محمد عامر یونس
خاص رکن
- شمولیت
- اگست 11، 2013
- پیغامات
- 17,117
- ری ایکشن اسکور
- 6,800
- پوائنٹ
- 1,069
پانچ سال کی مدت کہاں گزری؟
عبدالعزیز صمدانی صاحب میاں صاحب کے بڑے چہیتے شاگرد تھے ۔ قاضی بدر الدین کے نواسہ ہونے کی وجہ سے میاں صاحب کو بہت عزیز تھے۔انہوں نے اپنی یاد داشت لکھی تھی ۔ لگتا ہے الحیاۃ بعد المماۃ کے مؤلف کی اس تک دسترس تھی، کئی جگہوں پر اس سے استفادہ کیا ہے۔ (۳) مجھے نہیں معلوم کہ یہ یاد داشت طبع ہوئی ہے کہ نہیں یا اس کا مخطوطہ ہی کہیں محفوظ ہے کہ نہیں ؟اگر یہ دستیاب ہوجائے تو بہت ساری معلومات کا انکشاف ہو سکتا ہے۔
تاہم موجودہ مواد کی بنا پر یہ نظریہ قائم کیا گیا ہے کہ آ پ کا سفر بے ترتیبی سے جاری .تھا۔ راہ بے راہ سفر ہو رہا تھاکہ ضلع کانپور میں مکرر پہنچے۔ (۴)
اگر مولانا ڈیانوی کا اندازہ. صحیح ہے کہ آپ ۱۲۴۲ ھ کو الہ آباد سے دہلی کے لیے نکلتے ہیں تو پھر یہ شکل بنتی ہے۔
آپ اپنے دوست کے ہمراہ الہ آباد سے نکلتے ہیں ۔ کانپور راستے میں پہلے پڑتا ہے ۔ یہاں سے چل کر چھبرہ مؤ (Chebramau) آتے ہیں ۔ یہاں قاضی صاحب اور ان کے خانوادہ سے ملاقات ہوتی ہے، میاں صاحب ان کے الطاف کریمانہ سے مستفید ہوتے ہیں اور دہلی کے بجائے کچھ دن یہاں ٹھہرتے ہیں ، ان کے داماد کا گھرصمدن ضلع فرخ آباد میں ہے۔ وہاں بھی جاتے ہیں ۔ اس کا تذکرہ نواب صاحب والے خط میں کرتے ہیں ۔(۱) اس کو چھبرا مؤاور قنوج کے راستہ پر بتاتے ہیں۔ قنوج کا ذکر جس اندازمیں کیا ہے لگتا ہے اس کونہ صرف دیکھا تھا بلکہ اچھی طرح واقف بھی تھے ۔ عبد العزیز صاحب کو لکھتے ہیں کہ کتاب فاروق فی الحدیث اپنے چچا یا پھر قنوج سے حاصل کر کے ساتھ لانا۔ نواب صاحب کے نام خط میں بھی قنوج کا ذکر ہے۔ بہر حال صمدن سے دہلی کے بجائے الہ آباد واپس آجاتے ہیں اور یہیں پر تعلیم کی تکمیل کرتے ہیں (صمدن فرخ آباد میں واقع ہے ۔ یہاں سے دہلی کا فاصلہ صرف ۳۷۰؍کلو میٹر بچتا ہے لیکن دہلی کے راستے سے ہٹ کر ہے) میرا خیال ہے کہ آپ کے ساتھی ہم سفر نے یہیں سے اپنا رستہ جدا کر لیا تھا۔الہ آباد سے پھر ۱۲۴۲ ھ میں دہلی کے لیے روانہ ہوتے ہیں ۔بروز بدھ. ۱۳؍رجب ۱۲۴۳ ھ میں دہلی پہنچتے ہیں۔(۲) مفتی شجاع الدین کے گھر پر قیام کیا ، پندرہ دن بعد پنجابی کٹرہ کی مسجد میں مولانا عبدالخالق (م۱۲۶۱ ھ) سے پڑھنا شروع کرتے ہیں۔
نحو کی مشہور کتاب کا فیہ.شروع کی پھر قطبی ،مختصر المعانی ، شرح وقایہ ، نورالانوار اورحسامی کی تعلیم حاصل کی ۔(۳)
ان کے علاوہ شیر محمد قندھاری (م ۱۲۵۰ ھ) مولوی جلال الدین ہروی، مولوی کرامت علی اسرائیلی ، مولوی محمد بخش عرف تربیت خانا، عبد القادر رام پوری (۴) ملا سعید بشاری اور حکیم نیاز احمد سہسوانی سے استفادہ کیا ۔(۵)
میاں صاحب نے اپنی تحریر میں مولانا عبدالخالق کے علاوہ صرف مولوی جلال الدین ، مولوی شیر محمد قندھاری اور محمد سعید بشاری کا بطور خاص ذکر کیا ہے اور علوم آلیہ کی تکمیل کی مدت ساڑھے تین سال بتائی ہے ۔(۱) مولانا ڈیانوی نے علوم آلیہ کی تحصیل کی مدت پانچ سال بتائی ہے۔(۲) یہ تصریح میاں صاحب کے اپنے بیان سے مختلف ہے ۔ وہاں سے علوم آلیہ کی تکمیل کے بعد علم فقہ اور حدیث کی تحصیل میں ’’ہمہ تن‘‘ متوجہ ہونے کا ذکر اسی یاد داشت میں کیا ہے، مگرکسی استاد کی تعیین نہیں کی ہے۔ دہلی میں ہوتے ہوئے شاہ اسحاق محدث دہلوی کی درس گاہ کا رخ نہ کرنا بعید از قیا س ہے۔میاں صاحب نے ایک جگہ ۱۲ یا ۱۳ ؍سال تک مولانا شاہ اسحاق سے استفادہ کا ذکر کیا ہے ۔ اس طرح یقینی طور سے ۱۲۴۵ ھ۔۱۲۴۶ ھ سے مولانا سے استفادہ شروع کیا ہوگا۔ (۳) میاں صاحب نے اپنی یاد داشت میں کسی استاد اور کتاب کا تعین نہیں کیا ہے۔ لیکن مولانا عبد الخالق سے استفادہ جاری تھا کیوں کہ ۱۲۴۹ ھ میں ان سے درس بخاری شروع کرنے کا تذکرہ کیا ہے۔
میاں صاحب نے اپنی اس یاد داشت میں جو ۱۱؍محرم ۱۲۹۹ ھ میں لکھی تھی بتصریح لکھتے ہیں کہ صحیح بخاری مولانا عبدالخالق مرحوم سے پڑھنی شروع کی جس میں مولوی رحمت اللہ بیگ شریک درس تھے ، اسی زمانہ میں شاہ اسحاق رحمہ اللہ سے بھی بخاری پڑھنی شروع کی ۔ شاہ صاحب کا درس علی الصباح ہوتا تھا ۔ اس کے بعد مولانا عبدالخالق کے درس میں شامل ہو جاتے تھے۔ مولانا عبدالخالق نے بخاری سات مہینے میں ختم کروائی جب کہ شاہ اسحاق صاحب کے یہاں ۹ مہینہ میں ختم ہوئی ۔(۴)
میاں صاحب نے شاہ اسحاق مرحوم سے اس کے بعد صحیح مسلم ، ہدایہ ، جامع صغیر اور کنز العمال کا کچھ حصہ پڑھا۔ دو بارہ بخاری کے ایک اور ختم میں شریک ہوئے جو تین یا چار ماہ میں مکمل ہوا۔ (۵) اجازت اور سند بہر حال حجاز روانگی سے قبل لکھی گئی۔
اس طرح تقریبا سات سال کی مدت دہلی میں حصول علم میں بسر کی اور فقہ حدیث اور تفسیر میں رسوخ حاصل کیا ۔ لیکن اس کے باوجود شاہ اسحاق صاحب سے استفادہ کا سلسلہ آپ کی ہجرت تک جاری رہا ۔ اس نیاز مندانہ تعلق کی مدت ۱۲،۱۳ ؍سال تک محیط ہے۔ (۱)
(۳) الحیاۃ بعد المماۃ، ص:۱۷۴، ۱۸۲، ۲۱۵، وغیرہ۔
(۴) الحیاۃ بعد المماۃ،ص: ۳۸، تاریخ اہل حدیث ، سیالکوٹی صاحب نے راہ بے راہ کی تعبیرکو اخذ کیا ہے تاہم دوبار کان پور آنے کا ذکر نہیں ہے، ص:۴۲۶۔بھٹی صاحب نے مزید تفصیل سے ذکر کیا ہے، دبستان حدیث،ص: ۳۰۔
(۱) مکاتیب نذیریہ ، ص:۶۳ خط نمبر :۵۶۔
(۲) الحیاۃ بعد المماۃ ۔میاں صاحب کی قلمی یادداشت ،ص:۵۱، مؤلف ایک اور جگہ لکھتے ہیں :بعض تحریروں میں میاں صاحب نے ۱۲۴۲ ھ میں دہلی پہنچنے کا ذکر کیا ہے مگر ۱۲۴۳ ھ والی تحریر مفصل ہے، دن کی تعیین بھی ہے ، یہی بوجوہ صحیح ہے، ص:۴۰۔
(۳)الحیاۃ بعد المماۃ ،ص: ۴۵۔ کافیہ سے نحو کی ابتدا کا یہ مطلب نہیں کہ نحو میں آپ کی صلاحیت بس اتنی تھی ، بعض مدرسین باصرار تعلیم کی ابتدا ابتدائی کتابوں سے کرتے ہیں ۔ پھر جلد ہی بڑی کتابیں شروع کراتے ہیں اس طرح طالب علم کو استاد کا انداز سمجھنے میں آسانی ہوتی ہے۔
(۴) غایۃ المقصود:۱/۵۲ ، ا ن کتابوں کی تفصیل مذکور ہے جو ہر استاد سے پڑھیں، ایضا الحیاۃ بعد المماۃ ،ص:۴۵۔۴۷، البشری بسعادۃ الدارین، ص:۲۷۔۲۸،تراجم علمائے حدیث ہند میں بھی عبدالقادر کے علاوہ دوسرے اساتذہ کا ذکر ہے، ص: ۱۵۱۔۱۵۲۔
(۵) ان دو اساتذہ کا تذکرہ صاحب الحیاۃ بعد المماۃ نے کیا ہے،ص:۴۷۔ مولانا سیالکوٹی نے بھی ذکر کیا ہے، تاریخ اہلحدیث: ص۴۲۶۔
(۱) الحیاۃ بعد المماۃ:ص:۵۱۔ (۲) غایۃ المقصود:۱/۵۲۔
(۳)الحیاۃ بعد المماۃ :ص۵۳ حاشیہ۔ (۴) قلمی یادداشت بحوالہ الحیاۃ بعد المماۃ ،ص:۵۲۔
(۵) قلمی یادداشت بحوالہ الحیاۃ بعد المماۃ ،ص:۵۳۔
(۱)میاں صاحب کی یاد داشت بحوالہ الحیاۃ بعد المماۃ ،ص:۵۳ ،حاشیہ ایضا، ص:۵۵۔
عبدالعزیز صمدانی صاحب میاں صاحب کے بڑے چہیتے شاگرد تھے ۔ قاضی بدر الدین کے نواسہ ہونے کی وجہ سے میاں صاحب کو بہت عزیز تھے۔انہوں نے اپنی یاد داشت لکھی تھی ۔ لگتا ہے الحیاۃ بعد المماۃ کے مؤلف کی اس تک دسترس تھی، کئی جگہوں پر اس سے استفادہ کیا ہے۔ (۳) مجھے نہیں معلوم کہ یہ یاد داشت طبع ہوئی ہے کہ نہیں یا اس کا مخطوطہ ہی کہیں محفوظ ہے کہ نہیں ؟اگر یہ دستیاب ہوجائے تو بہت ساری معلومات کا انکشاف ہو سکتا ہے۔
تاہم موجودہ مواد کی بنا پر یہ نظریہ قائم کیا گیا ہے کہ آ پ کا سفر بے ترتیبی سے جاری .تھا۔ راہ بے راہ سفر ہو رہا تھاکہ ضلع کانپور میں مکرر پہنچے۔ (۴)
اگر مولانا ڈیانوی کا اندازہ. صحیح ہے کہ آپ ۱۲۴۲ ھ کو الہ آباد سے دہلی کے لیے نکلتے ہیں تو پھر یہ شکل بنتی ہے۔
آپ اپنے دوست کے ہمراہ الہ آباد سے نکلتے ہیں ۔ کانپور راستے میں پہلے پڑتا ہے ۔ یہاں سے چل کر چھبرہ مؤ (Chebramau) آتے ہیں ۔ یہاں قاضی صاحب اور ان کے خانوادہ سے ملاقات ہوتی ہے، میاں صاحب ان کے الطاف کریمانہ سے مستفید ہوتے ہیں اور دہلی کے بجائے کچھ دن یہاں ٹھہرتے ہیں ، ان کے داماد کا گھرصمدن ضلع فرخ آباد میں ہے۔ وہاں بھی جاتے ہیں ۔ اس کا تذکرہ نواب صاحب والے خط میں کرتے ہیں ۔(۱) اس کو چھبرا مؤاور قنوج کے راستہ پر بتاتے ہیں۔ قنوج کا ذکر جس اندازمیں کیا ہے لگتا ہے اس کونہ صرف دیکھا تھا بلکہ اچھی طرح واقف بھی تھے ۔ عبد العزیز صاحب کو لکھتے ہیں کہ کتاب فاروق فی الحدیث اپنے چچا یا پھر قنوج سے حاصل کر کے ساتھ لانا۔ نواب صاحب کے نام خط میں بھی قنوج کا ذکر ہے۔ بہر حال صمدن سے دہلی کے بجائے الہ آباد واپس آجاتے ہیں اور یہیں پر تعلیم کی تکمیل کرتے ہیں (صمدن فرخ آباد میں واقع ہے ۔ یہاں سے دہلی کا فاصلہ صرف ۳۷۰؍کلو میٹر بچتا ہے لیکن دہلی کے راستے سے ہٹ کر ہے) میرا خیال ہے کہ آپ کے ساتھی ہم سفر نے یہیں سے اپنا رستہ جدا کر لیا تھا۔الہ آباد سے پھر ۱۲۴۲ ھ میں دہلی کے لیے روانہ ہوتے ہیں ۔بروز بدھ. ۱۳؍رجب ۱۲۴۳ ھ میں دہلی پہنچتے ہیں۔(۲) مفتی شجاع الدین کے گھر پر قیام کیا ، پندرہ دن بعد پنجابی کٹرہ کی مسجد میں مولانا عبدالخالق (م۱۲۶۱ ھ) سے پڑھنا شروع کرتے ہیں۔
نحو کی مشہور کتاب کا فیہ.شروع کی پھر قطبی ،مختصر المعانی ، شرح وقایہ ، نورالانوار اورحسامی کی تعلیم حاصل کی ۔(۳)
ان کے علاوہ شیر محمد قندھاری (م ۱۲۵۰ ھ) مولوی جلال الدین ہروی، مولوی کرامت علی اسرائیلی ، مولوی محمد بخش عرف تربیت خانا، عبد القادر رام پوری (۴) ملا سعید بشاری اور حکیم نیاز احمد سہسوانی سے استفادہ کیا ۔(۵)
میاں صاحب نے اپنی تحریر میں مولانا عبدالخالق کے علاوہ صرف مولوی جلال الدین ، مولوی شیر محمد قندھاری اور محمد سعید بشاری کا بطور خاص ذکر کیا ہے اور علوم آلیہ کی تکمیل کی مدت ساڑھے تین سال بتائی ہے ۔(۱) مولانا ڈیانوی نے علوم آلیہ کی تحصیل کی مدت پانچ سال بتائی ہے۔(۲) یہ تصریح میاں صاحب کے اپنے بیان سے مختلف ہے ۔ وہاں سے علوم آلیہ کی تکمیل کے بعد علم فقہ اور حدیث کی تحصیل میں ’’ہمہ تن‘‘ متوجہ ہونے کا ذکر اسی یاد داشت میں کیا ہے، مگرکسی استاد کی تعیین نہیں کی ہے۔ دہلی میں ہوتے ہوئے شاہ اسحاق محدث دہلوی کی درس گاہ کا رخ نہ کرنا بعید از قیا س ہے۔میاں صاحب نے ایک جگہ ۱۲ یا ۱۳ ؍سال تک مولانا شاہ اسحاق سے استفادہ کا ذکر کیا ہے ۔ اس طرح یقینی طور سے ۱۲۴۵ ھ۔۱۲۴۶ ھ سے مولانا سے استفادہ شروع کیا ہوگا۔ (۳) میاں صاحب نے اپنی یاد داشت میں کسی استاد اور کتاب کا تعین نہیں کیا ہے۔ لیکن مولانا عبد الخالق سے استفادہ جاری تھا کیوں کہ ۱۲۴۹ ھ میں ان سے درس بخاری شروع کرنے کا تذکرہ کیا ہے۔
میاں صاحب نے اپنی اس یاد داشت میں جو ۱۱؍محرم ۱۲۹۹ ھ میں لکھی تھی بتصریح لکھتے ہیں کہ صحیح بخاری مولانا عبدالخالق مرحوم سے پڑھنی شروع کی جس میں مولوی رحمت اللہ بیگ شریک درس تھے ، اسی زمانہ میں شاہ اسحاق رحمہ اللہ سے بھی بخاری پڑھنی شروع کی ۔ شاہ صاحب کا درس علی الصباح ہوتا تھا ۔ اس کے بعد مولانا عبدالخالق کے درس میں شامل ہو جاتے تھے۔ مولانا عبدالخالق نے بخاری سات مہینے میں ختم کروائی جب کہ شاہ اسحاق صاحب کے یہاں ۹ مہینہ میں ختم ہوئی ۔(۴)
میاں صاحب نے شاہ اسحاق مرحوم سے اس کے بعد صحیح مسلم ، ہدایہ ، جامع صغیر اور کنز العمال کا کچھ حصہ پڑھا۔ دو بارہ بخاری کے ایک اور ختم میں شریک ہوئے جو تین یا چار ماہ میں مکمل ہوا۔ (۵) اجازت اور سند بہر حال حجاز روانگی سے قبل لکھی گئی۔
اس طرح تقریبا سات سال کی مدت دہلی میں حصول علم میں بسر کی اور فقہ حدیث اور تفسیر میں رسوخ حاصل کیا ۔ لیکن اس کے باوجود شاہ اسحاق صاحب سے استفادہ کا سلسلہ آپ کی ہجرت تک جاری رہا ۔ اس نیاز مندانہ تعلق کی مدت ۱۲،۱۳ ؍سال تک محیط ہے۔ (۱)
===========================================
(۳) الحیاۃ بعد المماۃ، ص:۱۷۴، ۱۸۲، ۲۱۵، وغیرہ۔
(۴) الحیاۃ بعد المماۃ،ص: ۳۸، تاریخ اہل حدیث ، سیالکوٹی صاحب نے راہ بے راہ کی تعبیرکو اخذ کیا ہے تاہم دوبار کان پور آنے کا ذکر نہیں ہے، ص:۴۲۶۔بھٹی صاحب نے مزید تفصیل سے ذکر کیا ہے، دبستان حدیث،ص: ۳۰۔
(۱) مکاتیب نذیریہ ، ص:۶۳ خط نمبر :۵۶۔
(۲) الحیاۃ بعد المماۃ ۔میاں صاحب کی قلمی یادداشت ،ص:۵۱، مؤلف ایک اور جگہ لکھتے ہیں :بعض تحریروں میں میاں صاحب نے ۱۲۴۲ ھ میں دہلی پہنچنے کا ذکر کیا ہے مگر ۱۲۴۳ ھ والی تحریر مفصل ہے، دن کی تعیین بھی ہے ، یہی بوجوہ صحیح ہے، ص:۴۰۔
(۳)الحیاۃ بعد المماۃ ،ص: ۴۵۔ کافیہ سے نحو کی ابتدا کا یہ مطلب نہیں کہ نحو میں آپ کی صلاحیت بس اتنی تھی ، بعض مدرسین باصرار تعلیم کی ابتدا ابتدائی کتابوں سے کرتے ہیں ۔ پھر جلد ہی بڑی کتابیں شروع کراتے ہیں اس طرح طالب علم کو استاد کا انداز سمجھنے میں آسانی ہوتی ہے۔
(۴) غایۃ المقصود:۱/۵۲ ، ا ن کتابوں کی تفصیل مذکور ہے جو ہر استاد سے پڑھیں، ایضا الحیاۃ بعد المماۃ ،ص:۴۵۔۴۷، البشری بسعادۃ الدارین، ص:۲۷۔۲۸،تراجم علمائے حدیث ہند میں بھی عبدالقادر کے علاوہ دوسرے اساتذہ کا ذکر ہے، ص: ۱۵۱۔۱۵۲۔
(۵) ان دو اساتذہ کا تذکرہ صاحب الحیاۃ بعد المماۃ نے کیا ہے،ص:۴۷۔ مولانا سیالکوٹی نے بھی ذکر کیا ہے، تاریخ اہلحدیث: ص۴۲۶۔
(۱) الحیاۃ بعد المماۃ:ص:۵۱۔ (۲) غایۃ المقصود:۱/۵۲۔
(۳)الحیاۃ بعد المماۃ :ص۵۳ حاشیہ۔ (۴) قلمی یادداشت بحوالہ الحیاۃ بعد المماۃ ،ص:۵۲۔
(۵) قلمی یادداشت بحوالہ الحیاۃ بعد المماۃ ،ص:۵۳۔
(۱)میاں صاحب کی یاد داشت بحوالہ الحیاۃ بعد المماۃ ،ص:۵۳ ،حاشیہ ایضا، ص:۵۵۔
Last edited: