• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

ندائے یارسول اللہ ﷺ کا تاریخی تسلسل

شمولیت
اگست 27، 2013
پیغامات
80
ری ایکشن اسکور
13
پوائنٹ
57
جناب من جواب بنا نہیں آپ سے حدیث کے الفاظ یہ ہیں :

يَا مُحَمَّدُ إِنِّي قَدْ تَوَجَّهْتُ بِكَ إِلَى رَبِّي فِي حَاجَتِي هَذِهِ لِتُقْضَى

اور جو قرآن کی آیت پیش کی تھی اس میں یہ تخصیص ہے کہ نبی کانام محمد لے سکتے ہو جب نبی لفظ ساتھ ہو ؟
قیاس جڑ دیا آپنے ؟؟؟
جناب آپ جس بات پر زور دے رہے ہو خود بھی غور دیا ہے کہ نہیں ؟
آپ کا کہنا ہے کہ يَا مُحَمَّدُ إِنِّي قَدْ تَوَجَّهْتُ بِكَ إِلَى رَبِّي فِي حَاجَتِي هَذِهِ لِتُقْضَى یہ آدھی عبارت کیوں کوٹ کر رہے ہو ؟؟ کیا اس میں یہ لفظ نہیں إِلَيْكَ بِمُحَمَّدٍ نَبِيِّ الرَّحْمَةِ، يَا مُحَمَّدُ اور پھر یہ لفظ نہیں پڑھی اپنے وَيَدْعُوَ بِهَذَا الدُّعَاءِ:
یہ کلیمات تو وَيَدْعُوَ بِهَذَا الدُّعَاءِ: نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا ابن حنیف کو سکھائے تھے جیسا کہ حدیث سے واضح ہے ہم جس حدیث پے بحث کر رہے ہیں اس میں یا محمد کا لفظ ہے جو صحابی کی طرف منسوب ہے لہذا اب یہ ثابت کریں کہ حاجت روائی کے لئے اللہ نے اللہ کے رسول نے " یا محمد" کہنا نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی امت کو سیکھایا ؟؟ قرآن سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی صحیح حدیث سے۔
انشاءاللہ کر بھی نہیں سکتے

سند پر تو میں جب کلام کروں جب آپ متن پر سے اپنے ذاتی قیاس جنکی کوئی بنیاد نہیں
نہ بات کرو آپ کی مرضی اہل علم کے نزدیک یہ حدیث سندن ثابت ہی نہیں اور میرے نزدیک اس کے متن میں بھی قرآن کی مخالفت ہے جس کا کوئی معقول جواب آپ سے بن نہیں پا رہا اور میں چاہوں تو حوالہ جات کی لائن لگا سکتا ہوں کی قرآن کی وہ دو آیات نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یا محمد "یا محمد" کہنے کی مذمت میں اتری ہے اس کے کچھ سیمپل میں نے اوپر دیے ہیں ۔

دوسری بات ہم کو طعنہ دے رہے ہیں کہ ہم حدیث بدل دیتے ہیں جبکہ وہابیوں نے اس حدیث کی اشاعت میں محمد کے ساتھ یا کا لفظ مٹا کر بدترین تحریف کی جو کام کرتے خود ہیں ویسا اوروں کو سمجھتے ہیں
میرا مشورہ ہے کہ تحریف کی باتیں چھوڑ دے یا کسی اور موقع پر کسی اور تھریڈ میں تحریف پر بات کرلیں انشاء اللہ فقیر بتائے گا کہ کس نے بدترین تحریف معنوی اور تحریف لفظی کی ہے !

میں نے آپ سے تدلیس کے مسلے پر امام شعبہ کے اصول پر آپکو آپکے محقق کا حوالہ دیا تھا جسکے جواب میں نہ آپ نے ہاں کیا نہ انکارکیا آپکو علم جرح و تعدیل کے بانی یعنی امام المحدثین یحییٰ بن سعید القطان الحنفیؒ کا قول سند صحیح سے پیش کر رہا ہوں امید ہے اب جواب دینگے
امام ابن ابی حاتم سند صحیح سے امام یحییٰ بن سعید کا قول نقل کرتے ہیں :

حدثنا عبد الرحمن نا صالح بن أحمد نا علي قال سمعت يحيى يقول: كل شئ يحدث به شعبة عن رجل فلاتحتاج أن تقول عن ذاك الرجل أنه سمع فلانا، قد كفاك أمره
اور میں نے بڑی محبت سے آپ سے یہ فرمایا تھا
جناب من جواب بنا نہیں آپ سے حدیث کے الفاظ یہ ہیں :

يَا مُحَمَّدُ إِنِّي قَدْ تَوَجَّهْتُ بِكَ إِلَى رَبِّي فِي حَاجَتِي هَذِهِ لِتُقْضَى

اور جو قرآن کی آیت پیش کی تھی اس میں یہ تخصیص ہے کہ نبی کانام محمد لے سکتے ہو جب نبی لفظ ساتھ ہو ؟
قیاس جڑ دیا آپنے ؟؟؟
جناب آپ جس بات پر زور دے رہے ہو خود بھی غور دیا ہے کہ
]
حافظ زبیر علی زئی بےشک علمی شخصیت ہے ۔پر اصول حدیث میں کسی ایک شخص کی تحقیق پر اعتماد نہیں کیا جاتا علمائے ناقدین کی تحقیق معتبر ہوتی ہے اسی لئے آپ اپنا مسئلہ لکھیں ۔۔!
بات تو آپ کو جب سمجھ میں آئے گی نہ جب آپ سند نکل کریں گے میرے خیال سے آپ نے ابھی تک یہی سمجھ رکھا ہے کہ اس میں صرف علت ابواسحاق کی ہے اور میں آپ کو اشارہ دوکی اس کے ہر شواہد و متابعات میں ایک شدید علت موجود ہے تو پھر؟؟ میں کہوں کہ سند میں اضطراب ہے تو پھر ؟؟
لیکن ان سب کے علاوہ آپ مجھ سے ایک اصول منوانے کی کوشش کر رہے ہیں ۔ حالانکہ آپ کو کچھ فائدہ نہیں ہوگا اس سے

سحاق هو عمرو بن عبيد الله السبيعي وهو ثقة لكنه مدلس، وكان قد اختلط، فهو
لا بأس به في الشواهد، إلا من رواية سفيان الثوري وشعبة فحديثهما عنه حجة.

ابو اسحاق عمرو بن عبیداللہ السبیعی جو کہ ثقہ ہے لیکن مدلس ہے اسکو اختلاط ہو گیا تھا لیکن شواہد میں اس میں کوئی حرج نہیں
سوائے سفیان الثوری اور شعبہ جب اس سے حدیث بیان کریں تب حجت ہوگا (یعنی شعبہ اور سفیان کی روایت قبل اختلاط ہیں اس سے
شواہد تو جب قبول ہونگے نہ جب صحیح ہونگے اس لئے کہتا ہوں آپ اپنی دلیل نقل کریں اور میں نے جو متن پر اعتراض کیا ہے اس کا مدلل جواب دیں ۔
آپ کی جو مستدل حدیث ہے وہ خود نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا ہے جو آپ نے عثمان بن حنیف کو سکھائیں اور نماز پڑھنے کا حکم دیا ۔
لیکن آپ کی مستدل حدیث جو سیدنا ابن عمر سے ہے اور ابن حنیف والی روایت میں کسی قسم کی کوئی مماثلت نہیں اگر ہے تو جواب دیجیے ۔
1
قرآنی نص سے ثابت کرے کہ مصیبت کے وقت اللہ کے بندے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یا محمد کہہ کر اپنی حاجت روائی کرے ۔
2
کسی صحیح حدیث سے ثابت کریں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ کو چھوڑ کر بس میرا نام پکارے اور کہے یا محمد اور حاجت روائی ہوجائے گی ثابت کریں ۔


3 بریلی شریف کے لوگ تو یا محمد کا یا رسول اللہ ترجمہ کرکے اپنے عقیدے کی دلیل بنا لیں گے لیکن جن کو عربی پر عبور حاصل ہے وہ یا محمد کہکر استغاثہ یا یا استمداد مانگے تو جائز ہوگا کیا ؟؟
 
شمولیت
ستمبر 15، 2018
پیغامات
164
ری ایکشن اسکور
43
پوائنٹ
54
اب یہ ثبوت آپکو محدثین سے دے دیا جب شعبہ مدلس راوی کی روایت بیان کرینگے تو اس میں تدلیس بالکل نہیں ہوتی شعبہ مدلس کی فقط وہی روایت بیان کرتے ہیں جس میں سماع کی تصریح انکے نزدیک ثابت ہوتی ہے

اب ایک سند سے امام شعبہ ابو اسحاق سے روایت بیان کرتے ہیں جس سے یہ ثبوت مل گیا کہ ابو اسحاق نے اس حدیث میں تدلیس نہیں کی ہے
اور اس میں ابو اسحاق نے شیخ کا نام نہیں لیا بلکہ سامع لکھ دیا
اور حدیث میں مجہول شیخ کا نام ڈھونڈنے کا اصول ہے کہ دیگر اسناد سے اسی راوی کی بیان کردہ سند سے شیخ کے نام کی تصریح مل جائے تو کہ ثابت ہے
جیسا کہ ایک سند الادب المفرد میں ہے
اور جس میں سفیان الثوری نے ابو اسحاق کے شیخ کا نام عبدالرحمٰن بن سعد بیان کیا ہے
اور دوسری سند غریب الحدیث اور تہذیب الکمال میں موجود ہے جس میں زھیر نے بھی سفیان کی متابعت کررکھی ہے اور ابو اسحاق کے شیخ کا نام عبدالرحمٰن بن سعد بیان کیا ہے
اور عبدالرحمٰن نے متن میں تصریح کر رکھی ہے جو کہ جو شخص حضرت ابن عمر کے پاس گیا وہ خود تھے
تو الحمداللہ سند تو اس کی بے غبار ہے
باقی جس قیاس سے حدیث مرفوع ابن ماجہ و ابی داود پر کوئی اعتراض وارد نہیں ہوتا ویسے ہی اس روایت پر

upload_2020-4-13_1-40-56.png
 
شمولیت
ستمبر 15، 2018
پیغامات
164
ری ایکشن اسکور
43
پوائنٹ
54
شواہد تو جب قبول ہونگے نہ جب صحیح ہونگے اس لئے کہتا ہوں آپ اپنی دلیل نقل کریں اور میں نے جو متن پر اعتراض کیا ہے اس کا مدلل جواب دیں ۔
آپ کی جو مستدل حدیث ہے وہ خود نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا ہے جو آپ نے عثمان بن حنیف کو سکھائیں اور نماز پڑھنے کا حکم دیا ۔
لیکن آپ کی مستدل حدیث جو سیدنا ابن عمر سے ہے اور ابن حنیف والی روایت میں کسی قسم کی کوئی مماثلت نہیں اگر ہے تو جواب دیجیے ۔

شواہد پر میں نے بات کب کی ؟
لگتا ہے آپ نے اپنے البانی کا کلام سمجھا ہی نہیں
 
شمولیت
اگست 27، 2013
پیغامات
80
ری ایکشن اسکور
13
پوائنٹ
57
اور اس میں ابو اسحاق نے شیخ کا نام نہیں لیا بلکہ سامع لکھ دیا
اور حدیث میں مجہول شیخ کا نام ڈھونڈنے کا اصول ہے کہ دیگر اسناد سے اسی راوی کی بیان کردہ سند سے شیخ کے نام کی تصریح مل جائے تو کہ ثابت ہے
جیسا کہ ایک سند الادب المفرد میں ہے
اور جس میں سفیان الثوری نے ابو اسحاق کے شیخ کا نام عبدالرحمٰن بن سعد بیان کیا ہے
ارض ہے کی جس راوی پر آپ نے زور دیا ہے "عبد الرحمن بن سعد القرشي العدوي الكوفي " ہے اور یہ مجہول ہے ۔

1 یحییٰ بن معین سے پوچھا گیا کیا عبد الرحمن بن سعد کون ہے ہے ! قال : لا أدري . " تاريخ ابن معين – رواية الدوري " (2953)
امام یحییٰ ابن معین جیسے ناقید امام عبدالرحمان ابن سعد کو مجہول قرار دے رہے ہیں ۔
اور یہ جراح اپنے آپ میں ایک سبب ہے اور یہ مفسر ہے اس بات کا دھیان رہے ۔ اور صرف نام مل جانے سے جہالت ساکت نہیں ہوتی ساقط نہیں ہوتی یہ اصول تو آپ کو پتہ ہو گے ؟


اب یہ ثبوت آپکو محدثین سے دے دیا جب شعبہ مدلس راوی کی روایت بیان کرینگے تو اس میں تدلیس بالکل نہیں ہوتی شعبہ مدلس کی فقط وہی روایت بیان کرتے ہیں جس میں سماع کی تصریح انکے نزدیک ثابت ہوتی ہے

اب ایک سند سے امام شعبہ ابو اسحاق سے روایت بیان کرتے ہیں جس سے یہ ثبوت مل گیا کہ ابو اسحاق نے اس حدیث میں تدلیس نہیں کی ہے


عرض ہے کی ابواسحاق کو بیان سند میں اضطراب ہوا ہے اس پر بھی علماء نے کلام کیا ہے ۔
ملاحظہ ہو عمل اليوم والليلة حاشیہ 169



اور اس روایت کے تمام طرق میں بیان عبدالرحمان ابن سعد الکوفی ۔۔۔۔۔ یا ایک مجہول شخص جو عبداللہ ابن عمر سے یہ واقعہ بیان کرتا ہے ان کی توثیق صحیح انداز میں بیان کریں ۔
کمال کی بات یہ ہے جن لوگوں کا یہ دعویٰ ہے کہ عقیدے میں خبر واحد حجت تسلیم نہیں کرتے وہ اپنا باطل نظریہ ثابت کرنے کے لئے کن کن حدیثوں سے عقیدے کی دلیل پکڑتے ہیں ۔ اور پھر میرے سوال

جوابدیجیے ۔

1 قرآنی نص سے ثابت کرے کہ مصیبت کے وقت اللہ کے بندے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یا محمد کہہ کر اپنی حاجت روائی کرے ۔

2 کسی صحیح حدیث سے ثابت کریں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ کو چھوڑ کر بس میرا نام پکارے اور کہے یا محمد اور حاجت روائی ہوجائے گی ثابت کریں ۔


3 بریلی شریف کے لوگ تو یا محمد کا یا رسول اللہ ترجمہ کرکے اپنے عقیدے کی دلیل بنا لیں گے لیکن جن کو عربی پر عبور حاصل ہے وہ یا محمد کہکر استغاثہ یا یا استمداد مانگے تو جائز ہوگا کیا ؟؟
 

عدیل سلفی

مشہور رکن
شمولیت
اپریل 21، 2014
پیغامات
1,718
ری ایکشن اسکور
426
پوائنٹ
197
اور حدیث میں مجہول شیخ کا نام ڈھونڈنے کا اصول ہے کہ دیگر اسناد سے اسی راوی کی بیان کردہ سند سے شیخ کے نام کی تصریح مل جائے
فقہ حنفی کو ڈبونے کا پورا ارادہ کرلیا ہے

ابتسامہ
 
شمولیت
ستمبر 15، 2018
پیغامات
164
ری ایکشن اسکور
43
پوائنٹ
54
ارض ہے کی جس راوی پر آپ نے زور دیا ہے "عبد الرحمن بن سعد القرشي العدوي الكوفي " ہے اور یہ مجہول ہے ۔

1 یحییٰ بن معین سے پوچھا گیا کیا عبد الرحمن بن سعد کون ہے ہے ! قال : لا أدري . " تاريخ ابن معين – رواية الدوري " (2953)
امام یحییٰ ابن معین جیسے ناقید امام عبدالرحمان ابن سعد کو مجہول قرار دے رہے ہیں ۔
اور یہ جراح اپنے آپ میں ایک سبب ہے اور یہ مفسر ہے اس بات کا دھیان رہے ۔ اور صرف نام مل جانے سے جہالت ساکت نہیں ہوتی ساقط نہیں ہوتی یہ اصول تو آپ کو پتہ ہو گے ؟

مجہول ایک امام کہے اور دوسرا توثیق کر دے تو کیا راوی مجہول رہے گا تب بھی یہ کیسا جہالت بھرا اصول بیان کیا ہے ؟

امام ابن حجرعسقلانی عبدالرحمن بن سعد کی توثیق ابن حبان سے نقل کی ہے
پھر لکھتے ہیں
قلت ثقہ النسائی

یعنی ابن حبان نے اسکو الثقات میں درج کیا ہے اور میں کہتاہوں امام نسائی نے بھی اسکی توثیق کی ہے

تو امام ابن حجر نے قلت کے ساتھ امام نسائی کی توثیق نقل کر دی تو اب بہانے بنانے کا فائدہ نہیں
 
شمولیت
ستمبر 15، 2018
پیغامات
164
ری ایکشن اسکور
43
پوائنٹ
54
عرض ہے کی ابواسحاق کو بیان سند میں اضطراب ہوا ہے اس پر بھی علماء نے کلام کیا ہے ۔
ملاحظہ ہو عمل اليوم والليلة حاشیہ 169

یہاں آپ کی اندھیاں نہیں چلیں گی اضطراب ثابت کریں معلوم بھی ہے کہ اضطراب ثابت کیسے کرتے ہیں ؟؟
جب ایک روایت کے تمام راوی ثقہ ہوں اور جس سند میں اضطراب ہو اسکے بھی تمام راوی ثقہ ہوں اسی درجے کے
جو اضطراب والی سند ہے یہاں پیش کریں
تاکہ آپکے دعوے کی حقیقت دیکھی جائے
 
شمولیت
ستمبر 15، 2018
پیغامات
164
ری ایکشن اسکور
43
پوائنٹ
54
1 قرآنی نص سے ثابت کرے کہ مصیبت کے وقت اللہ کے بندے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یا محمد کہہ کر اپنی حاجت روائی کرے ۔

2 کسی صحیح حدیث سے ثابت کریں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ کو چھوڑ کر بس میرا نام پکارے اور کہے یا محمد اور حاجت روائی ہوجائے گی ثابت کریں ۔



پہلے اس حدیث کی سند کو صحیح تو تسلیم کرو پھر صحابہ سے بھی ثابت کر دینگے اور حدیث مرفوع سے بھی ۔۔۔۔

اور آپ لوگوں کا تو خبر واحد کا اصول نہیں ہے تو آپ تو اسکو قبول کرو آپکے نزدیک ہر حدیث سند صحیح سے دلیل و حجت ہے تو کیا ان صحیح احادیث کو آپ ہمارے منہج کی وجہ سے قبول نہیں کرینگے ؟
یہ کیا احمقانہ جواب ہے
 
شمولیت
اگست 27، 2013
پیغامات
80
ری ایکشن اسکور
13
پوائنٹ
57
مجہول ایک امام کہے اور دوسرا توثیق کر دے تو کیا راوی مجہول رہے گا تب بھی یہ کیسا جہالت بھرا اصول بیان کیا ہے ؟

امام ابن حجرعسقلانی عبدالرحمن بن سعد کی توثیق ابن حبان سے نقل کی ہے
پھر لکھتے ہیں
قلت ثقہ النسائی
حضرات تہذیب الکمال کے اندر جلد 17 صفحہ 143 پر عبدالرحمان ابن سعد الکوفی کا ترجمہ موجود ہے اور وہاں امام نسائی کا اس کو ثقة کہنا درج ہی نہیں ہے اس سے ایک ترجمہ اوپر عبدالرحمان ابن سعد المدنی کا ترجمہ موجود ہے اس کے بارے میں امام نسائی کا قول ہے کے وہثقة ہے صفہ 140۔
مطلب تہذیب الکمال کے اندر امام نسائی کی طرف منسوب توثیق کا کلمہ عبدالرحمان ابن سعد المدنی کے لئے ہے نا کے عبدالرحمان ابن سعد الکوفی کے لیے ۔

اور جہاں تک بات ہے حافظ ابن حجر کا تہذیب کے اندر امام نسائی کی طرف منسوب یہ کلمہ تو عرض ہے کہ حافظ ابن حجر کو اسے نقل کرنے میں شاید غلطی ہوئی نام کی مماثلت کی وجہ سے کیونکہ فرق صرف الکوفی اور المدنی کا ہے اور مشہور شیخ الدكتور سعد الحميد حفظه الله نے بھی یہی بات کہی https://www.alukah.net/Fatawa_Counsels/3004/14542/

اور بچے صرف امام ابن حبان تو اہل علم پر یہ بات مخفی نہیں ہے کہ امام ابن حبان توثیق میں متساہل ہے وہ اکثر ایسے راویوں کی توثیق کر دیتے ہیں یہ جب تک مقبول نہیں ہوگی جب تک آپ کسی ناقید محدث سے اس کا ثقہ ہونا ثابت نہیں کرتے ۔


یہاں آپ کی اندھیاں نہیں چلیں گی اضطراب ثابت کریں معلوم بھی ہے کہ اضطراب ثابت کیسے کرتے ہیں ؟؟
جب ایک روایت کے تمام راوی ثقہ ہوں اور جس سند میں اضطراب ہو اسکے بھی تمام راوی ثقہ ہوں اسی درجے کے
کہا تھا نا کہ مقلد جاھل ہوتا ہے میرا مشورہ ہے کہ صوفیوں کی صحبت اختیار کریں اور فن رجال سے دور رہیں کیونکہ یہ مقلد کے لئے نہیں ہے ۔

1۔ ابواسحاق کبھی اسے ابی سعید سے بیان کرتے ہیں (عمل اليوم والليلة 168)
کبھی
2۔ ہیشم بن حناش سے (عمل اليوم والليلة 170)
کبھی
3۔ کبھی عبدالرحمان ابن سعد سے ( عمل اليوم والليلة 172)

اور اس کو نقل کرنے کے بعد عمل اليوم والليلة مے اس پر حکم بھی لگایا گیا ہے کہ ابواسحاق کو سند میں اضطراب ہوا ہے کبھی وہ اس کو ابوسعید سے روایت کرتے ہیں اوربعض نسخو مے انہوں نے ابو شعبہ سے بھی بیان کیا ہے اور بعض اوقات ہیشم بن ہناش سے اور بعض اوقات اس کو عبدالرحمان بن سعد سے ( حاشیہ عمل اليوم والليلة صفحہ 115 )

لیجئے جناب سند بھی پیش کردی اور اب دعوے کا حکم بھی لگا دو ۔
غیر اللہ کو مدد کے لئے پکارنا شرک ہے شرک ہے شرک ہے ۔
 
شمولیت
اگست 27، 2013
پیغامات
80
ری ایکشن اسکور
13
پوائنٹ
57
پہلے اس حدیث کی سند کو صحیح تو تسلیم کرو پھر صحابہ سے بھی ثابت کر دینگے اور حدیث مرفوع سے بھی ۔۔۔۔

اور آپ لوگوں کا تو خبر واحد کا اصول نہیں ہے تو آپ تو اسکو قبول کرو آپکے نزدیک ہر حدیث سند صحیح سے دلیل و حجت ہے تو کیا ان صحیح احادیث کو آپ ہمارے منہج کی وجہ سے قبول نہیں کرینگے ؟
یہ کیا احمقانہ جواب ہے

آپ کو اگر ہمارے اصول ماننے ہیں تو ہمارے اصول سے یہ حدیث ثابت ہی نہیں ہمارا یہ بھی اصول ہے کایا آپ مانیں گے اس کو ؟؟

میں نے ایک سوال کیا کہ آپ کے نزدیک خبر واحد کچھ نہیں آپ نے الٹا مجھ سے پوچھ لیا کہ آپ کے یہاں تو ہے !!

بھائی میرے یہاں تو یہ حدیث سند کے اعتبار سے دلیل ہے نہ متن کے اعتبار سے دلیل ہے ۔
 
Top