محترم متلاشی بھائی محترم عامر بھائی نے مطلقا مندرجہ ذیل بات کہی تھی
نماز پڑھنے والوں پر حملہ کیا کوئی مسلمان کر سکتا ہے
آپ سے پہلا سوال
کیا اس اوپر جملے کے مفہوم مخالف سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ جو بھی نمازیوں پر حملہ کرے گا بغیر کوئی وجہ دیکھے اسکی تکفیر کی جانی چاہیے
اب جب یہ ثابت ہو گیا کہ یہ جملہ غلط تھا تو اسی پر میں نے اصلاح کی کوشش کی تھی جو محترم عامر بھائی نے غالبا مان بھی لی ہے آپ ان سے پوچھ سکتے ہیں آپ باقی بھائیو سے بھی پوچھ سکتے ہیں اللہ آپ کو جزا دے
آپ سے دوسرا سوال
اب اس بات کی اصلاح میں کیسے کرتا اس کے لئے مندرجہ ذیل طریقہ کے علاوہ کوئی طریقہ میرے خیال میں نہیں تھا
1-پہلے اس عمل کو غلط کہتے ہوئے جہاد کے لئے نقصان دہ کہتا
2-اس کے مطلق اطلاق کا رد کرتا
3-مطلق اطلاق کے رد کے لئے مجھے کچھ ایسی باتیں بتانی پڑتی جن پر ان کا اطلاق نہیں ہوتا جیسے پاکستان کی فوج کا نمازیوں کو مارنا
اب محترم بھائی آپ بتائیں میں نے کون سی بات اوپر طریقے کے خلاف کی ہے البتہ اگر میرے پہلے سوال پر ہی آپ کو اعتراض ہے تو پھر میری ساری بات قابل اعتراض ہو سکتی ہے
جہاں تک یہ معاملہ کہ پاکستان کی فوج نے جائز وجہ سے نمازیوں کو مارا ہے اور انھوں نے ناجائز وجہ سے مارا ہے تو ایسی تو اوپر کوئی بحث ہی نہیں ہوئی-بلکہ میں یہی تو عامر بھائی کو کہنا چاہ رہا ہوں کہ مطلقا ایسی بات نہ کرو بلکہ کہو کہ کبھی ناگزیر صورت میں تو مسجد میں نمازیوں پر حملہ کیا جا سکتا ہے مگر بغیر جائز وجہ کے نمازیوں پر حملہ کرنا غلط ہے
آپ ذرا میری پوسٹ دوبارہ نیچے دیکھ لیں اللہ آپ کا اور میرا حامی و ناصر ہو امین