• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

مکمل صحیح بخاری اردو ترجمہ و تشریح جلد ٣ - حدیث نمبر١٦٥٥ تا ٢٤٩٠

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب المظالم والغصب
باب : مظلوم کی مدد کرنا واجب ہے

گو وہ کافر ذمی ہو۔ ایک حدیث میں ہے جس کو طحاوی نے حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے نکالا ہے کہ اللہ نے ایک بندے کے لیے حکم دیا، اس کو قبر میں سو کوڑے لگائے جائیں۔ وہ دعا اور عاجزی کرنے لگا، آخر ایک کوڑا رہ گیا، لیکن ایک ہی کوڑے سے اس کی ساری قبر آگ سے بھر پور ہو گئی۔ جب وہ حالت جاتی رہی تو اس نے پوچھا، مجھ کو یہ سزا کیوں ملی؟ فرشتوں نے کہا تو نے ایک نماز بے طہارت پڑھ لی تھی اور ایک مظلوم کو دیکھ کر اس کی مدد نہیں کی تھی۔ ( وحیدی )
معلوم ہوا کہ مظلوم کی ہر ممکن امداد کرنا ہر بھائی کا ایک اہم انسانی فریضہ ہے۔ جیسا کہ اس روایت سے ظاہر ہے عن سہل بن حنیف عن النبی صلی اللہ علیہ وسلم قال من اذل عندہ مومن فلم ینصرہ و ہو یقدر علی ان ینصرہ اذلہ اللہ عزوجل علی روس الخلائق یوم القیمۃ رواہ احمد یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جس شخص کے سامنے کسی مومن کو ذلیل کیا جارہا ہے۔ اور وہ باوجود قدرت کے اس کی مدد نہ کرے تو قیامت کے دن اللہ پاک اسے ساری مخلوق کے سامنے ذلیل کرے گا۔

امام شوکانی فرماتے ہیں و ذہب جمہور الصحابۃ و التابعین الی وجوب نصر الحق و قتال الباغین ( نیل ) یعنی صحابہ و تابعین اور عام علمائے اسلام کا یہی فتویٰ ہے کہ حق کی مدد کے لیے کھڑا ہونا اور باغیوں سے لڑنا واجب ہے۔

حدیث نمبر : 2445
حدثنا سعيد بن الربيع، حدثنا شعبة، عن الأشعث بن سليم، قال سمعت معاوية بن سويد، سمعت البراء بن عازب ـ رضى الله عنهما ـ قال أمرنا النبي صلى الله عليه وسلم بسبع، ونهانا عن سبع‏.‏ فذكر عيادة المريض، واتباع الجنائز، وتشميت العاطس، ورد السلام، ونصر المظلوم، وإجابة الداعي، وإبرار المقسم‏.
ہم سے سعید بن ربیع نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے شعبہ نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے اشعث بن سلیم نے بیان کیا، کہ میں نے معاویہ بن سوید سے سنا، انہوں نے براءبن عازب رضی اللہ عنہ سے سنا، آپ نے بیان کیا تھا کہ ہمیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سات چیزوں کو حکم فرمایا تھا اور سات ہی چیزوں سے منع بھی فرمایا تھا ( جن چیزوں کا حکم فرمایا تھا ان میں ) انہوں نے مریض کی عیادت، جنازے کے پیچھے چلنے، چھینکنے والے کا جواب دینے، سلام کا جواب دینے، مظلوم کی مدد کرنے، دعوت کرنے والے ( کی دعوت ) قبول کرنے، اور قسم پوری کرنے کا ذکر کیا۔

سات مذکورہ کاموں کی اہمیت پر روشنی ڈالنا سورج کو چراغ دکھلانا ہے اس میں مظلوم کی مدد کرنے کا بھی ذکر ہے۔ اسی مناسبت سے اس حدیث کو یہاں درج کیا گیا۔

حدیث نمبر : 2446
حدثنا محمد بن العلاء، حدثنا أبو أسامة، عن بريد، عن أبي بردة، عن أبي موسى ـ رضى الله عنه ـ عن النبي صلى الله عليه وسلم قال ‏"‏المؤمن للمؤمن كالبنيان يشد بعضه بعضا‏"‏‏. ‏ وشبك بين أصابعه‏.
ہم سے محمد بن علاءنے بیان کیا، کہا کہ ہم سے ابواسامہ نے بیان کیا، ان سے برید نے، ان سے ابوبردہ نے اور ان سے ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ نے، انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ایک مومن دوسرے مومن کے ساتھ ایک عمارت کے حکم میں ہے کہ ایک کو دسرے سے قوت پہنچتی ہے۔ اورآپ نے اپنی ایک ہاتھ کی انگلیوں کو دوسرے ہاتھ کی انگلیوں کے اندرکیا۔

کاش ! ہر مسلمان اس حدیث کو یاد رکھتا اور ہر مومن بھائی کے ساتھ بھائیوں جیسی محبت رکھتا تو مسلمانوں کو یہ دن نہ دیکھنے ہوتے جو آج کل دیکھ رہے ہیں۔ اللہ اب بھی اہل اسلام کو سمجھ دے کہ وہ اپنے پیارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی ہدایت پر عمل کرکے اپنا کھویا ہوا وقار حاصل کریں۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب المظالم والغصب
باب : ظالم سے بدلہ لینا کیوں کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے کہ

لقوله جل ذكره ‏{‏لا يحب الله الجهر بالسوء من القول إلا من ظلم وكان الله سميعا عليما‏}‏‏.‏ ‏{‏والذين إذا أصابهم البغى هم ينتصرون‏}‏‏.‏ قال إبراهيم كانوا يكرهون أن يستذلوا، فإذا قدروا عفوا‏.‏
” اللہ تعالیٰ بری بات کے اعلان کو پسند نہیں کرتا۔ سوا اس کے جس پر ظلم کیا گیا ہو، اور اللہ تعالیٰ سننے والا اور جاننے والا ہے۔ “ ( اور اللہ تعالیٰ کا فرمان کہ ) ” اور وہ لوگ کہ جن پر ظلم ہوتا ہے تو وہ اس کا بدلہ لے لیتے ہیں۔ “ ابراہیم نے کہا کہ سلف ذلیل ہونا پسند نہیں کرتے تھے، لیکن جب انہیں ( ظالم پر ) قابو حاصل ہو جاتا تو اسے معاف کر دیا کرتے تھے۔

یعنی ظالم کے مقابلہ پر بڑھیوں کی طرح عاجز ذلیل نہیں ہو جاتے بلکہ اتنا ہی انصاف سے بدلہ لیتے ہیں جتنا ان پر ظلم ہوا۔ ورنہ خود ظالم بن جائیں گے۔ اس آیت سے ثابت ہوا کہ ظالم سے بقدر ظلم کے بدلہ لینا درست ہے۔ لیکن معاف کر دینا افضل ہے جیسا کہ سلف کا طور طریقہ مذکور ہوا ہے اور آگے حدیث میں آتا ہے۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب المظالم والغصب
باب : ظالم کو معاف کر دینا

لقوله تعالى ‏{‏إن تبدوا خيرا أو تخفوه أو تعفوا عن سوء فإن الله كان عفوا قديرا‏}‏ ‏{‏وجزاء سيئة سيئة مثلها فمن عفا وأصلح فأجره على الله إنه لا يحب الظالمين * ولمن انتصر بعد ظلمه فأولئك ما عليهم من سبيل * إنما السبيل على الذين يظلمون الناس ويبغون في الأرض بغير الحق أولئك لهم عذاب أليم * ولمن صبر وغفر إن ذلك لمن عزم الأمور‏}‏ ‏{‏وترى الظالمين لما رأوا العذاب يقولون هل إلى مرد من سبيل ‏}‏
اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ” اگر تم کھلم کھلا طور پر کوئی نیکی کرو یا پوشیدہ طور پریاکسی کے برے معاملہ پر معافی سے کام لو، تو خداوند تعالیٰ بہت زیادہ معاف کرنے والا اور بہت بڑی قدرت والا ہے ( سورۃ شوریٰ میں فرمایا ) اور برائی کا بدلہ اسی جیسی برائی سے بھی ہو سکتا ہے، لیکن جو معاف کردے اور درستگی معاملہ کو باقی رکھے تو اس کا اجر اللہ تعالیٰ ہی پر ہے۔ بے شک اللہ تعالیٰ ظلم کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا۔ اور جس نے اپنے پر ظلم کئے جانے کے بعد اس کا ( جائز ) بدلہ لیا تو ان پر کوئی گناہ نہیں ہے۔ گناہ تو ان پر ہے جو لوگوں پر ظلم کرتے ہیں اور زمین پر ناحق فساد کرتے ہیں، یہی ہیں وہ لوگ جن کو دردناک عذاب ہوگا۔ لیکن جس شخص نے ( ظلم پر ) صبر کیا اور ( ظالم کو ) معاف کیا تو یہ نہایت ہی بہادری کا کام ہے۔ اور اے پیغمبر ! تو ظالموں کو دیکھے گا جب وہ عذاب دیکھ لیں گے تو کہیں گے اب کوئی دنیا میں پھر جانے کی بھی صورت ہے؟
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب المظالم والغصب
باب : ظلم، قیامت کے دن اندھیرے ہوں گے

یعنی ظالم کو قیامت کے دن نور نہ ملے گا، اندھیرے پر اندھیرا، ان اندھیروں میں وہ دھکے کھاتا مصیبت اٹھاتا پھرے گا۔

حدیث نمبر : 2447
حدثنا أحمد بن يونس، حدثنا عبد العزيز الماجشون، أخبرنا عبد الله بن دينار، عن عبد الله بن عمر ـ رضى الله عنهما ـ عن النبي صلى الله عليه وسلم قال ‏"‏الظلم ظلمات يوم القيامة‏"‏‏. ‏
ہم سے احمد بن یونس نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے عبدالعزیز ماجشون نے بیان کیا، انہیں عبداللہ بن دینار نے خبر دی، اور انہیں عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، ظلم قیامت کے دن اندھیرے ہوں گے۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب المظالم والغصب
باب : مظلوم کی بددعا سے بچنا اور ڈرتے رہنا

حدیث نمبر : 2448
حدثنا يحيى بن موسى، حدثنا وكيع، حدثنا زكرياء بن إسحاق المكي، عن يحيى بن عبد الله بن صيفي، عن أبي معبد، مولى ابن عباس عن ابن عباس ـ رضى الله عنهما ـ أن النبي صلى الله عليه وسلم بعث معاذا إلى اليمن، فقال ‏"‏اتق دعوة المظلوم، فإنها ليس بينها وبين الله حجاب‏"‏‏. ‏
ہم سے یحییٰ بن موسیٰ نے بیان کیا، کہا ہم سے وکیع نے بیان کیا، کہا ہم سے زکریا بن اسحاق مکی نے بیان کیا، ان سے یحییٰ بن عبداللہ صیفی نے، ان سے ابن عباس رضی اللہ عنہما کے غلام ابومعبد نے، اور ان سے ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے معاذ رضی اللہ عنہ کو جب ( عامل بنا کر ) یمن بھیجا، تو آپ نے انہیں ہدایت فرمائی کہ مظلوم کی بددعا سے ڈرتے رہنا کہ اس کے اور اللہ تعالیٰ کے درمیان کوئی پردہ نہیں ہوتا۔

تشریح : یعنی وہ فوراً پروردگار تک پہنچ جاتی ہے اور ظالم کی خرابی ہوتی ہے۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ ظالم کو اسی وقت سزا ہوتی ہے بلکہ اللہ پاک جس طرح چاہتا ہے ویسے حکم دیتا ہے۔ کبھی فوراً سزا دیتا ہے۔ کبھی ایک میعاد کے بعد تاکہ ظالم اور ظلم کرے اور خوب پھول جائے اس وقت دفعتاًوہ پکڑ لیا جاتا ہے۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے جو فرعون کے ظلم سے تنگ آکر بد دعا کی، چالیس برس کے بعد اس کا اثر ظاہر ہوا۔ بہرحال ظالم کو یہ خیال نہ کرنا چاہئے کہ ہم نے ظلم کیا اور کچھ سزا نہ ملی، خدا کے ہاں انصاف کے لیے دیر تو ممکن ہے مگر اندھیر نہیں ہے ۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب المظالم والغصب
باب : اگر کسی شخص نے دوسرے پر کوئی ظلم کیا ہو اور اس سے معاف کرائے تو کیا اس ظلم کو بھی بیان کرنا ضروری ہے

کہ میں نے فلاں قصور کیا تھا، بعض نے کہا کہ قصور کا بیان کرنا ضروری ہے۔ اور بعض نے کہا ضروری نہیں، مجملاً اس سے معاف کرا لینا کافی ہے اور یہی صحیح ہے کیوں کہ حدیث مطلق ہے۔

حدیث نمبر : 2449
حدثنا آدم بن أبي إياس، حدثنا ابن أبي ذئب، حدثنا سعيد المقبري، عن أبي هريرة ـ رضى الله عنه ـ قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم ‏"‏من كانت له مظلمة لأحد من عرضه أو شىء فليتحلله منه اليوم، قبل أن لا يكون دينار ولا درهم، إن كان له عمل صالح أخذ منه بقدر مظلمته، وإن لم تكن له حسنات أخذ من سيئات صاحبه فحمل عليه‏"‏‏. ‏ قال أبو عبد الله قال إسماعيل بن أبي أويس إنما سمي المقبري لأنه كان نزل ناحية المقابر‏.‏ قال أبو عبد الله وسعيد المقبري هو مولى بني ليث، وهو سعيد بن أبي سعيد، واسم أبي سعيد كيسان‏.‏
ہم سے آدم بن ابی ایاس نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے ابن ابی ذئب نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے سعید مقبری نے بیان کیا، اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، اگر کسی شخص کا ظلم کسی دوسرے کی عزت پر ہو یا کسی طریقہ ( سے ظلم کیا ہو ) تو آج ہی، اس دن کے آنے سے پہلے معاف کرالے جس دن نہ دینار ہوں گے، نہ درہم، بلکہ اگر اس کا کوئی نیک عمل ہوگا تو اس کے ظلم کے بدلے میں وہی لے لیا جائے گا اور اگر کوئی نیک عمل اس کے پاس نہیں ہوگا تو اس کے ساتھی ( مظلوم ) کی برائیاں اس پر ڈال دی جائیں گی۔ ابوعبدللہ ( حضرت امام بخاری رحمہ اللہ علیہ ) نے کہا کہ اسماعیل بن ابی اویس نے کہا سعید مقبری کا نام مقبری ا س لیے ہوا کہ قبرستان کے قریب انہوں نے قیام کیا تھا۔ ابوعبداللہ ( اما م بخاری رحمہ اللہ علیہ ) نے کہا کہ سعید مقبری ہی بنی لیث کے غلام ہیں۔ پورا نام سعید بن ابی سعید ہے ا ور ( ان کے والد ) ابوسعید کا نام کیسان ہے۔

مظلمہ ہر اس ظلم کو کہتے ہیں جسے مظلوم از راہ صبر برداشت کرلے، کوئی جانی ظلم ہو یا مالی سب پر لفظ مظلمہ کا اطلاق ہوتا ہے، کوئی شخص کسی سے اس کا مال زبردستی چھین لے تو یہ بھی مظلمہ ہے۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہدایت فرمائی کہ ظالموں کو اپنے مظالم کی فکر دنیا ہی کر لینی چاہئے۔ کہ وہ مظلوم سے معاف کرالیں، ان کا حق ادا کردیں ورنہ موت کے بعد ان سے پورا پورا بدلہ دلایا جائے گا۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب المظالم والغصب
باب : جب کسی ظلم کو معاف کر دیا توواپسی کا مطابہ بھی باقی نہیں رہا

حدیث نمبر : 2450
حدثنا محمد، أخبرنا عبد الله، أخبرنا هشام بن عروة، عن أبيه، عن عائشة ـ رضى الله عنها – ‏{‏وإن امرأة خافت من بعلها نشوزا أو إعراضا‏}‏ قالت الرجل تكون عنده المرأة، ليس بمستكثر منها، يريد أن يفارقها، فتقول أجعلك من شأني في حل‏.‏ فنزلت هذه الآية في ذلك‏.‏
ہم سے محمد نے بیان کیا، کہا ہم کو عبداللہ نے خبر دی، کہا ہم کو ہشام بن عروہ نے خبر دی، انہیں ان کے باپ نے، اور ان سے عائشہ رضی اللہ عنہا نے ( قرآن مجید کی آیت ) ” اگر کوئی عورت اپنے شوہر کی طرف سے نفرت یا اس کے منہ پھیرنے کا خوف رکھتی ہو “ کے بارے میں فرمایا کہ کسی شخص کی بیوی ہے لیکن شوہر اس کے پاس زیادہ آتا جاتا نہیں بلکہ اسے جدا کرنا چاہتا ہے اس پر اس کی بیوی کہتی ہے کہ میں اپنا حق تم سے معاف کرتی ہوں۔ اسی بارے میں یہ آیت نازل ہوئی۔

یعنی اگر شوہر میرے پاس نہیں آتا تو نہ آ، لیکن مجھ کو طلاق نہ دے، اپنی زوجیت میں رہنے دے تو یہ درست ہے۔ خاوند پر سے اس کی صحبت کے حقوق ساقط ہو جاتے ہیں۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے کہا یہ آیت اس باب میں ہے کہ عورت اپنے مرد سے جدا ہونا برا سمجھے۔ اور خاوند بیوی دونوں یہ ٹھہرا لیں کہ تیسرے یا چوتھے دن مرد اپنی عورت کے پاس آیا کرے تو یہ درست ہے۔ حضرت سودہ رضی اللہ عنہا نے اپنی باری آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو معاف کر دی تھی، آپ ان کی باری میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس رہا کرتے تھے۔ ( وحیدی
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب المظالم والغصب
باب : اگر کوئی شخص دوسرے کو اجازت دے یا اس کو معاف کر دے مگر یہ بیان نہ کرے کہ کتنے کی اجازت اور معافی دی ہے

حدیث نمبر : 2451
حدثنا عبد الله بن يوسف، أخبرنا مالك، عن أبي حازم بن دينار، عن سهل بن سعد الساعدي ـ رضى الله عنه ـ أن رسول الله صلى الله عليه وسلم أتي بشراب، فشرب منه وعن يمينه غلام وعن يساره الأشياخ، فقال للغلام ‏"‏أتأذن لي أن أعطي هؤلاء‏"‏‏. ‏ فقال الغلام لا والله يا رسول الله لا أوثر بنصيبي منك أحدا‏.‏ قال فتله رسول الله صلى الله عليه وسلم في يده‏.‏
ہم سے عبداللہ بن یوسف نے بیان کیا، کہا ہم کو امام مالک نے خبر دی، انہیں ابوحازم بن دینار نے اور انہیں سہل بن سعد ساعدی رضی اللہ عنہ نے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں دودھ یا پانی پینے کو پیش کیا گیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے پیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دائیں طرف ایک لڑکا تھا اور بائیں طرف بڑی عمر والے تھے۔ لڑکے سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کیا تم مجھے اس کی اجازت دو گے کہ ان لوگوں کو یہ ( پیالہ ) دے دوں؟ لڑکے نے کہا، نہیں اللہ کی قسم ! یا رسول اللہ آپ کی طرف سے ملنے والے حصے کا ایثار میں کسی پر نہیں کر سکتا۔ راوی نے بیان کیا کہ آخر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے وہ پیالہ اسی لڑکے کو دے دیا۔

کیوں کہ اس کا حق مقدم تھا وہ داہنی طرف بیٹھا تھا۔ اس حدیث کی باب سے مناسبت کے لیے بعض نے کہا کہ حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے باب کا مطلب یوں نکالا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے پہلے وہ پیالہ بوڑھے لوگوں کو دینے کی ابن عباس رضی اللہ عنہما سے اجازت مانگی اگر وہ اجازت دے دیتے تو یہ اجازت ایسی ہی ہوتی جس کی مقدار بیان نہیں ہوئی۔ یعنی یہ بیان نہیں کیا گیا کہ کتنے دودھ کی اجازت ہے۔ پس باب کا مطلب نکل آیا۔ ( وحیدی
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب المظالم والغصب
باب : اس شخص کا گناہ جس نے کسی کی زمین ظلم سے چھین لی

حدیث نمبر : 2452
حدثنا أبو اليمان، أخبرنا شعيب، عن الزهري، قال حدثني طلحة بن عبد الله، أن عبد الرحمن بن عمرو بن سهل، أخبره أن سعيد بن زيد ـ رضى الله عنه ـ قال سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول ‏"‏من ظلم من الأرض شيئا طوقه من سبع أرضين‏"‏‏. ‏
ہم سے ابوالیمان نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم کو شعیب نے خبر دی، انہوں نے کہا کہ ہم سے زہری نے بیان کیا، ان سے طلحہ بن عبداللہ نے بیان کیا، انہیں عبدالرحمن بن عمرو بن سہل نے خبر دی اور ان سے سعید بن زید رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ میں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جس نے کسی کی زمین ظلم سے لے لی، اسے قیامت کے دن سات زمینوں کا طوق پہنایا جائے گا۔

تشریح : زمین کے سات طبقے ہیں۔ جس نے بالشت بھر زمین بھی چھینی تو ساتوں طبقوں تک گویا اس کو چھینا۔ اس لیے قیامت کے دن ان سب کا طوق اس کے گلے میں ہوگا۔ دوسری روایت میں ہے کہ وہ سب مٹی اٹھا کر لانے کا اس کو حکم دیا جائے گا۔ بعض نے کہا طوق پہنانے کا مطلب یہ ہے کہ ساتوں طبقوں تک اس میں دھنسا دیا جائے گا۔ حدیث سے بعض نے یہ نکالا کہ زمینیں سات ہیں جیسے آسمان سات ہیں۔ ( وحیدی )

حدیث نمبر : 2453
حدثنا أبو معمر، حدثنا عبد الوارث، حدثنا حسين، عن يحيى بن أبي كثير، قال حدثني محمد بن إبراهيم، أن أبا سلمة، حدثه أنه، كانت بينه وبين أناس خصومة، فذكر لعائشة ـ رضى الله عنها ـ فقالت يا أبا سلمة اجتنب الأرض، فإن النبي صلى الله عليه وسلم قال ‏"‏من ظلم قيد شبر من الأرض طوقه من سبع أرضين‏"‏‏. ‏
ہم سے ابومعمر نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے عبدالوارث نے بیان کیا، ان سے حسین نے بیان کیا، ان سے یحییٰ بن ابی کثیر نے کہ مجھ سے محمد بن ابراہیم نے بیان کیا، ان سے ابوسلمہ نے بیان کیا کہ ان کے اور بعض دوسرے لوگوں کے درمیان ( زمین کا ) جھگڑا تھا۔ اس کا ذکر انہوں نے عائشہ رضی اللہ عنہا سے کیا تو انہوں نے بتلایا، ابوسلمہ ! زمین سے پرہیز کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، اگر کسی شخص نے ایک بالشت بھر زمین بھی کسی دوسرے کی ظلم سے لے لی تو سات زمینوں کا طوق ( قیامت کے دن ) اس کے گردن میں ڈالا جائے گا۔

چوں کہ زمینوں کے سات طبق ہیں۔ اس لیے ظلم سے حاصل کی ہوئی زمین سات طبقوں تک طوق بنا کر اس کے گلے میں ڈالی جائے گی۔ زمین کے سات طبق کتاب و سنت سے ثابت ہیں۔ ان کا انکار کرنے والا قرآن و حدیث کا منکر ہے۔ تفصیلات کا علم اللہ کوہے۔ و ما یعلم جنود ربک الا ہو ( المدثر : 31 ) امام شوکانی فرماتے ہیں : و فیہ ان الارضین السبع اطباق کالسموات و ہو ظاہر قولہ تعالیٰ و من الارض مثلہن خلافا لمن قال ان المراد بقولہ سبع ارضین سبعۃ اقالیم ( نیل ) یعنی اس سے ثابت ہوا کہ آسمانوں کی طرح زمینوں کے بھی سات طبق ہیں جیسا کہ آیت قرآنی و من الارض مثلہن میں مذکور ہے یعنی زمینیں بھی ان آسمانوں ہی کے مانند ہیں۔ اس میں ان کی بھی تردید ہے جو سات زمینوں سے ہفت اقلیم مراد لیتے ہیں جو صحیح نہیں ہے۔

حدیث نمبر : 2454
حدثنا مسلم بن إبراهيم، حدثنا عبد الله بن المبارك، حدثنا موسى بن عقبة، عن سالم، عن أبيه ـ رضى الله عنه ـ قال قال النبي صلى الله عليه وسلم ‏"‏من أخذ من الأرض شيئا بغير حقه خسف به يوم القيامة إلى سبع أرضين‏"‏‏. ‏ قال أبو عبد الله هذا الحديث ليس بخراسان في كتاب ابن المبارك، أملاه عليهم بالبصرة‏.‏
ہم سے مسلم بن ابراہیم نے بیان کیا، کہا ہم سے عبداللہ بن مبارک نے بیان کیا، کہا ہم سے مو سیٰ بن عقبہ نے بیان کیا سالم سے اور ان سے ان کے والد ( عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما ) نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، جس شخص نے ناحق کسی زمین کا تھوڑا سا حصہ بھی لے لیا، تو قیامت کے دن اسے سات زمینوں تک دھنسایا جائے گا۔ ابوعبداللہ ( حضرت امام بخاری رحمۃاللہ علیہ ) نے کہا کہ یہ حدیث عبداللہ بن مبارک کی اس کتاب میں نہیں ہے جو خراسان میں تھی۔ بلکہ اس میں تھی جسے انہوں نے بصرہ میں اپنے شاگردوں کو املا کرایا تھا۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب المظالم والغصب
باب : جب کوئی شخص کسی دوسرے کو کسی چیز کی اجازت دے دے تو وہ اسے استعمال کر سکتا ہے

حدیث نمبر : 2455
حدثنا حفص بن عمر، حدثنا شعبة، عن جبلة، كنا بالمدينة في بعض أهل العراق، فأصابنا سنة، فكان ابن الزبير يرزقنا التمر، فكان ابن عمر ـ رضى الله عنهما ـ يمر بنا فيقول إن رسول الله صلى الله عليه وسلم نهى عن الإقران، إلا أن يستأذن الرجل منكم أخاه‏.‏
ہم سے حفص بن عمر نے بیان کیا، کہا ہم سے شعبہ نے بیان کیا، ان سے جبلہ نے بیان کیا کہ ہم بعض اہل عراق کے ساتھ مدینہ میں مقیم تھے۔ وہاں ہمیں قحط میں مبتلا ہوناپڑا۔ عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ کھانے کے لیے ہمارے پاس کھجور بھجوایا کرتے تھے۔ اور عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما جب ہماری طرف سے گزرتے تو فرماتے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ( دوسرے لوگوں کے ساتھ مل کر کھاتے وقت ) دو کھجور کو ایک ساتھ ملا کر کھانے سے منع فرمایا ہے مگر یہ کہ تم میں سے کوئی شخص اپنے بھائی سے اجازت لے لے۔

تشریح : ظاہر یہ کے نزدیک یہ نہی تحریمی ہے۔ دوسرے علماءکے نزدیک تنزیہی ہے۔ اور وجہ ممانعت کی ظاہر ہے کہ دوسرے کا حق تلف کرنا ہے اور اس سے حرص اور طمع معلوم ہوتی ہے۔ نووی نے کہا اگر کھجور مشترک ہو تو دوسرے شریکوں کی بن اجازت ایسا کرنا حرام ہے ورنہ مکروہ ہے۔ حافظ نے کہا اس حدیث سے اس شخص کا مذہب قوی ہوتا ہے جس نے مجہول کا ہبہ جائز رکھا ہے۔

حدیث نمبر : 2456
حدثنا أبو النعمان، حدثنا أبو عوانة، عن الأعمش، عن أبي وائل، عن أبي مسعود، أن رجلا، من الأنصار يقال له أبو شعيب كان له غلام لحام فقال له أبو شعيب اصنع لي طعام خمسة لعلي أدعو النبي صلى الله عليه وسلم خامس خمسة‏.‏ وأبصر في وجه النبي صلى الله عليه وسلم الجوع ـ فدعاه، فتبعهم رجل لم يدع فقال النبي صلى الله عليه وسلم ‏"‏إن هذا قد اتبعنا أتأذن له‏"‏‏. ‏ قال نعم‏.‏
ہم سے ابوالنعمان نے بیان کیا، کہا ہم سے ابوعوانہ نے بیان کیا، ان سے اعمش نے، ان سے ابووائل نے اور ان سے ابومسعود رضی اللہ عنہ نے کہ انصار میں ایک صحابی جنہیں ابوشعیب رضی اللہ عنہ کہا جاتا تھا، کا ایک قصائی غلام تھا۔ ابوشعیب رضی اللہ عنہ نے ان سے کہا کہ میرے لیے پانچ آدمیوں کا کھانا تیا رکردے، کیوں کہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو چار دیگر اصحاب کے ساتھ دعوت دوں گا۔ انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرہ مبارک پر بھوک کے آثار دیکھے تھے۔ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو انہوں نے بتلایا۔ ایک اور شخص آپ کے ساتھ بن بلائے چلا گیا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے صاحب خانہ سے فرمایا یہ آدمی بھی ہمارے ساتھ آگیا ہے۔ کیا اس کے لیے تمہاری اجازت ہے؟ انہوں نے کہا جی ہاں اجازت ہے۔

یہ حدیث اوپر گزر چکی ہے۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس باب کا مطلب بھی اس حدیث سے ثابت کیا ہے کہ بن بلائے دعوت میں جانا اور کھانا کھانا درست نہیں، مگر جب صاحب خانہ اجازت دے تو درست ہوگیا۔ اس حدیث سے حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی رافت اور رحمت پر بھی روشنی پڑتی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو کسی کا بھوکا رہنا گوارا نہ تھا۔ ایک باخدا بزرگ انسان کی یہی شان ہونی چاہئے۔ صلی اللہ علیہ وسلم۔
 
Top