• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

مولانا وحید الدین خان : اپنے الفاظ کے آئینے میں

سٹیٹس
مزید جوابات پوسٹ نہیں کیے جا سکتے ہیں۔

ابوالحسن علوی

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
2,521
ری ایکشن اسکور
11,555
پوائنٹ
641
قسط سوم

اس سلسلہ وار مضمون کی سابقہ دو اقساط میں ہم نے مولانا وحید الدین خان صاحب کے تصور مہدی ومسیح اور نظریہ دجال کا تجزیاتی' تحقیقی اور تنقیدی جائزہ لیاتھا۔ ذیل کی قسط میں ہم علامات قیامت کے باب میں دیگر علامات مثلاً یاجوج ماجوج' دابة الارض' دریائے فرات سے سونے کا خزانہ برآمد ہونا' دخان' اللہ کے کلمہ کا غالب ہونا' بیت اللہ کو آگ لگایا جانا اور وقوع قیامت کے حوالہ سے خان صاحب کے نقطہ نظر کا ایک تجزیاتی اور تنقیدی جائزہ پیش کر رہے ہیں۔

یاجوج و ماجوج کی حقیقت
مولانا وحید الدین خان صاحب نے یاجوج و ماجوج سے مراد سد ذو القرنین کے پیچھے مقید وحشی قبائل کی بجائے یورپی اور مغربی اقوام لی ہیں۔ ایک جگہ لکھتے ہیں:
''یاجوج اور ماجوج سے کون لوگ مراد ہیں، اس کے بارے میں اہل علم نے مختلف رائیں دی ہیں۔ مجھے ذاتی طور اس معاملے میں مولانا انور شاہ کشمیری (وفات : ١٩٣٤) کی رائے زیادہ درست معلوم ہوتی ہے۔ انھوں نے روس اور برطانیہ اور جرمنی کی قوموں کو اس کا مصداق ٹھیرایا ہے۔'' (ماہنامہ الرسالة'مئی ٢٠١٠ء، ص٣)
ایک اور جگہ اپنے نقطہ نظر کی مزید وضاحت میں لکھتے ہیں :
'' یاجوج اور ماجوج کے بارے میں جو دستیاب معلومات ہیں، وہ سب سے زیادہ یورپی قوموں پر صادق آتی ہیں۔ یہ معلومات زیادہ تر تمثیل کی زبان میں ہیں، اس لیے لوگوں کو ان کا مفہوم سمجھنے میں دقت پیش آتی ہے۔ اگر اس حقیقت کو ملحوظ رکھا جائے تو تقریبا ًبلا اشتباہ یہ معلوم ہوتاہے کہ یاجوج اور ماجوج سے مراد وہی قومیں ہیں جن کو یورپی قومیں کہا جاتا ہے۔ یہ لوگ حضر ت نوح کے بیٹے یافث کی اولاد سے تعلق رکھتے ہیں۔ یہ لوگ غالباً پہلے مغربی یورپ میں آباد ہوئے، پھر انھیں کی نسلیں امریکا اور آسٹریلیا میں پھیل گئیں۔'' (ماہنامہ الرسالة ' مئی ٢٠١٠ء، ص ٤)
خان صاحب نے یاجوج وماجوج کو دو ادوار میں تقسیم کیا۔ان کے نزدیک پہلے دور میں یہ ایک غیر مہذب، جنگجو اور اجڈ قوم تھی جبکہ اپنے دوسرے یا موجودہ دور میں یہ مہذب اور ترقی یافتہ اقوام میں شامل ہیں۔ ایک جگہ لکھتے ہیں:
'' قرآن میں یاجوج اور ماجوج کا ذکر دو مقامات پر آیا ہے۔ ایک جگہ ذوالقرنین کے حوالے سے ( الکھف : ٩٤)، اور دوسری جگہ ذو القرنین کے بغیر ( الانبیاء : ٩٦)۔ ان دونوں آیتوں کے مطالعے سے یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ ان دونوں آیتوں میں یاجوج اور ماجوج کے دو دوروں کا ذکر ہے، جو ایک کے بعد ایک پیش آئیں گے۔ بظاہر ایسامعلوم ہوتا ہے کہ ذوالقرنین نے جو دیوار بنائی تھی، وہ یاجوج اور ماجوج کے ابتدائی دور سے تعلق رکھتی ہے۔ یہ دیوار ان کی مفسدانہ کاروائی کے لیے ایک روک بن گئی۔ ایک عرصے تک یہ صورت حال قائم رہی۔ اس کے بعد یاجوج اور ماجوج کی ابتدائی سرکش نسل ختم ہو گئی اور بعد کی نسل پیدا ہوئی جو نسبتاً معتدل نسل کی حیثیت رکھتی تھی۔ اس دوران ذوالقرنین کی بنائی ہوئی ابتدائی دیوار دھیرے دھیرے ٹوٹ پھوٹ گئی۔ اس کے بعد یاجوج اور ماجوج کی اگلی نسلوں کے لیے ممکن ہو گیا کہ وہ دیوار سے باہر آئیں، اور دیوار کے باہر کی دنیا میں پھیل جائیں۔ یہی دوسرا زمانہ ہے جب کہ ان کے درمیان تہذیب کا دور شروع ہوا۔ یہ دور مختلف احوال کے درمیان بتدریج ترقی کی طرف بڑھتا رہا۔ یہ بعد کا دور دو زمانوں میں تقسیم ہے۔ نشاة ثانیہ سے قبل کازمانہ، اور نشاة ثانیہ کے بعد کا زمانہ۔'' (ماہنامہ الرسالة ' مئی ٢٠١٠ء، ص ٤۔٥)
ایک اورجگہ لکھتے ہیں :
'' ذوالقرنین کے بنائے ہوئے مادی بند کے ٹوٹنے کے بعد جو واقعہ پیش آئے گا، اس کو قرآن میں ان الفاظ میں بیان کیا گیا ہے: وترکنا بعضھم یومئذ یموج فی بعض(الکھف : ٩٩)یعنی قدیم محدود جغرافیہ سے نکل کر یاجوج اور ماجوج، لوگوں سے عمومی اختلاط کرنے لگیں گے۔ یہ گویا ان کا دور اختلاط ہو گا۔ اس کے بعد حدیث میں جس واقعے کا ذکر ہے، یعنی ان کا ہر چیز کو کھا جانا، اور ساری دنیا کے پانی کو پی جانا، اس سے مراد بعد کا وہ واقعہ ہے، جب کہ انھوں نے نیچر پر فتح حاصل کی اور جدید صنعتی دور پیدا کیا۔ اس جدید صنعتی دور کے نتیجے میں ان کو عالمی استحصال کا موقع ملا۔ قرآن سورة نمبر ١٨ میں یاجوج اور ماجوج کے پہلے دور کا ذکر ہے، اور قرآن کی سورة نمبر ٢١ میں یاجوج اور ماجوج کے دوسرے دور کا ذکر۔ اس اعتبار سے یہ کہنا صحیح ہو گا کہ بظاہر یاجوج اور ماجوج کے تین بڑے دور ہیں۔ محصوریت کا دور، اختلاط کا دور، سائنس اور صنعتی ترقی کا دور۔'' (ماہنامہ الرسالة ' مئی ٢٠١٠ء، ص ٥)
یاجوج ماجوج کے بارے خان صاحب کا یہ نقطہ نظر بوجوہ غلط ہے:
خان صاحب کا یہ دعوی کہ یاجوج ماجوج جس دیوار کے پیچھے مقید تھے' وہ آہستہ آہستہ ٹوٹ پھوٹ گئی ہے اور یاجوج ماجوج کا خروج ہو گیا ہے، درست نہیں ہے۔ کیونکہ روایات کے مطابق یاجوج ماجوج کا خروج' نزول عیسیٰ علیہ السلام کے بعد ہو گا اور ان کا خروج جس شان سے ہو گا' وہ ایک عام فرد کو بھی بغیر کسی تاویل یا غور وفکر کے' یہ بتلانے کے لیے کافی ہوگا کہ ان کا خروج ہو چکا ہے۔ ایک روایت کے الفاظ ہیں:
'' اذا أوحی اللہ الی عیسی أنی قد أخرجت عبادا لی لا یدان لأحد بقتالھم' فحرز عبادی الی الطور' ویبعث اللہ یأجوج ومأجوج' وھم من کل حدب ینسلون' فیمر أولئک علی بحیرة طبریة' فیشربون ما فیھا' ویمر آخرھم فیقولون : لقد کان بھذہ مرة ماء' ویحصر نبی اللہ عیسی وأصحابہ حتی یکون رأس الثور لأحدھم خیرا من مائة دینار لأحدکم الیوم' فیرغب نبی اللہ عیسی وأصحابہ' فیرسل اللہ علیھم النغف فی رقابھم' فیصحبون فرسی' کموت نفس واحدة' ثم یھبط اللہ نبی اللہ عیسی وأصحابہ الی الأرض' فلایجدون فی الأرض شبرا لا ملأہ زھمھم ونتنھم' فیرغب نبی اللہ عیسی وأصحابہ الی اللہ فیرسل اللہ طیرا کأعناق البخت' فتحملھم' فتطرحھم حیث شاء اللہ.'' (صحیح مسلم' کتاب الفتن وأشراط الساعة' باب ذکر الدجال وصفتہ وما معہ)
'' جب اللہ تعالیٰ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی طرف وحی فرمائیں گے کہ میں نے اب کی بار آزمائش کے لیے ایسے بندوں کو نکالا ہے کہ ان سے لڑنے کی طاقت کسی میں بھی نہیں ہے۔ پس آپ میرے بندوں]اہل ایمان[ کو لے کر طور پر چلے جائیں۔ اور اللہ تعالیٰ یاجوج وماجوج کو بھیجیں گے۔ اور وہ ہر ٹیلے سے پھسلتے چلیں آئیں گے۔ پس ان کا گزر بحرہ طبریہ سے ہو گا تو اس کا سارا پانی پی جائیں گے اور ان کا آخری شخص جب اس سے گزرے گا تو کہے گا کہ یہاں بھی کبھی پانی ہوا کرتا تھا!اور اللہ کے نبی عیسیٰ علیہ السلام اوران کے ساتھی طور میں محصور ہو جائیں گے یہاں تک کہ ایک بیل کا سر ان کے نزدیک سو دینار سے زیادہ قیمتی ہو گا۔ پس اللہ کے نبی عیسیٰ علیہ السلام اور ان کے ساتھی اللہ کی طرف رجوع کریں گے تو اللہ تعالیٰ یاجوج ماجوج کی گردنوں میںایک پھِنسی پیدا کریں گے تو وہ سب کے سب ایک ساتھ مر جائیں گے۔ زمین میں ایک بالشت برابر زمین بھی ایسی نہیں بچے گی کہ جہاں ان کی بدبو نہ ہو۔ پس اللہ کے نبی عیسیٰ علیہ السلام اور ان کے ساتھی اللہ کی طرف رجوع کریں گے تو اللہ تعالیٰ بختی اونٹ کی گردنوں جیسے پرندے بھیجیں گے جو انہیں اٹھا کر وہاں پھینک دیں گے' جہاں اللہ تعالیٰ چاہیں گے۔''
اس روایت میں خان صاحب کے لیے اُس سطحی تاویل کی گنجائش بھی باقی نہیں ہے کہ جس کے مطابق عیسیٰ علیہ السلام کی حیثیت ایک عام مصلح کی سی ہے اور ان کا ظہور ہو چکا ہے۔ اس روایت میں جس عیسیٰ علیہ السلام کے نزول کے بعد یاجوج ماجوج کا خروج بتلایا گیا ہے' ان کی صفت یہ بیان کی گئی ہے کہ وہ عیسیٰ علیہ السلام' اللہ کے نبی ہوں گے۔

اسی طرح خان صاحب نے یاجوج ماجوج کے بحریہ طبریہ کے پانی پی جانے کی تاویل اہل مغرب کے پٹرول کے ذخائر پر قبضہ کرنے سے کی ہے۔ ایک جگہ لکھتے ہیں:
'' دریا کا پانی پی جانے سے مراد غالباً پٹرول کے ذخائر ہیں۔ ان ذخائر کا بڑا حصہ مشرقی دنیا میں تھا' لیکن جس انڈسٹری میں ان کی کھپت تھی' وہ زیادہ تر مغربی دنیا میں واقع تھیں۔ اس لیے اہل مغرب کو یہ موقع ملا کہ وہ تیل کے قدرتی ذخیروں کو اپنے یہاں لے جا کر ان کو بھرپور طور پر استعمال کر سکیں۔''(ماہنامہ الرسالة' مئی ٢٠١٠ء' ص١٣)
اب پٹرول کی پانی سے وجہ مناسبت کسی بھی صاحب عقل کی سمجھ سے بالاتر ہے۔ اور خود اسی روایت میں یہ الفاظ موجود ہیں کہ ان کا آخری شخص یہ کہے گا کہ یہاں کبھی پانی ہوا کرتا تھا جبکہ پٹرول تو اب بھی مشرق میں موجود ہے۔ پھر یہ بھی کہ شارحین حدیث نے بحیرہ طبریہ کا علاقہ اردن اور شام میں بتلایا ہے اور پٹرول کے سب سے بڑے ذخائر وینزویلا میں ہیں۔ جبکہ دوسرے نمبر پر سعودی عرب اور تیسرے نمبر پر کینیڈا میں ہیں۔ پٹرول کے پہلے اور تیسرے بڑے ذخیرے کا تعلق تو مغرب ہی سے ہے اور دوسرے کا تعلق بھی اردن یا شام سے نہیں ہے۔ بلکہ اردن یا شام تو اوپیک ممالک (Opec Countries)میں شامل ہی نہیں ہیں۔

پھر حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا یاجوج ماجوج سے قتال نہ کر سکنا' ان کاکوہ طور پر محصور ہو جانا ' اللہ تعالیٰ کا یاجوج ماجوج کو ایک ساتھ وبائی مرض سے ہلاک کرنا اور ان کی لاشوں کو بختی اونٹ کے سروں جیسے پرندوں کا اٹھاکر لے جانا وغیرہ 'کہاں کہاں خان صاحب روایات کے حقائق کی مسخ شدہ تاویلات پیش کریں گے۔
 

ابوالحسن علوی

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
2,521
ری ایکشن اسکور
11,555
پوائنٹ
641
دابة الارض کا ظہور
قیامت کی نشانیوں میں ہمیں ایک ایسے جانور کا تذکرہ بھی ملتا ہے جو زمین سے نکلے گا اور لوگوں سے کلام کرے گا۔مولانا وحید الدین خان صاحب اس جانور کے بارے بھی یہ تاویل پیش کرتے ہیں کہ اس سے مراد بھی امت محمدیہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک داعی اور مصلح فرد ہے۔ ایک جگہ لکھتے ہیں :
'' دابہ کے سلسلے میں مختلف روایتیں آئی ہیں۔ ان روایتوں سے بظاہر یہ متصور ہوتا ہے کہ دابہ ایک انوکھی مخلوق ہو گا۔ ان روایتوں کو سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ ان کو تمثیلی اسلوب قرار دے کر سمجھا جائے۔ چناچہ مفسرین کی ایک جماعت نے ان روایتوں کو تمثیل پر محمول کرتے ہوئے یہ لکھا ہے کہ دابہ سے مراد انسان ہے، نہ کہ کوئی عجیب الخلقت جانور۔ اس کے مطابق، عام انسانوں جیسا ایک انسان ہو گا اور خدا کی خصوصی توفیق کے ذریعے خدا کی نشانیوں کے اظہار کا ذریعہ بنے گا۔مفسر قرطبی (وفات : ٦٧١ھ) نے اس رائے کو ان الفاظ میں نقل کیا ہے : ان الأقرب أن تکون ھذہ الدابة انسانا متکلما، یناظر أھل البدع والکفر ویجادلھم لینقطعوا، فیھلک من ھلک عن بینة، ویحیا من حی عن بینة.'' (ماہنامہ الرسالة 'مئی ٢٠١٠، ص ٥٦)
دابة الارض کی ایک اور مقام پر وضاحت کرتے ہوئے خان صاحب لکھتے ہیں کہ اس سے مراد وہ داعی ہے جو امت مسلمہ پر اتمام حجت کے لیے آئے گا۔ ایک جگہ لکھتے ہیں:
'' اسی طرح گویا دابہ یا دور آخر میں ظاہر ہونے والا داعی، اللہ کی طرف سے لوگوں کے اوپر آخری اتمام حجت ہو گا۔ اس اتمام حجت کے بعد دوسرا واقعہ صرف یہ ہو گا کہ فرشتہ اسرافیل اپنا صور پھونک دے اور اور قیامت برپا ہو جائے۔(ماہنامہ الرسالة : مئی ٢٠١٠ء، ص٥٧)
دابة سے مافوق الفطرت مخلوق ہے نہ کہ داعی انسان' جیسا کہ خان صاحب کا خیال ہے۔ ایک روایت میں دابة کی یوں صفات بیان کی گئی ہیں:
'' تخرج الدابة' فتسم الناس علی خراطیمھم' ثم یغمرون فیکم حتی یشتری الرجل البعیر' فیقول : ممن اشتریتہ؟ فیقول: من أحد المخطیین.'' (مسند أحمد : ٦٤٧٣٦، مؤسسة الرسالة' الطبعة الثانیة' ١٩٩٩ء)
'' دابة کا خروج ہو گا اور وہ لوگوں کی ناک پر نشان لگا دے گا یعنی مومن کی ناک پر ایک خاص قسم کا نشان لگائے گا اور کافر کی ناک پر ایک دوسری قسم کا نشان لگا ئے گا۔ پس ان نشان لگے ہوؤں کی تم میں اس قدر کثرت ہو جائے گی کہ ایک شخص ایک اونٹ خریدے گا اور دوسراکہے گا کہ تم نے کس سے یہ اونٹ خریدا ہے تو پہلا کہے گا کہ ناک پر نشان لگے ہوؤں میں سے ایک سے خریدا ہے۔''
اگر دابة سے مراد انسان ہو تو انسان کے کلام کرنے میں نشانی والی کیا بات ہے؟ جبکہ اللہ تعالیٰ نے کلام کرنے والے دابة کو بطور خاص قیامت کی نشانیوں میں شمار کیا ہے۔ اور پھر دابة الارض اگر لوگوں کی ناک پر کافر یا مومن ہونے کے نشانات لگائے تو اس کا قیامت کی نشانی ہونا سمجھ آتا ہے لیکن ایک داعی کے کسی کافر یا مومن کے ناک ہی پر نشان لگانے کا کیا معنی ہے؟ اور پھر اونٹ خریدنے کے ایک عام واقعہ کو اس روایت کا حصہ بنانے میں کیا تعلیم مقصود ہے؟ اس کی تاویلات تاحال خان صاحب کی توجہ کی منتظر ہیں۔

ایک اور روایت کے الفاظ ہیں:
'' ثلاث اذا خرجن لا ینفع نفسا ایمانھا لم تکن آمنت من قبل أو کسبت فی ایمانھا خیرا طلوع الشمس من مغربھا والدجال ودابة الأرض.''(صحیح مسلم' کتاب الایمان' باب بیان الزمن الذی لا یقبل فیہ الایمان)
'' تین چیزوں کا جب ظہور ہو جائے گا تو اس وقت کسی بھی جان کو جو کہ اس سے پہلے ایمان نہ لائی ہو یا اس نے حالت ایمان میں کوئی نیکی نہ کی ہو ' اس کا ایمان لانا فائدہ نہ دے گا: سورج کا مغرب سے طلوع ہونا' دجال کا ظہور اور دابة الارض کا نکلنا۔''
خان صاحب اس روایت کی کیا تاویل فرماتے ہیں کہ دور آخر کے اس داعی دابة الارض کے ظہور کے بعد ایمان لانے کا کوئی فائدہ باقی رہ گیا یا نہیں؟ اگر رہ گیا ہے تو اس روایت کا مفہوم کیا؟ اور اگر نہیں تو وہ داعی اپنی دعوت سے کر کیا رہا ہے؟

اسی طرح خان صاحب نے امام قرطبی رحمہ اللہ سے یہ قول تو نقل کر دیا کہ بعض متاخرین کا خیال ہے کہ دابة سے مرا د انسان ہے لیکن امام قرطبی رحمہ اللہ نے اس قول پر اپنے شیخ سے جو نقد نقل کی ہے' اس کی طرف اشارہ کرنا بھی خان صاحب نے پسند نہیں فرمایا۔ امام قرطبی رحمہ اللہ اس قول کو نقل کرنے کے بعد لکھتے ہیں:
'' قال بعض المتأخرین من المفسرین : ان الأقرب أن تکون ھذہ الدابة انسانا متکلما یناظر أھل البدع والکفر ویجادلھم لینقطعوا' فیھلک من ھلک عن بینة ویحیا من حی عن بینة. قال شیخنا الامام أبو العباس أحمد بن عمر القرطبی فی کتاب المفھم لہ : وانما کان عند ھذا القائل الأقرب لقولہ تعالیٰ ''تکلمھم'' وعلی ھذا فلا یکون فی ھذہ الدابة آیة خاصة خارقة للعادة' ولا یکون من العشر الآیات المذکورة فی الحدیث' لأن وجود المناظرین والمحتجین علی أھل البدع کثیر' فلا آیة خاصة بھا فلا ینبغی أن تذکر مع العشر' وترتقع خصوصیة وجودھا اذا وقع القول' ثم فیہ العدول عن تسمیة ھذا الانسان المناظر الفاضل العالم الذی علی أھل الأرض أن یسموہ باسم الانسان أو بالعالم أو بالامام الی أن یسمی بدابة' وھذا خروج عن عادة الفصحاء' وعن تعظیم العلماء' ولیس ذلک دأب العقلاء' فالأولی ما قالہ أھل التفسیر' واللہ أعلم بحقائق الأمور.'' (تفسیر القرطبی : ٢٣٦١٣' دار الکتب المصریة' القاھرة' الطبعة الثانیة' ١٩٦٤ء)
'' بعض متاخرین مفسرین کا خیال ہے کہ یہ بات زیادہ قرین قیاس ہے کہ دابة الارض سے مراد وہ متکلم انسان ہو جو اہل کفر اور اہل بدعت سے مناظرہ اور مکالمہ کرتا ہے تا کہ ان کی دلیل ختم ہو جائے اور جس نے زندہ رہنا ہے وہ دلیل کے ساتھ زندہ رہے اور جس نے مرنا ہے وہ دلیل کے ساتھ مر جائے۔ ہمارے شیخ ابو العباس احمد بن عمر قرطبی نے 'المفہم' میں لکھا ہے کہ اس قول کے قائلین کی بہترین دلیل 'تکلمھم' کے الفاظ ہیں کہ وہ دابة کلام کرنے والا ہو گا۔ اگر تو دابة سے مراد انسان لیا جائے تو پھر اس دابة کے خروج کے خرق عادت ہونے کی کوئی وجہ سمجھ سے بالاتر ہے اور اس کا قیامت کی دس نشانیوں میں ذکر کرنا بھی سمجھ میں نہیں آتا کیونکہ اہل بدعت کے ساتھ مناظرہ کرنے والے تو بہت زیادہ ہیں اور دابة جس کا ذکر قرآن میں ہے' وہ ایک ہے' پس اس صورت میں آیت میں کوئی خصوصیت باقی نہیں رہتی اور دابة الارض کے قیامت کی دس نشانیوں میں ذکرکی وجہ بھی درست معلوم نہیں ہوتی اور انسان مراد لینے کی صورت میں خاص طور پر اس کا ظہور اس وقت جبکہ قیامت واقع ہو' سمجھ سے بالاتر ہے۔ پھر اگر اس سے مراد انسان لے بھی لیا جائے تو پھر یہ بات سمجھ نہیں آتی ہے کہ عالم' فاضل' مناظر اور امام کے رتبے پر فائز انسان کو دابة یعنی جانور کہہ دیا گیا ہے۔ فصحاے عرب کی یہ عادت نہیں ہے اور نہ ہی اس میں علماء کی کوئی تعظیم ہے کہ انہیں دابة سے تشبیہ دی جائے۔ اسی طرح اہل عقل کی بھی یہ عادت نہیں ہے کہ انسان کو دابة سے پکاریں۔ پس بہترین قول وہی ہے جو اہل تفسیر کا ہے اور اللہ تعالیٰ حقائق کا علم بہتر جانتا ہے۔''
 

ابوالحسن علوی

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
2,521
ری ایکشن اسکور
11,555
پوائنٹ
641
دریائے فرات سے سونے کا خزانہ برآمد ہونا
قیامت کی نشانیوں میں اس کا تذکرہ بھی ملتا ہے کہ دریائے فرات سے سونے کا خزانہ بر آمد ہو گا۔ خان صاحب اس روایت کی تاویل کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
''ایک روایت کے مطابق' پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یوشک الفرات أن یحسر عن کنز من ذھب (صحیح مسلم' کتاب الفتن) یعنی وہ زمانہ آنے والا ہے' جب کہ دریائے فرات میں سونے کا ایک خزانہ نکلے۔ اس حدیث میں جو پیشین گوئی کی گئی ہے' اس سے واضح طور پر پٹرول مراد ہے' جس کو موجودہ زمانے میں سیال سونا (liquid gold) کہا جاتا ہے اورجو بہت بڑی مقدار میں شرق اوسط کے عرب علاقے میں ظاہر ہوا ہے۔''(ماہنامہ الرسالة' مئی ٢٠١٠ء'ص ٥٨)
خان صاحب نے یہاں بھی حسب عادت مکمل روایت نقل نہیں کی ہے اور صرف اتنا حصہ ہی نقل کرنے پر اکتفا کیا ہے کہ جس سے ان کی تاویل پر کوئی اعتراض قاری کے ذہن میں پیدانہ ہو۔ مکمل روایت کے الفاظ کچھ یوں ہیں:
'' یوشک الفرات أن یحسر عن کنز من ذھب فمن حضرہ فلا یأخذ منہ شیئا.'' (صحیح بخاری' کتاب الفتن' باب خروج النار)
'' قریب ہے کہ فرات سے سونے کا ایک خزانہ بر آمد ہو اور جو شخص بھی اس کے پاس موجود ہو وہ اس میں سے کچھ نہ لے۔''
اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سونے کے خزانے سے کچھ لینے سے منع فرمایا ہے۔ اگر تو اس کی تاویل تیل یا پٹرول سے کی جائے تو یہ تو ضروریات زندگی میں سے ہیں اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اسے حاصل کرنے سے کیسے منع فرما سکتے ہیں؟ اگرتو 'ذھب' سے مراد تیل ہی ہے تو خان صاحب کوعرب مسلمان ممالک کی حکومتوں کو خط لکھنا چاہیے کہ فرمان نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے مطابق وہ اس سونے کو ہاتھ بھی نہ لگائیں اور بہتر ہے کہ اہل مغرب کے لیے چھوڑ دیں۔

اس روایت کے اسلوب بیان ہی سے واضح ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سونے کے خزانے کے ظہور کو ایک فتنہ اور آزمائش قرار دیا ہے اور یہی وجہ ہے کہ آپ نے اس میں سے کچھ لینے سے منع فرمایا ہے اور اس کا فتنہ ہونا سونا مراد لینے کی صورت میں ہی بہتر طور پورا ہو سکتا ہے۔
 

ابوالحسن علوی

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
2,521
ری ایکشن اسکور
11,555
پوائنٹ
641
دخان یا دھواں
قیامت کی نشانیوں میں ایک نشانی 'دخان' کی بھی بیان کی گئی ہے اور یہ مومنین کے لیے آزمائش اور کفار کے لیے عذاب کی صورت میں نازل ہو گا۔ خان صاحب اس کی تاویل کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
''ایک روایت کے مطابق' پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے قرب قیامت کی دس نشانیوں کا ذکر فرمایا۔ اُن میں سے ایک نشانی دخان کا ظاہر ہونا ہے۔ دخان کے لفظی معنی دھواں کے ہیں۔ اس روایت میں یہ پیشین گوئی کی گئی تھی کہ ایک وقت ایسا آئے گا' جب کہ زمین کی پوری فضا دھویں سے بھر جائے گی۔موجودہ زمانے میں یہ پیشین گوئی واقعہ بن چکی ہے۔ اس سے مراد واضح طور پر وہی چیز ہے جس کو موجودہ زمانے میں فضائی کثافت(air pollution) کہا جاتا ہے۔ جدید صنعتی دور نے تاریخ میں پہلی بار وہ چیز پیدا کی ہے جس کو کاربن ایمیشن (carbon emission)کہا جاتا ہے۔ اس کے نتیجے میں پوری فضا کاربن ڈائی آکسائیڈ سے بھر گئی ہے' جو انسان جیسی مخلوق کے لیے انتہائی حد تک مہلک ہے۔فضائی کثافت کا یہ معاملہ پیغمبر اسلام کے زمانے میں ناقابل تصور تھا۔'' (ماہنامہ الرسالة'مئی ٢٠١٠ء' ص٥٩)

'دخان' کا ایک جزوی مصداق قریش مکہ پر قحط سالی کا آنے والا عذاب تھا جیسا کہ عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ قریش مکہ کے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت قبول نہ کرنے پر اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے خلاف بددعا کی کہ ان پر ایسی قحط سالی کا عذاب آئے جیسا کہ حضرت یوسف علیہ السلام کی قوم پر آیا تھا۔ پس قریش اس قحط سالی کی وجہ سے مردار اور ہڈیاں کھانے پر مجبور ہو گئے اور انہیں زمین کی خشکی اور بھوک کے سبب سے زمین و آسمان کے مابین دھواں ہی دھواں نظر آتا تھا۔ (صحیح بخاری' کتاب التفسیر' باب سورة الروم)

اس علامت کا کامل مصداق قیامت سے پہلے ظاہر ہو گا جیسا کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:
''انھا لن تقوم حتی ترون عشر آیات الدخان والدجال والدابة وطلوع الشمس من مغربھا ونزول عیسیٰ ابن مریم ویأجوج ومأجوج وثلاث خسوف خسف بالمشرق وخسف بالمغرب وخسف بجزیرة العرب وآخر ذلک نار تخرج من قبل تطرد الناس الی محشرھم.'' (مسند أحمد : ٦٣٢٦)
''قیامت اس وقت تک قائم نہ ہو گی جب تک کہ دس علامات واقع نہ ہو جائیں۔ دخان' دجال' دابة الارض' سورج کا مغرب سے طلوع ہونا' نزول عیسیٰ ابن مریم' یاجوج ماجوج' تین خسوف ایک مشرق' دوسرا مغرب اور تیسرا جزیرہ نما عرب میں' اور آخری نشانی وہ آگ ہے جو ایک طرف سے نکلے گی اور لوگوں کو ان کے محشر میں جمع کر دے گی۔''
 

ابوالحسن علوی

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
2,521
ری ایکشن اسکور
11,555
پوائنٹ
641
اللہ کے کلمہ کا غلبہ
روایات میں قیامت کی علامات میں ایک علامت یہ بھی بیان کی گئی ہے کہ اللہ کا دین ہر کچے پکے مکان پر غالب ہو کر رہے گا۔ خان صاحب اس کی تاویل کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
''قرب قیامت کی علامتوں میں سے ایک علامت حدیث میں یہ بتائی گئی ہے کہ اس زمانے میں اسلام کا کلمہ دنیا کے ہر چھوٹے اور بڑے گھر میں داخل ہو جائے گا( لا یبقی علی ظھر الأرض بیت مدر' ولا وبر لا أدخلہ اللہ کلمة السلام)۔ اس سلسلے میں مزید یہ الفاظ آئے ہیں: بعز عزیز' وذل ذلیل(مسند أحمد' جلد٥' ص٤)۔ یعنی عزت والے کو عزت کے ساتھ اور ذلت والے کو ذلت کے ساتھ۔ اس سے مراد سیاسی طاقت نہیں ہے۔ یہ ایک اسلوب کلام ہے۔اس کا مطلب یہ ہے کہ خواہی نہ خواہی یعنی کوئی شخص چاہے یا نہ چاہے' اسلام کا کلمہ بہرحال اس کے گھر میں داخل ہو جائے گا۔ یہ واقعہ کس طرح ہو گا۔ کمپیوٹر ایج نے اس بات کو پوری طرح قابل فہم بنا دیا ہے۔ تاریخ میں پہلی بار یہ ممکن ہوا ہے کہ عملاً ہر گھر میںاور ہر آفس میں کمپیوٹر داخل ہو گیا ہے۔ انٹرنیٹ اور ویب سائیٹ پر تمام اسلامی معلومات بھری جا رہی ہیں۔اب دنیا کے کسی بھی مقام پر اور کسی بھی آفس یا گھر میں ایک شخص اپنے کمپیوٹر کے ذریعے' اسلام کے بارے میں پوری معلومات خود اپنی زبان میں حاصل کر سکتا ہے۔ اس معاملے پر غور کرتے ہوئے سمجھ میں آتا ہے کہ ہر گھر میں کلمہ اسلام کے داخلے سے مراد امکانی داخلہ (potential entry)ہے' نہ کہ واقعی داخلہ(actual entry)۔ اور امکانی داخلے کے اعتبار سے بلاشبہہ' اسلام کا کلمہ ہر گھر میں داخل ہو چکا ہے۔'' (ماہنامہ الرسالة'مئی ٢٠١٠ء' ص٦١۔٦٢)
مسند احمد کی مذکورہ بالا روایت کہ جس کی خان صاحب نے تاویل کی ہے، کی مکمل عبارت یوں ہے:
''لایبقی علی ظھر الأرض بیت مدر ولا وبر لا أدخلہ اللہ کلمة الاسلام بعز عزیز أوذل ذلیل ما یعزھم اللہ عزوجل فیجعلھم من أھلھا أو یذلھم فیدینون لھا.'' (مسند أحمد: ٢٣٦٣٩' مؤسسة الرسالة' الطبعة الثانیة' ١٩٩٩ء)
'' زمین کی پشت پر کوئی کچا یا پکا مکان باقی نہ رہے گا لیکن اللہ تعالیٰ اس میں اسلام کے کلمہ کو داخل کر دے گا، عزت والے کی عزت کے ساتھ اور ذلیل کی ذلت کے ساتھ' یا تو اللہ تعالیٰ انہیں عزت بخشے گا اور وہ اسلام کا کلمہ قبول کر لیں گے یا پھر انہیں ذلیل ورسوا کر ے گا اور وہ اس کلمے کی اطاعت قبول کر لیں گے۔''
خان صاحب نے حسب عادت یہاں بھی اپنے اقتباس میں روایت کا وہ حصہ نقل نہیں کیا جو کلمہ کے غلبے کا معنی متعین کرنے میں اہم حیثیت کا حامل تھا۔روایت میں 'فیدینون لھا' کے الفاظ واضح کرتے ہیں کہ یہاں کلمہ کے غلبہ سے مراد اس کا بالفعل اور سیاسی غلبہ مراد ہے۔مسند احمد ہی کی ایک روایت میں'لیبلغن ھذا الأمر' کے الفاظ بھی ہیں کہ جن میں لفظ 'امر' اس کلمہ کی سیاسی غلبے کی حیثیت کو واضح کر رہا ہے۔ علاوہ ازیں اسی روایت کے آخر میں راوی حدیث جناب تمیم داری رضی اللہ عنہ کے الفاظ ہیں :
''وکان تمیم الداری یقول قد عرفت ذلک فی أھل بیتی لقد أصاب من أسلم منھم الخیر والشرف والعز ولقد أصاب من کان منھم کافرا الذل والصغار والجزیة.'' (مسند أحمد : ١٥٥٢٨)
تمیم داری رضی اللہ عنہ یہ روایت نقل کرنے کے بعد کہا کرتے تھے کہ میں نے اپنے گھر والوں کے بارے ا للہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشین گوئی مکمل پائی کہ جس نے ان میں اسلام قبول کر لیا تو اسے شرف وخیر اور بزرگی حاصل ہوئی اور جو ان میں کافر رہا تو وہ ذلیل وحقیر رہا اور جزیہ ادا کرتا رہا۔''
صحابی رسول صلی اللہ علیہ وسلم جو آپ کے ارشادات کے اولین مخاطب تھے' وہ بھی اس روایت کے مفہوم سے سیاسی غلبہ ہی مراد لیتے تھے' ورنہ تو جزیہ ادا کرنے کی بات کا کوئی مطلب نہیں بنتا۔ صحابی رسول تمیم داری رضی اللہ عنہ نے اس روایت کا جو معنی بیان کیا ہے ' وہ اس روایت کا ایک جزوی مصداق ہے جبکہ اس کے کامل مصداق کا ظہور قیامت سے پہلے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے نزول کے بعد ہو گا۔ ایک روایت کے الفاظ ہیں:
''لیوشکن أن ینزل فیکم ابن مریم حکما عدلا، فیکسر الصلیب، ویقتل الخنزیر ویضع الحرب ویفیض المال حتی لا یقبلہ أحد حتی تکون السجدة الواحدة خیرا من الدنیا وما فیھاثم یقول أبو ھریرة واقرؤوا ان شئتم (ون من أھل الکتاب الا لیؤمنن بہ قبل موتہ ویوم القیامة یکون علیھم شھیدا).'' (صحیح بخاری، کتاب أحادیث الأنبیاء، باب نزول عیسی بن مریم)
'' عنقریب تمہارے مابین عیسیٰ بن مریم علیہ السلام ایک عادل حکمران کی صورت میں نازل ہوں گے۔ وہ صلیب کو توڑدیں گے۔ خنزیر کو قتل کر دیں گے۔ جنگ کو ایک نتیجہ تک پہنچا دیں گے۔ مال کو اس قدر تقسیم کریں گے کہ اسے کوئی قبول کرنے والاباقی نہ رہے گا۔ اور ایک سجدہ اس وقت دنیا ومافیہا سے بہتر سمجھا جائے گا۔ یہ روایت نقل کرنے کے بعد حضرت ابو ہریرة رضی اللہ عنہ نے کہا کہ اب تم چاہو تو قرآن کی یہ آیت پڑھ لو۔ اور اہل کتاب میں سے کوئی بھی ایسا نہیں ہے جو ان کی موت سے پہلے ان پر ایمان نہ لائے اور وہ قیامت والے دن ان پر گواہ ہوں گے۔''
ایک اور روایت کے الفاظ ہیں:
'' ثم یمکث سبع سنین لیس بین اثنین عداوة.'' (صحیح مسلم' کتاب الفتن وأشراط الساعة' باب فی خروج الدجال )
'' اور وہ زمین سات سال تک رہیں اور ان سات سالوں میں دو افراد کے مابین دشمنی نہیں ہو گی۔''

خان صاحب نے اسلام کے کلمہ کے غلبہ کی جو تاویل پیش کی ہے یعنی کمپیوٹر اور انٹرنیٹ کے ذریعے اسلام کے پیغام کا ہر گھر تک پہنچنا' اس معنی میں تو اسلام کے علاوہ کفر کا کلمہ بھی ہر کچے پکے مکان میں داخل ہو گیا ہے بلکہ کمپیوٹر اور انٹرنیٹ کے ذریعے اصلاً توکفر کا کلمہ ہی داخل ہوا ہے اور اسلام تو برائے نام ہے۔ پس اس تاویل کی صورت میں اللہ کے کلمہ کے غلبے کا کوئی امتیاز باقی نہیں رہتا۔
 

ابوالحسن علوی

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
2,521
ری ایکشن اسکور
11,555
پوائنٹ
641
کلمہ گو مسلمان کا باقی نہ رہنا
بعض روایات کے مطابق قرب قیامت کی علامات میں سے ایک علامت یہ بھی بیان کی گئی ہے کہ زمین پر کوئی کلمہ گو مسلمان باقی نہ رہے گا اور قیامت' کفار اور شریر قسم کے لوگوں پر قائم ہو گی۔ خان صاحب نے اس کی بھی تاویل کی ہے۔ وہ لکھتے ہیں:
''ایک روایت کے مطابق' پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: لا تقوم الساعة حتی یقال فی الأرض : اللہ' اللہ (صحیح مسلم' کتاب الایمان' الترمذی' کتاب الفتن)یعنی قیامت صرف اس وقت قائم ہو گی جب کہ زمین پر کوئی اللہ' اللہ کہنے والا باقی نہ رہے۔ اس حدیث میں قول سے مراد قول لسان نہیں ہے' بلکہ قول معرفت ہے' جیسا کہ قرآن (المائدة : ٨٣) سے ثابت ہوتا ہے...،،موجودہ زمانے میں ایسے لوگ تو کثرت سے ملیں گے جو تکرار لسان کے طور اللہ کا نام لیں گے' مگر اللہ کے نزدیک ایسے لوگوں کی کوئی قیمت نہیں' اور جہاں تک حقیقی معنوں میں اللہ کو یاد کرنے کا سوال ہے' ساری زمین پر بہت کم ایسے لوگ ہوں گے جو اس معاملے میں مطلوب معیار پر پورے اتریں۔ (ماہنامہ الرسالة' مئی ٢٠١٠ء' ص٦٠۔٦١)

خان صاحب کی یہ تاویل اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ان صریح ارشادات کے خلاف ہے کہ جن میں کلمہ سے مراد 'کلمہ لسانی' لیا گیا نہ کہ معرفت کا کلمہ جیسا کہ خان صاحب کا بیان ہے۔ ایک روایت کے الفاظ ہیں کہ نزول عیسیٰ ابن مریم اور قتل دجال کے بعد اللہ تعالیٰ ایک ہوا بھیجیں گے۔ روایت کے الفاظ ہیں:
'' ثم یرسل اللہ ریحا باردة من قبل الشام ' فلا یبقی علی وجہ الأرض أحد فی قلبہ مثقال ذرة من خیر أو ایمان لا قبضتہ' حتی لو أن أحدکم دخل فی کبد جبل لدخلتہ علیہ' حتی تقبضہ.'' (صحیح مسلم' کتاب الفتن وأشراط الساعة' باب فی خروج الدجال )
'' پھر شام کی طرف سے ایک ٹھنڈی ہوا بھیجی جائے گی اور زمین کی سطح پر کوئی ایک شخص بھی ایسا باقی نہ رہے گا جس کے دل میں ذرہ برابر بھی ایمان ہو۔ یہاں تک کہ اگر تم اہل ایمان میں سے کوئی ایک شخص پہاڑ کی کھوہ میں بھی گھس جائے گا تو وہ ہوا اس میں بھی داخل ہو کر اسے قبض کر لے گی ۔''
ایک روایت میں ان الفاظ کا اضافہ بھی ہے:
''ثم یبقی شرار الناس علیھم تقوم الساعة.''(صحیح مسلم' کتاب الامارة' باب لاتزال طائفة من أمتی ظاھرین)
'' پھر بدترین لوگ باقی رہ جائیں گے اور ان پر قیامت قائم ہو گی۔''
 

ابوالحسن علوی

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
2,521
ری ایکشن اسکور
11,555
پوائنٹ
641
بیت اللہ کو آگ لگانا
قیامت کی نشانیوں میں یہ بھی روایات میں بیان ہوا ہے کہ بیت اللہ کو آگ لگائی جائے گی۔ خان صاحب اس کی تاویل کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
'' ایک روایت کے مطابق، پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: انکم سترون بعد قلیل أمرا عظیما، یحرق البیت، ویکون ویکون (صحیح مسلم، کتاب الفتن)۔یعنی آئندہ تم ایک امر عظیم دیکھو گے، وہ یہ کہ ایک گھر جلا دیا جائے گا۔ ایسا ہو گا اور ضرور ہو گا۔ حدیث کے الفاظ پر غور کیجیے تو یہ کسی عام گھر کو جلانے کی بات نہیں ہے، بلکہ وہ ایک بہت بڑے گھر کو جلانے کی بات ہے، جیسا ''گھر'' قدیم زمانے میں موجود نہ تھا۔ اس پیشین گوئی سے غالبا وہ واقعہ مراد ہے جو ١١ ستمبر ٢٠٠١ء کو نیویارک (امریکا) میں پیش آیا... اس انوکھی پیشین گوئی کا حرف بہ حرف پورا ہونا، اس بات کی یقینی علامت ہے کہ اب قیامت کا وقت قریب آ چکا ہے، اس کے آنے میں اب زیادہ دیر نہیں۔'' (ماہنامہ الرسالة : مئی ٢٠١٠ء، ص ٥٩۔٦٠)

قابل غور بات یہ ہے کہ روایات میں'البیت' کا لفظ استعمال ہوا ہے اور اس میں الف' لام تعریف کا ہے اور شرعی عرف میں 'البیت' سے مراد 'بیت اللہ' ہی ہوتا ہے جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
'' فمن حج البیت أواعتمر.''(البقرة : ١٥٨)
'' پس جس نے بیت اللہ کا حج یا عمرہ کیا۔''
اسی طرح آیات مبارکہ ''وللہ علی الناس حج البیت''(آل عمران: ٩٧) اور ''وما کان صلاتھم عند البیت''(الأنفال : ٣٥) اور ''فلیعبدوا رب ھذا البیت''(قریش: ٣) وغیرہ میں بھی مراد بیت اللہ ہی ہے۔ پس اس لفظ کے شرعی عرف کی روشنی میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان میں بھی 'البیت' سے مراد بیت اللہ ہی ہے۔
اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے اولین مخاطین صحابہ کرام رضی اللہ عنہم تھے لہٰذا آپ کے ارشادات کا کوئی ایسا معنی ومفہوم بیان کرنا کہ جس کا ادراک اولین مخاطبین کے لیے ناممکن ہو' درست نہیں ہے۔کیونکہ اگر اس روایت کے معنی ومفہوم کا ادراک اولین مخاطبین ہی کیلیے ناممکن ہو تو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے کلام ہی کیوں فرمایا؟پس خان صاحب نے 'البیت' کی جو تاویل کی ہے وہ ایسا معنی ہے کہ جس کا ادراک صحابہ رضی اللہ عنہم کے لیے کسی طور ممکن نہیں تھا لہٰذا اس تاویل کو قبول کرنے کا مطلب یہ ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ سے ایک ایسا کلام فرمایا ہے جس کا معنی ومفہوم جاننا ان کے لیے ممکن نہ تھا۔فیا للعجب!
 

ابوالحسن علوی

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
2,521
ری ایکشن اسکور
11,555
پوائنٹ
641
وقوع قیامت
مولانا وحید الدین خان صاحب کے بقول قیامت کی تقریباً تمام علامات ظاہر ہو چکی ہیں اور اب اس کے وقوع کا وقت بہت ہی قریب ہے۔ایک جگہ لکھتے ہیں کہ گلوبل وارمننگ (global warming)کے نتیجے میں ٢٠٥٠ء تک قیامت واقع ہونے کے قوی امکانات ہیں:
'' موجودہ زمانے میں گلوبل وارمنگ کے نتیجے میں جو کلائمیٹ چینج کا واقعہ پیش آ رہا ہے، اس کی روشنی میں مغربی سائنس داں یہ کہہ رہے ہیں کہ ٢٠١٠ تک موجودہ دنیا کا لائف سپورٹ سسٹم بہت زیادہ بگڑ جائے گا، اور ٢٠٥٠ تک شاید زمین پر ہر قسم کی زندگی کا خاتمہ ہو جائے۔'' (ماہنامہ الرسالة ' ستمبر ٢٠٠٧ء، ص١٠)
ایک اور جگہ٢٠٥٠ء تک قیامت کے واقع ہونے کے بارے لکھتے ہیں:
"اکیسویں صدی کے آتے ہی دنیا بھر کے سائنس دانوں نے اپنے مطالعے کے مطابق، متفقہ طور پر یہ اعلان کرنا شروع کر دیا ہے کہ زمین میں گلوبل وارمنگ اور موسمیاتی تبدیلی کے نتیجے میں نہایت تیزی سے تبدیلیاں ہو رہی ہیں۔ جدید سائنسی مشاہدات کے مطابق، ان تبدیلیوں کے نتیجے میں یہ ہونے والا ہے کہ تقریباً ٢٠٥٠ سے پہلے ہی ہماری زمین ناقابل رہائش(inhabitable) ہو جائے۔''(ماہنامہ الرسالة ' مئی ٢٠١٠ء، ص٥٥)

خان صاحب کا یہ نقطہ نظر بھی کتاب اللہ اورسنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف ہے۔ ایک تو کسی شخص کو وقوع قیامت کی تاریخ یا سن طے نہیں کرنا چاہیے کیونکہ اس کا یقینی علم اللہ ہی کے پاس ہے اور رسولوں کو بھی اس کا متعین علم نہیں دیا گیا تھا۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
'' ان اللہ عندہ علم الساعة.''(لقمان: ٣٤)
'' بلاشبہ اللہ ہی کے پاس قیامت کا علم ہے۔''
ایک اور جگہ ارشاد ہے:
''یسئلونک عن الساعة أیان مرساھا قل انما علمھا عند ربی لا یجلیھا لوقتھا الا ھو.'' (الأعراف : ١٨٧)
'' وہ آپ سے قیامت کے بارے سوال کرتے ہیں کہ وہ کب واقع ہو گی۔ آپ کہہ دیجیے: اس کا علم صرف اللہ کے پاس ہے۔ اسے اس کے وقت پر کوئی روشن نہیں کرے گا سوائے اس کے۔''
''لا یجلیھا لوقتھا لا ھو'' میں یہ نکتہ بھی قابل غور ہے کہ قیامت اپنے وقت پر خوب روشن ہو کر سامنے آئے گی یعنی اس کی علامات خوب روشن ہوں گی نہ کہ ایسی کہ جن کے لیے باطنی تاویلات کی ضرورت محسوس ہو۔

اسی طرح بلاشبہ قیامت قریب ہے ۔ آج سے چودہ سو سال پہلے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرما دیا تھا کہ میرے اور قیامت کے مابین اتنا ہی فاصلہ ہے جتنا کہ دو انگلیوں کے مابین ہے۔ (صحیح بخاری' کتاب الرقاق' باب قول الرسول صلی اللہ علیہ وسلم بعثت أنا والساعة کھاتین)۔ اور یہ دوانگلیوں کا فاصلہ بھی اللہ کے امر میں چودہ سوسال سے زیادہ پر محیط ہے۔ پس قرب سے مراد بھی اللہ کا قرب ہے اور اللہ کے قرب کی تعیین انسان کے لیے کرنا مشکل بلکہ ناممکن امر ہے۔

اسی طرح اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:
''انھا لن تقوم حتی ترون عشر آیات الدخان والدجال والدابة وطلوع الشمس من مغربھا ونزول عیسیٰ ابن مریم ویأجوج ومأجوج وثلاث خسوف خسف بالمشرق وخسف بالمغرب وخسف بجزیرة العرب وآخر ذلک نار تخرج من قبل تطرد الناس الی محشرھم.'' (مسند أحمد : ٦٣٢٦)
''قیامت اس وقت تک قائم نہ ہو گی جب تک کہ دس علامات واقع نہ ہو جائیں۔ دخان' دجال' دابة الارض' سورج کا مغرب سے طلوع ہونا' نزول عیسیٰ ابن مریم' یاجوج ماجوج' تین خسوف ایک مشرق' دوسرا مغرب اور تیسرا جزیرہ نما عرب میں' اور آخری نشانی وہ آگ ہے جو ایک طرف سے نکلے گی اور لوگوں کو ان کے محشر میں جمع کر دے گی۔''
(جاری ہے۔)
 

ابوالحسن علوی

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
2,521
ری ایکشن اسکور
11,555
پوائنٹ
641
قسط چہارم

اس سلسلہ وار مضمون کی سابقہ تین اقساط میں ہم نے مولانا وحید الدین خان صاحب کے تصورِ علاماتِ قیامت کا جائزہ لیا تھا۔ ذیل کی قسط میں ہم ان کے تصورِ اقامت دین اور نفاذ شریعت کا جائزہ لے رہے ہیں۔
 

ابوالحسن علوی

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
2,521
ری ایکشن اسکور
11,555
پوائنٹ
641
تصور اقامت دین یا نفاذ شریعت
ہم یہ واضح کر چکے ہیں کہ مولانا وحید الدین خان یکم جنوری ١٩٢٥ء کو پیدا ہوئے۔ انہوں نے ابتدائی تعلیم مدرسة الاصلاح، سرائے میر، اعظم گڑھ سے ہی حاصل کی اور ١٩٣٨ء میں اس مدرسہ کو جوائن کیا۔ ١٩٤٤ء میں چھ سال بعد انہوں نے یہاں سے اپنی مذہبی تعلیم مکمل کر لی۔

اسی دوران مولانا مودودی رحمہ اللہ کی تحریروں سے متاثر ہوئے اور ١٩٤٩ء میں جماعت اسلامی ، ہند میں شامل ہوئے۔ کچھ ہی عرصہ میں جماعت اسلامی کی مرکزی 'مجلس شوری' کے بھی رکن بن گئے۔ جماعت اسلامی کے ترجمان رسالہ 'زندگی' میں باقاعدگی سے لکھتے رہے۔ جماعت اسلامی میں شمولیت کے بعد خان صاحب نے ١٥ سال کے بعد جماعت اسلامی کو خیر آباد کہا۔ جماعت اسلامی سے علیحدگی کے بعد تبلیغی جماعت کے ساتھ وابستہ ہو گئے لیکن ١٩٧٥ء میں اسے بھی مکمل طور پر چھوڑ دیا۔

اقامت دین، نفاذ شریعت اور اسلام کے سیاسی پہلو کی نسبت خان صاحب کا نقطہ نظر کئی ایک تدریجی ارتقائی مراحل سے گزرا ہے ۔ اس کی وجہ یہ ہے جماعت اسلامی میں جب انہیں فکر مودودی سے اختلاف شروع ہوا تو پہلے پہل وہ خود بھی واضح نہ تھے کہ وہ کیا کہنا چاہ رہے ہیں۔ یعنی انہیں فکر مودودی سے اختلاف تو تھا اور اس میں وہ بالکل واضح تھے لیکن اس اختلاف کو متعین، مبین اور منضبط الفاظ کی صورت میں پیش کرنے کی اہلیت نہ ہونے کی وجہ سے وہ اپنا اختلاف مخاطبین کو سمجھا نہیں پا رہے تھے۔ بعد ازاں انہوں نے تحریر کی صورت میں اپنے خیالات کو ممکن حد تک منضبط تو کر لیا اور اس میں تا حال رد عمل معمولی نوعیت کی تھا لیکن آہستہ آہستہ رد عمل کی نفسیات میں اضافے کے سبب سے فکر مودودی کے بارے ان کا موقف غلو کے تدریجی مراحل تیار کرتے ہوئے اقامت دین، نفاذ شریعت، جہاد، امامت وخلافت، سیاست، اسلامی تحریک اور اجتماعی اصلاح کی جمیع پرامن کوششوں سے ایک چِڑ کی صورت اختیار کر گیا اور اسلوب نقد وبیان میں بھی خوارجی منہج جیسی شدت اور انتہا پسندی کا اظہار ہونے لگا۔

مولانا مودودی رحمہ اللہ سے انہیں جو اختلافات تھے، ان کا اظہار انہوں نے اپنی کتاب 'تعبیر کی غلطی' میں تفصیل سے کیا ہے جو پہلی مرتبہ ١٩٦٣ء میں شائع ہوئی۔ اس کتاب کا ابتدائی حصہ مولانا صدر الدین اصلاحی، مولانا جلیل احسن ندوی، مولانا ابوللیث ندوی اور مولانا مودودی رحمہم اللہ کے ساتھ خط وکتابت پر مشتمل ہے۔کتاب کا دوسرا حصہ مولانا مودودی رحمہ اللہ کے تصور وتعبیر دین کی غلطی اور اس کے نتائج کی وضاحت پر مشتمل ہے جبکہ تیسرے حصے میں مولانا نے اپنے تئیں صحیح تصور دین کو پیش کیا ہے۔فکر مودودی کے بارے خان صاحب کے نقطہ نظر کو ہم تین ادوار میں تقسیم کر رہے ہیں:
 
سٹیٹس
مزید جوابات پوسٹ نہیں کیے جا سکتے ہیں۔
Top