• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو کیسے جادو کیا گیا؟

عبدہ

سینئر رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 01، 2013
پیغامات
2,035
ری ایکشن اسکور
1,227
پوائنٹ
425
اب جن لوگوں کا یہ دعویٰ ہے کے جادو ہونے کے بعد نعوذباللہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم دینی امر میں سےکچھ نہیں بھولے اگر اس حدیث اور اس سے پہلے پیش کی گئی قرآن کی آیت کو بھولنے والی روایت کو اگر جادو کے زمانے کی نہ بھی فرض کریں تو یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ نعوذباللہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بغیر جادو ہوئے بھی دینی امر سے یہ سب باتیں بھول جایا کرتے تھے یا پھر آپ کو یہ ثابت کرنا پڑے گا کہ نماز اور قرآن کی آیت کا تعلق دینی امر سے نہیں اگر اس کے علاوہ کوئی بات ہے تو وہ بیان کی جائے
بہرام صاحب آپ کی قیاس مع الفارق کی عادت نہیں جائے گی ہم نے نہ یہ کہا ہے کہ نماز دینی امور سے نہیں اور نہ یہ دعوی کیا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم مطلقا ہر دین کے کام میں نہیں بھولتے تھے بلکہ ہم کہتے ہیں کہ دین کی تبلیغ کا فریضہ چونکہ اللہ کی طرف سے تھا تو اسکی ذمہ داری اللہ نے لی تھی اس میں معصوم اللہ کی طرف سے رکھے گئے تھے آپ تمام دینی امور لے کر خلط ملط کر رہے ہیں
ہمارا موقف:
محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے امور دو طرح کے ہیں ایک دینی دوسرے دنیاوی
دینی امور پھر دو طرح کے ہیں
1-بحثیتِ عبدہ اپنی ذات کے امور (اس میں صغیرہ غلطیاں ہوئی ہیں)
2-بحثیتِ پیغمبر اللہ کے پیغام پہنچانے کے امور (اس میں آپ کو معصوم رکھا گیا ہے)
جیسا کہ صحیح مسلم میں کجھور والی حدیث میں ہے مگر اس میں مطلقا دینی امور کی بجائے دین کے احکام یا تبلیغ کا معاملہ ہے چنانچہ مسلم میں ہے
انما انا بشر اذا امرتکم بشیء من دینکم فخذوا بہ واذا امرتکم بشیء من رایی فانما انا بشر
یعنی جب دین میں حکم (یعنی تبلیغ) کا معاملہ ہو گا تو غلطی نہیں ہو گی کیونکہ اللہ نے اسی کی حفاظت کا ذمہ لیا ہے
اگر اوپر والا ہمارا موقف سمجھ نہیں آیا تو پھر ہمارے موقف کو بحوالہ اپنی شیعہ ویب سائٹ سمجھ لیں

"نبوت کے بارے میں شیعہ سنی اختلاف کا موضوع عصمت کا مسئلہ ہے ۔ شیعہ اس کے قائل ہیں کہ انبیاء بعثت سے قبل بھی معصوم ہوتے ہیں اور بعثت کےبعد بھی ۔ اہل سنت کہتے ہیں کہ جہاں تک کلام اللہ کی تبلیغ کا تعلق ہے ، انبیاء بے شک معصوم ہیں لیکن دوسرے معاملات میں وہ عام انسانوں کی طرح ہیں"


اب میں دینی امور کے بارے مختصرا اپنے موقف کی وضاحت کر دوں (محترم خضر حیات بھائی یا محترم استاد انس بھائی توثیق یا اصلاح کر دیں)
1-بحثیتِ عبدہ اپنی ذات کے امور
اپنی ذات کے اعمال کے لحاظ سے محمد آلی اللہ علیہ وسلم چونکہ ہمارے لئے نمونہ ہیں اس لئے معجزات سے ہٹ کر ہماری طرح ہیں- پس جو ہر معاملے میں مکمل معصوم سمجھتے ہیں تو ذرا غور کریں اس سے فرق کیا پڑے گا
ہمارے عقیدے کے مطابق ماننے سے جو اعتراض آپ کو بظاہر نظر آتا ہے کہ کچھ چیزوں میں غیر معصوم بنانے والے قرآن و حدیث کے حوالے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی عزت کم کرتے ہیں پس انکی تاویل کریں یا رد کریں تو بہرام صاحب یہ جہالت ہے جیسے کوئی لاتقربو الصلوۃ کو پڑھ کر کہے نماز نہیں پڑھنی تو اسکو جاہل کہیں گے کہ باقی آیت سے تو ملائیں- اسی طرح ان لوگوں کو کہا جائے گا کہ دوسری حدیثوں سے ملا کر دیکھو جیسا کہ اوپر بہرام صاحب نے لکھا ہے کہ رفع عن أمتي الخطأ والنسيان وما استكرهوا عليه پس جب خطا اور نسیان کا گناہ ہی نہیں تو پھر بے عزتی کس بات کی-
اس کے لئے میں آپ کو ایک مثال سے سمجھانے کی کوشش کرتا ہوں کسی کے بارے جماع (بذریعہ زنا) کا اثبات اسکی عزت کم کرتا ہے مگر جماع (بذریہ نکاح یا ملکیت) یا آپ کے نزدیک جماع (بذریہ متعہ) کا اثبات عزت کم نہیں کرتا- آپ ذرا بتائیں گے کہ کیوں ایسا ہوتا ہے- اسلئے کہ اللہ نے فرمایا والذین ھم لفروجھم حفظون الا علی ازواجھم او ما ملکت ایمانھم- پس شام میں کوئی درندہ ہماری بہن کے ساتھ زنا کرے گا تو ہماری بے عزتی ہو گی مگر نکاح کرے گا تو ہمارا سر بلند ہو- سر بلند ہونے پر حدیث بھی بتا دوں کہ کل بنی ادم خطاء وخیر الخطائین التوابون وغیرہ
ویسے ایک لمحے کے لئے عزت میں کمی مان لیتے ہیں لیکن دیکھیں پھر اس سے نقصان کیا ہو گا وہی جو اہل تشیع کی حالت دیکھ کر لگتا ہے کہ انھوں نے اماموں کو معصوم کہ کر انکی عبادت ہی شروع کر دی ہے کیونکہ جب آپ انکو ذاتی طور پر معصوم عن الخطا سمجھیں گے تو اسکو ہی معبود بنا لینا آسان ہو جائے گا تو آپ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی جعلی عزت کی خاطر اللہ کے دین کو ہی داؤ پر لگا دیتے ہیں جس پر آپ کے پاس قرآن و حدیث سے کوئی دلیل نہیں-آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی ذات کے لئے مبعوث نہیں کیے گئے بلکہ پوری دنیا کی بھلائی کے لئے بھیجے گئے ہیں یاد رکھیں تمام انبیاء نے اپنی ذات کے مقابلہ میں اللہ کے دین کو فضیلت دی اس پر قرآن و حدیث گواہ ہے مثلا آپ کا فرمانا تو لو فاطمۃ بنت محمد سرقت لقطعت یدھا کہنے سے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے خاندان سے اللہ کے دین کی عزت زیادہ ثابت ہوئی اسی طرح شعیب علیہ السلام کا فرمانا کہ یقوم ارھطی اعز علیکم من اللہ و اتخذتموہ وراءکم ظھریا- یعنی تم میرے قبیلے کی عزت اللہ سے زیادہ کرتے ہو اسی طرح کے اور ڈھیروں دلائل ہیں- پس ان سے بھی ثابت ہوتا ہے کہ اللہ کے دین کے لئے تو انھوں نے کسی چیز کی پرواہ نہیں کی کیونکہ تبلیغ سے پہلے وہ آپ کی عزت ہی کرتے تھے اور دشمنی شروع ہی اللہ کے دین کی وجہ سے تھی جیسے فرمایا انھم لا یکذبونک ولکن الظلمیں بایات اللہ یجحدوں یعنی یہ ظالم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دشمن نہیں بلکہ اللہ کے دین کے دشمن ہیں

2-بحثیتِ پیغمبر اللہ کے پیغام پہنچانے کے امور
اس میں چونکہ تمام انبیاء رسلا مبشرین و منذرین لئلا یکون لناس علی اللہ حجۃ بعد الرسل کے تحت اللہ کی حجت قائم کرنے والے ہیں تو اس میں غلطی دین میں غلطی سمجھی جائے گی پس اس میں معصوم بناننے کا مقصد صرف آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات کے لئے نہیں بلکہ اللہ کے دین کی حقانیت کے لئے ہے-اس کے لئے اللہ نے وحی کے بارے فرمایا کہ انا نحن نزلنا الذکر وانا لہ لحفظون اور دوسری جگہ فرمایا عالم الغیب فلا یظھر علی غیبہ الا من ارتضی من رسول فانہ یسلک من بین یدیہ و من خلفہ رصدا (یعنی اللہ پیغمبر کے آگے پیچھے محافظ بھیج دیتا ہے تو یہ بندوبست اللہ نے کئے ہیں

نوٹ:اس پس منظر میں مزید بات علیحدہ موضوع میں کرنا زیادہ بہتر رہے گا
 

عبدہ

سینئر رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 01، 2013
پیغامات
2,035
ری ایکشن اسکور
1,227
پوائنٹ
425
یاد رکھیں تمام انبیاء نے اپنی ذات کے مقابلہ میں اللہ کے دین کو فضیلت دی اس پر قرآن و حدیث گواہ ہے مثلا آپ کا فرمانا لو فاطمۃ بنت محمد سرقت لقطعت یدھا یہ کہنے سے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے خاندان سے اللہ کے دین کی عزت زیادہ ثابت ہوئی اسی طرح شعیب علیہ السلام کا فرمانا کہ یقوم ارھطی اعز علیکم من اللہ و اتخذتموہ وراءکم ظھریا- یعنی تم میرے قبیلے کی عزت اللہ سے زیادہ کرتے ہو اسی طرح کے اور ڈھیروں دلائل ہیں- پس ان سے بھی ثابت ہوتا ہے کہ اللہ کے دین کے لئے انھوں نے کسی چیز کی پرواہ نہیں کی
تمام انبیاء کا نعرہ

میری زندگی کا مقصد تیرے دین کی سرفرازی

میں اسی لئے مسلمان میں اسی لئے نمازی​




ابن کثیر اس آیت کے ذیل میں کہتے ہیں کہ
وإما ينسينك الشيطانیہ خطاب امت کے کل افراد سے ہے یعنی امت محمدی کے ہر فرد پر حرام ہے کہ ایسی مجلس میں یا ایسے لوگوں کے ساتھ بیٹھے جو اللہ کی آیتوں کی تکذیب کرتے ہوں ان کے معنی الٹ پلٹ کرتے ہوں اور ان کی بے جا تاویلیں کرتے ہوں اگر بلفرض بھولے سے ان میں بیٹھ جائے تو یاد آنے پر ایسے ظالموں کے پاس بیٹھنا ممنوع ہے
ولهذا ورد في الحديث : " رفع عن أمتي الخطأ والنسيان وما استكرهوا عليه "
حدیث میں ہے کہ" اللہ تعالیٰ نے میری امت کی خطاء اور بھول سے در گذر فرمالیا ہے اور ان کاموں سے بھی جو ان سے زبردستی مجبور کرکے کرائے جائیں
اس بھول کی نسبت رسول اللہ صلی اللہ کی جانب آپ کیوں کر رہے ہیں


آپ اس کی نسبت کسی اور کی طرف کرنا چاہتے ہیں تو پہلے یہ بتائیں کہ
1-آپ اسکو قرآن و حدیث کے تحت ہمارے علماء کے متفقہ مفہوم سے ثابت کریں گے یا
2-قرآن و حدیث کے تحت اپنے علماء کے مفہوم سے ثابت کریں گے یا
3-عقلی طور پر ثابت کریں گے
جس طرح سے چاہیں پہلے تعین کر کے ثابت کریں اگر دلیل ٹھیک ہو گی تو مان لوں گا ورنہ بتا دوں گا
 

حرب بن شداد

سینئر رکن
شمولیت
مئی 13، 2012
پیغامات
2,149
ری ایکشن اسکور
6,345
پوائنٹ
437
کوئی مجھ سے ہمیشہ یہ مطالبہ کرتا رہتا ہے کہ جب بھی کوئی عربی عبارت پیش کی جائے اس کے ساتھ اس کا اردو ترجمہ بھی لکھا جائے ہوسکتا ہے کسی نے آپ سے یہ مطالبہ نہ کیا ہو اس لئے آپ نے قرآن مجید کی آیات کا اردو ترجمہ ساتھ میں پیش نہیں کیا ! دعا کریں کے ان صاحب کی نظر آپ کی پوسٹ پر نہ پڑے !
جاندار مسکراہٹ
شکریہ اعتراض اُٹھانے کے لئے۔۔۔
میں یہ ہی چاہتا تھا کہ آپ یہ المِ اعتراض بلند کریں۔۔۔
تاکہ آئندہ آپ کم سے کم مجھے اس جاندار مسکرانے کا موقع نہ دیں۔۔۔
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,800
پوائنٹ
1,069
شکریہ اعتراض اُٹھانے کے لئے۔۔۔
میں یہ ہی چاہتا تھا کہ آپ یہ المِ اعتراض بلند کریں۔۔۔
تاکہ آئندہ آپ کم سے کم مجھے اس جاندار مسکرانے کا موقع نہ دیں۔۔۔

بھائی یہ جاندار مسکرانا کیا ہوتا ہے -
 

علی بہرام

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 18، 2013
پیغامات
1,216
ری ایکشن اسکور
162
پوائنٹ
105
علی بہرام نے کہا ہے



بے شک بھائی اس میں کوئی شک نہیں حضرت حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہہ جنتی جوانوں کے سردار ہے لیکن آپ لوگوں سے ایک شکوہ ہے کہ آپ لوگ حضرت حسن رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا ذکر کیوں نہیں کرتے-

دوسرا آپ یہ بھی بتا کہ وہ پانچ کون سے نام ہے جن کو آپ پاک مانتے ہیں- باقی اہل بیت کا بارے میں آپ کی کیا رائے ہیں اللہ تعالیٰ سے دعا ہے اللہ تعالیٰ آپ کو صحیح دین سمجھنے کی توفیق دے - آمین





http://forum.mohaddis.com/threads/اسلام-دشمن-شیعہ-مذہب-کی-گھٹیا-پالیسی.18885/
یہ اس موضوع سے متعلق تو نہیں پھر بھی آپ کی غلط فہمی کو دور کرنا مجھ پر واجب ہے اس لئے میں آپ سے یہ کہوں گا کہ اس محدث فورم پر میں نے ایک تھریڈ میں اب تک صرف امام حسن کی شان ہی بیان کی ہے درجہ ذیل لنک پر
http://forum.mohaddis.com/threads/شان-نواسہ-رسول-صلی-اللہ-علیہ-وآلہ-وسلم.18305/
امید ہے اب غلط فہمی دور ہوئی ہوگی
 

حرب بن شداد

سینئر رکن
شمولیت
مئی 13، 2012
پیغامات
2,149
ری ایکشن اسکور
6,345
پوائنٹ
437
فَأَوْجَسَ فِي نَفْسِهِ خِيفَةً مُوسَىٰ
ترجمہ فتح محمد جالندھری
(اُس وقت) موسیٰ نے اپنے دل میں خوف معلوم کیا
ترجمہ محمد جوناگڑھی
پس موسیٰ (علیہ السلام) نے اپنے دل ہی دل میں ڈر محسوس کیا

یعنی موسیٰ علیہ السلام نے اس وقت ڈر محسوس کیا اور اس خوف کی وجہ یہ نہیں تھی کہ آپ کی آنکھوں پر جادو گروں نے سحر کردیا تھا اور ان کی ڈالی ہوئی رسیاں اور لکڑیاں موسیٰ علیہ السلام کو سانپ سانپ نظر آرہی تھی بلکہ اس خوف کی وجہ تماشائیوں کے حق سے دور ہوکر ہلاکت میں پڑ جانا اس خوف کی وجہ تھا یاد رہے اس آیت کی یہ تفسیر ابن کثیر نے کی ہے
البدایہ والنہایہ کے صفحہ ١١٩-١٢٦) ابن کثیر فرماتے ہیں کہ!۔۔۔
خدا کی قدرت ہمارے سُنی کہلانے والوں نے ہی امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کو تو دور رشد وہدایت سے نکال دیا اور انہی کے جانشینوں میں سے خلیفہ عمربن عبدالعزیز کو خلفائے راشدین میں شمار کرلیا۔۔۔

حالانکہ یہی عمر بن عبدالعزیز خلیفہ راشد ہونے کے باوجود امیر معاویہ رضی اللہ عنہ صحابی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے رشد کے عشر عشیر کو بھی نہیں پہنچ سکتے۔۔۔ ملاحظہ کیجئے۔۔۔

امام اعمش بیان کرتے ہیں کہ اُن کے سامنے کچھ لوگوں نے حضرت عمر بن عبدالعزیز کے عدل وانصاف کا تذکرہ کیا تو انہوں نے کہا کاش تم حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ صحابی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا زمانہ پاتے تو پھر اُن کے عدل وانصاف کو دیکھتے۔۔۔

اسی طرح ابو اسحاق سبیعی نے کہا ایک مرتبہ ایک مجلس میں حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ صحابی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دور حکومت ک وپاتے تو بےاختیار پُکار اٹھتے کہ یہی مہدی ہے (منہاج السنۃ صفحہ ١٨٥ جلد ٣)۔۔۔

یہی نہیں ابن کثیر فرماتے ہیں!۔۔۔
وہ عمدہ سیرت کے مالک انتہائی درگذر کرنے والے پردہ پوش شخص تھے جہاد جاری کیا اور اللہ کا کلمہ بلند رکھا اطراف واکناف سے غنائم کی ریل پیل تھی مسلمان ان کے سایہ میں راحت وعدل، عفوو ودرگذر کی زندگی بسر کرتے رہے۔۔۔

مزید!۔۔۔

جب جنت میں عورتوں کی سردار فاطمہ رضی اللہ عنھا بنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم غار یار حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ صحابی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ناراض تھیں تب صحابی رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد پر اصرار کیا تھا کہ ہمارا ورثہ نہیں ہوتا ہم جو چھوڑ جائیں وہ صدقہ ہوتا ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رحلت کے بعد حضرت فاطمہ رضی اللہ عنھا صرف چھ ماہ بقید حیات رہیں اپنے گھر الگ بیٹھی رہیں اور حضرت علی رضی اللہ عنہ بھی ان کے ساتھ علیحدہ ہی رہے۔۔۔

ابن کثیر نے البدایہ والنہایہ میں بیان فرمایا ہے۔۔۔
کہ جب حضرت فاطمہ رضی اللہ عنھا بیمار ہوئیں تو حضرت ابوبکر صدیق صحابی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے پاس آئے اور اُن کو راضی کرتے رہے پھر وہ راضی ہوگئیں اس واقعے کو بہیقی رحمہ اللہ نے اسماعیل بن ابی خالد کے واسطے سے شعبی سے روایت کیا ہے اور پھر کہا یہ مرسل حسن ہے اور کی سند صحیح ہے۔

ابن کثیر نے البدایہ والنہایہ میں بیان کیا ہے۔۔۔
حضرت علی رضی اللہ عنہ حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ صحابی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے نمازیں پڑھتے رہے اور جب صدیق اکبر رضی اللہ عنہ صحابی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مرتدین سے جہاد کیا تو حضرت علی رضی اللہ عنہ داماد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی اس جہاد میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے سسر رضی اللہ عنہ کے ساتھ برابر شریک ہوئے۔۔۔

ابن کثیر نے البدایہ والنہایہ میں بیان کیا ہے۔۔۔
ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ صحابی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمانوں کے ساتھ صبح کی نماز پڑھی اس وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بے ہوشی سے کچھ افاقہ ہوا تھا آپ نے حجرہ کا پردہ اٹھایا اور مسلمانوں کو دیکھا وہ ابوبکررضی اللہ عنہ صحابی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے نماز پڑھ رہے تھے آپ کویہ منظر بہت پسند آیا اور تبسم فرمانے لگے اور اصحاب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اتنی خوشی ہوئی کہ ان کا دل چاہتا تھا کہ نماز چھوڑ کر آپ کے پاس آجائیں اور ابوبکر رضی اللہ عنہ صحابی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم صف میں پیچھے ہٹ آنے کا ارادہ کیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا اپنی جگہ پر کھڑے رہو اور پردل ڈال دیا یہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا آخری دیدار تھا۔۔۔

جاری ہے۔۔۔
 

علی بہرام

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 18، 2013
پیغامات
1,216
ری ایکشن اسکور
162
پوائنٹ
105
بہرام صاحب آپ کی قیاس مع الفارق کی عادت نہیں جائے گی ہم نے نہ یہ کہا ہے کہ نماز دینی امور سے نہیں اور نہ یہ دعوی کیا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم مطلقا ہر دین کے کام میں نہیں بھولتے تھے بلکہ ہم کہتے ہیں کہ دین کی تبلیغ کا فریضہ چونکہ اللہ کی طرف سے تھا تو اسکی ذمہ داری اللہ نے لی تھی اس میں معصوم اللہ کی طرف سے رکھے گئے تھے آپ تمام دینی امور لے کر خلط ملط کر رہے ہیں
ہمارا موقف:
محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے امور دو طرح کے ہیں ایک دینی دوسرے دنیاوی
دینی امور پھر دو طرح کے ہیں
1-بحثیتِ عبدہ اپنی ذات کے امور (اس میں صغیرہ غلطیاں ہوئی ہیں)
2-بحثیتِ پیغمبر اللہ کے پیغام پہنچانے کے امور (اس میں آپ کو معصوم رکھا گیا ہے)
جیسا کہ صحیح مسلم میں کجھور والی حدیث میں ہے مگر اس میں مطلقا دینی امور کی بجائے دین کے احکام یا تبلیغ کا معاملہ ہے چنانچہ مسلم میں ہے
انما انا بشر اذا امرتکم بشیء من دینکم فخذوا بہ واذا امرتکم بشیء من رایی فانما انا بشر
یعنی جب دین میں حکم (یعنی تبلیغ) کا معاملہ ہو گا تو غلطی نہیں ہو گی کیونکہ اللہ نے اسی کی حفاظت کا ذمہ لیا ہے
اگر اوپر والا ہمارا موقف سمجھ نہیں آیا تو پھر ہمارے موقف کو بحوالہ اپنی شیعہ ویب سائٹ سمجھ لیں

"نبوت کے بارے میں شیعہ سنی اختلاف کا موضوع عصمت کا مسئلہ ہے ۔ شیعہ اس کے قائل ہیں کہ انبیاء بعثت سے قبل بھی معصوم ہوتے ہیں اور بعثت کےبعد بھی ۔ اہل سنت کہتے ہیں کہ جہاں تک کلام اللہ کی تبلیغ کا تعلق ہے ، انبیاء بے شک معصوم ہیں لیکن دوسرے معاملات میں وہ عام انسانوں کی طرح ہیں"
شعیہ کہتے ہیں کہ کلام اللہ کی تبلیغ میں انبیاء سے خطاء سے معصوم ہیں( یعنی کلام اللہ میں سے کچھ نہیں بھولتے)
لیکن وہابی کہتے ہیں کلام اللہ کی آیات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بھول جاتے تھے بغیر جادو ہوئے بھی نعوذباللہ
یہ ہے بنیادی فرق
اور پھر یہ دعویٰ بھی بلا دلیل کیا جاتا ہے کہ جادو ہونے پر نعوذباللہ رسول اللہ دینی امر میں سے کچھ نہیں بھولے اس دعویٰ کی دلیل بھی ادھار ہے

ایک بات اور آپ کے گوش کردوں کہ کسی تھریڈ میں شیعہ پر منکر عصمت انبیاء کا الزام بھی لگایا گیا تھا کچھ اس طرح
﴿العقیدۃ الحسنۃ مع البیان الازہر : ص ۳۹﴾
امام رازی(رح)﴿یہ تفسیرکبیرکے مصنف کے علاوہ ہیں﴾ نے ''عصمت الانبیاء '' کے عنوان سے ایک مستقل کتاب تحریر کی ہے،جو اس موضوع پر بڑی جامع اور علمی اسلوب سے مزین ہے، اس کتاب میں آپ نے پہلے نفس مسئلہ پر بحث کی ہے، پھر اس سے فراغت کے بعد بعض انبیائ کرام علیہم السلام کے بعض واقعات جو بظاہر ''عصمت'' کے منافی محسوس ہوتے ہیں ان کے شافی جوابات دیئے ہیں اور حقیقی صورت حال واضح کی ہے۔
﴿۱﴾اِعتقادات سے متعلق عصمت انبیائ:
اس بات پر امت کا اجماع ہے کہ انبیائ علیہم السلام کفر اور بدعت ﴿جو تمام فاسداِعتقادات کی جڑہیں﴾ سے معصوم ہوتے ہیں ۔اس مسئلہ میں صرف خوارج کے ایک فرقہ فضیلیہ اور اہل تشییع کا اختلاف ہے۔
http://forum.mohaddis.com/threads/کسی-بھی-عالم-پر-اعتراض-کرنے-سے-پہلے-ان-باتوں-کا-خیال-رکھ-لیں-تاکہ-بعد-میں-آپکو-پشیمانی-نہ-ہو.12103/page-2#post-134671
لیکن اگر دیکھا جائے تو اس تھریڈ سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ شیعہ عصمت انبیاء کے بھر پور قائل ہیں ہاں یہ بات ضرور ہے کہ خوارج عصمت انبیاء کے قائل نہیں اور ان خوارج کا نیا نام اہل حدیث ہے اور یہ آج کل وہابی کے نام سے معروف ہیں
 

ضدی

رکن
شمولیت
اگست 23، 2013
پیغامات
290
ری ایکشن اسکور
275
پوائنٹ
76
لیکن اگر دیکھا جائے تو اس تھریڈ سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ شیعہ عصمت انبیاء کے بھر پور قائل ہیں ہاں یہ بات ضرور ہے کہ خوارج عصمت انبیاء کے قائل نہیں اور ان خوارج کا نیا نام اہل حدیث ہے اور یہ آج کل وہابی کے نام سے معروف ہیں
تامرد سخن نگفتہ باشد
عیب وہنرنہفتہ باشد

انہوں نے بول کر اپناپول کھولاہے۔
 

محمد علی جواد

سینئر رکن
شمولیت
جولائی 18، 2012
پیغامات
1,986
ری ایکشن اسکور
1,553
پوائنٹ
304
السلام و علیکم -

نبی کریم صل الله علیہ و آ لہ وسلم پر جادو کا اثر کرنا احادیث صحیہ سے ثابت ہے -بعض لوگوں کا خیال ہے کہ نبی کریم صل الله علیہ و آ لہ وسلم پر جادو کا اثر ممکن نہیں کیوں کہ جادو شیطان کا ہتھکنڈہ ہے اور شیطان ایک نبی کو نقصان پہنچانے کی طاقت نہیں رکھتا- جیسے کہ قرآن میں ہے کہ إِنَّ عِبَادِي لَيْسَ لَكَ عَلَيْهِمْ سُلْطَانٌ ۚ وَكَفَىٰ بِرَبِّكَ وَكِيلًا سوره بنی اسرائیل ٦٥ (میرے خاص بندوں پر تیرا غلبہ نہیں ہو گا اور تیرا رب کافی کارساز ہے)- اس میں کوئی شک و شبہ نہیں ہونا چاہیے کہ الله رب العزت اپنے مقرب بندوں کی شیطان لعین سے خصوصی حفاظت فرماتا ہے -

لیکن یہ امر بھی اپنی جگہ مسلم ہے کہ کہ شیطان کو اس بات کی کھلی اجازت ہے کہ وہ انسانوں کو بہکانے کی جتنی کوشش کر سکتا ہے کرلے -

اسی سوره میں الله کا ارشاد ہے :
وَاسْتَفْزِزْ مَنِ اسْتَطَعْتَ مِنْهُمْ بِصَوْتِكَ وَأَجْلِبْ عَلَيْهِمْ بِخَيْلِكَ وَرَجِلِكَ وَشَارِكْهُمْ فِي الْأَمْوَالِ وَالْأَوْلَادِ وَعِدْهُمْ ۚ وَمَا يَعِدُهُمُ الشَّيْطَانُ إِلَّا غُرُورًا سوره بنی اسرائیل ٦٤
ان میں سے جسے تو اپنی آواز سنا کر بہکا سکتا ہے بہکا لے اور ان پر اپنے سوار اور پیادے بھی چڑھا دے اوران کے مال اور اولاد میں بھی شریک ہو جا اور ان سے وعدے کر اور شیطان کے وعدے بھی محض فریب ہی تو ہیں
-

اس لحاظ سے دیکھا جائے تو شیطان اپنی کوشش میں آزاد ہے -لیکن اس کوشش کے باوجود وہ الله کے خالص بندوں پر مکمل تصرف حاصل کرنے میں ناکام ہے-یعنی اگر وہ الله کے مقرب بندے یا نبی کو نقصان میں مبتلا کرتا بھی ہے تو وہ اپنا اصل مقصد میں ناکام نا مراد رہتا ہے- کیوں کہ وہ نقصان وقتی ہوتا ہے - اور یہ بات ظاہر ہے کہ نفع و نقصان الله کا ازن سے ہی ہوتا ہے - اب چاہے نقصان شیطان کی کوشش سے ہو یا (یعنی جادو کے اثر سے ہو) یا کسی انسان کی کوشش سے ہو - جیسا کہ مکہ میں تبلیغ اسلام کے آغاز میں مشرکین کے طرف سے الله کے نبی صل الله علیہ و آ لہ وسلم کو شدید تکلیفوں کا سامنا کرنا پڑا - اور یہ صرف نبی کریم صل الله علیہ و آ لہ وسلم کے ساتھ نہیں ہوا بلکہ تقریبا ہر نبی کو ان تکلیفوں و نقصانات کا سامنا کرنا پڑا -اس ضمن میں نا صرف نبی کریم صل الله علیہ و آ لہ وسلم کو تکلیفیں دی گئیں بلکہ آپ کو بہکانے کی بھی کوشش کی گئی -قرآن میں الله کا فرمان ہے :

وَلَوْلَا أَنْ ثَبَّتْنَاكَ لَقَدْ كِدْتَ تَرْكَنُ إِلَيْهِمْ شَيْئًا قَلِيلًا سوره بنی اسرئیل ٧٤
اور اگرہم تجھے ثابت قدم نہ رکھتے تو کچھ تھوڑا سا ان کی طرف جھکنے کے قریب تھا -


اب آتے ہیں نبی کریم صل الله علیہ و آ لہ وسلم پر جادو کے اثر کی حقیقت پر -
جو لوگ نبی نبی کریم صل الله علیہ و آ لہ وسلم پر جادو کے اثر کے قائل نہیں وہ ان آیات سے استدلال کرتے ہیں

1)وَلَا یُفْلِحُ السَّاحِرُ حَیْْثُ أ َتٰی( طہ ٦٩)
''جادوگر کہیں سے بھی آجائے کامیاب نہیں ہوگا ''۔
2)إِلاَّ عِبَادَکَ مِنْہُمُ الْمُخْلَصِیْنَ ( حجر٤٠)
''تیرے مخلص بندوں پر میری کسی شرارت کا اثرنہ ہوگا'' ۔
3)وَقَالَ الظَّالِمُوْنَ إِنْ تَتَّبِعُوْنَ إِلَّا رَجُلاً مَّسْحُوْرًا (سوره الفرقان ٨ )
''اور ظالموں نے کہا نہیں وہ اتباع کرتے مگر سحرزدہ آدمی کی -


ان کا کہنا ہے کہ نبی کریم صل الله علیہ و آ لہ وسلم پر مندرجہ بالا آیات کی روشنی میں یہ ممکن نہیں کہ جادو ان پر اثر انداز ہوا تھا - اس بنا پر وہ احادیث جن میں نبی پر جادو کا ذکر ہے ان کا صریح انکار کرتے ہیں - لیکن -
کسی صحیح حدیث میں موجود نہیں ہے کہ لبید بن اعصم جس نے نبی کریم صل الله علیہ و آ لہ وسلم پر جادو کیا تھا وہ کامیاب ہوگیا بلکہ اسے تو منہ کی کھانی پڑی۔

آیت مبارکہ میں ارشاد ہوتا ہے کہ (شیطان کہتا ہے کہ) تیرے مخلص بندوں پر میرا کوئی زور نہ ہوگا اگر ہم صحیح حدیث کا مطالعہ کریں تو یہ بات عیاں ہوجاتی ہے کہ شیطان نے بہت کچھ چاہا لیکن وہ پوار نہ ہوسکا اور وہ جادو نبی کی دینی زندگی پر اثر انداز نہ ہوسکا اور اللہ نے اپنے نبی کو بچالیا۔
جہاں تک سورہ فرقان کی آیت کا تعلق ہے تو اس میں لفظ مَّسْحُوْرًا کے لفظی معنی ''عقل کا جانا اور بگاڑ پیدا ہونا''

یعنی کفار نبی صل الله علیہ وسلم پر یہ الزام تراشی کرتے تھے کہ اس شخص کی عقل بگڑ گئی ہے (نعوزو باللہ) لہذ ا اس آیت سے یہ استدلال کرنا کہ نبی پر جادو ممکن نہیں سرے سے غلط ہے -جادو کے اثر سے آپ کی عقل میں نعوز باللہ کوئی فرق نہیں آیا بس وقتی طور پرآپ صل الله علیہ وسلم کو نسیان ہو جاتا تھا -

جب کے نسیان یا بھول چوک ہونا اور بات ہے کیوں کہ بشریت کے تقاضے کہ تحت (قُلْ إِنَّمَا أَنَا بَشَرٌ مِثْلُكُمْ يُوحَىٰ إِلَيَّ أَنَّمَا إِلَٰهُكُمْ إِلَٰهٌ وَاحِدٌ ۖ سوره الکھف ١١٠ ترجمہ: کہہ دو کہ میں بھی تمہارے جیسا آدمی ہی ہوں میری طرف وحی کی جاتی ہے) یہ نا ممکن نہیں تھا -جیسا حضرت موسیٰ علیہ سلام اور حضرت خضر علیہ سلام کے قصّے میں بھی دونوں اصحاب کے لئے نسیان کے لفظ استمال ہوا ہے - فَلَمَّا بَلَغَا مَجْمَعَ بَيْنِهِمَا نَسِيَا حُوتَهُمَا فَاتَّخَذَ سَبِيلَهُ فِي الْبَحْرِ سَرَبًا سوره الکھف ٦١ ترجمہ: پھر جب وہ دو دریاؤں کے جمع ہونے کی جگہ پر پہنچے دونوں اپنی مچھلی کو بھول گئے پھر مچھلی نے دریا میں سرنگ کی طرح کا راستہ بنا لیا)-

ایک صحیح حدیث میں بھی ہے کہ نبی کریم صل الله ا؛علیہ وسلم ایک دفعہ صحابہ کرام رضوان الله اجمعین کو عشاء کی نماز پڑھائی اور نماز پڑھانے کے بعد فوری طور پر اٹھ کر حجرے کی طرف چلے گئے-اگللے دن صحابہ کرام رضوان الله اجمعین نے آپ سے نماز کے فوری بعد جانے کی وجہ پوچھی تو نبی کریم صل الله علیہ و آ لہ وسلم نے فرمایا کہ کل میرے گھر میں کہیں سے سونے کی ایک ڈلی آئی تھی - مجھے نماز کے دوران یاد آیا تو مجھے اچھا نہ لگا کہ میں الله سے اس حال میں ملوں کہ میرے گھر میں ایک رات بھی سونا موجود ہو- اس لئے نماز کے بعد گھر گیا اور وہ سونے کی ڈلی صدقہ کردی - مطلب یہ ہے کہ آپ صل الله ا؛علیہ وسلم کو یاد نہ رہنا کہ ان کے گھر میں سونے ی ڈلی رکھی ہوئی ہے -بشری تقاضے کے تحت تھا - تو اگر جادو کے اثر سے آپ صل الله علیہ وسلم کو خیال ہونا جیسے ایک کام کررہے ہیں حالانکہ وہ کام آپ صل الله ا؛علیہ وسلم نہیں کیا تو اس روایت کو ماننے میں آخر کیا قباحت ہو سکتی ہے ؟؟

لہذا اگر الله رب العزت نبی کریم صل الله علیہ وسلم کو مشرکین مکہ کی طرف سے جسمانی تلکلیف میں مبتلا کر نے کے باوجود آپ کی حفاظت فرما سکتا ہے- تو آپ صل الله علیہ وسلم پر جادو کے اثر ہونے کا بعد اس کو زائل بھی کر سکتا ہے- یہ آپ صل الله علیہ وسلم کی بشریت کے منافی نہیں تھا -
والسلام -
 

عبدہ

سینئر رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 01، 2013
پیغامات
2,035
ری ایکشن اسکور
1,227
پوائنٹ
425

لیکن وہابی کہتے ہیں کلام اللہ کی آیات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بھول جاتے تھے بغیر جادو ہوئے بھی نعوذباللہ

ہمارے موقف کو غلط بنا کر پیش کرنے کی ہی وجہ سے ہی میں نے آپ کو اپنا موقف تفصیل سے نمبروں میں بتایا تھا اور اس پر آپ کے شیعہ سائٹ کی تصدیق بھی لکھی تھی کہ شیعہ اور اہل سنت کا عصمت انبیاء میں کیا فرق ہے یہ سب کچھ آپ کو باندھنے کے لئے ہے کیونکہ آپ جان بوجھ کر غلط طرف نکل جاتے ہیں وہ دوبارہ دیکھ لیں

بہرام صاحب آپ کی قیاس مع الفارق کی عادت نہیں جائے گی ہم نے نہ یہ کہا ہے کہ نماز دینی امور سے نہیں اور نہ یہ دعوی کیا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم مطلقا ہر دین کے کام میں نہیں بھولتے تھے بلکہ ہم کہتے ہیں کہ دین کی تبلیغ کا فریضہ چونکہ اللہ کی طرف سے تھا تو اسکی ذمہ داری اللہ نے لی تھی اس میں معصوم اللہ کی طرف سے رکھے گئے تھے آپ تمام دینی امور لے کر خلط ملط کر رہے ہیں
ہمارا موقف:
محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے امور دو طرح کے ہیں ایک دینی دوسرے دنیاوی
دینی امور پھر دو طرح کے ہیں
1-بحثیتِ عبدہ اپنی ذات کے امور (اس میں صغیرہ غلطیاں ہوئی ہیں)
2-بحثیتِ پیغمبر اللہ کے پیغام پہنچانے کے امور (اس میں آپ کو معصوم رکھا گیا ہے)
جیسا کہ صحیح مسلم میں کجھور والی حدیث میں ہے مگر اس میں مطلقا دینی امور کی بجائے دین کے احکام یا تبلیغ کا معاملہ ہے چنانچہ مسلم میں ہے
انما انا بشر اذا امرتکم بشیء من دینکم فخذوا بہ واذا امرتکم بشیء من رایی فانما انا بشر
یعنی جب دین میں حکم (یعنی تبلیغ) کا معاملہ ہو گا تو غلطی نہیں ہو گی کیونکہ اللہ نے اسی کی حفاظت کا ذمہ لیا ہے
اگر اوپر والا ہمارا موقف سمجھ نہیں آیا تو پھر ہمارے موقف کو بحوالہ اپنی شیعہ ویب سائٹ سمجھ لیں

"نبوت کے بارے میں شیعہ سنی اختلاف کا موضوع عصمت کا مسئلہ ہے ۔ شیعہ اس کے قائل ہیں کہ انبیاء بعثت سے قبل بھی معصوم ہوتے ہیں اور بعثت کےبعد بھی ۔ اہل سنت کہتے ہیں کہ جہاں تک کلام اللہ کی تبلیغ کا تعلق ہے ، انبیاء بے شک معصوم ہیں لیکن دوسرے معاملات میں وہ عام انسانوں کی طرح ہیں"
اب آپ بتائیں کہ آپ کو مندرجہ ذیل میں سے کون سا اعتراض ہے
1-میں نے اوپر اپنا موقف غلط لکھا ہے تو آپ ہمارا صحیح موقف لکھ کر ثابت کر دیں
2-میں نے موقف ٹھیک لکھا ہے مگر یہ موقف نقلی اور عقلی طور پر غلط ہے تو پھر آپ اس کا غلط ہونا ثابت کر دیں

جہاں تک آپ نے قرآن کی آیات کو بھولنے والی بات کی ہے تو پہلے آپ اس بات کا تعین کریں کہ وہ دینی امور میں سے ہمارے کون سے نمبر کے تحت آتی ہے اور پھر اس پر ہمارا موقف کیا ہے اس پر بات کرنی ہے تو اس کو چن لیں لیکن تعین کرنا لازمی ہے ورنہ پانی میں مدھانی چلانے کا کیا فائدہ



اور پھر یہ دعویٰ بھی بلا دلیل کیا جاتا ہے کہ جادو ہونے پر نعوذباللہ رسول اللہ دینی امور میں سے کچھ نہیں بھولے اس دعویٰ کی دلیل بھی ادھار ہے

دیکھا یہاں بھی خالی دینی امور کا دھوکا دیا گیا ہے حالانکہ میں نے اوپر بھی لکھا ہے کہ ہمارے موقف میں دینی امور کو بھی دو حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے جس پر آپ کی شیعہ ویب سائیٹ بھی گواہ ہے
بہرام صاحب بتائیں ہمارے موقف کو غلط پیش کرنا
کیا یہ تلبیس نہیں ہے
 
Top