• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

میاں نذیر حسین محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ چند الزامات کا تحقیقی جائزہ

شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,783
پوائنٹ
1,069
بورڈ کی حیثیت:

حقیقت یہ ہے کہ اس پورے گروہ کی سیاسی سرگرمیوں کا وجود خارج میں بالکل نظر نہیں آتا ان کا محافظ یا تو مولانا سندھی کا اختراع پسند دماغ تھا یا مولانا محمد میاں صاحب مرحوم کا ایجاد پسند قلم ہمیں تو خارج میں جو شہادتیں ملتی ہیں اس سے یہی اندازہ ہوتا ہے کہ یہ بورڈ افسانے کے سوا اور کچھ نہیں کیونکہ اس بورڈ کے صدر مولانا مملوک علی( م ۱۸۵۱ء ؁) نے اپنی ساری زندگی دہلی کالج سے وابستہ رہ کر گزار دی جو خالص انگریزوں کا قائم کردہ ادارہ تھا۔ ظاہر ہے کسی حکومت کے وظیفہ خوار سے یہ توقع نہیں کی جاسکتی کہ وہ حکومت کے خلاف کسی بھی تحریک کی قیادت کرسکے۔ مولانا مملوک علی کی صدارت کے مسئلہ پر نہ صرف ہم کو بلکہ خود مولانا سندھی کے ماننے والوں کو سخت اعتراض ہے، پروفیسر ایوب صاحب فرماتے ہیں: ’’ ان کی سیاسی سرگرمیوں کی تفصیل تو درکنار اشارہ بھی نہیں ملتا، ان کی زندگی تو تمام تر درس وتدریس سے عبارت رہی ہے۔ لہٰذا یہ صورت کچھ محل نظر سی معلوم ہوتی ہے۔(۱)

بورڈ کے دوسرے ممبر مولانا قطب الدین دہلوی ہیں۔ استخلاص وطن اور انگریزوں کے خلا ف جد وجہد کے سلسلے میں آپ کا کیا نقطۂ نظر تھا اس کا اندازہ درج ذیل استفتاء اور اس کے جواب سے ہوگا۔ سوال ہے:

کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین اس مسئلہ میں کہ اگر ایک ملک اسلام پر قبضہ نصاری ہوجاوے اور وہ لوگ شرائع اسلام مثل نماز، روزہ، حج وزکوٰۃ، جمعہ وجماعت وغیرہ میں کسی طرح دست انداز نہ ہوں اور مثل سلطان اسلا م کے ان سے تاب مقاومت بھی نہ رہے بلکہ مقابلہ میں خوف شان کسر اسلام ہو جیسا کہ اس وقت ہندوستان میں موجود ہے تو جہاد درست ہے یا نہیں؟

الجواب: صورت مذکورہ میں مؤمنین مستامن نصاری ہیں۔ مستامن کو جس ملک میں استئمان سے رہ رہا ہے جہاد کرنا نہیں چاہیے کہ من جملہ شروط جہاد سے عدم عہد وامان من المسلمین والکفار ہے اور نیز جہاد کے واسطے ظن غلبۂ مسلمین اور قوت وشوکت اہل اسلام کی شرط ہے۔

دستخط محمد لطف اللہ، محمد قطب الدین دہلوی، خادم شریعت
رسول اللہ قاضی ومفتی محمد سعد اللہ، محمد عالم علی(۲)


یہ فتویٰ واضح طور پر ان مجاہدین سرحد کے خلاف حاصل کیا گیا تھا جو سرحد پر جہاد کی شمع روشن کیے ہوئے تھے ،یہ وہی افراد تھے جو مولانا ولایت علی اور عنایت علی وغیرہ کی سرکردگی میں کام کررہے تھے ،ان میں وہ لوگ بھی شامل تھے جنہوں نے سید صاحب کے ساتھ مل کر علم جہاد بلند کیا تھا لیکن مولوی قطب الدین صاحب دہلوی ان تمام حضرات کے اس فعل کو بڑی صفائی کے ساتھ غیر شرعی بتلا رہے تھے اور مسلمانوں کو جہاد کے عمل سے دست بردار ہونے کا مشورہ دے رہے تھے۔ میری سمجھ میں یہ بات نہیں آتی ہے کہ شاہ اسحق رحمۃ اللہ علیہ ایسے شخص کو کیسے اپنے ہندوستانی مشن کی تکمیل کے لیے نامزد کرسکتے ہیں۔

بورڈ کے تیسرے ممبر مولانا عبدالغنی مجددی صاحب ہیں موصوف کے بارے میں قادری صاحب کا یہ بیان گزر چکا ہے کہ آپ نے اپنے استاذ کے مسلک کی اتباع کرتے ہوئے ہندوستان سے ہجرت کرکے حجاز کی سکونت اختیار کرلی۔(۱) گویا کہ بورڈ کے جتنے اراکین تھے ان تمام نے عملاً اس نظریہ اور مشن کو ترک کردیا جو شاہ اسحق رحمۃ اللہ علیہ کے پیش نظر تھا۔

اس کے برخلاف ہم دیکھتے ہیں کہ میاں صاحب دہلی میں رہ کر اپنی سیاسی سرگرمیوں کو پوری قوت سے جاری رکھتے ہیں۔ مجاہدین سرحد کی امداد میں بھی پیش پیش ہیں اور جہاد کا علم بلند کرنے والے مجاہدین اور ان کے رہنماؤں سے رابطہ میں ہیں۔ میاں صاحب کے زمانہ میں بھی دہلی کا شمار مجاہدین کے اہم امدادی مراکز میں ہوتا تھا۔

تحریک شہیدین کی امداد واعانت کاکام سب جانتے ہیں کہ انتہائی رازداری کے ساتھ ہو رہا تھا۔ تلاش وجستجو کے بعد بھی آج تک وہ طریقہ کار کما حقہ روشنی میں نہ آسکا، اس لیے ہم یہ بتانے سے قاصر ہیں کہ اس سلسلے میں میاں صاحب نے کیاکچھ کیا لیکن اتنی بات تو بالکل طے ہے کہ میاں صاحب مختلف ذرائع سے جہاد کی شمع کو روشن رکھنے کا انتظام کرتے رہے ہیں۔ اب ہم اجمال کے ساتھ میاں صاحب کی سیاسی سرگرمیوں کا تذکرہ کریں گے۔

===========================================

(۱) مولانا احسن نانوتوی ،مرتبہ ایوب قادری ( تذکرہ مملوک علی نانوتوی) (۲) تاریخ صحافت اردو:۲/۳۱۰۔

(۱)تذکرہ علمائے ہند اردو، مولانا یوسف بنوری لکھتے ہیں: ثم تلا الشیخ محمد إسحق صاحبہ عبد الغني المجددي المتوفی ۱۲۹۶ ؁ھ غیر أنہ ھاجر إلی المدینۃ فلم یکن أمدہ في الھند طویلۃ۔ (مقدمہ فیض الباری، ص: ۱۷)

 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,783
پوائنٹ
1,069
میاں صاحب انگریزوں کی نظر میں:

انگریزوں کی نظر میں میاں صاحب کی حیثیت انتہائی خطرناک تھی، وہ آپ کو ہندوستانی وہابیوں کا مدار الہمام اور قائد سمجھتے تھے۔ ہندوستان کے اندر اس تحریک کے اعلیٰ قائدین سے کافی مستحکم روابط تھے ،ان میں خاندان صادق پور سے آپ کے تعلقات کافی اہمیت رکھتے ہیں۔ وہابی سازش کیس ۱۸۶۴ ؁ء میں جب آپ کے مکان کی تلاشی لی گئی تو ان میں مولانا جعفر تھانیسری کے تین خطوط اور مبارک علی صادق پوری کے دو خطو ط پکڑ ے گئے۔(۱) اسی طرح سرحد کے قائدین سے بھی آپ کے عمدہ تعلقات تھے، سرحد سے آنے والے قاصد برابر آپ کی خدمت میں حاضر ہوتے تھے، اسی طرح خط وکتابت کا سلسلہ بھی قائم رہتا تھا، اسی تلاشی کے موقع پر امیر المجاہدین سید عبد اللہ صاحب صادق پوری(م ۱۹۰۲ء ؁ ) کے نام میاں صاحب کا ایک خط پکڑا گیا تھا جس سے ان روابط کی نشاندہی کی جاسکتی ہے۔

میاں صاحب مختلف افراد کو اس بات پر آمادہ کیا کرتے تھے کہ وہ سرحد جاکر مجاہدین کی صف میں شامل ہوجائیں چنانچہ راج محل کے ایک گواہ کا بیان ہے کہ مولانا نذیر حسین صاحب نے اسے سرحد جانے کے لیے آمادہ کیا تھا۔ (۲)

اس کے علاوہ میاں صاحب کی کوشش یہ رہتی تھی کہ اپنے بعد ایک ایسی جماعت تیار کردیں جو بزرگوں کے شروع کیے ہوئے اس کام کو پایۂ تکمیل تک پہنچائے ،اس کے لیے آپ نے مخصوص شاگردوں کو تیار کیا اور ان میں جہاد کی روح پھونک دی۔ ان میں مولانا محمد ابراہیم آروی(م ۱۹۰۱ء ؁مطابق ۱۳۱۹ھ ؁) مولانا عبدالعزیز رحیم آبادی(م ۱۳۳۶ ؁ھ) مولانا عبداللہ غازی پوری ( م۱۳۳۷ ؁ھ) خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔ آخری دور میں سرحد پار کے مجاہدین کو افراد اور اسلحہ وغیرہ کی فراہمی وغیرہ کا سارا کاروبار انہی حضرات کے ذمہ تھا۔(۳) مہر صاحب لکھتے ہیں:’’ گویا آخری دور میں اعانت مجاہدین کا اکثر وبیشتر کام زیادہ تر اہل حدیث حضرات ہی نے انجام دیا۔‘‘ (۴)

یہ تمام حقائق اس بات کے گواہ ہیں کہ میاں صاحب رحمۃ اللہ علیہ شہیدین کی تحریک جہاد کے صف اول کے قائدین میں تھے، مولانا سندھی کو اس حقیقت کا احساس ہے اور واضح الفاظ میں اعتراف کیا ہے۔ تاریخ کا طالب علم جانتا ہے کہ مولانا عنایت علی غازی( م۱۸۵۸ ؁ء) کی زندگی سے یہ تحریک کھل کر انگریزوں سے ٹکرا رہی تھی۔(۱) اس طرح دوسرے لفظوں میں یوں کہا جا سکتا ہے کہ میاں صاحب رحمۃ اللہ علیہ ایک ایسی جماعت کی قیادت کررہے تھے جو انگریزوں سے براہ راست ٹکر لے رہی تھی، اب اس پس منظر میں اگر ایوب صاحب قادری اور رضاصاحب بجنوری کے الزامات کا جائزہ لیا جائے تو اندازہ ہوتا ہے کہ یہ یاروں کی صحبت میں پل کر جواں ہوئے ہیں۔

ان حضرات کے استدلال کا سارا دارومدار مؤلف’’ الحیاۃ بعد المماۃ‘‘ کے بیان پر ہے۔ ہم اس بیان پر نقد وجرح کرنے سے پہلے مناسب سمجھتے ہیں کہ ایک اور معاملے کو صاف کرلیں ۔اس اجمال کی تفصیل یہ ہے کہ ہندوستان میں انگریزوں کے ظلم وجور کا سب سے بڑا ہدف اہل حدیث تھے۔ اہل حدیثوں کو سنی برادران کی عنایت سے وہابی کا خطاب دے دیا گیا تھا اور اس کی خوب تشہیر بھی کی گئی تھی۔ وہابی اور باغی انگریزوں کی نظر میں مترادف الفاظ تھے۔(۲) اس لیے انگریزوں کے ہر ظلم کا نشانہ سب سے پہلے یہی بنتے تھے۔ وہابی سازش کیس کے ہولناک مظالم اب بھی جسم کے رونگٹے کھڑے کردیتے ہیں۔ جس وقت’’ الحیاۃ بعد المماۃ‘‘ کی تالیف ہورہی تھی اس وقت تک یہ اثرات تو بالکل تازہ تھے، دل ودماغ کا ان سے متاثر ہونا بالکل فطری امر ہے۔ چنانچہ میاں صاحب اور آپ کے کنبے نیز دوسرے اہل حدیثوں کو مظالم سے بچانا ہر اہل حدیث کا پسندیدہ کام تھا۔ اسی خیر خواہی کے جذبے میں بعض حضرات کا خیال ہو ا کہ میاں صاحب اور ان کے خاندان کو گورنمنٹ کی نظر میں وفادار ظاہر کیا جائے تاکہ پھر ان روح فرسا واقعات کا اعادہ نہ ہوسکے۔ آپ کے سوانح نگار فضل حسین مظفر پوری نے یہی کیا اور میاں صاحب کو وفادار ثابت کرنے کی زبردست کوشش کی۔ ہم سمجھتے ہیں کہ ہر شخص کے غور وفکر کا اپنا ایک نظریہ ہوتا ہے، ضروری نہیں کہ اس کا نظریہ صحیح ہی ہو لیکن بہرحال اس کے اظہار پر قدغن نہیں لگائی جاسکتی۔ سوانح نگار بھی انسان ہوتا ہے، اس کے اپنے نظریات رہتے ہیں ہم اس سے اس بات کا مطالبہ تو کرسکتے ہیں کہ وہ واقعات کو صحیح ڈھنگ سے پیش کرے لیکن یہ مطالبہ ہرگز نہیں کر سکتے کہ اپنے نظریے کے مطابق کوئی نتیجہ نہ اخذ کرے، لیکن ساتھ ہی ساتھ ہمیں اس نظریہ سے اختلاف کا بھی پورا پورا حق حاصل ہے واقعات جس کی تائید کریں گے دنیا اسی نظریہ کو لے گی ۔

یہ معاملہ تنہا فضل حسین اور میاں صاحب کا نہیں بلکہ تمام ہی حضرات اس زمرے میں شامل ہوجاتے ہیں صرف ایک مثال ملاحظہ ہو۔ مولانا رشید احمد گنگوہی( م ۱۳۳۰ ؁ھ) حاجی امداد اللہ مہاجر مکی( م ۱۳۱۷ ؁ھ) مولانا محمد قاسم صاحب نانوتوی( م ۱۲۹۷ ؁ھ) یہ وہ بلند پایہ شخصیتیں ہیں جن کا شمار آج ارباب دیوبند صف اول کے مجاہدین آزادی میں کرتے ہیں لیکن مشہور دیوبندی عالم مولانا عاشق حسین میرٹھی نے جب’’ تذکرۃ الرشید‘‘ تالیف کی تو ان واقعات کا یکسر انکار کردیا جسے آج ان حضرات کے کارنامے کے طور پر بیان کیا جاتا ہے اور پوری قوت سے یہ یقین دلانے کی کوشش کی کہ یہ حضرات گورنمنٹ کے پکے وفادار ہیں۔ لکھتے ہیں:’’ ہر چند کہ یہ حضرات بے گناہ تھے مگر دشمنوں کے یاوہ گوئی نے ان کو باغی ومفسد اور مجرم وسرکاری خطاوار ٹھہرا رکھا تھا۔ آپ حضرات اپنی مہربان سرکار کے دلی خیر خواہ تھے ،تازیست خیر خواہ ثابت رہے۔ (۱)

خصوصاً مولانا رشید احمد گنگوہی کے متعلق لکھتے ہیں:

’’ سمجھے ہوئے تھے کہ میں جب حقیقت میں سرکار کا فرماں بردار ہوں تو جھوٹے الزامات سے میرا بال بھی بیکا نہ ہوگا اگر مارا بھی گیا تو سرکار مالک ہے جو چاہے کرے۔ (۲) اسی طرح ایک طویل باب میں ان واقعات پر بحث کرتے ہوئے ان کی تغلیط کی ہے اور سارے فساد کا ذمہ دارقاضی عنایت کو قرار دیا ہے۔

مولانا عاشق الٰہی میرٹھی رحمۃ اللہ علیہ ایک ذمہ دار دیوبندی عالم تھے، میرا خیال ہے کہ کوئی بھی انہیں دروغ گو کہنے کی جرأت نہ کرسکے گا اس لیے موصوف کی ان تحقیقات کی حیثیت ایک دستاویز کی سی ہوجاتی ہے، حالات اور قرائن بھی اس بات پر گواہ ہیں کہ یہ حضرات اس طرح کی تمام سرگرمیوں کے ذمہ دار نہ تھے کیونکہ تھانہ بھون کا یہ ہنگامہ اس وقت شروع ہوا تھا جب دہلی دوبارہ انگریزوں کے قبضہ میں جاچکی تھی۔ کیا یہ حضرات اتنے سادہ لوح تھے کہ اس وقت جبکہ سارا ہندوستان انگریز مخالف بنا ہوا تھا خاموش رہتے اور جب دوبارہ انگریزوں کا تسلط ہوجاتا ہے تو انگریزوں کے خلاف علم جہا د بلند کرتے۔ اس طرح کی بات کوئی صحیح الدماغ شخص مشکل ہی سے کہے گا۔

دوسرے یہ بات بھی قابل لحاظ ہے کہ تھانہ بھون کے ہنگامے کی اصل وجہ قاضی عنایت اللہ کے بھائی کا بے دردانہ قتل تھا۔ اس قتل کا بدلہ لینے کے واسطے قاضی صاحب نے علم بغاوت بلند کیا اور انگریزوں سے جم کر مقابلہ کیا۔ یہ سب کچھ کرنے کے بعد حاجی امداد اللہ صاحب وغیرہ سے یہ درخواست کی کہ آپ لوگ ہمارے علاقے میں قضا کا عہدہ سنبھال لیں۔ ظاہر ہے کہ اس پورے ہنگامے میں ان نفوس قدسیہ کااگر کوئی رول رہا ہے تو اس کے علاوہ اورکچھ نہیں تھا کہ انہوں نے قاضی صاحب کی یہ درخواست منظور کرلی۔

لیکن ہمارا مقصود یہاں اس مسئلے پر گفتگو کرنا نہیں۔ کہنا صرف یہ تھا کہ یہاں باوجود یکہ قرائن مولانا عاشق علی کے بیان کی تائید کررہے ہیں پھر بھی قادری صاحب اور بجنوری صاحب سمیت تمام دیوبندی حضرات میرٹھی صاحب کے اس بیان کو ہضم کر جاتے ہیں یا پھر وہی کچھ کہتے ہیں جو میاں صاحب نے فرمایا ہے۔ لکھتے ہیں:’’ تذکرۃ الرشید‘‘ کی تصنیف وترتیب کا وقت وہ ہے جب برطانوی سامراج کا نقطۂ عروج خط استواء پر پہنچا ہوا تھا اور نہ صرف زبان وقلم بلکہ لوگوں کے ضمیر بھی اس کی عظمت و ہیبت سے متاثر تھے تو آپ کو بھی اپنی تحریر میں وقت کے تقاضے کی تکمیل کرنی پڑی۔ انتہا یہ ہے کہ بعض چیزوں کے اعتراف واقرار کے لیے بھی انکار کا پیرایہ اختیار کرنا پڑا۔ امام ربانی حضرت مولانا رشید احمد گنگوہی کی سوانح حیات لکھتے وقت یہ تو ممکن ہی نہیں تھا کہ ۱۸۵۷ ؁ء اور اس کے نتائج واثرات کا ذکر ہی نہ کریں اور شمس العلماء کی طرح دامن بچا کر نکل جائیں ۔البتہ تقاضائے وقت یا اپنے طبعی میلان کے باعث آپ نے اپنے بزرگوں کو بچانے کی کوشش زیادہ سے زیادہ کی ہے، چنانچہ اس علاقے میں بغاوت کا اصل بانی اور علمبردار جناب قاضی عنایت علی رئیس تھانہ بھون کو قرار دیا ہے۔

غور فرمایے کیا ’’ الحیاۃ بعد المماۃ‘‘ کی تالیف کے وقت برطانوی سامراج کا نقطۂ عروج خط استواء پر نہیں پہنچا ہوا تھا یا’’ الحیاۃ بعد المماۃ‘‘ کے مصنف کے دل میں اپنے بزرگوں کے بچانے کا داعیہ موجزن نہیں تھا۔ افسوس ہے کہ یہ حضرات جب اپنے مکتبۂ فکر سے باہر کے افراد پر نظر ڈالتے ہیں تو ایسے وقتی بیانات کو نعمت غیر مترقبہ سمجھ کر بعض بلند پایہ اصحاب کی کردار کشی کا ایک حربہ بنالیتے ہیں۔ مجھے کہنا صرف یہ ہے کہ فضل حسین صاحب کی رائے اس معاملہ میں بالکل کوئی وقعت نہیں رکھتی اس لیے اس کو پیش کرنا لاحاصل ہے، ہم نے میاں صاحب کی سیاسی زندگی کی جو ایک ہلکی سی جھلک پیش کی ہے وہی اس مہمل دعوے کے بطلان کے لیے بالکل کافی ہے۔


===========================================

(۱) ضمیمہ کالا پانی از ایوب قادری ۔ (۲) ہندوستان میں وہابی تحریک، ص: ۳۱۵۔
(۳)سر گزشت مجاہدین ،ص: ۶۴۳۔ (۴) سر گزشت مجاہدین، ص: ۶۱۲۔

(۱) ہندوستان کی پہلی اسلامی تحریک، سر گزشت مجاہدین، اہل حدیث اورسیاست وغیرہ ۔
(۲)سر گزشت مجاہدین ،ص: ۴۲۔

(۱)تذکرۃ الرشید: ۱/۷۹۔
 
Last edited:
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,783
پوائنٹ
1,069
وفاداری کی دلیل اور اس کا تجزیہ:

مولانا فضل حسین مظفر پوری، پروفیسر ایوب قادری وغیرہ تمام حضرات وفا داری کی دلیل یہ دیتے ہیں کہ میاں صاحب نے ایک زخمی میم کی جان بچائی تھی اور ساڑھے تین مہینے تک اس کو بحفاظت رکھا پھر غدر کے خاتمے پر انگریزوں تک پہنچا دیا اور اس کے صلہ میں تیرہ سو روپیے بطور انعام حاصل کیے۔ ہم چاہتے ہیں کہ اس دعوے کے تمام پہلؤں پر گفتگو کریں۔

سب سے پہلے سوال یہ ہے کہ آیا میاں صاحب نے کسی انگریز عورت کو پناہ دی تھی یا نہیں لیکن اس سوال کا جواب اس کے سوا اور کچھ نہیں ہوسکتا کہ یقیناًمیاں صاحب نے ایک انگریز عورت کو پناہ دی تھی لیکن یہ عورت کیسے اور کن حالات میں پہونچی تھی یہ البتہ غور طلب ہے۔ صاحب’’ الحیاۃ بعد المماۃ‘‘ کا بیان ہے کہ:’’ اس عورت کو میاں صاحب ایک ویران مقام سے اٹھا کر اپنے گھر لائے تھے۔‘‘(۱) افتخار حسین صاحب کا کہنا ہے کہ:’’ اس میم کو ڈپٹی نذیر احمد صاحب اٹھوا کر لائے تھے۔‘‘(۲) مولانا غلام رسول قلعوی کے صاحب زادے کا بیان ہے کہ’’ میرے والد اور مولانا عبداللہ صاحب غزنوی اس عورت کو میاں صاحب کے گھر لائے تھے۔‘‘ (۳)

بشیر احمد صاحب مؤلف’’ واقعات دارالحکومت‘‘ لکھتے ہیں کہ:’’ میرے نانا نے بھی ایک میم مسز لیسینس کی جان بچائی ان کی عبارت یہ ہے:’’ میرے نانا عبدالقادر متوسلان شاہی میں سے تھے، وہ بھی گئے ان کے ساتھ دو پنجابی پٹھان بھی تھے، انہوں نے دیکھا کہ ایک عورت جس نے ہاتھ سے پانی پینے کا اشارہ کیا اپنے گھر لائے اور علاج کیا۔‘‘ (۱)

یہ چاروں متضاد بیانا ت ایک ہی واقعہ سے متعلق ہیں۔ مولانا نذیر احمد املوی (م۱۹۶۵ ؁ء) نے ان میں جمع کی یہ صورت نکالی کہ یہ سب لوگ ساتھ گئے تھے مگر مؤلف’’ حیاۃ النذیر‘‘نے بتصریح لکھا ہے کہ:’’ میم کو گھر لانے کے بعد میاں صاحب کو مطلع کیا۔‘‘ اسی طرح صاحب’’ حیاۃ النذیر‘‘ نے فضل حسین کے اس بیان کی جم کر تردید کی ہے ۔ لکھتے ہیں کہ’’ اس میں کچھ شک نہیں کہ مولوی نذیر حسین صاحب اور مولوی عبد القادر صاحب نے مسز لیسینسکی جان بچائی لیکن یہ بالکل غلط ہے کہ مولوی نذیر صاحب مسز لیسینس کواٹھوا کر لائے تھے اور اپنے گھر میں رکھا۔ اصل واقعہ یہ ہے کہ ڈپٹی صاحب اور منیر اور شعیب مسز لیسینس کو کہیں سے اٹھا کر لائے۔ مولویوں نے صرف مذہبی تقاضے سے اس میم کی جان بچائی(۲) کچھ بھی ہو کم ازکم تین روایتیں اس بات پر متفق ہیں کہ میاں صاحب میم کو خود نہیں لائے تھے، اس لیے یہ بات تو تقریباً طے ہوجاتی ہے کہ مسز لیسینس کو لانے میں میاں صاحب کا ہرگز کوئی دخل نہ تھا۔
گویا اس سلسلے میں میاں صاحب کا کردار صرف یہ تھا کہ ایک زخموں سے چور مظلوم عورت آپ کے گھر تک لائی گئی۔ خطرہ تھا کہ اگر بلوائیوں کو اس میم کے وجود کی ہوا لگ گئی تو نہ صرف اس کی جان پر بلکہ آپ کے سارے کنبے پر بھی قیامت آجائے گی۔حالات کی نزاکت کو مد نظر رکھتے ہوئے آپ نے اس بیچاری کو اپنی حفاظت میں رکھ لیا اور علاج ومعالجہ کا معقول انتظام کیا۔ ہنگامہ کے فرو ہونے کے بعد اس کی قوم تک بحفاظت پہونچادیا۔ صاحب ’’حیاۃ النذیر‘‘ لکھتے ہیں کہ:’’یہ سب کچھ بتقاضائے دینداری تھا۔‘‘ ایک اور جگہ لکھتے ہیں کہ: ’’مولویوں نے صرف مذہبی تقاضے سے اس میم کی جان بچائی۔‘‘ (۳)

کیا اتنی سی بات سے یہ نتیجہ اخذ کیا جاسکتا ہے کہ میاں صاحب انگریزوں کے وفادار تھے۔ واضح رہے کہ اسلامی شریعت میں دشمن کی عورتوں پر ہاتھ اٹھانے کی اجازت نہیں دی گئی ہے اور جہاں تک مجروحین کا تعلق ہے تو اس سلسلے میں کسی زخمی مقاتل کو بھی قتل کرنے کی اجازت نہیں ہے۔

کیا مسز لیسینس کو اسلام کے اس فیاضانہ سلوک سے صرف اس وجہ سے محروم رکھا جاتا کہ وہ انگریز تھی اور اس کا نسلی تعلق ایک ایسی قوم سے تھا جو کل تک ہندوستان کی حکمراں طاقت تھی۔

بہر حال اس واقعہ سے میاں صاحب کی وفاداری پر استدلال کرنا کوئی معقول بات نہیں۔ مناسب معلوم ہوتا ہے کہ مولانا محمد میاں صاحب کی کتاب’’ علمائے حق کا شاندار ماضی‘‘ کا ایک پیرا گراف نقل کردوں۔ سر سید نے ایک جگہ لکھا تھا کہ:’’ جن لوگوں کی مہر اس فتوے پر چھاپی گئی ہے ان میں سے بعضوں نے عیسائیوں کو پناہ دی ہے۔ ‘‘مولانا محمد میاں صاحب اس پر تعاقب کرتے ہوئے لکھتے ہیں:’’ دشمن اگر پناہ مانگیں تو پناہ دینا فتویٰ جہاد کے خلاف نہیں بلکہ جس کلام پاک کی روشنی میں جہاد کا فتویٰ دیا جاتا ہے اس کا حکم ہے: (وَإِنْ أَحَدٌ مِّنَ الْمُشْرِکِیْنَ اسْتَجَارَکَ فَأَجِرْہُ حَتَّی یَسْمَعَ کَلاَمَ اللّہِ) (۱) اگر برسر جنگ مشرکوں میں سے کوئی پناہ مانگے تو اس کو پناہ دے دو تاکہ اس کو توفیق ہوکہ اللہ کی بات سنے اور اس پر عمل کرے۔بالخصوص عورت کا معاملہ تو اور ہی نازک ہے۔ حدیث میں خصوصیت سے عورتوں، بوڑھوں، بچوں کے قتل کی ممانعت ہے۔

مفتی انتظام اللہ صاحب شہابی کا خیال ہے کہ:’’ اس واقعہ سے استدلال کرکے میاں صاحب کو وفادار ثابت کرنا سعی لاحاصل ہے۔‘‘مولانا نذیر احمد صاحب املوی نے اس واقعہ کا دلچسپ جائزہ لیا ہے اور مختلف پہلوؤں سے بحث کرکے بالکل دوٹوک فیصلہ کردیا ہے کہ اس واقعہ کا وفاداری سے بالکل کوئی تعلق نہیں۔

قابل غور بات یہ ہے کہ انگریز دلی سے بے دخل کیے جاچکے تھے، سارے ملک کی باگ ڈور ان کے ہاتھوں سے تقریباً نکل چکی تھی، جگہ جگہ ان کو قتل کیا جارہا تھا، ان کی معاونت کے ادنیٰ سے شبہ پر بھی جان ومال سے ہاتھ دھونا پڑتا تھا۔ ایسے نازک اور مخدوش حالات میں وفاداری کے کیا معنی ہیں؟ کیا میاں صاحب اتنے سادہ لوح تھے کہ انگریزوں کی واپسی کی موہوم سی امید پر اپنی جان اور سارے خاندان کی عزت وناموس کو داؤ پر لگادیتے؟

ناطقہ سربہ گریباں ہے اسے کیا کہیے


===========================================

(۱) الحیاۃ بعد المماۃ،ص: ۷۷۔ (۲)حیات النذیر، از افتخار عالم بلگرامی: ۲/۴۸۔
(۳)الاعتصام ،تحریک اہل حدیث نمبر ۔

(۱)واقعات دارالحکومت ۔ (۲،۳) حیات النذیر ،ص: ۴۸،۴۹۔

(۱) توبہ: ۱۰۔
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,783
پوائنٹ
1,069
انعام کی حیثیت:

واقعہ کی جو صورت ہم نے پیش کی ہے اس کی روشنی میں وفاداری کا سوال ہی نہیں پیدا ہوتا ہے لیکن کوئی اس فعل کو وفاداری یا اس طرح کے کسی دوسرے نام سے تعبیر کرے تو یہ اس کا اپنا فعل ہے۔ میاں صاحب پر ہرگز اس کی ذمہ داری نہیں ڈالی جاسکتی لیکن یہ سوال بہر حال باقی رہ جاتا ہے کہ اگر وفاداری مقصود نہ تھی تو اس کام پر انعام اور سر ٹیفکیٹ کیوں قبول کی۔

اس سوال کا جواب یہ ہے کہ میاں صاحب نے اس عورت کو انسانیت اور شریعت کے اعلیٰ تقاضوں کے تحت پناہ دی تھی اس لیے آپ کا یہ فعل شرافت اور اعلیٰ کرداری کا بہترین نمونہ تھا۔ ناممکن تھا کہ اس رویہ سے مسز لیسینس متاثر نہ ہوتی۔ اسی تاثر کا نتیجہ تھا کہ اس نے جاتے وقت کہا تھا کہ :’’ میں کوشش کروں گی کہ اس کا بدلہ دلواؤں۔‘‘ (۱)

اسی کی کوشش کا نتیجہ تھا کہ میاں صاحب کو چار سو روپیے اور ایک سرٹیفکٹ دیا گیا یہ چار سو روپیے ان نقصانات کی تلافی کے لیے دیے گئے تھے جو میاں صاحب کے خاندان کو برداشت کرنے پڑے تھے لیکن آئیے یہ بھی جان لیں کہ وہ نقصانات کیا تھے۔

ہم سب جانتے ہیں کہ۱۸۵۷ ؁ء سے پہلے میاں صاحب کا قیام پنجابی کٹرہ میں تھا۔ صاحب ’’ الحیاۃ بعد المماۃ‘‘ لکھتے ہیں کہ:’’ غدر کے بعد آپ کا محلہ صرف آپ کی وجہ سے محفوظ رہا۔‘‘(۲) لیکن دوسری شہادتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ میاں صاحب کا خاندان اور محلہ پوری طرح سے تباہی کا نشانہ بنایا گیا تھا۔ پنجابی کٹرہ میں میاں صاحب کے پاس دو مکانات تھے۔ ایک مکان تو وہی تھا جس میں آپ رہائش پذیر تھے۔ اس کے علاوہ صاحب’’ حیاۃ النذیر‘‘ کی تصریح سے معلوم ہوتا ہے کہ اس جگہ آپ کا ایک دوسرا نو تعمیر مکان بھی تھا۔ (۳)

لیکن۱۸۵۷ ؁ء کے بعد پنجابی کٹرہ کو توڑ پھوڑ کا نشانہ بنایا گیا۔ اسی توڑ پھوڑ میں آپ کے یہ دونوں مکانا ت بھی منہدم کردیے گئے اور اسٹیشن اور ریلوے لائن میں شامل کر لیا گیا۔(۴)

لیکن میاں جن چار سو روپیوں کا تذکرہ مذکورہ بالا سطروں میں ہوا ہے اس کے علاوہ بھی

سات سو کی ایک رقم منہدم شدہ مکانات کے معاوضہ کے طور پر دی گئی تھی، چنانچہ اس کی رسید کے اصل الفاظ یہ ہیں:

"Delhi Dated 27th September 1877
From W.G. Waterfield,offg Commissioner. Moulvi Nazeer Hussain and his son Moulvi Sharif Hussain were with other members of thier family insturumental in saving the life of Mrs. Lessons during the mutiny they tended her when wounded kept her in their house for 31/2 months
finally sent her in to the British camp at Delhi.
He says that he has lost in a fire which took place in his house in Delhi all his English certificates. I think this is extremely probable, he probably had certificates from General Noville
Chamberlain and General Burnard, Colnel Sytter and others.
I remember the fact well and Mrs Lessons, coming in to capmp. The family received a handsome reward of Rs 400, Rs 700 compansation for the demolition of houses bestowed
upon them.
The family all deserve considiration and kindness at our
(۱)homes.


یہی وہ کل رقم تھی جو میاں صاحب کو انگریزوں سے ملی تھی، اس کی کل مقدار گیارہ سو روپیہ ہوتی ہے لیکن لطف کی بات یہ ہے کہ میاں صاحب کے ان کرم فرماؤں نے اس رقم کو تیرہ سو تک پہنچا دیا۔ ہمیں تسلیم ہے کہ قادری صاحب نے جو ترجمہ نقل کیا ہے وہ ’’ الحیاۃ بعد المماۃ‘‘ میں حرف بحرف موجود ہے لیکن ہمیں پروفیسر صاحب سے یہ حسن ظن ہے کہ آپ انگریزی کے اچھے عالم ہوں گے، ایسی صورت میں ہم کو پروفیسر صاحب سے بجا طور پر یہ توقع تھی کہ موصوف نے

ترجمہ کا مقابلہ اصل عبارت سے ضرور کیا ہوگا۔ خاص طور سے ایسی صورت میں یہ ذمہ داری اور بھی بڑھ جاتی ہے جب کہ آپ نے اصل سرٹیفیکٹ کا ترجمہ نقل کرنے کا دعویٰ کیا ہے اگر آپ چاہتے تو اس غلطی کا ازالہ کرسکتے تھے لیکن یہ غلط ترجمہ زیادہ مفیدمطلب تھا اس لیے موصوف نے اصلاح کی طرف توجہ نہیں فرمائی۔

تاہم یہ سوال اب بھی بدستور باقی رہ جاتا ہے کہ میاں صاحب نے ان دونوں چیزوں کو کیسے قبول کرلیا؟

لیکن اس کا جواب واضح ہے ۔۱۸۵۷ ؁ء کی ناکامی کے نتیجے میں جب پوری سیاسی بساط الٹ گئی اور انگریزوں کے قدم اچھی طرح جم گئے تو انہوں نے داروگیر کا ایک بھیانک سلسلہ شروع کردیا۔ معمولی شبہہ کی بنا پر سخت سے سخت سزا معمولی بات تھی ان وحشت ناک حالات نے ہر شخص کو سراسیما کردیا تھا ۔اس عدم تحفظ کی کیفیت میں ہر شخص اپنی بچت کے پہلو ڈھونڈھنے لگا حتی کہ بہادر شاہ ظفر تک نے جان کی امان طلب کی ایسے ہولناک حالات میں اگر از خود حفاظت کا سامان مہیا ہوجائے تو کیا عقل وخرد کا فیصلہ یہی نہ ہوگا کہ اس سے مستفید ہوا جائے اگر جواب اثبات میں ہے تو پھر میاں صاحب نے سر ٹیفکیٹ اور انعام نہیں بلکہ معاوضہ کو اس مصلحت کے تحت قبول کرلیا کہ انگریزوں کے غیظ وغضب سے محفوظ رہ سکیں تو اس میں قباحت کیا ہے؟ خصوصیت سے ایسی صورت میں جب کہ جہاد کے فتویٰ پر آپ کا دستخط بھی ثبت ہے اور آپ انگریزوں کی ایک مخالف قوت کے نہ صرف معاون ومددگار ہیں بلکہ اس کے قائدین کے درجے میں شامل ہیں۔

گویا داروگیر کے سارے اسباب مہیا ہیں لیکن ایک بالکل اتفاقی صورت پیدا ہوجاتی ہے جس سے نہ صرف آپ کا بچاؤ ممکن ہے بلکہ مستقبل میں شک وشبہ سے بالا تر ہو کر اپنی سرگرمیوں کو جاری رکھنے کا ایک زریں موقع بھی مل جاتا ہے ایسی صورت میں اس سہولت سے فائدہ نہ اٹھانا نادانی نہیں ہے تو اور کیا ہے؟

یہاں ایک بات اور بھی قابل غور ہے کہ میاں صاحب کا معاملہ بہر حال جوا زکی حدود میں تھا لیکن دوسرے بہت سے علماء نے اس سے بھی کم خطرات کے موقع پر حقائق سے بالکل انکار کردیا۔ مثال کے طور پر شیخ الہند ہی کے معاملے کو لے لیجیے۔ موصوف کو جب ریشمی رومال سازش

کیس میں گرفتار کیا گیا اور داروگیر کا خدشہ لاحق ہوا تو موصوف نے بڑی صفائی کے ساتھ اس معاملے میں اپنی شرکت کا انکار کردیا، اس انکار کو آپ کے عقیدت مند آپ کی سیاسی بصیرت اور غیر معمولی سوجھ بوجھ کا نتیجہ قرار دیتے ہیں۔

چنانچہ مولانا محمد میاں صاحب نے اپنی کتاب ’’ علمائے حق اور ان کے مجاہدانہ کارنامے‘‘ میں اس واقعہ کو ذکرکرتے ہوئے لکھا ہے:’’ ہم ذیل میں’’ سفر نامہ اسیر مالٹا‘‘ سے ان سوالات اور جوابات کو بجنسہٖ نقل کرتے ہیں۔ یہ سوالات اور جوابات بذات خود حضرت شیخ الہند کی تاریخ میں مزید برآں جوابات سے حضرت شیخ قدس اللہ سرہ کی ذہانت،ذکاوت، حاضر جوابی کے اندازے کے ساتھ ساتھ یہ بھی بخوبی علم ہوجائے گا کہ ایک انقلابی عالم کس طرح اپنے دشمن کو احمق بنا سکتا ہے۔(۱)

معاملہ اسی پر ختم نہیں ہوجاتا بلکہ بڑے بڑے شیخ الطائفہ اس طرح کے اقدامات کی مدافعت پر اتر آتے ہیں اور ان کو سند جواز عطا فرماتے ہیں چنانچہ اس معاملہ میں ہم دیکھتے ہیں کہ مولانا حسین احمد مدنی نے جوش عقیدت میں اس کا جواز بھی فراہم کردیا ہے، لکھتے ہیں:’’ ایسے کلمات کو جواب میں استعمال کرنا جن کے دو معنی ہوں متکلم ان کے دوسرے معنی لے اور مخاطب دوسرے معنی لے۔ یہ جھوٹ نہیں ہے۔ (۲)

’’اگر کسی بے گناہ غیر مستحق کو کوئی ظالم قتل کرتا ہو اور جھوٹ بول کر اس کو بچانا ممکن ہوتو اس وقت جھوٹ بولنا واجب ہوگا اور اگر جھوٹ کے ذریعہ کوئی بھلائی پیدا ہوتی ہو تو اس وقت جھوٹ بولنا مستحب ہوجاتا ہے۔‘‘ (۳)

ہمیں شیخ الہند کے اس رویہ پر بحث کرنی مقصود نہیں ، بتانا صرف یہ ہے کہ اس طرح کا طرز عمل اختیار کرنا ایک عام بات ہے۔ اسی لیے ہم شیخ الہند کے اس طرز عمل کو بھی زیادہ معیوب نہیں تصور کرتے البتہ ہمیں شیخ الہند کی ذات سے اس سے زیادہ جرأت مندانہ رویہ کی توقع تھی۔

===========================================
(۱)حیاۃ النذیر ، ص:۴۸ ۔ (۲) الحیاۃ بعد المماۃ، ص: ۱۵۲۔
(۳) حیاۃ النذیر، ص: ۴۸۔ (۴) ۱۸۵۷ ؁ء ،از غلام رسول مہر، ص: ۱۹۲۔

(۱) الحیاۃ بعد المماۃ ،ص:۸۰۔

(۱)علمائے حق اور ان کے مجاہدانہ کارنامے :۱/ ۱۵۲۔
(۲) نقوش حیات :۲/۲۰۴۔ (۳) نقوش حیات :۲/۲۰۵۔
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,783
پوائنٹ
1,069
۱۸۵۷ ؁ء کا فتویٰ جہاد اور میاں صاحب کا دستخط:

۱۸۵۷ ؁ء کی جنگ آزادی میں زیر بحث جہاد کے فتویٰ کو بہت زیادہ اہمیت حاصل ہے، یہی وجہ ہے کہ اس فتویٰ کا توڑ مہیا کرنے کے لیے انگریزوں نے ایک دوسرے فتویٰ کی تشہیر کرائی جس میں اس فتویٰ کے مندرجات کا رد کیا گیا تھا۔ مولوی ذکاء اللہ صاحب نے زیر بحث فتویٰ کا تذکرہ کرتے ہوئے لکھا ہے کہ اس فتویٰ کا اثر یہ ہوا کہ جاہل مسلمانوں کا جوش مذہبی زیادہ ہوگیا۔ (۱)

سرسید نے بھی اس فتویٰ کو ایک جنگی چال قرار دیا ہے۔ موصوف کے بیانات سے معلوم ہوتا ہے کہ انگریزوں کو اس فتویٰ اور اس کے مفتیوں سے سخت کد تھی، یہی وجہ ہے کہ موصوف نے اس فتویٰ کو جعلی قراردینے کی زبردست کوشش کی ہے۔

اس فتویٰ پر دلی کے اکثر بارسوخ اور ذی اثر علماء کے دستخظ ثبت ہیں۔ میاں صاحب کی شخصیت ایک خاص اہمیت کی حامل تھی، ناممکن تھا کہ اس سلسلے میں آپ کی رائے نہ معلوم کی جائے اس لیے عام علماء کے ساتھ آپ کا بھی دستخط حاصل کیا گیا۔

اس فتویٰ پر میاں صاحب کا دستخط موجود تھا یا نہیں آج یہ کوئی مسئلہ نہیں بلکہ سب کو اس بات کا اعتراف ہے کہ اس فتویٰ پر آپ کا دستخط ایک قطعی امر ہے ۔

البتہ کچھ حضرات نے اس بات کا ہی سرے سے انکار کردیا ہے کہ میاں صاحب نے اس فتویٰ پر دستخط فرمایا تھا ۔چنانچہ فضل حسین صاحب’’ الحیاۃ بعد المماۃ‘‘ نے لکھا ہے کہ:’’ میاں صاحب نے فتویٰ پر دستخط کرنے سے سختی کے ساتھ انکار کردیا اور اس جنگ کو جہاد کے بجائے ہنگامہ اور فساد سے تعبیر کیا۔‘‘ (۲)

مولانا عبید اللہ سندھی نے اپنی شدید عصبیت کے باوجود یہ جرأت نہیں کی کہ میاں صاحب کو انگریزوں کا وفادار قرار دیں البتہ آپ نے میاں صاحب کے سلسلے میں لکھا ہے کہ ’’آپ غیر جانبدار تھے۔‘‘ (۳)

انہیں بیانات کے سہارے بعض حضرات اس بات کا اعلان کرتے ہیں کہ:’’ ۱۸۵۷ ؁ء

میں میاں صاحب نے جہاد کے فتویٰ پر دستخط کرنے سے انکار کردیا تھا اس طرح جماعت اہل حدیث اسی وقت سے سیاست اور استخلاص وطن کی جد جہد سے کنارہ کش ہوگئی۔‘‘(۱)

مولانا نذیر احمد املوی رحمۃ اللہ علیہ نے ’’اہل حدیث اور سیاست ‘‘ میں میاں صاحب کے لیے غیر جانبدار ہونے کا موقف اختیار کیا ہے اور میاں صاحب کے اس طرز فکر کو حق بجانب قراردیتے ہوئے نفیس بحث کی ہے اور یہ ثابت کیا ہے کہ فتویٰ پر دستخط نہ کرنا وفاداری کا ثبوت ہرگز نہیں قرار دیا جاسکتا ۔(۲)

لیکن جہاں تک واقعہ کا تعلق ہے وہ یہ ہے کہ اس فتویٰ پر میاں صاحب نے نہ صرف دستخط اور مہر ثبت کیا تھا بلکہ اصل مجیب کے بعد آپ ہی کے تائیدی دستخط کو رکھا گیا۔ یہ فتویٰ سب سے پہلے’’ الظفر‘‘ دہلی میں مشتہر کیا گیا، اسی کی نقل’’ صادق الاخبار‘‘ میں شائع ہوئی۔ اصل فتویٰ کا فوٹو ڈاکٹر ازہرنے اپنی کتاب’’ ستنتر‘‘دہلی کے آخر میں شامل کردیا ہے۔ اسی طرح ’’نوائے آزادی‘‘ مرتب کردہ انجمن اسلام بمبئی کے ص۸ میں بھی موجود ہے ،اس کی نقل مولانا محمد میاں صاحب نے اپنی کتاب’’ علماء حق کا شاندار ماضی‘‘ میں شامل کردی ہے۔

اس فتویٰ میں اصل مجیب کی حیثیت سے سب سے پہلے نور جمال کا دستخط ثبت ہے، اس کے بعد پہلا تائیدی دستخط شیخ الکل حضرت مولانا نذیر حسین صاحب محدث دہلوی کا ہے۔(۳)

اس طرح اب یہ معاملہ صاف ہوگیا کہ اس مفروضے میں کوئی حقیقت نہیں کہ میاں صاحب نے فتویٰ جہاد پر دستخط کرنے سے انکار کردیا تھا اور یہ بات پایۂ ثبوت تک پہنچ گئی کہ اس فتویٰ پر میاں صاحب نے دستخط کیا تھا۔

لیکن یہاں بعض حلقوں کی طرف سے ایک نیا شوشہ چھوڑ اگیا کہ اس فتویٰ پر دستخط کرنے والے علماء میں عبدالرب صاحب دہلوی اور میاں سید نذیر حسین صاحب کے دستخط جبراً حاصل کیے گئے تھے کیونکہ یہ لوگ یا تو سیاست سے کنارہ کش تھے یا انگریزوں کے وفادار تھے، اسے اتفاق سے تعبیر کریں یا کسی سوچے سمجھے منصوبے کا نام دیں لیکن یہ حقیقت ہے کہ ان میں ایک مشہور اہل حدیث عالم ہے اور دوسرا اس کا قریبی رشتہ دار ہے۔

ہمیں سردست صرف میاں صاحب سے متعلق اس نئے انکشاف کی تحقیق مطلوب ہے اس لیے ہم مولانا عبد الرب صاحب دہلوی کے متعلق اس الزام سے تعارض نہیں کریں گے۔

میاں صاحب سے متعلق یہ شوشہ چھوڑتے ہوئے پروفیسر ایوب صاحب قادری لکھتے ہیں:

’’ میاں نذیر حسین نے دستخط تو کردیا مگر اس سے پتہ چلتا ہے کہ اس تحریک میں دل سے شریک نہ تھے بلکہ اس وقت کے حالات کو دیکھتے ہوئے انہوں نے اس فتویٰ پر مجبوراً دستخط کردیے تھے، ان کی سرگرمیوں کا دائرہ بس درس وتدریس تک محدود تھا عملی سیاست سے انہیں کوئی سروکار نہ تھا۔‘‘

اس انوکھی تحقیق کی دلیل یہ ہے کہ شمس العلماء ڈپٹی ذکاء اللہ مرحوم نے لکھا ہے کہ:

’’ جن مولویوں نے فتویٰ پر مہریں کیں تھیں وہ کبھی پہاڑ کے دامن پر انگریزوں سے لڑنے نہیں گئے ،مولوی سید نذیر حسین جو وہابیوں کے مقتدیٰ اور پیشوا تھے ان کے گھر میں تو ایک میم چھپی بیٹھی تھی۔‘‘(۱)

افتخار عالم مارہروی لکھتے ہیں:

’’ آفت یہ ٹوٹ پڑی کہ دوران بغاوت جنرل بخت خاں نے ان مولویوں سے زبردستی جہاد کے فتویٰ پر مہریں کرالیں۔‘‘ (۲)

ان قیمتی دلائل میں ہم ایک اور دلیل کا اضافہ کیے دیتے ہیں کہ سرسید نے بھی اس سے ملتی جلتی تحقیق پیش کی ہے۔

یہی وہ بیش قیمت دلائل ہیں جن کی بنیاد پر یہ باور کرانے کی کوشش کی جاتی ہے کہ میاں صاحب نے مجبوراً فتویٰ پر دستخط اور مہر کردی تھی، آئیے ان دلائل کا تجزیہ کریں۔

ہم حیران ہیں کہ ان قیمتی دلائل میں کون سے ایسی شے موجود ہے جس سے یہ ثابت کیا جا سکتا ہے کہ میاں صاحب نے بالجبر دستخط کیا تھا۔ اگر ڈپٹی ذکاء اللہ اور ان جیسے چند حضرات کے بیانات پر اعتماد کرکے ایسا کہتے ہیں تو بدترین مغالطہ ہے، یہ تمام حضرات بیک زبان فرماتے ہیں کہ علماء کے فتویٰ کی ساری کارروائی جبراً کرائی گئی تھی۔

چنانچہ افتخار عالم مارہروی کا بیان گزر چکا ہے ڈپٹی ذکاء اللہ صاحب کا بیان دیکھیے فرماتے ہیں’’ جب بخت خاں دلی میں آیا تو اس نے جامع مسجد میں مولویوں کو جمع کرکے جہاد کے فتویٰ پر دستخط اور ان کی مہریں کرائیں اور صدر الدین نے بھی ان کے جبر سے اپنی جعلی مہر کردی۔ جن مولویوں نے فتویٰ پر مہریں کیں تھیں وہ کبھی پہاڑی دامن پر انگریزوں سے لڑنے نہیں گئے اس پر کچھ مہریں اصلی اور کچھ جعلی تھیں۔‘‘ (۱)

سرسید لکھتے ہیں

’’ دلی میں جو فتویٰ جہاد کا چھپا وہ ایک عمدہ دلیل جہاد کی سمجھی جاتی ہے مگر میں نے تحقیق سے سنا ہے اور اس کے اثبات پر دلیلیں ہیں کہ وہ محض بے اصل......جب فوج نمک حرام میرٹھ سے دلی میں گئی فتویٰ دیا کہ جہاد نہیں ہوسکتا۔ مگر جب بریلی کی فوج دلی میں گئی اور دوبارہ فتویٰ ہوا جو مشہور ہے اور جس میں جہاد کرنا واجب لکھا ہے بلاشبہ اصلی نہیں۔ چھاپنے والا اس فتویٰ کا جو ایک مفسد اور قدیمی بد ذات آدمی تھا جاہلوں کے بہکانے اور ورغلانے کو لوگوں کے نام لکھ کر اور چھاپ کر اس کو رونق دی تھی بلکہ ایک آدھ مہر ایسے شخص کی چھاپ دی تھی جو قبل غدر مرچکا تھا۔ چند آدمیوں نے فوج باغی بریلی اور اس کے مفسد ہمراہیوں کے جبر اور ظلم سے مہریں بھی کیں تھیں، دلی میں ایک بڑا گروہ مولویوں کا ایسا تھا جو مذہب کی رو سے معزول بادشاہ دلی کو بدعتی سمجھتا تھا ،پھر کبھی عقل قبول کرسکتی ہے کہ ان لوگوں نے جہاد کے درست ہونے میں اور بادشاہ کو سردار بنانے میں فتویٰ دیا ہو ،جن لوگوں کی مہر اس فتویٰ پر چھاپی گئی ان میں سے کوئی شخص لڑائی پر نہیں گیا اگر وہ ایسا ہی سمجھتے جیسا کہ مشہور ہے تو یہ باتیں کیوں کرتے؟(۲)

آپ دیکھیے دونوں حضرات کس شد ومد کے ساتھ اس فتویٰ جہاد کو جعلی، وضعی اور بے بنیاد قرار دے رہے ہیں اور کہتے ہیں کہ اسے پہلے دیے گئے صحیح فتویٰ کا توڑ کرنے کے لیے بدذات لوگوں نے شائع کردیا تھا، ایسی صورت میں اگر ان حضرات کے بیانات کو واقعہ تسلیم کرکے کوئی رائے قائم کی جائے تو دوٹوک رائے یہ ہوگی۔جہاد کا فتویٰ ہی سرے سے جعلی، وضعی اور محض ڈھکوسلہ تھا جس کی حیثیت ایک جنگی چال کی سی تھی اور بس!

ظاہر ہے کہ یہ تمام حضرات اس نتیجے کو ماننے کے لیے ایک منٹ کے لیے بھی تیار نہیں

دیکھیے محمد میاں صاحب کس درشت انداز میں لکھتے ہیں:

’’بہرحال دستخط کے وقت نہ مرعوبیت تھی نہ جبر وقہر بلکہ سوچ سمجھ کر بحث وتمحیص کے بعد دستخط کیے گئے ، ناکامی کے بعد جب داروگیر شروع ہوئی تو ممکن ہے کہ کچھ علماء نے جبر کا عذر پیش کردیا ہو۔‘‘(۱)

ایک جگہ اور لکھتے ہیں:

’’بیشک سر سید اور شمس العلماء نے ضرور لکھا ہے کہ کچھ علماء سے جبراً دستخط لیے گئے مگر ان دونوں کی تصنیفیں اس وقت کی ہیں جبکہ ۱۸۵۷ ؁ء کو ختم ہوئے کئی سال گزر چکے تھے اور اب ہمدردان ملت کی کوشش یہ تھی کہ مسلمانوں کو انگریزوں کا وفادار ثابت کریں اور یہ ظاہر کریں کہ جو کچھ ہوا اس کی ذمہ دار انقلابی فوج تھی جو ختم ہوچکی ہے اور جس کے افراد ورہنما مارے جاچکے ہیں یا فرار ہوگئے ہیں۔‘‘(۲)

۱۸۵۷ ؁ء میں مفتی صدر الدین کا کردار کیا تھا یہ مسئلہ شروع ہی سے زیر بحث رہا ہے۔ شمس العلماء ڈپٹی ذکاء اللہ خاں کے علاوہ متعدد مراجع میں اس بات کی تصریح موجود ہے کہ مفتی صدر الدین صاحب نے اس فتوی پر مجبورا دستخط کیا تھا اس لیے مفتی صاحب اس سلسلے میں قصوروار نہیں ، خود مفتی صاحب کے رویہ سے بھی اس موقف کی تائید ہوتی ہے۔ چنانچہ غدر کے خاتمے کے بعد جب مفتی صاحب بھی انگریزوں کی نظرمیں معتوب قرار پائے اور ضبطی جائداد وغیرہ کی سزا ملی تو موصو ف نے اس سلسلے میں پوری کوشش صرف کی کہ آپ کو ان سزاؤں سے بری کردیا جائے چنانچہ مفتی صاحب اپنے اس مقصد میں کسی حد تک کامیاب بھی ہوگئے۔ صاف ظاہر ہے کہ مفتی صاحب ان سزاؤں کے خلاف جو جنگ آزادی میں شرکت کے جرم میں دی گئی تھیں اسی بناء پر اپیل کررہے تھے کہ آپ کا دامن اس جرم’’ بغاوت‘ ‘ سے پاک تھا اور آپ واقعی اس سلسلے میں خود کو بے قصور تصور کرتے تھے ورنہ کوئی وجہ نہیں کہ آپ اس سلسلے میں جد وجہد کرتے اور انگریزوں سے تخفیف سزا کی درخواست کرتے جو صرف اس بات پر منحصر تھی کہ خود آپ کو انگریزوں کا وفادار ثابت کردیں۔ انگریزوں کی طرف سے سزا میں تخفیف خود اس بات کی دلیل ہے کہ مفتی صاحب نے اعلیٰ انگریزی افسران کو اس بات کا یقین دلا دیا تھا کہ موصوف گورنمنٹ انگلشیہ کے وفادار ہیں۔

اس سلسلے میں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ مفتی صاحب موصوف کی زندگی کا بیشتر حصہ انگریزوں سے تعاون میں گذرا تھا، یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں کہ مفتی صاحب انگریزی عدالت میں ایک لمبے عرصے تک ملازم رہے ہیں۔ (۱)

انہیں وجوہات کی بناء پر مفتی صاحب کے بارے میں یہ لطیفہ مشہور ہوا کہ مفتی صاحب سے جب دستخط طلب کیا گیا تو آپ نے دستخط اور مہر ثبت کرنے کے بعد’’ شھدت بالخیر‘‘ کا اضافہ کردیا، اس ذومعنیٰ کلمہ کے اضافہ سے مفتی صاحب کا مقصود یہ تھا کہ جو عناصر آپ سے دستخط کا مطالبہ کررہے ہیں ان کو اس طرح خاموش کردیا جائے اور وہ تصور کریں کہ مفتی صاحب نے یہ تصدیق نیک نیتی کے ساتھ کی ہے، اسی طرح اس فتویٰ سے انگریزوں کے عتاب سے محفوظ رہ سکیں کہ میں نے تو جبراً دستخط کیا تھا۔ چنانچہ فتویٰ میں’’شھدت بالجبر‘‘ ‘لکھا ہوا ہے اس طرح دونوں فریق اپنی اپنی جگہ پر مطمئن ہوجائیں۔

مفتی صدر الدین صاحب کے اس فتویٰ پر دستخط کا قضیہ میں نے مندرجہ بالا سطور میں پیش کیا ہے۔ ہم نے اس بحث میں پڑے بغیر کہ مفتی صاحب کے سلسلے میں حقیقی کردار کیا تھا، صرف یہ دکھایا ہے کہ مفتی صاحب کے دستخط کا معاملہ حد درجہ مشکوک ہے۔

لیکن اس کے باوجود یہ تمام حضرات اس کو ماننے کے لیے تیار نہیں کہ مفتی صاحب نے جبراً دستخط کیا تھا۔ مولانا محمد میاں صاحب لکھتے ہیں:’’ وہاں شہادت بالجبر کا موقع کہاں تھا متعدد علماء وہ تھے جنہوں نے ا س فتویٰ پر دستخط نہیں کیے تھے اور وہ اس قیامت خیز دور میں بھی تحریک کے مخالف دہلی ہی میں رہے انہوں نے فتویٰ پر دستخط نہیں کیا اور نہ مجبور کیا گیا۔(۲)

اس کے برعکس جب میاں صاحب کا معاملہ سامنے آتا ہے تو بڑی معصومیت سے لکھتے ہیں:’’ بہر حال فتویٰ کے دستخطوں میں اس نام کے متعلق یہ بیان اہمیت اختیار کرلیتا ہے کہ کچھ دستخط جبراً ہوئے۔‘‘(۱)

مگر جب ضمیر کی آواز چین نہیں لینے دیتی تو دبے لفظوں میں کہتے کہ:’’ اگرچہ ہمیں اب بھی اطمینان نہیں جس کی وجہ چند سطروں کے بعد ظاہر ہوگی۔ (۲)

اس دورخی پالیسی کی وجہ اس کے سوا اور کیا ہے کہ میاں صاحب غیر مقلد ہیں اور مفتی صدر الدین صاحب کٹر مقلد۔ اس لیے میاں صاحب کے بارے میں یہ نظریہ قابل قبول ہے کہ موصوف نے بالجبر دستخط کیا تھا البتہ مفتی صاحب یا اس طرح کے دوسرے علمائے احناف جن کے بارے میں یہ تصریح موجود ہے کہ انہوں نے بجبر دستخط کیا تھا ان کے سلسلے میں یہ نظریہ البتہ قابل قبول نہیں ؂

.ہم اگر عرض کریں گے تو شکایت ہوگی
واقعی تعصب اور تنگ نظری آدمی سے کیا کچھ نہیں کرالیتی۔ میاں صاحب کے بارے میں سرسید اور شمس العلماء کے طرز عمل کی یہ توجیہہ پیش کی جاسکتی ہے جو واقعہ بھی ہے چونکہ شمس العلماء وغیرہ آپ کو گورنمنٹ کے مواخذہ سے بچانا چاہتے تھے۔ اتفاقاً ایک انگریز خاتون کو پناہ دینے کا واقعہ پیش آگیا، اس کو نعمت غیر مترقبہ سمجھ کر ان حضرات نے اپنے مقصد میں استعمال کیا اور اس حد تک کامیاب ہوگئے کہ وقتی طور پر میاں صاحب کے سر سے داروگیر کی مصیبت ٹل گئی۔

’’ شھدت بالخیر‘‘ کے مقولے سے بھی ان حضرات نے وہی مقصد حاصل کرنا چاہا مگر اس میں زیادہ جان نہ تھی اس لیے کامیابی سے ہمکنار نہ ہوسکے اور مفتی صاحب بے چارے داروگیر کے اثر سے محفوظ نہ رہ سکے۔

خلاصہ:

یہ کہ فتوی جہاد پر میاں صاحب کے دستخط کا انکار کرنا یا فتویٰ کو جعلی نہ مانتے ہوئے آپ کے دستخط کو جبر کا نتیجہ قراردینا قطعی غلط ہے اور اس پر یہ عمارت کھڑی کرنا کہ آپ انگریزوں کے وفادار تھے...صریح زیادتی ہے جو تعصب کی آغوش میں پروان چڑھی ہے، اللہ ایسی مصیبت سے محفوظ رکھے۔ آمین۔


اللھم أرنا الحق حقا وارزقنا اتباعہ، وأرنا الباطل باطلا وارزقنا اجتنابہ۔ وصلی اللہ علی خیر خلقہ محمد وآلہ وصحبہ أجمعین۔


=============


===========================================
(۱)تاریخ عروج عہد انگلشیہ، ص:۶۷۵۔ (۲)الحیاۃ بعد المماۃ ،ص: ۷۶۔
(۳) ہندوستان کی پہلی سیاسی تحریک، ص: ۲۱۰۔

(۱) اہل حدیث دہلی ،یکم دسمبر ۱۹۶۱ء ؁۔ (۲)اہل حدیث اور سیاست، ص: ۲۵۲ ۔ ۲۶۳۔
(۳)علمائے حق کا شاندار ماضی ،ص: ۱۹۸۔

(۱)تاریخ عروج عہد انگلشیہ، ص: ۶۷۵۔ (۲) حیات النذیر، ص: ۴۸۔

(۱)تاریخ عروج عہد انگلشیہ، ص:۶۷۵۔ (۲) اسباب بغاوت ہند، ص: ۱۰۷۷۔

(۱) علمائے حق کا شاندار ماضی :۴/۱۹۷۔ (۲)ایضا: ۴/ ۲۵۲۔

(۱) تذکرہ علمائے ہند، رحمن علی، ص: ۹۳ ،وحدائق الحنفیۃ، فقیر محمدجھلمی، ص: ۴۸۱۔
ان تمام حضرات نے واضح الفاظ میں نواب صاحب کی ’’بے گناہی ‘‘کی حمایت کی ہے۔ صاحب حدائق الحنفیہ لکھتے ہیں: ’’بلکہ فنون جہاد کے اشتباہ میں چند ماہ تک نظر بند رہے، چونکہ اصل میں بے قصور تھے، آخر میں رہائی پاکر لاہور میں تشریف لائے۔‘‘ [ص: ۴۸۲]
(۲)علماء حق کا شاندار ماضی : ۴/۲۵۲۔

(۱) علمائے حق کا شاندار ماضی:۴/۱۹۴۔
(۲)ایضا۔
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,783
پوائنٹ
1,069
فہرست


نمبر شمار مضامین صفحہ نمبر

۱ حرف آغاز 7
۲ تقریظ: مولانا محمد ابو القاسم فاروقی 10
۳ گزارش احوال واقعی 14
۴ فصل اول :میاں نذیر حسین محدث دہلوی (سوانح) 19
۵ سن پیدائش 19
۶ جائے پیدائش 20
۷ نام ونسب 20
۸ تعلیم وتربیت 22
۹ طلب علم کا سفر 26
۱۰ عظیم آباد میں قیام 27
۱۱ الہ آباد سے روانگی 30
۱۲ پانچ سال کی مدت کہاں گذری؟ 33
۱۳ شادی 36
۱۴ اولاد واحفاد 36
۱۵ تدریس 37
۱۶ مدرسہ کانظام 39
۱۷ مشن 42
۱۸ تدریس کے علاوہ میاں صاحب کی سرگرمیاں 43
۱۹ میاں صاحب کا مطالعہ اور کتابوں کے حصول کا ذوق 47
۲۰ سفر حج 48
۲۱ ذریعہ معاش اور سماجی حالات 49
۲۲ وفات 50
۲۳ فصل دوم: حضرت میاں نذیر حسین محدث دہلوی :شاہ اسحاق سے تلمذ 51
۲۴ شاہ اسحاق اور میاں صاحب 59
۲۵ استاد کی سند 60
۲۶ میاں صاحب کا بیان 61
۲۷ دوسروں کی شہادتیں 62
۲۸ قاری عبد الرحمن پانی پتی اور ان کی روایت 63
۲۹ روایت ارواح ثلاثہ 66
۳۰ مثبتین 67
۳۱ مولانا محمد تھانوی 67
۳۲ مولانا احمد علی سہارن پوری محشی بخاری 68
۳۳ رحمان علی مؤلف تذکرہ علمائے ہند 69
۳۴ نواب صدیق حسن خان بھوپالی 70
۳۵ مولانا شمس الحق ڈیانوی 70
۳۶ سید سلیمان ندوی 71
۳۷ مولانا محمد ادریس صاحب نگرامی 72
۳۸ مولانا عبدالرحمن مبارکپوری 72
۳۹ مولانا محمدعطاء اللہ حنیف بھوجیانی 73
۴۰ ابویحیی امام خان نوشہروی 73
۴۱ مولانا عبدالحئی حسنی لکھنوی 74
۴۲ مولانا عبید اللہ سندھی 74
۴۳ بشیر احمد بن ڈپٹی نذیر احمد 74
۴۴ شیخ محمد اکرام 75
۴۵ خلیق احمد نظامی 75
۴۶ نسیم احمد امروہی 76
۴۷ فصل سوم:میاں صاحب اور انگریزوں سے وفاداری کا مسئلہ ایک جائزہ 80
۴۸ میاں صاحب اور انگریزوں سے وفاداری 80
۴۹ میاں صاحب اور انگریز 81
۵۰ بورڈ کی حیثیت 83
۵۱ میاں صاحب انگریزوں کی نظر میں 85
۵۲ وفاداری کی دلیل اور اس کا تجزیہ 90
۵۳ انعام کی حیثیت 93
۵۴ ۱۸۵۷ء ؁کا فتوی جہاد اور میاں صاحب کا دستخط 97
۵۵ مراجع 105
* اسمائے فارغین جامعہ سلفیہ بنارس (۲۰۱۶ء ؁) 107
 
Last edited by a moderator:

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,472
پوائنٹ
964
جزاکم اللہ خیرا ، محترم عامر بھائی ، بہترین کاوش فرمائی آپ نے ۔ ایک مسئلہ رہ گیا ہے ، حاشیے دیکھیں تو ان میں مختلف صفحوں کو اکٹھا کرنے کے سبب نمبرنگ ( شاید خود کار تھی ) تبدیل ہوگئی ہے ۔
خیر اس کو میں ان شاءاللہ درست کرنے کی کوشش کروں گا ۔ إن شاءاللہ ۔
 

مظاہر امیر

مشہور رکن
شمولیت
جولائی 15، 2016
پیغامات
1,426
ری ایکشن اسکور
409
پوائنٹ
190
@محمد عامریونس
یہ علوی نستعلیق ہے
Screenshot_7.jpg
یہ جمیل نوری تستعلق ہے
Screenshot_8.jpg

اگر جب سن لکھیں تو اسکو علوی نستعلیق کرلیں تو صحیح نظر آئے گا ۔ فورم کے ذمہ داران سے گذارش ہے کہ ( یہ مشورہ ہے ) فورم کے سی ایس ایس میں اگر تبدیلی کرلیں اور جہاں سن اسطرح سے لکھا ہوا ہو ، تو اسکی سپین کلاس تبدیل ہوجائے ۔
 

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,410
ری ایکشن اسکور
2,730
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
جمیل نوری نستعلیق میں یہ خامی دور کرنی چاہیئے!
 

مظاہر امیر

مشہور رکن
شمولیت
جولائی 15، 2016
پیغامات
1,426
ری ایکشن اسکور
409
پوائنٹ
190
وعليكم السلام و رحمة الله وبركاته
جی ، اگلے ورژن میں اسکو درست کرنے کا وعدہ کیا ہے انہوں نے ۔
 
Top