ناصر نواز خان
رکن
- شمولیت
- ستمبر 07، 2020
- پیغامات
- 115
- ری ایکشن اسکور
- 13
- پوائنٹ
- 54
قاسم مجھول نامعلوم عدالت ہے ۔۔ القاسم نے کہا: یحییٰ بن معین سے اس حدیث کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے کہا کہ یہ صحیح ہے۔(9)
قاسم مجھول نامعلوم عدالت ہے ۔۔ القاسم نے کہا: یحییٰ بن معین سے اس حدیث کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے کہا کہ یہ صحیح ہے۔(9)
خطیب نے جو توجیہ بیان کی وہ قاسم والی روایت ہی پر ھے جو ثابت نہیں۔ اور اس روایت کے من گھڑت منکر ضعیف ہونے پر متقدمین ائمه کا اتفاق ہے۔ خود ابن معین نے اس روایت کے متن پر جرح کی۔ اور لااصل له کہا۔أراد أنه صحيح عن أبي مُعَاوِيَةَ إذ قد رواه غير واحد عنه۔ (6)
️یعنی یحیی بن معین کا یہ کہنا کے یہ صحیح ہے سے مراد یہ ہے کہ یہ روایت ابو معاویہ کی احادیث میں سے صحیح ہے کیونکہ اسے ایک سے زیادہ لوگوں نے روایت کیا ہے
️تدلیس کے الزام کو رد کرنے کا تیسرا قرینہ یہ ہے کہ یہ وہ روایت ہے جس پر محدثین کی ایک بڑی جماعت کا اختلاف ہوا ہے اور اس کے ایک ایک طریق پر گہری نظر رکھی گئی ہے لیکن محدثین کی اتنی بڑی جماعت میں سے کسی ایک نے بھی اس روایت پر تدلیس کا حکم نہیں لگایا۔ یہاں تک کے حافظ ذہبی جیسا ناقد جو مستدرک للحاکم کی ایک ایک روایت پر سخت نقد کرتے ہیں انہوں نے مستدرک میں اس روایت کے تین طرق میں سے کسی ایک پر بھی تدلیس کی جرح نہیں کی۔
یہ روایت امام حاکم نے الدوری کی کتاب سے نقل کرنے کا دعویٰ کیا۔ جبکه یہ الدوری کی کتاب میں نہیں بلکه ابن محرز (مجھول) کی کتاب میں ھے".،جب یحیی بن معین سے بار بار اس روایت کے بارے میں اور ابو الصلت کے بارے میں پوچھا جانے لگا تو آپ کیا کہا ملاحظہ ہو؛
قال عباس الدّوري: سمعت يحيي بن معين يوثّق أبا الصّلت عبد السّلام بن صالح فقلت له: إنّه حدّث عن أبي معاوية عن الأعمش: أنا مدينة العلم وعلي بابها! فقال: ما تريدون من هذا المسكين؟ أليس قد حدّث به محمّد بن جعفر الفيدي عن أبي معاوية (12)
یہ کہانی بیان کرنے والا قاسم مجھول ھے۔ لہذا رجوع والی کہانی بھی مردود ھے۔ جبکه صحیح سند سے ابن معین سے اتنا ثابت ھے کہ اس روایت کو ابو الصلت کے ساتھ محمد بن جعفر الفیدی نے بھی روایت کیا ھے".ہم یہ کہتے ہیں کے یہ درست ہے کے امام یحیی بن معین تحقیق سے قبل اس روایت کو موضوع سمجھتے تھے لیکن جب انہوں نے تحقیق کی تو انہوں نے اپنے اس قول سے رجوع کر لیا ملاحظہ ہو:
واما حديث الأعمش فان أبا الصلت كان يرويه عن أبي معاوية عنه فأنكره أحمد بن حنبل ويحيي بن معين من حديث أبي معاوية ثم بحث يحيي عنه فوجد غير أبي الصلت قد رواه عن أبي معاوية فأخبرنا محمد بن أحمد بن رزق.... عن بن عباس قال قال رسول الله e الله عليه وسلم أنا مدينة العلم وعلي بابها فمن أراد العلم فليأت بابه قال القاسم سألت يحيي بن معين عن هذا الحديث فقال هو صحيح۔
امام ابن معین نے کہیں بھی اس روایت کی تصحیح نہیں کی۔لہذا یحیی بن معین نے تحقیق کر کے خود ہی اپنے پچھلے قول سے رجوع کیا اور اس حدیث کی تصحیح فرمائ۔ علم حدیث سے شگف رکھنے والے حضرات جنہوں نے اس روایت پر تحقیق کی ہو گی وہ بہت اچھی طرح جانتے ہیں کہ ابو معاویہ سے ان کے شاگردوں کی ایک جماعت نے ان سے اسے روایت کیا لہذا یہ موضوع والی جرح پیش کرنا تو انتہائ علمی خیانت ہے
ابن معین سے اس روایت کی تصحیح والا قول نقل کرنا علمی خیانت کم جہالت زیادہ ہے۔️لہذا یحیی بن معین نے تحقیق کر کے خود ہی اپنے پچھلے قول سے رجوع کیا اور اس حدیث کی تصحیح فرمائ۔ علم حدیث سے شگف رکھنے والے حضرات جنہوں نے اس روایت پر تحقیق کی ہو گی وہ بہت اچھی طرح جانتے ہیں کہ ابو معاویہ سے ان کے شاگردوں کی ایک جماعت نے ان سے اسے روایت کیا لہذا یہ موضوع والی جرح پیش کرنا تو انتہائ علمی خیانت ہے
جس اصول کو تم کمزور بات کہہ رہے ہو۔ کس دلیل سے؟؟؟ صرف اس وجه سے بخاری و مالم میں الاعمش عن مجاھد ھے؟چوتھی بات یہ کہنا کہ اعمش کا مجاہد سے سماع قلیل ہے اور روایت معنن ہے اس لیے تدلیس ہے۔ یہ انتہائ کمزور بات ہے کیونکہ امام اعمش کی مجاہد سے معنن روایات تو خود صحیح بخاری اور صحیح مسلم میں موجود ہیں جن کے سماع کی تصریح موجود نہیں ہے۔ملاحظہ ہو:
بخاری ومسلم میں الاعمش عن مجاھد سے سند موجود ھے، اسی لئے مذکورہ روایت بھی صحیح ھے؟ پھر بطور مثال احادیث کے نمبر دیئے آپ نے۔ آئیں دیکھتے ہیں اِن احادیث کی حقیقت۔چوتھی بات یہ کہنا کہ اعمش کا مجاہد سے سماع قلیل ہے اور روایت معنن ہے اس لیے تدلیس ہے۔ یہ انتہائ کمزور بات ہے کیونکہ امام اعمش کی مجاہد سے معنن روایات تو خود صحیح بخاری اور صحیح مسلم میں موجود ہیں جن کے سماع کی تصریح موجود نہیں ہے۔ملاحظہ ہو:
صحیح مسلم 992، صحیح بخاری 218 اور اس کے علاوہ اعمش، عن مجاھد والی سند کی 6 روایات صحیح بخاری میں، 2 روایات صحیح مسلم میں، 5 روایات سنن ابی داؤد میں، 7 روایات جامع ترمذی میں، 3 روایات سنن ابن ماجہ میں اور 1 روایت سنن نسائی میں موجود ہے۔ اور اکثر کو صحیح تسلیم کیا گیا ہے۔
حاکم والی جو محمد بن جعفر الفیدی کی روایت ہے۔ اسکو ابن المغازلی نے انہی الفاظ سے نقل کیاہم یہ کہتے ہیں کے یہ اعتراض کرنے والا جاہلوں کا سردار ہے اور اصول حدیث سے بالکل ہی نابلد ہے یا پھر لوگوں کو بیوفوغ بنانے کے لیے ایسے اعتراضات اٹھاتا ہے خیر
اولا تو یہ روایت ہی الگ ہے " میں حکمت کا شہر ہوں" (11) اور جس روایت کے بارے میں ہم بات کر رہے ہیں وہ" میں علم کا شہر ہوں" دونوں الگ الگ روایات ہیں۔
️دوسرا یہ روایت دوسری سند سے آئی ہے جس میں عمر بن اسماعیل بن مجالد ضعیف ہے۔ جبکہ اس روایت سے ہم نے استدلال ہی نہیں کیا تو اس روایت کی جراح وہ بھی اس سند سے ہمیں پیش کرنا جہالت ہے۔
امام حاکم نے جو الدوری کا قول نقل کیا وہ الدوری کی کتاب میں موجود نہیں۔عباس بن محمد الدوری کہتے ہیں : میں نے حضرت یحیی بن معین سے ابوصلت ہروی کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے کہا : وہ ثقہ ہے ۔ میں نے کہا : کیا اس نے ابومعاویہ کے واسطے سے اعمش سے یہ روایت نہیں کی ’’ انا مدینۃ العلم ‘‘ تو انہوں نے کہا : اس کو محمد بن جعفر الفیدی نے بھی روایت کیا ہے اور وہ ثقہ ہیں ، مامون ہیں