• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

میرے نبی کا زندہ معجزہ

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
میرے نبی کا زندہ معجزہ


ابو رافع رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
''میں تم میں سے کسی کو اپنے تخت پر ٹیک لگائے ہرگز اس حال میں نہ پاؤں کہ اس کے پاس میرے احکام اور فیصلوں میں سے کوئی حکم آئے جن کا میں نے حکم دیا ہے یا جن سے روکا ہے اور وہ یہ کہے:
یہ ہم نہیں جانتے ، ہم نے تو اللہ کی کتاب میں جو کچھ پایا بس اسی کی پیروی کی ہے ''

سنن ابو داؤد
حدیث:4606
صحیح

وضاحت: یہ حدیث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے معجزات میں سے ایک زندہ معجزہ ہے، اور حدیث کی صداقت کا زندہ ثبوت ہے آج بعض منکرین حدیث ''اہل قرآن'' کے نام سے وہی کچھ کر رہے ہیں جن کی خبر رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے دی تھی.
 

جوش

مشہور رکن
شمولیت
جون 17، 2014
پیغامات
621
ری ایکشن اسکور
320
پوائنٹ
127
نعیم بھائی یہ حدیث اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ سنت پر عمل کرنا بھی ضروری ہے ۔سنت اور قرآن میں فرق کرنا غلط ہے اور یہ طریق کار راہ حق سے دوری کی علامت ہے اسی لئے امام ابوداود رح نے اس حدیث کو ۔لزوم السنۃ۔ میں ذکر کیا ہے ۔ اسے معجزہ میں شمار نہیں کرسکتے کیونکہ معجزہ خارق عادت کا نام ہے ۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
ابوداود رح نے اس حدیث کو ۔لزوم السنۃ۔ میں ذکر کیا ہے ۔ اسے معجزہ میں شمار نہیں کرسکتے کیونکہ معجزہ خارق عادت کا نام ہے ۔
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
محترم شیخ صاحب!
مذکورہ باب میں اس سے قبل جو حدیث مبارکہ نقل کی گئی ہے اس میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک پیشین گوئی ہے شائد اسی وجہ سے اس کو زندہ معجزہ کہا گیا ہے۔
حدیث و شرح یہ ہے۔


4604- حَدَّثَنَا عَبْدُالْوَهَّابِ بْنُ نَجْدَةَ، حَدَّثَنَا أَبُو عَمْرِو بْنُ كَثِيرِ بْنِ دِينَارٍ، عَنْ حَرِيزِ بْنِ عُثْمَانَ، عَنْ عَبْدِالرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي عَوْفٍ، عَنِ الْمِقْدَامِ بْنِ مَعْدِي كَرِبَ، عَنْ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ أَنَّهُ قَالَ: < أَلا إِنِّي أُوتِيتُ الْكِتَابَ وَمِثْلَهُ مَعَهُ، أَلا يُوشِكُ رَجُلٌ شَبْعَانُ عَلَى أَرِيكَتِهِ يَقُولُ: عَلَيْكُمْ بِهَذَا الْقُرْآنِ؛ فَمَا وَجَدْتُمْ فِيهِ مِنْ حَلالٍ فَأَحِلُّوهُ، وَمَا وَجَدْتُمْ فِيهِ مِنْ حَرَامٍ فَحَرِّمُوهُ، أَلا لا يَحِلُّ لَكُمْ [لَحْمُ] الْحِمَارِ الأَهْلِيِّ، وَلا كُلُّ ذِي نَابٍ مِنَ السَّبُعِ، وَلا لُقَطَةُ مُعَاهِدٍ إِلَّا أَنْ يَسْتَغْنِيَ عَنْهَا صَاحِبُهَا، وَمَنْ نَزَلَ بِقَوْمٍ فَعَلَيْهِمْ أَنْ يَقْرُوهُ، فَإِنْ لَمْ يَقْرُوهُ فَلَهُ أَنْ يُعْقِبَهُمْ بِمِثْلِ قِرَاهُ >۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داود، (تحفۃ الأشراف: ۱۱۵۷۰)، وقد أخرجہ: ت/العلم ۱۰ (۲۶۶۴)، ق/المقدمۃ ۲ (۱۲)، حم (۴/۱۳۰) (صحیح)

۴۶۰۴- مقدام بن معد یکرب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ''سنو، مجھے کتاب (قرآن) دی گئی ہے اور اس کے ساتھ اسی کے مثل ایک اور چیز بھی (یعنی سنت)، قریب ہے کہ ایک آسودہ آدمی اپنے تخت پر ٹیک لگائے ہوئے کہے ۱؎ : اس قرآن کو لازم پکڑو، جو کچھ تم اس میں حلال پا ئو اسی کو حلال سمجھو، اور جو اس میں حرام پائو، اسی کو حرام سمجھو ، سنو! تمہارے لئے پالتو گدھے کا گوشت حلال نہیں، اور نہ کسی نوکیلے دانت والے درندے کا، اور نہ تمہارے لئے کسی ذمی کی پڑی ہوئی چیز حلال ہے سوائے اس کے کہ اس کا مالک اس سے دستبردار ہو جائے ،اور اگر کوئی کسی قوم میں قیام کرے تو ان پر اس کی ضیافت لازم ہے، اور اگر وہ اس کی ضیافت نہ کریں تو اسے حق ہے کہ وہ ان سے مہمانی کے بقدر لے لے'' ۲؎ ۔
وضاحت ۱ ؎ : یہ پیش گوئی منکرین حدیث کے سرغنہ عبداللہ چکڑالوی پر صادق آتی ہے، مولانا نورالدین کشمیری (صدر جمعیت اہل حدیث کشمیر) جب اس سے مناظرہ کرنے لاہور میں اس کے گھر پہنچے تو وہ مولانا سے انکار حدیث پر اس حال میں بحث کر رہا تھا کہ وہ اپنی چارپائی پر ٹیک لگائے ہوئے لیٹا تھا (مولانا مرحوم کا خود نوشت بیان، شائع شدہ اخبار تنظیم اہل حدیث کراچی)۔
وضاحت ۲ ؎ : ضیافت اسلامی معاشرہ میں ایک نہایت ہی نیک عمل ہے اگر میزبان مہمان کی مہمانی نہ کرے تو اس کو مہمانی کے بقدر وصول کرنا ابتداء اسلام میں تھا بعد میں اس پر عمل نہ رہا، گری پڑی چیز ذمی کی ہو یا مسلمان کی اگر اس کا مالک اس کو چھوڑ دے اور اس سے مستغنی ہوجائے تو دوسرے کو لے لینا جائز ہے، ورنہ نہیں، اس حدیث میں صاف طور پر موجود ہے کہ حدیث کو قرآن پر پیش کرنا ضروری نہیں بلکہ قرآن کی طرح حدیث بھی مستقل حجت ہے، حدیث کو قرآن پر پیش کرنے سے متعلق جو حدیث بیان کی جاتی ہے کذب محض ہے، زنادقہ نے اس کو گھڑا ہے

http://forum.mohaddis.com/threads/سنن-ابو-داود.12263/page-178#post-96525
 

جوش

مشہور رکن
شمولیت
جون 17، 2014
پیغامات
621
ری ایکشن اسکور
320
پوائنٹ
127
حدیث کو قرآن پر پیش کرنا نہیں ہے کیونکہ حدیث قرآن کی شرح ہے اور دونوں لازم ملزوم ہیں کسی بھی اسلامی مسئلے کو سمجھنے کیلئے دونوں ساتھ میں رکھا جائیگا مثلا قرآن میں نماز اور وضو کا زکر ہے لیکن طریقہ نہیں ہے تو اب لامحالہ حدیث دیکھا جائیگا اسی طرح دوسرے مسائل بھی ہیں
 

جوش

مشہور رکن
شمولیت
جون 17، 2014
پیغامات
621
ری ایکشن اسکور
320
پوائنٹ
127
یہ پیش گوئی نہیں بلکہ اس میں بھی سنت کو لازم پکڑنے پر ابھارا گیا ہے اور آگے کی عبارت بطور تمثیل ہے اور اس پر ۔الا انی اوتیت الکتاب و مثلہ معہ ۔ دلالت کرتا ہے ۔۔ ہاں پیش گوئی آپ اسے کہ سکتے ہیں جس میں ہے کہ قومیں تمہارے اوپر ایسے پل پڑیں گی جیسے لوگ دسترخوان پر پل پڑتے ہیں۔۔۔۔۔الخ ۔
 
Top