• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

نام محمد ؐ سن کرانگوٹھوں کوچومنا

شمولیت
مارچ 08، 2018
پیغامات
36
ری ایکشن اسکور
0
پوائنٹ
12
لفظ محمد ؐ سنکر انگوٹھا چوم کر آنکھوں سے لگانا بے اصل اور بدعت ہے انگوٹھے چوم کر ان کو آنکھوں سے لگانے کے بارے میں چند حدیثیں آتی ہیں لیکن سب غیر صیح بے اصل موضوع جھوٹی اور بناوٹی ہیں علامہ شوکانی نے الفوائد المجموعہ ص ۱۴ میں
کون سی بدعت ہے؟؟
مولوی وحیدالزماں لکھتے ہیں،
اما البدعة اللغویة فھی تنقسم الی مباحة ومکروھة وحسنة و سیئه
با اعتبار لغت بدعت کی درج ذیل اقسام ہیں، بدعت مباحہ، بدعت مکروہہ،بدعت حسنہ اور بدعت سیئہ (ہدیہ المھدی 117)

آگے حسن بھوپالی کا قول نقل کرتے ہوئے لکھتے ہیں
والتی لا ترفع شیئا منھا فلیست من البدعة بل ھی مباح الاصل
(ہدیة المہدی ،117)
جس بدعت سے کسی سنت کا رد نہ ہو وہ بدعت نہیں بلکہ وہ اپنی اصل میں مباح ہے
 
شمولیت
مارچ 08، 2018
پیغامات
36
ری ایکشن اسکور
0
پوائنٹ
12
بعض بدعتی کہتے ہیں کہ لا یصح "یہ روایت صحیح نہیں ہے۔" سے یہ لازم نہیں آتا کہ یہ "حسن " بھی نہیں ہے، یہ ان کے اپنے منہ کی بات ہے، ہمیں اس روایت کی سند درکار ہے، جسے پیش کرنے سے بدعتی لوگ قاصر رہتے ہیں۔
بعض نجدی تیمیی امام سخاوی کے "لا یصح" کا مطلب بدعت سمجھتے ہیں. یہ بس ان کی اپنے عقل کی بات ہے.
اگر کوئی شخص اپنے والد کے نام سن کر انگوٹھا چومتا ہو تو اس شخص پر کیا حکم ہے؟ کیا وہ بدعتی ہے؟ اگر ہے تو اس نے دین میں کون سا اضافہ کیا؟
"انگوٹھے چومنا" دین میں بدعت تب ہوتی جب کوئی اسے فرض یا واجب قرار دیتا اور دین میں اضافہ ہوتا سمجھا جاتا،
جب کوئی اسے فرض واجب کہتا ہی نہیں بس عقیدتا ایسا کرتا ہے تو اس میں بدعت کیا ہے؟
بدعت کی تعریف کیا ہے؟
 

Hina Rafique

رکن
شمولیت
اکتوبر 21، 2017
پیغامات
282
ری ایکشن اسکور
18
پوائنٹ
75
بسم اللہ الرحمان الرحیم:
"نیک کام ہی بدعت ہوتا ہے":
الله فرماتا ہے:
(نصاریٰ نے) رہبانیت کی بدعت نکالی حالانکہ ہم نے اس رہبانیت کو ان پر فرض نہیں کیا تھا (حدید-٢٧)
اس آیت سے معلوم ہوا کے رہبانیت پہلے سے موجود نہیں تھی اور نہ ہی الله نے اس کے لیے کوئی حکم دیا تھا ،بعد میں نصاریٰ نے اسے ایجاد کیا الله نے اس ایجاد کو بدعت کہا ہے-لہذا اس آیت سے ثابت ہوا بدعت وہ نیا کام ہے جو پہلے سے قران و سنّت میں موجود نہ ہو-
صلی الله عليه وسلم فرماتے ہیں:
جس نے ہمارے اس "امر" میں کوئی نیا کام نکالا تو وہ نیا کام نہ مقبول اور مسترد کردیا جائیگا(صحیح بخاری،،صحیح مسلم)
الله اور اس کے رسول کا "امر"(یعنی حکم) دین اسلام ہے-لہذا حدیث کا مطلب یہ ہوا کہ "دین میں جو نیا کام نکالا جائے تو وہ مقبول نہیں ہوگا"
دوسری حدیث کے الفاظ اس طرح ہیں:
"جس نے ایسا عمل کیا جس پہ ہمارا "امر" نہ ہو تو وہ عمل مسترد کردیا جائیگا"
(صحیح مسلم)
"امر" کے معنیٰ "حکم" کے بھی ہیں اور "فعل" کے بھی-
جب امر کے معنیٰ حکم ہوتے ہیں تو اسکی جمع اوامر ہوتی ہے -اور جب امر کے معنیٰ کام ہو تو اسکی جمع امور ہوتی ہے لہذا حدیث کا مطلب یہ ہوا کہ جسنے ایسا کوئی عمل کیا جسکی تائید میں میں رسول الله صلی الله عليه وسلم کا حکم یا فعل نہ ہو تو وہ عمل مردود ہے نا مقبول ہے -
جو لوگ خودساختہ حدیث (بدعت)کی تاویل کرتے ہیں کہ یہ سب تو نا مقبول برے کام کو کہا ہے نیک کام توصحیح ہے۔ ان لوگوں کو غور کرنا چاہئیے کہ ۔۔۔۔
برے کام کو قبول کرنے یا نہ کرنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کیونکہ برا کام نیا ہو یا پرانا ہر حال میں نا مقبول ہے -الله اور اس کے رسول کا کلام مہمل نہیں ہوسکتا لہذا حدیث میں بدعت سےمراد برا کام نہیں لیا جاسکتا قبول ہونے یا نا ہونے کا سوال تو صرف نیک کام کے لیے ہوسکتا ہے، لہذا اس حدیث کی رو سے اگر کوئی بدعت قبول نہیں ہوئی تو ظاہر ہے کہ وہ بدعات نیک کام ہوگی-
ملاحظہ ہو -
انس رض فرماتے ہیں کے تین آدمیوں نے رسول الله صلى الله عليه وسلم کی عبادت کے متعلق سوال کیا-جب انہیں رسول الله صلى الله عليه وسلم کی عبات کی تفصیل بتائ گئ تو انہوں نے اس عبادت کو اپنے حق میں کم سمجھا اوررسول صلى الله عليه وسلم سےزیادہ عبادت کرنے کا ارادہ کیا،
ایک نے کہا:
میں ہمیشہ تمام رات عبادات کرنگا،
دوسرے نے کہا :
میں ہمیشہ روزہ رکھوں گا کبھی افطار نہیں کروں گا،
تیسرے نے کہا:
میں عورتوں سے علیحدہ رہوں گا،کبھی نکاح نہیں کروں گا،
ان لوگوں کی یہ بات آپ صلى الله عليه وسلم کومعلوم ہوئیں آپ ان کے پاس تشریف لائے اورفرمایا:
"تم ہی لوگ ہو جنہوں نےاس اس طرح کہا ہے ،الله کی قسم میں تم سب سے زیادہ متقی ہوں اور سب سے زیادہ الله سے ڈرنے والا ہوں لیکن میں روزے بھی رکھتا ہوں اور افطار بھی کرتا ہوں،نماز بھی پڑھتا ہوں اور سوتا بھی ہوں اور میں عورتوں سے نکاح بھی کرتا ہوں لہذا جو شخص میری سنّت سے بےرغبتی کرے وہ مجھ سے نہیں (صحیح بخاری،صحیح مسلم )
ان تین آدمیوں نے جن کاموں کا ارادہ وہ یقینا نیک کام تھے اور خلوص نیت پر ہی مبنی تھے اس کے باوجود رسول الله صلى الله عليه وسلم نے خفگی کا اظہار فرمایا اور سنّت سے زائد کام کرنے سے روک دیا-بلکہ سنّت سے زیادہ کام کرنے والے سے اپنی لا تعلقی اور بیزاری کا اظہار فرمایا
اس حدیث سے یہ واضح ہوتا ہے کہ کتنا ہی نیک کام ہواگر وہ سنّت سے زائد ہے ہو تو مردود ہے.اس کے کرنے سے ثواب تو دور کی بات بلکہ اپنے لیے نیکی برباد گناہ لازم کا مصداق ہوگا
خلاصہ یہ ہوا کے سنّت سے زائد جتنے کام ہیں وہ بدعت ہیں چاہے نیت کتنی ہی نیک کیوں نہ ہو اور کام جتنا بھی نیک ہو اگر اسکا قرآن و سنّت میں کوئی وجود نہیں وہ بدعت ہے.
الله ہمیں قرآن و سنّت کے مطابق زندگی گزارنے والا بنا نے.. آمین
 

Hina Rafique

رکن
شمولیت
اکتوبر 21، 2017
پیغامات
282
ری ایکشن اسکور
18
پوائنٹ
75
کیا ثواب کی نیت سے دین میں اضافہ کرنا جائز ہے؟ ؟؟؟؟؟
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,589
پوائنٹ
791
اردو میں صحیح لفظ "پٹنی" ہے۔
جزاکم اللہ خیراً
میرے علم میں ہے ، کیونکہ فقیر کے پاس شیخ محمد طاہرؒ پٹنی کی " مجمع بحارالانوار " عرصہ پندرہ ،سولہ سال سے موجود ہے ،
جہاں سے آپ نے اقتباس لیا ہے وہاں میں ایک فتویٰ کی عبارت کاپ ،پیسٹ کی تھی ، یعنی وہ تحریر میری نہیں تھی ،
زرقانی مالکی اور محمد طاہر فتنی حنفی نے ان احادیث کو لا یصح لکھا ہے اور لفظ لا یصح کا بمعنے ثابت نہ ہونے کے آتا ہے، چنانچہ علامہ محمد طاہر پٹنی نے اپنے تذکرہ میں لکھا ہے
ـــــــــــــــــــ
شیخ محمد اکرام لکھتے ہیں:

"شیخ علی متقی کے شاگردوں میں محمد بن طاہر پٹنی تھے۔ جنہوں نے اپنے استاد کی پیروی میں مخالفت بدعت کے لئے اپنی زندگی وقف کر دی اور بالآخر اسی کوشش میں شہید ہوئے" (رود کوثر)

شیخ محمد بن طاہرؒ سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع و اشاعت اور بدعات کی تردید میں خاص شہرت و امتیاز رکھتے تھے اور اس معاملہ میں بڑے سرگرم تھے۔ ان کی بویرہ قوم جن سے شیخ کا تعلق تھا، دو گروہوں میں منقسم تھی۔ ایک سُنی گروہ، اور دوسرا شیعہ گروہ اور ان دونوں میں بدعات کا بہت رواج ہو گیا تھا۔ اور اس کے ساتھ فرقہ مہدویت کا بھی بہت اثر و رسوخ بڑھ گیا تھا۔ چنانچہ شیخ محمد بن طاہرؒ نے ان سب بدعات کا قلع قمع کرنے کا بیڑا اٹھایا اور احیاء سنت نبوی کے لئے کمربستہ ہو گئے۔
مولانا اصلاحی لکھتے ہیں:
"شیخ محمد بن طاہر وعظ، تقریر، تحریر ہر طریقہ سے قوم کی اصلاح اور بدعت و مہدویت کے استیصال پر کمر بستہ ہو گئے۔ عقلی و نقلی ہر قسم کی دلیلوں سے عقائد حقہ کا اثبات کیا اور عقائد باطلہ کی تردید کی" (تذکرۃ المحدثین، ج3 ص 147)
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,589
پوائنٹ
791
شیخ محمدطاہرؒ کا مولود ساکن پٹن تھا جو گجرات کا قدیم دارالخلافہ تھا۔ (مقالات سلیمان، ج2 ص 18 )

سفر حرمین شریفین

944ھ میں شیخ محمدبن طاہرؒ اپنے وطن گجرات میں تعلیم مکمل کرنے کے بعد عازم حرمین شریفین ہوئے اس وقت شیخ کی عمر 30 سال تھی۔ سب سے پہلے حج بیت اللہ سے مشرف ہوئے۔ اس کے بعد مدینہ منورہ جا کر مسجد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت کی۔ اس کے بعد مکہ معظمہ واپس آ کر علماء و مشائخ سے استفادہ کیا۔ ( ماثر الکرام، ج1 ص 194)

تصنیفات

شیخ محمدبن طاہر درس و تدریس کے ساتھ ساتھ تصنیف و تالیف میں بھی مشغول رہے۔ شیخ فطری مصنف تھے۔ اس لئے ان کی تمام تصانیف بہت عمدہ جامع، علمی اور تحقیقی ہیں۔ فن حدیث سے ان کو زیادہ شغف تھا اور اس موضوع پر ان کی کتابیں بے نظیر اور عظیم الشان ہیں۔ جن کی مقبولیت، اہمیت اور آفادیت میں اب بھی فرق نہیں آیا اور ان کتابوں سے صرف برصغیر کے اہل علم ہی فیض یاب نہیں ہو رہے بلکہ عالم اسلام کے اہل علم بھی ان کتابوں سے مستفیض ہو رہے ہیں۔

شیخ محمد طاہر نے جو کتابیں تصنیف کی ہیں۔ ان کی تعداد تو صحیح معلوم نہیں مگر مولانا ضیاء الدین اصلاحی نے ان کی 31 کتابوں کے نام لکھے ہیں (23) جن میں چند مشہور کتابوں کے ناموں پر اکتفا کرتا ہوں۔


(1)چہل حدیث، (2) حاشیہ صحیح بخاری، (3) حاشیہ صحیح مسلم، (4) حاشیہ مشکوۃ المصابیح، (5) حاشیہ توضیح و تلویح، (6) خلاصۃ الفوائد، (7) دستور الصرف، (8) سوانح نبوی (عربی) آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی مختصر سیرت، (9) سوانح نبوی (فارسی) آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی مختصر سیرت، (10) مختصر اتقان (علامہ سیوطی کی اتقان کا مختصر، (11) نصاب البیان (علم معانی میں) (12) لسان المیزان (علم منطق میں)
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
علامہ سید سلیمان ندوی لکھتے ہیں:
"ہندوستان واپس آ کر بویرہ قوم کو اہل سنت بنانے کے لئے کوشش بلیغ کی کہ اسی راہ میں 986ء اجین کے قریب قصبہ سارنگ پور میں شہادت پائی" (مقالات سلیمان، ج2 ص 18)
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
 

عمر اثری

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 29، 2015
پیغامات
4,404
ری ایکشن اسکور
1,137
پوائنٹ
412
اردو میں صحیح لفظ "پٹنی" ہے۔
جزاکم اللہ خیرا!
یہ بات علم میں تھی لیکن اپنی ایک تحریر میں فتنی ہی لکھ دیا تھا۔ آپ کے توجہ مبذول کرانے پر الحمد للہ تصحیح کی۔ بارک اللہ فیکم۔
 
شمولیت
مارچ 08، 2018
پیغامات
36
ری ایکشن اسکور
0
پوائنٹ
12
کیا ثواب کی نیت سے دین میں اضافہ کرنا جائز ہے؟ ؟؟؟؟؟
دین میں اضافہ سے آپ کی کیا مراد ہے؟
میرے نزدیک دین میں اضافہ یعنی دین میں سنت کے مقابلے میں کوئی کام کرنا جس سے سنت رد ہو.
یا کسی کام کو دین میں ضروری قرار دے دینا یعنی اس کام کو فرض یا واجب قرار دے دینا چاہے ضرورت کے تحت ہو چاہے بلاضرورت
دوسرے معنیوں میں کسی قول یا عمل کو ایسا سمجھ لینا یا بتانا جس کے بغیر دین مکمل نہ ہوتا ہو اور وہ اصلا نہ سنت ہو اور نا ہی شریعت میں اس کی فرضیت پر کوئی دلیل ہو.
اس کے برعکس دوسرے کام جیسے قرآن مقدس کے پارے خرید کر تقسیم کرنا، قبر پر پھول رکھنا جس سے عوام فائدہ اٹھائے، بطور ضرورت دعوتِ ایصال ثواب کے لئے وقت متعین کرنا تاکہ عوام کو جمع ہونے میں آسانی ہو یہ سب احسن اعمال ہیں بدعت نہیں، بدعت ہونے کے لئے شرط ہے کہ وہ کسی سنت کا رد کرے اور ان کاموں کو جب تک کوئی فرض یا واجب نہ سمجھ لے نہ ہی یہ بدعت ہوگا نہ ہی اس سے دین میں اضافہ سمجھا جاتا ہے.

اسی طرح انگوٹھے چومنے کا مسئلہ بھی ہے، یہ کام کسی سنت یا شرعی قاعدے کے خلاف نہیں نہ ہی اس سے دین کا کوئی نقصان ہے بلکہ یہ رواج کے معنیوں میں ہے دین سمجھ کر کوئی نہیں چومتا اور نہ ہی چومنے والی کسی متعن ثواب کی امید کرتا ہے.
آپ کسی کام کو بدعت کہیں یا منع یا ناجائز کہیں تو باقاعدہ دلیل دیں کہ اس بات پر شریعت نے کہاں منع کیا ہے. کسی کام کے جائز ہونے کے لئے یہی دلیل کافی ہے کہ شریعت میں اس سے منع نہیں کیا، شریعت کے سکوت کا مطلب منع نہیں ہوتا جیسا کہ بعض جہلاء سمجھتے ہیں.
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,589
پوائنٹ
791
کسی کام کے جائز ہونے کے لئے یہی دلیل کافی ہے کہ شریعت میں اس سے منع نہیں کیا، شریعت کے سکوت کا مطلب منع نہیں ہوتا جیسا کہ بعض جہلاء سمجھتے ہیں.
یہ اصول یا قاعدہ آپ نے ایجاد فرمایا ہے یا کسی حکیم کے نسخہ سے کشید کیا ہے کہ
"کسی کام کے جائز ہونے کے لئے یہی دلیل کافی ہے کہ شریعت میں اس سے منع نہیں کیا "
جبکہ مقلدین کیلئے " مثل قرآن " کتاب ھدایہ میں صاف لکھا ہے کہ :
نماز عید سے پہلے نفل نہیں پڑھنے چاہیئں کیونکہ رسول اکرم ﷺ نے نہیں پڑھے (حالاں کہ منع بھی نہیں کیا )
" ولا يتنفل في المصلى قبل صلاة العيد " لأن النبي صلى الله عليه وسلم لم يفعل ذلك )
ـــــــــــــــــــــــــــــ
اب ھدایہ کتاب مرتب کرنے والے کو کوئی بریلوی عالم نہیں مل سکا جو اسے یہ بتاتا کہ (اگر نبی مکرم ﷺ نے نہیں پڑھے ،تو منع بھی نہیں کیا ) ؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 
Top