ، فلما التقينا كانت للمسلمين جولةٌ ، قال : فرأيت رجلاً من المشركين قد علا رجلاً من المسلمين ، قال : فاستدرت له حتى أتيته من ورائه ، فضربته بالسيف على حبل عاتقه حتى قطعت الدرع ، قال : فأقبل علي فضمني ضمةً وجدت منها ريح الموت ، ثم أدركه الموت فأرسلني. قال : فلقيت عمر بن الخطاب فقلت : ما بال الناس؟ فقال : أمر الله ، ثم إن الناس تراجعوا ، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم : ( (من قتل قتيلاً له عليه بينةٌ ، فله سلبه) ) قال : فقمت فقلت : من يشهد لي؟ ثم جلست ، ثم قال الثانية ( (من قتل قتيلاً له عليه بينةٌ ، فله سلبه) ) قال : فقمت ، ثم قلت : من يشهد لي؟ ثم جلست ، ثم قال ذلك الثالثة ، فقمت ، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم ( (ما لك يا أبا قتادة؟) ) فاقتصصت عليه القصة ، فقال رجلٌ من القوم : صدق يا رسول الله ، وسلب ذلك القتيل عندي ، فأرضه منه يا رسول الله ، فقال أبو بكرٍ : لاها الله ، إذاً لا يعمد إلى أسدٍ من أسد الله يقاتل عن الله وعن رسوله فيعطيك سلبه ، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم : ( (صدق ، فأعطه إياه) ) قال أبو قتادة : فأعطانيه ، فبعث الدرع ، فابتعت به مخرفاً في بني سلمة ، فإنه لأول مالٍ تأثلته في الإسلام.

سیدنا ابوقتادہ بن ربعی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ہم حنین والے سال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ گئے پھر جب ہمارا ( کافروں سے ) سامنا ہوا تو مسلمانوں میں بھگدڑ مچ گئی ، میں نے مشرکوں میں سے ایک آدمی دیکھا جس نے ایک مسلمان کو نیچے گرایا ہوا تھا تو میں پیچھے سے آیا اور اس کے کندھے پر تلوار کا وار کیا حتی کہ میں نے اس کی زرہ کاٹ دی ، پس وہ میری طرف آیا تو مجھے بھینچ کر دبا لیا حتی کہ میں نے موت کی خوشبو سونگھی یعنی مجھے مرنے کا خوف ہوا ۔ پھر وہ مرگیا تو مجھے چھوڑ دیا ۔ سیدنا عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ سے میری ملاقات ہوئی تو میں نے کہا: لوگوں کو کیا ہو گیا ہے ؟ انہوں نے کہا: اللہ کا حکم ہے ۔ پھر لوگ واپس آ گئے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : جس نے کسی ( کافر) کو قتل کیا ہے ( اور ) اس کے پاس دلیل ہے تو مقتول کا سامان اسے ہی ملے گا لہٰذا میں نے کھڑے ہو کر کہا: میری گواہی کون دے گا؟ پھر میں بیٹھ گیا ۔ پھر آپ نے دوسری دفعہ فرمایا کہ جس نے کسی کو قتل کیا ہے ( اور ) اس کے پاس دلیل ہے تو اس کا سامان اسے ہی ملے گا ۔ لہٰذا میں نے کھڑے ہو کر کہا: میری گواہی کون دے گا؟ پھر میں بیٹھ گیا ۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تیسری دفعہ کہا تو میں کھڑا ہو گیا ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : اے ابوقتادہ ! کیا بات ہے ؟ تو میں نے آپ کو سارا قصہ سنایا ۔ لوگوں میں سے ایک آدمی نے کہا: یا رسول اللہ ! انہوں نے سچ کہا ہے اور اس مقتول کا سامان میرے پاس ہے ۔ یا رسول اللہ ! آپ انھیں راضی کریں کہ یہ سامان مجھے دے دیں تو ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہا: ہرگز نہیں ، اللہ کی قسم ! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایسا فیصلہ نہیں کریں گے کہ اللہ کے شیروں میں سے ایک شیر اللہ اور رسول کی طرف سے لڑے اور مقتول کا سامان تجھے دے دیں؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : انہوں ( ابوبکر الصدیق رضی اللہ عنہ ) نے سچ کہا: ہے ، تم اس مقتول کا سامان ( ابوقتادہ رضی اللہ عنہ کو) دے دو ۔ ابوقتادہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا : اس نے سامان مجھے دے دیا تو میں نے زرہ بیچ کر بنوسلمہ میں ایک باغ خریدا ۔ یہ اسلام میں پہلا مال غنیمت تھا جو میری جائیداد بنا ۔

سندہ صحیح
متفق عليه
«508- الموطأ (رواية يحيیٰي بن يحيیٰي 454/2 ، 455 ح 1005 ، ك 21 ب 10 ح 18) التمهيد 242/23 ، الاستذكار : 942
و أخرجه البخاري (3142) ومسلم (1751) من حديث مالك به»
------------------
واقد بن سعدٍ
حديثٌ واحدٌ
509- مالكٌ عن يحيى بن سعيدٍ عن واقد بن سعدٍ بن معاذٍ عن نافع بن جبير ابن مطعمٍ عن مسعود بن الحكم عن علي ابن أبي طالبٍ رضي الله عنه أن رسول الله صلى الله عليه وسلم كان يقوم في الجنائز ، ثم جلس بعد.

سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم جنازے ( دیکھ کر) کھڑے ہو جاتے تھے پھر آپ ( جنازہ دیکھنے کے باوجود) بیٹھے رہتے تھے ۔

سندہ صحیح

«509- الموطأ (رواية يحيیٰي بن يحيیٰي 232/2 ح 552 ، ك 16 ب 11 ح 33) التمهيد 260/23 ، الاستذكار : 506
و أخرجه أبوداود (3175) من حديث مالك به ، ومسلم (962) من حديث يحي بن سعيد الانصاري به »
------------------
أبو بكر بن حزمٍ
حديثٌ واحدٌ
510- مالكٌ عن يحيى بن سعيدٍ عن أبي بكر بن محمدٍ ابن عمرو بن حزمٍ عن عمر بن عبد العزيز عن أبي بكرٍ بن عبد الرحمن بن الحارث بن هشامٍ عن أبي هريرة أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال : أيما رجلٍ أفلس فأدرك الرجل ماله بعينه فهو أحق به من غيره.

سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : جو آدمی مفلس ( دیوالیہ) ہو جائے پھر کوئی آدمی اپنا مال بعینہ ( بالکل اسی طرح) اس کے پاس پا لے تو وہ دوسروں کی بہ نسبت اس مال کا زیادہ حقدار ہے ۔

سندہ صحیح

«510- الموطأ (رواية يحيیٰي بن يحيیٰي 678/2 ح 1420 ، ك 31 ب 42 ح 88) التمهيد 169/23 ، الاستذكار : 1341
و أخرجه أبوداود (3519) من حديث مالك به ، ورواه البخاري (2402) ومسلم (1559) من حديث يحي بن سعيد الانصاري به»
------------------
 

مظاہر امیر

مشہور رکن
شمولیت
جولائی 15، 2016
پیغامات
1,427
ری ایکشن اسکور
411
پوائنٹ
190
أبو الحباب
حديثٌ واحدٌ
511- مالكٌ عن يحيى بن سعيدٍ قال : سمعت أبا الحباب سعيد بن يسارٍ يقول : سمعت أبا هريرة يقول : قال رسول الله صلى الله عليه وسلم : ( (أمرت بقريةٍ تأكل القرى ، يقولون : يثرب ، وهي المدينة ، تنفي الناس كما ينفي الكير خبث الحديد) ) .

سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : مجھے ایک بستی کے بارے میں حکم دیا گیا ہے جو دوسری بستیوں کو کھاتی ( یعنی ان پر غالب آتی) ہے ۔ لوگ اسے یثرب کہتے ہیں اور یہ مدینہ ہے ( برے ) لوگوں کو اس طرح باہر نکال دیتی ہے جیسے بھٹی لوہے کا زنگ وغیرہ باہر نکال دیتی ہے ۔

سندہ صحیح
متفق عليه
« 511- الموطأ (رواية يحيیٰي بن يحيیٰي 887/2 ح 1705 ، ك 45 ب 2 ح 5) التمهيد 170/23 ، الاستذكار : 1635
و أخرجه البخاري (1871) ومسلم (1382) من حديث مالك به»
------------------
أبو سلمة
حديثٌ واحدٌ
512- مالكٌ عن يحيى بن سعيدٍ عن أبي سلمة بن عبد الرحمن قال : سمعت أبا قتادة ابن ربعي يقول : سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول : ( (الرؤيا الصالحة من الله والحلم من الشيطان ، فإذا رأى أحدكم الشيء يكرهه ، فلينفث عن يساره ثلاث مراتٍ إذا استيقظ ويتعوذ من شرها ، فإنها لن تضره إن شاء الله) ) قال أبو سلمة : إن كنت لأرى الرؤيا هي أثقل علي من الجبل ، فلما سمعت هذا الحديث فما كنت لأباليها.
كمل حديث يحيى بن سعيدٍ ، وهو ستةٌ وعشرون حديثاً.

سیدنا ابوقتادہ بن ربعی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ کو فرماتے ہوئے سنا : اچھا خواب اللہ کی طرف سے ہے اور برا خواب شیطان کی طرف سے ہے لہٰذا اگر کوئی شخص ( خواب میں) ایسی چیز دیکھے جو اسے ناپسند ہے تو بائیں طرف تین دفعہ تھتکار دے ۔ جب نیند سے بیدار ہو تو اس کے شر سے پناہ مانگے ۔ ان شاءاللہ یہ اسے کوئی نقصان نہیں پہنچائے گا ۔ ابوسلمہ ( بن عبدالرحمٰن رحمہ اللہ) نے کہا: میں ایسے خواب دیکھا کرتا تھا جو مجھ پر پہاڑ سے بھی زیادہ بھاری ہوتے تھے پھر جب میں نے یہ حدیث سنی تو مجھے ان کی کوئی پروا نہیں رہی ۔
یحییٰ بن سعید ( الانصاری) کی ( بیان کردہ) حدیثیں مکمل ہوگئیں اور یہ چھبیس ( ۲۶) حدیثیں ہیں ۔

سندہ صحیح

« 512- الموطأ (رواية يحيیٰي بن يحيیٰي 957/2 ح 1849 ، ك 52 ب 1 ح 4) التمهيد 147/23 ، الاستذكار : 1786
و أخرجه النسائي في الكبريٰ (383/4 ح 7627) من حديث مالك به ورواه البخاري (5747) ومسلم (2261) من حديث يحي بن سعيد الانصاري به »
------------------
 

مظاہر امیر

مشہور رکن
شمولیت
جولائی 15، 2016
پیغامات
1,427
ری ایکشن اسکور
411
پوائنٹ
190
يوسف بن يونس
حديثٌ واحدٌ
513- مالكٌ عن يوسف بن يونس بن حماسٍ عن عمه عن أبي هريرة أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال : ( (لتتركن المدينة على أحسن ما كانت ، حتى يدخل الكلب فيغذي على بعض سواري المسجد أو على المنبر) ) قالوا : يا رسول الله ، فلمن يكون الثمر ذلك الزمان؟ قال : ((للعوافي : الطير والسباع) ) .

سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : مدینہ اچھی حالت میں ہونے کے باوجود چھوڑ دیا جائے گا حتی کہ ( مسجد میں) کتا داخل ہو کر مسجد کے بعض ستونوں یا منبر پر پیشاب کرے گا ۔ لوگوں نے کہا: یا رسول اللہ ! اس زمانے میں پھل کس لئے ہوں گے ؟ آپ نے فرمایا : خوراک کے پیچھے پھرنے والے پرندوں اور درندوں کے لئے ہوں گے ۔

حسن

«513- الموطأ (رواية يحيیٰي بن يحيیٰي 888/2 ح 1708 ، ك 45 ب 2 ح 8) التمهيد 121/24 ، الاستذكار : 1638
و أخرجه ابن حبان في صحيحه (الاحسان 271/8 ح 6735) من حديث مالك به وسنده ضعيف وللحديث شواهد عند البخاري (1874)ومسلم (1389) وغيرهما وهو بها حسن والحمدللہ »
------------------
يزيد بن رومان
حديثٌ واحدٌ
514- مالكٌ عن يزيد بن رومان عن صالح بن خواتٍ عمن صلى مع رسول الله صلى الله عليه وسلم يوم ذات الرقاع صلاة الخوف أن طائفةً صفت معه وطائفةً وجاه العدو ، فصلى بالذين معه ركعةً ، ثم ثبت قائماً وأتموا لأنفسهم ، ثم انصرفوا وصفوا وجاه العدو ، وجاءت الطائفة الأخرى فصلى بهم الركعة التي بقيت من صلاته ، ثم ثبت جالساً وأتموا لأنفسهم ، ثم سلم بهم.

اس صحابی سے روایت ہے جنھوں نے غزوہ ذات الرقاع کے موقع پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز خوف پڑھی تھی ۔ ایک گروہ نے آپ کے ساتھ صف بنا لی اور دوسرا گروہ دشمن کے مقابلے میں موجود رہا پھر آپ نے اپنے ساتھ نماز پڑھنے والوں کو ایک رکعت پڑھائی پھر آپ کھڑے رہے اور انہوں نے خود دوسری رکعت پڑھ لی پھر ( سلام پھیر کر) چلے گئے اور دشمن کے مقابلے میں صف بنا لی ۔ دوسرے گروہ نے آ کر آپ کے ساتھ ایک رکعت پڑھی جو کہ آپ کی نماز میں سے باقی رہ گئی تھی پھر آپ بیٹھے رہے اور انہوں نے اپنی نماز پوری کی پھر آپ نے ان کے ساتھ سلام پھیر دیا ۔

سندہ صحیح
متفق عليه
«514- الموطأ (رواية يحيیٰي بن يحيیٰي 183/1 ح 441 ، ك 11 ب 1 ح 1) التمهيد 31/23 ، الاستذكار : 410
و أخرجه البخاري (4129) ومسلم (842) من حديث مالك به»
------------------
 

مظاہر امیر

مشہور رکن
شمولیت
جولائی 15، 2016
پیغامات
1,427
ری ایکشن اسکور
411
پوائنٹ
190
------------------
يزيد بن الهاد
حديثان
515- مالكٌ عن يزيد بن عبد الله ابن الهاد عن محمد بن إبراهيم بن الحارث التيمي عن أبي سلمة بن عبد الرحمن عن أبي هريرة أنه قال : خرجت إلى الطور فلقيت كعب الأحبار فجلست معه فحدثني عن التوراة وحدثته عن النبي صلى الله عليه وسلم فكان فيما حدثته أني قلت : قال رسول الله صلى الله عليه وسلم : ( (خير يومٍ طلعت عليه الشمس يوم الجمعة ، فيه خلق آدم وفيه أهبط ، وفيه تيب عليه ، وفيه مات ، وفيه تقوم الساعة ، وما من دابةٍ إلا وهي مصيخةٌ يوم الجمعة من حين تصبح حتى تطلع الشمس شفقاً من الساعة إلا الجن والإنس ، وفيه ساعةٌ لا يصادفها عبدٌ مسلمٌ وهو يصلي يسأل الله شيئاً إلا أعطاه إياه) ) فقال كعبٌ : ذلك في كل سنةٍ يومٌ ، فقلت : بل في كل جمعةٍ ، قال : فقرأ كعبٌ التوراة ، فقال : صدق رسول الله صلى الله عليه وسلم ، قال : أبو هريرة : فلقيت بصرة بن أبي بصرة الغفاري فقال : من أين أقبلت؟ فقلت : من الطور ، فقال : لو أدركتك قبل أن تخرج إليه ما خرجت إليه ، سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول : ( (لا تعمل المطي إلا إلى ثلاثة مساجد ، إلى المسجد الحرام وإلى مسجدي هذا وإلى مسجد إيلياء أو بيت المقدس) ) ؛ يشك أيهما. قال قال أبو هريرة : ثم لقيت عبد الله بن سلامٍ فحدثته بمجلسي مع كعبٍ وما حدثته في يوم الجمعة ، فقلت له : قال كعبٌ : ذلك في كل سنةٍ يومٌ ، فقال عبد الله بن سلامٍ : كذب كعبٌ ، قال : فقلت : ثم قرأ كعبٌ التوراة فقال : بل هي في كل جمعةٍ ، فقال عبد الله : صدق كعبٌ ، ثم قال عبد الله بن سلامٍ : قد علمت أية ساعةٍ هي ، قال أبو هريرة : فأخبرني بها ولا تضن علي ، فقال عبد الله بن سلامٍ : هي آخر ساعةٍ من يوم الجمعة ، فقال أبو هريرة كيف تكون آخر ساعةٍ من يوم الجمعة ، وقد قال رسول الله صلى الله عليه وسلم : ( (لا يصادفها عبدٌ مسلمٌ وهو يصلي وتلك ساعةٌ لا يصلي فيها) ) ؟ فقال عبد الله بن سلامٍ : ألم يقل رسول الله صلى الله عليه وسلم : ( (من جلس مجلساً ينتظر الصلاة فهو في صلاةٍ حتى يصلي؟ ) ) قال : فقلت : بلى ، فقال : هو ذلك.

سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں طور ( پہاڑ) کی طرف گیا تو ( واپسی پر) میری ملاقات کعب الاحبار سے ہوئی تو میں اس کے پاس بیٹھ گیا ۔ اس نے مجھے تورات سے باتیں بتائیں اور میں نے اسے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیثیں سنائیں ۔ میں نے اسے یہ بھی بتایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : بہترین دن جس میں سورج طلوع ہوتا ہے جمعہ کا دن ہے ۔ اسی میں آدم علیہ السلام پیدا کئے گئے اور اسی میں ( جنت سے) اتارے گئے اور اسی میں ان کی توبہ قبول کی گئی اور اسی دن فوت ہوئے اور اسی دن قیامت بپا ہوگی ۔ ہر جانور جمعہ کے دن صبح کے وقت سورج کے طلوع ہونے تک قیامت سے ڈرتے ہوئے کان لگا کر سننے کی کوشش کرتا ہے سوائے جنوں اور انسانوں کے اور اس دن میں ایک ایسا وقت ہے جب مسلمان بندہ نماز پڑھ رہا ہوتا ہے تو اللہ سے جو کچھ مانگتا ہے وہ اسے عطا کر دیتا ہے ۔ کعب نے کہا: یہ ہر سال میں ایک دن ہوتا ہے تو میں نے کہا: ( نہیں) بلکہ ہر جمعہ کہ یہ ہوتا ہے ۔ پھر کعب نے تورات پڑھی تو کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سچ فرمایا ہے ۔ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا : پھر میری ملاقات سیدنا بصرہ بن ابی بصرہ الغفاری رضی اللہ عنہ سے ہوئی تو انہوں نے کہا: آپ کہاں سے آئے ہیں؟ میں نے کہا: طور سے ۔ تو انہوں نے کہا: کہ اگر میری ملاقات آپ کے جانے سے پہلے ہوتی تو آپ وہاں نہ جاتے ۔ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا ہے کہ تین مسجدوں کے علاوہ ( نماز یا ثواب کے لئے) سفر نہیں کیا جاتا : مسجد حرام ، یہ میری مسجد ( مسجد نبوی) اور مسجد ایلیا یا بیت المقدس کی طرف ۔ راوی کو مسجد ایلیا یا بیت المقدس کے لفظ میں شک ہے ( اور دونوں سے مراد ایک ہی مسجد ہے یعنی مسجد اقصیٰ) ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ پھر میری ملاقات سیدنا عبداللہ بن سلام رضی اللہ عنہ سے ہوئی تو میں نے انھیں کعب کے ساتھ اپنی مجلس کے بارے میں بتایا اور جمعے کے بارے میں جو حدیث بیان کی تھی وہ بتائی اور کہا کہ کعب نے کہا: یہ وقت ہر سال میں ایک دن ہوتا ہے تو انہوں نے کہا: کعب نے غلط کہا ہے ۔ میں نے کہا: پھر کعب نے تورات پڑھی تو کہا: کہ بلکہ یہ ( وقت) ہر جمعے کو ہوتا ہے تو عبداللہ ( بن سلام رضی اللہ عنہ) نے کہا: کعب نے سچ کہا ہے ۔ پھر سیدنا عبداللہ بن سلام رضی اللہ عنہ نے فرمایا : مجھے علم ہے کہ یہ گھڑی کس وقت ہوتی ہے ؟ میں نے کہا: آپ مجھے بتا دیں اور بتانے میں بخل نہ کریں تو عبداللہ بن سلام رضی اللہ عنہ نے فرمایا : یہ جمعے کے آخری وقت ہوتی ہے ۔ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا: یہ آخری وقت کس طرح ہوتی ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : جب مسلمان بندہ نماز پڑھ رہا ہوتا ہے ، اور اس وقت تو نماز نہیں پڑھی جاتی؟ تو سیدنا عبداللہ بن سلام رضی اللہ عنہ نے فرمایا : کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نہیں فرمایا کہ جو شخص نماز کے انتظار میں بیٹھا ہو تو وہ نماز پڑھنے تک نماز میں ہی ( شمار) ہوتا ہے ؟ ( سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا :) میں نے کہا: ہاں ! فرمایا تھا تو انہوں نے کہا: تو یہی ( مطلب) ہے ۔

سندہ صحیح

« 515- الموطأ (رواية يحيیٰي بن يحيیٰي 108/1-110 ح 239 ، ك 5 ب 7 ح 16) التمهيد 36/23 ، 37 ، الاستذكار : 210
و أخرجه أبوداود (1046) و الترمذي (491) من حديث مالك به وقال الترمذي : ”حسن صحيح“ وصححه ابن خزيمة (1738) وابن حبان (الموارد : 1024) والحاكم (278/1 ، 279) عليٰ شرط الشيخين ووافقه الذهبي»
------------------
516- وبه : عن أبي سلمة عن أبي سعيد الخدري أنه قال : كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يعتكف في العشر الوسط من رمضان ، فاعتكف عاماً. حتى إذا كان ليلة إحدى وعشرين ، وهي الليلة التي يخرج من صبيحتها من اعتكافه ، قال : ( (من كان اعتكف معي فليعتكف في العشر الأواخر ، فقد رأيت هذه الليلة ثم أنسيته ، وقد رأيتني أسجد في صبيحتها في ماءٍ وطينٍ ، فالتمسوها في العشر الآخر ، والتمسوها في كل وترٍ) ) قال أبو سعيدٍ : فأمطرت السماء تلك الليلة ، وكان المسجد على عريشٍ ، فوكف المسجد. قال أبو سعيدٍ : فنظرت عيناني رسول الله صلى الله عليه وسلم على جبينه وأنفه أثر الماء والطين في صبح واحدٍ وعشرين.

سیدنا ابوسعید الخدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رمضان کے درمیانی عشرے میں اعتکاف کرتے تھے پھر ایک سال آپ نے اعتکافکیا حتی کہ اکیسویں( 21 رمضان) کی رات ہوئی جس کی صبح آپ اعتکاف سے نکلتے تھے ، آپ نے فرمایا : جس نے میرے ساتھ اعتکاف کیا ہے تو وہ آخری عشرے میں بھی اعتکاف کرے کیونکہ میں نے اس (قدر کی) رات کو دیکھا ہے پھر بھلا دیا گیا ہوں اور میں نے دیکھا کہ میں اس کی صبح کو پانی اور مٹی پر سجدہ کر رہا تھا لہٰذا اسے آخری عشرے میں تلاش کرو اور ہر طاق رات میں تلاش کرو ۔ ابوسعید ( الخدری رضی اللہ عنہ) نے فرمایا : اس رات بارش ہوئی اور مسجد کی چھت کھجور کی ٹہنیوں کی تھی جو ٹپکنے لگی تھی ۔ ابوسعید رضی اللہ عنہ نے فرمایا : میری دونوں آنکھوں نے دیکھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشانی اور ناک پر اکیسویں ( 21) کی صبح کو پانی اور مٹی کا اثر تھا ۔

سندہ صحیح

«516- الموطأ (رواية يحيیٰي بن يحيیٰي 319/1 ح 709 ، ك 19 ب6 ح 9) التمهيد 51/23 ، الاستذكار : 658
و أخرجه البخاري (2027) من حديث مالك به»
------------------
يزيد بن عبد الله بن قسيطٍ
حديثٌ واحدٌ
517- مالكٌ عن يزيد بن عبد الله بن قسيطٍ عن محمد بن عبد الرحمن بن ثوبان عن أمه عن عائشة زوج النبي صلى الله عليه وسلم أن رسول الله صلى الله عليه وسلم أمر أن يستمتع بجلود الميتة إذا دبغت.

نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بیوی سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا کہ مردار کی کھال سے دباغت دینے کے بعد فائدہ اٹھایا جائے ۔

حسن

«517- الموطأ (رواية يحيیٰي بن يحيیٰي 498/2 ح 1101 ، ك 25 ب6 ح 18) التمهيد 75/23 ، 76 وقال : ” هذا حديث ثابت من جهة الإسناد“ ، الاستذكار : 1033
و أخرجه أبوداود (4124) وابن ماجه (3612) من حديث مالك به ، و النسائي (176/7 ح 4257) من حديث ابن القاسم عن مالك به وأم محمد و ثقها ابن حبان وابن عبدالبر فحد يثها حسنن والسند حسن »
------------------
 

مظاہر امیر

مشہور رکن
شمولیت
جولائی 15، 2016
پیغامات
1,427
ری ایکشن اسکور
411
پوائنٹ
190
يزيد بن خصيفة
ثلاثة أحاديث
518- مالكٌ عن يزيد بن خصيفة أن السائب بن يزيد أخبره أنه سمع سفيان بن أبي زهيرٍ ، وهو رجلٌ من أزد شنوءة من أصحاب النبي صلى الله عليه وسلم ، يحدث ناساً معه عند باب المسجد فقال : سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول : ( (من اقتنى كلباً لا يغني عنه زرعاً ولا ضرعاً نقص من عمله كل يومٍ قيراطٌ) ) قال : أنت سمعت هذا من رسول الله صلى الله عليه وسلم؟ قال : أي ورب هذا المسجد.

ازدشنوءہ ( قبیلے ) کے ایک صحابی سیدنا سفیان بن ابی زہیر رضی اللہ عنہ مسجد کے دروازے کے پاس لوگوں سے حدیثیں بیان کر رہے تھے ۔ انہوں نے فرمایا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا : جو شخص کھیت اور مویشیوں کے بغیر کتا پالے تو اس کے عمل میں سے روزانہ ایک قیراط کی کمی ہوتی ہے ( سیدنا السائب بن یذید رضی اللہ عنہ نے ) کہا: کیا آپ نے اسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے ( سیدنا سفیان بن ابی زہیر رضی اللہ عنہ نے ) فرمایا : جی ہاں ! اس مسجد کے رب کی قسم ! ( میں نے سنا ہے ) ۔

سندہ صحیح
متفق عليه

«518- الموطأ (رواية يحيیٰي بن يحيیٰي 969/2 ح 1873 ، ك 54 ب 5 ح 12) التمهيد 27/23 ، الاستذكار : 1809
و أخرجه البخاري (2323) و مسلم (1572) من حديث مالك به»
------------------
519- وعن يزيد بن خصيفة أن عمرو بن عبد الله بن كعب السلمي أخبره أن نافع بن جبير بن مطعمٍ أخبره عن عثمان بن أبي العاص الثقفي أنه أتى رسول الله صلى الله عليه وسلم ، قال عثمان : وبي وجعٌ قد كاد يهلكني. قال : فقال لي : ( (امسح بيمينك سبع مرات ، وقل : أعوذ بعزة الله وقدرته من شر ما أجد) ) قال : ففعلت ذلك ، فأذهب الله ما كان بي ، فلم أزل آمر به أهلي وغيرهم.

سیدنا عثمان بن ابی العاص الثقفی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس گئے اور کہا: مجھے ایسی تکلیف ہے جو قریب ہے کہ مجھے ہلاک کر دے ۔ وہ فرماتے ہیں کہ مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : اپنا دایاں ہاتھ ( بیماری والی جگہ پر) پھیرو اور سات دفعہ کہو : «أَعُوذُ بِعِزَّةِ اللَّهِ وَقُدْرَتِهِ، مِنْ شَرِّ مَا أَجِدُ » میں اللہ کی عزت اور قدرت کے ساتھ پناہ چاہتا ہوں اس شر سے جسے میں پاتا ہوں ۔
انہوں نے کہا: کہ میں نے ایسا کیا تو اللہ نے میری تکلیف دور فرما دی ۔ میں مسلسل اپنے گھر والوں اور دوسرے لوگوں کو اسی کا حکم دیتا ہوں ۔

سندہ صحیح

«519- الموطأ (رواية يحيیٰي بن يحيیٰي 942/2 ح 1818 ، ك 50 ب4 ح 9) التمهيد 29/23 ، الاستذكار : 1753
و أخرجه أبوداود (3891) و الترمذي (2080) من حديث مالك به وقال الترمذي : ” هذا حديث حسن صحيح“ ورواه مسلم (2202) من حديث نافع بن جبير به
من رواية يحي بن يحي وجاء في الأصل : ” عُمَرَ بْنَ عَبْدِ اللهِ ۔ ۔ ۔ “ ! »
------------------
520- وعن يزيد بن خصيفة عن عروة بن الزبير أنه قال : سمعت عائشة زوج النبي صلى الله عليه وسلم تقول : قال رسول الله صلى الله عليه وسلم ( (لا يصيب المؤمن من مصيبةٍ حتى الشوكة إلا قص بها أو كفر بها من خطاياه) ) لا يدري يزيد أيتهما قال عروة.

نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بیوی عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : مؤمن کو جو بھی مصیبت پہنچتی ہے چاہے ایک کانٹا ہی ہو وہ تو اس کی خطاؤں کا قصاص یا کفارہ بن جاتی ہے ۔
یزید
( بن خصیفہ) نے کہا: کہ معلوم نہیں کہ عروہ ( بن الزبیر) نے کیا الفاظ کہے تھے : قصاص یا کفارہ؟

سندہ صحیح

«520- الموطأ (رواية يحيیٰي بن يحيیٰي 941/2 ح 1815 ، ك 50 ب 3 ح 6) التمهيد 25/23 ، الاستذكار : 175
و أخرجه مسلم (2572/50) من حديث مالك به»
------------------
يزيد بن زيادٍ
حديثٌ واحدٌ
521- مالكٌ عن يزيد بن زيادٍ عن محمد بن كعبٍ القرظي أنه قال : قال معاوية بن أبي سفيان وهو على المنبر : أيها الناس ، إنه لا مانع لما أعطى الله ، ولا معطي لما منع الله ، ولا ينفع ذا الجد منه الجد ، من يرد الله به خيراً يفقهه في الدين. ثم قال : سمعت هؤلاء الكلمات من رسول الله صلى الله عليه وسلم على هذه الأعواد.


سیدنا معاویہ بن ابی سفیان رضی اللہ عنہ نے ( مدینہ میں) منبر پر فرمایا : اے لوگو ! جسے اللہ دے اسے روکنے والا کوئی نہیں اور جس سے اللہ روک لے ، اسے دینے والا کوئی نہیں اور کسی بزرگی والے کی بزرگی اسے نفع نہیں دیتی ۔ جس کے ساتھ اللہ خیر کا ارادہ کرتا ہے اسے دین کا تفقہ ( سوجھ بوجھ) عطا فرماتا ہے ۔ پھر انہوں نے کہا: کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس منبر پر یہ کلمات سنے ہیں ۔

سندہ صحیح

« 521- الموطأ (رواية يحيیٰي بن يحيیٰي 900/2 ، 901ح 1732 ، ك 46 ب 2 ح 8) التمهيد 78/23 ، الاستذكار : 1669
و أخرجه البخاري في الادب المفرد (666) من حديث مالك به
من رواية يحي بن يحي ۔ وجاء في الأصل : ” عَنْ عَبْدِ بْنِ كَعْبٍ“ وهو خطأ »

------------------
 

مظاہر امیر

مشہور رکن
شمولیت
جولائی 15، 2016
پیغامات
1,427
ری ایکشن اسکور
411
پوائنٹ
190
ذكر حديث من ذكر بكنيته ولم يتفق على تسميته وهم ثلاثةٌ لهم أربعة أحاديث أبو بكر بن عمر
حديثٌ واحدٌ
522- مالكٌ عن أبي بكر بن عمر بن عبد الرحمن بن عبد الله بن عمر بن الخطاب رضي الله عنه عن سعيد بن يسارٍ أنه قال : كنت أسير مع عبد الله بن عمر بطريق مكة ، قال سعيدٌ : فلما خشيت الصبح نزلت فأوترت ثم أدركته ، فقال لي عبد الله بن عمر : أين كنت؟ فقلت : خشيت الفجر فنزلت فأوترت ، فقال : أليس لك في رسول الله صلى الله عليه وسلم أسوةٌ حسنةٌ؟ فقلت : بلى والله ؛ قال : فإن رسول الله صلى الله عليه وسلم كان يوتر على البعير.

سعید بن یسار رحمہ اللہ سے روایت ہے کہ میں سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کے ساتھ مکے کے راستے میں سفر کر رہا تھا ، پھر جب مجھے صبح کا ڈر ہوا تو میں نے ( سواری سے ) اتر کر وتر پڑھا اور انھیں جا ملا تو سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نے مجھ سے پوچھا: تم کہاں تھے ؟ میں نے کہا: مجھے صبح کا ڈر ہوا تو میں نے اتر کر وتر پڑھ لیا ۔ انہوں نے فرمایا : کیا تمھارے لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ( کی زندگی) میں بہترین نمونہ نہیں ہے ؟ میں نے کہا: کیوں نہیں ، اللہ کی قسم ! ضرور ہے ۔ انہوں نے فرمایا : تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اونٹ پر وتر پڑھ لیتے تھے ۔

سندہ صحیح
متفق عليه

«522- الموطأ (رواية يحيیٰي بن يحيیٰي 124/1 ح 268 ، ك 7 ب 3 ح 15) التمهيد 137/24 ، الاستذكار : 239
و أخرجه البخاري (999) و مسلم (700/36) من حديث مالك به»
------------------
أبو بكر بن نافع
حديثان
523- مالكٌ عن أبي بكر بن نافعٍ عن أبيه عن صفية ابنة أبي عبيد أنها أخبرته أن أم سلمة زوج النبي صلى الله عليه وسلم قالت لرسول الله صلى الله عليه وسلم حين ذكر الإزار : فالمرأة يا رسول الله؟ قال : ( (ترخي شبراً) ) قالت أم سلمة : إذن ، ينكشف عنها ، قال : ( (فذراعاً لا تزيد عليه) ) .

صفیہ بنت ابی عبید رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ازار کا ذکر کیا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بیوی ام سلمہ نے آپ سے کہا: یا رسول اللہ ! عورت کا کیا ہوگا؟ آپ نے فرمایا : وہ ایک بالشت ازار لٹکا لے ۔ ام سلمہ رضی اللہ عنہ نے کہا: پھر تو پاؤں ننگے ہو جائیں گے ! ؟ آپ نے فرمایا : پھر ایک ہاتھ لٹکالے ۔ اس سے زیادہ نہ لٹکائے ۔

سندہ صحیح

«523- الموطأ (رواية يحيیٰي بن يحيیٰي 915/2 ح 1765 ، ك 48 ب 6 ح 13) التمهيد 147/24 ، الاستذكار : 1697
و أخرجه أبوداود (4117) من حديث مالك به و صححه ابن حبان (الموارد : 1451)
وفي رواية يحي : ” لَا تَزِيْدُ عَلَيْهِ“ ۔ »
------------------
524- وعن أبي بكر بن نافعٍ عن أبيه عن عبد الله بن عمر أن رسول الله صلى الله عليه وسلم أمر بإحفاء الشوارب وإعفاء اللحى.

سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مونچھیں کاٹنے اور داڑھیاں بڑھانے کا حکم دیا ۔

سندہ صحیح

«524- الموطأ (رواية يحيیٰي بن يحيیٰي 947/2 ح 1828 ، ك 51 ب 1 ح 1) التمهيد 142/24 ، الاستذكار : 1764
و أخرجه مسلم (259/53) من حديث مالك به»
------------------
أبو ليلى
حديثٌ واحدٌ
525- مالكٌ عن أبي ليلى بن عبد الله بن عبد الرحمن ابن سهلٍ عن سهلٍ بن أبي حثمة أنه أخبره هو ورجلٌ من كبراء قومه : أن عبد الله بن سهل ومحيصة خرجا إلى خيبر من جهدٍ أصابهم فأتي محيصة فأخبر أن عبد الله بن سهلٍ قد قتل وطرح في فقير بئرٍ أو عينٍ ، فأتى يهود فقال : أنتم والله قتلتموه ، قالوا : والله ما قتلناه. فأقبل حتى قدم على قومه ، فذكر ذلك لهم ، ثم أقبل هو وأخوه حويصة وهو أكبر منه وعبد الرحمن بن سهلٍ ، فذهب محيصة ليتكلم وهو الذي كان بخيبر ، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم لمحيصة : ( (كبر كبر) )يريد السن ، فتكلم حويصة ثم تكلم محيصة ، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم : ( (إما أن يدوا صاحبكم وإما أن يؤذنوا بحربٍ) )فكتب إليهم رسول الله صلى الله عليه وسلم في ذلك ، فكتبوا : إنا والله ما قتلناه. فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم لحويصة ومحيصة وعبد الرحمن : ( (أتحلفون وتستحقون دم صاحبكم؟) ) قالوا : لا ، قال : ( (أفتحلف لكم يهود؟) ) قالوا : ليسوا بمسلمين. فوداه رسول الله صلى الله عليه وسلم من عنده ، فبعث إليهم بمئة ناقةٍ حتى أدخلت عليهم الدار. قال سهلٌ : لقد ركضتني منها ناقةٌ حمراء.

سیدنا سہل بن ابی حثمہ رضی اللہ عنہ کو ان کی قوم کے بزرگوں نے بتایا کہ عبداللہ بن سہل اور محیصہ دونوں بھوک کی وجہ سے خیبر گئے تو محیصہ نے آکر بتایا کہ عبداللہ بن سہل قتل ہوگئے اور انھیں کنویں یا چشمے کے پاس پھینک دیا گیا ہے ۔ پھر وہ یہودیوں کے پاس آئے تو کہا: اللہ کی قسم ! تم نے انھیں ( عبداللہ بن سہل کو) قتل کیا ہے ۔ یہودیوں نے کہا: اللہ کی قسم ! ہم نے انھیں قتل نہیں کیا ۔ پھر وہ اپنی قوم کے پاس آئے اور انھیں یہ بات بتائی پھر وہ اور ان کے بڑے بھائی حویصہ رضی اللہ عنہ اور عبدالرحمٰن بن سہل رضی اللہ عنہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے تو محیصہ جو خیبر گئے تھے باتیں کرنے کی کوشش کرنے لگے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے محیصہ سے فرمایا : بڑے کو بات کرنے دو ، بڑی عمر والے کو بات کرنے دو تو حویصہ نے بات کی پھر محیصہ نے بات کی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : یا تو وہ تمھارے ساتھی کی دیت دیں یا جنگ کے لئے تیار ہو جائیں ۔ آپ نے یہودیوں کی طرف لکھ بھیجا تو انہوں نے جوابی تحریر میں کہا: اللہ کی قسم ! ہم نے اسے قتل نہیں کیا ۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حویصہ ، محیصہ اور عبدالرحمٰن کو کہا: کیا تم قسم کھاتے ہو اور اپنے ساتھی کے خون کے حق دار بنتے ہو؟ انہوں نے کہا: نہیں ، آپ نے فرمایا : کیا تمھارے لئے یہودی قسم کھائیں؟ انہوں نے کہا: وہ مسلمان نہیں ہیں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی طرف سے دیت عطا فرمائی ، آپ نے ان کی طرف ایک سو اونٹنیاں بھیجیں حتی کہ وہ ان کے گھر میں داخل کی گئیں ۔ سہل رضی اللہ عنہ نے کہا: ان میں سے سرخ اونٹنی نے مجھے لات ماری تھی ۔

سندہ صحیح
متفق عليه

« 525- الموطأ (رواية يحيیٰي بن يحيیٰي 877/2 ، 878 ح 1696 ، ك 44 ب 1 ح 1) التمهيد 150/24 ، 151 ، الاستذكار : 1725
و أخرجه البخاري (7192) ومسلم (1669/6) من حديث مالك به
وفي رواية يحي بن يحي : ” وَرِجَالٌ“ ۔ »
------------------
ذكر حديث مالك
عمن لم يسمه وهما حديثان في موضعين
526- مالكٌ عن الثقة عنده عن بكير بن الأشج عن عبد الرحمن بن الحباب السلمي عن أبي قتادة الأنصاري أن رسول الله صلى الله عليه وسلم نهى أن يشرب التمر والزبيب جميعاً ، والزهو والرطب جميعاً.

سیدنا ابوقتادہ الانصاری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کھجور اور انگور ملا کی نبیذ پینے سے منع فرمایا ہے اور گدر اور تازہ کھجور ( رطب) ملا کر نبیذ پینے سے منع فرمایا ہے ۔

صحيح
«526- الموطأ (رواية يحيیٰي بن يحيیٰي 844/2 ح 1639 ، ك 42 ب 3 ح 8) التمهيد 205/24 ، الاستذكار : 1567
و أخرجه النسائي في الكبريٰ (تحفة الاشراف : 12119) من حديث مالك به وللحديث شواهد منها حديث البخاري (5601) ومسلم (1986)وبه صح الحديث»
------------------
527- وعن الثقة عنده عن بكير بن الأشج عن بسر بن سعيدٍ عن أبي سعيدٍ الخدري عن أبي موسى الأشعري أنه قال : قال رسول الله صلى الله عليه وسلم : ( (الاستئذان ثلاثٌ ، فإن أذنوا لك فادخل ، وإلا فارجع) ) .

سیدنا ابوموسیٰ الاشعری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : اجازت لینا تین دفعہ ہے ، اگر وہ ( گھر والے )اجازت دیں تو اندر داخل ہو جاؤ ورنہ لوٹ جاؤ ۔

صحيح

«527- الموطأ (رواية يحيیٰي بن يحيیٰي 963/2 ح 1863 ، ك 54 ب 1 ح 2) التمهيد 202/24 ، الاستذكار : 1799
و أخرجه ابوالقاسم الجوهري في مسند الموطأ (846) من حديث مالك به ۔ وله شواهد عند البخاري (6245) ومسلم (2153) وغيرهما وهو بها صحيح»
-------------------- انهت الاحاديث رواية ابن القاسم والحمدلله ----------
 

مظاہر امیر

مشہور رکن
شمولیت
جولائی 15، 2016
پیغامات
1,427
ری ایکشن اسکور
411
پوائنٹ
190
آغاز موطا امام مالک
ایمان و عقائد کے مسائل

137

شرک کی مذمت
423

مشرک کے لئے معافی نہیں ہے
274

بارش کا اختیارصرف اللہ تعالیٰ کے پاس ہے
187, 361 , 362

تقدیرکابیان
348

صفات الہٰی کا بیان
26, 485

اللہ تعالیٰ عرش پر مستوی ہے
458

نزولِ وحی کی کیفیت
51 , 188

نذر کابیان
364

زمانے کو بُرانہیں کہنا چاہئے
133

اہل بدعت کو حوض کوثر سے دور کردیا جائے گا
505

اتباعِ رسول کابیان
515

تین مساجد کے علاوہ ثواب کی نیت سے سفر کرنا
491

خارجیوں کابیان
275

جنات کا وجود برحق ہے
54 , 84

حدیث بھی کتاب اللہ ہے
338

اسلام دین فطرت ہے
365

منافقت حرام ہے
374

جہنم کا بیان
376

جہنم کا سانس لینا حق ہے
353

عیسیٰ بن مریم علیہما السلام کا بیان
353

دجال کا بیان
 

مظاہر امیر

مشہور رکن
شمولیت
جولائی 15، 2016
پیغامات
1,427
ری ایکشن اسکور
411
پوائنٹ
190
طہارت کے مسائل
419, 524

امورِ فطرت کا بیان
123

بلی کا جوٹھا
322

کتے کا جوٹھا نجس ہے
52, 182, 517

مردارکی کھال سے دباغت کے بعد فائدہ اٹھانا
319

نیند سے بیداری پر ہاتھ دھونا
56, 361

شیر خوار بچے کا پیشاب
95

مٹی پاکی کا ذریعہ ہے
قضائے حاجت کا بیان
124, 264, 502

قبلہ رخ ہو کر قضائے حاجت کرنا منع ہے
75

استنجا کرنے کےلئے طاق ڈھیلے استعمال کرنے چاہیئں
غسل کا بیان
449

غسل جنابت کا طریقہ
34

غسل جنابت کے پانی کی مقدار
421

دورانِ غسل بات چیت کرنا
280

رات کو جنبی ہوجائے تو کیا کرے؟
450

خاوند اور بیوی کا ایک برتن سے پانی لے کر غسل کرنا
477

عورت پر احتلام ہونے کی صورت میں غسل واجب ہے
451

حیض اور استحاضہ کا بیان
480

حیض کے خون کو کھر چنا اور دھونا چاہئے...................................
462

حالت حیض میں عورت چند ممنوعہ امور کے علاوہ تمام کا م کرسکتی ہے
 
Top