ابوداود رح نے اس حدیث کو ۔لزوم السنۃ۔ میں ذکر کیا ہے ۔ اسے معجزہ میں شمار نہیں کرسکتے کیونکہ معجزہ خارق عادت کا نام ہے ۔
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
محترم شیخ صاحب!
مذکورہ باب میں اس سے قبل جو حدیث مبارکہ نقل کی گئی ہے اس میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک پیشین گوئی ہے شائد اسی وجہ سے اس کو زندہ معجزہ کہا گیا ہے۔
حدیث و شرح یہ ہے۔
4604- حَدَّثَنَا عَبْدُالْوَهَّابِ بْنُ نَجْدَةَ، حَدَّثَنَا أَبُو عَمْرِو بْنُ كَثِيرِ بْنِ دِينَارٍ، عَنْ حَرِيزِ بْنِ عُثْمَانَ، عَنْ عَبْدِالرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي عَوْفٍ، عَنِ الْمِقْدَامِ بْنِ مَعْدِي كَرِبَ، عَنْ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ أَنَّهُ قَالَ: < أَلا إِنِّي أُوتِيتُ الْكِتَابَ وَمِثْلَهُ مَعَهُ، أَلا يُوشِكُ رَجُلٌ شَبْعَانُ عَلَى أَرِيكَتِهِ يَقُولُ: عَلَيْكُمْ بِهَذَا الْقُرْآنِ؛ فَمَا وَجَدْتُمْ فِيهِ مِنْ حَلالٍ فَأَحِلُّوهُ، وَمَا وَجَدْتُمْ فِيهِ مِنْ حَرَامٍ فَحَرِّمُوهُ، أَلا لا يَحِلُّ لَكُمْ [لَحْمُ] الْحِمَارِ الأَهْلِيِّ، وَلا كُلُّ ذِي نَابٍ مِنَ السَّبُعِ، وَلا لُقَطَةُ مُعَاهِدٍ إِلَّا أَنْ يَسْتَغْنِيَ عَنْهَا صَاحِبُهَا، وَمَنْ نَزَلَ بِقَوْمٍ فَعَلَيْهِمْ أَنْ يَقْرُوهُ، فَإِنْ لَمْ يَقْرُوهُ فَلَهُ أَنْ يُعْقِبَهُمْ بِمِثْلِ قِرَاهُ >۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داود، (تحفۃ الأشراف: ۱۱۵۷۰)، وقد أخرجہ: ت/العلم ۱۰ (۲۶۶۴)، ق/المقدمۃ ۲ (۱۲)، حم (۴/۱۳۰) (صحیح)
۴۶۰۴- مقدام بن معد یکرب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ''سنو، مجھے کتاب (قرآن) دی گئی ہے اور اس کے ساتھ اسی کے مثل ایک اور چیز بھی (یعنی سنت)، قریب ہے کہ ایک آسودہ آدمی اپنے تخت پر ٹیک لگائے ہوئے کہے ۱؎ : اس قرآن کو لازم پکڑو، جو کچھ تم اس میں حلال پا ئو اسی کو حلال سمجھو، اور جو اس میں حرام پائو، اسی کو حرام سمجھو ، سنو! تمہارے لئے پالتو گدھے کا گوشت حلال نہیں، اور نہ کسی نوکیلے دانت والے درندے کا، اور نہ تمہارے لئے کسی ذمی کی پڑی ہوئی چیز حلال ہے سوائے اس کے کہ اس کا مالک اس سے دستبردار ہو جائے ،اور اگر کوئی کسی قوم میں قیام کرے تو ان پر اس کی ضیافت لازم ہے، اور اگر وہ اس کی ضیافت نہ کریں تو اسے حق ہے کہ وہ ان سے مہمانی کے بقدر لے لے'' ۲؎ ۔
وضاحت ۱ ؎ : یہ پیش گوئی منکرین حدیث کے سرغنہ عبداللہ چکڑالوی پر صادق آتی ہے، مولانا نورالدین کشمیری (صدر جمعیت اہل حدیث کشمیر) جب اس سے مناظرہ کرنے لاہور میں اس کے گھر پہنچے تو وہ مولانا سے انکار حدیث پر اس حال میں بحث کر رہا تھا کہ وہ اپنی چارپائی پر ٹیک لگائے ہوئے لیٹا تھا (مولانا مرحوم کا خود نوشت بیان، شائع شدہ اخبار تنظیم اہل حدیث کراچی)۔
وضاحت ۲ ؎ : ضیافت اسلامی معاشرہ میں ایک نہایت ہی نیک عمل ہے اگر میزبان مہمان کی مہمانی نہ کرے تو اس کو مہمانی کے بقدر وصول کرنا ابتداء اسلام میں تھا بعد میں اس پر عمل نہ رہا، گری پڑی چیز ذمی کی ہو یا مسلمان کی اگر اس کا مالک اس کو چھوڑ دے اور اس سے مستغنی ہوجائے تو دوسرے کو لے لینا جائز ہے، ورنہ نہیں، اس حدیث میں صاف طور پر موجود ہے کہ حدیث کو قرآن پر پیش کرنا ضروری نہیں بلکہ قرآن کی طرح حدیث بھی مستقل حجت ہے، حدیث کو قرآن پر پیش کرنے سے متعلق جو حدیث بیان کی جاتی ہے کذب محض ہے، زنادقہ نے اس کو گھڑا ہے
http://forum.mohaddis.com/threads/سنن-ابو-داود.12263/page-178#post-96525