اشماریہ
سینئر رکن
- شمولیت
- دسمبر 15، 2013
- پیغامات
- 2,682
- ری ایکشن اسکور
- 752
- پوائنٹ
- 290
بھائی جان! اس طرح تو میرا خیال ہے فقہی اختلاف کی بنیاد پر بھی یہی ہوگا کہ امام احمد، مالک، ابو حنیفہ، ثوری، شافعی وغیرہ حرام کام کرنے کی وجہ سے جہنم میں جا رہے ہوں گے کیوں کہ وہ دوسرے کے نزدیک حرام تھا، ان کے نزدیک تو جائز تھا۔ اور دوسرے کی بات درست تھی۔ انہوں نے تو اپنے آپ کو دلائل سے مطمئن کر لیا تھا۔دین کو آپ حضرات نے ایسا چوں چوں کا مربہ بنا دیا ہے کہ شائد ہی کسی شے کو غلط کہا جا سکے۔ العیاذ باللہ!
ایک مسئلہ چاہے وہ کتاب وسنت میں کتنا ہی واضح کیوں نہ ہو اس کے مخالف عقیدہ رکھنے والے بھی اپنے آپ کو الٹے سیدھے دلائل سے مطمئن کر لیتے ہیں۔ بریلوی وشیعہ حضرات بھی بہت سارے مسائل میں کتاب وسنت کے صریح خلاف موقف کو بھی اپنے تئیں عجیب وغریب قرآن وحدیث کے دلائل سے مزین کر لیتے ہیں۔ اشماریہ صاحب کے نزدیک گویا وہ عین حق پر ہیں۔ ایسے بھی ’مسلمان‘ موجود ہیں جو شراب، جوا، سود اور موسیقی وغیرہ کو اپنے تئیں ’دلائل وبراہین‘ کی بنا پر جائز کیے بیٹھے ہیں۔ وہ سب اشماریہ صاحب کے نزدیک صحیح ہیں؟
اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں پچھلی قوموں کی جو خرابیاں بیان کی ہیں، اشماریہ صاحب کے نزدیک کیا ان میں سے کوئی خرابی بھی آج کسی مسلمان میں پائی جاتی ہے یا وہ تمام خرابیاں صرف غیر مسلموں کیلئے ہی ہیں۔ تو گویا قرآن کریم غیر مسلموں کیلئے اُترا ہے اور انہیں ہی اس سے اپنی اصلاح کرنا چاہئے۔ مسلمان تو دھلے دھلائے ہیں (یہودیوں عیسائیوں کی طرح) اللہ کے محبوب ہیں اور مرنے کے بعد جنت ہی تو ان کا انتظار کر رہی ہے، اگر اپنے گناہوں کی بناء پر جہنم میں گئے بھی تو چند دن!!! العیاذ باللہ!
اللہ تعالیٰ ہماری اصلاح فرمائیں!
بلکہ شد رحال اور طلاق ثلاثہ میں ابن تیمیہؒ اور سبکیؒ میں سے ایک تو ضرور رخ کرے گا وہاں کا۔ (ابتسامہ)
مہربانی فرما کر ذرا سا سوچ بھی لیا کریں۔
میرا خیال ہے کہ یہ تحقیق و تاویل ایسا معاملہ ہے کہ بندہ کا دل یہ فیصلہ کر دیتا ہے کہ میں اس میں ڈنڈی مار رہا ہوں یا نہیں۔ شیعہ بھی اپنے بعض عقائد کے لیے قرآن کا سہارا لیتے ہیں لیکن وہ کس قدر درست ہوتے ہیں وہ خود جانتے ہیں۔
پوسٹ دوبارہ پڑھیے۔سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہ کو بعض مسائل میں اپنی تحقیق میں اپنے باپ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے اختلاف تھا۔ اور بھی دیگر مسائل میں بعض صغار صحابہ کو تحقیق میں کبار صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین سے اختلاف تھا لیکن کسی نے بھی یہ نہیں کہا کہ راجح تو میرے نزدیک یہ ہے لیکن میں تحقیق میں فلاں پر اعتماد کرتا ہوں اور ان کی تحقیق کو مضبوط مانتے ہوئے ان کے مسئلے پر عمل کرتا ہوں۔
یہ ہر جگہ اور ہر تحقیق میں نہیں ہوتا۔ خیر میں نے عرض کیا تھا۔یہ کہنے کا مطلب کہ "فلاں کا موقف راجح ہے لیکن ہم فلاں کے مقلد ہیں اور ہم پر انہی کی تقلید واجب ہے" یہ ہوتا ہے کہ راجح میری نظر میں ہے لیکن جب ہم تحقیق کے سلسلے میں فلاں پر اعتماد کرتے ہیں اور ان کی تحقیق کو مضبوط مانتے ہیں تو انہی کے مسئلے پر عمل کریں گے۔ یعنی اپنی تحقیق راجح ہونے کے باوجود اس پر دل کو ذرا سا شک ہوتا ہے۔
میرا خیال ہے اس سے زیادہ واضح انداز میں میں نہیں سمجھا سکتا۔ اگر تعصب سے ہٹ کر اسے پڑھیں تو امید ہے کافی ہوگا۔ ورنہ فی امان اللہ۔