محمد عامر یونس
خاص رکن
- شمولیت
- اگست 11، 2013
- پیغامات
- 17,117
- ری ایکشن اسکور
- 6,800
- پوائنٹ
- 1,069
بورڈ کی حیثیت:
حقیقت یہ ہے کہ اس پورے گروہ کی سیاسی سرگرمیوں کا وجود خارج میں بالکل نظر نہیں آتا ان کا محافظ یا تو مولانا سندھی کا اختراع پسند دماغ تھا یا مولانا محمد میاں صاحب مرحوم کا ایجاد پسند قلم ہمیں تو خارج میں جو شہادتیں ملتی ہیں اس سے یہی اندازہ ہوتا ہے کہ یہ بورڈ افسانے کے سوا اور کچھ نہیں کیونکہ اس بورڈ کے صدر مولانا مملوک علی( م ۱۸۵۱ء ) نے اپنی ساری زندگی دہلی کالج سے وابستہ رہ کر گزار دی جو خالص انگریزوں کا قائم کردہ ادارہ تھا۔ ظاہر ہے کسی حکومت کے وظیفہ خوار سے یہ توقع نہیں کی جاسکتی کہ وہ حکومت کے خلاف کسی بھی تحریک کی قیادت کرسکے۔ مولانا مملوک علی کی صدارت کے مسئلہ پر نہ صرف ہم کو بلکہ خود مولانا سندھی کے ماننے والوں کو سخت اعتراض ہے، پروفیسر ایوب صاحب فرماتے ہیں: ’’ ان کی سیاسی سرگرمیوں کی تفصیل تو درکنار اشارہ بھی نہیں ملتا، ان کی زندگی تو تمام تر درس وتدریس سے عبارت رہی ہے۔ لہٰذا یہ صورت کچھ محل نظر سی معلوم ہوتی ہے۔(۱)
بورڈ کے دوسرے ممبر مولانا قطب الدین دہلوی ہیں۔ استخلاص وطن اور انگریزوں کے خلا ف جد وجہد کے سلسلے میں آپ کا کیا نقطۂ نظر تھا اس کا اندازہ درج ذیل استفتاء اور اس کے جواب سے ہوگا۔ سوال ہے:
کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین اس مسئلہ میں کہ اگر ایک ملک اسلام پر قبضہ نصاری ہوجاوے اور وہ لوگ شرائع اسلام مثل نماز، روزہ، حج وزکوٰۃ، جمعہ وجماعت وغیرہ میں کسی طرح دست انداز نہ ہوں اور مثل سلطان اسلا م کے ان سے تاب مقاومت بھی نہ رہے بلکہ مقابلہ میں خوف شان کسر اسلام ہو جیسا کہ اس وقت ہندوستان میں موجود ہے تو جہاد درست ہے یا نہیں؟
الجواب: صورت مذکورہ میں مؤمنین مستامن نصاری ہیں۔ مستامن کو جس ملک میں استئمان سے رہ رہا ہے جہاد کرنا نہیں چاہیے کہ من جملہ شروط جہاد سے عدم عہد وامان من المسلمین والکفار ہے اور نیز جہاد کے واسطے ظن غلبۂ مسلمین اور قوت وشوکت اہل اسلام کی شرط ہے۔
دستخط محمد لطف اللہ، محمد قطب الدین دہلوی، خادم شریعت
رسول اللہ قاضی ومفتی محمد سعد اللہ، محمد عالم علی(۲)
یہ فتویٰ واضح طور پر ان مجاہدین سرحد کے خلاف حاصل کیا گیا تھا جو سرحد پر جہاد کی شمع روشن کیے ہوئے تھے ،یہ وہی افراد تھے جو مولانا ولایت علی اور عنایت علی وغیرہ کی سرکردگی میں کام کررہے تھے ،ان میں وہ لوگ بھی شامل تھے جنہوں نے سید صاحب کے ساتھ مل کر علم جہاد بلند کیا تھا لیکن مولوی قطب الدین صاحب دہلوی ان تمام حضرات کے اس فعل کو بڑی صفائی کے ساتھ غیر شرعی بتلا رہے تھے اور مسلمانوں کو جہاد کے عمل سے دست بردار ہونے کا مشورہ دے رہے تھے۔ میری سمجھ میں یہ بات نہیں آتی ہے کہ شاہ اسحق رحمۃ اللہ علیہ ایسے شخص کو کیسے اپنے ہندوستانی مشن کی تکمیل کے لیے نامزد کرسکتے ہیں۔
بورڈ کے تیسرے ممبر مولانا عبدالغنی مجددی صاحب ہیں موصوف کے بارے میں قادری صاحب کا یہ بیان گزر چکا ہے کہ آپ نے اپنے استاذ کے مسلک کی اتباع کرتے ہوئے ہندوستان سے ہجرت کرکے حجاز کی سکونت اختیار کرلی۔(۱) گویا کہ بورڈ کے جتنے اراکین تھے ان تمام نے عملاً اس نظریہ اور مشن کو ترک کردیا جو شاہ اسحق رحمۃ اللہ علیہ کے پیش نظر تھا۔
اس کے برخلاف ہم دیکھتے ہیں کہ میاں صاحب دہلی میں رہ کر اپنی سیاسی سرگرمیوں کو پوری قوت سے جاری رکھتے ہیں۔ مجاہدین سرحد کی امداد میں بھی پیش پیش ہیں اور جہاد کا علم بلند کرنے والے مجاہدین اور ان کے رہنماؤں سے رابطہ میں ہیں۔ میاں صاحب کے زمانہ میں بھی دہلی کا شمار مجاہدین کے اہم امدادی مراکز میں ہوتا تھا۔
تحریک شہیدین کی امداد واعانت کاکام سب جانتے ہیں کہ انتہائی رازداری کے ساتھ ہو رہا تھا۔ تلاش وجستجو کے بعد بھی آج تک وہ طریقہ کار کما حقہ روشنی میں نہ آسکا، اس لیے ہم یہ بتانے سے قاصر ہیں کہ اس سلسلے میں میاں صاحب نے کیاکچھ کیا لیکن اتنی بات تو بالکل طے ہے کہ میاں صاحب مختلف ذرائع سے جہاد کی شمع کو روشن رکھنے کا انتظام کرتے رہے ہیں۔ اب ہم اجمال کے ساتھ میاں صاحب کی سیاسی سرگرمیوں کا تذکرہ کریں گے۔
(۱) مولانا احسن نانوتوی ،مرتبہ ایوب قادری ( تذکرہ مملوک علی نانوتوی) (۲) تاریخ صحافت اردو:۲/۳۱۰۔
(۱)تذکرہ علمائے ہند اردو، مولانا یوسف بنوری لکھتے ہیں: ثم تلا الشیخ محمد إسحق صاحبہ عبد الغني المجددي المتوفی ۱۲۹۶ ھ غیر أنہ ھاجر إلی المدینۃ فلم یکن أمدہ في الھند طویلۃ۔ (مقدمہ فیض الباری، ص: ۱۷)
حقیقت یہ ہے کہ اس پورے گروہ کی سیاسی سرگرمیوں کا وجود خارج میں بالکل نظر نہیں آتا ان کا محافظ یا تو مولانا سندھی کا اختراع پسند دماغ تھا یا مولانا محمد میاں صاحب مرحوم کا ایجاد پسند قلم ہمیں تو خارج میں جو شہادتیں ملتی ہیں اس سے یہی اندازہ ہوتا ہے کہ یہ بورڈ افسانے کے سوا اور کچھ نہیں کیونکہ اس بورڈ کے صدر مولانا مملوک علی( م ۱۸۵۱ء ) نے اپنی ساری زندگی دہلی کالج سے وابستہ رہ کر گزار دی جو خالص انگریزوں کا قائم کردہ ادارہ تھا۔ ظاہر ہے کسی حکومت کے وظیفہ خوار سے یہ توقع نہیں کی جاسکتی کہ وہ حکومت کے خلاف کسی بھی تحریک کی قیادت کرسکے۔ مولانا مملوک علی کی صدارت کے مسئلہ پر نہ صرف ہم کو بلکہ خود مولانا سندھی کے ماننے والوں کو سخت اعتراض ہے، پروفیسر ایوب صاحب فرماتے ہیں: ’’ ان کی سیاسی سرگرمیوں کی تفصیل تو درکنار اشارہ بھی نہیں ملتا، ان کی زندگی تو تمام تر درس وتدریس سے عبارت رہی ہے۔ لہٰذا یہ صورت کچھ محل نظر سی معلوم ہوتی ہے۔(۱)
بورڈ کے دوسرے ممبر مولانا قطب الدین دہلوی ہیں۔ استخلاص وطن اور انگریزوں کے خلا ف جد وجہد کے سلسلے میں آپ کا کیا نقطۂ نظر تھا اس کا اندازہ درج ذیل استفتاء اور اس کے جواب سے ہوگا۔ سوال ہے:
کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین اس مسئلہ میں کہ اگر ایک ملک اسلام پر قبضہ نصاری ہوجاوے اور وہ لوگ شرائع اسلام مثل نماز، روزہ، حج وزکوٰۃ، جمعہ وجماعت وغیرہ میں کسی طرح دست انداز نہ ہوں اور مثل سلطان اسلا م کے ان سے تاب مقاومت بھی نہ رہے بلکہ مقابلہ میں خوف شان کسر اسلام ہو جیسا کہ اس وقت ہندوستان میں موجود ہے تو جہاد درست ہے یا نہیں؟
الجواب: صورت مذکورہ میں مؤمنین مستامن نصاری ہیں۔ مستامن کو جس ملک میں استئمان سے رہ رہا ہے جہاد کرنا نہیں چاہیے کہ من جملہ شروط جہاد سے عدم عہد وامان من المسلمین والکفار ہے اور نیز جہاد کے واسطے ظن غلبۂ مسلمین اور قوت وشوکت اہل اسلام کی شرط ہے۔
دستخط محمد لطف اللہ، محمد قطب الدین دہلوی، خادم شریعت
رسول اللہ قاضی ومفتی محمد سعد اللہ، محمد عالم علی(۲)
یہ فتویٰ واضح طور پر ان مجاہدین سرحد کے خلاف حاصل کیا گیا تھا جو سرحد پر جہاد کی شمع روشن کیے ہوئے تھے ،یہ وہی افراد تھے جو مولانا ولایت علی اور عنایت علی وغیرہ کی سرکردگی میں کام کررہے تھے ،ان میں وہ لوگ بھی شامل تھے جنہوں نے سید صاحب کے ساتھ مل کر علم جہاد بلند کیا تھا لیکن مولوی قطب الدین صاحب دہلوی ان تمام حضرات کے اس فعل کو بڑی صفائی کے ساتھ غیر شرعی بتلا رہے تھے اور مسلمانوں کو جہاد کے عمل سے دست بردار ہونے کا مشورہ دے رہے تھے۔ میری سمجھ میں یہ بات نہیں آتی ہے کہ شاہ اسحق رحمۃ اللہ علیہ ایسے شخص کو کیسے اپنے ہندوستانی مشن کی تکمیل کے لیے نامزد کرسکتے ہیں۔
بورڈ کے تیسرے ممبر مولانا عبدالغنی مجددی صاحب ہیں موصوف کے بارے میں قادری صاحب کا یہ بیان گزر چکا ہے کہ آپ نے اپنے استاذ کے مسلک کی اتباع کرتے ہوئے ہندوستان سے ہجرت کرکے حجاز کی سکونت اختیار کرلی۔(۱) گویا کہ بورڈ کے جتنے اراکین تھے ان تمام نے عملاً اس نظریہ اور مشن کو ترک کردیا جو شاہ اسحق رحمۃ اللہ علیہ کے پیش نظر تھا۔
اس کے برخلاف ہم دیکھتے ہیں کہ میاں صاحب دہلی میں رہ کر اپنی سیاسی سرگرمیوں کو پوری قوت سے جاری رکھتے ہیں۔ مجاہدین سرحد کی امداد میں بھی پیش پیش ہیں اور جہاد کا علم بلند کرنے والے مجاہدین اور ان کے رہنماؤں سے رابطہ میں ہیں۔ میاں صاحب کے زمانہ میں بھی دہلی کا شمار مجاہدین کے اہم امدادی مراکز میں ہوتا تھا۔
تحریک شہیدین کی امداد واعانت کاکام سب جانتے ہیں کہ انتہائی رازداری کے ساتھ ہو رہا تھا۔ تلاش وجستجو کے بعد بھی آج تک وہ طریقہ کار کما حقہ روشنی میں نہ آسکا، اس لیے ہم یہ بتانے سے قاصر ہیں کہ اس سلسلے میں میاں صاحب نے کیاکچھ کیا لیکن اتنی بات تو بالکل طے ہے کہ میاں صاحب مختلف ذرائع سے جہاد کی شمع کو روشن رکھنے کا انتظام کرتے رہے ہیں۔ اب ہم اجمال کے ساتھ میاں صاحب کی سیاسی سرگرمیوں کا تذکرہ کریں گے۔
===========================================
(۱) مولانا احسن نانوتوی ،مرتبہ ایوب قادری ( تذکرہ مملوک علی نانوتوی) (۲) تاریخ صحافت اردو:۲/۳۱۰۔
(۱)تذکرہ علمائے ہند اردو، مولانا یوسف بنوری لکھتے ہیں: ثم تلا الشیخ محمد إسحق صاحبہ عبد الغني المجددي المتوفی ۱۲۹۶ ھ غیر أنہ ھاجر إلی المدینۃ فلم یکن أمدہ في الھند طویلۃ۔ (مقدمہ فیض الباری، ص: ۱۷)