اب ظاہر ہے اس عمدہ اور علمی جواب پر میں کیا کہہ سکتا ہوں۔
ایک سوال کا جواب دیں۔ ایک شخص کو ناسخ و منسوخ کا علم نہ ہو۔ وہ صرف قرآن کریم پڑھ کر آیت وصیت اور دیگر منسوخ آیات پر عمل کر سکتا ہے؟
السلام علیکم و رحمت الله -
محترم - قرآن کی آیت ہے کہ :
فَاسْأَلُوا أَهْلَ الذِّكْرِ إِنْ كُنْتُمْ لَا تَعْلَمُونَ سوره النحل ٤٣
سو اگر تمہیں معلوم نہیں تو اہلِ علم سے پوچھ لو-
یعنی اگر انسان کو کسی چیز کا علم نہیں تو وہ اہل علم سے رابطہ کر سکتا ہے اور اس سے ناسخ و منسوخ یا دوسرے امور کے بارے میں دریافت کر سکتا ہے -(یعنی تحقیق کر سکتا ہے )-
لیکن -
اس میں کسی ایک کی تخصیص کا اشارہ تک نہیں ملتا کہ تم فلاں شخص سے مسئلہ پوچھو اور اس کے فتوٰی پر عمل کرو- اگر مقلدین کی اس بات کو تسلیم بھی کر لیا جائے تو یہاں پر ایک سوال یہ پیدا ہوتا ہے کے کیا اسلام میں اہل علم چار ہی ہوئے ہیں اور ان کے بعد علم کا دروازہ بند کردیا گیا؟؟؟۔۔۔ یا ان چاروں نے بعد میں آنے والوں کو قیامت تک کے لئے علمی ضرورت سے مستثٰنی کردیا؟؟؟۔۔۔ ظاہر کے کہ کوئی بھی مقلد اس کا جواب نہیں دے سکتا چنانچہ مسئلہ صاف ہوگیا کے اہل ذکر سے مراد ہر دور کے وہ علماء ہیں جو ذکر (کتاب وسنت) پر عمل پیرا ہوں۔۔۔
( اس آیت کی رو سے اہل علم صرف امام ابو حنیفہ ، امام شافعی ، امام احمد بن حنبل، یا امام مالک رح مخصوص نہیں)-
قرآن کریم سے تو تحقیق ثابت ہوتی ہے نہ کہ تقلید:
وَالَّذِينَ إِذَا ذُكِّرُوا بِآيَاتِ رَبِّهِمْ لَمْ يَخِرُّوا عَلَيْهَا صُمًّا وَعُمْيَانًا سوره الفرقان ٧٣
(الله کے نیک بندے) تو وہ لوگ ہیں کہ جب انہیں ان کی رب کی آیات سے سمجھایا جاتا ہے
تو ان پر بہرے اندھے ہو کر نہیں گرتے- (یعنی تحقیق کرتے ہیں تقلید نہیں)-