جس کا ثبوت یہ ہے کہ قاتل ان کے چہیتے تھے ۔۔ قاتلوں میں ۔۔ایک تو ان کے گھر میں موجود محمد بن ابی بکر ،جو سیدنا علی کا ربیب تھا ۔۔اور قتل عثمان رضی اللہ عنہ کے بعد جناب علی نے اس کو مصر کی گورنری پر فائز فرمایا ۔۔۔
فمن هم القتلة ؟
محمد بن ابي بكرــ : المتهم الأول بالقتل يعد من حواري علي ولعظيم ثقة علي به ولاه على مصر وكتب الى أهل مصر قائلا : أحسنوا أهل مصر مؤازرة محمد أميركم واثبتوا على طاعته تردوا حوض نبيكم . ولما أن قتل في مصر قال فيه الأمام علي : استشهد محمد بن ابي بكر فعند الله نحتسبه ( ولدا ) ناصحا وعاملا كادحا ( وسيفا قاطعا ) وركنا دافعا . وكان كما هو معروف ربيبا علي ، ومحمد هذا كان هو أول من باشر عملية الأقتحام والقتل .
عمار بن ياسر ــ المتهم الثاني والذي قال عن الرسول تقتلك الفئة الباغية ، والذي قال عنه كذلك .: يا عمار ستكون بعدي فتنة فإذا كانت فاتبع عليا فإن معه الحق . وهذا يعني أن عمارا في تحركه ذلك لم يكن يصدر الا عن أوامر علي ، لقد كان علي يقول دائما عندما يذكر عمار لقد كان موته رزية كبرى . ودور عمار كان كبيرا في تأليب الثوار المستمر على فتل عثمان . ولمن أراد الاطلاع على هذا والاستزادة فعليه الرجوع الى المصادر التاريخية الاسلامية وقراءة خطب وأقوال عمار المشهورة والمتناثرة بين أغلب المصادر تلك
مالك الأشتر ــ المتهم الثالث هو قائد جيش الكوفة الذي حاصر دار الخلافة ثم صار قائدا لجيش علي ، ومن بعد مقتل محمد بن ابي بكر ولاه علي على مصر فمات مسموما في الطريق . وهذا يعكس مدى أهمية الرجل وقربه من علي الذي قال فيه يوم موته : لم تلد النساء كمالك ، ولله لو كان جبلا لكان فندا ، ( أي أوحدا ) ولو كان حجرا لكان صلدا ما جزعت على أحد حزعي عليه ..... الخ .
عمرو بن الحمق ــ المتهم الرابع عده بعض الرواه أن منزلته من علي كمنزلة سلمان الفارسي من الرسول محمد ، وقد شارك في حروب علي كلها ولقد تمنى علي لو كان في جيشه مئة من أمثال عمرو ، لقد كانت العلاقة التي تربط الأثنين كبيرة ومميزة .
حكيم بن جبلة العبيدي ــ المتهم الخامس ، قائد جيش الثوار القادم من البصرة ، له منزلة كبيرة عند علي حتى أن علي ذكره في بعض شعره وهو قائد الجيش الذي واجه طلحة والزبير في معركة الجمل الأصغر حيث قتل في هذه المعركة . وقد كان حزن علي كبير على هذا الفارس ،
وكما جاء في كتاب التأويل لآحمد البحراني ، إن ترجمة سيرة الصف الأول من الرجال البارزين في حدث يوم الدار تكشف بأن هؤلاء الرجال على صلة وطيدة بعلي ، وإن قيادتهم لأفواج الثائرين القادمة من الأمصار ومشاركتهم الفعلية في الأقتحام وانجاز مهمة الأغتيال وتموقعهم في المناصب الرفيعة في تركيبة الجيش الذي قاده علي وفي جهاز الدولة الذي شكله وما قال فيهم من أقوال تبين مكانتهم وتبرز علاقتهم الشخصية والحميمية به .
هنا نرى ان هذه البطانة هي بطانة علي التي يتداول معها كافة الأمور بالأمس في السر وعندما استتب له الأمر كان يتداول معهم كافة أمور الدوله في العلن . ولا يتردد المحلل في الحكم على حركة البطانة الصانعة للحدث الكبير بأنها صادرة عن تخطيط وتوجيه مسبق من القيادة السياسية والمرجعية الفكرية التي يؤمنون بها ويتحركون وفق توجيهاتها ,وبعد قتلهم عثمان لوو أعنة خيولهم قاصدين دار علي .
وقد حدث الأغتيال في اليوم الثامن عشر من ذي الحجة وهي الذكرى السادسة والعشرين لحدث غدير خم ...... المشهور . وهذا التوقيت للحدث في قتل عثمان بعد حصار طويل كان قد مدد ليتوافق مع الذكرى تلك لايمكن عزاؤه للصدفة بل يمكن القول أنه كان مخططا له بشكل دقيق ولذلك دلالة عميقة لمن أراد أن يسعى للحقيقة . ولعل أقلها أن الحق عاد لصاحبة بعد طول أناة .
إن الوضع السياسي المضطرب هو الذي منع علي من التصريح بأنه كان وراء مقتل عثمان ولكنه كان يوحي في كلامه الى ذلك من مثل قوله أجهز عليه عمله. وأن عثمان جلس في غير مجلسه وصارع الحق حتى صرعه الحق .... ألخ . فعلي هو الحق والحق هو علي .
یہ وہ اصل عبارت جیسے آپ نے قطع بردید کر کے پیش کیا اس میں جن کے بارے کہا گیا ہے
المتهم الأول بالقتلیہ محمد بن ابی بکر ہیں جو کہ
خلیفہ اول حضرت ابوبکر بن ابی قحافہ کے صاحب زادے اور اسماء بنت عمیس ان کی والدہ ہیں یہ امی عائشہ کے بھائی ہیں اور سب سے بڑی بات یہ ہے کہ یہ صحابی رسول ہیں امی عائشہ کے ایک بھا ئی عبد الرحمٰن بن ابوبکر کی حق گوئی سے متعلق امام بخاری نے ایک روایت بیان کی ہے کہ
ترجمہ داؤد راز
ہم سے موسیٰ بن اسماعیل نے بیان کیا، کہا ہم سے ابوعوانہ نے بیان کیا، ان سے ابوبشر نے، ان سے یوسف بن ماہک نے بیان کیا کہ مروان کو معاویہ رضی اللہ عنہ نے حجاز کا امیر (گورنر) بنایا تھا۔ اس نے ایک موقع پر خطبہ دیا اور خطبہ میں یزید بن معاویہ کا باربار ذکر کیا، تاکہ اس کے والد (معاویہ رضی اللہ عنہ)کے بعد اس سے لوگ بیعت کریں۔ اس پر عبدالرحمٰن بن ابی بکر رضی اللہ عنہما نے اعتراضاً کچھ فرمایا۔ مروان نے کہا اسے پکڑ لو۔ عبدالرحمٰن اپنی بہن عائشہ رضی اللہ عنہا کے گھر میں چلے گئے تو وہ لوگ پکڑ نہیں سکے۔ اس پر مروان بولا کہ اسی شخص کے بارے میں قرآن کی یہ آیت نازل ہوئی تھی «والذي قال لوالديه أف لكما أتعدانني» کہ ”اور جس شخص نے اپنے ماں باپ سے کہا کہ تف ہے تم پر کیا تم مجھے خبر دیتے ہو۔“اس پر عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا کہ ہمارے (آل ابی بکر کے) بارے میں اللہ تعالیٰ نے کوئی آیت نازل نہیں کی بلکہ تہمت سے میری برات ضرور نازل کی تھی۔
یہاں امام بخاری نے عبدالرحمٰن بن ابی بکر کے وہ الفاظ درج نہیں کئے انھوں کیا ارشاد فریا تھا لیکن دیگرروایت میں محدثین نے ایسے بیان کیا ہے اب امام بخاری کی کیا مجبوری تھی جس کی بناء عبدالرحمٰن بن ابی بکر کے الفاظ درج نہیں کئے یہ اللہ بہتر جانتا ہے
علامہ البانی نے جو عبدالرحمٰن بن ابی ابکر کے الفاظ ایک صحیح روایت میں کچھ اس طرح درج کئے ہیں
فقالَ عبدُ الرحمنِ بنُ أبِي بكرٍ رضيَ اللهُ عنهُما أهرْقَليةٌ إنَّ أبَا بكرٍ رضيَ اللهُ عنهُ ما جعلَها في أحدٍ مِن ولدِه وأحدٍ مِن أهلِ بيتِه ولا جعلَها معاويةُ إلا رحمةً وكرامةً لولدِه
السلسلة الصحيحة الصفحة أو الرقم: 7/722 خلاصة حكم المحدث : إسناده صحيح
یعنی عبدالرحمن بن ابی بکر نے مروان کو کہا کہ "
کیا ہرقل (کے دستور) کے مطابق؟ ابو بکر نے اپنی اولاد میں کسی کو نہیں بنایا نہ اپنے گھر والوں میں، معاویہ اپنی اولاد پر رحمت و کرامت کر رہا ہے۔
حضرت عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ
اور جن کے بارے میں کہا گیا ہے
المتهم الثانيیہ وہ جلیل قدر صحابی رسول ہیں جن ٍفضیلت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بہت کچھ ارشاد فرمایا کچھ ہم یہاں پیش کرنے کی سعادت حاصل کریں گے
ہم سے مالک بن اسماعیل نے بیان کیا ، کہا ہم سے اسرائیل نے بیان کیا ، ان سے مغیرہ نے ، ان سے ابراہیم نے اور ان سے علقمہ نے بیان کیا کہ میں شام پہنچا تو لوگوں نے کہا، ابودرداء آئے انہوں نے کہا، کیا تم لوگوں میں وہ شخص ہے جس کو اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول کی زبان پر (یعنی آپ کے زمانے سے) شیطان سے بچا رکھا ہے۔ ہم سے سلیمان بن حرب نے بیان کیا، کہا ہم سے شعبہ نے بیان کیا اور ان سے مغیرہ نے یہی حدیث، اس میں یہ ہے، جنہیں اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کی زبانی شیطان سے اپنی پناہ میں لینے کا اعلان کیا تھا، آپ کی مراد حضرت عمار رضی اللہ عنہ سے تھی۔
صحیح بخاری ۔ ،حدیث نمبر : 3287
ایک دوسری روایت کے الفاظ کچھ اس طرح ہیں
کیا تمہارے یہاں وہ نہیں ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ اپنے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زبانی شیطان سے پناہ دے چکا ہے کہ وہ انہیں کبھی غلط راستے پر نہیں لے جا سکتا۔ (مراد عمار رضی اللہ عنہ سے تھی)
صحیح بخاری ،حدیث نمبر : 3742
اب جن عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ کو اللہ اپنی پناہ میں لینے کا اعلان کرے اور یہ فرمائے کہ شیطان انہیں کبھی غلط راستے پر نہیں لے جاسکتا اس پاک ہستی کے بارے میں یہ گمان کیا جائے کہ اللہ انہیں حوض کوثر سے دور کردے گا یہ نا ممکن ہے بلکہ ان لوگوں کو ہی دور کیا جائے گا جو ان کے بارے میں ایسا گمان کرتے ہیں ان شاء اللہ کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ
من عادى عمارا عاداه الله ، و من أبغض عمارا أبغضه الله
الراوي: خالد بن الوليد المحدث: الألباني - المصدر: صحيح الجامع - الصفحة أو الرقم: 6386
خلاصة حكم المحدث: صحيح
یعنی حضرت عمار سے دشمنی اللہ سے دشمنی ہے اور حضرت عمار بغض و عناد رکھنا اللہ سے بغض و عناد رکھنا ہے
ایک اور ارشاد پاک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے
ومَن يُحقِّرْ عمَّارًا يُحقِّرْهُ اللَّهُ ومن يسبَّ عمَّارًا يسبَّهُ اللَّهُ ومن ينتقِصْ عمَّارًا ينتقِصْهُ اللَّهُ
الراوي: خالد بن الوليد المحدث: الشوكاني - المصدر: در السحابة - الصفحة أو الرقم: 293
خلاصة حكم المحدث: رجاله رجال الصحيح
یعنی حضرت عمار کو حقیر جاننا اللہ حقیر سمجھنا ہے اور حضرت عمار کو برا بھلا کہنا اللہ کو گالی دینا ہے اور حضرت عمار شان میں کمی کرنا اللہ کی شان میں کمی کرنا ہے
ایک اور فرمان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ نے فرمایا : قرآن کے پیچھے چلتے رہو وہ جہاں بھی جائے ۔
ہم نے کہا جب لوگوں میں اختلاف ہوجائے تو پھر کس کے ساتھ ہونا چاہئے ؟آپ صلی اللہ علیہ و آلہ نے فرمایا اس جماعت کو دیکھو جس میں سمیہ کا بیٹا ہے اور اسی جماعت کے ساتھ چپکے رہو حذیفہ کہتے ہیں میں نےعرض کی یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ابن سمیہ کون ہے ؟آپ نےفرمایا کیا تم اسے نہیں جانتے ہو؟ میں نے کہا آپ اسے معین کر دیجئے آپ نے فرمایا: "عمار بن یاسر " میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ سے سنا ہے کہ آپ نے عمار سے کہااے ابو یقظان تم اس وقت تک نہیں مروگے جب تک تمہیں ایک باغی جماعت قتل نہ کردے۔
الكتب » المستدرك على الصحيحين » كتاب قتال أهل البغي وهو آخر الجهاد
اس فرمان رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تو فیصلہ کردیا کہ اختلاف کے وقت جس جماعت میں حضرت عمار ہوں وہی جماعت حق پر ہے اور اس جماعت سے منسلک رہنے کا حکم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا
اور پھر آپ نے جو شیعہ کتب کا حوالہ دیا اس میں اس بات پر غور نہیں کیا کہ انھوں نے لکھا کیا ہے
میں آپ کی توجہ اس جانب مبذول کئے دیتا ہوں مثلا محمد بن ابی بکر کے لکھا گیا کہ
محمد بن ابي بكرــ : المتهم الأول بالقتلآپ یہ تو اچھی طرح جانتے ہونگے کہ المتھم کا معنی کیا ہوتا اب ان پر یہ الزام شیعہ تو نہیں لگتے ہونگے بلکہ یہ الزام تو دوسری باغیجماعت لگاتی ہوگی جس نے حضرت عمار کو شہید کیا اور شیعہ تو حضرت عمار والی جماعت کے ساتھ ہیں