- شمولیت
- نومبر 01، 2013
- پیغامات
- 2,035
- ری ایکشن اسکور
- 1,227
- پوائنٹ
- 425
بہرام صاحب آپ کی قیاس مع الفارق کی عادت نہیں جائے گی ہم نے نہ یہ کہا ہے کہ نماز دینی امور سے نہیں اور نہ یہ دعوی کیا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم مطلقا ہر دین کے کام میں نہیں بھولتے تھے بلکہ ہم کہتے ہیں کہ دین کی تبلیغ کا فریضہ چونکہ اللہ کی طرف سے تھا تو اسکی ذمہ داری اللہ نے لی تھی اس میں معصوم اللہ کی طرف سے رکھے گئے تھے آپ تمام دینی امور لے کر خلط ملط کر رہے ہیںاب جن لوگوں کا یہ دعویٰ ہے کے جادو ہونے کے بعد نعوذباللہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم دینی امر میں سےکچھ نہیں بھولے اگر اس حدیث اور اس سے پہلے پیش کی گئی قرآن کی آیت کو بھولنے والی روایت کو اگر جادو کے زمانے کی نہ بھی فرض کریں تو یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ نعوذباللہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بغیر جادو ہوئے بھی دینی امر سے یہ سب باتیں بھول جایا کرتے تھے یا پھر آپ کو یہ ثابت کرنا پڑے گا کہ نماز اور قرآن کی آیت کا تعلق دینی امر سے نہیں اگر اس کے علاوہ کوئی بات ہے تو وہ بیان کی جائے
ہمارا موقف:
محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے امور دو طرح کے ہیں ایک دینی دوسرے دنیاوی
دینی امور پھر دو طرح کے ہیں
1-بحثیتِ عبدہ اپنی ذات کے امور (اس میں صغیرہ غلطیاں ہوئی ہیں)
2-بحثیتِ پیغمبر اللہ کے پیغام پہنچانے کے امور (اس میں آپ کو معصوم رکھا گیا ہے)
جیسا کہ صحیح مسلم میں کجھور والی حدیث میں ہے مگر اس میں مطلقا دینی امور کی بجائے دین کے احکام یا تبلیغ کا معاملہ ہے چنانچہ مسلم میں ہے
انما انا بشر اذا امرتکم بشیء من دینکم فخذوا بہ واذا امرتکم بشیء من رایی فانما انا بشر
یعنی جب دین میں حکم (یعنی تبلیغ) کا معاملہ ہو گا تو غلطی نہیں ہو گی کیونکہ اللہ نے اسی کی حفاظت کا ذمہ لیا ہے
اگر اوپر والا ہمارا موقف سمجھ نہیں آیا تو پھر ہمارے موقف کو بحوالہ اپنی شیعہ ویب سائٹ سمجھ لیں
"نبوت کے بارے میں شیعہ سنی اختلاف کا موضوع عصمت کا مسئلہ ہے ۔ شیعہ اس کے قائل ہیں کہ انبیاء بعثت سے قبل بھی معصوم ہوتے ہیں اور بعثت کےبعد بھی ۔ اہل سنت کہتے ہیں کہ جہاں تک کلام اللہ کی تبلیغ کا تعلق ہے ، انبیاء بے شک معصوم ہیں لیکن دوسرے معاملات میں وہ عام انسانوں کی طرح ہیں"
اب میں دینی امور کے بارے مختصرا اپنے موقف کی وضاحت کر دوں (محترم خضر حیات بھائی یا محترم استاد انس بھائی توثیق یا اصلاح کر دیں)
1-بحثیتِ عبدہ اپنی ذات کے امور
اپنی ذات کے اعمال کے لحاظ سے محمد آلی اللہ علیہ وسلم چونکہ ہمارے لئے نمونہ ہیں اس لئے معجزات سے ہٹ کر ہماری طرح ہیں- پس جو ہر معاملے میں مکمل معصوم سمجھتے ہیں تو ذرا غور کریں اس سے فرق کیا پڑے گا
ہمارے عقیدے کے مطابق ماننے سے جو اعتراض آپ کو بظاہر نظر آتا ہے کہ کچھ چیزوں میں غیر معصوم بنانے والے قرآن و حدیث کے حوالے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی عزت کم کرتے ہیں پس انکی تاویل کریں یا رد کریں تو بہرام صاحب یہ جہالت ہے جیسے کوئی لاتقربو الصلوۃ کو پڑھ کر کہے نماز نہیں پڑھنی تو اسکو جاہل کہیں گے کہ باقی آیت سے تو ملائیں- اسی طرح ان لوگوں کو کہا جائے گا کہ دوسری حدیثوں سے ملا کر دیکھو جیسا کہ اوپر بہرام صاحب نے لکھا ہے کہ رفع عن أمتي الخطأ والنسيان وما استكرهوا عليه پس جب خطا اور نسیان کا گناہ ہی نہیں تو پھر بے عزتی کس بات کی-
اس کے لئے میں آپ کو ایک مثال سے سمجھانے کی کوشش کرتا ہوں کسی کے بارے جماع (بذریعہ زنا) کا اثبات اسکی عزت کم کرتا ہے مگر جماع (بذریہ نکاح یا ملکیت) یا آپ کے نزدیک جماع (بذریہ متعہ) کا اثبات عزت کم نہیں کرتا- آپ ذرا بتائیں گے کہ کیوں ایسا ہوتا ہے- اسلئے کہ اللہ نے فرمایا والذین ھم لفروجھم حفظون الا علی ازواجھم او ما ملکت ایمانھم- پس شام میں کوئی درندہ ہماری بہن کے ساتھ زنا کرے گا تو ہماری بے عزتی ہو گی مگر نکاح کرے گا تو ہمارا سر بلند ہو- سر بلند ہونے پر حدیث بھی بتا دوں کہ کل بنی ادم خطاء وخیر الخطائین التوابون وغیرہ
ویسے ایک لمحے کے لئے عزت میں کمی مان لیتے ہیں لیکن دیکھیں پھر اس سے نقصان کیا ہو گا وہی جو اہل تشیع کی حالت دیکھ کر لگتا ہے کہ انھوں نے اماموں کو معصوم کہ کر انکی عبادت ہی شروع کر دی ہے کیونکہ جب آپ انکو ذاتی طور پر معصوم عن الخطا سمجھیں گے تو اسکو ہی معبود بنا لینا آسان ہو جائے گا تو آپ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی جعلی عزت کی خاطر اللہ کے دین کو ہی داؤ پر لگا دیتے ہیں جس پر آپ کے پاس قرآن و حدیث سے کوئی دلیل نہیں-آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی ذات کے لئے مبعوث نہیں کیے گئے بلکہ پوری دنیا کی بھلائی کے لئے بھیجے گئے ہیں یاد رکھیں تمام انبیاء نے اپنی ذات کے مقابلہ میں اللہ کے دین کو فضیلت دی اس پر قرآن و حدیث گواہ ہے مثلا آپ کا فرمانا تو لو فاطمۃ بنت محمد سرقت لقطعت یدھا کہنے سے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے خاندان سے اللہ کے دین کی عزت زیادہ ثابت ہوئی اسی طرح شعیب علیہ السلام کا فرمانا کہ یقوم ارھطی اعز علیکم من اللہ و اتخذتموہ وراءکم ظھریا- یعنی تم میرے قبیلے کی عزت اللہ سے زیادہ کرتے ہو اسی طرح کے اور ڈھیروں دلائل ہیں- پس ان سے بھی ثابت ہوتا ہے کہ اللہ کے دین کے لئے تو انھوں نے کسی چیز کی پرواہ نہیں کی کیونکہ تبلیغ سے پہلے وہ آپ کی عزت ہی کرتے تھے اور دشمنی شروع ہی اللہ کے دین کی وجہ سے تھی جیسے فرمایا انھم لا یکذبونک ولکن الظلمیں بایات اللہ یجحدوں یعنی یہ ظالم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دشمن نہیں بلکہ اللہ کے دین کے دشمن ہیں
2-بحثیتِ پیغمبر اللہ کے پیغام پہنچانے کے امور
اس میں چونکہ تمام انبیاء رسلا مبشرین و منذرین لئلا یکون لناس علی اللہ حجۃ بعد الرسل کے تحت اللہ کی حجت قائم کرنے والے ہیں تو اس میں غلطی دین میں غلطی سمجھی جائے گی پس اس میں معصوم بناننے کا مقصد صرف آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات کے لئے نہیں بلکہ اللہ کے دین کی حقانیت کے لئے ہے-اس کے لئے اللہ نے وحی کے بارے فرمایا کہ انا نحن نزلنا الذکر وانا لہ لحفظون اور دوسری جگہ فرمایا عالم الغیب فلا یظھر علی غیبہ الا من ارتضی من رسول فانہ یسلک من بین یدیہ و من خلفہ رصدا (یعنی اللہ پیغمبر کے آگے پیچھے محافظ بھیج دیتا ہے تو یہ بندوبست اللہ نے کئے ہیں
نوٹ:اس پس منظر میں مزید بات علیحدہ موضوع میں کرنا زیادہ بہتر رہے گا