ندائے یارسول اللہ ﷺ کا تاریخی تسلسل
بسم اللہ الرحمن الرحیم
نحمدہ ونصلی علی حبیبہ الکریم اما بعد
بسم اللہ الرحمن الرحیم
نحمدہ ونصلی علی حبیبہ الکریم اما بعد
پیغمبرِ اسلام ﷺ کا مسلمانوں سے رابطہ
مسلمانوں کو حضور سید عالم ،فخرِ موجودات،نبی رحمتﷺ کی ذات والاصفات سے جو شغف اور تعلق روحانی ہے دنیا میں اس کی کوئی نظیر نہیں۔
عہدِ صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین سے آج تک مسلمان اپنے اس خصوصی کردار میں ممتاز رہے ہیں کہ دنیا کی کوئی قوم اپنے رہنما سے وہ عشق اور شیفتگی نہیں رکھتی جو اہل اسلام کو اپنے پیغمبرﷺسے ہے۔
یہ ایک حقیقت ہے کہ سارے مسلمان دل وجان سے ان پر شیدا اور مجازی معنی میں نہیں حقیقی معنی میں ان کاکلمہ پڑھتے ہیں ان کو اپنے روحانی کرب واضطراب کا مسیحاتصور کرتے ہیں۔اور جسمانی دردوالم کا مرہم سمجھتے ہیں۔خلوت تنہائی ہو یا جلوت وانجمن،مسرت ہو یا رنج و غم،وہ ہرعالم میں ان کو پکارتے ہیں۔اور ان کے نام کا نعرہ لگاتے ہیں،انہیں تصورمیں اپنے پاس پاتے ہیں تو انہیں خطاب کرتے ہیں اور ان سے التجااورفریاد کرتےہیں۔
اور اس عالم میں چودہ صدیوں کے دبیزپردے،ہزاروںمیل مسافتیں،شجروحجر،بحروبر،موت وحیات،اور ثمودوغیاب کے حجاب ہیچ اور درماندہ ہوتےہیں کہ !بعدمنزل نہ بوددر سفرروحانی۔۔۔یا
اے غائب از نظر کہ شدی ہم نشین دل می بینمت عیاں ودعاء می فرستمت
نگاہوں سے غائب اور دل میں پوشیدہ میں تجھ کو علی الاعلان دیکھ رہاہوں اور دعابھیج رہا ہوں
نگاہوں سے غائب اور دل میں پوشیدہ میں تجھ کو علی الاعلان دیکھ رہاہوں اور دعابھیج رہا ہوں
شرک نظر آیا
جب کہ بعض حضرات کو اس خطاب وندا استغاثہ وفریاد سے سخت وحشت ہوتی ہے۔وہ اس کو اسلام کی تعلیمات کے سخت خلاف ،بلکہ شرک وکفر کہہ جاتےہیں۔اس غلط فہمی کی اصل وجہ یہ ہے کہ خطاب کے سلسلہ میں عام گمان یہ ہے کہ جو سامنے ہو اسی کو پکاریں اور جس کو دیکھ رہے ہوں،اسی کو خطاب اور آوازدیں"حالانکہ یہ کلمہ نہ ہی عقلاً درست ہے نہ ہی نقلاً
نداء یارسول اللہ کا تاریخی پس منظر
سیدنا امیرالمومنین عمر ابن خطاب رضی اللہ تعالی عنہ کا عمل
صحّ انّ عمر کان اذا قدم من سفراتیٰ قبر النبی ﷺ فقال السلام علیک یارسول اللہ یابا بکر السلام علیک یا ابتاہ
یہ بات درجہ صحت کو پہنچ چکی ہے کہ حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالی عنہ جب بھی سفر سے آتے تو حضورﷺ کی قبر انور پر حاضر ہوکر کہتے سلام ہو آپ پر یا رسول اللہ سلام ہو آپ پر یا ابا بکر آپ پر اے میرے ماں باپ
خلاصہ الوفا،صفحہ ۷۴،شفاء جلد۲،صفحہ ۷۶
بعد وصال ایک اعرابی کا روضہ اقدس پر کھڑے ہوکر عرض کرنا
یا خیر من دفنت فی القاع اعظمہ فطاب من طیبھن القاع والاکم نفسی الفداء لقبر انت ساکنہ فیہ العفاف وفیہ الجود والکرم
اے ان سب کے افضل جنہیں زمین میں دفن کیا گیا ور جن کی خوشبو سے برابر زمین اور ٹیلے سب خوشبودار ہوگئے میری جان اس قبر پر جس میں آپ ساکن ہیں،اس میں پاک دامنی ہے،اس میں بخشش ہے، اسی میں کرم ہے
خلاصہ الوفا،صفحہ ۸۵،شفاء المقام صفحہ ۶۴
آپ کے فراق میں حسان ابن ثابت کہتے ہیں۔
ما بال عینک لانام کانما کحلت ما فیھا بکحل الارمد جزعا علی المھدی اصبح ثویا یاخیر من وطی الحصٰی لاتعبد یوما یقیک الترب لحفی لیتنی غبت قبلک فی بقیح الغرقد
تیری آنکھوں کو کیا ہوگیا ہےجو سوہی نہیں پارہی ہیں۔اس کے گوشوں میں بے خوابی کا سرمہ لگادیا گیا ہے۔یہ گھبرائی ہوئی ہیں اس ہادی پر جسے قبر میں دفن کردیا گیا ہ۔ اے ان سب میں بہترین جو نامانوس راستوں پر چلے جس دن مٹی نے آپ کو اپنے دامن میں محفوظ کیا۔اے کاش!آپ سے پہلے میں ہی مٹی میں دفن کردیا گیا ہوتا۔
سیرت ابن ہشام جلد ۴،صفحہ نمبر۶۶۹
یہ چند حوالاجات ہے بطور نمونہ پیش کئے گئے۔ان کے علاوہ بہت سے واقعات اور حوالہ جات پیش کئے جاسکتے ہیں مگر اختصار کے پیش نظر قلم کیے گئے۔اب یہ اور بات کہ آج کے نام نہادخودساختہ توحید کے متوالے اسلام کی اس چودہ سو سالہ تاریخ کو ملیا میٹ کرنے کے لیے کمر بستہ ہو اور عامتہ المسلمین کو جادۂ حق سے ہٹانے کے لیے نئے فتنے جگائے اور علماء و صلحاء آئمہ ومجتہدین ،صحابہ و تابعین مفتی و قاضی خواص وعام ،خطباء اور مختلف اسلامی کو مشرک و کافر کہنے کی جرأت کرے۔