نورانیت مصطفی
حوالہ رقم 1
قَدْ جَاۗءَكُمْ مِّنَ اللّٰهِ نُوْرٌ وَّكِتٰبٌ مُّبِيْنٌ سورۃ المائدہ ٫۔ 15
ترجمہ! بے شک آیا تمھارے پاس اللہ کی طرف سے ایک نور "یعنی محمدﷺ" اور ایک روشن کتاب[ یعنی قرآن مجید]۔
اس آیت میں نور سے مرادحضورﷺ ہیں اور روشن کتاب سے مراد قرآن ِ مجید ہے ۔
تنویر المقیاس من تفسیر ابنِ عباس صفحہ نمبر 72 تفسیر ِ کبیر جلد3 صفحہ 566۔ تفسیر خازن جلد اول صفحہ 441 تفسیر جلالین صفحہ 97 تفسیر روح البیان جلد 2 صفحہ 32 . تفسیر روح المعانی پارہ نمبر 6 صفحہ 87 تفسیر حقانی جلد 2 صفحہ21 وغیرہ
گرائمر کی رُو سے مندرجہ بالاآیت میں و اوء عطف ِ تفسیری ہے جو نور اور روشن کتا ب کو علیحدہ علیحدہ کرتی ہے ،اور لفظ نور مصدر ہے ،مصدر نکلے کی جگہ کو کہتے ہیں اس لحاظ سے بھی حضور سار ی کائنات کے انوار کا منبع ہیں یعنی ساری کائنات آپﷺ کے نور سے تخلیق ہوئی ہے۔جن لوگوں کو یہ غلط فہمی ہوئی ہے کہ نور او رروشن کتاب دونوں سے مراد قرآن مجید ہے ان کے رد میں اما م فخر الدین رازی تفسیرِ کبیر جلد3صفحہ 566میں فرماتے ہیں: یہ قول کہ نور اور کتاب دونوں سے مراد قرآن ہے ھذا ضعیف، یہ ضعیف ہے۔
امام صاوی تفسیرِ صاوی جلد اول میں لکھتے ہیںحضورﷺکا نام اس آیت میں نور رکھا گیا ہے اس لیے کہ حضور ﷺ عقلوں کو روشن کرتے ہیں اور ان کو رشد کے لیے ہدائتیں دیتے ہیں اس لیے آپﷺ ہر حسی اور معنوی نور کی اصل ہیں ۔
علامہ فاسی مطالع المسرات صفحہ 220پر لکھتے ہیں حضور ﷺ کا نور حسی اور معنوی ظاہر ہے ،آنکھوں اور عقلوں کے لیے چمکنے والا،بے شک اللہ نے آپﷺ کا نام اس آیت میں نور رکھا ہے۔
مُلا علی قاری شرح شفاشریف جلد 1صفحہ 114میں لکھتے ہیں اور کون سی رکاوٹ ہے کہ اس آیت میں کہ دونوں نعتیں یعنی نور اور کتاب حضور ﷺ کے لیے ہوں ۔بےشک حضور ﷺ نورِ عظیم ہیں بوجہ اپنے کمالِ ظہور کے انوارمیں اور حضور ﷺ کتابِ مبین ہیں اس حیثیت سے کہ آپﷺ جمیع اسرارکے جامع ہیں اور احکام واخبار کے مظہر ہیں
حوالہ رقم2
اَللّٰهُ نُوْرُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ ۭ مَثَلُ نُوْرِهٖ كَمِشْكٰوةٍ فِيْهَا مِصْبَاحٌ ۭ اَلْمِصْبَاحُ فِيْ زُجَاجَةٍ ۭ اَلزُّجَاجَةُ كَاَنَّهَا كَوْكَبٌ دُرِّيٌّ يُّوْقَدُ مِنْ شَجَرَةٍ مُّبٰرَكَةٍ زَيْتُوْنَةٍ لَّا شَرْقِيَّةٍ وَّلَا غَرْبِيَّةٍ ۙ يَّكَادُ زَيْتُهَا يُضِيْۗءُ وَلَوْ لَمْ تَمْسَسْهُ نَارٌ ۭ نُوْرٌ عَلٰي نُوْرٍ ۭ يَهْدِي اللّٰهُ لِنُوْرِهٖ مَنْ يَّشَاۗءُ ۭ النور آیت 35
ترجمہ۔اس کے نور[محمد ﷺ ]کی مثال ایسی ہےجیسے ایک طاق کے اندر ایک چراغ ہے جس کے اوپر ایک فانوس ہےوہ فانوس گویا ایک ستارے کی مانند ہے جو موتی کی طرح چمکتا ہوا روشن ہے جو جلتا ہے ایک برکت والے زیتون کےدرخت مبارک کے تیل سے،جو نہ مشرق کا نہ مغرب کا ،قریب ہے کہ اس کا تیل بھڑک اُٹھے اگرچہ اس کو آگ نہ چھوئے ،نور کے اوپر ایک اور نور ہے ،اللہ اپنے نور کی راہ بتاتا ہے جسے چاہتا ہے۔
اس آیت میں مثل نورہ اس کے نور سے مراد حضور ﷺ ہیں ۔
تفسیر کبیرجلد7صفحہ 403، تفسیرمظہری جلد6صفحہ 522،
دُرِ منشور ،علامہ سیوطی جلد 5صفحہ 48، شرح شمائل القار ی جلد 1صفحہ 47،
اشعۃُاللمعات جلد1صفحہ 725، جواہر البحار جلد1صفحہ6،
تفسیر خازن جلد3صفحہ332، زرقانی علی المواہب جلد6صفحہ238،
تفسیر حقانی جلد5صفحہ 244، موضوعاتِ قاری صفحہ 99، شواہد النبوت صفحہ3،
تفسیر روح البیان جلد4صفحہ141
امام قاضی عیاض رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں اللہ تعالیٰ نے فرمایا
مَثَلُ نُوْرِهٖ كَمِشْكٰوةٍ فِيْهَا مِصْبَاحٌ ۭ اَلْمِصْبَاحُ فِيْ زُجَاجَةٍ ۭ اَلزُّجَاجَةُ كَاَنَّهَا كَوْكَبٌ دُرِّيٌّ يُّوْقَدُ مِنْ شَجَرَةٍ مُّبٰرَكَةٍ زَيْتُوْنَةٍ لَّا شَرْقِيَّةٍ وَّلَا غَرْبِيَّةٍ ۙ يَّكَادُ زَيْتُهَا يُضِيْۗءُ وَلَوْ لَمْ تَمْسَسْهُ نَارٌ ۭ نُوْرٌ عَلٰي نُوْرٍ ۭ يَهْدِي اللّٰهُ لِنُوْرِهٖ مَنْ يَّشَاۗءُ
اللہ تعالیٰ زمین و آسمان کا نور ہے حضرت کعب اور حضرت ابنِ جبیر نے فرمایا اس کے نور کی مثال نورِمحمد ﷺہے۔
حضرت سہل تستری نے فرمایا اس آیت کے معنی یہ ہیں کہ اللہ آسمان اور زمین والوں کا ہادی ہے اس کا نور ،نورِ محمد ﷺکی مثل جب کہ وہ پیٹھوں میںتھا طاق کی طرح ہے یعنی اس کے نور کی صفت اس طرح تھی اور مصباح سے مراد حضور ﷺ کا قلب مبارک ہے ،زجاجہ [فانوس] حضورﷺ کا سینا ہےیعنی وہ چمکتا ہوا موتی روشن ستارہ ہےاس لیے کہ اس میں ایمان اور حکمت ہے ۔برکت والے درخت یعنی نورِ ابراہیم ؈ سے منور ہےنورِ ابراہیم ؈کی مثال شجر ہ مبارکہ سے بیان کی گئی ہے اور قریب ہے کہ اس کا تیل بھڑک اٹھے یعنی حضور ﷺ کی نبوت کلام سے قبل اس تیل کی طرح خودبخود لوگوں کے لیے ظاہر ہو جائے۔
شفا شریف جلد1صفحہ 13
شرح شفا القاری جلد1صفحہ108