- شمولیت
- اپریل 14، 2011
- پیغامات
- 8,771
- ری ایکشن اسکور
- 8,496
- پوائنٹ
- 964
عربوں میں یہ رجحان بھی تھا کہ مردوں کے نام ایسے رکھتے تھے ، جس میں سختی ، غلظت ، بہادری، یا وحشیانہ پن ، خوف و رعونت ظاہر ہو۔
حضرت علی رضی اللہ عنہ کے مشہور اشعار ہیں:
أنا الذی سمتنی أمی حیدرا
کلیث غابات کریہ المنظرا
اسی طرح عثمان ، معاویہ ، مغیرہ اور اس سے پہلے مرۃ ، کلیب ، جرو ، ہاشم ، فہر وغیرہ ناموں کو اسی نکتہ نظر سے دیکھنا چاہیے۔
بعض بڑے بڑے رئیس اور جغادری قسم کے لوگ عمدا حقیر حقیر نام چن لیا کرتے تھے، اور اس میں اپنا کمال سمجھتے تھے ، کہ ہم ناموں کی وجہ سے نہیں ، بلکہ نام ہماری وجہ سے عزت و تکریم کا استعارہ بن جاتے ہیں ۔
جبکہ خواتین کے نام ایسے رکھتے تھے ، جو صنف نازک جیسے ہی ہوں۔
اسلام نے اس رسم کو تبدیل کیا ، اچھے نام رکھنے کی طرف رہنمائی کی۔ البتہ یہ حکم الزامی نہیں ، بلکہ مستحب درجے کا تھا ، اس لیے ناموں کے اختیار میں یہ رجحان بعد از اسلام بھی جاری رہا۔
ایک مسلمان کو نام اختیار کرتے ہوئے، دو تین چیزوں کو مد نظر رکھنا چاہیے:
1۔ یا تو وہ نام منصوص ہو ، یعنی احادیث میں اس کی فضیلت ہو ، مثلا عبد اللہ ، عبد الرحمن ، اور سہل وغیرہ۔ عام معلومات کے مطابق اس قسم میں کوئی بھی نام ایسا نہیں ، جس کا معنی لغوی اعتبار سے درست نہ ہو۔
2۔ یا وہ نام بڑی دینی و مذہبی شخصیات کے ہوں ، مثلا محمد ، قاسم ، ابو بکر ، عمر ، عثمان ، خدیجہ ، فاطمہ وغیرہ۔
اس قسم میں صرف شخصیات کو مد نظر رکھا جائے ،تمام ناموں کے لغوی معانی میں جانا درست نہیں ۔ کیونکہ ان شخصیات کی وجہ سے ان ناموں نے جو عزت و شرف پایا ہے ، انہوں نے لغوی معانی و مفاہیم کو پیچھے چھوڑ دیا ہے۔
3۔ ایسے نام جو بہادری ، شجاعت وغیرہ جیسے معانی رکھتے ہون ، مثلا اسد ، فہد وغیرہ
کچھ لوگ ان سب چیزوں کو چھوڑ کر لچر ناولوں اورفلموں ڈراموں سے عجیب و غریب قسم کے ناموں کا انتخاب کرلیتے ہیں ، جو کہ ذہن و ذوق دونوں کی پستی کا مظہر ہے۔
حضرت علی رضی اللہ عنہ کے مشہور اشعار ہیں:
أنا الذی سمتنی أمی حیدرا
کلیث غابات کریہ المنظرا
اسی طرح عثمان ، معاویہ ، مغیرہ اور اس سے پہلے مرۃ ، کلیب ، جرو ، ہاشم ، فہر وغیرہ ناموں کو اسی نکتہ نظر سے دیکھنا چاہیے۔
بعض بڑے بڑے رئیس اور جغادری قسم کے لوگ عمدا حقیر حقیر نام چن لیا کرتے تھے، اور اس میں اپنا کمال سمجھتے تھے ، کہ ہم ناموں کی وجہ سے نہیں ، بلکہ نام ہماری وجہ سے عزت و تکریم کا استعارہ بن جاتے ہیں ۔
جبکہ خواتین کے نام ایسے رکھتے تھے ، جو صنف نازک جیسے ہی ہوں۔
اسلام نے اس رسم کو تبدیل کیا ، اچھے نام رکھنے کی طرف رہنمائی کی۔ البتہ یہ حکم الزامی نہیں ، بلکہ مستحب درجے کا تھا ، اس لیے ناموں کے اختیار میں یہ رجحان بعد از اسلام بھی جاری رہا۔
ایک مسلمان کو نام اختیار کرتے ہوئے، دو تین چیزوں کو مد نظر رکھنا چاہیے:
1۔ یا تو وہ نام منصوص ہو ، یعنی احادیث میں اس کی فضیلت ہو ، مثلا عبد اللہ ، عبد الرحمن ، اور سہل وغیرہ۔ عام معلومات کے مطابق اس قسم میں کوئی بھی نام ایسا نہیں ، جس کا معنی لغوی اعتبار سے درست نہ ہو۔
2۔ یا وہ نام بڑی دینی و مذہبی شخصیات کے ہوں ، مثلا محمد ، قاسم ، ابو بکر ، عمر ، عثمان ، خدیجہ ، فاطمہ وغیرہ۔
اس قسم میں صرف شخصیات کو مد نظر رکھا جائے ،تمام ناموں کے لغوی معانی میں جانا درست نہیں ۔ کیونکہ ان شخصیات کی وجہ سے ان ناموں نے جو عزت و شرف پایا ہے ، انہوں نے لغوی معانی و مفاہیم کو پیچھے چھوڑ دیا ہے۔
3۔ ایسے نام جو بہادری ، شجاعت وغیرہ جیسے معانی رکھتے ہون ، مثلا اسد ، فہد وغیرہ
کچھ لوگ ان سب چیزوں کو چھوڑ کر لچر ناولوں اورفلموں ڈراموں سے عجیب و غریب قسم کے ناموں کا انتخاب کرلیتے ہیں ، جو کہ ذہن و ذوق دونوں کی پستی کا مظہر ہے۔