- شمولیت
- مارچ 08، 2011
- پیغامات
- 2,521
- ری ایکشن اسکور
- 11,555
- پوائنٹ
- 641
یہ بات درست ہے کہ شریعت اسلامیہ کی نظر میں انسانی جان کی اہمیت بہت زیادہ ہے اور شریعت کے احکام جہاں اخروی فوز و فلاح کے لیے ہیں وہاں ان کا مقصد دنیاوی فوز و فلاح اور انسانیت کی بھلائی بھی ہے۔ اسی لیے اہل علم نے مقاصد شریعت کے نام سے پانچ بڑے مقاصد بیان کیے ہیں یعنی شریعت کے جملہ احکام کے مقاصد پانچ ہیں:
حفاظت و فروغ دین : مثلا دعوت وتبلیغ کا حکم فروغ دین کے لیے ہے اور جہاد و قتال کا حکم حفاظت دین کے لیے ہے۔
حفاظت و فروغ جان : مثلا قصاص کا حکم انسانی جان کے حفاظت کے مقصد کے پیش نظر ہے۔
حفاظت و فروغ عقل : مثلا شراب نوشی سے منع اس لیے کیا تا کہ عقل انسانی کی حفاظت ہو۔
حفاظت و فروغ مال : مثلا چوری اور ڈکیتی سے ممانعت انسانی مال کی حفاظت کے پیش نظر فرمائی ہے جبکہ بیع کو انسانی مال کے فروغ کے لیے مشروع قرار دیا ہے۔
حفاظت و فروغ نسل : مثلا نسل انسانی کی حفاظت کے لیے زنا سے منع فرمایا ہے اور نسل انسانی کے فروغ کے لیے نکاح کا حکم جاری فرمایا ہے۔
بعض اہل علم نے اس میں ایک اور مقصد کا بھی اضافہ کیا ہے:
حفاظت و فروغ عزت نفس : مثلا انسانی عزت کی حفاظت کی خاطر غیبت، چغلی اور بہتان وغیرہ کو ممنوع قرار دیا ہے وغیرہ ذلک۔
مثلا شرعی احکام کا مقصد اخروی نجات کے ساتھ ساتھ دنیاوی فلاح بھی ہے یعنی فلاح انسانیت یا ویلفیئر کا سب سے بڑا قانونی پروگرام شریعت اسلامیہ ہے۔ پس جب بعض شرعی احکام میں انسانی جان یا مال وغیرہ متاثر ہو رہے ہوتے ہیں تو وہاں انسانی کی دنیاوی بھلائی و فلاح کو برقرار رکھنے کے لیے کچھ استثنائی احکامات جاری کر دیے جاتے ہیں مثلا مریض کی جان اور صحت کے پیش نظر اسے غسل کی جگہ تیمم کی اجازت دے دی یا کسی انسان کی جان کو بچانے کی خاطر اسے سور اور حرام کھانے کی اجازت دے دی ہے۔ اسی طرح کسی مریض کو جان بچانے کی خاطر جانوروں کا پیشاب پینے کی اجازت دے دی ہے وغیرہ ذلک۔ لیکن یہ اجازت بھی اس صورت میں ہے جبکہ اس کا کوئی اور متبادل علاج موجود نہ ہو۔ آج اگر کسی مرض کا متبادل جائز علاج موجود ہو تو پھر اس استثنائی حکم کا جواز ختم ہو جائے گا۔
مقصود کلام یہ ہے کہ شریعت اسلامیہ انسان کو مشقت اور تنگی میں ڈال کر اپنی اتباع نہیں کروانا چاہتی ہے بلکہ انسان کی استطاعت، فلاح اور بھلائی کو سامنے رکھتے ہوئے ایک مکمل قانونی پروگرام دیتی ہے جس میں ہر قسم کے حالات کے لیے اس میں شرعی رہنمائی موجود ہے۔ یعنی عمومی حالات کی رہنمائی بھی ہے اور خصوصی حالات میں خاص رہنمائی بھی موجود ہے۔
واللہ اعلم بالصواب
حفاظت و فروغ دین : مثلا دعوت وتبلیغ کا حکم فروغ دین کے لیے ہے اور جہاد و قتال کا حکم حفاظت دین کے لیے ہے۔
حفاظت و فروغ جان : مثلا قصاص کا حکم انسانی جان کے حفاظت کے مقصد کے پیش نظر ہے۔
حفاظت و فروغ عقل : مثلا شراب نوشی سے منع اس لیے کیا تا کہ عقل انسانی کی حفاظت ہو۔
حفاظت و فروغ مال : مثلا چوری اور ڈکیتی سے ممانعت انسانی مال کی حفاظت کے پیش نظر فرمائی ہے جبکہ بیع کو انسانی مال کے فروغ کے لیے مشروع قرار دیا ہے۔
حفاظت و فروغ نسل : مثلا نسل انسانی کی حفاظت کے لیے زنا سے منع فرمایا ہے اور نسل انسانی کے فروغ کے لیے نکاح کا حکم جاری فرمایا ہے۔
بعض اہل علم نے اس میں ایک اور مقصد کا بھی اضافہ کیا ہے:
حفاظت و فروغ عزت نفس : مثلا انسانی عزت کی حفاظت کی خاطر غیبت، چغلی اور بہتان وغیرہ کو ممنوع قرار دیا ہے وغیرہ ذلک۔
مثلا شرعی احکام کا مقصد اخروی نجات کے ساتھ ساتھ دنیاوی فلاح بھی ہے یعنی فلاح انسانیت یا ویلفیئر کا سب سے بڑا قانونی پروگرام شریعت اسلامیہ ہے۔ پس جب بعض شرعی احکام میں انسانی جان یا مال وغیرہ متاثر ہو رہے ہوتے ہیں تو وہاں انسانی کی دنیاوی بھلائی و فلاح کو برقرار رکھنے کے لیے کچھ استثنائی احکامات جاری کر دیے جاتے ہیں مثلا مریض کی جان اور صحت کے پیش نظر اسے غسل کی جگہ تیمم کی اجازت دے دی یا کسی انسان کی جان کو بچانے کی خاطر اسے سور اور حرام کھانے کی اجازت دے دی ہے۔ اسی طرح کسی مریض کو جان بچانے کی خاطر جانوروں کا پیشاب پینے کی اجازت دے دی ہے وغیرہ ذلک۔ لیکن یہ اجازت بھی اس صورت میں ہے جبکہ اس کا کوئی اور متبادل علاج موجود نہ ہو۔ آج اگر کسی مرض کا متبادل جائز علاج موجود ہو تو پھر اس استثنائی حکم کا جواز ختم ہو جائے گا۔
مقصود کلام یہ ہے کہ شریعت اسلامیہ انسان کو مشقت اور تنگی میں ڈال کر اپنی اتباع نہیں کروانا چاہتی ہے بلکہ انسان کی استطاعت، فلاح اور بھلائی کو سامنے رکھتے ہوئے ایک مکمل قانونی پروگرام دیتی ہے جس میں ہر قسم کے حالات کے لیے اس میں شرعی رہنمائی موجود ہے۔ یعنی عمومی حالات کی رہنمائی بھی ہے اور خصوصی حالات میں خاص رہنمائی بھی موجود ہے۔
واللہ اعلم بالصواب