• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

نبی اپنی قبروں میں زندہ ہیں اور رزق کھاتے ہیں ، با دلائل

شمولیت
جون 11، 2014
پیغامات
84
ری ایکشن اسکور
17
پوائنٹ
15
نبی اپنی قبروں میں زندہ ہیں اور رزق کھاتے ہیں ، با دلائل

عقیدہ حیات النبیؐ کے دلائل

عقیدہ حیات الانبیاء قرآن حکیم میں
قرآن حکیم میں بیشتر مقامات پر حیات الانبیاء کا ثبوت( اشارة النص، دلالة النص اور اقتضا النص)ملتا ہے۔ ان تمام آیات کا احصاءمشکل بھی ہے اور موجب طول بھی۔ اس لئے اختصار کی غرض سے چند آیات کے ذکر پر اکتفا کیا جاتا ہے۔
۱۔واسل من ارسلنا من قبلک من رسلنا اجعلنا من دون الرحمن الھة یعبدون(پارہ25۔ آیت45 الزخرف)
ترجمہ: اور آپ ان پیغمبروں سے جن کو ہم نے آپ سے پہلے بھيجا ہے پوچھ لیجئے کہ کیا ہم نے خدائے رحمن کے سوا دوسرے معبود ٹھہرا دئیے تھے کہ ان کی عبادت کرو۔
اس آیت کی تفسیر میں مفسرین نے فرمایا ہے کہ آیت میں انبیا ءعلہیم الصلوة والسلام کی حیات پر استدلال کیا گیا ہے۔ چنانچہ محدث العصر حضرت مولانا سید انور شاہصاحب فرماتے ہیں ۔ یستدل به علی حیات الانبیاء (مشکلات قرآن ص 234) وھذا فی دار المنشور (جلد ۲ ص۱۶)، روح المعانی جلد 5ص89، جمل جلد 4ص88، شیخ زادہ جلد7ص298، حقاجی جلد7ص444، تفسیرمظہری جلد8ص353، تفسیر جلالین ص408،تفسیر بغوی جلد4ص141،
۲۔ ولقد اتنیا موسی الکتبفلا تکن فی مریة من لقائہ(پارہ21، آیت 43 الم سجدہ)
ترجمہ: اور دی ہم نے موسی کو کتاب اس کے ملنے میں شک میں نہ رہنا ۔
حضرت شاہ عبد القادر صاحب ؒ نے اس تفسیر میں فرمایا ہے کہ معراج میں ان سے ملے تھے۔ موضح القرآن، تفسیر ابن عباس، تفسیر جلالین ص350،تفسیر خازن جلد 3ص479، اور ملاقات بغیر حیات ممکن نہیں۔ لہٰذا اقتضاء النص سے حیات الا نبیاءکو ثبوت ملتا ہے۔ یہاں اصول فقہ کا یہ مسلمہ بھی پیش نظر رہنا چاہیے کہ جو حکم اقتضا النص سے ثابت ہوتا ہے وہ بحالت انفراد وقوت استدال میں عبارة النص کے مثل ہوتا ہے۔
۳۔ ولا تقولو لمن یقتل فی سبیل اﷲ اموات بل احیاء ولکن لا تشعرون(پارہ۲۔ آیت 154البقرہ)
ترجمہ:اور مت کہو تم ان لوگوں کے بارے میں جو مارے جائیں اللہ کی راہ میں، کہ وہ مردہ ہیں، (کہ ایسے لوگ حقیقت میں مردہ نہیں) بلکہ وہ زندہ ہیں، مگر تم لوگ (ان کی اس زندگی کا) شعور نہیں رکھتے.[البقرہ:١٥٤]

وَ لَا تَحۡسَبَنَّ الَّذِیۡنَ قُتِلُوۡا فِیۡ سَبِیۡلِ اللّٰہِ اَمۡوَاتًا ؕ بَلۡ اَحۡیَآءٌ عِنۡدَ رَبِّہِمۡ یُرۡزَقُوۡنَ . فَرِحينَ بِما ءاتىٰهُمُ اللَّهُ مِن فَضلِهِ وَيَستَبشِرونَ بِالَّذينَ لَم يَلحَقوا بِهِم مِن خَلفِهِم أَلّا خَوفٌ عَلَيهِم وَلا هُم يَحزَنونَ . يَستَبشِرونَ بِنِعمَةٍ مِنَ اللَّهِ وَفَضلٍ وَأَنَّ اللَّهَ لا يُضيعُ أَجرَ المُؤمِنينَ.[آل عمران:١٦٩-١٧١]

ترجمہ:اور تو نہ سمجھ ان لوگوں کو جو مارے گئے اللہ کی راہ میں مردے بلکہ وہ زندہ ہیں اپنے رب کے پاس کھاتے پیتے. خوشی کرتے ہیں اس پر جو دیا ان کو اللہ نے اپنے فضل سے اور خوش وقت ہوتے ہیں انکی طرف سے جو ابھی تک نہیں پہنچے ان کے پاس ان کے پیچھے سے اس واسطے کہ نہ ڈر ہے ان پر اور نہ انکو غم. خوش وقت ہوتے ہیں اللہ کی نعمت اور فضل سے اور اس بات سے کہ اللہ ضائع نہیں کرتا مزدوری ایمان والوں کی.
عَنْ عَبدِ اللَّهِ ، قَالَ : لَأَنْ أَحْلِفَ تِسْعًا ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ " قُتِلَ قَتْلًا ، أَحَبُّ إِلَيَّ مِنْ أَنْ أَحْلِفَ وَاحِدَةً أَنَّهُ لَمْ يُقْتَلْ ، . وَذَلِكَ بِأَنَّ اللَّهَ جَعَلَهُ نَبِيًّا ، وَاتَّخَذَهُ شَهِيدًا "
[
مسند أحمد بن حنبل» مُسْنَدُ عبد الله بن مسعود رَضِيَ اللَّهُ تَعَالَى ...رقم الحديث: 3742 ؛ المستدرك على الصحيحين: 3/57، 4332 ؛دلائل النبوة للبيهقي:3102]
ترجمہ:حضرت عبداللہ بن مسعود رضی الله انہ سے روایت ہے کہ : مجھے رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کے قتل پر نو (٩) قسمیں کھانا اس سے زیادہ پسند ہے کہ ان کے قتل نہ ہونے پر ایک (١) قسم کھاؤں، اس لئے کہ الله نے آپ کو نبی بھی بنایا اور شہید بھی.[مسند أحمد: 3742؛ المستدرك الحاکم: 3/57، 4332 ؛دلائل النبوة للبيهقي:3102]
أَخْبَرَنِي أَبُو بَكْرٍ أَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ يَحْيَى الأَشْقَرُ ، ثنا يُوسُفُ بْنُ مُوسَى الْمَرْوَزِيُّ ، ثنا أَحْمَدُ بْنُ صَالِحٍ ، ثنا عَنْبَسَةُ ، ثنا يُونُسُ ، عَنِابْنِ شِهَابٍ ، قَالَ : قَالَ عُرْوَةُ : كَانَتْ عَائِشَةُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا تَقُولُ : كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَآلِهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ فِي مَرَضِهِ الَّذِي تُوُفِّيَ فِيهِ : " يَا عَائِشَةُ ، إِنِّي أَجِدُ أَلَمَ الطَّعَامِ الَّذِي أَكَلْتُهُ بِخَيْبَرَ ، فَهَذَا أَوَانُ انْقِطَاعِ أَبْهَرِي مِنْ ذَلِكَ السُّمِّ " . هَذَا حَدِيثٌ صَحِيحٌ عَلَى شَرْطِ الشَّيْخَيْنِ ، وَقَدْ أَخْرَجَهُ الْبُخَارِيُّ ، فَقَالَ : وَقَالَ يُونُسُ .[المستدرك على الصحيحين: 3/56، 4331 ؛ السنن الكبرى للبيهقي: 10/9، 18146؛دلائل النبوة للبيهقي: 3101]
ترجمہ:حضرت عائشہ رضی الله عنہا سے مروی ہے کہ جس بیماری میں رسول الله صلی الله علیہ وسلم کا انتقال ہوا، اس میں آپ فرماتے تھے کہ مجھے اس کھانے کا زہر جو میں نے خیبر میں کھایا تھا برابر محسوس ہوتا رہا یہاں تک کہ اب وہ وقت قریب آگیا ہے کہ اس زہر سے میری شہہ رگ کٹ جاۓ.[المستدرك على الصحيحين: 3/56، 4331 ؛ السنن الكبرى للبيهقي: 10/9، 18146 ؛دلائل النبوة للبيهقي: 3101]
600 کے قریب کتب کے مصنف علامہ جلال الدین سیوطیؒ الشافعی(۸۴۹–۹۱۱ ھہ) فرماتے ہیں : قال
البيهقي في كتاب الاعتقاد : الأنبياء بعدما قبضوا ردت إليهم أرواحهم فهم أحياء عند ربهم كالشهداء ، وقال القرطبي في التذكرة في حديث الصعقة نقلا عن شيخه : الموت ليس بعدم محض ، وإنما هو انتقال من حال إلى حال ، ويدل على ذلك أن الشهداء بعد قتلهم وموتهم أحياء يرزقون فرحين مستبشرين وهذه صفة الأحياء في الدنيا ، وإذا كان هذا في الشهداء فالأنبياء أحق بذلك وأولى، وقد صح أن الأرض لا تأكل أجساد الأنبياء ، وأنه صلى الله عليه وسلم اجتمع بالأنبياء ليلة الإسراء في بيت المقدس وفي السماء ، ورأى موسى قائما يصلي في قبره وأخبر صلى الله عليه وسلم بأنه يرد السلام على كل من يسلم عليه ، إلى غير ذلك مما يحصل من جملته القطع بأن موت الأنبياء إنما هو راجع إلى أن غيبوا عنا بحيث لا ندركهم وإن كانوا موجودين أحياء ، وذلك كالحال في الملائكة فإنهم موجودون أحياء ولا يراهم أحد من نوعنا إلا من خصه الله بكرامته من أوليائه ، انتهى[أنباء الأذكياء في حياة الانبياء، الحاوي للفتاوي للسيوطي]
ترجمہ:امام بیہقی نے "کتاب الاعتقاد" میں بیان کیا ہے کہ انبیاء علیہ السلام کی روحیں وفات کے بعد پھر ان کی اجسام میں واپس کردی گئیں چنانچہ وہ اپنے رب کے پاس شہیدوں کی طرح زندہ ہیں. امام قرطبی نے "تذکرہ" میں حدیث صعقه کے متعلق اپنے شیخ سے یہ قول نقل کیا ہے کہ "موت عدم محض کو نہیں کہتے بلکہ وہ خاص ایک حال سے دوسرے حال کی طرف منتقل ہونے کا نام ہے، اس کا ثبوت یہ ہے کہ شہید لوگ اپنے قتل وموت کے بعد زندہ رہتے ہیں، روزی دیے جاتے ہیں ، ہشاش بشاش رہتے ہیں اور یہ صفت دنیا میں زندوں کی ہے اور جب یہ حال شہداء کا ہے تو انبیاء علیہ السلام بدرجہ اولیٰ اس کے مستحق ہیں. یہ بات بھی پایۂ صحت کو پہنچ چکی ہے کہ زمین انبیاء کرامؑ کے اجسام کو نہیں کھاتی، نیز آنحضرتؐ نے شب معراج میں انبیاءؑ سے بیت المقدس اور آسمان پر ملاقات کی اور حضرت موسیٰؑ کو دیکھا کہ اپنی قبر میں کھڑے نماز پڑھ رہے ہیں اور خود آپؐ نے فرمایا کہ"جو شخص مجھ پر سلام بھیجے گا ، میں اس کو اس کے سلام کا جواب دوں گا". اس کے علاوہ اور بھی روایات ہیں. ((ان سب کے مجموعہ سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ انبیاءؑ کی موت کا مآل صرف یہ ہے کہ وہ ہم سے اس طرح غائب ہیں کہ ہم ان کو نہیں پاسکتے گو زندہ وموجود ہیں اور ان کا حال فرشتوں کے جیسا ہے کہ وہ زندہ وموجود ہیں ہم میں سے کوئی ان کو نہیں دیکھتا بجز ان اولیاء کرامؒ کے جن کو الله تعالیٰ نے اپنی کرامات کے ساتھ مخصوص فرمایا ہے)).
آپ یہ بھی فرماتے ہیں :
حياة النبي صلى الله عليه وسلم في قبره هو وسائر الأنبياء معلومة عندنا علما قطعيا لما قام عندنا من الأدلة في ذلك وتواترت [به] الأخبار ، وقد ألف البيهقي جزءا في حياة الأنبياء في قبورهم ، فمن الأخبار الدالة على ذلك
[الحاوي للفتاوي» الفتاوى الحديثية» كتاب البعث» مبحث النبوات» تزيين الآرائك في إرسال النبي صلى الله عليه وسلم إلى الملائك» أنباء الأذكياء بحياة الأنبياء ... ٢/١٣٩]
ترجمہ: نبی اقدس (صلی الله علیہ وسلم) کی اور دوسرے انبیاء (علیھم السلام) کی قبر میں حیات ہونا ہمیں یقینی طور پر معلوم ہے، اس لئے کہ ہمارے نزدیک اس پر دلائل قائم ہیں اور اس مسئلہ پر اور اس مسئلہ پر دلالت کرنے والی روایات ہمارے نزدیک متواتر ہیں.


اس آیت کے بارے میں حافظ ابن حجر عسقلانی ؒ نے فرمایا
و اذا ثبت انہم احیاءمن حیث النقل فانہ یقولہ من حیث النظر کون الشہداء احیاء بنص القرآن والانبیاء افضل من الشھداء (فتح الباری جلد 6ص379)
٤. وَلَوْ أَنَّهُمْ إِذْ ظَلَمُوا أَنْفُسَهُمْ جَاءُوكَ فَاسْتَغْفَرُوا اللَّهَ وَاسْتَغْفَرَ لَهُمُ الرَّسُولُ، (النساء :64)
اس آیت کی تفسیر میں امام قرطبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں : عن علی رضی اللہ عنہ قال قدم علینا اعرابی بعد مادفنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بثلاثۃ ایام فرمی بنفسہ علی قبر رسول ،وحثا علی راسہ من ترابہ فقال قلت یارسول اللہ: فسمعنا قولک ووعیت عن اللہ فوعیناعنک وکان فیہا انزل اللہ علیک وَلَوْ أَنَّهُمْ إِذْ ظَلَمُوا أَنْفُسَهُمْ الخ وقد ظلمت نفسی وجئتک تستغفرلی، فنودی من القبر انہ قد غفر لک (الجامع الاحکام القرآن ج5ص255)
یعنی حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دفن کرنے کے 3دن بعد ایک دیہاتی آیا اور قبر پر گر کر سر پر مٹی ڈال کر عرض کیا کہ اے اللہ کے رسول ،ہم نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بات سنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تعالی سے اور ہم نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے محفوظ کیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر "وَلَوْ أَنَّهُمْ إِذْ ظَلَمُوا أَنْفُسَهُمْ الخ"نازل ہوئی اور یقیناً میں نے اپنی جان پر ظلم کیا ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا ہوں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم میرے لیے استغفار کریں تو قبر مبارک سے آواز آئی کہ تیری بخشش کردی گئی۔ حضرت علی فرماتے ہیں کہ روضہ منورہ سے آنے والی آواز وہاں پر موجود سب لوگوں نے سنی۔ حضرت علی کی یہ روایت علامہ ابو حسان اندلسی، البحرالمحیط جلد 1ص283 ، علامہ سمہودی نے وفا الوفا میں خلاصتہ الوفا ص51، او علامہ قرطبی نے اپنی تفسیر جلد1ص265، میں نقل فرماتے ہیں۔ اس کے علاوہ تفسیر معارف القرآن، تفسیر ابن کثیر جلد3ص142، تفسیر مدارک جلد1ص265، میں بھی درج ہے۔ حضرت قاسم نانوتوی نے اس آیت شریفا کی تفسیر میں جاوک (یعنی اگر گناہگار آپ ﷺ کے پاس حاضر ہوں) کو عام رکھا ہے۔فرماتے ہیں ولو انہم اذ ظلمو انفسہم جاوک ........ الخکیونکہ اس میں کسی کی تخصیص ہو تو کیونکر ہو۔ آپ ﷺ کا وجود باجود ترتیب تمام امت کے لئے یکساں رحمت ہے۔ کہ پچھلے امتیوں کا آپ کی خدمت میں آنا اور استغفار کرنا اور کرانا جب ہی متصور ہے کہ آپﷺ قبر میں زندہ ہوں۔ (آب حیات ص40)
مفتی اعظم پاکستان حضرت مولانا مفتی محمد شفیع عثمانی رحمہ اللہ اسی آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں : اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضری جیسے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی دنیوی حیات کے زمانہ میں ہوسکتی تھی ،اسی طرح آج بھی روضہ اقدس پر حاضری اسی حکم میں ہے…… اس کے بعد حضرت نے درج بالا واقعہ بحوالہ تفسیر بحر محیط ذکر فرمایا ہے۔ (معارف القرآن ج2ص459،460)
اسی طرح اسی آیت کے تحت علامہ ابن کثیر رحمہ اللہ نے علامہ عتبی رحمہ اللہ کا واقعہ درج کیا ہے کہ ایک شخص نے آکر قبر مبارک پر استشفاع کیا توخواب میں علامہ عتبی رحمہ اللہ کو نبی علیہ السلام کی زیارت ہوئی کہ اس شخص کو بشارت دے دو کہ اللہ تعالی نے اس کی مغفرت فرمادی۔ (تفسیر ابن کثیر ج2ص315)
۵۔ وَاسْئَلْ مَنْ أَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِكَ مِنْ رُسُلِنَا (الزخرف:45)
کے تحت حضرت مولانا علامہ سید انور شاہ کشمیری رحمہ اللہ لکھتے ہیں : یستدل بہ علی حیوۃ الانبیاء (مشکلات القرآن ص234)
یعنی اس سے حیات الانبیاء پر دلیل پکڑی گئی ہے۔


وَمَا كَانَ لَكُمْ أَنْ تُؤْذُوا رَسُولَ اللَّهِ وَلَا أَنْ تَنْكِحُوا أَزْوَاجَهُ مِنْ بَعْدِهِ أَبَدًا (الاحزاب :53)
کی تفسیر میں علامہ قاضی ثناء اللہ پانی پتی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
قلت وجاز ان يكون ذلك لاجل ان النبي صلى اللّه عليه وسلم حىّ فى قبره ولذلك لم يورث ولم يتئم أزواجه عن أبى هريرة قال قال رسول اللّه صلى اللّه عليہ وسلم من صلى علىّ عند قبرى سمعته ومن صلّى علىّ نائيا أبلغته رواه البيهقي فى شعب الايمان. (تفسیر مظہری ج7ص408)
یعنی میں [مفسر علام رحمہ اللہ]کہتا ہوں کہ ازواج مطہرات سے نکاح حرام ہونے کی یہ وجہ بھی ہوسکتی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی قبر شریف میں زندہ ہیں۔اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے مال کا کوئی وارث نہیں ہوتا۔ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیویاں بیوہ نہیں ہوتیں۔حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو آدمی میری قبر کے نزدیک مجھ پر درود عرض کرے گا میں اسے بنفس نفیس سنوں گااور جو دور سے پڑھے گا تو وہ مجھے پہنچایا جائیگا۔اس حدیث کو امام بیہقی رحمہ اللہ نے شعب الایمان میں روایت کیا ہے۔
اسی طرح اسی آیت کی تفسیر کے تحت حضرت اقدس مولانامفتی محمد شفیع عثمانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد ازواج مطہرات سے نکاح حرام ہے۔ (اس کی دو جہیں ہیں۔ از ناقل)وہ بنص قرآن مومنوں کی مائیں ہیں ……اور دوسری وجہ یہ کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم وفات کے بعد اپنی قبر شریف میں زندہ ہیں۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا درجہ ایسا ہے جیسے کوئی زندہ شوہر گھر سے غائب ہو۔(تفسیر معارف القرآن ج7ص203)
اسی طرح اسی آیتکی تفسیر میں مفسر قرآن حضرت مولانا علامہ شبیراحمد عثمانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں : اس مسئلہ کی نہایت بحث حضرت مولانامحمد قاسم نانوتوی قدس سرہ کی کتاب آب حیات میں ہے۔انتہی کلامہ اور آب حیات کس مسئلہ پر لکھی گئی اہل مطالعہ پر یہ مخفی نہیں۔

٦.مَا كَانَ مُحَمَّدٌ أَبَا أَحَدٍ مِنْ رِجَالِكُمْ وَلَكِنْ رَسُولَ اللَّهِ وَخَاتَمَ النَّبِيِّينَ (الاحزاب:40)
اس آیت کی تفسیر میں علامہ آلوسی رحمہ اللہ ،علامہ جلال الدین سیوطی رحمہ اللہ کا یہ قول بلا نکیر نقل فرماتے ہیں: فحصل من مجموع ھذاالکلام النقول والاحادیث ان النبی صلی اللہ علیہ وسلم حی بجسدہ وروحہ (روح المعانی ج22ص36)
یعنی اس تمام کلام سے یہ بات حاصل ہوئی کہ نقول واحادیث کے مطابق نبی علیہ السلام اپنے جسد اور روح کے ساتھ زندہ ہیں۔پھر آگے مزید لکھتے ہیں:
والمرئی اماروحہ علیہ الصلاۃ والسلام التی ہی اکمل الارواح تجردا وتقدسابان تکون قد تطورت وظہرت بصورۃ مرئیۃ بتلک الرویۃ مع بقاء تعلقہا بجسدہ الشریف الحی فی القبر السامی المنیف (ایضاًج22ص37)
جس کا خلاصہ یہ ہے کہ نظر آنے والی یا تو روح مقدس ہوگی جو کہ تمام روحوں سے مقدس ہے۔ لیکن اس کاتعلق قبر شریف میں جسد مبارک سے ہوگا جو کہ زندہ ہے۔مزید ارقام فرماتے ہیں:
وقد الف البیہقی جزء فی حیاتہم فی قبورھم واوردہ فیہ عدۃ اخبار ( ایضاًج22ص 38)
یعنی امام بیہقی رحمہ اللہ نے انبیاء کرام علیہم السلام کے اپنی قبور میں زندہ ہونے پر ایک رسالہ لکھا ہے اور اس میں بہت سی احادیث ذکر کی ہیں۔مزید لکھتے ہیں :
ثم ان کانت تلک الحیوۃ فی القبر وان کانت یترتب علیہا بعض مایترتب علی الحیوۃ فی الدنیا المعروفۃ لنا من الصلاۃ والاذان والاقامۃ ورد السلام المسموع۔ ( ایضاًج22ص 38)
جس کا حاصل یہ ہے کہ قبر کی اس زندگی پر دنیا والے کچھ احکام لگتے ہیں جیسے نماز، اذان ،اقامت اور سنے ہوئے سلام کا جواب دینا۔
٧. فَضَرَبْنَا عَلَى آذَانِهِمْ فِي الْكَهْفِ سِنِينَ عَدَدًا (الکہف :11)
کی تفسیر میں امام رازی رحمہ اللہ نے کرامت کی بحث چھیڑ دی اور اسی میں یہ بھی درج کیا:
اما ابوبکرفمن کراماتہ انہ لما حملت جنازتہ الی باب قبر النبی صلی اللہ علیہ وسلم ونودی: السلام علیک یارسول اللہ ھذا ابوبکر بالباب فاذا الباب قد انفتح واذا بہاتف یہتف من القبر :''ادخلوا الحبیب الی الحبیب''
(مفاتیح الغیب المعروف تفسیر کبیر ج7ص433)
یعنی حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی کرامات میں سے یہ ہے کہ جب ان کا جنازہ روضہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے دروازے پر اٹھاکر لایا گیا اور "السلام علیک یارسول اللہ" عرض کرکے کہاگیا کہ یہ ابوبکر دروازے پر حاضر ہیں تو دروازہ کھل گیا اور قبر مبارک سے آوازدینے والے کی آواز آئی کہ دوست کو دوست کے پاس داخل کردو۔

٨. یا ایھا الذین امنو لاترفعو اصواتکم فق صوت النبی........ الخ (پارہ26 ۔الحجرة)
اکابرین اہل سنت اور جمہور مفسرین کا اجماع ہے کہ دور وفات کے بعد بھی حکم قرآنی روضہ اطہر کے پاس قابل ادب و احترام ملحوظ رکھنے کا متقاضی ہے ۔ حضرت ابوبکر ؓ فرماتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ کے سامنے بلند آواز کرنا ناجائز نہیں۔ نہ وفات سے پہلے اور نہ ہی وفات کے بعد۔ لا یسنبغی رفع الصوت علی النبیاور حضرت عائشہ صدیقہ جب کبھی ان گھروں میں جو مسجد نبوی سے متصل تھے ۔ کسی میخ لگنے یا کیل لگانے کی آواز سنتی تھیں تو یہ حکم بھیجتیں کہے خبردار لاتو ذو رسول اﷲﷺ اور حضور اکرم ﷺ کو اس آواز سے اذیت نہ دو۔ اور حضرت علینے اسی سے بچنے کےلئے اپنے گھر کے کواڑ باہر جا کربنوائے تھے۔ یا کہ ان کے بننے کا شور حضور اکرم ﷺ کو اذیت نہ دے۔ وہذا مما یذل علی انہم کانو یرون انہ حی۔ ان تمام روایات سے پتہ چلتا ہے کہ وہ آنحضرت ﷺ کو اپنے روضہ انور میں زندہ یقین کرتے تھے ۔ ( شفاءالسقام ص173)
 

aqeel

مشہور رکن
شمولیت
فروری 06، 2013
پیغامات
300
ری ایکشن اسکور
315
پوائنٹ
119
یہ دلائل آپ کس فورم پر دے رہے ہیں یہ کل آپ کو بینکر دے گے
 

محمد علی جواد

سینئر رکن
شمولیت
جولائی 18، 2012
پیغامات
1,986
ری ایکشن اسکور
1,553
پوائنٹ
304
السلام و علیکم و رحمت الله -

قرآن کی صریح نص سے یہ بات ثابت ہے کہ زمینی گڑھوں میں کوئی زندگی نہیں -اور صریح نص کے مقابلے میں کوئی روایت یا مفہوم قابل قبول نہیں ہوتا - جیسے قیامت کا آنا ، یوم حشر میں حساب کتاب ، جنّت و دوزخ کی زندگی قرانی صریح نص سے ثابت ہے اور ان کا انکار کفر ہے - اس طرح لوگوں کو انبیاء کرام کو یا اپنے والیوں کو ان کی اپنی زمینی قبر میں زندہ تسلیم کرنا بھی قرآن کا صریح انکار ہے - الله کا قرآن میں ارشاد ہے کہ :

وَالَّذِينَ يَدْعُونَ مِن دُونِ اللَّهِ لَا يَخْلُقُونَ شَيْئًا وَهُمْ يُخْلَقُونَ۔ أَمْوَاتٌ غَيْرُ أَحْيَاءٍ ۖ وَمَا يَشْعُرُونَ أَيَّانَ يُبْعَثُونَ سورة النحل آیات ۲۰ ۔ ۲۱
اور جنہیں الله کے سوا پکارتے ہیں وہ کچھ بھی پید انہیں کرتے اور وہ خود پیدا کیے ہوئے ہیں۔ وہ تو مُردے ہیں جن میں جان نہیں اور وہ نہیں جانتے کہ وہ کب اٹھائے جائیں گے۔


یہ آیت اپنے مفہوم کے لحاظ سے عام ہے - چاہے انبیاء کرام ہوں، الله کی والی ہوں یا عام انسان اپنی اپنی قبروں میں مردہ ہیں - اور یہ دلیل اس لئے دی گئی کہ حضرت نوح علیہ سلام سے لے کر اب تک لوگ صرف اس ہی عقیدے کی بنیاد پر انبیاء، صالحین ، اور ولیوں کو پکارتے رہے ہیں کہ ان کے یہ بزرگ زندہ حاضر و ناظر ہیں اور زندہ انسان کے لئے حاجت روائی کرنا کوئی مشکل نہیں - جب کہ وہ ہو بھی الله کا برگزیدہ انسان - اور یہی شرک کی اصل جڑ ہے - کہ لوگ ایک اللہ یعنی ایک مالک و معبود کو چھوڑ کر مردہ انسانوں کی قبروں، مزاروں اور آستانوں پر اسی لئے بھاگے پھرتے ہیں کہ انہیں انکے پسندیدہ فرقے نے یہی سمجھایا ہوتا ہے کہ قبروں میں مدفون یہ بڑے بڑے ناموں والے لوگ مردہ نہیں بلکہ زندہ ہیں، تمہاری پکاروں کو سنتے ہیں اور پھر انہیں آگے اللہ تک پہنچاتے ہیں اور تمہارے لئے اللہ سےسفارش کرتے ہیں اور وسیلہ بنتے ہیں۔ امت میں موجود ان گنت فرقوں کے عقائد میں اس حوالے سے تھوڑا بہت فرق تو یقیننا ہے لیکن اصل فارمولا جو ان سب میں یکساں ہے وہ مرنے کے بعدروح کا زمینی قبر میں مدفون جسم میں قیامت سے پہلے لوٹا دیے جانے کا عقیدہ ہے۔ اسی باطل عقیدے سے تمام شرک و بدعت کی ابتدا ہوتی ہے کیونکہ جب لوگوں کو کہا جائے گا کہ مردہ جسم میں روح واپس لوٹا دی جاتی ہے اور وہ زندہ ہو جاتا ہے اور سنتا ہے تو ظاہر ہے وہ مرنے والے کو مدد کے لئے پکاریں گے یا پھر اس سے دیگر قسم کی توقعات بھی وابستہ کر لیں گے۔ لیکن جب ہم اس عقیدہ کو قران و صحیح حدیث کی روشنی میں پرکھیں تو معلوم ہوتا ہے کہ یہ عقیدہ اور اس سے متعلقہ تمام عقائد باطل اور خود ساختہ ہیں جنہیں یہ فرقے قران و صحیح ا حادیث سے ثابت کرنے کی بجائے انکے حق میں اپنے نامی گرامی علماء کے فتوے لا کر ثابت کرتے ہیں-

اس پر عمومی طور پر یہ دلیل بھی دی جاتی ہے کہ : لو یہ (موحد) لوگ تو کہتے ہیں کہ قبر میں مدفون انبیاء کرام مردہ ہیں جب کہ الله شہیدوں کے متعلق فرماتا ہے کہ :

وَلَا تَقُولُوا لِمَن يُقْتَلُ فِي سَبِيلِ اللَّهِ أَمْوَاتٌ ۚ بَلْ أَحْيَاءٌ وَلَـٰكِن لَّا تَشْعُرُونَ سورة البقرہ، آیت ۱۵٤
اور جو لوگ اﷲ کی راہ میں مارے جائیں انہیں مردہ مت کہو۔ وہ زندہ ہیں لیکن تمہیں انکی زندگی کا شعور نہیں -


اور انبیاء تو شہیدوں سے افضل ہوتے ہیں - تو ان کی زندگی تو بدرجہ اولیٰ ثابت ہو تی ہے -

لیکن اس آیت مبارکہ میں تو الله واضح طور پر بیان کررہا ہے کہ شہید اگرچہ زندہ ہے لیکن تمہیں ان کی زندگی کا ادراک نہیں ہو سکتا کہ وہ کس طرح زندہ ہیں ؟؟ یہ نہیں فرمایا کہ جو شہید ہوتے ہیں وہ بعد میں اپنی قبروں میں جا کر زندہ ہو جاتے ہیں - البتہ سمجھانے کے لئے الله نے ایک دوسری جگہ فرمایا کہ :

وَلَا تَحْسَبَنَّ الَّذِينَ قُتِلُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ أَمْوَاتًا ۚ بَلْ أَحْيَاءٌ عِندَرَبِّهِمْ يُرْزَقُونَ سورة آل عمران ۱٦۹
اور جو لوگ الله کی راہ میں مارے گئے ہیں انہیں مردہ نہ سمجھو بلکہ وہ زندہ اور اپنے رب کے پاس رزق پا رہے ہیں ۔


یعنی اگر تم جاننا چاہتے ہو کہ شہید کس طرح زندہ ہیں - تو جان لو کہ وہ الله کے پاس زندہ ہیں اور ان کو وہاں رزق دیا جاتا ہے (اپنی قبروں میں ہرگز زندہ نہیں)-

تو پھر انبیاء کرام علیہ سلام جو شہیدوں سے افضل ہیں وہ برزخ کا اعلی مقام چھوڑ کر اپنی قبروں میں زندہ رہنا کیسے قبول کرینگے -

صحیح روایت میں ہے کہ حضرت عائشہ ؓ نے بیان کیا کہ جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم بیمار ہوئے اور سرمبارک میری ران پر تھا ۔ اس وقت آپ پر تھوڑی دیر کے لئے غشی طاری ہوئی ۔ پھر جب آپ کو اس سے کچھ ہوش ہوا تو چھت کی طرف ٹکٹکی باندھ کر دیکھنے لگے ، پھر فرمایا ’’اللھم الرفيق الاعلیٰ‘‘ یعنی ’’ اے اللہ رفیق اعلیٰ ‘‘ ۔ میں نے سمجھ لیا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اب ہم دنیا والوں (کی رفاقت) اختیار نہ کریں گے ۔ میں سمجھ گئی کہ جو بات نبی صلی اللہ علیہ وسلم صحت کے زمانے میں بیان فرمایا کرتے تھے ، یہ وہی بات ہے ۔ عائشہ ؓ نے بیان کیا کہ یہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا آخری کلمہ تھا جو آپ نے زبان سے ادا فرمایا کہ ’’اللھم الرفيق الاعلیٰ‘‘۔ صحیح بخاری، کتاب الدعو

یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے الله کے پاس جو بلند مقام ہے وہاں جانے کی تمنا کی - نہ کہ یہ فرمایا کہ الله تو مجھے وفات دینے کے بعد میری قبر میں دوبارہ زندہ کردے -

ان ظالموں نے جو کہ نبی کریم صل الله علیہ و آ لہ وسلم کو اپنی قبر میں زندہ ثابت کرنے پر تلے ہوے ہیں یہ بھی نہ سوچا کے کیا صحابہ کرام رضوان الله اجمعین نے اپنے نبی کو کیا زندہ درگو کردیا (لعنت الله اللکازبین)-

صحیح رویات سے تو ثابت ہے کہ نبی کریم صل الله علیہ و آ لہ وسلم کے جسد خاکی کو ان کی وفات کے ٤٨ گھنٹے بعد قبر مبارک میں اتارا گیا تھا - اس دوران صحابہ کرام و صحابیات اور امہات المومنین رضی الله عنہ وغیرہ نے انفردی طور پر آپ صل الله علیہ و آ لہ وسلم کی نماز جنازہ ادا کی اور آپ پر دررود سلام پڑھا -لیکن کہیں یہ ثابت نہیں کہ آپ نے وہ درود سنا یا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو درود و سلام سننے کے لئے دوبارہ زندہ کیا گیا -

قرآن و صحیح حدیث کی روشنی میں یہ بالکل واضح ہو جاتا ہے کہ ہر انسان کی اصلی قبر عالمِ برزخ ہے یہ دنیاوی گڑھا نہیں جہاں صرف اسلئے مردہ جسم کو ٹھکانے لگانے کی نیت سے دفن کیا جاتا ہے تاکہ وہ مٹی میں مٹی ہو جائے اور تعفن نہ پھیلے۔

مسلم کی یہ حدیث بھی ملاحظه ہو جس سے ثابت ہے کہ جزا و سزا کا مقام عالم برزخ ہے نہ کہ زمینی قبر :

قتیبہ بن سعید، مالک بن انس، عبداللہ بن ابوبکر، عمرۃبنت عبدالرحمٰن سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک یہودیہ کے جنازے پر سے گزرے اس پر رویا جا رہا تھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یہ لوگ تو اس پر رو رہے ہیں اور اس کو اسکی قبر میں عذاب دیا جا رہا ہے۔ صحیح مسلم، جلد اول، جنازوں کا بیان

فرقوں کے بقول مردہ انسان کی تدفین کے فوراً بعد انسانی روح اسکے جسم میں واپس ڈال دی جاتی ہے پھر فرشتے آکر اسے اٹھا کر بٹھاتے ہیں اور اس سے سوال و جواب کرتے ہیں اور پھر اسکے جوابات کی روشنی میں اس پر عذاب یا راحت کا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے جو جسم اور روح دونوں پر یکساں ہوتا ہے۔ اب سوال یہ اٹھتاہے کہ پھر مندرجہ بالاحدیث میں اس یہودیہ کے سوال و جواب کہاں ہوئے اور کہاں اس پر عذاب شروع بھی ہو گیا جبکہ اسے ابھی دفن بھی نہیں کیا گیا تھا؟ اور کیوں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ ارشاد فرمایا کہ یہ لوگ اس پر رو رہے ہیں-.

قران اس معاملے میں بھی بالکل صاف حکم دیتا ہے کہ تمام انسان اپنی دنیاوی وفات کے بعد صرف اور صرف قیامت کے دن ہی دوبارہ زندہ کر کے اٹھائے جائیں گے۔

اور صحیح حدیث بھی یہی بتاتی ہے:
حضرت ابوہریرہ ؓ نے کہا میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا انہوں نے فرمایا ، دونوں صوروں کے پھونکے جانے کا درمیانی عرصہ چالیس ہے ۔ لوگوں نے پوچھا ، کیا چالیس دن مراد ہیں ؟ انہوں نے کہا کہ مجھے معلوم نہیں پھر انہوں نے پوچھا چالیس سال ؟ اس پر بھی انہوں نے انکار کیا ۔ پھر انہوں نے پوچھا چالیس مہینے ؟ اس کے متعلق بھی انہوں نے کہا کہ مجھ کو خبر نہیں اور ہر چیز فنا ہو جائے گی ، سوا ئے ر یڑھ کی ہڈی کے کہ اسی سے ساری مخلوق دوبارہ بنائی جائے گی ۔ صحیح بخاری، کتاب التفس

روح کی واپسی اب قیامت کے دن ہو گی چاہے وہ نیک انسان (انبیاء) ہی کیوں نہ ہوں - جیسا کہ قرآن سے بھی ثابت ہے -

ثُمَّ إِنَّكُم بَعْدَ ذَ‌ٰلِكَ لَمَيِّتُونَ۔ ثُمَّ إِنَّكُمْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ تُبْعَثُونَ سورة المومنون، آیات ۱۵۔۱٦
پھر تم اس کے بعد مرنے والے ہو، پھر تم قیامت کے دن اٹھائے جاؤ گے۔


يَا أَيَّتُهَا النَّفْسُ الْمُطْمَئِنَّةُ -ارْجِعِي إِلَىٰ رَبِّكِ رَاضِيَةً مَرْضِيَّةً--فَادْخُلِي فِي عِبَادِي-وَادْخُلِي جَنَّتِي سوره الفجر ٢٧-٣٠
(ارشاد ہوگا) اے اطمینان والی روح -اپنے رب کی طرف لوٹ چل تو اس سے راضی وہ تجھ سے راضی-پس میرے بندو ں میں شامل ہو-اور میری جنت میں داخل ہو-


اسلام کے یہ نام لیوا لوگ ان زمینی گڑھوں میں زندگی یا روح کے لوٹائے جانے کا عقیدہ بنا لیں، باوجود اسکے کہ یہ قران و حدیث کے واضح احکامات کے خلاف ہے تو پھر وہ طاغوت کا حصہ بن جاتے ہیں کیونکہ ایسا کرنے سے وہ اللہ تعالٰی اور اسکے آخری پیغمبر محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی بات کے آگے اپنے معاشرے یا اپنے فرقےکے علماء و اکابرین کی باتوں اور فتوؤں کو ترجیح دیتے ہیں یا ان کی تقلید کرتے ہیں ۔ وہ یا تو حق جاننے کی کوشش ہی نہیں کرتے یا پھر حق کو صرف اسلئے جھٹلا دیتے ہیں اور تاویلیں گھڑتے ہیں کیونکہ وہ اپنے اکابرین کی غلط تعلیمات کا رد کرنے کا حوصلہ نہیں رکھتے۔ اور اس سب کا نتیجہ یہ کہ قبروں میں زندگی کا یہ عقیدہ آج امّت میں موجود تمام شرک، کفر اور بدعات کی اصل وجہ بن چکا ہے، لوگ اسلئے قبر پرستی میں مبتلا ہیں اور مختلف مزاروں اور آستانوں پر فریادیں لے کر بھاگتے ہیں کیونکہ انہیں بتایا جاتا ہے کہ صاحبِِ قبر زندہ ہیں اور انکی پکاریں سنتے ہیں-

اللہ ہم سب کو فرقہ پرستی کی اس لعنت اور انکے ایجاد کردہ کفر ، شرک و بدعات سے بچائے اور دینِ اسلام کو اللہ کے بتائے ہوئے اصولوں کی روشنی میں سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین۔
 
شمولیت
اگست 23، 2012
پیغامات
188
ری ایکشن اسکور
143
پوائنٹ
70
جواد بھائی جزاکم اللہ خیراً
میں بس یہاں ایک دو عقلی باتیں رکھنا چاہوں گا ذرا غورفرمائیں۔
عالم(جہاں) پانچ ہیں۔1:عالم ارواح،2:عالم بطن(ماں کا پیٹ) 3:عالم دنیا 4:عالم برزخ (مرنے کے بعد )5:عالم حشر۔۔۔
ان تمام جہانوں میں سے جو بھی کسی ایک جہان میں ہے وہ دوسرے میں نہیں ہے۔کوئی بھی ذی روح ایسا نہیں ہے جو ماں کے پیٹ میں بھی ہو اور دنیا میں بھی ہو کبھی ایسے ہوا ہے۔۔؟ اسی طرح ہم ایک وقت میں ایک ہی جہاں میں ہیں دو میں نہیں۔جو بھائی عقیدہ حیات النبی کے قائل ہیں یہ ایک عجیب مضحکہ خیز با ت ہے کہ وہ دلائل قبر میں زندگی کے دیتے ہیں اور حیات ہماری اس دنیا میں ثابت کرتے ہیں۔عجیب۔۔۔!
جو بھی ذی روح اس دنیا کو چھوڑ کر اگلے جہاں میں انتقال کر چکا ہے اس کا رہنا اس دنیا کے ساتھ خاص ہے ہماری اس دنیا کے ساتھ نہیں ،ہم سے بس اس آنے والے جہاں پر ایمان لانے کا حکم ہے اس سے استنباط کرنے کا نہیں۔
ان بحوث میں الجھا نے کا مقصد دین حق سے دوری کا پروپیگنڈا ہے اور کچھ نہیں ورنہ یہاں سے ہی اندازہ کر لیں کہ احادث اور دلائل وہ دیئے جاتے ہیں جو قبر کی حیات کے ہیں اور زندہ اس دنیا میں ثابت کیا جاتاہے۔
افلا تتفکرون۔۔۔۔!!!؟؟
افلا تدبرون۔۔۔۔!!؟؟
افلا تعقلون۔۔۔!!؟؟
 

محمد علی جواد

سینئر رکن
شمولیت
جولائی 18، 2012
پیغامات
1,986
ری ایکشن اسکور
1,553
پوائنٹ
304
جواد بھائی جزاکم اللہ خیراً
میں بس یہاں ایک دو عقلی باتیں رکھنا چاہوں گا ذرا غورفرمائیں۔
عالم(جہاں) پانچ ہیں۔1:عالم ارواح،2:عالم بطن(ماں کا پیٹ) 3:عالم دنیا 4:عالم برزخ (مرنے کے بعد )5:عالم حشر۔۔۔
ان تمام جہانوں میں سے جو بھی کسی ایک جہان میں ہے وہ دوسرے میں نہیں ہے۔کوئی بھی ذی روح ایسا نہیں ہے جو ماں کے پیٹ میں بھی ہو اور دنیا میں بھی ہو کبھی ایسے ہوا ہے۔۔؟ اسی طرح ہم ایک وقت میں ایک ہی جہاں میں ہیں دو میں نہیں۔جو بھائی عقیدہ حیات النبی کے قائل ہیں یہ ایک عجیب مضحکہ خیز با ت ہے کہ وہ دلائل قبر میں زندگی کے دیتے ہیں اور حیات ہماری اس دنیا میں ثابت کرتے ہیں۔عجیب۔۔۔!
جو بھی ذی روح اس دنیا کو چھوڑ کر اگلے جہاں میں انتقال کر چکا ہے اس کا رہنا اس دنیا کے ساتھ خاص ہے ہماری اس دنیا کے ساتھ نہیں ،ہم سے بس اس آنے والے جہاں پر ایمان لانے کا حکم ہے اس سے استنباط کرنے کا نہیں۔
ان بحوث میں الجھا نے کا مقصد دین حق سے دوری کا پروپیگنڈا ہے اور کچھ نہیں ورنہ یہاں سے ہی اندازہ کر لیں کہ احادث اور دلائل وہ دیئے جاتے ہیں جو قبر کی حیات کے ہیں اور زندہ اس دنیا میں ثابت کیا جاتاہے۔
افلا تتفکرون۔۔۔۔!!!؟؟
افلا تدبرون۔۔۔۔!!؟؟
افلا تعقلون۔۔۔!!؟؟
جزاک الله خیراً نصراللہ بھائی - بلکل صحیح دلیل دی آپ نے - یہ تصور یا عقیدہ یعنی ایک ہی وقت میں انسان کا دو یا اس زیادہ جہانوں موجود ہونا ہمارے مسلمانوں میں اہل فارس کے باطنی مذھب اور ہندو مذہب کے اثرات کی وجہ سے وجود میں آیا ہے- اسلامی تعلیمات سے اس کا کوئی تعلق نہیں (واللہ اعلم )
 
شمولیت
جون 11، 2014
پیغامات
84
ری ایکشن اسکور
17
پوائنٹ
15
جزاک الله خیراً نصراللہ بھائی - بلکل صحیح دلیل دی آپ نے - یہ تصور یا عقیدہ یعنی ایک ہی وقت میں انسان کا دو یا اس زیادہ جہانوں موجود ہونا ہمارے مسلمانوں میں اہل فارس کے باطنی مذھب اور ہندو مذہب کے اثرات کی وجہ سے وجود میں آیا ہے- اسلامی تعلیمات سے اس کا کوئی تعلق نہیں (واللہ اعلم )
10150767_285594864936764_4122428183050733149_n (1).png
 
شمولیت
اگست 23، 2012
پیغامات
188
ری ایکشن اسکور
143
پوائنٹ
70
اگر نبی کی زندگی بزخی ہے اور اس کا موجودہ زندگی سے تعلق نہیں تو آواز کس نے دی؟
اوپر کی حوالہ میں تو جناب نے آواز کی وضاحت نہیں کی کیوں کہ وہاں بس لکھا ہے کہ آواز دینا اجازت مل جائے تو دفنا دینا اب ایسا کیا گیا یا نہیں اور آواز آئی یا نہیں ذرا یہ بھی واضح فرمادیں۔
 
شمولیت
اگست 23، 2012
پیغامات
188
ری ایکشن اسکور
143
پوائنٹ
70
وأخرج الخطيب في رواة مالك عن عائشة قالت لما مرض أبي أوصى أن يؤتى به إلى قبر النبي صلى الله عليه وسلم ويستأذن له ويقال هذا أبو بكر يدفن عندك يا رسول الله
افإن أذن لكن فادفنوني وإن لم يؤذن لكم فاذهبوا بي إلى البقيع فآتي به إلى الباب فقيل هذا أبو بكر قد اشتهى أن يدفن عند رسول الله صلى الله عليه وسلم وقد أوصانا فإن آذن لنا دخلنا وإن لم يؤذن لنا انصرفنا فنودينا أن أدخلوا وكرامة وسمعنا كلاما ولم نر أحدا قال الخطيب غريب جدا
(اس کی سند غریب جدا ہے)
اب اسی کے ساتھ ابن عساکر نے دوسرا واقعہ بھی ذکر کیا ہے ذرا اس پر بھی نظر دوڑا لیں۔
وأخرج ابن عساكر عن علي بن أبي طالب قال لما حضرت أبا بكر الوفاة أقعدني عند رأسه وقال لي يا علي إذا أنا مت فغسلني بالكف الذي غسلت به رسول الله صلى الله عليه وسلم وحنطوني واذهبوا بي إلى البيت الذي فيه رسول الله صلى الله عليه وسلم فاستأذنوا فإن رأيتم الباب قد فتح فادخلوا بي وإلا فردوني إلى مقابر المسلمين حتى يحكم الله بين عباده قال فغسل وكفن وكنت أول من بادر إلى الباب فقلت يا رسول الله هذا أبو بكر يستأذن فرأيت الباب قد فتح فسمعت قائلا يقول ادخلوا الحبيب إلى حبيبه فإن الحبيب إلى الحبيب مشتاق
وقال ابن عساكر هذا حديث منكر وفي إسناده أبو الطاهر موسى بن محمد بن عطاء المقدسي كذاب عن عبد الجليل المري وهو مجهول
یہ رہی دوسرے قول کی حقیقت۔
فیصلہ آپ کر لیں۔ذرایہ سوچ کر کہ ایک طرف قرآن کو واضح آیات ہیں اور دوسری طرف آپ ضعیف الاسناد واقعات کے ساتھ عقیدہ کی بنیاد رکھ رہے ہیں۔
 
Top