ابو الحسین کا جواب :
#حدیث_انا_مدینة_العلم_اور_ہماری_تحقیق_قسط_دوم
پچھلی تحریر میں، میں نے اس حدیث کے چار صحیح السناد طرق پیش کیے تھے اور ساتھ ہی یحیی بن معین کا قول پیش کیا تھا جس میں انہوں نے اس روایت کی تصحیح فرمائ تھی۔ جس پر کچھ ناسبی فکر رکھنے والے حضرات نے بے بانگ دہل ادھے ادھورے اعتراضات اٹھانے شروع کر دیے۔ میرے لیے حیرت کا مقام یہ تھا کے یہ روایت بے شمار طرق سے آئی اور ناقدین کا اس کی صحت پر اختلاف ہے لیکن یہ اتنی کمزور روایت نہیں کے جسے فضائل میں قبول نہ کیا جا سکے۔ اور یہ وہ لوگ ہیں جو معاویہ کے لیے رسولﷺ کی بد دعا کی باطل طاویل کرتے ہوۓ اسے دعا میں شمار کرنا شروع کر دیتے ہیں۔لیکن فضائل علی میں وارد ہونے والی احادیث متاوتر بھی ان سے برداشت نہیں ہوتیں خیر مذید وقت ضائع کیے بغیر ان کے باطل اعتراضات کا جائزہ لیتے ہیں۔
پہلا اعتراض:
آپ نے جو روایت مستدرک للحاکم سے ابو الصلت الھروی کی متابعت میں پیش کی(1) اس میں امام حاکم سے غلطی ہوئ ہے کیونکہ اسی روایت کو ابن محرز نے بھی یحیی بن معین سے روایت کیا(2) جس میں محمد بن طفیل نامی مجھول راوی موجود تھا لیکن امام الحاکم نے اس روایت کو نقل کرتے وقت محمد بن جعفر الفیدی اور ابو معاویة کے درمیان سے محمد بن طفیل کو گرادیا۔ (یہ امام الحاکم سے سہواً ھوا ھے)۔
الجواب:
ہم یہ کہتے ہیں کے ہم اس کو آپ کی دو نمبری سمجھیں؟ آپ کا بغض سمجھیں؟ یا آپ کی کم علمی سمجھیں؟ یعنی آپ ایک مجھول شخص کی روایت کو ایک امام کی روایت پر ترجیع دے رہے ہیں؟ جی بالکل ابن محرز جو کہ (ابو العباس احمد بن محمد بن القاسم بن محرز) ہے اس کا کوئ آتا پتا ہی نہیں کے یہ کون ہے اور کہاں کا باشندا ہے۔ محدثین میں سے اس پر کسی قسم کا کوئ کلام موجود ہی نہیں اس کی کوئ توثیق نہیں۔ جبکہ اس مجھول الحال راوی کو بنیاد بنا کر ایک حدیث کے امام کی روایت کو رد کیا جا رہا ہے؟یہی ہوتا ہے جب انسان اصول حدیث سے سرے سے نابلد ہو لیکن کاپی پیسٹ مارنے میں ماہر ہو۔
امام حاکم کی علمی جلالت کے مداح تو خود حافظ ذہبی ہیں۔ حافظ ذہبی امام حاکم کے ترجمے میں فرماتے ہیں:
الحاكم الحافظ الكبير امام المحدثين... ناظر الدارقطني فرضيه وهو ثقة واسع العلم بلغت تصانيفه قريبا من خمس مائة جزء
️حاکم، بڑے حافظ محدثین کے امام ہیں،دار قطنی نے ان کے ساتھ ایک مناظرہ کیا اور اس پر راضی ہوۓ کے آپ ایک قابل اعتماد اور بہت زیادہ علم رکھنے والی شخصیت ہیں ،ان کی کتابیں ۵۰۰ جلدوں کے قریب ہیں۔ (3)
پھر حافظ ذہبی نے خود بھی اس روایت کی تصحیح کر رکھی ہے۔ حافظ ذہبی نے اس روایت کو مکمل سند کے ساتھ اسی طریق سے لگایا ھے اور پھر کہا: (هذا الحديث صحیح) ابو الصلت هو عبد السلام۔ (4)
️اگر دو منٹ کے لیے ہم یہ مان بھی لیں کے امام حاکم سے غلطی ہوئ تو ہم کہتے ہیں کے حافظ ذہبی جیسا ناقد جو امام حاکم کی ایک ایک روایت کو متشدد ہو کر پرکھتے ہیں ان کو یہ غلطی کیوں نا نظر آسکی؟ یا ان کو آپ جیسے فیسبوکی محقق سے پوچھنا چاہیے تھا؟ اللہ سے دعا ہے کے اللہ ہمیں جاہلوں کی جہالت سے محفوظ رکھے۔ آمین!
ا___________________________________
دوسرا اعتراض:
ابو معاویہ نے یہ بہت پہلے روایت بیان کی تھی پھر انہوں نے یہ روایت بیان کرنی چھوڑ دی.
وقال أحمد بن محمد بن القاسم بن المحرز: سألت يحيى بن معين عن أبي الصلت عبد السلام بن صالح الهروي فقال: ليس ممّن يكذب، فقيل له في حديث أبي معاوية أنا مدينة العلم، فقال: هو من حديث أبي معاوية
أخبرني ابن نمير قال: حدّث به أبو معاوية قديماً، ثمّ كفّ عنه. وكان أبو الصّلت رجلا موسراً يطلب هذه الأحاديث ويلزم المشايخ، فكانوا يحدّثونه۔ (5)
️احمد بن محمد بن القاسم بن المحرز نے کہا: میں نے یحییٰ بن معین سے ابو الصلت عبد السلام بن صالح الہروی کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے کہا، وہ جھوٹ نہیں بولتا۔ پھر ان سے ابو معاویہ کی حدیث کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے کہا یہ ابو معاویہ کی احادیث میں سے ہے۔ ابن نمیر کہتے ہیں ابو معاویہ پہلے یہ بیان کرتے تھے پھر اس پر خاموشی اختیار کرلی۔
یہ اس بات کی دلیل ہے کے ابو معاویہ جان گۓ تھے کہ اعمش نے یہاں تدلیس کی ہے تبھی وہ یہ روایت بیان کرنا چھوڑ گۓ تھے۔ کیونکہ اعمش کا مجاہد سے سماع قلیل ہے۔
الجواب:
اولا تو یہ روایت ابو العباس احمد بن محمد بن القاسم بن محرز(ابن محرز) مجھول کی وجہ سے ضعیف ہے۔
️دوسرا یہ کہ اگر کوئ حافظ کسی روایت کو بیان کرنا چھوڑ دے تو یہ اس بات کی دلیل کب سے ہونے لگی کے روایت ہی ضعیف ہوگئ؟ ایک حافظ الحدیث ہوتا ہی وہ ہے جسے ہزاروں احادیث حفظ ہوں اور کئی احادیث ایسی ہوتی ہیں جو صحیح ہوتی ہیں لیکن وہ ان کو بار بار بیان نہیں کرتے۔
اور یحیی بن معین کا یہ کہنا کے یہ حدیث ابو معاویہ کی احادیث میں سے ہے زیادہ معقول ہے کیونکہ ابو معاویہ سے اس حدیث کو ان کے شاگردوں کی ایک جماعت نے نقل کیا ہے۔
خطیب بغدادی بھی کہتے ہیں کے:
أراد أنه صحيح عن أبي مُعَاوِيَةَ إذ قد رواه غير واحد عنه۔ (6)
️یعنی یحیی بن معین کا یہ کہنا کے یہ صحیح ہے سے مراد یہ ہے کہ یہ روایت ابو معاویہ کی احادیث میں سے صحیح ہے کیونکہ اسے ایک سے زیادہ لوگوں نے روایت کیا ہے
️تدلیس کے الزام کو رد کرنے کا تیسرا قرینہ یہ ہے کہ یہ وہ روایت ہے جس پر محدثین کی ایک بڑی جماعت کا اختلاف ہوا ہے اور اس کے ایک ایک طریق پر گہری نظر رکھی گئی ہے لیکن محدثین کی اتنی بڑی جماعت میں سے کسی ایک نے بھی اس روایت پر تدلیس کا حکم نہیں لگایا۔ یہاں تک کے حافظ ذہبی جیسا ناقد جو مستدرک للحاکم کی ایک ایک روایت پر سخت نقد کرتے ہیں انہوں نے مستدرک میں اس روایت کے تین طرق میں سے کسی ایک پر بھی تدلیس کی جرح نہیں کی۔
چوتھی بات یہ کہنا کہ اعمش کا مجاہد سے سماع قلیل ہے اور روایت معنن ہے اس لیے تدلیس ہے۔ یہ انتہائ کمزور بات ہے کیونکہ امام اعمش کی مجاہد سے معنن روایات تو خود صحیح بخاری اور صحیح مسلم میں موجود ہیں جن کے سماع کی تصریح موجود نہیں ہے۔ملاحظہ ہو:
صحیح مسلم 992، صحیح بخاری 218 اور اس کے علاوہ اعمش، عن مجاھد والی سند کی 6 روایات صحیح بخاری میں، 2 روایات صحیح مسلم میں، 5 روایات سنن ابی داؤد میں، 7 روایات جامع ترمذی میں، 3 روایات سنن ابن ماجہ میں اور 1 روایت سنن نسائی میں موجود ہے۔ اور اکثر کو صحیح تسلیم کیا گیا ہے۔
اب اگر کوئ یہ کہتا ہے کے بخاری مسلم میں مدلسین کی معنن روایات سماع پر محمول ہیں تو یہ وہ دعوہ ہے جس پر کوئ دلیل موجود ہی نہیں سرے سے۔ لہذٰا اگر یہاں روایت رد ہوگی تو وہاں بھی رد ہوگی۔ تدلیس پکڑنا محدثین کا، آئمہ علل کا فن ہے اور محدثین کی بہت بڑی جماعت نے اس روایت پر کلام کیا ہے لیکن کسی نے تدلیس کا حکم نہیں لگایا۔ ورنا آپ کی باتوں یہ یوں معلوم ہوتا ہے کے شاید اس روایت پر کلام کرتے ہوۓ محدثین تدلیس پکڑنا ہی بھول گۓ۔ یہ بہت بڑا قرینہ ہے کے محدثین کی اتنی بڑی جماعت نے اس روایت پر کلام کیا پر تدلیس کا حکم نہیں لگایا۔
اگر یہاں تدلیس ہوتئ تو یہ تدلیس تسویہ ہوتی جو کہ تدلیس کی سب سے بری قسم ہے۔ اور اعمش نے بہت قلیل ہی تدلیس تسویہ کی ہے اور جہاں کی وہاں محدثین نے پکڑ لیا اور ان روایات کو جمع کر لیا لیکن اس روایت کو کسی محدث نے وہاں شامل نہیں کیا جو کے مذید ایک مضبوط ترین دلیل ہے۔
ا__________________________________
تیسرا اعتراض:
امام یحیی بن معین نے اس روایت کے بارے میں کہا کہ اس کی کوئ اصل نہیں(7) یعنی یہ روایت موضوع ہے گھڑی گئی ہے۔ اس کے ساتھ اس کو بھی ملا لیں:
وقال ابن الجنيد مرة أخرى: سمعت یحیی وذكر أبا الصلت الهروي فقال: "لم يكن عندنا من أهل الكذب، وهذه الأحاديث التي يرويها ما نعرفها(8)
️ابن جنید ایک بار پھر روایت کرتے ہیں: میں نے یحیی بن معین کو ابو الصلت کے بارے میں بات کرتے ہوۓ سنا کہ وہ جھوٹ بولنے والوں میں سے نہیں ہے اور یہ حدیث جو اس نے روایت کی میں اسے نہیں جانتا۔
الجواب:
ہم یہ کہتے ہیں کے یہ درست ہے کے امام یحیی بن معین تحقیق سے قبل اس روایت کو موضوع سمجھتے تھے لیکن جب انہوں نے تحقیق کی تو انہوں نے اپنے اس قول سے رجوع کر لیا ملاحظہ ہو:
واما حديث الأعمش فان أبا الصلت كان يرويه عن أبي معاوية عنه فأنكره أحمد بن حنبل ويحيي بن معين من حديث أبي معاوية ثم بحث يحيي عنه فوجد غير أبي الصلت قد رواه عن أبي معاوية فأخبرنا محمد بن أحمد بن رزق.... عن بن عباس قال قال رسول الله e الله عليه وسلم أنا مدينة العلم وعلي بابها فمن أراد العلم فليأت بابه قال القاسم سألت يحيي بن معين عن هذا الحديث فقال هو صحيح۔
️جہاں تک الاعمش کی حدیث کا تعلق ہے تو ابو الصلت اسے ابی معاویہ کی سند سے روایت کیا کرتے تھے لیکن احمد بن حنبل اور یحییٰ بن معین نے اسے ابی معاویہ کی حدیث ماننے سے انکار کر دیا۔ لیکن یحییٰ بن معین نے اس پر مذید تحقیق کی تو معلوم ہوا کہ ابی الصلت کے علاوہ کسی اور نے بھی اسے ابی معاویہ کی سند سے روایت کیا ہے۔ القاسم نے کہا: یحییٰ بن معین سے اس حدیث کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے کہا کہ یہ صحیح ہے۔(9)
️لہذا یحیی بن معین نے تحقیق کر کے خود ہی اپنے پچھلے قول سے رجوع کیا اور اس حدیث کی تصحیح فرمائ۔ علم حدیث سے شگف رکھنے والے حضرات جنہوں نے اس روایت پر تحقیق کی ہو گی وہ بہت اچھی طرح جانتے ہیں کہ ابو معاویہ سے ان کے شاگردوں کی ایک جماعت نے ان سے اسے روایت کیا لہذا یہ موضوع والی جرح پیش کرنا تو انتہائ علمی خیانت ہے۔
ا_____________________________
جوتھا اعتراض:
یہ حدیث موضوع ہے ملاحظہ ہو:
حديث أبي معاوية عن الأعمش عن مجاهد عن ابن عباس (أنا مدينة الحكمة وعلى بابها) كم من خلق قد افتضحوا فيه، ثم قال لي أبو زرعة: أتينا شيخا ببغداد يقال له عمر بن إسماعيل بن مجالد، فأخرج إلينا كراسة لأبيه فيها أحاديث جياد، عن مجالد، وبيان، والناس، فكنا نكتب إلى العصر، وقرأ علينا، فلما أردنا أن نقوم قال: حدثنا أبو معاوية، عن الأعمش بهذا الحديث فقلت له: ولا كل هذا بمرة. فأتيت يحيى بن معين، فذكرت ذلك له فقال: قل له يا عدو الله متى كتبت أنت هذا عن أبي معاوية، إنما كتبت أنت عن أبي معاوية ببغداد، متى روى هذا الحديث ببغدادسؤالات البرذعي لأبي زرعة الرازي ت الهاشمي ؟ ۔ (10)
️ابو زرعہ کہتے ہیں ہم بغداد میں ایک شیخ سے ملے جس کا نام عمر بن اسماعیل بن مجالد تھا انہوں نے ہمیں اپنے والد کی ایک کتاب دکھائ جس میں وہ احادیث تھیں جو انہوں نے مجالد، بیان اور دیگر لوگوں سے سنی تھیں۔ ہم وہ حدیثیں لکھتے اور پڑھتے تھے پس جب ہم نے جانے کا ارادہ کیا تو اس نے وہ حدیث(باب الحکمة) ابو معاویہ عن اعمش کے طریق سے بیان کی تو میں نے اس سے کہا یہ کیسے ہو سکتا ہے؟ پس میں یحیی بن معین کے پاس آیا اور انہیں اس بارے میں بتایا۔ تو انہوں نے کہا اس سے کہو کہ اے الله کے دشمن تم نے یہ ابو معاویہ سے بغداد میں کب سنی؟ انہوں نے کب یہ حدیث بغداد میں بیان کی؟
یہاں یحیی بن معین کا ابو معاویہ سے بغداد میں اس کا رویت ہونا یہ سن کر حیران ہونا اس بات کا ثبوت ہے کے یہ روایت موضوع ہے کیوں کے ابو الصلت کی متابعت والی روایت(1) جو مستدرک میں ہے اس میں محمد بن احمد بن تمیمی اور حسین بن فھم بغداد سے ہیں ممکن ہے ان میں سے کسی نے یہ روایت ابو الصلت سے سن کر گھڑی ہو۔
الجواب:
ہم یہ کہتے ہیں کے یہ اعتراض کرنے والا جاہلوں کا سردار ہے اور اصول حدیث سے بالکل ہی نابلد ہے یا پھر لوگوں کو بیوفوغ بنانے کے لیے ایسے اعتراضات اٹھاتا ہے خیر
اولا تو یہ روایت ہی الگ ہے " میں حکمت کا شہر ہوں" (11) اور جس روایت کے بارے میں ہم بات کر رہے ہیں وہ" میں علم کا شہر ہوں" دونوں الگ الگ روایات ہیں۔
️دوسرا یہ روایت دوسری سند سے آئی ہے جس میں عمر بن اسماعیل بن مجالد ضعیف ہے۔ جبکہ اس روایت سے ہم نے استدلال ہی نہیں کیا تو اس روایت کی جراح وہ بھی اس سند سے ہمیں پیش کرنا جہالت ہے۔
️ثالثا یہ کہنا کے فلاں نے حدیث گھڑ لی ہوگی یا فلاں نے فلاں کام کر دیا ہوگا اصول حدیث سے کورے لوگ ایسی جہالت سے بھرپور باتیں کرتے ہیں، حدیث پر جرح مفروضوں کی بنیاد پر نہیں دلائل کی بنیاد پر ہوتی ہے، کیونکہ یحیی بن معین تو خود اس روایت کو صحیح مان رہے ہیں اس کو روایت کرنے والے ابو الصلت کے دفاع میں خود ہی اس کی متابعت بھی دکھا رہے ہیں۔ ملاحظہ ہو:
عباس بن محمد الدوری کہتے ہیں : میں نے حضرت یحیی بن معین سے ابوصلت ہروی کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے کہا : وہ ثقہ ہے ۔ میں نے کہا : کیا اس نے ابومعاویہ کے واسطے سے اعمش سے یہ روایت نہیں کی ’’ انا مدینۃ العلم ‘‘ تو انہوں نے کہا : اس کو محمد بن جعفر الفیدی نے بھی روایت کیا ہے اور وہ ثقہ ہیں ، مامون ہیں ۔(1)
جب یحیی بن معین سے بار بار اس روایت کے بارے میں اور ابو الصلت کے بارے میں پوچھا جانے لگا تو آپ کیا کہا ملاحظہ ہو؛
قال عباس الدّوري: سمعت يحيي بن معين يوثّق أبا الصّلت عبد السّلام بن صالح فقلت له: إنّه حدّث عن أبي معاوية عن الأعمش: أنا مدينة العلم وعلي بابها! فقال: ما تريدون من هذا المسكين؟ أليس قد حدّث به محمّد بن جعفر الفيدي عن أبي معاوية (12)
️عباس الدوری کہتے ہیں میں نے یحیی بن معین کو ابو الصلت کی توثیق کرتے ہوۓ سنا تو ان سے کہا کہ یہ ابو معاویہ عن اعمش کے طریق سے حدیث مدینة العلم روایت کرتا ہے۔ تو انہوں نے کہا: آخر تم اس مسکین شخص سے چاہتے کیا ہو؟ کیا اس حدیث کو محمد بن جعفر الفیدی نے ابو معاویہ سے روایت نہیں کیا؟
️اسی طرح بغداد ہی کے باشندے اور محدث کبیر خطیب باغدادی کا قول ہم اوپر بیان کر چکے(6) کہ انہوں نے کہا یہ حدیث ابو معاویہ کی احادیث میں سے ہے کیونکہ اسے ابو معاویہ کے کئی شاگردوں نے بیان کیا ہے۔ لہٰذا بغداد کی کمزور جرح پر عمارت کھڑی کرنے والوں کی عمارت کو خود بغداد کے ہی سب سے بہترین محدث نے بھی ایک ہی ٹھوکر میں گرا دیا۔
ا___________________________________
پانچھواں اعتراض:
آپ نے کہا کے ذہبی نے تذکرة الحفاظ میں اس روایت کو صحیح کہا ہے(4) لیکن ذہبی نے تو اس روایت کو مستدرک کی تلخیص میں امام حاکم پر حیرت کرتے ہوۓ موضوع کہا ہے۔(1)
امام حاکم نے کہا کے ابو الصلت ثقہ ہے مامون ہے تو حافظ ذہبی نے نقد کرتے ہوۓ کہا کے اللہ کی قسم نہ یہ ثقہ ہے اور نہ مامون ہے۔ اور ساتھ ہی روایت کو بھی منگھڑت قرار دے دیا۔
الجواب :
ہم یہ کہتے ہیں کے اول تو ذہبی نے خود ابو الصلت کو میزان العتدال میں صالح شیخ قرار دیا ہے(13) لیکن چلیں مان لیں کے ذہبی نے ابو الصلت کو نہ ثقہ مانا اور نہ مامون تو پھر ہم کہتے ہیں کے آخر کون سی دلیل پر ذہبی نی جرح کر دی اور کس دلیل پر موضوع کہ دیا؟ اصول حدیث سے شگف رکھنے والے حضرات یہ جانتے ہیں کے جمھور کے نذدیک تعدیل مبھم کو جرح مبھم پر فوقیت حاصل ہوتی ہے لیکن یہاں پر تو معاملہ ہی بالکل الٹ ہے یہاں پر جرح مبھم ہے جبکہ تعدیل مفسر ہے، کہاں امام الآئمہ امیر المؤمنین فی الحدیث امام یحیی بن معین اور کہاں متاخرین میں آنے والا شمس الدین ذہبی یہ تقابل ہی کیسا ہے کیا یہ تقابل کرنا امام یحیی بن معین کی توہین نہیں؟
️اور یہ کہنا کے ابو الصلت پر بخاری نے جرح کردی اور دار قطنی نے رافضی خبیث کہ دیا، کیا ان لوگوں نے خود بھی ابو الصلت کو دیکھا ہے؟ کیا ایک شخص جس پر جرح کر رہا ہے اس کا ادراک ہی نہیں کر پایا اس کی جرح اس شخص کے مقابلے میں مؤثر ہو سکتی ہے کے جس نے خود اس شخص کے ساتھ وقت گزارا ہو؟ جی ہاں بخاری یا دارقطنی کسی تیسرے بندے کے حوالے سے جراح کر رہے ہیں جبکہ یحیی بن معین جو کے بخاری کے بھی استاد ہیں انہوں نے خود نا صرف ابو الصلت کے ساتھ وقت گزارا بلکہ ان کا بھرپور دفاع بھی کرتے رہے۔ لہٰذا یہ کہنا کے دارقطنی نے راف دی خبیث کہ دیا اصل میں امام یحیی بن معین پر تہمت لگانا ہے کیونکہ آپ کے زعم میں تو وہ ایک راف دی خبیث کا دفاع کر رہے ہیں۔
ا_______________________________
مجھے امید ہے کہ حقیر کی اس معمولی سے کاوش سے حق کے متلاشی لوگوں کو کچھ فائدہ ضرور ہوا ہوگا اور نا سبی فکر رکھنے والوں کو بھی دعوت اصلاح ہے کے خدارا محنت کر کے اپنے لیے جہنم نہ خریدیں اور کچھ خدا کا خوف کھائیں۔
واللہ اعلم بالصواب
ا_______________________________
1) مستدرک للحاکم - 4637
2) تاريخ ابن معين رواية ابن محرز: ج 2 - ص 242
3) كتاب طبقات الحفاظ للسيوطي - ص 410
4) تذکرة الحفاظ ج 4 - ص 28
5) تهذيب الكمال ج 18 - ص 79
6) منهج الخطيب البغدادي - ص 423
7) الجرح والتعديل لابن أبي حاتم : ج 6 - ص 99
8) سؤالات ابن الجنيد ،25 ، وانظر: تهذيب الكمال [18/78]
9) تهذيب الكمال ج 18 - ص 77
10) سؤالات البرذعي أبي زرعة الرازي الهاشمي 2 - 521
11) الترمذي ج 1 - 445
12) تهذيب الكمالج ج 18 - ص 79
13) میذان العتدال
__________________________________________
پوسٹ کا لنک:
#حدیث_انا_مدینة_العلم_اور_ہماری_تحقیق_قسط_دوم ⭕ پچھلی تحریر میں، میں نے اس حدیث کے چار صحیح السناد طرق پیش کیے تھے اور ساتھ ہی یحیی بن معین کا قول پیش...
fb.watch