محمد فیض الابرار
سینئر رکن
- شمولیت
- جنوری 25، 2012
- پیغامات
- 3,039
- ری ایکشن اسکور
- 1,234
- پوائنٹ
- 402
مکالمہ کے فوائد
مکالمہ جات کے آداب او راسالیب کے بعد اس کے فوائد اخذ کرنا بہت آسان ہے ان فوائد کا خلاصۃ بیان کیا جائے تو کہا جا سکتا ہے کہ مکالمہ جات کی دو کیفیات ہیں مثبت اور منفی یا مذموم ۔
یعنی مکالمہ جات کی وہ تمام اشکال یا صورتیں جائز اور مثبت ہیں جو بنی نوع انسان کی فلاح و بہبود اور کائنات میں امن و امان کے لیے ہوں اور بالخصوص ایسے مکالمہ جات جو مذکورۃ بالاآداب و اسالیب سے مزین ہوں ۔
اس کے علاوہ مکالمہ جات کی جتنی بھی کیفیات ہیں وہ مذموم ہیں
قرآن مجید نے حوار مذموم کے حوالے سے جو ارشاد فرمائے ان میں سے چند درج ذیل ہیں :
مَا یُجَادِلُ فِیْ آیَاتِ اللَّہِ إِلَّا الَّذِیْنَ کَفَرُوا فَلَا یَغْرُرْکَ تَقَلُّبُہُمْ فِیْ الْبِلَادِ کَذَّبَتْ قَبْلَہُمْ قَوْمُ نُوحٍ وَالْأَحْزَابُ مِن بَعْدِہِمْ وَہَمَّتْ کُلُّ أُمَّۃٍ بِرَسُولِہِمْ لِیَأْخُذُوہُ وَجَادَلُوا بِالْبَاطِلِ لِیُدْحِضُوا بِہِ الْحَقَّ فَأَخَذْتُہُمْ فَکَیْْفَ کَانَ عِقَابِ (۷۴)
اللہ کی آیات میں جھگڑے نہیں کرتے مگرصرف وہ لوگ جنہوں نے کفرکیا ہے ۔اس کے بعددنیا کے ملکوں میں ان کی چلت پھرت تمہیں دھوکے میںنہ ڈالے ۔ان سے پہلے نوح کی قوم بھی جھٹلاچکی ہے اور اس کے بعد بہت سے دوسرے جتھوں نے بھی یہ کام کیاہے ۔ہرقوم اپنے رسول پر جھپٹی تاکہ اسے گرفتارکرے ۔ان سب نے باطل کے ہتھیاروں سے حق کو نیچادکھانے کی کوشش کی ۔مگر آخر کار مین نے ان کو پکڑلیا ،پھر دیکھ لوکہ میرسزاکیسی سخت تھی ۔
أَلَمْ تَرَ إِلَی الَّذِیْنَ نُہُوا عَنِ النَّجْوَی ثُمَّ یَعُودُونَ لِمَا نُہُوا عَنْہُ وَیَتَنَاجَوْنَ بِالْإِثْمِ وَالْعُدْوَانِ وَمَعْصِیَتِ الرَّسُولِ وَإِذَا جَاؤُوکَ حَیَّوْکَ بِمَا لَمْ یُحَیِّکَ بِہِ اللَّہُ وَیَقُولُونَ فِیْ أَنفُسِہِمْ لَوْلَا یُعَذِّبُنَا اللَّہُ بِمَا نَقُولُ حَسْبُہُمْ جَہَنَّمُ یَصْلَوْنَہَا فَبِئْسَ الْمَصِیْرُ یَا أَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُوا إِذَا تَنَاجَیْْتُمْ فَلَا تَتَنَاجَوْا بِالْإِثْمِ وَالْعُدْوَانِ وَمَعْصِیَتِ الرَّسُولِ وَتَنَاجَوْا بِالْبِرِّ وَالتَّقْوَی وَاتَّقُوا اللَّہَ الَّذِیْ إِلَیْْہِ تُحْشَرُونَ إِنَّمَا النَّجْوَی مِنَ الشَّیْْطَانِ لِیَحْزُنَ الَّذِیْنَ آمَنُوا وَلَیْْسَ بِضَارِّہِمْ شَیْْئاً إِلَّا بِإِذْنِ اللَّہِ وَعَلَی اللَّہِ فَلْیَتَوَکَّلِ الْمُؤْمِنُونَ (۷۵)
کیا تونے ان لوگوں کو نہیں دیکھا ؟ جنہیں کانا پھوسی سے روک دیا گیا تھا پھر بھی اس روکے ہوئے کام کو دوبارہ کرتے ہیں ۔اور آپس میں گناہ کی اور ظلم و زیادتی کی اور نافرمانی پیغمبر کی سرگوشیاں کرتے ہیں اور جب تیرے پاس آتے ہیں تو تجھے ان لفظوں میں سلام کرتے ہیں جن لفظوں میں اللہ تعالی نے نہیں کیا اور اپنے دل میں کہتے ہیں کہ اللہ تعالی ہمیں اس پر جو ہم کہتے ہیں سزا کیوں نہیں دیتا ان کے لیے جہنم کافی سزا ہیجس میں یہ جائیں گے سو وہ برا ٹھکانہ ہے ۔اے ایمان والوجب تم سرگوشی کرو تو یہ سرگوشیاں گناہ اور ظلم اور نافرمانی پیغمبر کی نہ ہوں بلکہ نیکی اور پرہیز گاری کی باتوں پر سرگوشی کرو اور اس اللہ سے ڈرتے رہو جس کے پاس تم سب جمع کیے جاؤ گے۔بری سرگوشیاں پس شیطانی کام ہیں جس سے ایمان داروں کو رنج پہنچے اور ایمان والوں کو چاہیے کہ وہ اللہ تعالی پر ہی بھروسا رکھیں۔
اس آیت میں مذموم مکالمہ جات سے روکا گیا ہے او ر اس کی ایک معروف شکل بیان کی گئی ہے کہ محفل میں سرگوشیاں اور خفیہ اندازگفتگو اختیار کرنا شرعی اور اخلاقی طور پر ممنوع ہے اور مکالمہ جات میں گفتگو اور بات چیت محفل میں ہی ہوتی ہے لہذا بیان کیا گیا کہ اگر دوران مکالمہ ایسی ضرورت ہو تو اجازت لے کر الگ بات چیت کر لیں ورنہ عمومی طور یہ انداز گفتگو دلوں میں رنجشیں اور غلط فہمیاں پیدا کرے گا جس سے مذاکرات کے عمل میں اخلاص عنقا ہو جاتا ہے ۔
مکالمہ جات کے اہم فوائد کے بارے میں کہا جا سکتا ہے کہ مکالمہ وہ واحد ذریعہ ہے جو مختلف مذاہب اور اہل افکار کو نزدیک لا سکتا ہے کیونکہ ایک دوسرے کا موقف سننے کی صورت میں حق بیان ہو گا اور کسی ایک نقطہ پر اتفاق ہوسکے گا۔
مکالمہ جات کے آداب او راسالیب کے بعد اس کے فوائد اخذ کرنا بہت آسان ہے ان فوائد کا خلاصۃ بیان کیا جائے تو کہا جا سکتا ہے کہ مکالمہ جات کی دو کیفیات ہیں مثبت اور منفی یا مذموم ۔
یعنی مکالمہ جات کی وہ تمام اشکال یا صورتیں جائز اور مثبت ہیں جو بنی نوع انسان کی فلاح و بہبود اور کائنات میں امن و امان کے لیے ہوں اور بالخصوص ایسے مکالمہ جات جو مذکورۃ بالاآداب و اسالیب سے مزین ہوں ۔
اس کے علاوہ مکالمہ جات کی جتنی بھی کیفیات ہیں وہ مذموم ہیں
قرآن مجید نے حوار مذموم کے حوالے سے جو ارشاد فرمائے ان میں سے چند درج ذیل ہیں :
مَا یُجَادِلُ فِیْ آیَاتِ اللَّہِ إِلَّا الَّذِیْنَ کَفَرُوا فَلَا یَغْرُرْکَ تَقَلُّبُہُمْ فِیْ الْبِلَادِ کَذَّبَتْ قَبْلَہُمْ قَوْمُ نُوحٍ وَالْأَحْزَابُ مِن بَعْدِہِمْ وَہَمَّتْ کُلُّ أُمَّۃٍ بِرَسُولِہِمْ لِیَأْخُذُوہُ وَجَادَلُوا بِالْبَاطِلِ لِیُدْحِضُوا بِہِ الْحَقَّ فَأَخَذْتُہُمْ فَکَیْْفَ کَانَ عِقَابِ (۷۴)
اللہ کی آیات میں جھگڑے نہیں کرتے مگرصرف وہ لوگ جنہوں نے کفرکیا ہے ۔اس کے بعددنیا کے ملکوں میں ان کی چلت پھرت تمہیں دھوکے میںنہ ڈالے ۔ان سے پہلے نوح کی قوم بھی جھٹلاچکی ہے اور اس کے بعد بہت سے دوسرے جتھوں نے بھی یہ کام کیاہے ۔ہرقوم اپنے رسول پر جھپٹی تاکہ اسے گرفتارکرے ۔ان سب نے باطل کے ہتھیاروں سے حق کو نیچادکھانے کی کوشش کی ۔مگر آخر کار مین نے ان کو پکڑلیا ،پھر دیکھ لوکہ میرسزاکیسی سخت تھی ۔
أَلَمْ تَرَ إِلَی الَّذِیْنَ نُہُوا عَنِ النَّجْوَی ثُمَّ یَعُودُونَ لِمَا نُہُوا عَنْہُ وَیَتَنَاجَوْنَ بِالْإِثْمِ وَالْعُدْوَانِ وَمَعْصِیَتِ الرَّسُولِ وَإِذَا جَاؤُوکَ حَیَّوْکَ بِمَا لَمْ یُحَیِّکَ بِہِ اللَّہُ وَیَقُولُونَ فِیْ أَنفُسِہِمْ لَوْلَا یُعَذِّبُنَا اللَّہُ بِمَا نَقُولُ حَسْبُہُمْ جَہَنَّمُ یَصْلَوْنَہَا فَبِئْسَ الْمَصِیْرُ یَا أَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُوا إِذَا تَنَاجَیْْتُمْ فَلَا تَتَنَاجَوْا بِالْإِثْمِ وَالْعُدْوَانِ وَمَعْصِیَتِ الرَّسُولِ وَتَنَاجَوْا بِالْبِرِّ وَالتَّقْوَی وَاتَّقُوا اللَّہَ الَّذِیْ إِلَیْْہِ تُحْشَرُونَ إِنَّمَا النَّجْوَی مِنَ الشَّیْْطَانِ لِیَحْزُنَ الَّذِیْنَ آمَنُوا وَلَیْْسَ بِضَارِّہِمْ شَیْْئاً إِلَّا بِإِذْنِ اللَّہِ وَعَلَی اللَّہِ فَلْیَتَوَکَّلِ الْمُؤْمِنُونَ (۷۵)
کیا تونے ان لوگوں کو نہیں دیکھا ؟ جنہیں کانا پھوسی سے روک دیا گیا تھا پھر بھی اس روکے ہوئے کام کو دوبارہ کرتے ہیں ۔اور آپس میں گناہ کی اور ظلم و زیادتی کی اور نافرمانی پیغمبر کی سرگوشیاں کرتے ہیں اور جب تیرے پاس آتے ہیں تو تجھے ان لفظوں میں سلام کرتے ہیں جن لفظوں میں اللہ تعالی نے نہیں کیا اور اپنے دل میں کہتے ہیں کہ اللہ تعالی ہمیں اس پر جو ہم کہتے ہیں سزا کیوں نہیں دیتا ان کے لیے جہنم کافی سزا ہیجس میں یہ جائیں گے سو وہ برا ٹھکانہ ہے ۔اے ایمان والوجب تم سرگوشی کرو تو یہ سرگوشیاں گناہ اور ظلم اور نافرمانی پیغمبر کی نہ ہوں بلکہ نیکی اور پرہیز گاری کی باتوں پر سرگوشی کرو اور اس اللہ سے ڈرتے رہو جس کے پاس تم سب جمع کیے جاؤ گے۔بری سرگوشیاں پس شیطانی کام ہیں جس سے ایمان داروں کو رنج پہنچے اور ایمان والوں کو چاہیے کہ وہ اللہ تعالی پر ہی بھروسا رکھیں۔
اس آیت میں مذموم مکالمہ جات سے روکا گیا ہے او ر اس کی ایک معروف شکل بیان کی گئی ہے کہ محفل میں سرگوشیاں اور خفیہ اندازگفتگو اختیار کرنا شرعی اور اخلاقی طور پر ممنوع ہے اور مکالمہ جات میں گفتگو اور بات چیت محفل میں ہی ہوتی ہے لہذا بیان کیا گیا کہ اگر دوران مکالمہ ایسی ضرورت ہو تو اجازت لے کر الگ بات چیت کر لیں ورنہ عمومی طور یہ انداز گفتگو دلوں میں رنجشیں اور غلط فہمیاں پیدا کرے گا جس سے مذاکرات کے عمل میں اخلاص عنقا ہو جاتا ہے ۔
مکالمہ جات کے اہم فوائد کے بارے میں کہا جا سکتا ہے کہ مکالمہ وہ واحد ذریعہ ہے جو مختلف مذاہب اور اہل افکار کو نزدیک لا سکتا ہے کیونکہ ایک دوسرے کا موقف سننے کی صورت میں حق بیان ہو گا اور کسی ایک نقطہ پر اتفاق ہوسکے گا۔