- شمولیت
- مارچ 08، 2011
- پیغامات
- 2,521
- ری ایکشن اسکور
- 11,555
- پوائنٹ
- 641
قسط سوم
اس سلسلہ وار مضمون کی سابقہ دو اقساط میں ہم نے مولانا وحید الدین خان صاحب کے تصور مہدی ومسیح اور نظریہ دجال کا تجزیاتی' تحقیقی اور تنقیدی جائزہ لیاتھا۔ ذیل کی قسط میں ہم علامات قیامت کے باب میں دیگر علامات مثلاً یاجوج ماجوج' دابة الارض' دریائے فرات سے سونے کا خزانہ برآمد ہونا' دخان' اللہ کے کلمہ کا غالب ہونا' بیت اللہ کو آگ لگایا جانا اور وقوع قیامت کے حوالہ سے خان صاحب کے نقطہ نظر کا ایک تجزیاتی اور تنقیدی جائزہ پیش کر رہے ہیں۔
یاجوج و ماجوج کی حقیقت
مولانا وحید الدین خان صاحب نے یاجوج و ماجوج سے مراد سد ذو القرنین کے پیچھے مقید وحشی قبائل کی بجائے یورپی اور مغربی اقوام لی ہیں۔ ایک جگہ لکھتے ہیں:
ایک اور جگہ اپنے نقطہ نظر کی مزید وضاحت میں لکھتے ہیں :''یاجوج اور ماجوج سے کون لوگ مراد ہیں، اس کے بارے میں اہل علم نے مختلف رائیں دی ہیں۔ مجھے ذاتی طور اس معاملے میں مولانا انور شاہ کشمیری (وفات : ١٩٣٤) کی رائے زیادہ درست معلوم ہوتی ہے۔ انھوں نے روس اور برطانیہ اور جرمنی کی قوموں کو اس کا مصداق ٹھیرایا ہے۔'' (ماہنامہ الرسالة'مئی ٢٠١٠ء، ص٣)
خان صاحب نے یاجوج وماجوج کو دو ادوار میں تقسیم کیا۔ان کے نزدیک پہلے دور میں یہ ایک غیر مہذب، جنگجو اور اجڈ قوم تھی جبکہ اپنے دوسرے یا موجودہ دور میں یہ مہذب اور ترقی یافتہ اقوام میں شامل ہیں۔ ایک جگہ لکھتے ہیں:'' یاجوج اور ماجوج کے بارے میں جو دستیاب معلومات ہیں، وہ سب سے زیادہ یورپی قوموں پر صادق آتی ہیں۔ یہ معلومات زیادہ تر تمثیل کی زبان میں ہیں، اس لیے لوگوں کو ان کا مفہوم سمجھنے میں دقت پیش آتی ہے۔ اگر اس حقیقت کو ملحوظ رکھا جائے تو تقریبا ًبلا اشتباہ یہ معلوم ہوتاہے کہ یاجوج اور ماجوج سے مراد وہی قومیں ہیں جن کو یورپی قومیں کہا جاتا ہے۔ یہ لوگ حضر ت نوح کے بیٹے یافث کی اولاد سے تعلق رکھتے ہیں۔ یہ لوگ غالباً پہلے مغربی یورپ میں آباد ہوئے، پھر انھیں کی نسلیں امریکا اور آسٹریلیا میں پھیل گئیں۔'' (ماہنامہ الرسالة ' مئی ٢٠١٠ء، ص ٤)
ایک اورجگہ لکھتے ہیں :'' قرآن میں یاجوج اور ماجوج کا ذکر دو مقامات پر آیا ہے۔ ایک جگہ ذوالقرنین کے حوالے سے ( الکھف : ٩٤)، اور دوسری جگہ ذو القرنین کے بغیر ( الانبیاء : ٩٦)۔ ان دونوں آیتوں کے مطالعے سے یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ ان دونوں آیتوں میں یاجوج اور ماجوج کے دو دوروں کا ذکر ہے، جو ایک کے بعد ایک پیش آئیں گے۔ بظاہر ایسامعلوم ہوتا ہے کہ ذوالقرنین نے جو دیوار بنائی تھی، وہ یاجوج اور ماجوج کے ابتدائی دور سے تعلق رکھتی ہے۔ یہ دیوار ان کی مفسدانہ کاروائی کے لیے ایک روک بن گئی۔ ایک عرصے تک یہ صورت حال قائم رہی۔ اس کے بعد یاجوج اور ماجوج کی ابتدائی سرکش نسل ختم ہو گئی اور بعد کی نسل پیدا ہوئی جو نسبتاً معتدل نسل کی حیثیت رکھتی تھی۔ اس دوران ذوالقرنین کی بنائی ہوئی ابتدائی دیوار دھیرے دھیرے ٹوٹ پھوٹ گئی۔ اس کے بعد یاجوج اور ماجوج کی اگلی نسلوں کے لیے ممکن ہو گیا کہ وہ دیوار سے باہر آئیں، اور دیوار کے باہر کی دنیا میں پھیل جائیں۔ یہی دوسرا زمانہ ہے جب کہ ان کے درمیان تہذیب کا دور شروع ہوا۔ یہ دور مختلف احوال کے درمیان بتدریج ترقی کی طرف بڑھتا رہا۔ یہ بعد کا دور دو زمانوں میں تقسیم ہے۔ نشاة ثانیہ سے قبل کازمانہ، اور نشاة ثانیہ کے بعد کا زمانہ۔'' (ماہنامہ الرسالة ' مئی ٢٠١٠ء، ص ٤۔٥)
یاجوج ماجوج کے بارے خان صاحب کا یہ نقطہ نظر بوجوہ غلط ہے:'' ذوالقرنین کے بنائے ہوئے مادی بند کے ٹوٹنے کے بعد جو واقعہ پیش آئے گا، اس کو قرآن میں ان الفاظ میں بیان کیا گیا ہے: وترکنا بعضھم یومئذ یموج فی بعض(الکھف : ٩٩)یعنی قدیم محدود جغرافیہ سے نکل کر یاجوج اور ماجوج، لوگوں سے عمومی اختلاط کرنے لگیں گے۔ یہ گویا ان کا دور اختلاط ہو گا۔ اس کے بعد حدیث میں جس واقعے کا ذکر ہے، یعنی ان کا ہر چیز کو کھا جانا، اور ساری دنیا کے پانی کو پی جانا، اس سے مراد بعد کا وہ واقعہ ہے، جب کہ انھوں نے نیچر پر فتح حاصل کی اور جدید صنعتی دور پیدا کیا۔ اس جدید صنعتی دور کے نتیجے میں ان کو عالمی استحصال کا موقع ملا۔ قرآن سورة نمبر ١٨ میں یاجوج اور ماجوج کے پہلے دور کا ذکر ہے، اور قرآن کی سورة نمبر ٢١ میں یاجوج اور ماجوج کے دوسرے دور کا ذکر۔ اس اعتبار سے یہ کہنا صحیح ہو گا کہ بظاہر یاجوج اور ماجوج کے تین بڑے دور ہیں۔ محصوریت کا دور، اختلاط کا دور، سائنس اور صنعتی ترقی کا دور۔'' (ماہنامہ الرسالة ' مئی ٢٠١٠ء، ص ٥)
خان صاحب کا یہ دعوی کہ یاجوج ماجوج جس دیوار کے پیچھے مقید تھے' وہ آہستہ آہستہ ٹوٹ پھوٹ گئی ہے اور یاجوج ماجوج کا خروج ہو گیا ہے، درست نہیں ہے۔ کیونکہ روایات کے مطابق یاجوج ماجوج کا خروج' نزول عیسیٰ علیہ السلام کے بعد ہو گا اور ان کا خروج جس شان سے ہو گا' وہ ایک عام فرد کو بھی بغیر کسی تاویل یا غور وفکر کے' یہ بتلانے کے لیے کافی ہوگا کہ ان کا خروج ہو چکا ہے۔ ایک روایت کے الفاظ ہیں:
'' اذا أوحی اللہ الی عیسی أنی قد أخرجت عبادا لی لا یدان لأحد بقتالھم' فحرز عبادی الی الطور' ویبعث اللہ یأجوج ومأجوج' وھم من کل حدب ینسلون' فیمر أولئک علی بحیرة طبریة' فیشربون ما فیھا' ویمر آخرھم فیقولون : لقد کان بھذہ مرة ماء' ویحصر نبی اللہ عیسی وأصحابہ حتی یکون رأس الثور لأحدھم خیرا من مائة دینار لأحدکم الیوم' فیرغب نبی اللہ عیسی وأصحابہ' فیرسل اللہ علیھم النغف فی رقابھم' فیصحبون فرسی' کموت نفس واحدة' ثم یھبط اللہ نبی اللہ عیسی وأصحابہ الی الأرض' فلایجدون فی الأرض شبرا لا ملأہ زھمھم ونتنھم' فیرغب نبی اللہ عیسی وأصحابہ الی اللہ فیرسل اللہ طیرا کأعناق البخت' فتحملھم' فتطرحھم حیث شاء اللہ.'' (صحیح مسلم' کتاب الفتن وأشراط الساعة' باب ذکر الدجال وصفتہ وما معہ)
اس روایت میں خان صاحب کے لیے اُس سطحی تاویل کی گنجائش بھی باقی نہیں ہے کہ جس کے مطابق عیسیٰ علیہ السلام کی حیثیت ایک عام مصلح کی سی ہے اور ان کا ظہور ہو چکا ہے۔ اس روایت میں جس عیسیٰ علیہ السلام کے نزول کے بعد یاجوج ماجوج کا خروج بتلایا گیا ہے' ان کی صفت یہ بیان کی گئی ہے کہ وہ عیسیٰ علیہ السلام' اللہ کے نبی ہوں گے۔'' جب اللہ تعالیٰ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی طرف وحی فرمائیں گے کہ میں نے اب کی بار آزمائش کے لیے ایسے بندوں کو نکالا ہے کہ ان سے لڑنے کی طاقت کسی میں بھی نہیں ہے۔ پس آپ میرے بندوں]اہل ایمان[ کو لے کر طور پر چلے جائیں۔ اور اللہ تعالیٰ یاجوج وماجوج کو بھیجیں گے۔ اور وہ ہر ٹیلے سے پھسلتے چلیں آئیں گے۔ پس ان کا گزر بحرہ طبریہ سے ہو گا تو اس کا سارا پانی پی جائیں گے اور ان کا آخری شخص جب اس سے گزرے گا تو کہے گا کہ یہاں بھی کبھی پانی ہوا کرتا تھا!اور اللہ کے نبی عیسیٰ علیہ السلام اوران کے ساتھی طور میں محصور ہو جائیں گے یہاں تک کہ ایک بیل کا سر ان کے نزدیک سو دینار سے زیادہ قیمتی ہو گا۔ پس اللہ کے نبی عیسیٰ علیہ السلام اور ان کے ساتھی اللہ کی طرف رجوع کریں گے تو اللہ تعالیٰ یاجوج ماجوج کی گردنوں میںایک پھِنسی پیدا کریں گے تو وہ سب کے سب ایک ساتھ مر جائیں گے۔ زمین میں ایک بالشت برابر زمین بھی ایسی نہیں بچے گی کہ جہاں ان کی بدبو نہ ہو۔ پس اللہ کے نبی عیسیٰ علیہ السلام اور ان کے ساتھی اللہ کی طرف رجوع کریں گے تو اللہ تعالیٰ بختی اونٹ کی گردنوں جیسے پرندے بھیجیں گے جو انہیں اٹھا کر وہاں پھینک دیں گے' جہاں اللہ تعالیٰ چاہیں گے۔''
اسی طرح خان صاحب نے یاجوج ماجوج کے بحریہ طبریہ کے پانی پی جانے کی تاویل اہل مغرب کے پٹرول کے ذخائر پر قبضہ کرنے سے کی ہے۔ ایک جگہ لکھتے ہیں:
اب پٹرول کی پانی سے وجہ مناسبت کسی بھی صاحب عقل کی سمجھ سے بالاتر ہے۔ اور خود اسی روایت میں یہ الفاظ موجود ہیں کہ ان کا آخری شخص یہ کہے گا کہ یہاں کبھی پانی ہوا کرتا تھا جبکہ پٹرول تو اب بھی مشرق میں موجود ہے۔ پھر یہ بھی کہ شارحین حدیث نے بحیرہ طبریہ کا علاقہ اردن اور شام میں بتلایا ہے اور پٹرول کے سب سے بڑے ذخائر وینزویلا میں ہیں۔ جبکہ دوسرے نمبر پر سعودی عرب اور تیسرے نمبر پر کینیڈا میں ہیں۔ پٹرول کے پہلے اور تیسرے بڑے ذخیرے کا تعلق تو مغرب ہی سے ہے اور دوسرے کا تعلق بھی اردن یا شام سے نہیں ہے۔ بلکہ اردن یا شام تو اوپیک ممالک (Opec Countries)میں شامل ہی نہیں ہیں۔'' دریا کا پانی پی جانے سے مراد غالباً پٹرول کے ذخائر ہیں۔ ان ذخائر کا بڑا حصہ مشرقی دنیا میں تھا' لیکن جس انڈسٹری میں ان کی کھپت تھی' وہ زیادہ تر مغربی دنیا میں واقع تھیں۔ اس لیے اہل مغرب کو یہ موقع ملا کہ وہ تیل کے قدرتی ذخیروں کو اپنے یہاں لے جا کر ان کو بھرپور طور پر استعمال کر سکیں۔''(ماہنامہ الرسالة' مئی ٢٠١٠ء' ص١٣)
پھر حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا یاجوج ماجوج سے قتال نہ کر سکنا' ان کاکوہ طور پر محصور ہو جانا ' اللہ تعالیٰ کا یاجوج ماجوج کو ایک ساتھ وبائی مرض سے ہلاک کرنا اور ان کی لاشوں کو بختی اونٹ کے سروں جیسے پرندوں کا اٹھاکر لے جانا وغیرہ 'کہاں کہاں خان صاحب روایات کے حقائق کی مسخ شدہ تاویلات پیش کریں گے۔