• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

نبی اپنی قبروں میں زندہ ہیں اور رزق کھاتے ہیں ، با دلائل

شمولیت
مئی 09، 2014
پیغامات
50
ری ایکشن اسکور
34
پوائنٹ
48
qabar1.PNG

qabar2.PNG

qabar3.PNG

سنن ابو داود جلد دوئم حدیث نمبر 273
کوئی اس کی وضاہت کر سکتا ہے؟
 

محمد علی جواد

سینئر رکن
شمولیت
جولائی 18، 2012
پیغامات
1,986
ری ایکشن اسکور
1,551
پوائنٹ
304
8080 اٹیچمنٹ کو ملاحظہ فرمائیں
8081 اٹیچمنٹ کو ملاحظہ فرمائیں
8082 اٹیچمنٹ کو ملاحظہ فرمائیں
سنن ابو داود جلد دوئم حدیث نمبر 273
کوئی اس کی وضاہت کر سکتا ہے؟
السلام علیکم -

اس روایت میں ایک راوی محمد بن موسیٰ کذاب اور وضاع ہے۔ ابن عدی کا بیان ہے کہ محمد بن موسیٰ حدیثیں گھڑا کرتا تھا۔ ابن حبان کا بیان ہے کہ یہ محمد بن موسیٰ اپنی طرف سے روایات گھڑتا اور اس نے ایک ہزار سے زائد روایات گھڑی ہیں۔ میزان الاعتدال جلد ۳ ص ۱٤۱

اس طرح کی ایک اور روایت ابو داؤد جلد۱ ص ۳۸٤ میں محمد بن عوف سے مروی ہے – ذہبی کہتے ہیں کہ یہ محمد بن عوف سلیم بن عثمان سے روایت کرتا ہے اور یہ مجہول الحال ہے۔ میزان الاعتدال جلد ۳ ص ۳۸٦
 
شمولیت
فروری 19، 2014
پیغامات
91
ری ایکشن اسکور
47
پوائنٹ
83
میں کچھ روایات پیش کرتا ہوں،،،انکی بھی وضاحت کردیں،،،،اور انکی سند کے متعلق بھی لکھیں،،،،جن کا ضیعف احادیث کا سہارا لیکر قبوری لوگوں کو گمراہ کرتے ہیںِ
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ میں اپنے حجرہ اقدس میں داخل ہوتی تھی جس میں رسول اللہ ﷺ مدفون اور آرام فرما تھے تو میں کچھ پردہ کا اہتمام کرتی تھی اور دل میں کہتی تھی کہ یہ تو میرے خاوند ہین اور دوسرے میرے باپ ہیں (یعنی مکمل پردے کی ضرورت نہیں ہے) پھر جب اس حجرے میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ مدفون ہوئے تو میں بغیر اچھی طرح پردہ کیے ہرگز داخل نہ ہوتی حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے حیاء کرتے ہو ۓ۔ (مشکوٰۃ المسابیح:باب زیارۃ القبور، الفصل الثالث)
 
شمولیت
فروری 19، 2014
پیغامات
91
ری ایکشن اسکور
47
پوائنٹ
83
’’حضرت سعید بن عبدالعزیز رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جب ایام حرّہ (جن دنوں یزید نے مدینہ منورہ پر حملہ کروایا تھا) کا واقعہ پیش آیا تو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مسجد میں تین دن تک اذان اور اقامت نہیں کہی گئی اور حضرت سعید بن مسیب رضی اللہ عنہ (جو کہ جلیل القدر تابعی ہیں انہوں نے مسجد نبوی میں پناہ لی ہوئی تھی اور) انہوں نے (تین دن تک) مسجد نہیں چھوڑی تھی اور وہ نماز کا وقت نہیں جانتے تھے مگر ایک دھیمی سی آواز کے ذریعے جو وہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی قبر انور سے سنتے تھے۔‘‘ : أخرجه الدارمي في السنن، باب : (15)، ما أکرم اﷲ تعالي نبيه صلي الله عليه وآله وسلم بَعْدَ مَوْتِهِ، 1 / 56، الرقم : 93، والخطيب التبريزي في مشکاة المصابيح، 2 / 400، الرقم : 5951، والسيوطي في شرح سنن ابن ماجه، 1 / 291، الرقم :
 
شمولیت
فروری 19، 2014
پیغامات
91
ری ایکشن اسکور
47
پوائنٹ
83
مردے کا پہچاننا بیشک میت اپنے غسل دینے والوں،اٹھانے والوں ، کفن پہننانے والوں، اور قبر میں ڈالنے والوں کو جانتی ہے۔ ( شرح الصدور:39)
 
شمولیت
فروری 19، 2014
پیغامات
91
ری ایکشن اسکور
47
پوائنٹ
83
میں نے
السلام علیکم -

اس روایت میں ایک راوی محمد بن موسیٰ کذاب اور وضاع ہے۔ ابن عدی کا بیان ہے کہ محمد بن موسیٰ حدیثیں گھڑا کرتا تھا۔ ابن حبان کا بیان ہے کہ یہ محمد بن موسیٰ اپنی طرف سے روایات گھڑتا اور اس نے ایک ہزار سے زائد روایات گھڑی ہیں۔ میزان الاعتدال جلد ۳ ص ۱٤۱

اس طرح کی ایک اور روایت ابو داؤد جلد۱ ص ۳۸٤ میں محمد بن عوف سے مروی ہے – ذہبی کہتے ہیں کہ یہ محمد بن عوف سلیم بن عثمان سے روایت کرتا ہے اور یہ مجہول الحال ہے۔ میزان الاعتدال جلد ۳ ص ۳۸٦
کچھ روایات پیش کی ہیں وقت ملے تو ان کی وضاحت بھی کر دیں،،،،،،اور انکی سند بھی ،،،،اگر ہوسکے تو کوئی ایسا لنک بھی دیں جس میں بریلوی حضرات کی جانب سے حیات النبی پر ضعیف احادیث گھڑ رکھی ہے اور ان کے جوابات بھی موجود ہوں،،،،جزاک اللہ
 
شمولیت
فروری 19، 2014
پیغامات
91
ری ایکشن اسکور
47
پوائنٹ
83
عَنْ أَبِي الْجَوْزَاءِ أَوْسِ بْنِ عَبْدِ اﷲِ رضي الله عنه قَالَ : قَحَطَ أَهْلُ الْمَدِيْنَةِ قَحْطًا شَدِيْدًا فَشَکَوْا إِلَي عَاءِشَةَ رضي اﷲ عنها فَقَالَتْ : انْظُرُوْا قَبْرَ النَّبِيِّ صلي الله عليه وآله وسلم فَاجْعَلُوا مِنْهُ کُوًي إِلَي السَّمَاءِ حَتَّي لَا يَکُوْنَ بَيْنَهُ وَبَيْنَ السَّمَاءِ سَقْفٌ، قَالَ فَفَعَلُوْا فَمُطِرْنَا مَطَرًا حَتَّي نَبَتَ الْعُشْبُ وَسَمِنَتِ الإِبِلُ حَتَّي تَفَتَّقَتْ مِنَ الشَّحْمِ فَسُمِّيَ عَامَ الْفَتْقِ. رَوَاهُ الدَّارِمِيُّ. الحديث رقم 60 : أخرجه الدارمي في السنن، باب : (15) : ما أکرم اﷲ تعالي نبيّه صلي الله عليه وآله وسلم بعد موته، 1 / 56، الرقم : 92، والخطيب التبريزي في مشکاة المصابيح، 4 / 400، الرقم : 5950، وابن الجوزي في الوفاء بأحوال المصطفي صلي الله عليه وآله وسلم، 2 / 801، وتقي الدين السبکي في شفاء السقام، 1 / 128، والقسطلاني في المواهب اللدنية، 4 / 276، وفي شرحه الزرقاني، 11 / 150. ’’حضرت ابو جوزاء اوس بن عبداﷲ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ مدینہ منورہ کے لوگ سخت قحط میں مبتلا ہو گئے تو انہوں نے حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا سے (اپنی ناگفتہ بہ حالت کی) شکایت کی۔ اُمّ المومنین حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا نے فرمایا : حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی قبر انور (یعنی روضہ اقدس) کے پاس جاؤ اور وہاں سے ایک کھڑکی آسمان کی طرف اس طرح کھولو کہ قبرِ انور اور آسمان کے درمیان کوئی پردہ حائل نہ رہے۔ راوی کہتے ہیں کہ لوگوں نے ایسا ہی کیا تو بہت زیادہ بارش ہوئی یہاں تک کہ خوب سبزہ اگ آیا اور اونٹ اتنے موٹے ہو گئے کہ (محسوس ہوتا تھا) جیسے وہ چربی سے پھٹ پڑیں گے لہٰذا اس سال کا نام ہی’’عَامُ الْفَتْق‘‘ (پیٹ) پھٹنے کا سال رکھ دیا گیا۔‘‘
 
شمولیت
فروری 19، 2014
پیغامات
91
ری ایکشن اسکور
47
پوائنٹ
83
آج ایک اور روایت بھی قبر پرستوں سے موصول ہو ئی ہے،
عَنْ مَالِکِ الدَّارِ رضي الله عنه قَالَ : أَصَابَ النَّاسَ قَحْطٌ فِيْ زَمَنِ عُمَرَ رضي الله عنه، فَجَاءَ رَجُلٌ إِلَي قَبْرِ النَّبِيِّ صلي الله عليه وآله وسلم فَقَالَ : يَا رَسُوْلَ اﷲِ! اسْتَسْقِ لِأُمَّتِکَ فَإِنَّهُمْ قَدْ هَلَکُوْا، فَأَتَي الرَّجُلَ فِي الْمَنَامِ فَقِيْلَ لَهُ : ائْتِ عُمَرَ فَأَقْرِئْهُ السَّلَامَ، وَأَخْبِرْهُ أَنَّکُمْ مَسْقِيُّوْنَ وَقُلْ لَهُ : عَلَيْکَ الْکِيْسُ! عَلَيْکَ الْکِيْسُ! فَأَتَي عُمَرَ فَأَخْبَرَهُ فَبَکَي عُمَرُ ثُمَّ قَالَ : يَا رَبِّ لَا آلُوْ إِلَّا مَا عَجَزْتُ عَنْهُ. رَوَاهُ ابْنُ أَبِي شَيْبَةَ بِإِسْنَادٍ صَحِيْحٍ وَالْبَيْهَقِيُّ فِي الدَّلَائِلِ. الحديث رقم 61 : أخرجه ابن أبي شيبة في المصنف، 6 / 356، الرقم : 32002، والبيهقي في دلائل النبوة، 7 / 47، وابن عبد البر في الاستيعاب، 3 / 1149، والسبکي في شفاء السقام، 1 / 130، والهندي في کنزل العمال، 8 / 431، الرقم : 23535، وابن تيمية : في اقتضاء الصراط المستقيم، 1 / 373، وً ابنُ کَثِيْرٌ في البداية والنهاية، 5 / 167، وَ قَال : إسْنَادُهُ صَحيحَ، والعَسْقلانِيُّ في الإصابة، 3 / 484 وقَال : رَوَاهُ ابْنُ أَبِي شيبة بِإِسْنَادٍ صَحِيحٍ. ’’حضرت مالک دار رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں لوگ قحط میں مبتلا ہو گئے پھر ایک صحابی حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی قبر اطہر پر حاضر ہوئے اور عرض کیا : یا رسول اﷲ! آپ (اﷲ تعالیٰ سے) اپنی امت کے لئے سیرابی مانگیں کیونکہ وہ (قحط سالی کے باعث) ہلاک ہو گئی ہے پھر خواب میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس صحابی کے پاس تشریف لائے اور فرمایا : عمر کے پاس جا کر اسے میرا سلام کہو اور اسے بتاؤ کہ تم سیراب کئے جاؤ گے اور عمر سے (یہ بھی) کہہ دو (دین کے دشمن (سامراجی) تمہاری جان لینے کے درپے ہیں) عقلمندی اختیار کرو، عقلمندی اختیار کرو پھر وہ صحابی حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے پاس آئے اور انہیں خبر دی تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ رو پڑے اور فرمایا : اے اﷲ! میں کوتاہی نہیں کرتا مگر یہ کہ عاجز ہو جاؤں۔
 
شمولیت
فروری 19، 2014
پیغامات
91
ری ایکشن اسکور
47
پوائنٹ
83
ایک اور بھی
عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ رضي الله عنه قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم : الْأَنْبِيَاءُ أَحْيَاءٌ فِي قُبُوْرِهِمْ يُصَلُّوْنَ. رَوَاهُ أَبُوْيَعْلَي وَرِجَالُهُ ثِقَاتٌ وَابْنُ عَدِيٍّ وَالْبَيْهَقِيُّ. وَقَالَ ابْنُ عَدِيٍّ : وَأَرْجُوْ أَنَّهُ لَا بَأْسَ بِهِ. والعسقلاني في الفتح وقال : قد جمع البيهقي کتابًا لطيفًا في حياة الأنبياء في قبورهم أورد فيه حديث أنس رضي الله عنه : الأنبياء أحياء في قبورهم يصلّون. أخرجه من طريق يحيي بن أبي کثير وهو من رجال الصحيح عن المستلم بن سعيد وقد وثّقه أحمد وابن حبّان عن الحجاج الأسود وهو ابن أبي زياد البصري وقد وثّقه أحمد وابن معين عن ثابت عنه وأخرجه أيضاً أبو يعلي في مسنده من هذا الوجه وأخرجه البزار وصحّحه البيهقي. الحديث رقم 8 : أخرجه أبو يعلي في المسند، 6 / 147، الرقم : 3425، وابن عدي في الکامل، 2 / 327، الرقم : 460، وقال : هذا أحاديث غرائب حسان وأرجو أنه لا بأس به، والديلمي في مسند الفردوس، 1 / 119، الرقم : 403، والعسقلاني في فتح الباري، 6 / 487، وفي لسان الميزان، 2 / 175، 246، الرقم : 787، 1033، وقال : رواه البيهقي، وقال : ابن عدي : أرجو أنه لا بأس به، والذهبي في ميزان الاعتدال، 2 / 200، 270، وقال : رواه البيهقي، والهيثمي في مجمع الزوائد، 8 / 211، وقال : رواه أبو يعلي والبزار، ورجال أبي يعلي ثقات، والسيوطي في شرحه علي سنن النسائي، 4 / 110، والعظيم آبادي في عون المعبود، 6 / 19، وقال : وألفت عن ذلک تأليفا سميته : انتباه الأذکياء بحياة الأنبياء، والمناوي في فيض القدير، 3 / 184، والشوکاني في نيل الأوطار، 5 / 178، وقال : فقد صححه البيهقي وألف في ذلک جزءا، والزرقاني في شرحه علي موطأ الإمام مالک، 4 / 357، وقال : وجمع البيهقي کتابا لطيفا في حياة الأنبياء وروي فيه بإسناد صحيح عن أنس رضي الله عنه مرفوعا. ’’حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : انبیاء کرام علیہم السلام اپنی اپنی قبروں میں زندہ ہیں اور نماز پڑھتے ہیں۔‘‘ اس حدیث کو امام ابویعلی نے روایت کیا ہے اور اس کے رجال ثقہ ہیں اور اس حدیث کو امام ابن عدی اور بیہقی نے بھی روایت کیا ہے اور امام ابن عدی نے فرمایا کہ اس حدیث کی سند میں کوئی نقص نہیں ہے۔ امام عسقلانی ’’فتح الباری‘‘ میں بیان کرتے ہیں کہ امام بیہقی نے انبیاء کرام علیہم السلام کے اپنی قبروں میںزندہ ہونے کے بارے میں ایک خوبصورت کتاب لکھی ہے جس میں حضرت انس رضی اللہ عنہ کی یہ حدیث بھی وارد کی ہے کہ انبیاء کرام علیہم السلام اپنی قبور میں زندہ ہوتے ہیں اور صلاۃ بھی ادا کرتے ہیں۔ یہ حدیث انہوں نے یحی بن ابی کثیر کے طریق سے روایت کی ہے اور وہ صحیح حدیث کے رواۃ میں سے ہیں انہوں نے مستلم بن سعید سے روایت کی اور امام احمد بن حنبل نے انہیں ثقہ قرار دیا ہے اور ابن حبان نے یہ حدیث حجاج اسود سے روایت کی ہے اور وہ ابن ابی زیاد البصری ہیں اور انہیں بھی امام احمد نے ثقہ قرار دیا ہے۔ اور ابن معین نے حضرت ثابت سے یہ حدیث روایت کی ہے۔ اور امام ابو یعلی نے بھی اپنی مسند میں اسی طریق سے یہ حدیث روایت کی ہے اور امام بزار نے بھی اس کی تخریج کی ہے اور امام بیہقی نے اسے صحیح قرار دیا ہے۔
 

محمد علی جواد

سینئر رکن
شمولیت
جولائی 18، 2012
پیغامات
1,986
ری ایکشن اسکور
1,551
پوائنٹ
304
میں نے

کچھ روایات پیش کی ہیں وقت ملے تو ان کی وضاحت بھی کر دیں،،،،،،اور انکی سند بھی ،،،،اگر ہوسکے تو کوئی ایسا لنک بھی دیں جس میں بریلوی حضرات کی جانب سے حیات النبی پر ضعیف احادیث گھڑ رکھی ہے اور ان کے جوابات بھی موجود ہوں،،،،جزاک اللہ
السلام علیکم و رحمت الله -

آپ کی عزت افزائی کا شکریہ - آپ کی بیان کردہ روایات پر تحقیق کے بعد ہی کچھ کہا جا سکتا ہے -جس میں تھوڑا وقت درکار ہے- لیکن ان روایات کے تمام مضامین بظاہر ضعیف محسوس ہو رہے ہیں - کیوں کہ یہ روایات قرآنی صریح نص کے خلاف ہیں-

مزید معلومات کے لئے کفایت الله بھائی کو ٹیگ کریں - وہ ان روایات سے متعلق مجھ سے بہتر رہنمائی فراہم کرسکیں گے -

اس لنک کو بھی ملاحظه کرلیں جو نبی کریم صل الله علیہ و آ لہ وسلم کا اپنی قبر میں امّت کے درود سننے سے متعلق روایات کی تحقیق پر مبنی ہے -

http://forum.mohaddis.com/threads/نبی-کریم-صل-الله-علیہ-و-آ-لہ-وسلم-کا-اپنی-قبر-میں-زندہ-ہونا-اور-امّت-کے-درود-سننے-کے-عقیدے-کی-تحقیق.23975/

الله آپ کو جزاے خیر عطا کرے (آمین)-
 
Top