• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

میاں نذیر حسین محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ چند الزامات کا تحقیقی جائزہ

شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,783
پوائنٹ
1,069
پانچ سال کی مدت کہاں گزری؟

عبدالعزیز صمدانی صاحب میاں صاحب کے بڑے چہیتے شاگرد تھے ۔ قاضی بدر الدین کے نواسہ ہونے کی وجہ سے میاں صاحب کو بہت عزیز تھے۔انہوں نے اپنی یاد داشت لکھی تھی ۔ لگتا ہے الحیاۃ بعد المماۃ کے مؤلف کی اس تک دسترس تھی، کئی جگہوں پر اس سے استفادہ کیا ہے۔ (۳) مجھے نہیں معلوم کہ یہ یاد داشت طبع ہوئی ہے کہ نہیں یا اس کا مخطوطہ ہی کہیں محفوظ ہے کہ نہیں ؟اگر یہ دستیاب ہوجائے تو بہت ساری معلومات کا انکشاف ہو سکتا ہے۔

تاہم موجودہ مواد کی بنا پر یہ نظریہ قائم کیا گیا ہے کہ آ پ کا سفر بے ترتیبی سے جاری .تھا۔ راہ بے راہ سفر ہو رہا تھاکہ ضلع کانپور میں مکرر پہنچے۔ (۴)

اگر مولانا ڈیانوی کا اندازہ. صحیح ہے کہ آپ ۱۲۴۲ ؁ھ کو الہ آباد سے دہلی کے لیے نکلتے ہیں تو پھر یہ شکل بنتی ہے۔

آپ اپنے دوست کے ہمراہ الہ آباد سے نکلتے ہیں ۔ کانپور راستے میں پہلے پڑتا ہے ۔ یہاں سے چل کر چھبرہ مؤ (Chebramau) آتے ہیں ۔ یہاں قاضی صاحب اور ان کے خانوادہ سے ملاقات ہوتی ہے، میاں صاحب ان کے الطاف کریمانہ سے مستفید ہوتے ہیں اور دہلی کے بجائے کچھ دن یہاں ٹھہرتے ہیں ، ان کے داماد کا گھرصمدن ضلع فرخ آباد میں ہے۔ وہاں بھی جاتے ہیں ۔ اس کا تذکرہ نواب صاحب والے خط میں کرتے ہیں ۔(۱) اس کو چھبرا مؤاور قنوج کے راستہ پر بتاتے ہیں۔ قنوج کا ذکر جس اندازمیں کیا ہے لگتا ہے اس کونہ صرف دیکھا تھا بلکہ اچھی طرح واقف بھی تھے ۔ عبد العزیز صاحب کو لکھتے ہیں کہ کتاب فاروق فی الحدیث اپنے چچا یا پھر قنوج سے حاصل کر کے ساتھ لانا۔ نواب صاحب کے نام خط میں بھی قنوج کا ذکر ہے۔ بہر حال صمدن سے دہلی کے بجائے الہ آباد واپس آجاتے ہیں اور یہیں پر تعلیم کی تکمیل کرتے ہیں (صمدن فرخ آباد میں واقع ہے ۔ یہاں سے دہلی کا فاصلہ صرف ۳۷۰؍کلو میٹر بچتا ہے لیکن دہلی کے راستے سے ہٹ کر ہے) میرا خیال ہے کہ آپ کے ساتھی ہم سفر نے یہیں سے اپنا رستہ جدا کر لیا تھا۔الہ آباد سے پھر ۱۲۴۲ ؁ھ میں دہلی کے لیے روانہ ہوتے ہیں ۔بروز بدھ. ۱۳؍رجب ۱۲۴۳ ؁ھ میں دہلی پہنچتے ہیں۔(۲) مفتی شجاع الدین کے گھر پر قیام کیا ، پندرہ دن بعد پنجابی کٹرہ کی مسجد میں مولانا عبدالخالق (م۱۲۶۱ ؁ھ) سے پڑھنا شروع کرتے ہیں۔

نحو کی مشہور کتاب کا فیہ.شروع کی پھر قطبی ،مختصر المعانی ، شرح وقایہ ، نورالانوار اورحسامی کی تعلیم حاصل کی ۔(۳)

ان کے علاوہ شیر محمد قندھاری (م ۱۲۵۰ ؁ھ) مولوی جلال الدین ہروی، مولوی کرامت علی اسرائیلی ، مولوی محمد بخش عرف تربیت خانا، عبد القادر رام پوری (۴) ملا سعید بشاری اور حکیم نیاز احمد سہسوانی سے استفادہ کیا ۔(۵)

میاں صاحب نے اپنی تحریر میں مولانا عبدالخالق کے علاوہ صرف مولوی جلال الدین ، مولوی شیر محمد قندھاری اور محمد سعید بشاری کا بطور خاص ذکر کیا ہے اور علوم آلیہ کی تکمیل کی مدت ساڑھے تین سال بتائی ہے ۔(۱) مولانا ڈیانوی نے علوم آلیہ کی تحصیل کی مدت پانچ سال بتائی ہے۔(۲) یہ تصریح میاں صاحب کے اپنے بیان سے مختلف ہے ۔ وہاں سے علوم آلیہ کی تکمیل کے بعد علم فقہ اور حدیث کی تحصیل میں ’’ہمہ تن‘‘ متوجہ ہونے کا ذکر اسی یاد داشت میں کیا ہے، مگرکسی استاد کی تعیین نہیں کی ہے۔ دہلی میں ہوتے ہوئے شاہ اسحاق محدث دہلوی کی درس گاہ کا رخ نہ کرنا بعید از قیا س ہے۔میاں صاحب نے ایک جگہ ۱۲ یا ۱۳ ؍سال تک مولانا شاہ اسحاق سے استفادہ کا ذکر کیا ہے ۔ اس طرح یقینی طور سے ۱۲۴۵ ؁ھ۔۱۲۴۶ ؁ھ سے مولانا سے استفادہ شروع کیا ہوگا۔ (۳) میاں صاحب نے اپنی یاد داشت میں کسی استاد اور کتاب کا تعین نہیں کیا ہے۔ لیکن مولانا عبد الخالق سے استفادہ جاری تھا کیوں کہ ۱۲۴۹ ؁ھ میں ان سے درس بخاری شروع کرنے کا تذکرہ کیا ہے۔

میاں صاحب نے اپنی اس یاد داشت میں جو ۱۱؍محرم ۱۲۹۹ ؁ھ میں لکھی تھی بتصریح لکھتے ہیں کہ صحیح بخاری مولانا عبدالخالق مرحوم سے پڑھنی شروع کی جس میں مولوی رحمت اللہ بیگ شریک درس تھے ، اسی زمانہ میں شاہ اسحاق رحمہ اللہ سے بھی بخاری پڑھنی شروع کی ۔ شاہ صاحب کا درس علی الصباح ہوتا تھا ۔ اس کے بعد مولانا عبدالخالق کے درس میں شامل ہو جاتے تھے۔ مولانا عبدالخالق نے بخاری سات مہینے میں ختم کروائی جب کہ شاہ اسحاق صاحب کے یہاں ۹ مہینہ میں ختم ہوئی ۔(۴)

میاں صاحب نے شاہ اسحاق مرحوم سے اس کے بعد صحیح مسلم ، ہدایہ ، جامع صغیر اور کنز العمال کا کچھ حصہ پڑھا۔ دو بارہ بخاری کے ایک اور ختم میں شریک ہوئے جو تین یا چار ماہ میں مکمل ہوا۔ (۵) اجازت اور سند بہر حال حجاز روانگی سے قبل لکھی گئی۔

اس طرح تقریبا سات سال کی مدت دہلی میں حصول علم میں بسر کی اور فقہ حدیث اور تفسیر میں رسوخ حاصل کیا ۔ لیکن اس کے باوجود شاہ اسحاق صاحب سے استفادہ کا سلسلہ آپ کی ہجرت تک جاری رہا ۔ اس نیاز مندانہ تعلق کی مدت ۱۲،۱۳ ؍سال تک محیط ہے۔ (۱)

===========================================

(۳) الحیاۃ بعد المماۃ، ص:۱۷۴، ۱۸۲، ۲۱۵، وغیرہ۔

(۴) الحیاۃ بعد المماۃ،ص: ۳۸، تاریخ اہل حدیث ، سیالکوٹی صاحب نے راہ بے راہ کی تعبیرکو اخذ کیا ہے تاہم دوبار کان پور آنے کا ذکر نہیں ہے، ص:۴۲۶۔بھٹی صاحب نے مزید تفصیل سے ذکر کیا ہے، دبستان حدیث،ص: ۳۰۔

(۱) مکاتیب نذیریہ ، ص:۶۳ خط نمبر :۵۶۔

(۲) الحیاۃ بعد المماۃ ۔میاں صاحب کی قلمی یادداشت ،ص:۵۱، مؤلف ایک اور جگہ لکھتے ہیں :بعض تحریروں میں میاں صاحب نے ۱۲۴۲ ؁ھ میں دہلی پہنچنے کا ذکر کیا ہے مگر ۱۲۴۳ ؁ھ والی تحریر مفصل ہے، دن کی تعیین بھی ہے ، یہی بوجوہ صحیح ہے، ص:۴۰۔

(۳)الحیاۃ بعد المماۃ ،ص: ۴۵۔ کافیہ سے نحو کی ابتدا کا یہ مطلب نہیں کہ نحو میں آپ کی صلاحیت بس اتنی تھی ، بعض مدرسین باصرار تعلیم کی ابتدا ابتدائی کتابوں سے کرتے ہیں ۔ پھر جلد ہی بڑی کتابیں شروع کراتے ہیں اس طرح طالب علم کو استاد کا انداز سمجھنے میں آسانی ہوتی ہے۔

(۴) غایۃ المقصود:۱/۵۲ ، ا ن کتابوں کی تفصیل مذکور ہے جو ہر استاد سے پڑھیں، ایضا الحیاۃ بعد المماۃ ،ص:۴۵۔۴۷، البشری بسعادۃ الدارین، ص:۲۷۔۲۸،تراجم علمائے حدیث ہند میں بھی عبدالقادر کے علاوہ دوسرے اساتذہ کا ذکر ہے، ص: ۱۵۱۔۱۵۲۔

(۵) ان دو اساتذہ کا تذکرہ صاحب الحیاۃ بعد المماۃ نے کیا ہے،ص:۴۷۔ مولانا سیالکوٹی نے بھی ذکر کیا ہے، تاریخ اہلحدیث: ص۴۲۶۔

(۱) الحیاۃ بعد المماۃ:ص:۵۱۔ (۲) غایۃ المقصود:۱/۵۲۔

(۳)الحیاۃ بعد المماۃ :ص۵۳ حاشیہ۔ (۴) قلمی یادداشت بحوالہ الحیاۃ بعد المماۃ ،ص:۵۲۔

(۵) قلمی یادداشت بحوالہ الحیاۃ بعد المماۃ ،ص:۵۳۔

(۱)میاں صاحب کی یاد داشت بحوالہ الحیاۃ بعد المماۃ ،ص:۵۳ ،حاشیہ ایضا، ص:۵۵۔

 
Last edited:
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,783
پوائنٹ
1,069
شادی:

زمانہ طالب علمی میں آپ کے استاد محترم مولانا عبدالخالق نے آپ کو اپنی دامادی کا شرف بخشا۔ ۱۲۴۸ ؁ھ میں آپ کا عقد ہوا ۔(۲) بقول مؤلف واقعات دارالحکومت دہلی یہ شادی شاہ محمد اسحاق اور شاہ محمد یعقوب کی رائے اور مشورہ سے ہوئی تھی۔ نکاح شاہ اسحاق صاحب نے پڑھایا، شرکت شاہ محمد یعقوب اور تلامذہ شاہ اسحاق صاحب نے کی۔

تعلیم کے ساتھ ساتھ آپ کی شادی شدہ زندگی کا آغاز ہوتا ہے۔ آپ کی پہلی اولاد میاں سید شریف حسین کی ولادت ۱۲۴۸ ؁ھ کے آخر میں ہوتی ہے ۔ میاں صاحب کی دوسری اولاد آپ کی بیٹی تھیں ۔ ان کا نکاح میر شاہ جہاں صاحب سے ہوا تھا۔ دونوں کا قیام میاں صاحب کے ساتھ رہا ۔ شادی سے پہلے میاں صاحب کا قیام شروع میں اپنے سسر کے مکان پر تھا۔ (۳) شادی کے فورا بعد کہاں ٹھہرے ، اس کا تذکرہ نہیں ۔ البتہ یہ معلوم ہے کہ آپ نے اس کے بعد بھی چند سال طلب علم میں گذارے ۔ ہو سکتا ہے بیوی میکے میں ہی رہی ہو۔واقعات دارالحکومت جو آپ کے ایک سسرالی رشتہ دار کی تالیف ہے ۔ سے معلوم ہوتا ہے کہ ۱۸۵۷ ؁ء تک میاں صاحب کی فیملی اپنے میکہ ہی میں تھی ،حیات النذیر میں بھی یہی مذکور ہے۔

بہر حال بعد میں میاں صاحب کرایہ کے مکان میں رہنے لگے ۔ پوری زندگی کرایہ دار کی حیثیت سے رہے۔حیات النذیر کے مؤلف کا دعوی ہے کہ ۱۸۵۷ ؁ء میں میاں صاحب کا ذاتی مکان زیر تعمیر تھا ۔ ہنگامہ کی وجہ سے تکمیل نہ ہوئی اور بعد میں مسمار کر دیا گیا۔لیکن اس دعوی کی تصدیق کسی اور ذریعہ سے نہیں ہوتی ہے ۔ ایسی صورت میں حیات النذیر پر اعتماد مشکل ہے۔

اولاد واحفاد:

جیسا کہ ذکر ہوا ہے آپ کی دو ہی اولاد تھی۔ میاں شریف حسین نے آپ سے بھی علم حاصل کیا ۔ دوسرے علماء سے بھی استفادہ کیا۔(۱) بڑے ذی علم اور باکمال شخصیت کے مالک تھے۔ میاں صاحب کے فتاوی کے نقل کا انتظام انہوں نے ہی کیا تھا۔ میاں صاحب کی مسجد کے امام تھے ۔ لمبی نمازیں پڑھتے تھے ۔ (۲) آپ کا انتقال ۶ جمادی الاولی ۱۳۰۴ ؁ھ کو ہوا ۔ عمر چھپن سال تھی۔ دو لڑکے حافظ عبدالسلام اور مولوی ابوالحسن اور کئی لڑکیاں مولانا شریف حسین کی یاد گار تھیں۔ سب کی پرورش میاں صاحب نے کی ۔

بیٹی کی کوئی اولاد نرینہ نہیں تھی۔ (۳) تین لڑکیاں تھیں ۔ وہ بھی میاں صاحب ہی کی کفالت میں تھیں۔ آخر میں آپ کی بیٹی اور نواسیوں نے دس ما ہ سے زائد آپ کی مکمل دیکھ ریکھ کی۔

آپ کی بیوی کا انتقال ۱۴؍رمضان ۱۲۸۷ ؁ھ مطابق ۱۸۷۰ ؁ ؁ء بروز جمعرات کو ہو گیاتھا۔

===========================================

(۲)الحیاۃ بعد المماۃ ،ص:۴۸، اندازاً یہ عقد آغاز ۱۲۴۸ ؁ھ میں ہوا،ص:
۵۳،مولانا ڈیانوی نے ۱۲۴۶ ؁ھ کے آخر میں نکاح کا ذکر کیا ہے۔ مؤلف واقعات دارالحکومت نے بھی ۱۲۴۶ ؁ھ میں عقد کا ذکر کیا ہے جو غلط ہے۔(۲/۲۶۹) میاں صاحب کی تحریر کے مطابق اقامت دہلی کے ’’چھٹے سال‘‘کا ذکر ہے جو ۱۲۴۸ ؁ھ ہی بنتا ہے۔

(۳) الحیاۃ بعد المماۃ ،ص:۱۴۸۔

(۱)آپ کو علامہ حسین یمانی اور نواب صدیق حسن خان سے اجازت حدیث حاصل تھی۔

(۲)الحیاۃ بعد المماۃ سے باختصار صاحب نزہۃ الخواطر نے لکھا ہے کہ پڑھ لکھ کر پڑھانے اور فتوی کی اہلیت پیدا کی ، اس وقت سے ان کے والدنے فتوی نویسی کی ساری ذمہ داری سونپ دی۔( نزہۃ الخواطر:۷/۱۲۴۳ طبع ابن حزم) شیخ حسین یمانی رحمہ اللہ نے لکھا :’’العلامۃ الأریب والشریف الفاضل النسیب السید شریف حسین‘‘ نواب صاحب نے لکھا : ’’السید العلامۃ کریم النجادعریق المجد والفخارالسید شریف حسین۔‘‘

(۳) ایک لڑکا بدرالاسلام تھا جس کا انتقال ۱۰۔۱۱ ؍سال کی عمر میں ہو گیا تھا ۔ میاں صاحب کی ایک صاحب زادی سید النساء کا انتقال بھی بچپن میں ہو گیا تھا۔
 
Last edited:
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,783
پوائنٹ
1,069
تدریس:

میاں صاحب ۱۲۴۹ ؁ھ تک رسمی تحصیل سے فارغ ہو چکے تھے۔ تاہم شاہ اسحاق رحمہ اللہ سے استفادہ کا سلسلہ جاری رکھا ۔ ۱۲۵۸ ؁ھ میں شاہ صاحب کی ہجرت حجاز کے بعد تدریس کا باقاعدہ آغاز کیا ۔(۴) لیکن اس سے کئی سال پہلے درس وتدریس کا سلسلہ شروع ہو چکا تھا جو آپ کے خسر کی نگرانی میں تھا۔ یہ سلسلہ ۱۲۵۴ ؁ھ سے پہلے کا ہے کیوں کہ نواب قطب الدین کی تحریر سے پتہ چلتا ہے کہ ۱۲۵۴ ؁ھ سے بہت پہلے میاں صاحب نے کافی شہرت حاصل کر لی تھی۔

سر سید نے آثار الصنادید ۱۲۶۴ ؁ھ۔۱۸۴۷ ؁ء کے قریب چھاپی تھی ۔اس کی تیاری میں دیڑھ سال کا وقت لگا تھا ،گویا کہ یہ تحریر ۱۲۶۲ ؁ھ کی ہو گی، اس میں میاں صاحب کی تدریس کا ذکر ہے کہ مولانا عبدالخالق کے ساتھ درس وتدریس کی خدمت انجام دے رہے ہیں۔(۱) مولانا عبدالخالق کا انتقال ۱۲۶۱ ؁ھ میں ہوا ہے۔ انتقال سے پہلے وہ تدریس سے دستکش ہو گئے تھے۔ ظاہر ہے کہ ان کی معیت میں تدریس اس سے بھی پہلے ہوگی ۔ لگتا ہے تقریباً ۱۲۴۹ ؁ھ کے بعد میاں صاحب نے اپنے خسر کے ساتھ تدریس کا کام کرنا شروع کیا، ابتدا ء نحو صرف پڑھاتے تھے۔ صاحب الحیاۃ بعد المماۃ نے میاں صاحب کا قول ذکر کیا ہے کہ ابتدا ءً میں نے سات آٹھ برس صرف صرف ونحو وغیرہ کا درس دیا ہے۔(۲) ان کا خیال ہے کہ یہ اس وقت کی بات ہے جب آپ شاہ اسحاق سے پڑھتے تھے۔ میرا خیال ہے کہ شاہ اسحاق کے یہاں سے فراغت ۱۲۴۹ ؁ھ میں ہو گئی تھی تاہم ان سے استفادہ کا سلسلہ ان کی ہجرت تک جاری رہا،یہ تدریس اسی زمانہ کی ہے۔شاہ اسحاق ۱۲۵۸ ؁ھ میں ہجرت کرتے ہیں۔ اس طرح میاں نے اپنے دروس کا دائرہ وسیع کر لیا اورتمام فنون کی کتابیں پڑھانے لگے۔ ۱۲۶۱ ؁ھ میں آپ کے خسر مولانا عبدالخالق کا انتقال ہوا تو یہ ذمہ داری اور بڑھ گئی ۔ (۳) مولانا ڈیانوی اور دوسرے تذکرہ نگاروں کا خیال ہے کہ آپ نے اورنگ آباد ی مسجد میں ۱۲۵۹ ؁ھ میں اپنا مستقل حلقہ درس قائم کیا ، جہاں آپ ہر علم وفن کی کتابیں پڑھاتے تھے۔ فقہ کی تدریس پر خاص توجہ تھی۔ بعد میں اپنے آپ کو صرف فقہ، حدیث اور تفسیر القرآن کی تدریس تک محدود کر لیا ۔(۴) ۱۲۷۰ ؁ھ میں تذکرہ نگاراس تبدیلی کی نشان دہی کرتے ہیں، گویا ۱۸۵۷ ؁ء سے تین سال پہلے کی بات ہے۔ اس جگہ آپ کی تدریس کا سلسلہ ۱۸۵۷ ؁ء تک جاری رہاپھر تقریبا تین یا چار سال تک دہلی اجڑی رہی۔ پھر۵۹۔۱۸۶۰ ؁ء مطابق ۱۲۷۵۔۱۲۷۶ ؁ھ میں ریلوے اسٹیشن کی وجہ سے اس مسجد کو شہید کر دیا گیا۔ یہ مسجد میاں صاحب کے خسر مولانا عبدالخالق کی تولیت میں تھی ۔ ان کے صاحب زادے عبدالقادر امام مسجد تھے۔ اس کے بعد میاں صاحب پھاٹک حبش خان کی مسجد میں منتقل ہوجاتے ہیں اور اس کو اپنا مستقر بنا لیتے ہیں ۔ گویا ۱۸۵۷ ؁ء کے ہنگامے کے بعد مسجد اورنگ آباد میں واپس نہیں جاسکے۔ پھاٹک حبش خان کی یہی مسجد مدرسہ میاں نذیر حسین کے نام سے منسوب ہے ۔ یہ مسجد گلی ہنگا بیگ میں واقع ہے ، میاں صاحب نے خود ہی اس میں طلبہ کی رہائش کے کمرے اور مناسب سہولیات بنوائیں۔(۱)

اس مدرسہ سے دنیا بھر سے آئے ہوئے تشنگان علم سیراب ہوئے ۔ تن تنہا اس بوریہ نشین نے قرآن وسنت کی خدمت کر نے والی ایک فوج تیار کر دی اور اتباع کتاب وسنت کے مشن کو پوری قوت سے جاری کر دیا۔

مدرسہ کا نظام :

میاں صاحب نے یہ بات محسوس کی کہ کتاب وسنت کی تحریک کو آگے بڑھانے کا سب سے بہترذریعہ یہی ہے کہ اس کی تعلیم کا انتظام کیا جائے۔ اپنے ایک خط میں لکھتے ہیں ؛’’ میرے یہاں پیری مریدی کی دوکان نہیں ۔ ہاں مدرسہ ہے جس میں خدا تعالی ورسول اللہ ﷺ کے احکام پڑھائے جاتے ہیں ۔ (خدا کیا ہے اورربندہ کیا ہے ) بتایا جاتا ہے۔ دنیابھر کی بری باتوں سے بچنا، اچھی راہ پر چلنا ، کسی کو نہ ستانا سکھایا جاتا ہے ۔‘‘(۲)

ایک نو مسلم کو لکھتے ہیں:

’’ پیش من زود ببائید ودر اینجا درس کتاب وسنت بگیرید چہ کی ما شاء اللہ تعالی در نحو بصیرت معقول میدارند، جانب کتب ادب میلے دارند، دریں مدرسہ آنہم ممکن است‘‘(۳)

یعنی آپ میرے پاس جلد آ جائیں ، یہاں کتاب وسنت کا درس لیں ۔ آپ کو نحو کی معقول معلومات ہیں ، کتب ادب کی طرف بھی میلان ہے ۔ اس جگہ اس کی تعلیم بھی ہو سکتی ہے۔

مدرسہ کا خرچ ہمیشہ عوام کی مدد سے چلتا تھا تاہم اگر آپ کو علم ہوتا ہے کہ دینے والا خود حاجت مند ہے تو رقم واپس کر دیتے تھے ۔( ۴) عوامی چندے وغیرہ کا رجحان بالکل نہیں تھا ۔

مولوی جمال الدین مدارالہمام بھوپال نے کہا ریاست بھوپال کو مدد کے لیے لکھیں تو مدد مل سکتی ہے۔ ان کی پیشکش کو شکریہ کے ساتھ رد کر دیا ، لکھا:

’’ مرا ہمچون لغو تحریکھا ہمیشہ اجتناب است ، برد ر خداوند تعالیٰ نشستہ درس میدہم وے تعالیٰ شانہ از خزانہ غیب اعانت مدرسہ و متعلمین خواہد کرد، چہ کہ مرا از رجوع خدمت اغنیا ء کراہتے بخشیدہ است ۔ بندہ فقیر برائے خود نمی خواہد ، دریں جا آوردہ مرا ،و طالبان را روزی کافی وافی می رساند پس مایہ قناعت خود فروختن کا را بلہان است۔‘‘ (۱)

میں اس طرح کی لغو تحریکات سے ہمیشہ بچتا ہوں ۔ اللہ کے در پر بیٹھ کر درس دیتا ہوں ۔ وہ خزانہ غیب سے مدرسہ اور طلبہ کی مدد کرتا ہے ۔ امراء سے طلب کرنے میں مجھے کراہت ہے ۔ میرے اور طلبہ کی روزی روٹی کے لیے سب کچھ ملتا ہے۔ یہ قناعت کی دولت سے دستبرداری بیوقوفوں کا کام ہے۔

تاہم سخت ضرورت کے وقت اپنے خاص مخلصین کو اعانت کی طرف کبھی کبھی متوجہ کر دیتے تھے ۔ ایک خط میں مولانا عبدالعزیز رحیم آبادی اور مولانا عبدا لرحیم صاحب کو لکھتے ہیں :

’’ (ترجمہ ) ابھی ایک اور بات ہے مدرسہ میں ۳۲ طلبہ ہیں ...قحط سالی اور گرانی میں گذر ہو رہا ہے ...ناچار ہو کرآپ کو لکھا کہ فورا اعانت کریں ۔‘‘ (۲)

نواب صاحب کے زمانے میں بھی مدد کے لیے ان کو لکھا تھا ، کیوں کہ ان کی وفات کے بعد ۱۰۰ ؍روپیے کی اعانت کی منظوری پر شکریہ کا خط بیگم صاحبہ کو لکھا ۔(۳)

اہل دہلی کی اعانت کے مشکور تھے ، لکھتے ہیں :

’’ کجا دیار شرقی کجا حضرت دہلی بعد المشرقین ، ہمیں خدمت کتاب وسنت صرا رسانیدہ ، دہلویاں مرا خیر مقدم کردہ از اعانت ونصرت نوازش فرمودہ اند ‘‘ (۴)

کہاں دہلی او ر پورب کا علاقہ ، مجھے کتاب وسنت کی خدمت کے لیے یہاں پہونچایا ۔ اہل دہلی نے میرا استقبال کیا ہے اور خوب نوازش کی ۔

عام طور سے منتہی طلبہ تکمیل کے لیے آتے تھے اور میاں صاحب کے پاس دو سے تین سال گذارتے تھے۔ایک خط میں عبدالعزیز صاحب لکھتے ہیں :

’’ دو و سہ سال تا فراغ علم تفسیر و حدیث در اینجا ماند وبود منظور باشد تشریف آرند، چندے دریں جاماندن وناکام واپس شدہر گز پسندیدہ امرنزد خردمندان نیست۔‘‘ (۱)

مدرسہ میں طلبہ آتے رہتے تھے، بعض خطوط میں روز ایک دو طلبہ کے آنے کا ذکر ہے۔ (۲)

مجھے ایک وقت میں زیادہ سے زیادہ ۵۷ طلبہ کے زیر درس ہونے کا ذکر ملا ہے۔ (۳)

کم سے کم ۳۲ طلبہ کا ذکر ہے۔ ۴؍شوال ۱۲۹۸ ؁ھ کے خط میں ۴۵ ؍منتہی طلبہ کا زیر درس ہونا مذکور ہے۔(۴) کبھی رمضان اور کبھی گرمیوں میں تعطیل ہوتی تھی ۔ کئی خطوط میں تعطیل کا ذکر ہے تاہم کبھی کبھی رمضان بھی در س وتدریس میں گذرتا تھا۔ مولانا رحیم آبادی کے رمضان میں پڑھنے کا ذکر ہے۔ تدریس کا وقت فجر سے شروع ہو کر ۱۱؍بجے تک رہتا ہے ، پھر ایک گھنٹے کے لیے گھر تشریف لاتے ، پھر ظہر کی نماز کے بعد درس شروع ہوتا ۔ عصر سے پہلے گھر جاتے ۔ عصر اور مغرب کے درمیان مسلم شریف کا درس ہوتا ۔ مغرب اور عشاء کا وقفہ کبھی درس اور کبھی گھر پر فتوی نویسی میں گذرتا۔ (۵)

تدریس میاں صاحب کو بہت عزیز تھی ، لکھتے ہیں :

’’ تمنائی دارم تاروز مرگ از خدمت کتاب وسنت مرا حرمانے نہ باشد ‘‘ تمنا ہے کہ موت کے دن تک کتاب وسنت کی خدمت سے محروم نہ رہوں۔‘‘ (۶)

بخاری شریف کئی سو بار پڑھائی۔ (۷) موت سے ایک سال یا کم از کم ۱۰ مہینے پہلے صاحب فراش ہوگئے اور تدریس کا کام بند ہوگیا ۔ لیکن سالوں بیماری اور شدید عوارض کے باوجود طلبہ کی تدریس جاری رکھی ۔ ایک خط میں لکھتے ہیں : ’’ ایں عاجز بچند امراض مبتلا است لکنہ طوعا وکرھا سبق حدیث بدستور جاری است۔‘‘ یہ خط ۲؍جولائی ۱۹۰۰ ؁ء کو مرسل الیہ کو موصول ہوا۔ (۸)

===========================================

(۴) صاحب الحیاۃ بعد المماۃ یکم محرم ۱۲۵۹ ؁ھ سے تدریس کا آغاز بتاتے ہیں ،ص:۶۷۔

(۱) الحیاۃ بعد المماۃ میں سرسید کی عبارت کا لمبا اقتباس ہے، ص:۴۱، البتہ مجھے آثار الصنادید میں الحیاۃ بعد المماۃ میں نقل شدہ عبارت نہ مل سکی ۔ دیکھیے ص:۲۹۹ ،مسجد اورنگ آبادی کا ذکر۔ البتہ میاں صاحب کا ذکر بڑے وقیع الفاظ میں کیا ہے اور تدریس کا بھی تذکرہ ہے۔ صاحب الحیاۃ بعد المماۃ کی نقل کردہ عبارت میں تصریح ہے کہ مسجد اس وقت باقی تھی اور تدریس کا عمل جاری تھا۔

(۲) الحیاۃ بعد المماۃ ، ص:۵۴، ایضا،ص:۲۱۱۔ اورنگ آبادی مسجد میں اہل حدیث اور احناف کی چپقلش کا ذکر ایک نئی کتاب ’’مدارس اہل حدیث ‘‘ شائع کردہ مرکزی جمعیت اہل حدیث ہند میں ہے۔ اس کی کوئی حیثیت نہیں۔ مولانا عبدالخالق صاحب یقیناًاہل حدیث نہیں تھے۔ میاں صاحب اس کے کافی دن بعد تک خود فقہ حنفی پر اعتماد کرتے تھے۔

(۳) حاشیہ تحفۃ العرب والعجم،ص: ۱۷۳۔

(۴)غایۃ المقصود :۱/۵۳۔

(۱)صاحب الحیاۃ بعد المماۃ لکھتے ہیں : آپ کو اس کا فکر کبھی نہ ہوا کہ مدرسہ کی عمارت جو تعمیر ہو رہی ہے اس کے لیے روپیہ کہاں سے آئے گا،ص:۱۶۱۔

(۲) مکاتیب نذیریہ ،ص:۲۳۔ خط نمبر ۱۲۔ (۳) مکاتیب نذیریہ ،ص: ۱۱، خط نمبر :۲۔

(۴) دیکھیے مکاتیب ، ص:۱۱۹، خط نمبر ۱۱۸۔

(۱)مکاتیب نذیریہ ،ص: ۱۷، خط نمبر۷۔ (۲)مکاتیب نذیریہ ،ص:۹۲۔۹۳ خط نمبر ۹۲۔

(۳)مکاتیب نذیریہ ، ص:۱۵۹، خط نمبر :۱۶۲۔ (۴)مکاتیب نذیریہ ،ص:۱۲۵، خط نمبر ۱۲۶۔

(۱)مکاتیب نذیریہ ،ص:۴۹،خط نمبر:۴۰ ۔ (۲)مکاتیب نذیریہ ،ص:۳۱، خط نمبر:۲۰۔

(۳)مکاتیب نذیریہ ،ص:۳۹، خط نمبر ۲۹۔

(۴)مکاتیب نذیریہ ،ص:۵۶، اور خط نمبر :۴۹، ایک اور خط میں بھی ۴۵؍ طلبہ کا ذکر ہے ، ص:۶۷، خط نمبر ۶۱۔

(۵)الحیاۃ بعد المماۃ ،ص:۲۱۲۔ (۶) الحیاۃ بعد المماۃ ،ص:۲۴۶، مکاتیب نذیریہ ،ص:۱۱۹، خط نمبر ۱۱۸۔

(۷)الحیاۃ بعد المماۃ،ص:۸۶۔

(۸)مکاتیب نذیریہ ،ص:۱۳۷، ایک اور خط میں جو اسی زمانے میں لکھا ہوا ہے اپنی مجبوریوں کا ذکر کرتے ہیں کہ مسجد تک ڈولی میں بیٹھ کر جاتے ہیں۔ یہ خط ۳؍مئی ۱۸۹۹ ؁ء میں موصول ہواتھا۔ مکاتیب نذیریہ ،ص:۱۳۴،۱۳۵۔
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,783
پوائنٹ
1,069
مشن :

میاں صاحب شروع میں فقہ حنفی پر عامل تھے ۔ بقول نواب قطب الدین دہلوی سید صاحب عدم تقلید کے رجحان کے سخت مخالف تھے۔ اس سلسلہ میں کچھ رسائل بھی تحریر کیے ۔ ان کے خیال میں پھر غیر مقلدحضرات خصوصا عبداللہ صفی پوری اور ان کے اتباع نے سید صاحب کے ساتھ اپنا میل جول بڑھایا اور ان کو اپنے مسلک کی طرف مائل کرنے میں کامیاب ہو گئے۔(۱)

اس سے بڑھ کر غلط فہمی کی مثال مشکل ہے ۔ مقلدین حضرات کے اندر یہ صلاحیت نہیں ہوتی کہ سمجھ سکیں کہ دلائل اور براہین کے اعتبار سے کوئی بھی حق پسند اپنا موقف بدل سکتا ہے ۔ ابتداء میاں صاحب یقیناًحنفی مذہب کی اتباع کرتے تھے لیکن علم وفکر کی پختگی کے ساتھ ساتھ انہوں نے سوچ سمجھ کر ایک فیصلہ کیا اور پھر اس کی ترویج واشاعت میں لگ گئے ۔ میاں صاحب کا سید اسماعیل شہید سے متاثر ہونا ، شاہ ولی اللہ کی کتابوں کا بغایت مطالعہ کرنا اور خانوادہ صادقپور سے قریبی تعلق رکھنا ، ایسے اسباب تھے جن سے فیصلہ میں مدد ملی۔

احادیث اور تفاسیر اور اسلامی کتابوں کے بغائر مطالعہ کے بعد سید صاحب نے تقلید کا جوا اتار دیا۔آپ کو یقین ہو گیا کہ اتباع کتاب کو عام کرنا ہی ان کا خاص مشن ہے۔ لکھتے ہیں : ’’مرا کہ جل شانہ در اشاعت توحید ، واذاعت قرآن وحدیث مامور کردہ است، از لوم لائم خوف نیست، دیدہ بینادارم حاجت عصا ورفیق نیست۔‘‘(۲) کہ اللہ رب العزت نے مجھے توحید ، کتاب وسنت کی اشاعت پر مقرر کیا ہے۔ مجھے ملامت کا ڈر نہیں ہے۔ دیدہ بینا رکھتا ہوں، نہ ڈنڈے کی ضرورت ہے اور نہ رفیق کی ضرورت ہے۔

آمین ورفع الیدین وغیرہ اہل حدیث کے امتیازی مسائل تھے۔ میاں صاحب نے اس پر بھی عمل کیا ۔ کہا جاتا ہے کہ سر سید نے میاں صاحب کو اس کی تحریک کی ۔اس میں شک نہیں کہ سید صاحب نے اپنی دانست میں سمجھا ہو گا کہ میاں صاحب نے رفع الیدین وغیرہ ان کی تحریک پرشروع کیا۔تاہم اس کا سبب میاں صاحب کی اپنی قناعت تھی۔ جس طرح کی بات سرسید سے منقول ہے ، اس سے بھی واضح محرک حافظ یوسف صاحب کے ساتھ پیش ہونے والا واقعہ ہے۔ مولوی عبدالرب واعظ(میاں صاحب کے سالے) نے جب ان سے کہا کہ آمین بالجہر سنت ہوتا تو میاں نذیر حسین بھی کرتے ۔ میاں صاحب کو جب اس کی خبر ہوئی تو کہا اچھا ہم بھی کریں گے۔(۱)

میاں صاحب کا اعلانیہ اتباع سنت اور پھر اس تحریک قیادت نے ہندوستان میں اس کے فروغ میں بڑا کام کیا یہی ’’جرم‘‘ ہے جو مقلدین کو آج بھی سیخ پا کر رہا ہے۔

تدریس کے علاوہ میاں صاحب کی سرگرمیاں:

اللہ تعالیٰ نے میاں صاحب کو گونا گوں صلاحیتوں سے نوازا تھا اور آپ کے وقت میں برکت عطا فرمائی تھی، مشغول تدریسی پروگرام کے ساتھ (الف) دعوت وتبلیغ کے اسفار (ب) اپنے ذہین اور باصلاحیت طلبہ کی تعلیم کے بعد بھی توجیہ اوررہنمائی۔ (ج) فتوی نویسی (د)اہل حدیث عوام اور علما کی دشواریوں کا حل تلاش کرنا اور اس میں قائدانہ رول۔ (ھ) سرحد پار جاری تحریک کی مدد اور اس کے لیے زمین ہموار کرنا (ی) قادیانیت اور دوسری گمراہ تحریکوں کا مقابلہ۔

یہ سارے عناوین بذات خود ایک مستقل مضمون کے مستحق ہیں۔ محض اشارۃًچند باتیں عرض ہیں:

(الف)دعوت وتبلیغ کے لیے میاں صاحب لمبے لمبے اسفار کرتے تھے۔ زیادہ تر یہ سفر بہار اور بنگال کے مختلف خطوں میں ہوتا تھا، آپ کے خطوط میں اس طرح کے کئی اسفار کا ذکر ہے۔ راستہ میں بنارس، الہ آباد ، کان پور وغیرہ میں قیام کرتے تھے ۔ الحیاۃ بعد المماۃ میں اس طرح کے تین اسفار کا ذکر ہے ۔اسی طرح کا ایک اور سفر شاہ اسحاق صاحب کی زندگی میں کیا تھا۔ (۲) مولانا سیالکوٹی نے پنجاب کے سفر کا تذکرہ کیا ہے۔ (۳) متعدد خطوط میں اپنے تلامذہ اور متعلقین کو اپنے سفر کے پروگرام سے آگاہ کراتے ہیں اور ان کے یہاں پہونچ کر ملاقات کی خواہش کا اظہار کرتے ہیں ۔ (۴)

میاں صاحب کے یہ اسفار حکومت وقت کی شدید الجھن کا باعث ہوتے تھے۔ مولانا عبدالعزیز رحیم آبادی کے والد کا یہ بیان اسی زمانے میں شائع ہوا تھا کہ میاں صاحب جب بھی دہلی سے باہر نکلتے ہیں تو تمام اضلاع میں چٹھی خانگی حکام کے نام جاری ہوتی ہے۔ کہ مولوی نذیر حسین کہاں جاتے ہیں اور کیا کیا کام کرتے ہیں؟(۱) اس سلسلے میں میاں صاحب کے متعلق سیکرٹ سروس کی کئی رپورٹیں دستیاب ہیں ۔ قیام الدین احمد کی کتاب ہندوستان میں وہابی تحریک میں بھی دیکھی جا سکتی ہیں۔

(ب) اپنے شاگردوں میں باصلاحیات طلبہ کی پوری زندگی رہنمائی فرماتے ۔ مولانا عبداللہ غازی پوری کو بخاری کا حاشیہ لکھنے کی ترغیب دی ، مولانا ڈیانوی کی شرح ابوداؤد میں بڑی دلچسپی دکھائی ۔ان کی کتاب عون المعبود کے مسودات بھی پڑھتے تھے۔ عبدالعزیز صمدانی کے مختلف مسودات پڑھ کر تصحیح فرمائی۔ مولانا سعید بنارسی کو مخالفانہ تحریر بمقابلہ مولانا بٹالوی لکھنے سے روکتے رہے۔ اس پر آمادہ تھے کہ نواب صاحب اور وہ تحریر کو چھپنے سے پہلے پڑھ لیں ۔ یہ ساری باتیں مکاتیب میں مذکورہیں جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ اپنے شاگردوں سے مثبت کام لینے میں کس قدر دلچسپی لیتے تھے۔ اسی طرح ان کے اختلافات پر کبیدہ خاطر ہوتے اور تنبیہ کرتے ۔(۲)

(ج) فتوی نویسی کا کام بڑے وسیع پیمانے پرہوتا تھا ۔ اس سلسلے میں لائق تلامذہ کو مشق کرواتے ۔ فتاویٰ نذیریہ ۳ جلدوں میں چھپی ہے اس میں شامل فتاوی آپ کے مجموعی فتاویٰ کا عشر عشیر بھی نہیں۔ آپ کے فتاوی اور اوردوسروں کے فتاوی پر مہر اور دستخط کی بڑی قدر کی جاتی تھی۔

(د) آپ کے سامنے اہل حدیثوں کو مسجدوں سے نکالنے کی تحریک شروع ہوئی ، گندے مسائل کا انتساب کیا گیا ، مختلف اہل حدیث علما کے نام سے جھوٹے خطوط بھجوائے گئے ۔ دہلی میں ۱۲۹۸ ؁ھ میں جب یہ صورت حال پیش آئی تو میاں صاحب نے دانش مندی سے مقابلہ کیا ۔ عدالتی کارروائی سے پرہیز کیا تاہم حکام کی کوششوں کا مثبت جواب دیا اور احناف اور اہل حدیثوں کے درمیان ایک معاہدہ طے پایا جو ۲۶؍ذی القعدہ ۱۲۹۸ ؁ھ میں کمشنر نے اپنی نگرانی میں کروایا ۔ (۱) جامع الشواہد نامی گندی کتاب کا اصل ھدف تومیاں صاحب ہی کی ذات تھی۔ آپ کے تلامذہ نے اس کے علمی جوابات دیے ۔میاں صاحب نے بنارس اور دوسری جگہ قائم مقدمات کی پیروی کا انتظام کروایا۔ اس سلسلے کے متعدد خطوط مکاتیب کے مجموعہ میں ہیں جن سے اندازہ ہوتا ہے کہ کس قدر اہتمام سے ان مقدمات کی جزئیات کا تتبع کر رہے تھے۔ اس سلسلہ میں الہ آباد کی عدالت پیش مقدمہ کے سلسلے میں شیخ عبدالرحیم کو لکھا کہ یہ مقدمہ انتہائی اہمیت کا حامل ہے اور مقامی موجودین مالی اعتبار سے کمزور ہیں ۔ ان کی فوری مدد کی جائے کہ خدا نخواستہ مالی دشواریوں کی وجہ سے مقدمہ ہار جائیں۔(۲)

مولانا سعید بنارسی کو بڑی تفصیل سے لکھا کہ کس طرح اور کہاں کہاں سے ضروری کاغذات مل سکتے ہیں، اس بات پر زور دیا کہ مولانا تلطف حسین کی مدد حاصل کریں کہ وہ ان معاملات سے پوری طرح سے آگاہ ہیں۔ (۳)

دوسری طرف علمی اندازمیں معیار الحق لکھ کر اصولی طور سے اہل حدیثوں کا موقف مضبوط انداز میں پیش کیا۔ مولانا غازی پوری ، مولانا بنارسی، مولانا رحیم آبادی مولانا بٹالوی وغیرہم نے اس تگ ودو میں حصہ لے کر اہل حدیث کے موقف واضح کیا۔

(ھ) میاں صاحب کے تحریک مجاہدین سے تعلقات کو دھندلا کرنے کے لیے دیوبندسے بریلی کا اتحاد سب کو معلوم ہے لیکن حقائق کا انکار حقیقت کو تبدیل نہیں کر سکتا۔ مولاناعبید اللہ سندھی جیسے متعصب کو بھی اس کا اعتراف ہے کہ سید صاحب کا تعلق صادق پور کے مجاہدین سے تھا۔
وہابیوں کے خلاف ۵۔۱۸۶۴ ؁ء میں جو مقدمات قائم ہوئے میاں صاحب کو بھی قید کیا گیا اور راولپنڈی میں لایا گیا۔ ایک سال تک قید وبند کی مصیبتیں جھیلیں تاہم کوئی واضح ثبوت نہ ملنے پر رہا کرنا پڑنا۔ یہ واقعات انگریزوں سے وفاداری کے الزامات کا بیخ و بن سے صفایا کر دیتے ہیں۔ خود ۱۸۵۷ ؁ء کے واقعات کے فورا بعد آپ کی قید وبند اور محض اتفاق سے پھانسی سے بچ جانا بھی اس الزام کا منہ چڑھاتا ہے۔ حیات النذیر میں اس کی تفصیل دیکھی جا سکتی ہے ۔اس تحریک کی سرپرستی میاں صاحب کی زندگی کا خاص کارنامہ تھا۔

(ی) جہاں تک شرک وبدعت اور غیر اسلامی رجحانات کے رد کا معاملہ ہے، اس میں میاں صاحب کا رول قائدانہ تھا۔ آپ کے رسائل اورفتاوے اس بات کے واضح ثبوت ہیں ۔ مبتدعین آج تک اسی وجہ سے آپ کی ذات کوہدف بنا رہے ہیں ۔ قادیانیت کے فتنے کے کچلنے میں میاں صاحب نے اپنی پیرانہ سالی میں بھی اہم کردار ادا کیا۔ آپ کا فتوی اس متفقہ تاریخی فتووی کی بنیاد تھا جس میں ہندوستانی علما نے بالاتفاق مرزا اور اس کے اتباع کی تکفیر کی تھی۔ آپ نے مناظرہ کے لیے دہلی میں مرزا کا چیلنچ منظور کیا تو وہ چھپ گیااور دہلی سے فرار اختیار کر لیا

مرزا غلام احمد میاں صاحب کو اپنا سب سے بڑا مخالف مانتا تھا ۔ آپ کو اس امت کا ’’ہامان‘‘ قرار دیتا تھا۔ اس کے خیال میں میاں صاحب کی ایک پھونک نے سارے ملک میں آگ لگا دی تھی۔ میاں صاحب کو تکفیر کی بنیاد ڈالنے والا قرار دیا۔ اس کی تفاصیل خود مرزا کی کتابوں میں مذکور ہیں مرزا لکھتا ہے:

’’ میاں صاحب نے میری باتوں کی طرف کچھ بھی التفات نہ کیا ...مجھے کافر ٹھہرایا... سو میاں صاحب کی اس پھونک سے ایک سخت آندھی پیدا ہو گئی اور ہندوستان اور پنجاب کے لوگ ایک سخت فتنہ میں پڑ گئے ۔ (۱) ....انہوں نے سچی گواہی پوشیدہ کر کے لاکھوں دلوں میں جما دیا کہ درحقیقت یہ شخص کافر اور لعنت کے لائق ہے اور دین اسلام سے خارج ہے۔(۲)

مرزا اپنی ایک دوسری کتاب میں لکھتا ہے: براہین کے صفحہ ۵۰۱ میں یہ لکھا ہے :

’’إذ یمکر بک الذي کفر أوقد لي یا ھامان لعلي أطلع إلی إلہ موسی وإنہ لأظنہ من الکاذبین، تبت یدا أبي لہب وتب، ما کان لہ أن یدخل إلا خائفا، وما أصابک فمن اللہ، الفتنۃ ھھنا، فاصبر کما صبر أولو العزم، ألا إنہا فتنۃ من اللہ لیحب حبا جما حبا من اللہ العزیز الأکرم عطاء غیر مجذوذ۔‘‘ ...

اس وقت مجھے یہ سمجھ آیا کہ الہام میں ہامان سے مراد نذیر حسین محدث دہلوی ہے کیوں کہ پہلے سب سے محمد حسین اس کی طرف التجا لے گیا اور یہ کہا کہ أوقد لي یا ھامان اس کا یہ مطلب ہے کہ تکفیر کی بنیاد ڈال دے تا دوسرے اس کی پیروی کریں ۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ نذیر حسین کی عاقبت تباہ ہے اگر توبہ کرکے نہ مرے ۔اور ممکن ہے ابولہب سے مراد بھی نذیر حسین ہی ہو۔ (۱)

مزید لکھتا ہے :

’’دوسرا فتنہ جو دوسرے درجے پر تھا محمد حسین بٹالوی کی تکفیر کا فتنہ تھا ۔ اس میں بھی عوام کا شوروغوغا پادریوں کے شورو غوغا سے کم نہیں تھا ۔ اسی فتنہ کی تقریب پر بمقام دہلی سات یا آٹھ ہزار کے قریب مکفر اور مکذب جامع مسجد میں میرے مقابل پر اکٹھا ہوئے تھے ، اگر عنایت الہی شامل نہ ہوتی تو ایک خطرناک بلوا برپا ہوجاتا ۔ غرض اس فتنہ کا بانی محمد حسین بٹالوی تھا اور اس کے ساتھ نذیر حسین دہلوی تھا ..... یہ فتنہ بھی پشاور سے لے کر کلکتہ ،بمبئی ، حیدرآباد اور تمام بلاد پنجاب اور ہندوستان میں پھیل گیا ۔‘‘ (۲)

یہ اور اس کی دوسری تحریرں میاں صاحب کے قائدانہ کردار کی شاہد ہیں۔

===========================================

(۱)تحفۃ العرب والعجم ،ص:۴ ا،ایضا جامع الفتاویٰ : ۲/۱۷۳۔۱۷۵۔

(۲)مکاتیب نذیریہ ،ص:۱۴، خط نمبر:۵۔

(۱) تاریخ اہل حدیث: ۲/۶۱۱۔۶۱۲۔

(۲)اسفار کے لیے دیکھیے: الحیاۃ بعد المماۃ، ص:۸۸۔شاہ اسحاق کی ہجرت سے پہلے سورج گڑھ کا سفر ،ص:۱۸۰۔۱۸۲۔

(۳)تاریخ اہل احدیث، ص: ۴۳۳، یہ سفر ۱۸۹۰ ؁ء یا ۱۸۸۹ ؁ء کا ہے۔

(۴)مکاتیب بنام محدث ڈیانوی ، بنگال کے ایک مہینے کے سفر کے بعد دو دن کے لیے ان کے پاس قیام، ص:۴۳، خط نمبر: ۳۵۔ اس طرح کے متعدد خطوط دیکھے جا سکتے ہیں ، صمدانی صاحب کو لکھے تھے کہ الہ آباد یا کان پور میں ملیں گے۔

(۱)بحوالہ تاریخ اہل حدیث: ۲/۱۵۰، ڈاکٹر بہاء ۔ان کا ایک اور بیان ہے کہ میاں صاحب کے آمد کی اطلاع اپنے علاقے میں جاسوسوں کی کثرت اور اہل حدیثوں کی شدید نگرانی سے ہو جاتی ہے ، تاریخ اہل حدیث:۴/۲۱۴۔

(۲)مکاتیب میں عون المعبود کی ابتدا پر خوشی ، ص: ۲۹، تکمیل کی دعا،ص:۳۴، تکمیل کی تمنا ،ص:۲۹،نظر ثانی کا وعدہ، ص:۳۵، شرح کی بابت استفسار ،ص: ۳۵، مولانا سعید بنارسی کو ایک رسالہ برائے جواب بھجوایا، ص:۹۰، دوسرے خطوط ، ص: ۷۶۔۷۵، ایضا، ۷۶، ص:۱۳۱، غازی پوری کے نام ، ۳۷، ۱۱۰۔۱۱۱ وغیرہ۔

(۱) تفصیل کے لیے دیکھیے الکلام النباہ ،ص: ۱۵۸۔۱۶۰، مجموعہ رسائل غازی پوری۔

(۲)مکاتیب نذیریہ ،ص:۱۱۱، خط نمبر ۱۰۹۔

(۳) مکاتیب نذیریہ ،ص:۱۰۶۔۱۰۷،خط نمبر ۱۰۳۔ اہل حدیثوں کے خلاف دہلی ،میرٹھ، الہ آبادوغیرہ میں بہت سارے مقدمات قائم تھے، بعض کی تفصیل حافظ غازی پوری نے مولانا امرتسری نے فتوحات اہل حدیث میں ذکر کی ہیں، ڈاکٹر بہاؤ الدین نے تاریخ اہل حدیث میں بہت سے مقدمات کی تفصیل ذکر کر دی ہیں۔

(۱) روحانی خزائن:۴/۲۱۲۔

(۱) سراج منیر حاشیہ ، روحانی خزائن: ۱۲/۳۰۔۳۱۔ (۲) کذا،ص:۵۵۔۵۶۔
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,783
پوائنٹ
1,069
میاں صاحب کامطالعہ اورکتابوں کے حصول کا ذوق:

بچپن سے کتب بینی کی عادت کا ذکر میاں صاحب نے خود اپنے ایک خط میں کیا ہے۔ یہ سلسلہ ساری زندگی قائم رہا۔ مطالعہ کے ساتھ ساتھ اللہ رب العزت نے مضبوط حافظہ اور اخاذ ذہن عطا فرمایا تھا۔ پرانے مخطوطات کی تلاش اور ان کی خرید کا شدید جذبہ موجود تھا۔

محمد ہواتی کو ایک خط میں لکھتے ہیں:

’’ مرا ضرورت خرید کتب پارینہ ہر وقت است۔‘‘ (۳) مخطوطات کا اچھا خاصہ ذخیرہ اکٹھا کر لیا تھا۔(۴)بسا اوقات مولانا ڈیانوی (۵) یا بھوپال سے ضرورت کی کتابیں منگا کر پڑھتے تھے۔ (۶)فاروق فی الحدیث نامی کتاب طلب کی۔ چاہے صمدن میں ملے یا قنوج میں ضرور لائیں۔ (۷)

سفر حج:

سفر حج میاں صاحب کی زندگی کا ایک خاص واقعہ ہے ۔ اس کے بغیر آپ کی سوانح حیات مکمل نہیں ہو سکتی ۔ میاں صاحب نے ۱۳۰۰ ؁ ھ میں حج کا قصد کیا ۔ اس زمانہ میں مولوی وصی احمد سورتی نے جامع الشواہد لکھی۔ آپ کے ساتھ جوحضرات جانا چاہتے ان کو مطلع کیا گیا ۔ بعض حضرات کو شامل سفر ہونے کی رغبت رہی اور سارے خرچ کی ذمہ داری قبول کی۔ (۱) اس سفر میں آپ کے ساتھ دہلی کے پانچ احباب کا خاص طور سے تذکرہ ملتا ہے ۔ مولوی تلطف حسین، محمد احمد، حفیظ اللہ ، حاجی قطب الدین اورامام جامع مسجدسید احمد، ڈپٹی امداداللہ صاحب بھی شریک سفر تھے ۔ آپ کے حج کے لیے روانگی کے ساتھ ہی مخالفت کاطوفان شروع ہوجاتاہے۔ بمبئی میں آپ کا قیام محلہ تاراگھاٹ نمبر ۶۱؂ میں تھا۔ (۲) لوگوں نے بمبئی میں جامع الشواہد کی بنا پر مناظرہ کرنا چاہا مگر آپ نے انکار کر دیا۔ حج تو بعافیت گذر گیا۔ آپ نے منی کے قیام کے درمیان وعظ ونصیحت کا سلسلہ بھی جاری رکھا۔جامع الشواہد کو شکایت بنیاد بنا کر معاملہ اٹھایا گیا۔

حج ختم ہونے کے بعد حاجی امداداللہ مکی ( مولانا نانوتوی اور گنگوہی کے پیر) رحمت اللہ کیرانوی اور دوسرے مخالفین نے ترکی گورنر کے پاس شکایت کی جس کے نتیجہ میں آپ کو تین دن قید میں رکھا گیا۔

میاں صاحب کو اس سفر میں کیا مشکلات پیش آئیں ؟اس وقت کے اخبارات اخبارقیصر الہنداور دوسرے مخالف اخبارات میں برابر شائع ہورہا تھا۔ اشاعۃ السنۃ ، تحفۂ حق میرٹھ، نصرت السنہ وغیرہ میں آپ کے محبین بھی اس موضوع پر لکھ رہے تھے۔ اس سفر میں کیا ہوا، ساری تفاصیل الجھی ہوئی ہیں ۔ زیادہ خبریں افواہ کی بنا پر تھیں ۔ قتل تک کی خبر چھپ گئی تھی۔ ایک طرف رحمت اللہ کیرانوی مخالفت میں پیش پیش تھے دوسری طرف کہا جارہا تھا کہ ان کی ضمانت پر مدینہ روانہ ہوئے۔

یہ صحیح ہے کہ ۳ ؍دن تک آپ کو نظر بند رکھا گیا ، تفتیش ہوئی ، برٹش کونسل نے مداخلت کی ، دوسرے اعیان مکہ نے بھی اپنا رول ادا کیا اور اس طرح آپ کی نہ صرف رہائی ہوئی بلکہ مدینہ کے ترکی حاکم کے پاس پروانہ جاری ہوا کہ آپ کو بحفاظت مدینہ کی زیارت کا موقعہ دیا جائے۔
میاں صاحب کے مخالفین کا کہنا ہے کہ جامع الشواہد کے مندرجات کو تسلیم کر کے میاں صاحب نے ترک تقلید سے توبہ کر لی ، اس بات کو خوب اچھالا گیا۔

میاں صاحب کہتے ہیں کہ مجھ سے کہا گیا کہ تم معتزلی ہو ، اعتزال سے توبہ کر لو ۔ میرا اعتزال سے کوئی تعلق نہ تھا میں نے کہا ہر مسلمان کو اس سے توبہ کرنی چاہیے ۔(۱) نواب صدیق حسن صاحب کے نام اپنے خط میں بھی اس سفر کا تذکرہ ہے اور لکھا کہ نصرت السنۃ میں جو کچھ چھپا ہے وہی حقیقت ہے۔(۲) در اصل آپ کا سفر حج ایک مستقل مقالہ کا مستحق ہے۔

ذریعہ معاش اور سماجی حالات:

دہلی آنے کے بعد میاں صاحب نے درس وتدریس کے علاوہ کوئی اور کام نہیں کیا۔ سماجی طور سے آپ کا شمار دہلی کے بڑے علما ء میں ہوتا تھا۔ آپ کی درس گاہ سے بڑی اور کوئی درس گاہ موجود نہیں تھی۔ ہر طرف سے حدیث وتفسیر کی تکمیل کے لیے شائقین علم آرہے تھے ۔ خود اہل دہلی آپ کی شخصیت کو بڑی قدر کی نگاہ سے دیکھتے تھے ۔ آپ کی مسجد اورگھر کی شہرت ہر طرف ہو گئی تھی۔بڑی مسجدوں کے اپنے اوقاف اور ذریعہ آمدنی ہوتا تھا ، امام اور مدرسین کو تنخواہ ملتی تھی ، ہو سکتا ہے مسجد اوررنگ آبادی میں اس طرح کا انتظام رہا ہو۔

بظاہر کوئی ذریعہ معاش نہ ہونے کے باوجود میاں صاحب باعزت زندگی گذار رہے تھے ۔ رہائش کرایہ کے مکان میں تھی۔ بیٹا میاں شریف حسین اور ان کے بچے ، بیٹی اور ان کے شوہر اور بچے سب آپ کے ساتھ رہتے تھے۔ دوست احباب کی پرتکلف دعوت کرتے تھے۔

یہ سب کچھ بقول میاں صاحب ’’ دست غیب‘‘ سے مل رہا تھا۔ (۳) کہتے ہیں ’’بوریہ نشین و کرباس پوش ہشتم... روزی رسان از بامداتابشام می بخشند ،تصرف می آید ، بروز دیگر چاہ کندن وآب نمودن پیش نظر می باشد۔‘‘ (۴)یعنی بوریہ نشین ٹاٹ پہننے والا روزی رساں جو دیتا ہے شام تک صرف ہو جاتا ہے، ہر روز پھر انتظار اور یہی جد وجہد رہتی ہے۔

بذات خود انتہائی سادہ زندگی گزارتے تھے، سرکہ روٹی عام غذا ہوتی تھی۔(۱) آپ اپنی ضروریات کا نہ کسی کے سامنے تذکرہ کرتے اور نہ مانگتے تھے ۔ آپ کے محبین اور متوسلین خود بخود بطور ہدیہ جو کچھ پیش کر دیتے تھے وہی گذارہ کا ذریعہ تھا۔

وفات:

میاں صاحب کی صحت بتائی جاتی ہے کہ عام طور سے اچھی تھی ۔ تاہم بعض خطوط سے پتہ چلتا ہے کہ قبض اور سردرد کی تکلیف پرانی تھی۔ (۲)بڑھاپے کی وجہ سے کئی عوارض لاحق ہو گئے تھے۔ گھٹنوں میں درد آخری وقت میں شدید ہوگیا تھا، اسی وجہ سے ۱۰ مہینے صاحب فراش رہے۔ ایک آنکھ کی روشنی بھی بالکل ختم ہو چکی تھی۔ سماعت بھی سخت متاثر ہوگئی تھی۔ ضیق النفس کی تکلیف تھی ۔ اٹھنے بیٹھنے اور انسانی حوائج میں سخت دقت ہوتی ہے۔غالبا اس حال میں املا کرایاکہ خوب پڑھا لیا، کتاب اللہ اور سنت نبوی کی خدمت کر لی ۔ اب کوئی تمنا اس دنیائے فانی میں باقی نہیں رہی ۔ ہاں اللہ جل شانہ کے دربار حق جانے کے لیے فقیر تیاررہے۔‘‘ (۳)

اس طرح سو سال کی جد وجہد کے خاتمے کا وقت آ گیا اور ۱۰ رجب ۱۳۲۰ ؁ھ مطابق ۱۳؍اکتوبر ۱۹۰۲ ؁ء کو مغرب اور عشا کے درمیان اس دنیا سے کوچ کیا ۔ دوسرے دن بیٹے سید شریف حسین کی قبر کے قریب اپنی قبر میں اتار دیے گئے۔

رحمہ اللہ رحمۃ واسعۃ وتغمدہ بغفرانہ وکرمہ۔

===========================================

(۳)مکاتیب نذیریہ ،ص: ۱۰۲، خط نمبر :۹۸۔ (۴) الحیاۃ بعد المماۃ ،ص:۸۱۔
(۵) مکاتیب نذیریہ، ص:۲۳، خط نمبر: ۱۳۔ (۶) الحیاۃ بعد المماۃ،ص:۸۲۔
(۷)مکاتیب نذیریہ، ص:۴۸، خط نمبر:۳۹۔

(۱)مکاتیب نذیریہ،خط بنام مولوی یوسف صاحب، ص:۱۴۷، خط نمبر: ۱۴۹۔
(۲)مکاتیب نذیریہ، ص: ۱۴۸، خط نمبر: ۱۵۰۔

(۱)مکاتیب نذیریہ، ص:۲۵، خط نمبر: ۷۲۔ (۲)مکاتیب نذیریہ، ص:۱۵۶، خط نمبر: ۱۵۸۔
(۳)مکاتیب نذیریہ، ص:۱۱۹، خط نمبر: ۱۱۸۔ (۴)مکاتیب نذیریہ، ص:۱۴۰، خط نمبر : ۱۴۴۔

(۱)الحیاۃ بعد المماۃ،ص:۱۵۶،۱۷۶،۲۳۶۔ (۲)مکاتیب نذیریہ، ص:۳۴، خط نمبر:۲۴۔
(۳)مکاتیب نذیریہ، ص:۱۷۲، خط نمبر:۱۷۴۔
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,783
پوائنٹ
1,069
فصل دوم


حضرت میاں صاحب سید نذیر حسین رحمۃ اللہ علیہ
شاہ اسحاق سے تلمذ


ابن عبد البر (متوفی ۴۶۳ھ) کا قول ہے:

’’یستدل علی نباہۃ الرجل من الماضین بتباین الناس فیہ‘‘ (۱)

حافظ ابن عبدالبر نے اس مختصر جملے میں تجربات کا نچوڑ پیش کر دیا ہے ۔ تاریخ بتاتی ہے کہ ہر بڑے آدمی کے سلسلے میں اختلاف ہوئے ہیں اور یہ اختلافات کمیت اور کیفیت ہر لحاظ سے مختلف فیہ شخصیت کے مرتبہ کی نمائندگی کرتے ہیں۔

شیخ الکل حضرت مولانا سید نذیر حسین صاحب محدث دہلوی رحمہ اللہ (م۱۳۲۰ھ) ایک تاریخ ساز حیثیت کے مالک تھے ۔ قدرت نے انہیں جو مرجعیت اور مقبولیت بخشی تھی کسی کو کم ہی ملتی ہے۔ ’’ ذلک فضل اللہ یؤتیہ من یشاء‘‘ آپ کی یہ شہرت اور ہر دلعزیزی بہتوں کے لیے موجب قلق بن گئی ، الزام، بہتان ،تہمت تراشی کا ہر حربہ استعمال کیا جانے لگا ، اس طرح آپ کی شخصیت کو داغدار بنانے کی مکروہ کوشش کی گئی ، مجبورا میاں صاحب کے نیاز مندوں کو ان ریشہ دوانیوں کا پردہ چاک کرنا پڑا اور ایک لامتناہی سلسلہ بحث کا دروازہ کھل گیا ۔ اس قسم کے تمام ایرادات پر اتنی بحث ہو چکی ہے کہ اس میں کوئی ندرت باقی نہیں رہ گئی ہے لیکن تعصب اور تنگ نظری کا برا ہو کہ آج بھی ایسے حضرات مل جاتے ہیں جو انہیں چبائے ہوئے نوالوں پر قناعت کر لیتے ہیں۔

پروفیسر ایوب صاحب قادری کا شمار بر صغیر کے بلند پایہ تذکرہ نویسوں میں ہوتا ہے۔(۲) تراجم کے سلسلے میں موصوف کی معلومات خاصی وسیع ہیں ، مگر جماعتی اور گروہی عصبیت موصوف سے کچھ ایسی باتیں کہلواتی ہیں جو ان کے شایان شان نہیں۔

میاں سید نذیر حسین صاحب دہلوی کا تذکرہ کرتے ہوئے قادری صاحب اپنے بعض نظریات پر سختی سے عمل کرتے ہیں ، اب تو یہ عادت سی ہوگئی ہے کہ میاں صاحب کا جب بھی تذکرہ کریں تو شاہ اسحاق(م۱۲۶۲ھ) سے عدم تلمذ اور انگریزوں سے وفاداری کا مسئلہ وغیرہ ضرور پیش کر دیں۔

شاہ اسحاق سے میاں صاحب کا تلمذ نہ ماننے اور میاں صاحب کو انگریزوں کا وفادا ر ثابت کردینے کی مصلحت یہ بتانا ہے کہ ہندوستان میں عدم تقلید کا رجحان ولی اللہی مکتبہ فکر سے ماخوذ نہیں اور آزادی کی صبر آزما جد وجہد سے علمائے اہل حدیث بالکل الگ تھلگ تھے ، اس طرح دیوبند ولی اللہی مکتب فکر کا مسلمہ امین بن جاتا ہے اور شہیدین کی تحریک جہاد کا سارا کریڈٹ اس طبقہ کو مل جاتا ہے قادری صاحب جس کے ہمنوا ہیں۔

قادری صاحب شیخ الکل کا تذکرہ کس انداز سے کرتے ہیں ہم ’’تذکرہ علمائے ہند‘‘ اردو سے میاں صاحب کا ترجمہ نقل کرتے ہیں۔ یہ پورا ترجمہ موصوف ہی کی کاوش کا ثمرہ ہے ۔ یہ لکھنے کے بعد کہ (فلاں فلاں اساتذہ سے تحصیل علم کی، لکھتے ہیں : آپ نے اجازت شاہ اسحاق سے حاصل کی) مولانا حبیب الرحمن خان شیروانی قاری عبد الرحمن کا بیان لکھتے ہیں کہ جس روز شاہ اسحاق ہجرت کر کے حجاز روانہ ہوئے تو اس روز نذیر حسین ان کی خدمت میں حاضر ہوئے اور چند کتابوں کی اول اول ایک ایک حدیث پڑھی اور کل کتابوں کی اجازت حاصل کی ۔ شاہ صاحب نے ایک چھوٹے کاغذ پر یہی واقعہ لکھ کردے دیا ۔ اس واقعہ سے پہلے مدرسہ میں پڑھنے کبھی نہیں آئے۔ ۱۸۵۷ ؁ء میں ایک انگریز خاتون کو پناہ دی ، ساڑھے تین مہینے تک رکھا جس کے بدلے میں ایک ہزار تین سو روپئے اور خوشنودی سرکار کا سرٹیفیکٹ ملا ۔ جس زمانے میں (۶۵۔۱۸۶۴ ؁ء) وہابیوں پر مقدمے چل رہے تھے میاں نذیر حسین کو بھی بحیثیت سرگروہ وہابیاں احتیاطاً ایک برس تک راول پنڈی کی جیل میں نظر بند رکھا گیاتھا مگر بقول مؤلف ’’الحیاۃ بعد المماۃ‘‘ وفادار گورنمنٹ ثابت ہوئے اور کوئی الزام ثابت نہ ہوسکا ، جب میاں نذیر حسین حج کو گئے تو کمشنر دہلی کا خط ساتھ لے گئے ، گورنمٹ انگلشیہ کی طرف سے ۲۲؍جون ۱۸۹۷ ؁ء کو شمس العلماء کا خطاب ملا ۔ ۱۳؍اکتوبر ۱۹۰۲ ؁ء کو دہلی میں انتقال کیا۔ (۱)

غور فرمائیے کہ اس سارے ترجمے میں قادری صاحب نے بکمال احتیاط صرف انہیں چند چیزوں کا انتخاب کیا ہے جس سے صاحب ترجمہ کی شخصیت مجروح ہوسکے ، اس پورے ترجمے میں ایک لفظ بھی ایسا نہیں ہے جو آپ کے فضل وکمال اور برصغیر میں اشاعت حدیث کے سلسلے میںآپ کی جد وجہد پر دلالت کرے ۔ میاں صاحب کے ساتھ موصوف کا یہی رویہ دوسرے مقامات پر بھی ہے چنانچہ’’ کالا پانی ‘‘میں میاں صاحب کا تذکرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

(۱) مولوی نذیر حسین بن جواد علی سورج گڑھ ضلع مونگیر (بہار) میں ۱۲۲۰ ؁ھ مطابق ۱۸۰۵ ؁ء میں پیدا ہوئے ۔ ۱۶ سال کے بعد علم کی طرف میلان ہوا۔ ۱۲۳۷ ؁ھ مطابق ۱۸۲۱ ؁ء میں وطن سے پوشیدہ طور پر صادق پور پہونچے وہاں کچھ درسی کتابیں پڑھیں ۔ ۱۲۴۳ ؁ھ مطابق ۱۸۲۹ ؁ء میں دہلی پہونچے ، پنجابی کٹرے کی مسجد اور نگ آباد ی میں ٹھہرے ، مولوی عبدالخالق دہلوی اخوند شیر محمد قندھاری ، مولوی جلال الدین ہروی ، مولوی کرامت علی بنی اسرائیلی ، مولوی محمد بخش ، مولوی عبدالقادر رام پوری (م ۱۲۶۵ ؁ھ مطابق ۱۸۵۴ ؁ء) (تلمیذ مفتی شرف الدین رامپوری ) سے جملہ علوم حاصل کیے ۔ حدیث کی اجازت شاہ محمد اسحاق دہلوی (م۱۲۶۵ ؁ھ مطابق۶۔ ۱۸۴۵ ؁ء) سے حاصل کی ۔ (۱)

نواب مولوی حبیب الرحمن خان شیروانی عبدالرحمن محدث پانی پتی کا بیان لکھتے ہیں کہ ’’ جس روز شاہ محمد اسحاق صاحب ہجرت کرکے حجاز روانہ ہوئے تو اس روز نذیر حسین ان کی خدمت میں حاضر ہوئے اور چند کتابوں کی اولیت کی ایک ایک حدیث پڑھی اور کل کتابوں کی اجازت حاصل کی۔ شاہ صاحب نے ایک چھوٹے کاغذ پر یہی واقعہ لکھ کر دے دیا ، اس سے پہلے مدرسہ میں پڑھنے کو کبھی نہیں آئے۔‘‘ (۲)

مولانا سلیمان ندوی نے اس سلسلے میں کچھ قلمی مواد کی نشاندہی کی ہے جو انہیں نواب صدیق حسن خاں (ف ۱۳۰۷ ؁ھ مطابق ۱۸۸۹ ؁ء) کے کاغذات میں ملا تھا (۳) ۱۸۵۷ ؁ء میں ایک انگریز خاتون کو پناہ دی ، ساڑھے تین مہینے گھر میں چھپائے رکھا جس کے بدلے میں ایک ہزار تین سو روپئے اور خوشنودی سرکار کا سرٹیفیکٹ ملا ۔ جس زمانے میں (۱۸۶۵ ؁ء) وہابیوں پر مہم امبیلا کے نتیجہ میں مقدمے چل رہے تھے تومیاں نذیر حسین کو بھی بحیثیت سرگروہ وہابیاں احتیاطاً راولپنڈی جیل میں نظر بند رکھا گیا۔ میاں نذیر حسین کے یہاں سے مختلف حضرات مولوی محمد جعفر تھانیسری (تین خط) مبارک علی ساکن پٹنہ (دو خط) عطاء اللہ (میرٹھ) محمد عثمان (کان پور) امین الدین (کلکتہ ) ابو سعید محمد حسین بٹالوی ( امرتسری)محمد سوداگر (الموڑہ) کے خطوط برآمد ہوئے ، خود میاں صاحب کے خطوط کی نقول ملیں جو مختلف حضرات کو لکھے گئے تھے۔ بہادر شاہ ظفر بادشاہ دہلی کے غدر (۱۸۵۷ ؁ء) کے دوران میں پانچ فرمان نکلے ۔ اس تمام مواد کی بڑے غور وفکر سے تحقیق کی گئی۔ (۱) نتیجہ یہ نکلا کہ میاں صاحب کا جہاد کی تحریک سے کوئی واسطہ نہ تھا اور بقول مؤلف ’’الحیاۃ بعد المماۃ‘‘ (سوانح عمری میاں نذیر حسین دہلوی ) ’’میاں نذیر حسین وفادار گورنمنٹ ٹھہرے اور کوئی الزام ثابت نہ ہو سکا ۔ جب میاں صاحب حج کو تشریف لے گئے تو کمشنر دہلی کا خط ساتھ لے گئے ، گورمنٹ انگلشیہ کی طرف سے ۱۴؍ جون ۱۸۹۷ ؁ء کو شمس العلماء کا خطاب ملا ۔‘‘ (۲) میاں نذیر حسین دہلوی عامل بالحدیث عالم تھے، ۱۸۵۷ ؁ء کے بعد دہلی میں میاں صاحب کی شخصیت خاص امتیاز کی مالک رہی ہے، ملک کے مختلف حصوں سے لوگ دہلی پہنچتے اور میاں صاحب سے تحصیل علم کرتے ۔ میاں صاحب کے قیام کی وجہ سے ۱۸۵۷ ؁ء کے بعد اس میں آمین بالجہر، رفع یدین ، آٹھ رکعت تراویح، فاتحہ خلف امام، اور حنفی عامل بالحدیث کے اختلافی مسائل کو خاص طور سے فروغ ہوا۔ میاں صاحب نے اس موضوع پر ایک مستقل کتاب ’’معیار الحق‘‘ تصنیف کی ۔ ۱۳؍اکتوبر ۱۹۰۲ ؁ء کو دہلی میں میاں نذیر حسین کا انتقال ہوا۔ (۳)

اس طرح اپنے ایک تازہ مضمون میں جو ’’معارف‘‘ لاہور میں شائع ہوا ہے قادری صاحب نے اپنی ہی تحقیقات نقل کر دیں ہیں ۔ تذکرہ علمائے ہند میں شاہ اسحاق کا تذکرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

’’ الحیاۃبعد المماۃ ( سوانح عمری میاں نذیر حسین) کے مؤلف کا یہ بیان درست نہیں کہ شاہ اسحاق کی ہجرت کے بعد خاندان ولی اللہی کے صدر نشین میاں نذیر حسین ہوئے بلکہ حضرت شاہ اسحاق کے جانشین ،ان کے تلمیذ خاص شاہ عبدالغنی مجددی دہلوی تھے جنہوں نے اپنے شیخ کے مسلک کا اتباع کیا اور حجازکو ہجرت کر گئے اور میاں نذیر حسین نے حضرت شاہ محمد اسحاق دہلوی کے مسلک کے خلاف انگریزوں سے خوشنودی کا سرٹیفیکٹ ،انعام، اور شمس العلماء کا خطاب حاصل کیا۔‘‘ (۱)

قادری صاحب کی ان تمام تحقیقات کو سامنے رکھ کر اگر غیر جانبداری سے غور کیا جائے تو یہ تاثر پیدا ہوتا ہے کہ یہ ساری تگ ودو صرف اس لیے ہے کہ خاندان ولی اللہی سے میاں صاحب کا تعلق ختم کر دیا جائے اور اس مکتبہ فکر کا صحیح جانشین دیوبند کو ثابت کر دیا جائے۔ مذکورہ بالا اقتباسات میں صراحت کے ساتھ قادری صاحب نے اس مقصد کو واضح کر دیا ہے۔

قادری صاحب کے بارے میں سبھی جانتے ہیں کہ آپ دیوبندی مکتبہ فکر سے تعلق رکھتے ہیں اور اس کے زبردست حامی ہیں ، حتی کہ احناف اور اہل حدیثوں کے درمیان نزاعی مسائل میں آپ کی حیثیت ایک جانبدار فریق کی سی ہے۔ افسوس کہ تاریخ نگاری میں بھی ان کی یہ پوزیشن صاف نظر آتی ہے اور آپ بالکل جانبدار بن جاتے ہیں ۔ مثال کے طور پر ہم ایک معاملے کو پیش کرتے ہیں۔

۱۹۶۴ ؁ء میں ’’وصایا اربعہ‘‘ کے نام سے ایک کتاب شائع ہوئی ہے ، اس میں آپ کی طرف سے ایک طویل معلوماتی مقدمہ بھی شامل ہے ، اس مقدمہ میں آپ نے یہ انکشاف کیا ہے کہ شاہ ولی اللہ صاحب کی طرف بعض کتابوں کا انتساب غلط ہے ، اس سلسلے میں اپنا خاص ہدف اہل حدیثوں کو بنایا ہے او رخصوصیت کے ساتھ ’’البلاغ المبین‘‘ اور ’’تحفۃ الموحدین‘‘ کو جعلی اور وضعی قرار دیا ہے۔ اس سلسلے میں آپ نے جو دلائل پیش کیے ہیں وہ یہ ہیں:

’’ طرز تحریر شاہ صاحب کا نہیں‘‘ (۲) ’’کسی سوانح نگار نے ذکر نہیں کیا‘‘ (۳) ’’ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ خاص طور سے ابن تیمیہ کا پروپیگنڈہ مقصود ہے۔‘‘ (۴) ’’کتاب کے شروع میں مصنف کا نام ولی اللہ دہلوی ہے ، حالانکہ شاہ صاحب فقیر ولی اللہ لکھتے ہیں‘‘(۵) ’’یہ نہیں معلوم کہ قلمی نسخہ کہاں سے ملا اور اس کی سند کیا ہے؟‘‘

یہ ہیں وہ دلائل جن کو بنیاد بناکر موصوف نے ان دونوں رسالوں کو وضعی قرار دیا ہے، ممکن ممکن ہے قادری صاحب کا خیال صحیح ہو یہ کوئی مستبعد بات نہیں مگر اسی مقدمے میں موصوف نواب سعادت یار خان رنگین (م ۱۲۵۱ ؁ھ) کے ایک منظوم وصیت نامے کو شاہ صاحب کا آخری وصیت نامہ قرار دیتے ہیں اور پوری قوت سے اپنے اس موقف کی حمایت کرتے ہیں ۔ یہاں بھی وہ تمام سوالات موجود ہیں، ان میں سے کسی کا کوئی معقول جواب موجود نہیں ۔ خود لکھتے ہیں:’’ اصل (جسے منظوم کیا گیا ہے) دستیاب نہیں‘‘ (۱) شاہ صاحب کے کسی سوانح نگار نے اس کا تذکرہ نہیں کیا ہے مگر پھر بھی ارشاد ہے کہ یہ شاہ صاحب کی تصنیف ہے اور ’’البلاغ المبین‘‘ ان کی طرف غلط منسوب ہوگئی ہے۔ ’’البلاغ المبین‘‘ کے سلسلے میں قادری صاحب کے اٹھائے ہوئے تمام نکات کا جواب مولانا عطاء اللہ صاحب حنیف بھوجیانی دے چکے ہیں ۔ وہ لکھتے ہیں کہ یہ وہی فارسی کتاب ہے جو مطبع محمدی لاہور میں مولانا فقیر اللہ لاہوری کے اہتمام سے تقریباً پون صدی قبل شائع ہوئی تھی۔ چند سال ہوئے مکتبہ سلفیہ لاہور نے تحقیق و تعلیق ضمیمہ اور عمدہ طباعت سے آراستہ شائع کیا تھا ، اب وہی نسخہ پشاور سے حال ہی میں شائع ہوا ہے ۔ بعض لوگ شاہ صاحب کی طرف اس کے انتساب میں خواہ مخواہ کا شک پیدا کرتے ہیں حالانکہ انکار کی کوئی معقول وجہ موجود نہیں۔ کتاب کا موضوع رسومات شرکیہ وبدعیہ کا رد۔ وہی مضمون ہے جو شاہ صاحب کی تقریبا سبھی دعوتی قسم کی تصانیف میں موجود ہے جو اس میں تفصیلا ہے اور غالبا یہی باعث ہوا کہ ماحول میں شدت کی بنا پر ابتدائیہ میں نام کی صراحت نہیں فرمائی گئی کہ حکمت اس کی متقاضی ہوئی جیسا کہ شاہ عبدالعزیز صاحب نے ’’تحفہ اثنا عشریہ‘‘ کے ابتدائیہ میں غلام حلیم ابن قطب الدین کا رویہ اختیار فرمایا ۔ شاہ صاحب کی تالیفات کے بیان میں ’’البلاغ المبین‘‘ کا ذکر بھی عموماً اسی وجہ سے نہیں ملتا ۔ علاوہ ازیں کسی کثیر التصانیف مصنف کی کسی کتاب کا ذکر رہ جانا کیا امکان سے بعید ہے؟ حال ہی میں حافظ ابن القیم کی ایک اہم کتاب ’’أحکام أہل الذمۃ‘‘ دو ضخیم جلدوں میں شام سے طبع ہوکر آئی ہے جس کا دنیا بھر میں ایک ہی مخطوطہ ڈاکٹر حمید اللہ مد ظلہ کے خاندان سے دستیاب ہوا ہے ۔ اس کا تذکرہ حافظ ابن القیم کی کتاب میں نہیں ملتا ، پھر یہ انکار کیا اس سے ملتا جلتا رجحان نہیں کہ کسی ستم ظریف نے ’’تقویۃ الایمان‘‘ کے شاہ اسماعیل کی تصنیف ہی ہونے سے انکار کردیا تھا۔ امید ہے ’’إتحاف النبیہ‘‘ کے مخطوطے کی لوح پر ’’البلاغ المبین‘‘ کے تذکرے سے بتوفیقہ تعالی یہ خلجان رفع ہو سکے گا۔(۱) واللہ یھدي من یشاء إلی صراط مستقیم۔

رنگین کے منظوم وصیت نامے کو شاہ صاحب کا آخری وصیت نامہ قرار دیتے ہوئے قادری صاحب نے جو دلائل فراہم کیے ہیں وہ یہ ہیں:

’’یہ خیالات وافکار شاہ صاحب کی دوسری تصانیف ’’حجۃ اللہ البالغہ‘‘ وغیرہ میں موجود ہیں۔‘‘ (۲)

دوسرے یہ کہ رنگین نے اس کو شاہ صاحب کی طرف منسوب کیا ہے۔ اگر یہ دلائل اس لائق ہیں کہ ان کی بناء پر اس وصیت نامے کو شاہ صاحب کا وصیت نامہ مان لیا جائے تو ’’البلاغ المبین‘‘ اور ’’تحفۃ الموحدین‘‘ تو اس سے بڑھ کر اس بات کی مستحق ہیں کہ انہیں شاہ صاحب کی تصانیف میں شمار کیا جائے۔ ظاہر ہے کہ مولانا فقیر اللہ مدراسی کا قول نواب رنگین کے مقابلے میں زیادہ قابل اعتناء ہے۔ رہ گئی مضمون کی یکسانیت تو وہ بالکل عیاں ہے۔ یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ اس مزعومہ وصیت نامے میں ایسی کئی چیزیں موجود ہیں جو قادری صاحب کے اس دعویٰ کو جھٹلا رہی ہیں کہ یہ مضامین شاہ صاحب کی دوسری کتابوں میں دستیاب ہیں۔ ہم ذیل میں چند کی نشاندہی کر رہے ہیں ؂

دے اذاں بھی نہ قبر کے اوپر
کوئی دینے لگے تو منع نہ کر (۳)

قادری صاحب بالکل خاموش ہیں اور ضمیمہ میں مطلق اشارہ نہیں کرتے کہ یہ فکر شاہ صاحب کی کس کتاب میں موجود ہے ۔ اسی طرح قادری صاحب نے متعدد چیزوں کے بارے میں کہہ دیا ہے کہ اس سلسلے میں کوئی چیز نظر سے نہیں گزری۔ (۴)

شرع میں ہے نکاح کا یہ اصول
مردوزن کر لیں ہم دگر کو قبول(۵)

اس شعر کے معاً بعد شاہد اور وکیل کا بیان ہے ، ولی کا تذکرہ نہیں ، حنفیہ کا مسلک بھی یہی ہے کہ نکاح بلاولی کے منعقد ہوجاتا ہے مگر شاہ ہ صاحب اس کے بر عکس رائے رکھتے ہیں۔ ’ ’حجۃ اللہ البالغہ‘‘ میں ’’لا نکاح إلا بولي ‘‘ کے تحت فرماتے ہیں:

’’ واضح رہے کہ نکاح کے بارے میں تنہا عورتوں کو مختار بنانا ٹھیک نہیں کیوں کہ ان کی عقلیں ناقص رہتی ہیں ، اس واسطے ضروری ہے کہ مردوں کا دخل ہو نیز نکاح میں ولی کی شرط مردوں کی عظمت کی دلیل ہے۔ خود قادری صاحب نے بھی یہ عبارت نقل کی ہے مگر اس تضاد پر تنبہ نہ ہو سکا‘‘ (۱)

مہر کی انتہا ہے دس ہی درہم
مہر اس سے نہ باندھنا چاہیے کم(۲)

حنفیہ کا یہی خیال ہے مگر شاہ صاحب فرماتے ہیں:

’’ نبی ﷺ نے اس کی کوئی ایسی حد متعین نہیں کی ہے جس میں کمی بیشی نہ ہو سکے ، چنانچہ آپ نے ایک شخص سے کہا کچھ تلاش کر لو خواہ لوہے کی انگوٹھی ہی کیوں نہ ہو۔‘‘

صرف یہی چند چیزیں نہیں ہیں جو شاہ صاحب کے فکر سے متصادم ہیں بلکہ کتاب میں اس کے اور بھی نمونے بآسانی مل سکتے ہیں ۔ ان تمام کے باوجود قادری صاحب کا اصرار ہے کہ اسے شاہ صاحب کا وصیت نامہ مان لیا جائے ، اس کی دو وجہیں ہیں:

(۱) اس مزعومہ وصیت نامے میں ایک شعر ہے:

مرا مذہب ہے مذہب حنفی
سب پہ روشن ہے یہ جلی وخفی(۳)

(۲) اس وصیت نامے میں اس کی بھی صراحت موجود ہے کہ عمر کے آخری حصہ میں لکھا گیا ہے۔ شعر ؂

اب مرے دل میں آسمائی ہے یہ
دولت اکسٹھ برس میں پائی ہے یہ (۴)

یہ دونوں باتیں قادری صاحب کے لیے بڑی پرکشش ہیں کیوں کہ اس سے ایک طرف تو یہ ثابت ہوتا ہے کہ شاہ صاحب حنفی المسلک تھے اور دوسری طرف وہ مشہور وصیت نامہ منسوخ ہوجا تا ہے جس میں آپ نے فقہاء کی خدمت کا اعتراف کرتے ہوئے فقائے محدثین کے اچھے طریقے کو راجح قرار دیا ہے اور اپنی اولاد کو اسی پر کاربند رہنے کی وصیت کی ہے،قادری صاحب کی یہ تمام باتیں صرف مسلک کی دفاع اور اس کی محبت سے معمور ہو کر کرتے ہیں ، اس لیے ہم نے ابتداء ہی میں عرض کر دیا ہے کہ موصوف اختلافی مسائل میں ایک جانب دار فریق ہیں۔

ذکر تھا میاں صاحب کا شاہ اسحاق سے تلمذ اور انگریزوں سے ان کی وفاداری کا ، مگر بات میں بات پیدا ہوتی گئی اور سلسلہ کلام دراز ہوگیا ، اب ہم اصل مسئلہ پر گفتگو کر رہے ہیں ۔ حضرت شیخ الکل کا شاہ اسحاق سے تلمذ ایک ایسا مسئلہ ہے جسے نہ صرف قادری صاحب بلکہ احمد رضا بجنوری جیسے دوسرے متعدد حضرات پیش کرتے رہتے ہیں۔

===========================================

(۱) الجواھر المضیءۃ في طبقات الحنفیۃ:۲ /۲۹ ۔
(۲) یہ مقالہ اس وقت لکھا گیا تھا جب موصوف حیات تھے۔

(۱)تذکرہ علماء ہند اردو، مرتبہ ایوب قادری ،ص۵۹۵ ،مقالات شروانی ،از حبیب الرحمن خان شروانی ،ص: ۲۸۲، الحیاۃ بعد المماۃ۔

(۱) تواریخ عجیب یعنی کالا پانی ،مرتبہ محمد ایوب ایم اے ،ص: ۲۶۲ ۔
(۲)ایضا۔ (۳) حیات شبلی، ص:۴۶۔

(۱) بنگال گورنمنٹ ریکارڈس،ص ۶۵۔۷۱۔ (۲)الحیاۃ بعد المماۃ، از فضل حسین ۔
(۳)تواریخ عجیب یعنی کالا پانی ،ص: ۲۶۴۔

(۱) تذکرہ علمائے ہند ، ص: ۴۱۰۔
(۲)مجموعہ وصایا اربعہ ،مرتبہ محمدایوب قادری ،ص:۲۸۔ (۳) ایضا،ص:۲۹ ۔
(۴) ایضا،ص:۲۸ ۔ (۵) ایضا، ص:۲۸۔

(۱)مجموعہ وصایا اربعہ ،ص: ۳۲۔

(۱) حاشیہ إتحاف النبیہ، للشاہ ولي اللہ محدث الدہلوي، ص:۶ ۔
(۲) مجموعہ وصایا اربعہ ،ص: ۳۲۔ (۳) ایضا،ص: ۱۲۰۔
(۴)ایضا، ص: ۱۳۴ وص:۱۳۷۔ (۵) ایضا، ص: ۱۱۳۔

(۱) مجموعہ وصایا اربعہ ،ص: ۱۳۵۔۱۳۶۔ (۲) ایضا،ص: ۱۱۴۔
(۳) ایضا،ص: ۱۰۹۔ (۴) ایضا،ص: ۱۱۳۔

 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,783
پوائنٹ
1,069
شاہ اسحاق اور میاں صاحب:

یہ بات تو متفق علیہ ہے کہ میاں صاحب ۱۲۴۳ ؁ھ میں دہلی پہنچ گئے تھے ۔ اسی طرح یہ حقیقت بھی ناقابل انکار ہے کہ شوال ۱۲۵۸ ؁ھ تک شاہ اسحاق رحمۃ اللہ علیہ دہلی میں تھے ، ظاہر ہے یہ طویل مدت استفادہ کے لیے بہت کافی ہے ، اس مدت میں شاہ اسحاق اور میاں صاحب کا ملنا جلنا بھی طے شدہ ہے، چنانچہ منکرین تلمذ کے معتمد راوی امیر خان صاحب کی روایت میں ہے کہ مہینہ دو مہینہ میں آیا کرتے تھے، قاری عبدالرحمن پانی پتی نے بھی اس کا اعتراف کیا ہے۔ (۱) اس طرح میاں نذیر حسین کی شادی کے موقع پر شاہ صاحب کا طالب علموں کے ساتھ حاضر ہونا بھی مشہور بات ہے ، لیکن یہ کیسے طے ہو کہ اکتساب اوراستفادہ بھی ہے یا نہیں ، اس کی تین صورتیں ہیں:

(۱) استاذ کی سند(۲) صاحب معاملہ کا اقرار(۳)معاصرین اور مؤرخین کی شہادت

لیکن قبل اس کے کہ ہم اس معاملے پر ان تینوں طریقوں سے غور کریں یہ بتا دینا ضروری ہے کہ مسلک ولی اللہی کا پابند ہونا شاہ اسحاق سے تلمذ پر ہرگز موقوف نہیں کیوں کہ شاہ صاحب کے افکار کی امین ان کی کتابیں ہیں ، خاندان کے افراد سے حدیث پڑھے بغیر بھی آدمی ان کی کتابیں حاصل کر کے ان کا پابند ہوسکتا ہے ، دوسرے یہ کہ میاں صاحب کی عظمت اس پر ہرگز موقوف نہیں کہ شاہ صاحب سے آپ کا تلمذ ثابت ہو جائے بلکہ آپ کی عظمت کا راز ذاتی قابلیت اور اہلیت ہے ۔ تلمذ بالکل اضافی چیز ہے ۔ آئیے اب اس مسئلے پر گفتگو کریں۔

استاد کی سند :

مخالفین اور موافقین دونوں کا اتفاق ہے کہ شاہ اسحاق نے میاں صاحب کو سند عطا کی تھی مگر نوعیت میں اختلاف ہے ، میاں صاحب کے پاس شاہ صاحب کے دست خاص سے لکھی ہوئی دستخط اور مہر سے مزین جو سند موجود تھی اس کے الفاظ یہ ہیں:

’’الحمد للہ رب العالمین، والصلوۃ والسلام علی سید المرسلین، محمد و آلہ وصحبہ أجمعین، أما بعد! فیقول العبد الضعیف محمد إسحاق إن السید النجیب المولوي محمد نذیر حسین قد قرأ علي أطرافا من الصحاح الستۃ البخاري ومسلم وأبي داود والجامع للترمذي والنساءي وابن ماجہ وشیئا من کنز العمال والجامع الصغیر وغیرھا، وسمع مني الأحادیث الکثیرۃ، فعلیہ أن یشتغل بقراء ۃ ھذہ الکتب و یتدرس بہا لأنہ أھلھا بالشروط المعتبرۃ عند أھل الحدیث وإني حصلت القراء ۃ والسماعۃ والإجازۃ لھذہ الکتب من الشیخ الأجل الشیخ عبدالعزیز المحدث الدھلوي وھو حصل القراء ۃ والإجازۃ عن الشیخ ولي اللہ الدھلوي رحمۃ اللہ علیہما وباقي سندہ مکتوب عندہ حرر في ثاني عشر من شہر شوال ۱۲۵۸ ؁ من الھجرۃ والحمد للہ أولا و آخرا۔‘‘

محمد إسحاق
۱۲۵۲ھ (۱)


یہ سند شاہ اسحاق رحمۃ اللہ علیہ کے دست خاص سے لکھی ہوئی ہے ، مولانا احمد علی سہارنپوری نے سند دیکھنے کے بعد اس کا اعتراف کیا تھا۔ (۲)

مولانا محمد سعید صاحب بنارسی (م۱۳۲۲ھ ؁) کا بیان ہے کہ جامع صغیر کی الگ ایک دوسری سند بھی تھی ، اس میں لکھا ہوا تھا : ’’قرأ علي کلھا‘‘ (۱)

ظاہر ہے کہ ان دونوں سندوں کی موجودگی میں یہ افسانہ کہ ’’ بوقت ہجرت میاں صاحب کے ایک ایک حدیث پانچ چھ کتابوں کی میاں صاحب کو سنا کر ایک پرچہ پر بطور سند لے لیا تھا‘‘ کٹ حجتی اور دروغ گوئی کے علاوہ اور کچھ نہیں ۔ کیا’’ قرأ علي أطرافا‘‘اور ’’سمع مني أحادیث کثیرۃ‘‘ کا مطلب یہی ہوتا ہے کہ بس چند کتابوں کی ایک ایک حدیث پڑھ لی ہے اور کیا ’’قرأ علي کلھا‘‘ کا مطلب یہ ہے کہ مجھ سے ایک ہی حدیث ا س کتا ب سے پڑھی ہے ؟

گویا اگر ہم اس معاملے پر اس نقطہ نظر سے غور کریں کہ شاہ اسحاق کا بیان کیا ہے تو معاملہ بالکل واضح ہو جاتا ہے اور فیصلہ کی یہی آسان ترین صورت ہے، اس کے بعد بھی اعتراف نہ کرنا تعصب اور تنگ نظری کی بد ترین مثال ہے۔

میاں صاحب کا بیان:

اس معاملے میں کسی قطعی رائے تک پہونچنے کا ایک طریقہ یہ بھی ہے کہ صاحب کے معاملہ بیان پر غور کرلیا جائے، میاں صاحب کا بیان اس سلسلے میں بالکل واضح ہے فرماتے ہیں:

’’در صحیح بخاری بوقت صبح از جناب مولانا محمد اسحاق مرحوم شریک شدم واکثر سامع بودم وکمتر قاری‘‘ یعنی صحیح بخاری کے درس میں صبح کو شاہ اسحاق کے یہاں حاضر ہوتا تھا۔ ان مجلسوں میں اکثر سامع رہتا تھا اور قاری کم۔ اسی طرح صحیح مسلم کے بارے میں فرماتے ہیں: ’’در صحیح مسلم ہمی معاملہ رواداد۔‘‘ اسی طرح ہدایہ، جامع صغیر اور دوسری کتابوں کے بارے میں میاں صاحب تفصیل کے ساتھ بتاتے ہیں کہ کون سی کتاب کس وقت اور کس کے ساتھ پڑھی۔ رفقاء درس میں مولانا گل محمد پشاوری، مولانا عبداللہ سندھی، مولانا نور علی اور محمد فاضل صاحب کا تذکرہ خصوصیت سے کرتے ہیں۔ یہ پوری داستان خود میاں صاحب کے قلم سے ہے اسے صاحب ’’الحیاۃ بعد المماۃ‘‘ نے پورا کا پورا نقل کردیا ہے یہ یادداشت (ص۳۹ سے ۴۱) تک پھیلی ہوئی ہے

اس کے علاوہ ایک اور یادداشت میں لکھتے ہیں:

’’واحادیث بسیارے نیز از مولانا حاصل نمودم یا ودو ازدہ ،سیز دہ سال بصحبت مولانا فیض یاب..... دریں ازمنہ کثیرہ صد ہافتویٰ اتفاق تحریر اودادہ خود مولانا مرحوم بنا بر امتحاں ونیز کار گذاری مستفتیاں سوالہا سپرد می فرمودند برائے تحریر جوابات۔‘‘

یعنی میں نے شاہ صاحب سے بہت سی حدیثیں بھی سنی ہیں اور بارہ تیرہ سال تک ان کی صحبت سے فیض یاب رہا..... اس طویل زمانہ میں سیکڑوں فتوے لکھنے کی نوبت آئی خود مولانا مرحوم امتحان کے طور پر اور کارگذاری جانچنے کے لیے بہت سے مستفتیوں کے فتاوے جواب لکھنے کے لیے عنایت کردیا کریتے تھے۔ (۱)

میاں صاحب کے یہ بیانات درحقیقت شاہ اسحاق رحمۃ اللہ علیہ کے بیان ’’قرأ علي أطرافا من الصحاح وسمع مني أحادیث کثیرۃ‘‘ کی شرح و تفسیر ہیں دونوں بیانات بالکل یکساں ہیں۔ ان بیانات کے علاوہ میاں صاحب نے اپنے ہزاروں شاگردوں کی سندوں پر لکھا ہے کہ:

’’إني حصلت القراء ۃ والسماعۃ من الشیخ محمد إسحاق المحدث الدھلوي رحمہ اللہ‘‘

ان تمام چیزوں کو سامنے رکھنے کے بعد کسی منصف مزاج کے دل میں شک و شبہ نہیں رہ سکتا۔ جو حضرات اس ثابت شدہ واقعہ کا انکار کرتے ہیں اس کا باعث تعصب کے سوا کوئی دوسری چیز نہیں ۔ایک ذمہ دار صادق القول عالم دین برابر اس چیز کا اعلان کررہا ہے کہ میں نے فلاں استاد سے فلاں کتاب اس وقت پڑھی، میرے رفقائے درس یہ حضرات تھے اور اس کے استاد کا قول بھی اس کی تائید کررہا ہے پھر بھی یہ حضرات آنکھ بند کرکے اس کا انکار کررہے ہیں۔ ان کا ضمیر بھی انہیں ملامت نہیں کرتا۔

دوسروں کی شہادتیں:

اب ہم معاصرین کی شہادت کے اعتبار سے اس معاملے پر غور کریں گے ۔ یہاں ہمیں انکار واقرار دونوں پہلو زیر بحث لانے ہیں ۔ ہم چاہتے ہیں کہ پہلے منکر ین کے بیانات پر بحث کریں ۔ پروفیسر قادری صاحب نے قاری عبدالرحمن پانی پتی سے جو روایت نقل کی ہے ہم نے انہی کے الفاظ میں ذکر کر دیا ہے، انہیں بیانات کو مولانا احمد رضا بجنوری نے اپنے حاشیوں کے ساتھ ’’انوارالباری جلد دوم‘‘ میں نقل کیا ہے۔ پھر مولانا عبدالغنی مجددی کے تذکرے میں اسی طرح کی ایک دوسری روایت بھی ذکر کی ہے ۔ یہ روایت ’’ارواح ثلاثہ‘‘ کے حوالہ سے نقل کی گئی ہے ، اس کے راوی امیر خاں نے مولانا عبدالقیوم بڑھانوی سے نقل کیا ہے کہ ’’ جس روز شاہ صاحب حجاز جارہے تھے میاں نذیر حسین حاضر ہوئے تو نواب قطب الدین صاحب (جن سے اس وقت میاں نذیر حسین کی دوستی تھی) کی سفارش پر حضرت نے ان سے تمام کتابوں سے ایک ایک حدیث پڑھائی اور اجازت دے دی۔‘‘(۱) اس روایت کو نقل کرکے صاحب انوار لکھتے ہیں: ’’ بظاہر یہ روایت ثقات سے مروی ہے‘‘۔ مولانا اشرف علی صاحب تھانوی (م۱۹۴۴) اس روایت پر بطور حاشیہ لکھتے ہیں :’’ ایسی سندسند برکت ہے اجازت نہیں‘‘(۲)
یہی وہ دونوں روایتیں ہیں جن پر ان حضرات کا سارا دارومدار ہے اس لیے ہم تفصیل سے ان دونوں کی قدروقیمت واضح کرنا چاہتے ہیں۔

قاری عبدالرحمن پانی پتی اور ان کی روایت:

حقیقت یہ ہے کہ اس افسوس ناک جواب اور جواب الجواب کے سلسلے کے بانی قاری صاحب ہی ہیں ۔ موصوف نے اس نظریہ کی تبلیغ کو اپنی ایک اہم ذمہ داری قرار دے رکھا تھا ، جگہ جگہ جاکر شد ومد کے ساتھ اعلان کرتے اور اس پر بحث ومباحثہ کے لیے لوگوں کو للکارتے تھے۔ مولانا محمد سعید بنارسی (م۱۳۲۲ھ)لکھتے ہیں کہ ’’قاری صاحب ایک مرتبہ بنارس تشریف لائے اور اس نظریہ کی تبلیغ شروع کی تو افسوس ناک صورت حال پیدا ہوگئی ۔‘‘(۳)

پانی پتی صاحب نے اپنی تصنیف ’’کشف الحجاب‘‘ میں اس مسئلے کا ذکر نہایت درشت انداز میں کیا ہے، لکھتے ہیں کہ: ’’کبھی مسئلہ پوچھنے کو یا کوئی لفظ ’’جلالین ‘‘ کا پوچھنے کو آجاتے تھے، خدمت میں جناب مولانا اسحاق قدس سرہ کے بوقت ہجرت میاں صاحب ایک ایک حدیث پانچ کتابوں سے شاہ اسحاق کو سنا کر ایک پرچہ پر بطور سند کے لے لیا اور محدث بن بیٹھے۔‘‘ (۴) اس مسئلہ سے موصوف کو کچھ ایسا شغف تھا کہ ملاقاتیوں تک سے اس کا تذکرہ کرتے رہتے ، چنانچہ مولانا شروانی سے ایک انتہائی سرسری ملاقات میں اس مسئلہ کا تذکرہ کیا تھا،(۱) لیکن یہ سوال کہ موصوف نے یہ روش کیوں اپنائی اب بھی جواب طلب ہے، میں سمجھتا ہوں کہ اس کے مختلف عوامل موجود ہیں۔

صاحب ’’الحیاۃ بعد المماۃ‘‘ لکھتے ہیں :

’’شاہ اسحاق صاحب نے ایک بار طلبہ سے پوچھا کہ ’’إذا‘‘ مفاجات کے لیے ہے۔طلبہ جواب دے ہی رہے تھے کہ قاری صاحب بول اٹھے کہ ’’إذا‘‘ مفاجات کے لیے آتا ہے ؟ میاں صاحب نے مذاقاً کہا ’’یک نہ شد دو شد ‘‘قاری صاحب اس واقعہ سے ایسے برہم ہوئے کہ پھر بھلا نہ سکے۔ ‘‘ (۲)

طالب علمی کا یہی واقعہ کیا کم تھا کہ موصوف کی نواب باندہ کے یہاں ملازمت کے زمانہ میں ایک اور واقعہ پیش آگیا ۔ واقعہ کی تفصیل یہ ہے کہ نواب صاحب کے یہاں قاری صاحب سے سینیئر ایک دوسرے قاری موجود تھے ، انہیں لوگ قاری فیض کے نام سے جانتے تھے۔ قاری فیض کم علم اور نابینا تھے لیکن ان کی تنخواہ پانی پتی صاحب سے زیادہ تھی ۔ قاری پانی پتی صاحب اس صورت حال پر سخت جھنجھلائے۔ اپنی اہمیت جتلانے کے لیے ایک کاغذ پر قرأت کے متعلق پچیس سوالات لکھ کر لائے اور نواب صاحب سے کہا کہ قاری فیض صاحب سے اس کا جواب دلا دیجیے۔ نواب صاحب نے یہ رقعہ قاری فیض کے حوالے کر دیا، اس کے بعد قاری فیض نواب صاحب کے ہمراہ بنارس آگئے ۔ اتفاق کی بات کہ انہی دنوں میاں صاحب بھی بنارس تشریف لائے تھے۔ قاری فیض صاحب آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور میاں صاحب سے ان سوالات کا جواب لکھنے کی فرمائش کی ۔ جواب لکھ کر میاں صاحب نے پوچھا یہ سوالات کس نے دیے ہیں ؟ یہ بتلانے پر کہ پانی پتی کے سوالات ہیں میاں صاحب نے فرمایا ہمارا پرانا یار ہے مگر بڑا غصہ ور، اس کو نہ معلوم ہو ورنہ بگڑ جائے گا لیکن قاری صاحب کو اس واقعہ کا علم ہو گیا تو سخت برہم ہوئے۔‘‘ (۳)
یہ دونوں واقعات حقیقتاً انتہائی معمولی اور غیر اہم ہیں مگر قاری پانی پتی کی طبیعت سے جو لوگ واقف ہیں وہ جانتے ہیں کہ ان کے لیے یہ واقعات ہی بڑے اہم تھے، صرف مذکورہ بالا واقعہ ہی پانی پتی صاحب کی حاسدانہ طبیعت کا بذات خود آئینہ دار ہے ، تاہم آئیے قاری صاحب کی مزاجی کیفیت سے متعلق چند مزید باتیں عرض کر دوں ۔ یہ بات تو بہت مشہور ہے کہ قاری پانی پتی صاحب بڑے غصہ ور آدمی تھے ، مولانا سعید صاحب بنارسی لکھتے ہیں کہ:’’ قاری صاحب سخت غصہ ور آدمی تھے۔‘‘ (۱) ڈپٹی امداد العلی اکبرآبادی نے بھی قاری صاحب کی حدت مزاجی کا ذکر کیاہے۔ صاحب ’’الحیاۃ بعد المماۃ‘‘ لکھتے ہیں :’’قاری صاحب شدید الغیظ آدمی تھے‘‘(۲) چند سطر قبل ہی میاں صاحب کا بھی ایک ریمارک گذر چکا ہے۔ مولانا احمد علی بجنوری ایک واقعہ بیان کرتے ہیں کہ میرے ایک استاد سند لکھوانے حضرت (پانی پتی ) کے پاس گئے ، کلک موجود نہیں تھا، فاؤنٹین پین دے دیا تو ہاتھ سے جھٹک دیا اور فرمایا کہ تم لوگوں میں نیچریت سرایت کر گئی ہے۔‘‘(۳)

درحقیقت پانی پتی صاحب کی یہ مزاجی کیفیت ایسی انتہا کو پہنچی ہوئی تھی کہ جس کا ذکر الفاظ میں ناممکن ہے ۔ ایک واقعہ سے اس کا اندازہ لگائیے ’’ آپ کے ایک شاگرد حنیف آروی کا بیان ہے کہ ایک بار قاری صاحب کچھ لکھ رہے تھے ، ایک رومال دھوپ میں خشک ہونے کے لیے پھیلائے ہوئے تھے، رومال اتفاقاً اڑ گیا تو درست کر دیا ، پھر اڑا پھر ٹھیک کر دیا ، تیسری بار جب پھر ایسے ہی ہو ا تو قاری صاحب سخت برہم ہوئے اور اٹھ کر رومال کو ٹکڑے ٹکڑے کر دیا اس کے بعد جوتوں سے ان ٹکڑوں کی پٹائی شروع کری ساتھ ہی بلند آواز سے یہ بھی کہتے جاتے پھر اڑ، پھر اڑ۔‘‘ (۴)

ظاہر بات ہے حدت مزاجی اور جوش غضب سے مغلوب طبیعت والا انسان ان مذکورہ بالا واقعات کا کیسے تحمل کر سکتا ہے ۔ میاں صاحب سے قاری صاحب کی عدوات اس حد تک بڑھ گئی تھی کہ میاں صاحب کے بڑھ کر ملنے کے باوجود قاری صاحب ان کی طرف ملتفت نہ ہوئے ۔ اب آپ خود فیصلہ کیجیے کہ اس پس منظر میں پانی پتی صاحب کے قول پر غور کرنا کیا کوئی معقول بات ہے۔
معاصرت ہی کیا کم تھی کہ اس کے ساتھ ساتھ عداوت بھی جمع ہو گئی، ایسی صورت میں اگر امام مالک جیسے جلیل القدر امام کا قول قابل اسناد نہیں قرار دیا جاسکتا تو یہ پانی پتی صاحب کس شمار وقطار میں ہیں۔ خطیب بغدادی (م۴۶۳ ؁ھ)لکھتے ہیں:
’’إن مالکا عابہ جماعۃ من أھل العلم في زمانہ بإطلاق لسانہ في قوم معروفین بالصلاح والإنابۃ والثقۃ والأمانۃ‘‘ (۱)یعنی امام مالک پر کچھ اہل علم نے ان کے زمانے میں اس بات پر سخت نکیر کی ہے کہ انہوں نے بہت سے صالح ، ثقہ اور امین لوگوں پر جرحیں کی ہیں۔

===========================================

(۱) کشف الحجاب بحوالہہدایۃ المرتاب ،ص: ۳۸۔کشف الحجاب کے صفحات ۳۱،۳۵،۳۷، اور ۴۵ میں میاں صاحب کے شاہ صاحب کے پاس آنے کا اعتراف ہے۔

(۱) الحیاۃبعد المماۃ، ص: ۴۵۔ (۲) ایضا، ص: ۴۹۔

(۱) کشف الحجاب بحوالہ ہدایۃ المرتاب، ص:

(۱) الحیاۃ بعد المماۃ، ص:۳۹ ۔۴۱۔

(۱)انوار الباری :۲/۲۱۷۔ (۲) ارواح ثلاثہ، ص: ۱۲۰۔
(۳)ہدایۃ المرتاب برد ما في کشف الحجاب، ص:۳۔ (۴) ایضاص: ۳۷۔

۱)مقالات شروانی ۔ (۲) الحیاۃ بعد المماۃ، ص: ۵۱۔
(۳) ایضا، ص: ۱۵۵۔

(۱) کشف الحجاب۔ (۲) الحیاۃ بعد المماۃ، ص:۵۱۔
(۳) انوار الباری۔ (۴) ہدایۃ المرتاب، ص:۶۔

(۱) تاریخ بغداد :۱/ ۲۲۳۔
 
Last edited:
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,783
پوائنٹ
1,069
روایت ارواح ثلاثہ :

اب رہ گئی ’’ ارواح ثلاثہ ‘‘ کی روایت ، اس سلسلے میں ہمارا دعویٰ ہے کہ یہ روایت بالکل خانہ زاد ہے، ہمارے پاس اس کے جعلی اور وضعی ہونے کے متعدد شواہد موجود ہیں ۔ سردست اجمالاً چند اشارے پر اکتفا کر رہے ہیں ، اس روایت کا ماحصل صرف اتنا ہے کہ ’’میاں صاحب کو شاہ صاحب سے تلمذ حاصل نہیں، سند صرف اس کی دی گئی تھی کہ مجھ سے آج چند حدیثیں پڑھی ہیں ‘‘ مگر ہم نے شاہ صاحب کے دست خاص کی لکھی ہوئی جو سند پیش کی ہے اس کے الفاظ ببانگ دہل اعلان کر رہے ہیں کہ یہ افسانہ بالکل فرضی ہے۔ شاہ صاحب کے الفاظ ہیں ’’سمع مني الأحادیث الکثیرۃ‘‘ اور ’’قرأ علي أطرافا من الصحاح‘‘ کیا یہ الفاظ یہی بتا رہے ہیں کہ واقعہ کی صورت وہی ہے جو یہ حضرات بتا رہے ہیں ۔ کیا ایک ہی مجلس میں تھوڑی دیر کے اندر احادیث کثیرہ کا سماع ممکن بھی ہے ؟ظاہر ہے کہ شاہ صاحب کے قول کے مقابل میں کسی کی بات ہرگز لائق اعتناء نہیں بن سکتی۔

دوسری بات یہ ہے کہ اس روایت کے راوی امیر خاں صاحب دیوبندی حلقے میں خواہ کسی بھی حیثیت سے جانے پہچانے جائیں مگر عام اہل علم کی نظر میں ایک قصہ گو سے زیادہ نہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ ’’ارواح ثلاثہ ‘‘کی متعدد روایات کو اہل علم نے جعلی قرار دیا ہے۔ مولانا غلام رسول مہر صاحب (م۱۹۷۱ ؁ء) اس کتاب پر تبصرہ کرتے ہوئے رقم طراز ہیں :

’’اس میں سید صاحب شاہ اسماعیل اور بعض دوسرے بزرگوں کے متعلق حکایات ہیں لیکن بعض حکایات بداہتاً غلط ہیں مثلاً حکایت ۵۴، ۵۵، ۹۱، ۱۱۰، ۱۲۱۔‘‘ (۱)

مولانا مسعود عالم ندوی (م۱۹۵۴ ؁ء) نے بھی ایسی ہی رائے ظاہر کی ہے ۔ اس لیے ظاہر ہے ایسی اہم بحث میں داستان سرایوں کی شہادت ہرگز قابل قبول اور لائق اعتناء نہیں ہو سکتی۔

تیسری بات یہ ہے کہ اس روایت میں یہ بتلایا گیا ہے کہ ’’بغیر پڑھے سند نواب قطب الدین صاحب کی سفارش پر ملی تھی۔‘‘مگر خود نواب صاحب اس کے برخلاف تلمذ کا بصراحت اعتراف کرتے ہیں۔ علی گڈھ انسٹی ٹیوٹ گزٹ میں میاں صاحب کی وفات کے بعد ایک مضمون شائع ہوا تھا جو انسٹیٹیوٹ گزٹ کے ایڈیٹر کا تھا ۔ صاحب مضمون نے لکھا ہے:

’’اس میں شک نہیں کہ آپ کو شاہ (اسحاق) صاحب کی خدمت میں تلمذ حاصل ہے، چنانچہ مولانا قطب الدین نے اپنی کسی تصنیف میں اس کی تصریح کی ہے۔‘‘ (۲)

نواب قطب الدین صاحب کے اس اعتراف کے بعد اب یہ کہنے کی ضرورت نہیں کہ اس روایت کی آبرو ہی کیا رہ گئی؟

یہ ہے ان دونوں روایتوں کی حقیقت جن کی بنا پر دیوبندی مکتب فکر کے تنگ نظر علما میاں صاحب کی عالمانہ شان پر بٹہ لگانے کی کوشش کرتے ہیں۔ اب ہم ذیل میں چند ایسے افراد کا تذکرہ کریں گے جنہوں نے حق و انصاف کو ملحوظ رکھ کر حقائق کا اعتراف کیا ہے۔
مثبتین

آنکھ بند کرکے حقائق کا انکار بڑے دل گردے کاکام ہے، اس لیے اکثر انصاف پسند قادری اور قاری صاحب کی روش کو غلط قرار دیا ہے ۔ ہم ذیل میں چند اہم حضرات کی شہادتیں نقل کررہے ہیں۔

مولانا محمد تھانوی (م۱۲۹۶ھ ؁)

مولانا موصوف دیوبندی مکتب فکر کے بلند پایہ عالم ہیں۔ اپنے ایک خط میں لکھتے ہیں :

’’ہر روز الانادراً حاضر خدمت عالی حضرت استاذی مولانا ممدوح می شدند وحل مشکلات حدیث شریف وتفسیر وفقہ وغیرہ بخوبی می کردند......وتوجہ خاطر حضرت مولانا محمد اسحق قدس سرہ جانب مولوی نذیر حسین از بس بودہ است بوقت رونق افروزی حرمین شریفین بتقریب ہجرت مسموع است کہ برآں یقین است سندحوالہ مولوی سید نذیر حسین صاحب عطا فرمودہ اندوحجاز گرد انیدہ۔ فقط بجہت ’’ولا تکتموا الشہادۃ‘‘ ہرچہ معلوم مخلص بود بے کم وکاست وانمود ....برقول اہل عناد گوش نباید نہاد سد راہ فیض است کہ ازاوشاں جاری است بر قدر کہ نوآموزاں بر آں ناز می کنند زیادہ ازاں مولوی صاحب موصوف در ذخیرہ خویش نہادہ فراموش کردہ باشند‘‘(۱)

یعنی استاذ محترم کی خدمت میں روزانہ برابر حاضر ہوتے تھے اور حدیث، تفسیر، فقہ کی مشکلات کا حل طلب کرتے۔ مولانا محمد اسحاق صاحب قدس سرہ کی توجہ مولوی نذیر حسین کی طرف بہت زیادہ تھی ، سنا ہے اور اس پر یقین بھی ہے کہ (مولانا اسحاق) جس وقت حرمین کی طرف ہجرت کرنے والے تھے آپ کو سند دی اور اپنا مجاز بنایا ۔ جو کچھ مجھے معلوم تھا میں نے ’’لاتکتموا الشھادۃ‘‘ فرمان خداوندی کی رعایت کرتے ہوئے بے کم وکاست بیان کر دیا۔ اہل جہل وعناد کی بات نہیں سننی چاہیے کہ اس میں اس فیض کے بند ہوجانے کا اندیشہ ہے جو مولانا موصوف سے جاری ہے ۔ اتنی مقدار(علم وفضل) کہ جس پر نوآموزوں کو ناز ہوتا ہے مولانا موصوف نے حاصل کرکے فراموش کر دیا۔‘‘

مولانا احمد علی سہارن پوری (محشی بخاری):

مولانا احمد علی سہارن پوری بھی ابتدا میں اس کا انکار کرتے تھے کہ میاں صاحب کو شاہ صاحب کی جناب میں تلمذ حاصل ہے، چنانچہ اس بارے میں ان سے اور میاں صاحب سے کئی مرتبہ گفتگو ہوئی ۔ جب مولانا موصوف کو یقین ہو گیا کہ میاں صاحب کو تلمذ حاصل ہے تو علی الاعلان اس کا اقرار کر لیا۔ فضل حسین مظفر پوری نے مولانا سہارنپوری اور میاں صاحب کے درمیان اس موضوع پر ہونے والی ایک گفتگو کی روداد یوں نقل کی ہے کہ میاں صاحب نے پوچھا کہ تم شاہ اسحاق کا خط پہچانتے ہو؟ انہوں نے کہا خوب پہچانتا ہوں ۔ میاں صاحب نے اپنی سند سامنے رکھ دی اور کہا کہ کہو یہ کس کا حرف ہے؟ انہوں نے کہا کہ شاہ محمد اسحاق صاحب کا ۔ پھر پوچھا کہ مہر کس کی ہے؟ مولوی احمد علی صاحب نے کہا کہ شاہ اسحاق صاحب کی ۔(۲)

غالباً انہیں مناقشات کی وجہ سے مولانا سہارن پوری کی رائے بدل گئی اور انہوں نے متعدد طریقے سے میاں صاحب کے تلمذ کا اقرار کیا۔ ایک اعلان عام میں لکھتے ہیں :

’’ صحبت وزیارت وحاضر باشی مولوی صاحب ممدوح بہ حضرت مولانا نوراللہ مرقدہ چوں شمس نصف النہار ہویدہ است تخمیناً پانژدہ سال مولوی صاحب موصوف وحضرت مولانا درشہر دہلی بودند پس اشتباہ عدم صحبت وزیارت بے اصل است۔ واما اشتباہ اسناد کتب احادیث پس چوں اسناد ودستخطی حضرت مولانا ممدوح بدست مولوی صاحب موجود است محل اشتباہ نیز باقی نماندہ۔‘‘
(محررہ پانزدہم ربیع الاول ۱۲۹۲ ؁ھ) (۱)


یعنی مولوی صاحب کی صحبت اور زیارت نیز ہر وقت مولانا نور اللہ مرقدہ کے پاس موجود رہنا یہ سب باتیں دوپہر کے سورج کی طرح واضح ہیں۔ تخمیناً پندرہ سال تک مولوی (نذیر حسین) صاحب اور مولانا اسحق صاحب ایک ساتھ دہلی میں رہے ہیں اس لیے عدم صحبت وزیارت کا شبہ کرنا بے سود ہے۔ رہا حدیث کی کتابوں کی سند کے بارے میں شبہ کرنا تو جب مولانا ممدوح کے دستخط کے ساتھ ایک سند مولوی صاحب کے پاس موجود ہے ، تو اس بارے میں کوئی شبہ باقی نہیں رہ جاتا۔

یہ دونوں شہادتیں نیاز مندوں کی نہیں مخالف مکتبہ فکر کے نمائندوں کی ہیں اس لیے میرے نزدیک ان کی شہادتوں کے بعد انکار کی گنجائش ہی نہیں باقی رہ جاتی پھر بھی ہم مزید چند بلند پایہ افراد کی شہادتیں نقل کر رہے ہیں۔

رحمان علی (مؤلف’’ تذکرہ علمائے ہند‘‘):

’’تذکرہ علمائے ہند‘‘ میں مولوی شبلی جونپوری (م ۱۲۸۶ھ) کا ذکرکرتے ہوئے لکھتے ہیں: ’’ واجازت کتب احادیث از مولوی سید نذیر حسین تلمیذمولانا محمد اسحاق دہلوی یافتہ بحصول سند ممتاز گشت‘‘ ۔ (۲)

ہم قادری صاحب سے( جنہوں نے اس کتاب کے ترجمہ وترتیب میں بڑی محنت کی ہے) دریافت کرنا چاہتے ہیں کہ آخر میاں صاحب کی وہ کون سی حدیث کی سند تھی جس کی تحصیل باعث امتیاز ہوا کرتی تھی؟ ناظرین ملاحظہ فرمارہے ہیں کہ رحمان علی صاحب( جنہوں نے میاں صاحب کا تذکرہ بھی اپنی کتاب میں کرنے سے اجتناب کیا ہے)کس قدر صراحت کے ساتھ شاہ اسحاق سے میاں صاحب کے تلمذکی تصریح کررہے ہیں اس کا مطلب یہ ہوا کہ انہیں بھی میاں صاحب کی شاگردی اور حصول سند واجازت کا اعتراف ہے۔

نواب صدیق حسن خاں بھوپالی( م ۱۳۰۷):

نواب صاحب اپنی ایک تحریر میں لکھتے ہیں

’’ در ہمیں سال(سنۃ الف و اثنین وتسع واربعین) حدیث شریف از مولانا محمد اسحق صاحب مرحوم ومغفور شروع فرمودند صحیح بخاری وصحیح مسلم بشراکت مولوی گل محمد کابلی ومولوی عبداللہ سندھی ومولوی نوراللہ سروانی وحافظ محمد فاضل سورتی وغیرھم حرفا حرفاً خواندند وہدایہ وجامع صغیر بمعیت مولوی بہاء الدین دکھنی وجد امجد قاضی محفوظ اللہ صاحب پانی پتی ونواب قطب الدین دہلوی وقاری اکرام اللہ وغیرہم وکنز العمال ملا علی متقی علاحدہ شروع فرمودند دو وسہ جز بخواندند وسنن ابی داؤد وجامع ترمذی ونسائی وابن ماجہ ومؤطا امام مالک بتمامہا بر مولانا ممدوح عرض نمودند واجازہ از شیخ الآفاق حاصل نمودہ۔‘‘(۱)

یعنی ۱۲۴۹ھ میں مولانا محمد اسحق مرحوم سے حدیث شروع کی۔ صحیح بخاری اور صحیح مسلم مولوی گل محمد کابلی ومولوی عبد اللہ سندھی وغیرہ کے ساتھ حرفاً حرفاً پڑھی۔ ہدایہ اور جامع صغیر مولوی بہاء الدین دکنی اور جد امجد قاضی محفوظ اللہ صاحب پانی پتی اور نواب قطب الدین دہلوی نیز قاضی اکرام اللہ وغیرہ کے ساتھ پڑھی۔ کنز العمال الگ شروع کی اور دو تین اجزاء پڑھے ،سنن ابی داؤد، جامع ترمذی، ابن ماجہ، مؤطا امام مالک بھی مولانا کے سامنے پڑھیں اور اجازت شیخ الآفاق (مولانا اسحاق صاحب محدث دہلوی) سے حاصل کی۔

مولانا شمس الحق ڈیانوی( م ۱۳۲۹ھ) :

مولانا ڈیانوی مرحوم غایۃ المقصود کے مقدمے میں لکھتے ہیں:

’’ واکتسب بعد ذلک العلوم الدینیۃ من التفاسیر والأحادیث عن الشیخ الأجل الأکمل محدث الدھر أبي سلیمان محمد إسحاق الدہلوي متوفی سنۃ اثنتین وستین بعد الألف ومأتین ابن محمد أفضل الفاروقي اللاھوري وسبط الشیخ العلامۃ عبد العزیز بن ولي اللہ الدہلوي، فقرأ علیہ الصحاح الستۃ بالضبط والإتقان والبحث والتدقیق وکنز العمال والجامع الصغیر للحافظ السیوطي، وصحب العلامۃ ثلاثۃ عشر سنۃ واستفاض منہ فیوضا کثیرا، وأخذ عنہ ما لم یأخذ أحد من تلامذتہ فبلغ مراتب الکمال وصار خلیفۃ لہ........وحصل لہ منہ الإجازۃ في شوال سنۃ ثمان وخمسین بعد الألف والمأتین۔‘‘ (۱)

یعنی اس کے بعد علوم دینیہ تفسیر اور حدیث کا اکتساب مولانا محمد اسحق دہلوی سے کیا،صحاح ستہ ضبط واتقان کے ساتھ پڑھی۔ کنز العمال اور جامع صغیر للسیوطی بھی پڑھی۔ تیرہ سال آپ کی صحبت سے فیض یاب ہوئے اور ایسا علم حاصل کیا جو دوسرے تلامذۃ نہیں حاصل کرسکے ۔اس طرح کمال کے درجے تک پہنچ گئے اور آپ کے خلیفہ ہوئے۔ ۱۲۵۸ھ ؁ میں آپ نے اجازت حاصل کی۔

سید سلیمان ندوی (م۱۹۵۳ ؁ء ):

سید صاحب نے اپنی متعدد تحریروں میں شاہ اسحق سے میاں صاحب کے تلمذ کا اقرارکیا ہے، حیات شبلی میں لکھتے ہیں:

’’شاہ اسحق صاحب کے ایک دوسرے شاگرد سید نذیر حسین بہاری دہلوی ہیں اس دوسرے سلسلے میں توحید خالص اور رد بدعت کے ساتھ فقہ حنفی کے بجائے براہ راست کتب حدیث سے بقدر فہم استفادہ اور اس کے مطابق عمل کا جذبہ نمایاں ہوا۔‘‘(۲)

اس کی مزید وضاحت کرتے ہوئے ایک فٹ نوٹ میں لکھتے ہیں

’’ مولانا سید نذیر حسین صاحب کی مولانا شاہ اسحق صاحب سے شاگردی کا مسئلہ بھی اہل حدیث واحناف میں مابہ النزاع بن گیا ہے، احناف انکار کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ان کو شاہ صاحب سے بے پڑھے صرف تبرکاً اجازۃ حاصل ہے اور اہل حدیث ان کو حضرت شاہ اسحاق صاحب کا باقاعدہ شاگرد بتاتے ہیں۔ مجھے نواب صدیق حسن صاحب کے مسودات میں مولانا نذیر حسین کے حالات کا مسودہ ملا جس میں بتصریح مذکو ر ہے کہ ۱۲۴۹ھ میں شاہ صاحب کے درس حدیث میں وہ داخل ہوئے(پھر نواب صاحب کی پوری عبارت نقل کرکے لکھتے ہیں) البتہ شاہ صاحب سے سند اجازۃانہوں نے تحریری طور پر۲؍ شوال ۱۲۵۸ ؁ھ کو حاصل کی جب شاہ صاحب ہندوستان سے ہجرت کرکے حجاز جارہے تھے۔ (۱)

مولانا محمد ادریس صاحب نگرامی(م۱۳۳۰ھ ؁):

مولانا نگرامی مرحوم نے ’’تذکرہ علمائے حال‘‘ میں شاہ اسحاق صاحب سے میاں صاحب کے تلمذ کا اعتراف کیا ہے ، چنانچہ میاں صاحب کے اساتذہ کا تذکرہ کرتے ہوئے شاہ اسحاق صاحب کاذکر خصوصیت سے کیا ہے۔ لکھتے ہیں:

’’آ پ کے شیوخ کے نام یہ ہیں : مولوی سید عبدالخالق، مولوی شیر محمد قندھاری ،مولوی جلال الدین صاحب، مولوی شیخ کرامت العلی اسرائیلی ، مولوی محمد بخش عرف تربیت خاں، مولوی عبدالقادر رام پوری، مولانا اسحاق دہلوی۔‘‘(۲)

مولانا عبدالرحمن مبارک پوری(م۱۹۳۵ ؁ء):

مولانا مرحوم ’’مقدمۃ تحفۃ الاحوذی ‘‘ میں شاہ اسحاق صاحب محدث دہلوی کا تذکرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

’’تخرجت علیہ جماعۃ کبیرۃ منہم الشیخ الأجل مسند الوقت السید نذیر حسین الدھلوي والشیخ المحدث عبدالغنی بن أبي سعید المجددي الدھلوي والنواب قطب الدین مؤلف مظاہر الحق وغیرہم، ثم إنہ ھاجر إلی مکۃ واستخلف من ھو فرد زمانہ وقطب أوانہ شیخنا الأجل السید محمد نذیر حسین الدھلوي في إشاعۃ العلوم الحدیثیۃ‘‘(۳)

یعنی شاہ اسحاق سے پڑھ کر علماء کی ایک بہت بڑی جماعت نکلی جن میں سید نذیر حسین دہلوی ،شیخ عبدالغنی مجددی ، نواب قطب الدین وغیرہ شامل ہیں ، پھر شاہ اسحاق صاحب محدث دہلوی نے مکہ مکرمہ ہجرت فرمائی اور شیخ العرب والعجم سید نذیر حسین دہلوی کو علوم حدیث کی اشاعت کے سلسلے میں اپنا جانشین قرار دیا۔

مولانا محمدعطاء اللہ حنیف بھوجیانی:

مولانا محمد عطاء اللہ حنیف صاحب بھوجیانی ’’إتحاف النبیہ‘‘ کے حاشیہ میں تحریر فرماتے ہیں:

’’ثم أقبل خاصۃ علی التفسیر والحدیث، فقرأ تفسیر الجلالین والصحیحین حرفا حرفا علی العلامۃ الشاہ محمد إسحاق، وذلک في سنۃ ۱۲۴۹ ؁ھ شارکا مع الغیر، وقرأ علیہ بقیۃ الصحاح الست وموطأ الإمام مالک بتمامہا بالضبط والإتقان والتدقیق، وأطرافا من الجامع الصغیر للسیوطي وکنز العمال لعلي المتقي (ف ۹۷۵ھ) وفي أثناء ھذا قرأ أیضا علی الشاہ محمد إسحاق في الفقہ الھدایۃ للمرغیناني والجامع الصغیر للإمام محمد رحمہ اللہ، وکان یفتي ویقضي بحضرۃ أستاذہ، فیفرح ویرضی بفتیاہ، بل کان الشیخ کثیرا ما یمتحنہ في السوالات المشکلۃ والتلمیذ یجیبہ أحسن جواب، وھکذا صحب شیخہ ثلاثۃ عشر سنۃ واستفاض منہ فیوضا کثیرا، و أخذ عنہ ما لم یأخذ أحد من تلامذتہ، فبلغ مراتب الکمال وحصل منہ الإجازۃ في شوال سنۃ ثمان وخمسین بعد الألف ومأتین‘‘ (۱)

ابویحییٰ امام خاں نوشہروی:

ابویحییٰ امام خاں نوشہروی صاحب نے بھی میاں صاحب کا شاہ اسحاق سے تلمذ کا مسئلہ شرح و بسط سے ذکر کیا ہے ۔ میاں صاحب کے حالات جو ص: ۱۲۲ تا ۱۶۰ پھیلے ہوئے ہیں اس کو ملاحظہ فرمائیں ۔ (۲)

===========================================

(۱) تاریخ بغداد :۱/ ۲۲۳۔

(۱) سید احمد شہید : ۱/ ۲۴۔ (۲) علی گڑھ انسٹی ٹیوٹ گزٹ، ۲۳؍اکتوبر ۱۹۰۲ء ؁۔

(۱)الحیاۃ بعد المماۃ،ص: ۳۴۔ (۲)الحیاۃ بعد المماۃ،ص: ۴۹۔

(۲) الحیاۃ بعد المماۃ، ص: ۴۷۔ (۱) تذکرہ علمائے ہند، از رحمان علی صاحب ،ص :۱۹۳، مطبع منشی نول کشورلکھنؤ۔

(۱) حیات شبلی ،ص: ۴۵، ص: ۴۶۔ میاں فضل حسین صاحب مظفر پوری لکھتے ہیں:’’پھر ابجد العلوم وغیرہ نوابی تالیفات میں میاں صاحب کا ترجمہ یا تذکرہ نہ لکھنا کیا تعجب خیز نہیں ہے؟ افسوس ہے کہ نواب صاحب مرحوم نے ابن خلکان پر اعتراض کرتے وقت اس مثل کو پیش نظر نہیں رکھا، ’’پہلے اپنی آنکھ کا شہتیر نکال تب دوسرے کی آنکھ کے تل کو دیکھ‘‘(الحیاۃ بعد المماۃ) یہ برہمی محض عدم اطلاع کی وجہ سے ہے۔

(۱) غایۃ المقصود ، ص: ۱۱ ۔ (۲) حیات شبلی ، ص:۴۵۔۴۶۔

(۱)حیات شبلی ،طبع دوم ، ص:۴۵ ۔۴۶۔ (۲)تذکرہ علمائے حال ،ص: ۹۲۔
(۳) مقدمہ تحفۃ الاحوذی ،طبع دوم ، ص:۵۲ ۔

(۱) إتحاف النبیہ ،ص: ۲۵ ، مرتبہ مولانا محمدعطاء اللہ حنیف بھوجیانی۔
(۲) تاریخ علمائے حدیث ہند۔
 
Last edited:
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,783
پوائنٹ
1,069
مولانا عبد الحئی حسنی لکھنوی (م۱۳۴۱ ؁ھ):

’’نزہۃ الخواطر ‘‘ میں میاں صاحب کا تذکرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

’’ لازم دروس الشیخ محمد إسحاق بن محمد أفضل العمري الدھلوي سبط الشیخ عبدالعزیز بن ولي اللہ، وأجازہ الشیخ المذکور سنۃ ثمان وخمسین ومأتین و ألف حین ھجرتہ إلی مکۃ المشرفۃ‘‘(۱)

یعنی پھر آپ نے شاہ محمد اسحاق دہلوی کے درس میں پابندی سے حاضر ہونا شروع کیا اور شاہ صاحب موصوف نے آپ کو ۱۲۵۸ ؁ھ میں سند عطا فرمائی جب کہ آپ ہجرت کر کے مکہ تشریف لے جارہے تھے۔

مولانا عبیداللہ سندھی (م۱۹۴۴ء ؁):

جماعت اہل حدیث کے ساتھ مولانا سندھی کی عنایتیں تعارف سے بے نیاز ہیں۔ آپ یہ ماننے پر ہرگز تیار نہیں کہ میاں صاحب ولی اللہی مکتبہ فکر کے امین ہیں ، لیکن اس مقصد کے لیے مولانا نے اس ثابت شدہ واقعہ کا انکار نہیں کیا بلکہ بصراحت کہا کہ ۱۸۵۷ ؁ء کے بعد میاں صاحب کا رجحان شوکانی وغیرہ کی طرف ہو گیا اور تقلید ( جو ولی اللہی مسلک کی بنیاد ہے) کا انکار کر دیا۔ اس لیے آپ شاہ صاحب کے مکتب فکر سے الگ ہو گئے لیکن جہاں تک شاہ اسحاق سے تلمذ کا مسئلہ ہے اس کے بارے میں پوری وضاحت کے ساتھ لکھتے ہیں:

’’انتفع بہ خلق کثیر منہم ابنتہ الشیخۃ الصالحۃ خدیجۃ المکیۃ وابن خالتہ الشیخ عبد القیم ابن عبد الحي الدھلوي، ومنہم السید نذیر حسین البہاري الدھلوي إمام أھل الحدیث والشیخ محمد بن عبد الرحمن السہارنپوري المکي‘‘ (۲)

بشیر احمد بن ڈپٹی نذیر احمد:

دلی او ر اصحاب دلی پر آپ کی کتاب ’’واقعات دارالحکومت‘‘ کا فی مشہور اور مستند سمجھی جاتی ہے اور آج اسے ایک اہم ماخذ کی حیثیت حاصل ہے ۔ مولوی بشیر احمد صاحب میاں صاحب کا تذکرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

’’آپ نے مولانا شاہ محمد اسحاق صاحب علیہ الرحمہ سے حدیث و تفسیر پڑھی اور تیرہ برس تک آپ کی خدمت میں رہ کر آپ نے بہت سے فیوض وبرکات حاصل کیے ۔ غرض آپ ایسے مرتبہ کمال کو پہنچ گئے کہ اپنے استاد علام کے سامنے فتوی دیتے اور فیصلے کرتے تھے اور حضرت استاد ان کو پسند کرتے اور خوش ہوتے تھے ۔ شوال ۱۲۵۸ ؁ھ میں حضرت شاہ محمد اسحاق نے آپ کو علوم حدیث وغیرہ سے مستفید فرما کر مسند الوقت کر دیا اور اسی سن میں جب آپ ہند کو خیر باد کہہ کر مہاجر بیت اللہ ہونے لگے تو افادہ اور افتاء اور وعظ و تذکیر اور درس وتدریس کے لیے آپ ہی کو اپنا نائب اور خلیفہ مقرر فرمایا۔ ‘‘ (۱)

شیخ محمد اکرام:

شیخ محمد اکرام صاحب نواب صاحب کا تذکرہ کرنے کے بعد تحریر کرتے ہیں کہ:

’’ اس دور کے ایک دوسرے بزرگ جن کا فیض نواب صدیق حسن خاں سے بھی زیادہ پھیلا سید نذیر حسین محدث تھے جو صوبہ بہار کے رہنے والے تھے لیکن پٹنہ میں مولانا سید احمد بریلوی کا وعظ سننے کے بعد(۱۲۴۳ ؁ھ میں) دہلی کا رخ کیا اور مسلک ولی اللہی کے کئی بزرگوں سے استفادہ کیا ۔ حدیث کی تکمیل آپ نے شاہ محمد اسحاق صاحب مہاجر مکی نبیرہ شاہ عبدالعزیز دہلوی سے کی اور جب وہ مکہ ہجرت کر گئے تو آپ نے دہلی کی مسجد اور نگ آبادی میں حدیث اور تفسیر کا درس شروع کیا اور کوئی پچاس برس اس خدمت عظیمہ میں گذار دیے۔ شمالی ہندوستان کے اکثر علمائے اہل حدیث کا سلسلہ استناد آپ تک پہنچتا ہے اور اسی وجہ سے آپ کو شیخ الکل بھی کہتے ہیں۔‘‘ (۲)

خلیق احمد نظامی:

خلیق احمد صاحب نظامی تاریخ کے مشہور عالم ہیں ۔آپ مولانا ارشاد حسین صاحب رام پوری صاحب ’’ انتصار الحق فی رد معیار الحق‘‘ کے پوتے ہیں اس لیے بھی اس مسئلے میں آپ کی رائے کافی اہمیت اختیار کرلیتی ہے۔ میاں صاحب کا تذکرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

’’ میاں نذیر حسین صاحب دہلوی حدیث کے مشہور عالم تھے حدیث وتفسیر شاہ محمد اسحق سے پڑھی تھی ۱۳؍ تیرہ برس تک ان کی خدمت میں رہ کر فیوض وبرکات حاصل کیے تھے ۔‘‘ (۱)

نسیم احمد امروہی:

’’الفرقان‘‘ فروری ومارچ ۱۹۷۷ ؁ء کے مشترکہ شمارے میں مولانا نسیم احمد صاحب امروہی نے ’’حضرت شاہ ولی اللہ دہلوی اور ان کا خاندان‘‘کے عنوان سے ایک مقالہ سپرد قلم فرمایاہے۔ شاہ اسحق رحمہ اللہ کا تذکرہ کرتے ہوئے رقم طراز ہیں:

’’.......ان کے باکمال تلامذہ کی تعداد بھی بہت زیادہ ہے۔ جن میں مفتی عبد القیوم ابن مولانا عبد الحئی بڈھانوی، شاہ عبد الغنی مجددی مہاجر مدنی، قاری عبد الرحمن پانی پتی صاحب’’مظاہر حق‘‘ ،نواب قطب الدین خاں دہلوی، مولانا احمد علی محدث سہارنپوری ، مولانا شیخ محمد تھانوی، مولانا عالم علی نگینوی ثم مراد آبادی اور مولانا نذیر حسین محدث وغیرہم بھی شامل ہیں۔‘‘ (۲)

یہ چند ایسے علمائے کرام کے اعترافات ہیں جن کو سیر وتراجم میں دست گاہ حاصل ہے۔ ان میں دیوبند مکتبہ فکر کے مناد بھی ہیں اور ملک کے دوسرے بلند پایہ تذکرہ نویس بھی۔ ان حضرات کی شہادتوں سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ تمام ہی حضرات نے قاری اور قادری صاحب نیز احمد رضا بجنوری وغیرہم کی روش کو بالکل پسند نہیں کیاہے۔

ظاہر ہے ان بزرگ علمائے کرام کے اعترافات کے سامنے قادری اور بجنوری صاحب کی بیش قیمت تحقیقات کی کوئی وقعت نہیں رہ جاتی، رہ گیا تعصب اور تنگ نظری کا مرض تو وہ لاعلاج ہے۔

آخر میں ہم یہ عرض کردیں کہ اپنے آپ کو مسلک ولی اللہی کا پابند اور حکمت ولی اللہی کا امین نیز ولی اللہی مکتبہ فکر کا نمائندہ قرار دینے والا دیوبند حد درجہ تضاد کا شکار ہے ایک طرف تو یہ بلند بانگ دعوے ہیں لیکن دوسری طرف شاہ صاحب کی تغلیط، مخالفت اور ان کے مخصوص افکار سے جنگ کا ایک طویل سلسلہ بھی چھیڑ رکھا ہے۔ ہم ذیل میں صرف چند نمونے پیش کرتے ہیں۔


(۱) شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ عقائد میں اشعریت کے پابند تھے (۱) لیکن دیوبند ماتریدیت کا پیرو ہے۔(۲) شاہ صاحب کی عمومی دعوت یہ تھی کہ تمام فقہاء کے اقوال کو کتاب وسنت کی کسوٹی پر جانچاجائے جو موافق ہو اس پر عمل کیا جائے (۲) اور مخالف کو ترک کردیا جائے لیکن دیوبند نہ صرف تقلید جامد کاپابند ہے بلکہ اس کا زبردست داعی اور مناد بھی ہے اور عملاً اس نے یہ طریقہ اپنا رکھا ہے کہ احادیث کو فقہاء حنفیہ کے اقوال کی کسوٹی پر پرکھ کر قبول یا رد کیا جائے۔

ایک اور قدم آگے بڑھ کر دیکھیے تو نظر آتا ہے کہ یہ حضرات شاہ صاحب کو’’ کم علم، ناقص المطالعہ ،متقدمین کی کتابوں سے بے خبر ‘‘قرار دیتے ہیں۔

چنانچہ انور شاہ کشمیری ( متوفی ۱۹۳۱ ؁ء ) کے داماد مشہور دیوبندی عالم احمد رضا بجنوری زاہد الکوثری کا یہ قول بڑے عقیدت واحترام کے ساتھ نقل کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

’’علامہ کوثری نے یہ بھی لکھا ہے کہ:’’ شاہ ولی اللہ کا اصول ومذہب ائمہ مجتہدین کے بارے میں یہ فرمانا کہ وہ متاخرین کے ساختہ پرداختہ ہیں متقدمین سے منقول نہیں، واقعہ کے خلاف ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ شاہ صاحب کے مطالعہ میں وہ کتب متقدمین نہیں ہیں جن میں اصول مذاہب کی نقل ائمہ مجتہدین سے منقول ہے۔‘‘(۳)

ایک اور مشہور دیوبندی عالم مولانا عبد الرشید نعمانی اپنی کتاب’’ ما تمس إلیہ الحاجۃ لمن یطالع سنن ابن ماجۃ‘‘ میں شاہ ولی اللہ رحمۃ اللہ علیہ پر خاصے درشت انداز میں نقد کیا ہے۔ شاہ صاحب کا خیال ہے کہ:

’’وکان أبو حنیفۃ رضي اللہ عنہ ألزمھم بمذھب إبراھیم وأقرانہ لا یجاوزہ إلا ماشاء اللہ، وکان عظیم الشأن في مذہبہ، فانظر في کتاب الموطأ تجدہ کما ذکرنا، وکان عظیم الشأن في التخریج علی مذھبہ دقیق النظر في وجوہ التخریجات مقبلا علی الفروع أتم إقبال، وإن شئت أن تعلم حقیقۃ ما قلنا فلخص أقوال إبراھیم وأقرانہ من کتاب الآثار لمحمد رحمہ اللہ وجامع عبد الرزاق ومصنف أبي بکر بن أبي شیبۃ، ثم قایسہ بمذھبہ، تجدہ لا یفارقہ تلک المحجۃ إلا في مواضع یسیرۃ، وھو في تلک أیضا لا یخرج عما ذھب إلیہ فقھاء الکوفۃ۔‘‘ (۱)

یعنی ابو حنیفہ رضی اللہ عنہ ابراہیم اور ان کے اصحاب کے مذہب کے سب سے زیادہ متبع تھے، اس مذہب سے بہت کم تجاو ز کرتے تھے، ان کے طریقے کے مطابق تخریج میں ان کا پایہ بہت بلند تھا اور وجوہ تخریجات میں انتہائی باریک بیں تھے ،فروعات پر تمام تر توجہ تھی۔ اگر میرے اس قول کی حقیقت معلوم کرنی ہے تو امام محمد کی کتاب’’ الآثار‘‘ اور عبد الرزاق کی ’’جامع‘‘ نیز ابوبکر بن ابی شیبہ کی ’’مصنف‘‘ سے ابراہیم کے اقوال کی تلخیص کر لیجیے پھر اس کا موازنہ کیجیے تو معلوم ہوگا کہ امام صاحب اس طریقے سے بہت کم الگ ہوتے تھے اور ان تھوڑی سی چیزوں میں بھی وہ فقہائے کوفہ کے طریقے سے الگ نہیں ہوتے۔

لیکن مولانا نعمانی کو شاہ صاحب کے اس قول سے سخت اختلاف ہے ۔ اگر بات صرف اختلاف تک محدود رہتی تو ہمیں اس سے کوئی تعرض نہ ہوتا لیکن معاملہ شاہ صاحب کے استخفاف تک پہونچ گیا ہے۔ چنانچہ وہ لکھتے ہیں:

’’وأما ما قال رحمہ اللہ وإن شئت حقیقۃ ما قلناہ فلخص أقوال إبراہیم من کتاب الآثار لمحمد و جامع عبدالرزاق الخ، فھذا دأبہ في تصانیفہ إذا أتی بدعوی یأتي بکلام یدھش الناظر۔‘‘(۲)

’’یعنی شاہ صاحب کی عادت ہے کہ جب وہ کسی معاملے کے متعلق کچھ لکھتے ہیں تو دہشت پھیلانے والا انداز پیدا کر دیتے ہیں۔‘‘

اس کے بعد اس نقطہ نظر کا رد کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

’’فنحن بحمد اللہ قد طالعنا کتاب الآثار لمحمد، ولخصنا أقوال إبراھیم النخعي رضي اللہ عنہ، ثم قایسناہ بمذھب الإمام، فوجدنا الإمام یجتھد کما یجتھد النخعي وأقرانہ، ونراہ في کثیر من المواضع یترک رأي إبراہیم وراء ہ ظہریا‘‘

’’یعنی ہم نے ’’کتاب الآثار‘‘ امام محمد کا مطالعہ کر کے امام نخعی اور حضرت امام ابو حنیفہ

کے اقوال کی تلخیص کی ہے اور ان کا باہم موازنہ بھی کیا ہے ، ہم دیکھتے ہیں کہ امام صاحب مختلف مقامات پر ابراہیم نخعی کی رائے کو ترک کردیتے ہیں۔‘‘

مولانا نعمانی نے شاہ صاحب پر جس درشت انداز میں رد کیا ہے اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ شاہ صاحب نے کوئی انتہائی غلط بات کہہ دی ہے مگر حقیقت وہی ہے جو شاہ صاحب نے بیان فرمائی ،چنانچہ اس حقیقت کا اعتراف خود بخود زبان قلم پر آگیا اور فرمایا:

’’وإن کان لا ینکر أن لآراء إبراہیم النخعي أثرا خاصا في تفقیہ الإمام أبي حنیفۃ واجتہادہ‘‘(۱)

’’مگر اس سے انکار بھی نہیں کیا جاسکتاکہ ابراہیم نخعی کی آراء کا امام ابوحنیفہ کے اجتہاد و تفقہ پر گہرا اثر پڑا۔‘‘

بات وہی ہوئی جو شاہ صاحب نے کہی تھی ان کے تقابل کا مقصد یہ ہرگز نہیں تھا کہ عدد اور ہندسے کے اعتبار سے مسائل کا جائزہ لیا جائے بلکہ کہنا صرف یہ تھا کہ امام صاحب نے اپنے فقہ و اجتہاد کے لیے انہی قواعد کو اپنا لیا جن کو ان سے پہلے ابراہیم نخعی اور ان کے اصحاب اپنا چکے تھے۔

ظاہر ہے ان تناقضات کے باوجود دعوی کرنا کہ مسلک ولی اللہی کا پابند صرف اور صرف دیوبند ہی ہے انتہائی حیرت ناک اور مضحکہ خیز ہے۔

===========================================

(۱) نزھۃ الخواطر، ج،ص:۴۹۸۔
(۲)حاشیۃ المسوی من أحادیث الموطأ ، ص:۱۳۔

(۱)واقعات دارالحکومت ، از بشیر احمد،طبع اول: ۲/۲۸۔ (۲)موج کوثر ،ص: ۶۸۔

(۱) تاریخی مقالات ،از پروفیسر خلیق نظامی، ص:۲۵۳ ۔
(۲)الفرقان فروری ومارچ ۱۹۷۷ ؁ء۔

(۱) ملاحظہ ہو: مقدمہ انوار الباری ج۲ ،تذکرہ محدثین ،ص:۱۹۷۔
(۲) ملاحظہ ہو: مجموعہ وصایا اربعہ ۔ (۳) ملاحظہ ہو: انوار الباری، حصہ دوم ،ص: ۱۹۶ ۔۱۹۷۔

(۱)حجۃ اللہ البالغۃ: ۱/ ۱۴۶ ۔ ’’باب أسباب خلاف مذاہب الفقھاء‘‘
(۲) ما تمس إلیہ الحاجۃ لمن یطالع سنن ابن ماجہ، ص:۱۴۔

(۱) ما تمس إلیہ الحاجۃ لمن یطالع سنن ابن ماجہ، ص:۱۴۔
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,783
پوائنٹ
1,069
فصل سوم

میاں صاحب اور انگریزوں سے وفاداری کا مسئلہ

ایک جائزہ

میاں صاحب اور انگریزوں سے وفا داری :

اس مسئلے پر قادری صاحب نے جتنا اور جس مقصد کے تحت لکھا ہے گذر چکا ، اس کے اعادہ کی ضرورت نہیں۔ قادری صاحب کی یہ تحقیقات صاحب ’’انوار الباری‘‘ نے حرف بحرف نقل کر لی ہیں۔(۱) کیوں کہ دونوں کا مقصدایک ہے۔

یہ کوئی نیا اور انوکھا الزام نہیں، ہمیشہ مخصوص حلقوں سے اس کی تکرار ہوتی رہتی ہے۔ قادری صاحب کا تو یہ دل پسند موضوع ہے۔ ’’تذکرہ علمائے ہند‘‘ کے علاوہ ’’کالا پانی‘‘ میں بھی آپ نے اس موضوع پر خوب خوب داد تحقیق دی ہے۔ (۲) مئی ۱۹۷۶ ؁ء کے ’’المعارف‘‘ لاہور میں انہیں تحقیقات کو دہرا دیا ہے ۔

میاں صاحب کی وفاداری کے متعلق قادری صاحب کے قطعی دلائل یہ ہیں:

۱۔ ۱۸۵۷ ؁ء میں ایک انگریز عورت کی جان بچائی۔

۲۔انگریزوں نے انہیں تیرہ سو روپئے بطور انعام دیے۔

۳۔انگریزوں نے انہیں وفاداری کا سرٹیفیکٹ دیا۔

۴۔میاں صاحب نے ایک موقع پر اپنی خدمات کے عوض ڈپٹی کا عہدہ طلب کیا۔

۵۔ جہاد کے فتوی پر ان سے زبردستی دستخط حاصل کیا گیا۔


یہ ہے وہ فرد جرم جو قادری صاحب نے انتہائی جد وجہد کے بعد عائد کی ہے ۔ مقصد صرف یہ ہے کہ ان دلائل سے میاں صاحب کو انگریزوں کا وفادار یا کم از کم آزادی کی جد وجہد سے کنارہ کش ثابت کر دیں۔

کچھ تاریخ سے ناواقف ان دلائل پر ایک اور دلیل کا اضافہ کرتے ہیں کہ میاں صاحب نے ۱۸۵۷ ؁ء کے فتوی جہاد پر دستخط کرنے سے انکار کر دیا تھا ۔ (۱) مولانا نذیر احمد صاحب املوی (م ۱۹۶۵ ؁ء) نے ’’اہل حدیث و سیاست‘‘ میں بعض شبہات کا محققانہ اور مسکت جواب دیا ہے۔ مفتی انتظام اللہ شہابی (م۱۹۷۳ ؁ء) نے بھی عمدہ بحث کی ہے۔ میں چاہتا ہوں کہ اختصار کے ساتھ قادری صاحب کے فراہم کردہ ان تمام دلائل کا جائزہ لوں۔

میاں صاحب اور انگریز:

یہ مغالطہ کہ میاں صاحب انگریزوں کے وفادار تھے غلط ذہنیت کی پیداوار ہے۔ اس موضوع پر گفتگو کرنے کے لیے ضروری ہے کہ اس ماحول پر بھی ایک نظر ڈال لی جائے جس میں میاں صاحب کی تربیت ہوئی ہے۔

موصوف کی تعلیم وتربیت جس ماحول میں ہوئی تھی وہاں انگریزوں سے وفاداری کا کوئی سوال ہی نہیں پیدا ہوتا۔کہا جاتا ہے کہ سترہ سال کی عمر میں تعلیم کا آغاز پٹنہ سے کیا، یہاں ۳۷۔۱۲۳۶ ؁ھ مطابق ۱۸۲۱ء ؁ میں مولانا محمد حسین خلیفہ سید احمد شہید کے سامنے زانوئے تلمذتہ کیا۔(۲) پٹنہ ہی کے قیام کے زمانے میں سید احمد شہید (م ۱۸۳۱ء ؁) اور شاہ اسماعیل شہید(م ۱۸۳۱ء ؁) پٹنہ تشریف لائے اور اپنی پر تاثیر تقریروں سے توحید وسنت نیز جہا د کی روح پھونک دی۔ میاں صاحب کا بیان ہے کہ آپ بھی ان مواعظ میں شریک ہوئے تھے۔(۳)

شہیدین سے بیعت وتعلق کے بعد خاندان صادق پور حرکت وعمل کی ایک مسلسل داستان بن گیا اس نے جہاد وحریت کی قندیل کو جس عزم وہمت کے ساتھ روشن رکھا یہ بس انہی کا کام تھا اسی ماحول میں میاں صاحب نے قرآن کا ترجمہ اورمشکوٰۃ تک کی تعلیم حاصل کی۔ (۴)

اس کے بعد مزید تعلیم کے لیے دہلی کا قصد کیا اور بتاریخ ۱۳؍ رجب ۱۲۴۳ء ؁ھ دہلی پہنچے(۱) ہو سکتا ہے کہ دہلی آنے کا قصد شاہ عبد العزیز رحمۃ اللہ علیہ سے استفادہ کے لیے کیا ہو مگر ۱۲۳۹ھ ؁ ہی میں شاہ صاحب کی وفات سے یہ خواب شرمندۂ تعبیر نہ ہوسکا۔ دہلی پہنچے تو شاہ اسحق رحمۃ اللہ علیہ کا حلقۂ درس جما ہوا تھا میاں صاحب کی تعلیم صرف مشکوٰۃ تک تھی اس لیے کچھ دنوں تک متعدد اساتذہ سے مزیدتعلیم حاصل کی اس کے بعد شاہ اسحق رحمۃ اللہ علیہ کے حلقۂ درس میں شامل ہوگئے اور ۱۳؍ سال تک مسلسل حضرت شاہ صاحب کی صحبت سے فیضیاب ہوئے اپنی لیاقت اور اپنی محنت سے شاہ اسحق رحمۃ اللہ علیہ کو متاثر کیا اور ان کا اعتماد حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئے۔ فتویٰ نویسی اور فصل مقدمات جیسی متعدد ذمہ داریاں شاہ صاحب نے بسا اوقات آپ کے سپرد کردیں۔(۲)

سید احمد شہید رحمۃ اللہ علیہ ہی کے زمانے سے ہندوستان کے مختلف مقامات پر ان کی تحریک کے لیے امدادی مراکز قائم ہوگئے تھے ،ان مرکزوں میں دہلی کا مرکز کافی اہم تھا اس کی ذمہ داری شاہ اسحق رحمۃ اللہ علیہ کے سر تھی۔ ظاہر ہے کہ استاذ سے اتنا قریب رہنے والا شخص اپنے آپ کو استاذ کی اتنی اہم مصروفیت سے الگ نہیں رکھ سکتا اس لیے اس سے تاثر بھی ایک فطری چیز ہے۔ چنانچہ مولانا عبیداللہ سندھی لکھتے ہیں :

’’مولانا نذیر حسین دہلوی اور مولانا عبداللہ غزنوی بھی مولانا ولایت علی کی پارٹی سے خاص تعلق رکھتے تھے۔‘‘ (۳)

چنانچہ میاں صاحب کی سیاسی سرگرمیوں کا آغاز اسی وقت سے ہوجاتا ہے جب شاہ اسحق رحمۃ اللہ علیہ دہلی میں مقیم تھے۔ مولانا نصیر حسین منگلوری داماد شاہ اسحق رحمۃ اللہ علیہ نے جہاد کے لیے سرحد سے بر صغیر کے اکابر کے نام جو اعلام نامہ بھیجا تھا اس میں شاہ اسحق رحمۃ اللہ علیہ کے ساتھ ساتھ شیخ الکل میاں نذیر حسین محدث دہلوی کا نام بھی موجود ہے۔(۴) یہ اعلام نامہ تقریباً ۱۸۳۷ ؁ء میں جاری کیا گیا اس وقت میاں صاحب کی شہرت ایک ابھرتے ہوئے مدرس کی تھی،ظاہر ہے کہ آپ کی گراں قدر خدمات ہی کے سلسلے میں اس کا مستحق سمجھا گیا کہ ان بلند پایہ اصحاب کے زمرہ میں آپ کو بھی شامل کر لیا جائے جن کے بارے میں مولانا مہر کا خیال ہے کہ:’’ اس تاریک دور میں دعوت حق کے خیر مقدم میں پیش پیش تھے۔‘‘ (۱)
۱۸۴۱ ؁ء میں شاہ صاحب نے حجاز ہجرت فرمائی آپ کے قیام دہلی کے زمانے تک اس کی نگرانی خود آپ کے ہی ذمہ تھی لیکن ہجرت کے بعد مرکز کی نگرانی یقیناًدوسرے ہاتھوں میں چلی گئی۔ مولانا عبید اللہ سندھی رحمۃ اللہ علیہ کا خیال ہے کہ شاہ محمد اسحق صاحب دہلوی رحمۃ اللہ علیہ نے دلی کے مرکز کو ایک بورڈ کی نگرانی میں دے دیا، بورڈ کی صدارت مولانا مملوک علی( م ۱۸۵۱ ؁ء) کو سونپی گئی اور مولانا قطب الدین دہلوی، مولانا مظفر حسین کاندھلوی، مولانا عبدالغنی دہلوی (م۱۲۹۶ ؁ھ) کو بورڈ کا ممبر نامزد کیا گیا۔ (۲)

اس طرح مولانا کے خیال میں میاں نذیر حسین محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ کا اس بورڈ سے عملاً کوئی تعلق باقی نہیں رہ گیا۔مولانا سندھی کا یہ خیال ہے کہ دہلی کے علاوہ اب اس تحریک کا ایک اور مرکز’’پٹنہ‘‘ بن گیا تھا، میاں صاحب وغیرہ اسی مرکز سے وابستہ تھے۔ لکھتے ہیں:’’ مولانا نذیر حسین دہلوی رحمۃ اللہ علیہ اور مولانا عبداللہ غزنوی رحمۃ اللہ علیہ بھی مولانا ولایت علی رحمۃ اللہ علیہ کی پارٹی سے خاص تعلق رکھتے تھے۔‘‘ ایک جگہ اور لکھتے ہیں:’’ مولانا نذیر حسین دہلوی اور نواب صدیق حسن جیسے عالم بھی ان ( مولانا ولایت علی) کا ساتھ دیتے تھے۔‘‘(۳)
ظاہر ہے کہ میاں صاحب کا قیام دہلی میں تھا اور دہلی کا پرانا مرکز مولانا سندھی کی تحقیق کے مطابق پٹنوی گروہ سے الگ تھلگ تھا، میاں صاحب کی اس گروہ سے وابستگی محض رسمی نہ تھی بلکہ آپ اس تحریک کے زبردست حامی تھے، آگے چل کر ہم اس طرح کی متعدد شہادتیں فراہم کریں گے کہ میاں صاحب نے دہلی سے سرحد کے مجاہدین کا تعاون برابر جاری رکھا لیکن سردست ہم سندھی صاحب کے دہلوی گروپ اور اس کے بورڈ کی حیثیت واضح کردیں گے۔

===========================================

(۱) مقدمہ انوار الباری : ۲/۲۲۸، ۲۲۹۔ (۲) مقدمہ تواریخ عجیب معروف بہ کالا پانی ،ص: ۲۶۱ ۔۲۶۴۔

(۱) ملاحظہ ہو: مقدمہ اہل حدیث اورسیاست ،مؤلفہ مولانا نذیر احمد املوی۔
(۲) الحیاۃ بعد المماۃ، ص: ۱۵۔ (۳) ایضا، ص:۱۶۔
(۴) ایضا، ص: ۱۶۔

(۱) الحیاۃ بعد المماۃ، ص: ۲۱۔ (۲) مقدمہ غایۃ المقصود ، ص: ۱۲۔
(۳)شاہ ولی اللہ اور ان کی سیاسی تحریک، ص:۱۳۲۔
(۴) ملاحظہ ہو: سر گزشت مجاہدین ،ص: ۱۳۷، علمائے حق کا شاندار ماضی۔

(۱)سر گزشت مجاہدین ،ص: ۱۳۷۔ (۲) شاہ ولی اللہ اور ان کی سیاسی تحریک ۔
(۳)ایضا ۔
 
Top