محمد عامر یونس
خاص رکن
- شمولیت
- اگست 11، 2013
- پیغامات
- 17,117
- ری ایکشن اسکور
- 6,800
- پوائنٹ
- 1,069
میرے بھائی آپ اس حدیث کا کیا جواب دے گےاَلَّذِيْنَ يَحْمِلُوْنَ الْعَرْشَ وَمَنْ حَوْلَهٗ يُسَبِّحُوْنَ بِحَمْدِ رَبِّهِمْ وَيُؤْمِنُوْنَ بِهٖ وَيَسْتَغْفِرُوْنَ لِلَّذِيْنَ اٰمَنُوْا ۚ رَبَّنَا وَسِعْتَ كُلَّ شَيْءٍ رَّحْمَةً وَّعِلْمًا فَاغْفِرْ لِلَّذِيْنَ تَابُوْا وَاتَّبَعُوْا سَبِيْلَكَ وَقِهِمْ عَذَابَ الْجَــحِيْمِ Ċ رَبَّنَا وَاَدْخِلْهُمْ جَنّٰتِ عَدْنِۨ الَّتِيْ وَعَدْتَّهُمْ وَمَنْ صَلَحَ مِنْ اٰبَاۗىِٕـهِمْ وَاَزْوَاجِهِمْ وَذُرِّيّٰــتِهِمْ ۭ اِنَّكَ اَنْتَ الْعَزِيْزُ الْحَكِيْمُ Ďۙایصالِ ثواب کا نعم البدل
جو لوگ عرش کو اٹھائے ہوئے ہیں اور جو اسکے گردا گرد (حلقہ باندھے ہوئے) ہیں (یعنی فرشتے) وہ اپنے پروردگار کی تعریف کے ساتھ تسبیح کرتے رہتے ہیں اور اس پر ایمان لاتے ہیں اور مومنوں کیلئے بخشش مانگتے رہتے ہیں کہ اے ہمارے پروردگار تیری رحمت اور تیرا علم ہر چیز پر احاطہ کئے ہوئے ہے تو جن لوگوں نے توبہ کی اور تیرے راستے پر چلے ان کو بخش دے اور دوزخ سے بچا لے۔ اے ہمارے پروردگار ان کو ہمیشہ رہنے کی بہشتوں میں داخل کر جن کا تو نے ان سے وعدہ کیا ہے اور جو انکے باپ دادا اور ان کی بیویوں اور انکی اولاد میں سے نیک ہوں ان کو بھی بیشک تو غالب حکمت والا ہے۔
قرآن ، سورت غافر ، آیت نمبر 8-7ان آیات سے بخونی واضح ہوتا ہے کہ اللہ کے فرشتے نیک اور ایمان والے لوگوں کے لیے مغفرت، جہنم سے نجات اور جنت میں داخلہ کے لیے دعا کرتے ہیں اور اس کے ساتھ ساتھ ان لوگوں کے لیے بھی دعا کرتے ہیں جو اللہ کے حضور سچی توبہ کرتے اور اس کی راہ پر چلنے کی کوشش کرتے ہیں۔ وہ اپنی دعا میں اہلِ ایمان کے ان والدین، شریکِ حیات اور اولاد بھی شامل کر لیتے ہیں جنہوں نے نیکی کی راہ کو اپنایا ہو گا۔
اب غور کرنے کی بات ہےکہ اللہ کے وہ فرشتے جو معصوم ہیں اللہ کے عرش کو تھامے ہوئے ہیں اور ہر وقت اللہ رب العالمین کی حمد و ثناء میں لگے رہتے ہیں اگر وہ اہلِ ایمان کے لیے دعا کریں تو کیا اللہ ان کی دعاؤں کو رد کر دے گا ؟ کیا ان فرشتوں کی دعاؤں کے بعد بھی ان اہلِ ایمان کے لیے جو نیک عمل بھی کرتے ہوں ہم جیسے گنہگاروں کے من گھڑت ” ایصالِ ثواب “ کی بھی گنجائش باقی ہے ؟
اور اگر ہم بدکاریوں اور گناہوں میں ڈوبے رہیں اور اللہ کے احکامات کی مطلق پرواہ نہ کریں تو کیا ہمارا یہ من گھڑت ” ایصالِ ثواب “ ہم کو نجات دلا سکتا ہے؟ ہر گز نہیں۔
فرمایا:-
وَالَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَاتَّبَعَتْهُمْ ذُرِّيَّــتُهُمْ بِاِيْمَانٍ اَلْحَـقْنَا بِهِمْ ذُرِّيَّتَهُمْ وَمَآ اَلَتْنٰهُمْ مِّنْ عَمَلِهِمْ مِّنْ شَيْءٍ ۭ كُلُّ امْرِی بِمَا كَسَبَ رَهِيْنٌ 21
اور جو لوگ ایمان لائے اور ان کی اولاد بھی (راہِ) ایمان میں ان کے پیچھے چلی ہم ان کی اولاد کو بھی ان (کے درجے) تک پہنچا دیں گے اور ان کے اعمال میں سے کچھ کم نہ کریں گے ہر شخص اپنے اعمال میں پھنسا ہوا ہے۔
قرآن ، سورت طور ، آیت نمبر 21اس آیت میں اللہ نے فرمایا کہ آخرت میں ہم ایمان والوں اور ان کے نقشِ قدم پر چلنے والی نیک اولاد کو جنت میں ملا دیں گے یعنی اگر اولاد نیکی اور درجے میں کم ہے تو ان کے درجات بڑھا کے ان کے نیک والدین کے ساتھ اپنے فضل اور رحمت سے ملا دیں گے۔ اسی طرح یہی معاملہ والدین پر بھی قیاس کر لیں اور ان دونوں کے اعمال میں کوئی کمی نہیں ہو گی کیوں کہ اولاد اپنے والدین کی کمائی ہوتی ہے۔ لیکن والدین اور اولاد دونوں کا نیک ہونا شرط ہے۔
اس سے یہ بات واضح ہو گئی کہ ہمیں اپنے آپ کو اور اپنی اولاد کو نیکی کی راہ پر چلانا ہو گا اور وہ” ایصالِ ثواب “ جو ہمارے معاشرے میں رائج ہے وہ سرا سر قرآن و سنت کے خلاف تو ہےہی عقل کے بھی خلاف ہے۔
نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے عرض كيا:
اے اللہ تعالى كے رسول صلى اللہ عليہ وسلم ميرى والدہ فوت ہو گئى اور اس نے كچھ وصيت نہيں كى، ميرا خيال ہے كہ اگر وہ كلام كرتى تو صدقہ ضرور كرتى، اگر ميں اس كى جانب سے صدقہ كروں تو كيا اسے اجر ملےگا؟
تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا: جى ہاں"
صحيح بخارى و صحيح مسلم.