ساجد
رکن ادارہ محدث
- شمولیت
- مارچ 02، 2011
- پیغامات
- 6,602
- ری ایکشن اسکور
- 9,379
- پوائنٹ
- 635
(٢٥) نحوی قاعدہ: جب فعل ماضی ہو اور قد سے پہلے نہ ہو توحال کا جملہ فعلیہ لانا جائزنہیں ہے ۔(الإنصاف مسئلہ نمبر۳۲)
صحیح قاعدہ: حال کا جملہ فعلیہ لانا جبکہ فعل ماضی ہو مطلق طور پر جائز ہے۔ قد سے پہلے ہونا اکثر ہے اور قد کے بعد ہونا قلیل ہے۔
قرآن مجید سے دلیل: ’’أوْ جَائُ وْکُمْ حَصِرَتْ صُدُورُھْم ‘‘ (النساء :۹۰) اس کے علاوہ دیگر بہت سی آیات ہیں جو قراء ات متواترہ سے ثابت ہیں۔
(٢٦) نحوی قاعدہ: ثُمَّ کے ساتھ لامِ امر متحرک لایا جائے گا، ساکن لانا جائز نہیں ہے، ایسا کرنا قبیح ہے۔
صحیح قاعدہ: ثُمَّ کے ساتھ لامِ امرمتحرک یا ساکن دونوں طرح لایا جا سکتا ہے۔
قرآن مجید سے دلیل: ’’ ثُمَّ لْیَقْضُوْا تَفَثَھُمْ ‘‘ (الحج:۲۹) قراء ات سبعہ میں اس کی بہت سی مثالیں موجود ہیں۔
(٢٧) کلمہ (لیکۃ) جو کہ غیر منصرف ہے، اسے منصرف کا اعراب دینا جائز نہیں ہے۔
صحیح قاعدہ: ارشاد باری تعالیٰ ہے: ’’کَذَّبَ أصْحٰبُ لْــــــــــیْکَۃِ الْمُرْسَلِیْنَ ‘‘ (الشعراء :۱۷۶)
امام ابن کثیر، نافع اور ابن عامررحمہم اللہ نے اس کلمہ کو منصرف پڑھا ہے، تین آئمہ کا متواتر قراء ۃ میں اسے اختیار کرنا اس کے جواز کی واضح دلیل ہے۔
(٢٨) نحوی قاعدہ: ’’قُلْ ھُوَ اﷲُ أحَد، اﷲُ الصَّمَدُ‘‘ میں کلمہ (احد) کو تنوین دینا جائز نہیں ہے۔
صحیح قاعدہ: کلمہ احد کو تنوین دینا جائز ہے۔
قرآن مجید سے دلیل:’’قُلْ ھُوَ اﷲُ أحَدٌ اﷲُ الصَّمَدُ ‘‘ میں احد کو تنوین کے ساتھ پڑھا گیا ہے۔ بہت سے قراء نے اس قراء ت کو اختیار کیا ہے۔ (تفسیر طبری :۳۰؍۱۹۴)
صحیح قاعدہ: حال کا جملہ فعلیہ لانا جبکہ فعل ماضی ہو مطلق طور پر جائز ہے۔ قد سے پہلے ہونا اکثر ہے اور قد کے بعد ہونا قلیل ہے۔
قرآن مجید سے دلیل: ’’أوْ جَائُ وْکُمْ حَصِرَتْ صُدُورُھْم ‘‘ (النساء :۹۰) اس کے علاوہ دیگر بہت سی آیات ہیں جو قراء ات متواترہ سے ثابت ہیں۔
(٢٦) نحوی قاعدہ: ثُمَّ کے ساتھ لامِ امر متحرک لایا جائے گا، ساکن لانا جائز نہیں ہے، ایسا کرنا قبیح ہے۔
صحیح قاعدہ: ثُمَّ کے ساتھ لامِ امرمتحرک یا ساکن دونوں طرح لایا جا سکتا ہے۔
قرآن مجید سے دلیل: ’’ ثُمَّ لْیَقْضُوْا تَفَثَھُمْ ‘‘ (الحج:۲۹) قراء ات سبعہ میں اس کی بہت سی مثالیں موجود ہیں۔
(٢٧) کلمہ (لیکۃ) جو کہ غیر منصرف ہے، اسے منصرف کا اعراب دینا جائز نہیں ہے۔
صحیح قاعدہ: ارشاد باری تعالیٰ ہے: ’’کَذَّبَ أصْحٰبُ لْــــــــــیْکَۃِ الْمُرْسَلِیْنَ ‘‘ (الشعراء :۱۷۶)
امام ابن کثیر، نافع اور ابن عامررحمہم اللہ نے اس کلمہ کو منصرف پڑھا ہے، تین آئمہ کا متواتر قراء ۃ میں اسے اختیار کرنا اس کے جواز کی واضح دلیل ہے۔
(٢٨) نحوی قاعدہ: ’’قُلْ ھُوَ اﷲُ أحَد، اﷲُ الصَّمَدُ‘‘ میں کلمہ (احد) کو تنوین دینا جائز نہیں ہے۔
صحیح قاعدہ: کلمہ احد کو تنوین دینا جائز ہے۔
قرآن مجید سے دلیل:’’قُلْ ھُوَ اﷲُ أحَدٌ اﷲُ الصَّمَدُ ‘‘ میں احد کو تنوین کے ساتھ پڑھا گیا ہے۔ بہت سے قراء نے اس قراء ت کو اختیار کیا ہے۔ (تفسیر طبری :۳۰؍۱۹۴)