• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

مکّی دور میں بھی رسول اللہ ﷺ اہلِ شرک اور ان کے شرک سے علانیہ برأت کرتے تھے

شمولیت
اپریل 27، 2020
پیغامات
509
ری ایکشن اسکور
167
پوائنٹ
77
بسم اللہ الرحمن الرحیم

اس مقام پر ملتِ ابراہیم سے ناواقف اور توحید سے ناآشنا، اکثر یہ شبہ پیدا کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ ملت ِابراہیم ہمارے لیے قابل اتباع نہیں ہے۔ یہ شریعت ہمارے لئے منسوخ ہوچکی ہے۔ اس بات کی دلیل وہ یہ دیتے ہیں کہ مکی دور میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیت اﷲ میں موجود بتوں کو نہیں توڑا تھا ۔

اِس اِلزام میں بعض معروف شیوخ بھی شامل ہیں‘ جن کی تصانیف سے کتب خانے بھرے ہیں۔ موصوف نے ایک تقریر میں کہا کہ ’’رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم پہلے شخص تھے جنہوں نے ملت ابراہیم کی اِتباع نہیں کی۔ وہ اِس طرح کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم مکہ مکرمہ میں تیرہ برس رہے مگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیت اللہ میں موجود بتوں سے کوئی تعرض نہیں کیا۔

در اصل کم علم اور کوتاہ نظری کی وجہ سے تمہیں ملتِ ابراہیم کی سمجھ نہیں آرہی ہے ۔ بت شکنی تمہاری نظر میں ملتِ ابراہیم کی واحد صورت ہے۔ ایسا سمجھ کر تم نے اپنی تنگ نظر ی کا ثبوت دیا ہے ۔ ابراہیم علیہ السلام نے بالفعل اپنی قوم کے بت توڑ ڈالے تھے‘ تمہارا خیال ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت کا مقصد صرف یہی تھا ،

پہلے ہی روز کلہاڑا اُٹھا کر بت توڑ دیتے تو ابراہیم علیہ السلام کی اِتباع ہو جاتی‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے چونکہ پہلے ہی روز بت نہیں توڑے لہذا تمہاری نظروں میں ساری کی ساری ملت منسوخ ہوچکی ہے ! اور ہمیں اس ملت سے کوئی فائدہ حاصل نہیں کرنا چاہئے ۔

تمہارے اس قول کا لازمی تقاضا تو یہ سامنے آتا ہے کہ قرآن کی وہ تمام آیات جس میں مسلمانوں کو ملتِ ابراہیم کی اتباع کا حکم دیا گیا ہے‘ وہ محض قصے کے طور پر قرآن میں تلاوت کی جاتی ہیں ۔ اِسی طرح دیگر تمام انبیاء کی دعوت جو قرآن میں مفصل مذکور ہے وہ ہمارے لئے بے کار اور بے فائدہ ہے ۔

اﷲ تعالیٰ اس بات سے پاک ہے کہ وہ اپنی کتاب میں بے کار اور عبث چیز ذکر کرے۔ اس قسم کے شبہات اس لائق نہیں ہیں کہ ان کا مفصل رد کیا جائے۔ یہ شبہات تو صرف ذہنی خلفشار کی عکاسی کرتے ہیں جو صرف کم علم کی بنا پر پیدا ہوتی ہے۔

آپ گزشتہ صفحات میں ملتِ ابراہیم کی خصوصیات سے واقفیت حاصل کر چکے ہیں‘ اور اُسے خوب اچھی طرح سمجھ چکے ہیں۔ آپ جانتے ہیں کہ اسلام کی بنیاد ’’لا الٰہ الاّ اﷲ‘‘ کے صحیح مفہوم پر ہے۔ اِس کلمہ کا وہی مفہوم ہے جو کلمہ اخلاص کا ہے۔ یعنی مشرکوں سے برأت اور خالص اﷲ کی توحید کا اقرار اور اہل توحید سے دوستی رکھنا ۔

یہ اُصول شریعتِ اسلام کی محکم اساس ہے ۔ اگر دنیا بھر کے عالم جاہل مل کر اس کی تردید کرنا چاہیں تو بھی نہ کرسکیں گے ہم نے یہ وضاحت بھی کی کہ اﷲ تعالیٰ نے ابراہیم علیہ السلام اور ان کے اصحاب کی پیروی کا ہمیں حکم دیا ہے ان کی سیرت بیان کرکے بتایا ہے کہ کیسے انہوں نے مشرکوں سے بغض وعداوت اور اظہار ِ برأت کیا اﷲ تعالیٰ نے سورہ ممتحنہ میں اُن کے طرزِ عمل کو نہ صرف بہترین نمونہ بتایا گیا ہے بلکہ اِس طرزِ عمل میں ہر اُس شخص کے لیے امید کا پہلو بھی ہے جو اللہ سے روزِ آخِر کسی انعام کا طلب گار ہے۔

لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِيهِمْ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ لِمَنْ كَانَ يَرْجُو اللَّهَ وَالْيَوْمَ الآخِرَ وَمَنْ يَتَوَلَّ فَإِنَّ اللَّهَ هُوَ الْغَنِيُّ الْحَمِيدُ [الممتحنہ : ۶]

انہی لوگوں کے طرز عمل میں تمہارے لئے اور ہر اُس شخص کے لئے اچھا نمونہ ہے جو اللہ اور روزِ آخر کا امیدوار ہو۔ اِس سے کوئی منحرف ہو تو اللہ بے نیاز اور اپنی ذات میں آپ محمود ہے۔

گزشتہ صفحات میں آپ پڑھ آئے ہیں کہ ملتِ ابراہیم کے مقاصد کیا ہیں جس کی دعوت ہم دیتے ہیں اور موجودہ مسلمان اس دعوت میں کوتاہیاں برتتے ہیں تم نے دیکھا کہ یہی وہ راستہ ہے جس میں مدد الٰہی نازل ہوتی ہے۔

دین کو سرفرازی ملتی ہے اور شرک نیست ونابود ہوجاتا ہے اس کے باوجود یہ الفاظ کہنا جو مذکورہ شیخ نے اپنی تقریر میں کہے کہ ’’رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے مکہ میں جو ۳۱ برس تک بتوں کوتوڑا نہیں اور ان کے بتوں کے خلاف اظہارِ عداوت ودشمنی نہیں کیا ‘‘ ان الفاظ کو سن کر یہی کہا جاسکتا ہے کہ تم اپنے آپ کو یہودی، عیسائی، یا مجوسی کہنے لگ جاؤ اور ملتِ اسلام کو چھوڑ دو۔

رہی یہ بات کہ کیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مشرکینِ مکہ کے بت اُس طرح نہیں توڑے تھے جس طرح ابراہیم علیہ السلام نے توڑے تھے تو تمہارا یہ دعوی بھی معتبر ترین روایت کی رو سے غلط ہے۔ یہ بات احادیث مبارکہ سے ثابت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے قریش کی غفلت سے فائدہ اٹھاتے ہوئے واقعتا بیت اللہ میں رکھے ہوئے بت توڑ ڈالے تھے۔ اور یہ واقعہ فتح مکہ سے پہلے کا ہے، وہ دور جس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کم زور تھے اور صحابہ کرام خوف زدہ رہتے تھے۔

مسندِ احمد، ابو یعلیٰ اور مسندِ بزَّار میں یہ روایت حسن درجے کی موجود ہے : علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں ’’میں اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم ایک دن کعبہ میں گئے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا علی، بیٹھ جاؤ۔

پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم میرے کندھوں پر سوار ہوئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے میری کمزوری کو محسوس کرتے ہوئے کعبہ کی چھت پر چڑھنے کا ارادہ ترک کردیا، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نیچے بیٹھ گئے اور میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے کندھوں پر سوار ہو کر بیت اﷲ کی چھت پر چڑھ گیا، جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے اوپر اٹھایا تو مجھے یوں لگا جیسے میں آسمان کو چھو رہا ہوں۔

کعبہ کی چھت پر پیتل کی بنی ہوئی مورتیاں رکھی تھیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا کہ انہیں توڑ دو، میں اُنہیں اٹھا اٹھا کر توڑتا گیا اور میرے چاروں طرف وہ ٹوٹ ٹوٹ کر کرچیوں کی طرح بکھر گئے۔ پھر میں نیچے اتر آیا اور ہم مکانوں کی اُوٹ میں چھپتے چھپا تے اپنے گھر پہنچ گئے۔ ہم ڈر رہے تھے کہ کہیں کوئی مشرک ہمیں دیکھ نہ لے۔

امام ہیثمی رحمہ اللہ نے اپنی کتاب مجمع الزوائد میں اس حدیث کا باب ان الفاظ میں باندھا ہے، (آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا بت توڑنا) اور اس روایت میں یہ الفاظ زائد ہیں ’’اس واقعے کے بعد بیت اﷲ کی چھت پر کوئی بت نہ رکھا گیا‘‘

امام ہیثمی رحمہ اللہ لکھتے ہیں: اِس حدیث کے تمام راوی ثقہ ہیں۔ ابو جعفر طبری رحمہ اللہ نے ’’تہذیب الآثار‘‘ میں اس حدیث کے بعض فقہی فوائد بھی لکھے ہیں ۔

[دیکھئے : مسند علی ص : ۲۳۶ تا ۲۴۳]


اس حدیث کی بناپر ہم کبھی یہ کہتے ہوئے کوئی حرج محسوس نہیں کرتے کہ استطاعت ہو تو یہ فعل بھی انجام دینا چاہئے یہ بت کسی چیز کا ہو ، چاہے کوئی مورتی ہو، قبر، طاغوت ہو، کوئی نظام حکومت ہر زمانے میں بتوں کی شکلیں اور صورتیں بدلتی رہتی ہیں ہماری دعوت ہے کہ ہر بت کے خلاف اعلان بغض ونفرت کرتے ہوئے جہاد کیا جائے۔

اگر بالفرض یہ روایت صحیح نہ تسلیم کی جائے، تو پھر بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ملتِ ابراہیم کی پیروی پر کوئی حرف نہیں آتا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم لمحہ بھر بھی مشرکوں اور ان کے معبودوں سے خاموش نہیں ہوئے۔

مکہ میں رہتے ہوئے پورے تیرہ برس آپ صلی اللہ علیہ وسلم صرف اسی توحید کی اشاعت پر تندہی سے کار بند رہے، یہی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اصل دعوت تھی ۔ لگی لپٹی بغیر ایک ہی بات :
اَنِِِ اعْبُدُوا اﷲَ وَاجْتَنِبُوا الطَّاغُوْتَ [النحل:۳۶]
اللہ کی بندگی کرو اور طاغوت کی بندگی سے بچو۔


یہ کہنا درست نہیں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پورے تیرہ برس مکہ میں خاموش بیٹھے رہے تھے۔ اُن کے بتوں کی تعریف و ستائش کرتے تھے یا ان کا احترام کرتے تھے جیسا کہ موجودہ دور کے بہت سے داعی حضرات، مشرکانہ قوانین کا احترام کرتے ہیں۔

آپ صلی اللہ علیہ وسلم اہلِ شرک اور ُان کے شرک دونوں سے علانیہ برأت کرتے تھے، دعوت کے آغاز ہی سے اُن کے جھوٹے معبودوں کی مذمت کرنا شروع کر دی تھی۔ مکی سورتیں اِس موضوع سے بھری ہوئی ہیں۔بر سبیلِ مثال سورہ انبیاء میں کفار آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بابت کیا رائے رکھتے ہیں، قرآن کی زبانی سنیے:

وَإِذَا رَآكَ الَّذِينَ كَفَرُوا إِنْ يَتَّخِذُونَكَ إِلا هُزُوًا أَهَذَا الَّذِي يَذْكُرُ آلِهَتَكُمْ وَهُمْ بِذِكْرِ الرَّحْمَنِ هُمْ كَافِرُونَ [الانبیاء : ۳۶]

یہ منکرینِ حق جب تمہیں دیکھتے ہیں تو تمہارا مذاق بنا لیتے ہیں۔ کہتے ہیں کیا یہ ہے وہ شخص جو تمہارے خداؤں کا ذکر کیا کرتا ہے؟ اور اُن کا اپنا حال یہ ہے کہ رحمٰن کے ذکر سے منکر ہیں ۔

حافط ابن کثیر رحمہ اللہ ﴿ الَّذِي يَذْكُرُ آلِهَتَكُمْ ﴾ میں لفظ ﴿يَذْكُر﴾ کا معنی ﴿ یَسُبُّ آلہتکم﴾ کرتے ہیں، یعنی تمہارے خداؤں کو برا بھلا کہتا ہے اور تمہارے تَصَوُّرِ عبادت کو لغو بتاتا ہے۔

مسند احمد اور دوسری کتبِ حدیث میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا وصف کفار کی زبان سے یوں مذکور ہے: ’’کیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمارے خلاف باتیں کہی ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم بغیر کسی بزدلی اور خوف کے جواب دیتے ہیں ہاں! میں نے ہی ایسی باتیں کی ہیں ! راوایات میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اُس وقت بالکل تنہا تھے۔ حدیث مبارکہ کے الفاظ ملاحظہ کریں:


﴿قال عبداﷲ بن احمد بن حنبل حدثني ابي قال یعقوب : حدثنا أبي عن ابن اسحاق قال: وحدثني یحي بن عروۃ بن الزبیر عن ٲبیہ عروۃ عن عبداﷲ ابن عمرو بن العاص قال﴾

عروۃ رضی اللہ عنہ نے عبد اﷲ بن عمرو رضی اللہ عنہ سے پوچھا تم نے اکثر اوقات ایسے واقعات دیکھے ہوں گے جس میں قریش رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم سے اپنی دشمنی ظاہر کرتے ہوں گے۔ تو عبداﷲ بن عمرو رضی اللہ عنہ نے کہا ’’ایک بار میں مقام حجر پر قریش کے بڑے سرداروں کے ساتھ بیٹھا تھا، وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں کہنے لگے ’’اس سے زیادہ ہم نے کسی پر صبر نہیں کیا، یہ ہمارے خلاف باتیں کرتا ہے، ہمارے دین کو برا کہتا ہے اور ہمارے آباو اجداد کو گالی دیتا ہے۔ ہمارے معبودوں کی شان میں گستاخی کرتا ہے۔ اِس شخص پر ہم نے بڑا صبر کیا ہے۔

اِنہی دنوں کا ایک اور واقعہ ہے کہ ہم سب ایک ساتھ جمع تھے کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے استلام اور طواف کیا، جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم قریش کے قریب سے گزرے تو لوگوں نے آنکھوں سے اشارہ کیا (یعنی مذاق اڑایا) آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرے پر ناگواری کے آثار نظر آئے، دو چار بار آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے غمزہ اور چشم زنی کو برداشت کیا پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں محمد کی جان ہے، میں گردنیں اڑانے کے لیے آیا ہوں‘‘

پھِر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وعظ فرمایا جس نے لوگوں کی توجہ کھینچ لی، لوگ خاموش ہو کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بات سننے لگے ہر شخص ایسے تھا جیسے اس کے سر پر کوئی پرندہ بیٹھا ہو کہ ذرا کو حرکت کی تو اُڑ جائے گا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس مجلس میں سخت ترین الفاظ میں وعظ ونصیحت کی، ایک شخص اُٹھ کر کہتا ہے، اے ابوالقاسم (صلی اللہ علیہ وسلم) آپ اطمینان سے جا سکتے ہیں، آپ کی بات بجا ہے۔ راوی کہتا ہے بخدا مجھے اِس واقعے کا ایک ایک منظر یاد ہے۔ پھِر آپ صلی اللہ علیہ وسلم واپس چلے گئے ۔

اگلے روز وہ پھر اُسی جگہ اکٹھے تھے اور ایک دوسرے سے پوچھنے لگے، کل تم نے اُنہیں اُس وقت کیوں چھوڑ دیا تھا جب وہ تمہا رے خداؤں کی شان میں گستاخی کررہے تھے۔ اسی دوران میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم بھی تشریف لے آئے، پھِر کیا دیکھتا ہوں کہ تمام لوگ لپک کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے گردا گرد اکٹھے ہوگئے اور پوچھنے لگے، کیا تم نے ہمارے فلاں فلاں کے خلاف بات کی ہے؟ انہوں نے اپنے معبودوں کی عیب جوئی کا ذکر کیا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ‘ ہاں میں نے ہی کہا تھا، اِس کے بعد ایک شخص نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو چادر سمیت کھینچنے گا، اُسی وقت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ آئے اور کھڑے ہو کر کہنے لگے ‘اور ساتھ شدتِ غم سے روتے جاتے: ’’کیا تم اس شخص کو صرف اِس بنا پر قتل کرتے ہوکہ وہ کہتا ہے: ’’میرا رب اللہ ہے ‘‘۔

[مسندِ احمد : ۶۳۶۰۔ قال احمد شاکر اسنادہ صحیح]

ایک اور روایت میں یہ واقعہ موجود ہے کہ ایک مرتبہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم بیت اﷲ میں نماز ادا کررہے تھے کہ عقبہ بن ابی معیط نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی گردن میں چادر ڈال کر سختی سے کھینچا، ابو بکر رضی اللہ عنہ نے اُسے زور سے دور ہٹایا، اور کہا ’’کیا تم ایسے شخص کو قتل کرتے ہو جو کہتا ہے میرا رب اﷲ ہے اور اِس پر اپنے رب کی طرف سے دلائل دیتا ہے‘‘۔

[مسندِ احمد : ۲/ ۲۰۴]


صحیح بخاری میں جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت بیان کی ہے وہ بھی قابل غور ہے۔ کہ ’’اس نبی نے لوگوں میں تفریق ڈال دی ہے (یعنی مسلمانوں اور کافروں کو جدا جدا کردیا ہے)

اس کے علاوہ سیرتِ نبی کے مطالعے سے دیانت دار قاری کو یہ بات سمجھنے میں ذرا دیر نہیں لگتی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم دشمنانِ دین کے سخت ترین مخالف تھے۔ ان سے واضح دوری اختیار کرلیتے تھے۔ ہمارے زمانے کے لوگوں کی طرح نہیں کہ جو دین دار ہوکر اہلِ باطل کی طرف مائل ہوتے ہیں۔ یہ لوگ اہل باطل کی مدد و نصرت کرتے ہیں۔ اور بزدلی کی انتہاء کو پہنچ گئے ہیں۔ دشمنی اِن سے کیا ہو گی، اِن کے تعاون اور اِتحاد کی بنیاد ہی وطن کا مفاد ہے۔ صبح و شام طواغیت کے ساتھ اُٹھنا بیٹھنا اِن کا معمول ہے۔

ایسے ہی لوگوں کے بارے میں شیخ عبدالرحمن بن حسن رحمہ اللہ کہتے ہیں:

’’یہ لوگ فتنوں میں حد درجہ مشغول ہوچکے ہیں، ان کے دل ظلم وزیادتی پر مطمئن رہتے ہیں، یہ لوگ بہ خوشی کافر ہو جانے والے لوگوں سے مل کر دنیاوی عیش وعشرت کے حصول کے لئے ہر کام پر راضی ہوچکے ہیں۔ ذرا بتائیے جو دل ہر میدان میں خواہشات نفس کا پجاری ہو، وہ ایمان پر بھلا کیسے مطمئن رہ سکتا ہے ابن قیم(رحمہ اللہ) نے دنیاوی طور پر مال ومتاع سے وافر حصہ پانے والے لوگوں کی جو مثال دی ہے، وہ اِن پر چسپاں ہوتی ہے۔ ایسے لوگوں کے متعلق اللہ فرماتا ہے :

لَا تَحْسَبَنَّ الَّذِينَ يَفْرَحُونَ بِمَا أَتَوْا وَيُحِبُّونَ أَنْ يُحْمَدُوا بِمَا لَمْ يَفْعَلُوا فَلا تَحْسَبَنَّهُمْ بِمَفَازَةٍ مِنَ الْعَذَابِ وَلَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ [آل عمران : ۸۸]

تم اُن لوگوں کو عذاب سے محفوظ نہ سمجھو جو اپنے کرتوتوں پر خوش ہیں اور چاہتے ہیں کہ ایسے کاموں کی تعریف انہیں حاصل ہو جو فی الواقع انہوں نے نہیں کئے ہیں۔حقیقت میں اُن کے لئے دردناک سزا تیار ہے۔

یہ لوگ اپنی بدعات و گمراہی پر خوش ہوتے ہیں۔ یہ لوگ چاہتے ہیں کہ انہیں سنت کی پاپندی کرنے والا سمجھ کر اِن کی تعریفیں کی جائیں۔ یہ باتیں اکثر ان لوگوں میں پائی جاتیں ہیں جو ہمارے ہاں بہ طور عالم کے مشہور ہیں۔ اور اپنے آپ کو صراطِ مستقیم کا دعوے دار کہتے ہیں۔

[الدرر السنیۃ : جزء الجہاد، ص : ۱۷۲]
 
Top