بسمہ اللہ الرحمن الرحیم
میری کہانی، میری زبانی
اللہ رب العالمین کے مجھ پر ان گنت اور لاتعداد احسانات ہیں جن میں سے ایک بہت عظیم احسان راہ حق کی جانب راہنمائی اور اس پر استقامت ہے۔ کائنات کے رب کے احسانات کا کماحقہ شکر اداکرنامجھ سمیت کسی بھی مخلوق کے بس کی بات نہیں۔باطل سے حق کی طرف میرے سفرکی یہ کہانی میں آپ لوگوں کے گوش گزار اس لئے کرنا چاہتا ہوں تاکہ اللہ رب العالمین کی اس عظیم نعمت کا بطوراحسان اظہار کروں اور حسب استطاعت شکر اداکروں۔
میں نے ایک بریلوی گھرانے میں آنکھ کھولی ۔جہاں بریلویت صرف غیراللہ کی نذر و نیاز تک ہی محدود تھی۔بریلوی مذہب کی دیگر بدعات جیسے کونڈے، شب براء ت کے خود ساختہ اعمال اور مزارات پر حاضری وغیرہ سے ہمارا گھر کافی حد تک محفوظ رہا۔ سوائے میرے والد محترم کے کہ وہ آج تک نہایت متشدد صوفی ہیں۔اللہ انہیں ہدایت دے۔آمین یا رب العالمین
دین و مذہب کے نام پر جو کچھ اپنے گھر اور اطراف میں دیکھافطری طور پر میں نے اسے اسلام سمجھ کرقبول کرلیا۔مجھے یاد ہے کہ ایک دو مرتبہ میں نے بعد نما ز جمعہ بریلویوں کا خود ساختہ صلوۃ وسلام بھی پڑھا۔اللہ کے فضل و کرم سے بچپن ہی سے میرا ذہنی رجحان مذہب کی طرف رہا۔اکثر میں یہ سوچتا تھا کہ اصل زندگی وہی ہے جو اللہ کی رضا میں گزر جائے باقی دنیا کے پیچھے بھاگنا بے کار ہے۔ میری سوچ تو مذہبی تھی لیکن عملی طور پر میں مذہبی نہیں تھا۔پچپن میں کچھ عرصہ نمازی رہا لیکن بعد میں نمازیں بھی چھوٹ گئیں۔وقت گزرتا رہا جب میں آٹھویں جماعت میں تھا تو ایک خاتون سے انکے گھر پر ٹیوشن پڑھتا تھا۔ وہ یونیورسٹی کی طالبہ اور مذہب سے محبت رکھنے والی خاتون تھیں ویسے تو وہ اکثر مجھے دین کی باتیں سمجھاتی تھیں لیکن ایک بات انہوں نے مجھے ایسی بتائی جو میرے ذہن سے چپک کر رہ گئی اگرچہ اس وقت میں اسکے مفہوم کو بھی درست طریقے سے نہیں سمجھ سکا تھا کیونکہ اس وقت میں نہ تو کسی فرقے کو جانتا تھا نہ ہی مسلمانوں کے درمیان مجھے کسی اختلاف کا علم تھا۔حیرت ہے کہ دیگر باتوں میں سے تو مجھے کوئی بات بھی یاد نہیں رہی اور اس ایک بات کو بھی میں نے دانستہ یاد رکھنے کی کوشش نہیں کی لیکن نجانے کیوں مجھے وہ بات ہمیشہ یاد رہی۔ وہ بات یہ تھی کہ اسلام میں تقلید شخصی منع ہے۔میری زندگی کا یہ وہ قیمتی جملہ ہے جو بڑی حد تک حق کی قبولیت میں میرا معاون ثابت ہوا۔
اکیس برس کی عمر میں جب میں نے اپنی پیشہ وارانہ زندگی کا آغاز کیا تو ایک مرتبہ دوران سفر میں نے ایک شخص کو ایک کتاب پڑھتے ہوئے دیکھا چونکہ مطالعے کے شوق کی وجہ سے مجھے کتابیں متاثر کرتی تھیں اور وہ شخص بھی میرے برابر میں بیٹھا ہوا محو مطالعہ تھا اس لئے میں نے بھی چند صفحات پڑھے اس کتاب نے مجھے بہت متاثر کیا۔یہ جاننے کے لئے کہ کتاب کا نام کیا ہے میں نے اس شخص سے سرورق دکھانے کی درخواست کی اور پھر بازار سے وہ کتاب خرید لی۔وہ کتاب تھی مولانا محمد یوسف لدھیانوی کی مشہور زمانہ تصنیف اختلاف امت اور صراط مستقیم۔چونکہ میں اس وقت تک بریلوی تھا اس لئے میں نے خصوصی طور پر کتاب سے صرف وہ حصہ پڑھا جو بریلویوں سے متعلق اور انکے رد میں تھا۔جب میں نے دیکھا کہ مولانا نے قرآن وحدیث کے دلائل سے بریلوی مسلک کا غلط ہونا ثابت کیاہے تو میں نے فی الفور بریلوی مسلک چھوڑ کر دیوبندی مسلک اختیار کر لیا اور اسی کو حق سمجھنے لگا۔
بس پھر کیا تھا محلے میں بریلویت کی تردید میں بحث و مباحثہ کا آغاز ہوگیا اور میری اصلاح سے مایوس ہوکر محلے کے ایک بریلوی حضرت نے میرے بائیکاٹ کا اعلان کردیااور دیگر لوگوں کو منع کردیا کہ شاہد کے ساتھ سلام دعا نہ کریں اور نہ ہی اس کے ساتھ اٹھیں بیٹھیں۔میرے والد نے بھی مجھے سمجھانے کی بہت کوشش کی کہ مذہبی مسئلہ پر کسی سے بلاوجہ مخالفت مول نہ لو۔آہستہ آہستہ وہ جذبات سرد پڑ گئے اس کی وجہ یہ تھی کہ مجھے چاروں طرف سے سخت مخالفت کا سامنا تھا لیکن میراحامی و ہم مسلک کوئی نہیں تھا۔ میں نے ارد گرد بہت کوشش کی کہ کوئی ہم مسلک ڈھونڈ لو وگرنہ مجھے ڈر تھا کہ میں دین داری سے ہاتھ دھو بیٹھوں گا۔ اور پھر ایسا ہی ہوا نہ تو کوئی مجھے میرا ہم خیال ساتھی ملا اور نہ میں اپنی نمازوں اور دین کی دیگر دوسری باتوں پر ثابت قدم رہ سکا۔نمازیں بھی چھوٹ گئیں اور جو ایک مشت داڑھی رکھی تھی اسے بھی اپنے ہاتھوں سے صاف کرلیا۔پھر نام کے دیوبندی اور کام کے دنیا دار رہ گئے۔ عجیب بات ہے کہ میں جب دیوبندی تھا اور کوئی شخص مجھ سے میرا مسلک دریافت کرتا تھا تو مجھے ہمیشہ خود کو دیوبندی کہنے میں بہت شرم آتی تھی کیونکہ یہ نام مجھے مسلمانوں کا کم او ر ہندوؤں کا زیاد ہ لگتا تھا۔
اس دنیا داری نے ایسی مت ماری کہ میں حددرجہ پستی میں گر گیا۔اتنا کہ جب ہوش آیا تو میں حیران رہ گیا۔ضمیر نے جھنجھوڑا کہ ایسی زندگی کا کیا فائد ہ کہ دنیا میں بھی ذلت اور رسوائی اور آخرت میں بھی حسرت اور ناکامی۔پھر اپنے رب کی توفیق سے اسکی جانب رجوع کیا۔اختلاف امت اور صراط مستقیم جو اس عرصے میں گھر سے لاپتا ہوگئی تھی کیونکہ میں نے اس کی حفاظت پر کوئی توجہ نہیں دی تھی اس لئے کہ اپنے مطلب کا حصہ پڑھ کر میں نے کتاب کو چھوڑ دیا تھا۔چار،پانچ سال بعد میں نے وہ کتاب اپنے پڑوسی کے پاس دیکھی تو یہ کہکر کہ یہ میری کتاب ہے واپس لے لی۔اب میں نے اس کتاب کا ازسر نو مطالعہ شروع کیااور اب وہ حصے بھی پڑھے جو پہلے چھوڑ دئے تھے۔جب میں نے شیعہ سنی اختلاف ، بریلوی دیوبندی اختلاف اور مودودی کے رد والا حصہ پڑھا تو مولانا کے خیالات سے متفق ہوگیا کہ واقعی یہ تمام گمراہ فرقے ہیں کیونکہ دین میں ان تمام لوگوں کے اختلافات کو مولانا نے معقول دلائل سے ر د کیا تھا۔لیکن جب میں نے اہل حدیث کے رد والا حصہ پڑھا تو میرا دل مطمئن نہیں ہوااور شدت سے کسی کمی کا احساس ہوا۔خاص طور پر میں نے یہ نوٹ کیا کہ دوسرے فرقوں کا رد کرتے ہوئے تو مولانا نے قرآن وحدیث سے دلائل پیش کئے ہیں لیکن اہل حدیث کے رد میں کوئی حدیث یا قرآنی آیت پیش نہیں کی ۔تقلید کو سمجھانے کے لئے ڈاکٹر اور مریض کی ایک مثال پیش کی اور آخر میں یہ کہہ کر بحث ختم کردی کہ تقلید کے موضوع پر چونکہ دونوں اطراف سے بہت کتابیں لکھی جا چکی ہیں اس لئے میں تفصیل بیا ن نہیں کرونگا۔
بس یہی وہ مقام تھا جہاں میں نے تقلید کے موضوع پر دونوں اطراف کی کتابیں پڑھنے کا فیصلہ کیا۔اس سلسلہ کی پہلی کتاب میں نے عبداللہ ناصر رحمانی حفظہ اللہ کی ’’ہم تقلید کی مخالفت کیوں کرتے ہیں؟‘‘ پڑھی۔اس کتاب کو پڑھنے کے بعد میرے دل نے گواہی دی کہ ترک تقلیدہی حق ہے۔حالانکہ بعد میں تقی عثمانی دیوبندی کی تقلید کی شرعی حیثیت بھی پڑھی لیکن تقلید کے بارے میں احناف کے کمزور موقف نے بالکل بھی متاثر نہیں کیا۔
یوسف لدھیانوی صاحب کی کتاب میں ایک حدیث تہتر فرقوں سے متعلق بھی پڑھی تھی جس میں بہتر کے جہنم اورایک فرقے کے جنت میں جانے کی خبر تھی۔اسی دن سے میں نے یہ فیصلہ کر لیا کہ میں اس وقت تک تحقیق کا سلسلہ جاری رکھوں گا جب تک میں یہ نہ جان لوں کہ جنت میں جانے والا فرقہ کون سا ہے؟ میرے وہم وگمان میں بھی یہ بات نہیں تھی کہ اہل حدیث بھی کسی مسئلہ میں حق پر ہوسکتے ہیں کیونکہ لڑکپن ہی سے میں اہل حدیث کوان کے دو مسائل کی بنا پر گمراہ جانتا تھا ۔پہلا مسئلہ ایک مجلس کی تین طلاق کو ایک سمجھنا اور دوسرا مسئلہ یزید کو رحمتہ اللہ علیہ کہنا۔
مجھے اہل حدیث کا کوئی تعارف حاصل نہیں تھا لیکن معلوم نہیں کہاں سے ان کے مذکورہ بالا دو مسائل کان میں پڑ گئے تھے۔ بہرحال میں نے جان لیا کہ کم ازکم تقلید کے مسئلہ پر حق اہل حدیث کی جانب ہے لیکن اس تحقیق پر مجھے دھچکہ لگا ۔کیونکہ دیوبندی مسلک کو میں نے محدود تحقیق اور بریلویوں کے بالمقابل حق پر ہونے کی بنا پر قبول کیا تھا۔اس لئے فطری طور پر مجھے اس مسلک سے محبت تھی اور میں اسے چھوڑنے کی خواہش نہیں رکھتا تھا۔لیکن جنتی فرقے کے بارے میں جاننے کے شوق کی وجہ سے تحقیق بھی جاری و ساری رکھنی تھی ۔اس لئے میں نے دونوں اطراف کی اختلافی مسائل پر لکھی گئی کتابیں پڑھنے کے ساتھ آڈیو تقاریر سننے کا بھی آغاز کیا۔
تقلید کو جاننے کے بعد پھر مجھے یہ بھی معلوم ہوگیاکہ امام کے پیچھے سورہ فاتحہ نہ پڑھنے والے کی نماز نہیں ہوتی۔جب میں نے فاتحہ خلف الامام کا آغاز کیا تو میں بے انتہاء مشقت میں پڑگیا کیونکہ بریلوی اور دیوبندی امام کی اسپیڈ نماز پڑھاتے وقت اتنی زیادہ ہوتی تھی کہ انتہائی مشکل سے میں ان کے پیچھے سورہ فاتحہ مکمل کر پاتا تھا ۔ میں عجیب مشکل کا شکار تھا کہ اگر سورہ فاتحہ پڑھتا تو رکعت رہ جانے کا ڈر اور اگر سورہ فاتحہ نہ پڑھتا تو نماز نہ ہونے کا ڈرپھر با جماعت نماز بھی بہت ضروری تھی۔اس کے ساتھ ایک مسئلہ یہ بھی تھا کہ جب بھی نماز ختم ہوتی کوئی نہ کوئی نمازی مجھے روک لیتا کہ آپ نے امام کے پیچھے سورہ فاتحہ کیوں پڑھی ؟ یہ تو منع ہے۔پھر وہ مجھے امام سے بھی ملوانے کی کوشش کرتے کہ ا ن سے پوچھ لو کہ جب امام نماز پڑھا رہا ہو تو اس کے پیچھے فاتحہ نہیں پڑھنی چاہیے۔میری عادت تھی کہ جہاں بھی نماز کا وقت ہوجاتا میں وہیں باجماعت نماز ادا کر لیتا تھا حتی کہ دوران سفر جب اذان کی آواز سنتا توبس سے اتر کر قریب ترین مسجد میں یہ دیکھے بغیر کہ یہ بریلوی مسجد ہے یا دیوبندی مسجد نماز پڑھ لیتا تھا۔اسی لئے باربار بعد نماز کسی نہ کسی کے روک لینے اور مجھے سمجھانے کی کوشش کی وجہ سے میں بہت کوفت میں مبتلا ہوگیا تھا۔
ان مسائل کے ساتھ ایک نئی آفت یہ آپڑی تھی کہ میرے آفس کے ساتھی جو قریب قریب سب ہی دیوبندی تھے میر ے تبدیل ہوتے خیالات اور بدلتے نظریات سے میری اصلاح کی فکر میں مبتلا ہوگئے تھے اور اپنی بلا دلیل باتوں اور نصیحتوں سے ہی مجھے ''راہ راست'' پر لانے کی کوشش کررہے تھے اور میرے دل میں جو شبہات اور اشکالات تھے نہ تو انہیں اس سے کوئی دلچسپی تھی اور نہ ہی انکے ازالے کے لئے انکے پاس دلائل تھے۔مجھے نصیحت کرنے ،سمجھانے یاقائل کرنے کے لئے انکے اکثر جملے یہی ہوتے تھے کہ دیکھو تم غلط راہ پر جارہے ہوسیدھی راہ پر واپس آجاؤ یا انسان کو اپنا مسلک،اپنا طریقہ نہیں چھوڑنا چاہیے یا دنیا بھر میں مسلمانوں کی اکثریت امام ابوحنیفہ کی پیروی کرتی ہے اتنے سارے لوگ کیسے غلط ہوسکتے ہیں جبکہ ان میں علماء بھی موجود ہیں وغیرہ وغیرہ اور ان سب باتوں اور نصیحتوں کے جواب میں میرے پاس صرف ایک ہی سوال ہوتا تھا کہ ''دلیل کیا ہے؟''
سچ تو یہ ہے کہ مجھے اپنے دور حنفیت میں دیوبندیوں اور بریلویوں میں کوئی فرق محسوس نہیں ہوا۔بس میر ا خیال تھا کہ وہی چند مسائل جن کا ذکر یوسف لدھیانوی نے اپنی کتا ب میں کیا ہے اس کے علاوہ دیوبندیوں اور بریلویوں میں کوئی اختلاف نہیں لیکن بعد میں مجھے پتا چلا کہ ان چیزوں میں بھی کلی اختلاف نہیں بلکہ جزوی اختلاف ہے۔ جیسے غیر اللہ کی نذر و نیاز جو بریلوی حضرات کرتے ہیں دیوبندی اسے غلط بلکہ حرام کہتے ہیں لیکن اسے کھانے میں کوئی حرج نہیں سمجھتے یہ کہہ کر کہ یہ تواللہ کا رزق ہے اسے کھا لینا چاہیے۔ حالانکہ جو چیز غیر اللہ کی نذر کرنے کی وجہ سے حرام ہے وہ کھانے میں حرام کیوں نہیں؟ اسی سبب دیوبندی حضرات بریلویوں کی ان محافل میں جو غیر اللہ کی نذر و نیاز پر قائم ہوتی ہیں بڑے ذوق شوق سے شرکت کرتے اور کھاتے پیتے ہیں جیسے کونڈے،محرم کی حلیم، شب براء ت کے حلوے اور عام روزمرہ کی نذر و نیاز وغیرہ۔ اسی طرح میلاد کا مسئلہ ہے جسے دیوبندی بدعت کہتے ہیں لیکن کچھ شرائط جیسے محفل میلاد میں قیام نہ کیا جائے کے ساتھ وہ بھی ان کے ہاں جائز ہے۔وغیرہ وغیرہ
بدتدریج مجھے یہ بھی علم ہوا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز رفع الیدین والی تھی۔ جب میں نے باقاعدہ رفع الیدین کا آغاز کیا تو جو بات چھپی ہوئی تھی وہ سامنے آگئی۔میرے دوستوں اور دفتر والوں کو یہ بات معلوم ہوگئی کہ دیوبندی مسلک سے کسی دوسرے مسلک کی طرف اس کا سفر شروع ہوگیا ہے۔حالانکہ اس وقت تک بھی میں دیوبندی ہی تھا ۔بس میں یہ سمجھتا تھا کہ ان دو تین مسائل میں دیوبندی مسلک درست نہیں باقی سب ٹھیک ہے۔میں حقیقت میں دیوبندی مسلک چھوڑنا نہیں چاہتا تھا اور نہ ہی اہل حدیث مسلک اختیار کرنا چاہتا تھا۔ مجھے یقین تھا کہ دوران تحقیق اہل حدیث کا کوئی ایسا مسئلہ یقیناًسامنے آئے گا جس سے اس فرقے کی گمراہی کا مجھے یقین ہوجائے گا اور میں اس ناپسندیدہ مسلک سے بچ جاؤں گا۔ لیکن تحقیق کا ہر دن ایک نئی مشکل اور پریشانی لے کر آتا تھا میں جو مسئلہ اٹھاتا اس میں اہل حدیث کو حق پر اور دیوبندی کو باطل پر پاتا ۔میں اس چیز پر بھی حیران تھا کہ یہاں تو ہر مسئلے پر اختلاف ہے میں جن مسائل کو متفق علیہ سمجھتا تھا وہ بھی اختلافی نکلے اور انہیں مجھے ورطہ حیرت میں ڈال دیا جیسے مجھے تو یہ معلوم تھا کہ ’’اللہ ہر جگہ ہے‘‘ یہ بات بچپن ہی سے دل ودماغ میں بیٹھی ہوئی تھی ۔جب مجھے یہ معلو م ہوا کہ اللہ عرش پر مستوی ہے تو اس مسئلہ کی وجہ سے میں کئی دن پریشانی میں مبتلا رہا۔بہرحال اس چیز کو قبول کرنا پڑا جو حق تھی کیونکہ میں حق کو تلاش کررہاتھا چاہے وہ مجھے اپنے پسندیدہ فرقے میں ملتی یا ناپسندیدہ فرقے میں۔اہل حدیث کی کوئی کمزوری اور گمراہی ہاتھ آنے کی امید اور دیوبندیت کے حق پر ہونے کی دلیل پانے کی امید کمزور سے کمزورتر ہوتی جارہی تھی۔
پھر وہ دن آیا جب میں دوراہے پر کھڑا تھا اور کوئی فیصلہ نہیں کر پارہا تھا کہ میں سابقہ دیوبندی مسلک پر قائم رہوں جو کہ مجھے پسند تھا ۔لیکن میرا ضمیر یہ گوارا کرنے پر تیار نہیں تھا کیونکہ کسی ایک مسئلہ پر بھی میں نے دیوبندی مسلک کو حق پر نہیں پایا تھا۔ یا اہل حدیث مسلک کو اختیار کروں جو ہر معاملے اور ہر مسئلہ پر حق ثابت ہوا۔ لیکن ایک ایسا مسلک جو میرے اطراف میں غیرمعروف اور کافی حد تک عجیب تھا کو اختیار کرنے کی میں خود میں ہمت نہیں پارہا تھا۔ اس مقام پر مجھے خواہش ہوئی کہ میں اپنے پرانے بے دینی کے دور کی طرف پلٹ جاؤں جہاں ایسی کوئی پریشانی نہیں تھی بلکہ سب اچھا تھا سب صحیح تھا۔جب میں نے خود کو مجبور ،بے بس اور فیصلہ کرنے کے قابل نہ پایا تو اللہ رب العالمین سے دعا کہ جو مسلک تیرے نزدیک حق ہے اس کی طرف میرے دل کو پھیر دے۔ مایوسی اور پریشانی کے بادل چھٹ گئے او ر میرے رب نے مجھ پر بہت زیادہ رحم کرتے ہوئے میرے دل کو اہل حدیث مسلک کی طرف مائل کردیا۔الحمداللہ ثم الحمداللہ
میں اپنی اکثر نمازیں گھر سے قریب بریلویوں کی مسجد میں ادا کرتا تھا ۔جب مجھے علم ہوا کہ فرض نماز کے بعد اجتماعی دعا بدعت ہے تو میں نے اسے ترک کردیا۔ اب ہوتا یہ تھا کہ جیسے ہی نماز ختم ہوتی امام صاحب مقتدیوں سمیت اجتماعی دعا شروع کردیتے اور میں صف میں خاموشی سے بیٹھا رہتا ۔صف سے فوراً نکلنا اس لئے ممکن نہیں ہوتا تھا کہ پیچھے وہ نمازی اپنی نماز مکمل کررہے ہوتے تھے جن کی کچھ رکعات رہ گئی ہوتی تھیں۔اس بات کو ان بریلوی امام صاحب نے جلد ہی نوٹ کرلیا کہ میں اجتماعی دعا میں شریک نہیں ہوتا ۔ انہوں نے براہ راست تو مجھے کچھ نہیں کہا لیکن گاہے بگاہے نماز کے بعد درس میں کہنے لگے کہ میں اس بات کو برداشت نہیں کرسکتا کہ سب لوگ دعا میں شریک ہوں اور ایک شخص یوں ہی بیٹھا رہے۔ ارے دعا تو ایک عبادت ہے آخر دعا میں شریک ہونے میں حرج ہی کیا ہے؟ دعا سے محروم رہنا تو بدنصیبی ہے۔ پھر کسی نے ان امام صاحب کو جماعت میں سورہ فاتحہ پڑھنے کی بھی خبر کردی ۔جس پر انہوں نے کہا ۔امام کے پیچھے سورہ فاتحہ پڑھنے میں کون سا کمال ہے یہ تو سب کو آتی ہے۔ارے اگر اتنا ہی قرآن آتا ہے تو سورہ فاتحہ کے بعدمیں جو سورتیں پڑھتا ہوں وہ پڑھو تو جانوں۔ ابھی یہ مسائل چل رہے تھے کہ میرے علم میں اضافہ ہوا کہ جمعہ کے دن خطبہ شروع ہونے سے پہلے حسب استطاعت نوافل پڑھنے چاہیے۔جب جمعہ آیا اور میں مسجد میں آیا تو امام صاحب تقریر کر رہے تھے کیونکہ ہم خطبہ اسی کو سمجھتے تھے جو تقریر کے بعد احناف عربی میں پڑھتے ہیں اس لئے میں نے تقریر سننے کے بجائے نوافل پڑھنا شروع کردئے۔امام صاحب نے جب یہ صورتحال دیکھی تو اپنی تقریر تو بھول گئے اور فرمانے لگے کہ نوافل تو کسی بھی وقت ادا کئے جاسکتے ہیں اس وقت تو ضروری تھا کہ تقریر سنتے۔ بس ان امام صاحب کے کان کھڑے ہوگئے انہیں لگا کہ میں مسجد میں فتنہ پھیلانے آتا ہوں لہذا انھوں نے مجھے نشانے پر رکھ لیا۔جب یہ معاملات شروع ہوئے تو میں قریب قریب مسلک اہل حدیث کو اختیار کر چکا تھا ۔لہذا کچھ کوشش کے بعد علاقے ہی میں اہل حدیث مسجد ڈھونڈ لی۔
میرے اندر پیدا ہونی والی تبدیلیوں میں پہلی تبدیلی تقلید سے بے زاری کی تھی ،دوسری اہم تبدیلی فا تحہ خلف الامام کی تھی،تیسری تبدیلی بریلویوں اور دیوبندیوں کے پیچھے نماز نہ پڑھنے کی اورچوتھی تبدیلی رفع الیدین کرنے کی تھی۔ میرے آفس کے ساتھیوں میں ایک ساتھی میری والد کی عمر کے تھے جو مجھ سے بہت قریب اور بے تکلف تھے ۔مجھے مسلک اہل حدیث سے متاثرہونے سے بچانے میں سب سے زیادہ کوششیں انہیں کی تھیں ۔ جب انہوں نے پہلی مرتبہ مجھے رفع الیدین کرتے ہوئے دیکھا تو کہا: میں دیکھ رہا ہوں کہ تمہاری خباثت میں دن بہ دن اضافہ ہوتا جارہا ہے''۔ جب انہوں نے یقین کرلیا کہ میں انکی باتوں سے قائل ہوکر دیوبندی مسلک میں واپس نہیں آؤنگا تو انہوں نے اس کی ترکیب یہ نکالی کہ ایک تبلیغی جماعت کے سرگرم کارکن (جو انکے بڑے بھائی تھے اور جو انکے نزدیک دین کی بہت زیادہ معلومات رکھتے تھے) سے میری نشست رکھوائی جائے۔ میں نے تو اس نشست کے لئے حامی بھرلی لیکن جب انہوں نے اس سلسلے میں اپنے بھائی سے بات کی تو انہوں نے کہا کہ اگر وہ لڑکا اہل حدیث ہوگیا ہے تو اس سے بات کرنا بے کار ہے کیونکہ اہل حدیث ہٹ دھرم ہوتے ہیں کسی کی بات نہیں مانتے۔اس طرح افہام وتفہیم کی وہ متوقع نشست منسوخ ہوگئی۔ اس کے بعد جب بھی وہ بحث و مباحثہ کے دوران لاجواب ہوتے تھے تو کہتے تھے کہ میرے بھائی نے تو پہلے ہی بتادیا تھا کہ اہل حدیثوں سے بحث کرنا بے کار ہے یہ لوگ کسی کی بات نہیں مانتے۔ او ر میں کہتا تھا کہ ہاں بلا دلیل بات نہیں مانتے۔
میں جب دیوبندیت سے متنفر ہورہا تھا تو ہمارے دفتر ہی کے ایک ساتھی نے اپنے محلے کے ایک شخص سے مجھے ملوایا تاکہ بقول انکے میں راہ راست پر آجاؤں اور اہل حدیثیت کی گمراہی میں نہ پڑوں ۔ وہ صاحب پھل فروش تھے لیکن مناظروں ، مجادلوں اور مناقشوں کے ازحد شوقین، بچپن میں انھوں نے کچھ عرصہ مدرسہ میں تعلیم حاصل کی تھی جس کی وجہ سے عربی جانتے تھے ۔امین اوکاڑوی سے حد درجہ متاثر تھے بلکہ اوکاڑوی صاحب کو اپنا روحانی استاد گردانتے تھے اور اپنے روحانی استاد ہی کی طرح بداخلاق ،جھوٹے اور مغالطہ بازتھے ۔پہلے تو انھوں نے مجھ سے میرے اشکالات پوچھے ۔ میں نے جب فقہ حنفی کے کچھ مسائل پیش کیے تو ہردیوبندی کے محبوب مشغلے کی طرح انہوں نے بھی ارشادفرمایا کہ اہل حدیثوں نے فقہ حنفی کی عبارات کا صحیح ترجمہ نہیں کیا اور عبارتوں کو سیاق و سباق سے کاٹ کر پیش کیا ہے۔اور اسکا مطلب یہ نہیں ،یہ ہے۔یعنی محض تاویلات کے ذریعے اپنے مسائل کو صحیح بارور کروانے کی ناکام کوشش کی۔اور تاویلات بھی ایسی کہ کسی سلیم الفطرت شخص کا دل انہیں قبول نہ کرے۔ظاہر ہے میں ان سے مناظرہ یا مباحثہ کرنے نہیں بلکہ حق جاننے آیا تھا اس لئے انکے حنفی مسائل کے دفاعی رویے نے مجھے بہت مایوس کیا۔جب ان سے میری دو تین ملاقاتیں ہوئیں اور میں انکے جارحانہ دلائل سے بالکل بھی مطمئن نہیں ہوااور وہ بھی اس نتیجہ پر پہنچ گئے کہ یہ واپس دیوبندی مذہب میں پلٹنے والا نہیں اور اس پر مزید وقت صرف کرنا بے کار ہے تو انہوں نے اخلاق اور ہمدردی کا لبادہ اتار کر ایک طرف رکھ دیا اور بدتمیزی اور اہل حدیث پر طعن و تشنیع پر اتر آئے۔انہوں نے مجھے اپنے متعلق بتایاکہ جب تک میں اہل حدیثوں سے نہیں ملا تھاتب تک بریلویوں سے مناظر ے کرتا تھااور مسلکی اختلاف کی بناء پر ان سے مجھے بہت نفرت تھی۔لیکن جب اہل حدیثوں سے ملاقات ہوئی اور ان سے مناظرے شروع ہوئے تو بریلویوں سے محبت ہوگئی اور نفرت اور اختلاف کا سارا رخ اہل حدیث کی جانب مڑ گیا۔کہنے لگے کہ بریلوی ہمارے بھائی ہیں ،ان میں اور ہم میں معمولی اختلاف ہے اگر یہ اختلاف برقرار بھی رہے پھر بھی وہ ہماری فقہ اورہمارے امام کا دفاع کرنے والے ہیں اور ہماری محبتوں کے مستحق ہیں۔لیکن اہل حدیثوں سے کسی صورت اتحاد ممکن نہیں،اصل توانیاں تو انہیں اہل حدیثوں کی تردید میں خرچ ہونی چاہیں ۔دیوبندیوں کے ایک حق کے متلاشی شخص کے ساتھ اس طرح کے رویے نے مجھے دال میں کچھ کالا ہونے کا احساس دلا دیا تھا۔اس لئے میں نے تحقیق جاری رکھنے کا فیصلہ کیا۔ یہ سچ ہے کہ انسان ایک مرتبہ تعصب سے بالاتر ہوکر تحقیق کے میدان میں اتر پڑے تو باطل پرستوں کے مغالطے ، جھوٹ اور فریب زیادہ دیرتک اس سے اصل حقیقت کو پوشیدہ نہیں رکھ سکتے۔ اور میرا بھی وہ وقت آن پہنچا تھاجہاں دیوبندیوں کے اپنے باطل مذہب پر قائم رہنے اور دوسروں کو قائم رکھنے کی بے جا ضد اور مختلف ہتھکنڈوں کے ذریعے سادہ لوح اور ناواقف لوگوں کو راہ حق سے روکنے کی کوششوں نے مجھے میری اصل منزل کے اورزیادہ قریب کردیا تھا۔ اور بالآخرمیں نے بعد تحقیق کے مسلک اہل حدیث کی حقانیت کو دل وجان سے تسلیم کرلیا تھا۔چونکہ تحقیق نہ کرنے کے سبب میں پہلے ہی دیوبندی مذہب کو صراط مستقیم سمجھنے کی زبردست غلطی میں مبتلاء ہوچکا تھا اس لئے میں نے اس غلطی کو آئندہ نہ دھرانے کا عزم کرتے ہوئے اہل حدیث ہونے کے باوجود کبھی بھی تحقیق کو نہیں چھوڑا اور ہر گزرتے دن کے ساتھ میرا یہ یقین پختہ سے پختہ ہوتا چلا گیاکہ اس روئے زمین پر مسلک اہل حدیث کے علاوہ کوئی صراط مستقیم نہیں۔
اہل حدیث مسلک کے قبول و اعلان کے بعد مجھے گھر،دفتر اوردوست احباب کی جانب سے سخت مخالفت کا سامنا کرناپڑا۔ میرے والد جو صوفی ہونے کی وجہ سے اہل حدیثوں سے شدید ترین نفرت کرتے تھے انہیں کسی طرح میرا مسلک قبول نہیں تھا بلکہ ان کا کہنا تھا کہ دیوبندی تو پھر بھی ہمیں قابل قبول ہیں لیکن اہل حدیث مسلک تو کسی طور قابل برداشت نہیں۔اہل حدیث مسلک کے بارے میں میرے والد کا کہنا تھا کہ یہ وہ یتیم مذہب ہے کہ ہمارے پچپن میں اس کے ماننے والے دور دور تک نظر نہیں آتے تھے بلکہ سنتے تھے کہ فلاں فلاں گاؤں میں ایک وہابی رہتا ہے۔ جس مسلک کوکوئی پوچھتا نہیں تھا اور جس مذہب سے مجھے سخت نفرت تھی اسے میرے بیٹے نے اختیار کرلیا۔والد سے آئے روز کے جھگڑوں اور بحث و مباحثہ نے ان کے اور میرے بیچ اختلاف اور دوریوں کی ایک مضبوط دیوار قائم کردی ۔حتی کہ میں نے بات چیت بھی ترک کردی۔وقت گزرنے کے بعد جب والد کا غصہ کچھ کم ہوا تو انہوں نے مجھے میرے مسلک کے ساتھ قبو ل کرلیا اور مجھے تنبیہ کی کہ ٹھیک ہے تم اپنے مسلک پر قائم رہو۔لیکن گھر میں کسی دوسرے کو اس کی دعوت مت دو۔میں کہاں باز آنے والا تھا ۔والد کی غیر موجودگی میں ، میں نے اپنا کام جاری رکھا اور اللہ نے میری دو بہنوں اور والدہ کو میرے ذریعے اہل حدیث بنا دیا۔الحمداللہ
جب میں اہل حدیث ہوگیا تو مجھے معلوم ہوا کہ میں جس دفتر میں جن لوگوں کے ساتھ سالہا سال سے کام کررہا ہوں ان میں ایک باپ اور بیٹا خاندانی اہل حدیث ہیں۔لیکن اس پورے عرصے میں جب میں حق کی تلاش میں سرگرداں تھا انھوں نے میری کوئی رہنمائی نہیں کی ۔بلکہ مذہب پر میں ان دونوں کو کبھی کسی سے گفتگو کرتے ہوئے نہیں دیکھا۔اپنے اہل حدیث ہونے کے بعد میں نے اس اہل حدیث بیٹے کوجس کا نام عتیق تھا اور جو میرا دوست بھی تھا بتایا کہ بھائی آپ اہل حدیث ہوں اور اہل حدیث کے یہ مسائل اور یہ خصوصیات ہیں۔ عتیق کو صرف یہ پتا تھا کہ ہم اس طرح نماز پڑھتے ہیں۔ لیکن اس طرح یعنی رفع الیدین سے نماز کیوں پڑھتے ہیں یہ علم نہیں تھا ۔اس میں ظاہر ہے ان کے والد کا بہت زیادہ قصور تھا کیونکہ ایک مرتبہ جب میری عتیق کے والد سے مذہب پر بات ہوئی تو انھوں نے فرمایا کہ اختلافی مسائل میں ہر طرف احادیث موجود ہیں جو احادیث احناف کو ملیں انھوں نے اس پر عمل کر لیا اور جو اہل حدیث کو ملیں اس پر وہ عمل کرتے ہیں مطلب کہ حنفی اور اہل حدیث دونوں عامل بالحدیث ہیں۔ان کی ان فضول اور جاہلانہ سوچ پر مجھے بہت افسوس ہوا۔میں نے دل میں سوچا کہ اگر حقیقت یہی ہوتی تو مجھے کیا ضرورت تھی کہ دیوبندیت چھوڑ کر اہل حدیث ہوتا اور اتنی مخالفتیں مول لیتا۔اللہ ان خاندانی اہل حدیثوں کو ہدایت دے کہ یہی لوگ دیوبندیوں حتی کے بریلویوں کے پیچھے بھی نماز ادا کرتے ہیں۔اور مسلک اہل حدیث کو بدنام کرنے کا باعث بنتے ہیں۔اگر ان بریلویوں اور دیوبندیوں کے پیچھے نماز ہوجاتی ہے تو اہل حدیثوں کو اپنی مساجد الگ بنانے کی ضرورت ہی کیا ہے؟
میرے حق کے سفر میں دو باتیں بہت دلچسپ ہیں اور کافی حد تک ایک دوسرے سے ملتی جلتی بھی۔
پہلی بات یہ کہ یوسف لدھیانوی صاحب نے جو کتاب یعنی اختلاف امت اور صراط مستقیم لوگوں کوحق سے دور کرنے کے لئے لکھی تھی اسی کتاب کو اللہ نے میری ہدایت کا ذریعہ بنایا۔ یعنی جس کتاب کو پڑھکر دوسرے لوگ گمراہ ہوئے اسی کتاب کو پڑھکر میں نے حق کو پایا۔
دوسری بات یہ کہ جس دور میں ،میں سخت بے راہ روی کا شکار ہوگیا تھا جس کی وجہ سے میرے گھر والے بھی اذیت میں مبتلا تھے۔اس دور میں میرے والد نے اللہ سے میری ہدایت کے لئے دعائیں کیں۔حدیث میں آتا ہے کہ بیٹے کے حق میں والد کی دعا جلدی قبول ہوتی ہے۔پس اللہ نے ان کی دعاؤ ں کو قبول کیا اور میں ہدایت پر آگیا یعنی پوری بصیرت سے سچا اور حق مسلک اہل حدیث قبول کرلیا۔میرے والد نے بارہا یہ بات کہی کہ اگر مجھے معلو م ہوتا کہ میری دعا کی قبولیت کی وجہ سے یہ مسلک اہل حدیث قبول کرلے گا۔تو میں کبھی بھی اس کی ہدایت کے لئے دعا نہیں کرتا۔
لیکن کسی کے چاہنے یا نہ چاہنے سے کیا ہوتا ہے۔اللہ جس کی ہدایت کا فیصلہ کرلے اسے کون گمراہ کرسکتا ہے۔ بے شک تمام تعریفیں اللہ رب العالمین کے لئے ہیں جس نے مجھ جیسے سخت گناہگار کو ہدایت دی۔جب میں سدھر گیا تو میرے سابقہ دوست بھی حیران رہ گئے اور میں بھی کہ جس راستے سے میرے رب نے مجھے پلٹا دیا ۔اس راستے سے بہت کم لوگ ہی واپس آتے ہیں کم ازکم میں نے اس راستے سے کسی کو پلٹتے ہوئے نہیں دیکھا۔ اگر اس ایک نعمت کے لئے ہی میں ساری زندگی اپنے رحیم وکریم رب کا شکر ادا کرتا رہوں تو بہت کم ہے۔الحمداللہ رب العالمین