محمد فیض الابرار
سینئر رکن
- شمولیت
- جنوری 25، 2012
- پیغامات
- 3,039
- ری ایکشن اسکور
- 1,234
- پوائنٹ
- 402
مکالمہ کی ضرورت اور اہمیت
اگر ہم تاریخ کامطالعہ کریں تو یہ حقیقت کھل کر سامنے آجاتی ہے کہ دین اور مذاہب میں اختلاف کے باعث انسانی معاشرہ کبھی بھی امن وامان کو برقرار نہیں رکھ سکا کیونکہ ہر گروہ نے اپنے زعم کے مطابق اپنی سچائی اور حق کو اپنے ساتھ خاص کر لینے کی وجہ سے جارحیت پر مبنی رویہ اختیار کیاجس کا منطقی نتیجہ مخالف فریق کوغلط ثابت کرنے کی صورت میں ظاہر ہوا جس سے تاریخ کا چہرہ سیاہ ہوگیا اور اس کا سبب وہ انتہاپسندی پر مبنی تعلیمات اور بغض و عناد تھا جن کو ہر مذہب کے رہنماؤں نے عام رعب و دبدبہ پھیلانے کے لیے دوسرے مذاہب کے خلاف اختیار کیا ۔ اس کے برعکس اسلام اپنے ماننے والوں کے لیے تو امن و سلامتی کا ضامن ہے ہی غیر مسلم اس کی حدود میںمقیم ہوکر اسی امن وسلامتی کے حقدار ہیں اوراگلے مرحلے میں پوری کائنات اس امن و سلامتی کی مستحق ہے ۔
یہ امر عین فطرت ہے کہ اعتقادات کے سلسلے میں لوگوں کے مابین اختلافات فطری امرہے ارشاد باری تعالی ہے :
وَلَوْ شَاء رَبُّکَ لَجَعَلَ النَّاسَ أُمَّۃً وَاحِدَۃً وَلاَ یَزَالُونَ مُخْتَلِفِیْنَ إِلاَّ مَن رَّحِمَ رَبُّکَ وَلِذَلِکَ خَلَقَہُمْ وَتَمَّتْ کَلِمَۃُ رَبِّکَ لأَمْلأنَّ جَہَنَّمَ مِنَ الْجِنَّۃِ وَالنَّاسِ أَجْمَعِیْنَ (۲۱)
بے شک تیرارب اگر چاہتا تو تمام انسانوں کو ایک گروہ بنا سکتاتھا،مگر اب تووہ مختلف طریقوںپر ہی چلتے رہیں گے اوربے راہ رویوں سے صرف وہ لوگ بچیں گے جن پر تیرے رب کی رحمت ہے ۔ اسی آزادی انتخاب و اختیار کے لئے ہی تو اس نے انہیں پیدا کیاتھااور تیرے رب کی وہ بات پوری ہوگئی جو اس نے کہی تھی کہ میں جہنم کو جن اور انسان سب سے بھر دوںگا۔
اوراللہ تعالی نے اپنے محبوب صلی اللہ علیہ وسلم کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا :
وَمَا أَکْثَرُ النَّاسِ وَلَوْ حَرَصْتَ بِمُؤْمِنِیْنَ (۲۲)
گو آپ لاکھ چاہیں لیکن اکثر لوگ ایمان والے نہ ہوں گے
اور اسی بناء پر مسلمانوں نے یہ سمجھ لیا کہ فرد مخالف سے بھی بغض وعناد رکھناجرم ہے اور انہیں ایذاء پہنچانا منع ہے اور سب سے اہم اور روشن پہلویہ ہے کہ اسلام نے کبھی اپنے متبعین سے یہ نہیں کہا کہ کسی بھی فرد کو اپنا مذہب چھوڑکر اسلام قبول کرنے پر مجبور نہ کریں اور اس حوالے سے اللہ تعالی نے صراحتا فرمایا:
لاَ إِکْرَاہَ فِیْ الدِّیْنِ قَد تَّبَیَّنَ الرُّشْدُ مِنَ الْغَیِّ(۲۳)
دین کے بارے میں کوئی زور زبردستی نہیں ہدایت ضلالت سے روشن ہو چکی ہے
بلکہ ایک مقام پر فرمایا کہ :
وَلَوْ شَاء رَبُّکَ لآمَنَ مَن فِیْ الأَرْضِ کُلُّہُمْ جَمِیْعاً أَفَأَنتَ تُکْرِہُ النَّاسَ حَتَّی یَکُونُواْ مُؤْمِنِیْن(۲۴)
اگر تیرے رب کی مشیت یہ ہوتی (کہ زمین میں سب مومن وفرمانبردارہی ہوں) توسارے اہل زمین ایمان لے آئے ہوتے۔پھر کیا تولوگوں کو مجبورکرے گا کہ وہ مومن ہوجائیں؟
یعنی اے محمد ( رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ) نہ تو آپ کی استطاعت میں ہے اور نہ ہی اس رسالت کے فرائض میں سے ہے کہ تم لوگوں کو ایمان لانے پر مجبور کرو۔
اور اسی امر کی بناء پر مسلمانوں نے دوسرے مذاہب کے ماننے والوں کے ساتھ تعلقات قائم کیے چنانچہ جس ملک کو فتح کرتے وہاں کے باشندوں کو جزیہ کی ادائیگی کی شرط کے ساتھ ان کو اپنے مذہب پر رہنے کی اجازت دے دیتے تھے بلکہ اس جزیہ کے بدلے میں ان کی حفاظت بھی کیا کرتے تھے ان کے عقائد ان کی مذہبی رسومات اور عبادت گاہوں میں کوئی تعرض نہیں کیا کرتے تھے ۔اورایک حیران کن امریہ بھی ہے کہ اسلام نے غیر مسلموں کو وہ آزادی دی جو خود اس نے مسلمانوں کو نہیں دی چنانچہ مسلمانوںکیلئے شراب کو حرام قرار دیا مگر غیر مسلموں کواجازت دی ۔
یعنی دیگر مذاہب کے ماننے والوں کے ساتھ تعلقات کا قیام مکالمہ جات کی اصل بنیاد ہے کیونکہ تعلقات کے قائم رہنے کی صورت میں ہی دعوت اسلام کا ابلاغ ممکن ہے اور اسی وجہ سے اسلام نے اہل کتاب کے ساتھ ایسے مذہبی مباحثہ اور مجادلہ کو جائز قرار دیا ہے جس کی بنیاد عقل اور منطق پر ہو اور اس کا انحصار مخاطبین کو بہترین طریقہ کے ذریعے مطمئن کرنا ہو جیسا کہ قرآن مجید میں ہے :
وَلَا تُجَادِلُوا أَہْلَ الْکِتَابِ إِلَّا بِالَّتِیْ ہِیَ أَحْسَنُ إِلَّا الَّذِیْنَ ظَلَمُوا مِنْہُمْ وَقُولُوا آمَنَّا بِالَّذِیْ أُنزِلَ إِلَیْْنَا وَأُنزِلَ إِلَیْْکُمْ وَإِلَہُنَا وَإِلَہُکُمْ وَاحِدٌ وَنَحْنُ لَہُ مُسْلِمُون(۲۵)
اوراہل کتاب کے ساتھ بحث و مباحثہ نہ کرو مگر اس طریقہ پر جو عمدہ ہو مگر ان کے ساتھ جو ان میں ظالم ہیں اور صاف اعلان کر دو کہ ہمارا تو اس کتاب پر ایمان ہے جو ہم پر اتاری گئی اور اس پر بھی جو تم اتاری گئی ہمارا تمہارا معبود ایک ہی ہے ہم سب اسی کے حکم بردار ہیںبلکہ حسن مجادلہ کو اس طرح بیان کیا کہ :
ادْعُ إِلِی سَبِیْلِ رَبِّکَ بِالْحِکْمَۃِ وَالْمَوْعِظَۃِ الْحَسَنَۃِ وَجَادِلْہُم بِالَّتِیْ ہِیَ أَحْسَنُ (۲۶)
اپنے رب کی طرف لوگوں کو حکمت اور بہترین نصیحت کے ساتھ بلائیں اور ان سے بہترین طریقے سے گفتگو کریں یقینا آپ کا رب اپنی راہ سے بہکنے والوں کو بھی بخوبی جانتا ہے اور راہ یافتہ لوگوں سے بھی واقف ہے ۔
حکمت سے مراد وہ طریقہ گفتگو ہے جس میں مخاطب کے احوال کی مناسبت کے اعتبار سے تدابیر اختیارکی جائیں جو اس کے دل پر اثرانداز ہو سکیں اور نصیحت سے مراد یہ ہے کہ خیر خواہی و ہمدردی کے جذبہ کے ساتھ بات کہی جائے اور اس کا عنوان بھی نرم ہو دل خراش اور توہین آمیز نہ ہو ۔اور اگر اس دوران بحث مباحثہ کی نوبت آبھی جائے تو وہ شدت اور خشونت سے اور مخاطب پر الزام تراشی اور بے انصافی سے خالی ہونا چاہیے پھر اس تحقیق میں نہیں پڑنا چاہیے کہ کس نے مانی اور کس نے نہیں مانی یہ کام اللہ تعالی کا ہے ۔
درج ذیل آیات میں اللہ تعالی مسلمانوں کے معاملات کی نوعیت کو غیر مسلموں کے ساتھ ان الفاظ میں بیان کرتا ہے :
َلا یَنْہَاکُمُ اللَّہُ عَنِ الَّذِیْنَ لَمْ یُقَاتِلُوکُمْ فِیْ الدِّیْنِ وَلَمْ یُخْرِجُوکُم مِّن دِیَارِکُمْ أَن تَبَرُّوہُمْ وَتُقْسِطُوا إِلَیْْہِمْ إِنَّ اللَّہَ یُحِبُّ الْمُقْسِطِیْنَ إِنَّمَا یَنْہَاکُمُ اللَّہُ عَنِ الَّذِیْنَ قَاتَلُوکُمْ فِیْ الدِّیْنِ وَأَخْرَجُوکُم مِّن دِیَارِکُمْ وَظَاہَرُوا عَلَی إِخْرَاجِکُمْ أَن تَوَلَّوْہُمْ وَمَن یَتَوَلَّہُمْ فَأُوْلَئِکَ ہُمُ الظَّالِمُونَ(۲۷)
جن لوگوں نے تم سے دین کے بارے میں کوئی لڑائی نہیں کی اور تمہیں جلاوطن بھی نہیں کیا ان کے ساتھ سلوک واحسان کرنے اور منصفانہ بھلے برتاؤ کرنے سے اللہ تعالی تمہیں نہیں روکتا بلکہ اللہ تعالی تو انصاف کرنے والوںسے محبت رکھتا ہے۔اللہ تعالی تو تمہیں صرف ان لوگوں کی محبت سے روکتا ہے جنہوں نے تم سے دین کے بارے میں لڑائیاں کی اور تمہیں دیس نکالے دیے اور دیس نکالا دینے والوں کی مدد کی جو لوگ ایسے کفار سے محبت کریں وہ یقینا ظالم ہیں ۔
پس ان دونوں آیات میں اللہ تعالی نے اہل اسلام کو مخالف مذاہب کے ماننے والوں کے ساتھ عدل کے ساتھ معاملہ کرنے کا حکم دیا ہے اورصرف اسی پر اکتفانہیں کیا بلکہ ان کے ساتھ بر و احسان کا حکم بھی دیا ۔ مکالمہ جات میں اللہ تعالی نے اہل اسلام کو عداوت اور بغض کے مقابلے میں صلح جوئی اور محبت کی تلقین کی جیسا کہ قرآن مجید میں ہے :
عَسَی اللَّہُ أَن یَجْعَلَ بَیْْنَکُمْ وَبَیْْنَ الَّذِیْنَ عَادَیْْتُم مِّنْہُم مَّوَدَّۃً وَاللَّہُ قَدِیْرٌ وَاللَّہُ غَفُورٌ رَّحِیْم(۲۸)
کیا عجب کہ عنقریب ہی اللہ تعالی تم میں اور تمہارے دشمنوں میں محبت پیدا کر دے اللہ تعالی کو سب قدرتیں ہیں اور اللہ تعالی بہت غفور رحیم ہیں۔
یہاں یہ بات بھی واضح رہے کہ اسلام نے بات چیت کے ابتدائی مرحلہ میں ہی ایسے تمام خیالات اور اوہام کی شدت کے ساتھ نفی کی ہے جن کی بنیاد کسی بھی قسم کے تعصب یا حق کی مخالفت پرہو۔
کلام رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رو سے دیکھا جائے تو قرآن مجید کے حقائق کی تائید بلکہ ااس کی انتہائی خوبصورت توضیح ملتی ہے جیسا کہ ارشاد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہے :
لاتحد ث الباطل فیمقتوک ولاتحدث الحکمۃ للسفہاء فیکذبوک ولاتمنع العلم اھلہ فتأثم ولاتضعہ فی غیر اھلہ فتجھل ان علیک فی علمک حقا کما ان علیک فی مالک حقا(۲۹)۔
داناؤں کے سامنے بے سروپا بات نہ کیا کرو ورنہ وہ خفا ہو جائیں گے کم عقل سے اونچی بات نہ کرو ورنہ وہ تمہاری تکذیب کرے گا علم کے اہل کو علم سے محروم نہ رکھو یہ معصیت ہے ناہل سے علمی گفتگو نہ کرو ورنہ وہ تمہی کو جاہل کہے گا علم ہو یا دولت تم پر دونوں کے کچھ حقوق ہیں
اور ایک مقام پر ارشاد فرمایا : جب تم لوگوں کے سامنے ایسی گفتگو کرو گے جو ان کی رسائی سے باہر ہو تو وہ کچھ لوگوں کے لیے فتنہ بن جائے گی(۳۰)۔
اس جیسی بے شمار عمومی احادیث اس امر کو ظاہر کرتی ہیں کہ بات چیت خواہ کسی بھی مقصد کے لیے ہو ان میں کچھ آداب و قواعد کا مدنظر رکھنا ازحد ضروری ہے ۔
المختصر دو افراد یا دو اقوام یا دو مذاہب کے ماننے والوں کے مابین جب بھی مکالمہ جات کی نوبت آئے توان امور ملحوظ خاطر رکھنا بہت ضروری ہے اور ان قواعد و آداب کا تعلق صرف مکالمہ جات کے اخلاقی پہلو سے بلکہ اس کی ضرورت و اہمیت کا بھی اندازہ ہوتا ہے ۔کہ ایسا ہونا ناممکن ہے کہ کوئی قوم یا اہل مذہب باقی دنیا سے کٹ کر الگ تھلگ ہو کر زندگی گزار سکیں ۔یہ تعلقات عین فطری ہیں اور مسلمان توبین الاقوامی سچائیوں کا حامل ہے جس کے پاس علوم نبوت کے انوار موجود ہیں جسے ہر صورت میں دنیا تک پہنچانا ہے کہ وہ خیر کو اپنی ذات تک محدود نہیں رکھتا بلکہ وہ تو اپنی ذات سے بڑھ کر دوسرے مذاہب کے لیے اس خیر کا حریص ہوتا ہے ۔اور یہ عالمی و سماوی ھدف اسی وقت حاصل ہو سکتا ہے جب مکالمہ جات ممکن ہوں ۔
مکالمہ جات کی اہمیت اس سے بھی واضح ہوتی ہے کہ یہ واحد امر ہے جو ممکنہ جنگ وجدل کی راہ میں حائل ہو سکتا ہے ۔کیونکہ اختلافات کو گفتگو سے بھی زائل کیا جا سکتا ہے اور جنگ وجدل اختلافات کے ابتدائی مراحل میں کسی بھی صورت میں مستحسن نہیں سمجھا گیا کہ وہ انتہا ئی آخری حل ہے۔
یہاں ایک بات بہت اہم ہے کہ اختلافات میں مکالمہ جات کے ذریعے صرف وقت کا ضیاع ہو رہا ہو یعنی اگر ایک فریق کی بدنیتی ظاہر ہو جائے کہ وہ صرف وقت ضائع کر رہا ہے تاکہ اپنی دوسری تیاریاں مکمل کر سکے تو ایسے مکالمہ جات سے اجتناب بہتر ہے۔
اگر ہم تاریخ کامطالعہ کریں تو یہ حقیقت کھل کر سامنے آجاتی ہے کہ دین اور مذاہب میں اختلاف کے باعث انسانی معاشرہ کبھی بھی امن وامان کو برقرار نہیں رکھ سکا کیونکہ ہر گروہ نے اپنے زعم کے مطابق اپنی سچائی اور حق کو اپنے ساتھ خاص کر لینے کی وجہ سے جارحیت پر مبنی رویہ اختیار کیاجس کا منطقی نتیجہ مخالف فریق کوغلط ثابت کرنے کی صورت میں ظاہر ہوا جس سے تاریخ کا چہرہ سیاہ ہوگیا اور اس کا سبب وہ انتہاپسندی پر مبنی تعلیمات اور بغض و عناد تھا جن کو ہر مذہب کے رہنماؤں نے عام رعب و دبدبہ پھیلانے کے لیے دوسرے مذاہب کے خلاف اختیار کیا ۔ اس کے برعکس اسلام اپنے ماننے والوں کے لیے تو امن و سلامتی کا ضامن ہے ہی غیر مسلم اس کی حدود میںمقیم ہوکر اسی امن وسلامتی کے حقدار ہیں اوراگلے مرحلے میں پوری کائنات اس امن و سلامتی کی مستحق ہے ۔
یہ امر عین فطرت ہے کہ اعتقادات کے سلسلے میں لوگوں کے مابین اختلافات فطری امرہے ارشاد باری تعالی ہے :
وَلَوْ شَاء رَبُّکَ لَجَعَلَ النَّاسَ أُمَّۃً وَاحِدَۃً وَلاَ یَزَالُونَ مُخْتَلِفِیْنَ إِلاَّ مَن رَّحِمَ رَبُّکَ وَلِذَلِکَ خَلَقَہُمْ وَتَمَّتْ کَلِمَۃُ رَبِّکَ لأَمْلأنَّ جَہَنَّمَ مِنَ الْجِنَّۃِ وَالنَّاسِ أَجْمَعِیْنَ (۲۱)
بے شک تیرارب اگر چاہتا تو تمام انسانوں کو ایک گروہ بنا سکتاتھا،مگر اب تووہ مختلف طریقوںپر ہی چلتے رہیں گے اوربے راہ رویوں سے صرف وہ لوگ بچیں گے جن پر تیرے رب کی رحمت ہے ۔ اسی آزادی انتخاب و اختیار کے لئے ہی تو اس نے انہیں پیدا کیاتھااور تیرے رب کی وہ بات پوری ہوگئی جو اس نے کہی تھی کہ میں جہنم کو جن اور انسان سب سے بھر دوںگا۔
اوراللہ تعالی نے اپنے محبوب صلی اللہ علیہ وسلم کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا :
وَمَا أَکْثَرُ النَّاسِ وَلَوْ حَرَصْتَ بِمُؤْمِنِیْنَ (۲۲)
گو آپ لاکھ چاہیں لیکن اکثر لوگ ایمان والے نہ ہوں گے
اور اسی بناء پر مسلمانوں نے یہ سمجھ لیا کہ فرد مخالف سے بھی بغض وعناد رکھناجرم ہے اور انہیں ایذاء پہنچانا منع ہے اور سب سے اہم اور روشن پہلویہ ہے کہ اسلام نے کبھی اپنے متبعین سے یہ نہیں کہا کہ کسی بھی فرد کو اپنا مذہب چھوڑکر اسلام قبول کرنے پر مجبور نہ کریں اور اس حوالے سے اللہ تعالی نے صراحتا فرمایا:
لاَ إِکْرَاہَ فِیْ الدِّیْنِ قَد تَّبَیَّنَ الرُّشْدُ مِنَ الْغَیِّ(۲۳)
دین کے بارے میں کوئی زور زبردستی نہیں ہدایت ضلالت سے روشن ہو چکی ہے
بلکہ ایک مقام پر فرمایا کہ :
وَلَوْ شَاء رَبُّکَ لآمَنَ مَن فِیْ الأَرْضِ کُلُّہُمْ جَمِیْعاً أَفَأَنتَ تُکْرِہُ النَّاسَ حَتَّی یَکُونُواْ مُؤْمِنِیْن(۲۴)
اگر تیرے رب کی مشیت یہ ہوتی (کہ زمین میں سب مومن وفرمانبردارہی ہوں) توسارے اہل زمین ایمان لے آئے ہوتے۔پھر کیا تولوگوں کو مجبورکرے گا کہ وہ مومن ہوجائیں؟
یعنی اے محمد ( رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ) نہ تو آپ کی استطاعت میں ہے اور نہ ہی اس رسالت کے فرائض میں سے ہے کہ تم لوگوں کو ایمان لانے پر مجبور کرو۔
اور اسی امر کی بناء پر مسلمانوں نے دوسرے مذاہب کے ماننے والوں کے ساتھ تعلقات قائم کیے چنانچہ جس ملک کو فتح کرتے وہاں کے باشندوں کو جزیہ کی ادائیگی کی شرط کے ساتھ ان کو اپنے مذہب پر رہنے کی اجازت دے دیتے تھے بلکہ اس جزیہ کے بدلے میں ان کی حفاظت بھی کیا کرتے تھے ان کے عقائد ان کی مذہبی رسومات اور عبادت گاہوں میں کوئی تعرض نہیں کیا کرتے تھے ۔اورایک حیران کن امریہ بھی ہے کہ اسلام نے غیر مسلموں کو وہ آزادی دی جو خود اس نے مسلمانوں کو نہیں دی چنانچہ مسلمانوںکیلئے شراب کو حرام قرار دیا مگر غیر مسلموں کواجازت دی ۔
یعنی دیگر مذاہب کے ماننے والوں کے ساتھ تعلقات کا قیام مکالمہ جات کی اصل بنیاد ہے کیونکہ تعلقات کے قائم رہنے کی صورت میں ہی دعوت اسلام کا ابلاغ ممکن ہے اور اسی وجہ سے اسلام نے اہل کتاب کے ساتھ ایسے مذہبی مباحثہ اور مجادلہ کو جائز قرار دیا ہے جس کی بنیاد عقل اور منطق پر ہو اور اس کا انحصار مخاطبین کو بہترین طریقہ کے ذریعے مطمئن کرنا ہو جیسا کہ قرآن مجید میں ہے :
وَلَا تُجَادِلُوا أَہْلَ الْکِتَابِ إِلَّا بِالَّتِیْ ہِیَ أَحْسَنُ إِلَّا الَّذِیْنَ ظَلَمُوا مِنْہُمْ وَقُولُوا آمَنَّا بِالَّذِیْ أُنزِلَ إِلَیْْنَا وَأُنزِلَ إِلَیْْکُمْ وَإِلَہُنَا وَإِلَہُکُمْ وَاحِدٌ وَنَحْنُ لَہُ مُسْلِمُون(۲۵)
اوراہل کتاب کے ساتھ بحث و مباحثہ نہ کرو مگر اس طریقہ پر جو عمدہ ہو مگر ان کے ساتھ جو ان میں ظالم ہیں اور صاف اعلان کر دو کہ ہمارا تو اس کتاب پر ایمان ہے جو ہم پر اتاری گئی اور اس پر بھی جو تم اتاری گئی ہمارا تمہارا معبود ایک ہی ہے ہم سب اسی کے حکم بردار ہیںبلکہ حسن مجادلہ کو اس طرح بیان کیا کہ :
ادْعُ إِلِی سَبِیْلِ رَبِّکَ بِالْحِکْمَۃِ وَالْمَوْعِظَۃِ الْحَسَنَۃِ وَجَادِلْہُم بِالَّتِیْ ہِیَ أَحْسَنُ (۲۶)
اپنے رب کی طرف لوگوں کو حکمت اور بہترین نصیحت کے ساتھ بلائیں اور ان سے بہترین طریقے سے گفتگو کریں یقینا آپ کا رب اپنی راہ سے بہکنے والوں کو بھی بخوبی جانتا ہے اور راہ یافتہ لوگوں سے بھی واقف ہے ۔
حکمت سے مراد وہ طریقہ گفتگو ہے جس میں مخاطب کے احوال کی مناسبت کے اعتبار سے تدابیر اختیارکی جائیں جو اس کے دل پر اثرانداز ہو سکیں اور نصیحت سے مراد یہ ہے کہ خیر خواہی و ہمدردی کے جذبہ کے ساتھ بات کہی جائے اور اس کا عنوان بھی نرم ہو دل خراش اور توہین آمیز نہ ہو ۔اور اگر اس دوران بحث مباحثہ کی نوبت آبھی جائے تو وہ شدت اور خشونت سے اور مخاطب پر الزام تراشی اور بے انصافی سے خالی ہونا چاہیے پھر اس تحقیق میں نہیں پڑنا چاہیے کہ کس نے مانی اور کس نے نہیں مانی یہ کام اللہ تعالی کا ہے ۔
درج ذیل آیات میں اللہ تعالی مسلمانوں کے معاملات کی نوعیت کو غیر مسلموں کے ساتھ ان الفاظ میں بیان کرتا ہے :
َلا یَنْہَاکُمُ اللَّہُ عَنِ الَّذِیْنَ لَمْ یُقَاتِلُوکُمْ فِیْ الدِّیْنِ وَلَمْ یُخْرِجُوکُم مِّن دِیَارِکُمْ أَن تَبَرُّوہُمْ وَتُقْسِطُوا إِلَیْْہِمْ إِنَّ اللَّہَ یُحِبُّ الْمُقْسِطِیْنَ إِنَّمَا یَنْہَاکُمُ اللَّہُ عَنِ الَّذِیْنَ قَاتَلُوکُمْ فِیْ الدِّیْنِ وَأَخْرَجُوکُم مِّن دِیَارِکُمْ وَظَاہَرُوا عَلَی إِخْرَاجِکُمْ أَن تَوَلَّوْہُمْ وَمَن یَتَوَلَّہُمْ فَأُوْلَئِکَ ہُمُ الظَّالِمُونَ(۲۷)
جن لوگوں نے تم سے دین کے بارے میں کوئی لڑائی نہیں کی اور تمہیں جلاوطن بھی نہیں کیا ان کے ساتھ سلوک واحسان کرنے اور منصفانہ بھلے برتاؤ کرنے سے اللہ تعالی تمہیں نہیں روکتا بلکہ اللہ تعالی تو انصاف کرنے والوںسے محبت رکھتا ہے۔اللہ تعالی تو تمہیں صرف ان لوگوں کی محبت سے روکتا ہے جنہوں نے تم سے دین کے بارے میں لڑائیاں کی اور تمہیں دیس نکالے دیے اور دیس نکالا دینے والوں کی مدد کی جو لوگ ایسے کفار سے محبت کریں وہ یقینا ظالم ہیں ۔
پس ان دونوں آیات میں اللہ تعالی نے اہل اسلام کو مخالف مذاہب کے ماننے والوں کے ساتھ عدل کے ساتھ معاملہ کرنے کا حکم دیا ہے اورصرف اسی پر اکتفانہیں کیا بلکہ ان کے ساتھ بر و احسان کا حکم بھی دیا ۔ مکالمہ جات میں اللہ تعالی نے اہل اسلام کو عداوت اور بغض کے مقابلے میں صلح جوئی اور محبت کی تلقین کی جیسا کہ قرآن مجید میں ہے :
عَسَی اللَّہُ أَن یَجْعَلَ بَیْْنَکُمْ وَبَیْْنَ الَّذِیْنَ عَادَیْْتُم مِّنْہُم مَّوَدَّۃً وَاللَّہُ قَدِیْرٌ وَاللَّہُ غَفُورٌ رَّحِیْم(۲۸)
کیا عجب کہ عنقریب ہی اللہ تعالی تم میں اور تمہارے دشمنوں میں محبت پیدا کر دے اللہ تعالی کو سب قدرتیں ہیں اور اللہ تعالی بہت غفور رحیم ہیں۔
یہاں یہ بات بھی واضح رہے کہ اسلام نے بات چیت کے ابتدائی مرحلہ میں ہی ایسے تمام خیالات اور اوہام کی شدت کے ساتھ نفی کی ہے جن کی بنیاد کسی بھی قسم کے تعصب یا حق کی مخالفت پرہو۔
کلام رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رو سے دیکھا جائے تو قرآن مجید کے حقائق کی تائید بلکہ ااس کی انتہائی خوبصورت توضیح ملتی ہے جیسا کہ ارشاد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہے :
لاتحد ث الباطل فیمقتوک ولاتحدث الحکمۃ للسفہاء فیکذبوک ولاتمنع العلم اھلہ فتأثم ولاتضعہ فی غیر اھلہ فتجھل ان علیک فی علمک حقا کما ان علیک فی مالک حقا(۲۹)۔
داناؤں کے سامنے بے سروپا بات نہ کیا کرو ورنہ وہ خفا ہو جائیں گے کم عقل سے اونچی بات نہ کرو ورنہ وہ تمہاری تکذیب کرے گا علم کے اہل کو علم سے محروم نہ رکھو یہ معصیت ہے ناہل سے علمی گفتگو نہ کرو ورنہ وہ تمہی کو جاہل کہے گا علم ہو یا دولت تم پر دونوں کے کچھ حقوق ہیں
اور ایک مقام پر ارشاد فرمایا : جب تم لوگوں کے سامنے ایسی گفتگو کرو گے جو ان کی رسائی سے باہر ہو تو وہ کچھ لوگوں کے لیے فتنہ بن جائے گی(۳۰)۔
اس جیسی بے شمار عمومی احادیث اس امر کو ظاہر کرتی ہیں کہ بات چیت خواہ کسی بھی مقصد کے لیے ہو ان میں کچھ آداب و قواعد کا مدنظر رکھنا ازحد ضروری ہے ۔
المختصر دو افراد یا دو اقوام یا دو مذاہب کے ماننے والوں کے مابین جب بھی مکالمہ جات کی نوبت آئے توان امور ملحوظ خاطر رکھنا بہت ضروری ہے اور ان قواعد و آداب کا تعلق صرف مکالمہ جات کے اخلاقی پہلو سے بلکہ اس کی ضرورت و اہمیت کا بھی اندازہ ہوتا ہے ۔کہ ایسا ہونا ناممکن ہے کہ کوئی قوم یا اہل مذہب باقی دنیا سے کٹ کر الگ تھلگ ہو کر زندگی گزار سکیں ۔یہ تعلقات عین فطری ہیں اور مسلمان توبین الاقوامی سچائیوں کا حامل ہے جس کے پاس علوم نبوت کے انوار موجود ہیں جسے ہر صورت میں دنیا تک پہنچانا ہے کہ وہ خیر کو اپنی ذات تک محدود نہیں رکھتا بلکہ وہ تو اپنی ذات سے بڑھ کر دوسرے مذاہب کے لیے اس خیر کا حریص ہوتا ہے ۔اور یہ عالمی و سماوی ھدف اسی وقت حاصل ہو سکتا ہے جب مکالمہ جات ممکن ہوں ۔
مکالمہ جات کی اہمیت اس سے بھی واضح ہوتی ہے کہ یہ واحد امر ہے جو ممکنہ جنگ وجدل کی راہ میں حائل ہو سکتا ہے ۔کیونکہ اختلافات کو گفتگو سے بھی زائل کیا جا سکتا ہے اور جنگ وجدل اختلافات کے ابتدائی مراحل میں کسی بھی صورت میں مستحسن نہیں سمجھا گیا کہ وہ انتہا ئی آخری حل ہے۔
یہاں ایک بات بہت اہم ہے کہ اختلافات میں مکالمہ جات کے ذریعے صرف وقت کا ضیاع ہو رہا ہو یعنی اگر ایک فریق کی بدنیتی ظاہر ہو جائے کہ وہ صرف وقت ضائع کر رہا ہے تاکہ اپنی دوسری تیاریاں مکمل کر سکے تو ایسے مکالمہ جات سے اجتناب بہتر ہے۔