• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

نظریہ النحو القرآنی … ایک تحقیقی جائزہ

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے قرآن مجید کی اس قراء ۃ کادفاع کرتے ہوئے ایک مستقل رسالہ ’’الکلام علی قولہ تعالیٰ إن ھذان لسٰحرٰن‘‘ (مجلہ مرکز البحث العلمی والتراث الإسلامی بمکۃ المکرمۃ، العدد الثانی عام ۱۳۹۹ھ) لکھا ہے: جس میں انہوں نے نحویوں کی طرف سے اس قراء ۃ کو کاتب کی غلطی، لحن یا خطا قرار دینے کے موقف کا بھرپور رد کیاہے۔ (الکلام علی قولہ تعالیٰ ان ھذان لساحران، ص۲۷۰،۲۷۱) اور اس قراء ت کو افصح قرار دیاہے۔(کتاب الصاحیی لابن فارس، ص۲۱)
اہل عرب کی لغت بھی اس قراء ۃ کی تائید کرتی ہے۔ ابوحبان رحمہ اللہ نے اس کی تخریج کرتے ہوئے کہا:
’’والذی نختارہ في تخریج ھذہ القراء ۃ أنھا جاء ت علی لغۃ بعض العرب من إجراء المثنی بالألف دائما،وھی لغۃ لکنانہ،حکی ذلک أبو الخطاب،وبنی الحارث بن کعب وخثعم وزبیر، وأھل تلک الناحیہ،حکی ذلک عنھم الکسائي وبني العنبر وبني الھجیم ومراد وعذرہ۔ وقال أبو زید سمعت من العرب من یقلب کل یاء ینفتح ماقبلھا ألفاً‘‘(البحر المحیط:۶؍۲۵۵)
’’اس قراء ۃ کی تخریج کرتے ہوئے ہم نے جس بات کو اختیار کیا ہے وہ یہ ہے کہ بعض عرب کی لغت میں تثنیہ کو ہمیشہ الف کے ساتھ ہی استعمال کیا گیا ہے اور یہ کنانہ کی لغت ہے جسے ابوالخطاب رحمہ اللہ نے بیان کیاہے۔ بنی حارث بن کعب، خثعم، ز بیررضی اللہ عنہم اور اس علاقہ کے لوگوں سے یہ لغت کسائی رحمہ اللہ نے بیان کی ہے۔ بنی عنبر، بنی ھجیم، مراد اورعذرہ کی بھی یہی لغت ہے۔ ابوزیدرحمہ اللہ نے کہا میں نے بعض عرب کو سنا ہے وہ ہر یاء ماقبل مفتوح کو الف سے بدل دیتے ہیں۔‘‘
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
امام جاربردی رحمہ اللہ نے کہا:
’’إن للحارث بن کعب و خثعما و زبیدا و قبائل من الیمن یجعلون ألف الاثنین فی الرّفع والنصب والخفض علی لفظ واحد ‘‘ (شرح الجاربردی علی شافیۃ لابن الحاجب:۱؍۲۷۷)
’’حارث بن کعب، خثعم رضی اللہ عنہم، زبیدا اور یمن کے کچھ قبائل تثنیہ کے الف کو رفعی، نصبی اور جری تینوں حالتوں میں ایک ہی طرح (الف کے ساتھ) پڑھتے ہیں۔‘‘
اس سے قراء ات سبعہ کے بارے میں نحویوں کے موقف کا اندازہ ہوجاتا ہے وہ دونوں قراء توں کو ہی کاتب کی غلطی قرار دے رہے ہیں تو باقی کیا بچا؟ ہم تو قراء ت متواترہ کی صورت میں قرآن مجید سے بہتر اور اَوثق مصدر نہیں جانتے ہیں۔
اہل علم نے قرآن کریم کے دفاع میں جوکچھ کہہ دیا ہمارے لیے وہی کافی ہے اس میںمزید اِضافے کی ضرورت نہیں ہے۔قرآن مجید کی حفاظت کے بارے میں امام فخر الدین الرازی رحمہ اللہ نے واضح طور پر کہہ دیا ہے:
’’إن المسلمین أجمعوا علی أن ما بین الدفتین کلام اﷲ، وکلام اﷲ لایجوز أن یکون لحنا وغلطا‘‘ (مفاتیح الغیب:۶؍۶۹)
’’مسلمانوں کااس بات پر اجماع ہے کہ جو کچھ دفتین کے درمیان ہے وہ کلام اللہ ہے اور کلام اللہ لحن اور غلط نہیں ہوسکتا۔‘‘
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
المعارضۃ الخفیہ
نحویوں کے قراء ات پر اعتراض کرنے کی دوسری قسم ’المعارضۃ الخفیہ‘ مخفی اعتراض ہے۔ اس کی صورت یہ ہے کہ جب نحوی قراء ۃ پراعتراض کرناچاہتے ہیں تو اس کے لیے ایسی مثال پیش کرتے ہیں جو پوری طرح آیت کے مطابق ہوتی ہے لیکن وہ آیت کی نص ذکرنہیں کرتے۔ اسی طرح آیت کا حوالہ دیئے بغیر آیت پر اعتراض کیاجاتاہے۔ جب بات یہاں تک پہنچ جائے تو پھر صراحت اور اشارے میں فرق نہیں رہتا۔
متقدمین نحاۃ میں سے سیبویہ کی کتاب میں مخفی اعتراضات کی بہت سی مثالیں موجود ہیں۔ ان میں سے چند ایک کی طرف اشارہ کرنے پر اکتفا کرتے ہیں۔
مثال کے طور پر آیت کریمہ ’’یٰأیُّھَا النَّبِیُّ لِمَ تُحَرِّمُ مَا أحَلَّ اﷲُ لَکَ‘‘ ( التحریم:۱) ’’اسی طرح لفظ نبی قرآن مجید میں بہت سے مقامات پر آیا ہے‘‘ میں لفظ ’النبی‘اورآیت کریمہ ’’أوْلٰئِکَ ھُمْ خَیْرُ الْبَرِیَّۃ‘‘(البینہ:۷) میں لفظ ’البریۃ‘،امام نافع رحمہ اللہ نے اندونوں کلموں میں ہمزہ کو تحقیق کے ساتھ پڑھا ہے، لیکن سیبویہ رحمہ اللہ نے ان آیات کاتذکرہ کئے بغیر اس قراء ۃ پر اس طرح اعتراض کیاہے:
’’وقالوا نبي وبریۃ فألزمھا أھل التحقیق البدل،ولیس کل شيء نحوھما یفعل بہ ذا، إنما یؤخذ بالسمع، وقد بلغنا أن قوما من أھل الحجاز من أھل التحقیق یحققون نبيئ،وبریئۃ، وذلک قلیل ردي‘‘ (الکتاب :۲؍۱۶۳)
’’اہل تحقیق نے نبی اور بریہ میں بدل کولازم قراردیا ہے اوران جیسی ہر چیز کے ساتھ ایسے نہیں کیا جائے گا،کیونکہ دلیل سماع ہے اور ہمیں یہ بات پہنچی ہے کہ اہل حجاز کے بعض محققین ان دونوں کلموں نبی، اور بریئۃ کو تحقیق کے ساتھ پڑھتے ہیں، یہ بہت ہی کم اور بے کار ہے۔‘‘
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
یہاں ہم دیکھتے ہیں کہ آیت کی نص ذکر کئے بغیر اس کا رد ہورہاہے۔جو مثال بیان کی گئی ہے وہ پوری طرح آیت کے مطابق ہے۔ اسی لیے ہم اسے معارض خفی کہتے ہیں۔ اس کی بہت ساری مثالیں الکتاب میں موجود ہیں۔ (تفصیل کے لیے دیکھئے، الکتاب (ھولاء بناتی ھن أطھرلکم) اس آیت میں ’أطھر‘ کی نصب والی قراء ۃ کے بارے میں:۱؍۳۹۷، (کن فیکون) میں (یکون) کے نصب کے بارے میں ۱؍۴۲۳، (إلی بارئکم)میں ہمزہ کے سکون والی قراء ۃ کے بارے میں ۲؍۲۹۷) اختصار کی خاطر ہم صرف ایک مثال بیان کرتے ہیں۔ارشاد باری تعالیٰ ہے:’’إِذَا السَّمَائُ انْشَقَّتْ، وَأذِنَتْ لِرَبِّھَا وَحُقَّتْ، وَاِذَا الْأرْضُ مُدَّتْ‘‘ (الانشقاق:۳،۲،۱)
(السماء)کے اِعراب کے بارے میں ذہن فوراً اس بات کی طرف جاتا ہے کہ یہ مبتدا ہونے کی وجہ سے مرفوع ہے۔ اس کے بعد جملہ (انشقت) اس کی خبر ہے۔ اسی طرح دوسری آیت میں الارض مبتدا اور مدت اس کی خبر ہے۔بعض کبار علماء نے یہی بات کہی ہے (ان میں اخفش رحمہ اللہ، فراءرحمہ اللہ اور عام کوفی شامل ہیں)جبکہ جمہور نحویوں نے اس فطری اِعراب کا انکار کیاہے اور آیات کی ایسی تاویلیں کی ہیں جن سے آیات کی سلاست باقی نہیںرہتی۔ انہوں نے کہا:یہاں تقدیر عبارت یوں ہوگی۔ إذا انشقت السماء انشقت۔ وإذا مدت الأرض مدت۔ السماء فعل محذوف کافاعل ہوگا اور الارض محذوف فعل مدت کا نائب فاعل ہوگا۔ نحویوں کی یہ کاوش محض تکلف ہے جو انہوں نے آیاتِ کریمہ کو قواعد نحویہ کے تابع بنانے کے لیے کی ہے۔ نحوی قاعدہ ہے: إذا شرطیہ کی جملہ فعلیہ کی طرف اِضافت واجب ہے۔(تفصیل کے لیے نحو کی اُمہات الکتب دیکھئے خاص طور پر ألفیۃ ابن مالک کی شروح باب الاضافہ)
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
ابن مالک رحمہ اللہ نے کہا: ’’وألزموا إذا إضافۃ إلی جمل الأفعال کھن إذا اعتلی (الفیہ ابن مالک، باب الاضافہ)‘‘ البتہ ابن مالک رحمہ اللہ کا اس موقف سے رجوع ثابت ہے۔(شرح الاشمونی:۲؍۱۹۵، باب الاضافہ، متن التسھیل لابن مالک، ص۱۵۹ تحقیق ڈاکٹر کامل برکات)لیکن پہلی بات کے زبان زد خاص وعام ہونے کے بعد اس رجوع کا کیا فائدہ؟
جب نحاۃ کے پاس یہ آیت اور اس جیسی دوسری مثالیں آئیں جس میں حرف شرط کے فوراً بعد مرفوع اسم آیا تو انہوں نے غوروفکر شروع کیا کہ اس اسم کو فعل مذکور، فعل مقدر یاکسی اور چیز نے رفع دیا ہے۔
ابن الانباری رحمہ اللہ نے کتاب الانصاف، مسئلہ نمبر ۳۵ میں حرف شرط کے بعد مرفوع اسم کے بارے میں تین آراء پیش کی ہیں۔ ہم اس مسئلہ کے بارے میں حسب ذیل آراء پیش کرتے ہیں:
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
(١) جمہور بصریوں کاخیال ہے کہ اس سے قبل فعل محذوف مانیں گے یہ اسم اس کافاعل بن کر مرفوع ہوگا اور بعد والافعل اس کی تفسیر ہوگا۔اس طرح یہ جملہ فعلیہ ہوگا اور جملہ تفسیریہ ہونے کی وجہ سے اس کاکوئی اعراب نہیں ہوگا۔
(٢) اخفش رحمہ اللہ، فراءرحمہ اللہ کی ایک رائے اور سیبویہ رحمہ اللہ کی ایک رائے (شرح ابن عقیل:۲؍۶۱) کے مطابق یہ اسم مبتدا ہونے کی وجہ سے مرفوع ہے اور اس کے بعد والا جملہ اس کی خبر ہوگا۔
(٣) کوفیوں کی رائے کے مطابق مرفوع اسم میں عامل اس کی طرف لوٹنے والافعل ہوگا یعنی اس کے بعد فعل میں ایک ضمیر مستتر ہوگی جو مقدم اسم پرعمل کرے گی۔ (الانصاف لابن الانباری المسالۃ:۸۵) یہ رائے انتہائی ضعیف ہے۔
(٤) فراءرحمہ اللہ کی ایک رائے کے مطابق اس میں فعل مذکور عامل ہوگا۔فراء کے نزدیک اس جیسی صورت میں فاعل کو فعل پر مقدم کرنا جائز ہے۔ یہ رائے بھی ضعیف ہے۔
(٥) ابن جنی کی رائے میں یہاں پر متکلم خود عامل ہے۔ وہ خود رفع، نصب یا جر دینے والا ہے، لیکن کلمات میں یہ اُصول نہیں ہوتا۔ (الخصائص لابن جنی:۱؍۱۰۹)
(٦) بعض نحویوں کے مطابق اس میں عامل عربوں کااستعمال ہے۔انہوں نے اسی طرح رفع، نصب، جر کے ساتھ پڑھا ہے، لیکن اس موقف کے لیے لغت سے دلیل چاہئے اور علماء نے پڑھنے والوں کی آسانی کے لیے لفظی اور معنوی عوامل بیان کئے ہیں ان میں سے کوئی عامل ہوناچاہئے۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
(٧) ابن مضاء نے کہا: یہاں پر خود اللہ تعالیٰ عامل ہیں۔
یہاں پر ہم دیکھتے ہیں کہ کس طرح نحوی قواعد نحویہ کی بنیاد پر ان آیات میں تاویل کرتے ہیں اور اس مرفوع اسم کے لیے مقدر عبارات نکالتے ہیں۔ بعض نحویوں نے اس کے فطری اعراب یعنی مبتدا خبر کی طرف اشارہ کیا ہے، لیکن ان کازیادہ زور نحوی قاعدے کو بچانے پرصرف ہورہاہے۔ قرآن مجید کو حق مانتے ہوئے اور اس کی اتباع کرتے ہوئے اس کے فطری اعراب مبتدا خبر کو تسلیم کرناچاہئے۔ قرآن مجیدمیں اس کی بے شمار مثالیں بھری ہوئی ہیں ہم ان میں سے بعض یہاں پر پیش کرتے ہیں:
۱۔ فَاِذَا النُّجُوْمُ طُمِسَت۔۔۔۔۔سورۃ المرسلات۔۔۔۔۔آیت : ۸
۲۔ وَاِذَا السَّمَائُ فُرِجَت۔۔۔۔۔سورۃ المرسلات۔۔۔۔۔آیت : ۹
۳۔ وَاِذَا الْجِبَالُ نُسِفَت۔۔۔۔۔سورۃ المرسلات۔۔۔۔۔آیت : ۱۰
۴۔ وَاِذَا الرُسُلُ أُقِتت۔۔۔۔۔سورۃ المرسلات۔۔۔۔۔آیت : ۱۱
۵۔ اِذَا الشَمْسُ کُوِّرَتْ۔۔۔۔۔سورۃ التکویر۔۔۔۔۔آیت : ۱
۶۔ وَاِذَا النجومُ انْکَدَرَتْ۔۔۔۔۔سورۃ التکویر۔۔۔۔۔آیت : ۲
۷۔ وَاِذَا الجبالُ سُیِّرَت۔۔۔۔۔سورۃ التکویر۔۔۔۔۔آیت : ۳
۸۔ وَاِذَا العِشَارُ عُطِّلَتْ۔۔۔۔۔سورۃ التکویر۔۔۔۔۔آیت : ۴
۹۔ وَاِذَا الوُحُوشُ حُشِرَتْ۔۔۔۔۔سورۃ التکویر۔۔۔۔۔آیت : ۵
۱۰۔ وَاِذَا البِحَارُ سُجِّرَتْ۔۔۔۔۔سورۃ التکویر ۔۔۔۔۔آیت : ۶
۱۱۔ وَاِذَا النُّفُوسُ زُوِّجَتْ۔۔۔۔۔سورۃ التکویر۔۔۔۔۔آیت : ۷
۱۲۔ واذا المَٓوْئُ ودَۃُ سُئِلَتْ۔۔۔۔۔سورۃ التکویر۔۔۔۔۔آیت : ۸
۱۳۔ وَاِذَا الصُحُفُ نُشِرَتْ۔۔۔۔۔سورۃ التکویر۔۔۔۔۔آیت :۱۰
۱۴۔ وَاِذَا السَّمَائُ کُشِطَتْ۔۔۔۔۔سورۃ التکویر۔۔۔۔۔آیت : ۱۱
۱۵۔ وَاِذَا الجَحِیمُ سُعِّرَتْ۔۔۔۔۔سورۃ التکویر۔۔۔۔۔آیت : ۱۲
۱۶۔ وَاِذَاالجَنَّۃُ أُزْلِفَتْ۔۔۔۔۔سورۃ التکویر۔۔۔۔۔آیت : ۱۳
۱۷۔ اِذَا السَّمَائُ انْفَطَرَتْ۔۔۔۔۔سورۃ الانفطار۔۔۔۔۔آیت : ۱
۱۸۔ وَاِذَا الکَوَاکِبُ انْتَثَرَتْ۔۔۔۔۔سورۃ الانفطار۔۔۔۔۔آیت : ۲
۱۹۔ وَاِذَا البِحَارُ فُجِّرَتْ۔۔۔۔۔سورۃ الانفطار۔۔۔۔۔آیت : ۳
۲۰۔ وَاِذَا القُبُورُ بُعْثِرَتْ۔۔۔۔۔سورۃ الانفطار۔۔۔۔۔آیت : ۴
۲۱۔ اِذَا السَّمَائُ انْشَقَّتْ۔۔۔۔۔سورۃ الانشقاق۔۔۔۔۔آیت : ۱
۲۲۔ وَاِذَا الاَرْضُ مُدَّت۔۔۔۔۔سورۃ الانشقاق۔۔۔۔۔آیت : ۳
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
اس کے علاوہ بیسیوں اشعار اس قاعدے کی تائید میں پیش کئے جاسکتے ہیں۔اس تفصیل اور وضاحت کے بعد کیا ہمارے لیے جائز ہے کہ ہم ایک ناقص نحوی قاعدے کے ساتھ چمٹے رہیں اور ان مضبوط شواہد کوچھوڑ دیں۔ ان تمام شواہد میں سب سے اوپر قرآنی آیات ہیں، جن میں باطل کی مداخلت کاکوئی امکان نہیں اور وہ محفوظ ترین مصدر ہیں۔
قواعد نحویہ کے نصوص قرآن سے ٹکرانے کی یہ محض ایک مثال ہے۔ تعارض کی صورت میں ہی نحویوں کی تاویل سامنے آتی ہے تاکہ وہ اس تعارض کوختم کرسکیں اور نحوی قاعدہ کو غالب کردیں۔ اس کے لیے وہ جو طریقہ کار اختیارکرتے ہیں اسے کم سے کم الفاظ میں ظاہری یا مخفی تعارض کہہ سکتے ہیں، اس کے برعکس ہم یہ کہتے ہیں کہ اس غیر ضروری تاویل کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ اس کاحل یہ ہے کہ اس قاعدے کو نص قرآنی کی روشنی میں درست کرلیا جائے۔ نیت صاف ہو اور ہم اس بات کی طرف توجہ کریں تو یہ آسان راستہ ہے۔ دراسات قرآنیہ کے حوالے سے ہم یہی دعوت دیتے ہیں کہ قرآن کریم کو ہر پہلو سے بنیادی مصدر قرار دیا جائے اور رائج نحو کی بجائے قرآنی نحو پر اعتمادکیا جائے۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
قواعد نحویہ کے نصوص قرآنی سے ٹکراؤ کی مثالیں اور ان کی اصلاح کی صورت
(١) نحوی قاعدہ: اسم ظاہر کا مجرور ضمیر پر حرفِ جر کے بغیر عطف ڈالنا جائز نہیں۔
صحیح قاعدہ: اسم ظاہر کا مجرور ضمیر پر حرفِ جر کے اعادہ کے بغیر عطف ڈالنا جائز ہے۔
قرآن مجید سے دلیل : ’’تَسَائَ لُوْنَ بِہِ وَالأرْحَامَ‘‘ امام حمزہ نے الْأَرْحَامِ پڑھا ہے، جو متواتر قراء ت ہے۔ کبار صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور سلف صالحین میں سے عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ ، حسن بصری رحمہ اللہ(شرح الرضي علی الکافیۃ: ۳؍۱۱۷، شرح المفصّل: ۳؍۷۸، إبراز المعاني ص۲۸۴) نخعی، قتادہ، الاعثی رحمہم اللہ(البحر المحیط: ۳؍۱۵۷) وغیرہ نے بھی اسی قراء ت کو اختیار کیا ہے۔ ابوحیان رحمہ اللہ نے امام حمزہ رحمہ اللہ کی اس قراء ت کے بارے میں کہا:
’’قراء ۃ متواترۃ عن رسول اﷲ ! قرأ بھا سلف الأمۃ واتصلت بأکابر قرآء الصحابۃ عثمان وعلي وابن مسعود وزید بن ثابت وأقرأ الصحابۃ أبي بن کعب‘‘(البحر المحیط: ۳؍۱۵۷)
’’یہ رسول اللہﷺسے مروی متواتر قراء ت ہے۔ امت کے اسلاف نے اس کے موافق پڑھا ہے۔ اکابر قراء صحابہ کرام جیسے سیدنا عثمان، علی، ابن مسعود، زید بن ثابت اور صحابہ کے سب سے بڑے قاری سیدنا ابی بن کعب رضی اللہ عنہم نے اس طرح پڑھا ہے۔‘‘
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
اس واضح تصریح کے بعد ہونا تو چاہئے کہ نحوی قاعدہ کی اصلاح کردی جائے تاکہ وہ قرآنی فصاحت و بلاغت کو اپنے اندر سمو سکے لیکن نحاۃ نے اسے رد کیا، اسے ضعیف قرار دیا۔ (شرح المفصل:۳؍۷۸) اور اسے غلط قرار دیتے ہوئے اس کے مطابق قراء ت کو حرام قرار دیا ہے۔ (شرح المفصل :۳؍۷۸) اسی لیے مبرّد نے کہا: ’’لو أنني صلیت خلف إمام یقرؤھا لقطعت صلاتي‘‘ (درۃ الفواص في أوھام الخصاص للحریری، ص۹۵)
’’اگر میں ایسے امام کے پیچھے نماز پڑھوں جو اس طرح (بروایت امام حمزہ رحمہ اللہ ) قراء ۃ کرے تو میں نماز توڑ دوں گا۔‘‘
اس قراء ت کے بارے میں اتنا شدید رد عمل ظاہر کرنے کی وجہ صرف یہ ہے کہ یہ ۃ رائج نحو کے خلاف ہے۔ اس میں حرف جر کے اعادہ کے بغیرمجرور پڑھاگیا ہے، حالانکہ قرآن مجید میں اس کے علاوہ بھی اس کی مثالیں موجود ہیں۔ مثلاً ’’ وَصَدٌّ عَنْ سَبِیْلِ اﷲِ وَکُفْرٌ بِہٖ وَالْمَسْجِدِ الْحَرَامِ ‘‘ (البقرۃ:۲۱۷) لفظ (المسجد) کا عطف (بہ) پر ہے اور حرف جر کے اعادہ کے بغیر اسے جر دیا گیاہے۔ اسی طرح اِرشاد باری تعالیٰ ہے۔ ’’وَجَعَلْنَا لَکُمْ فِیْھَا مَعَایِشَ وَمَنْ لَّسْتُمْ لَہٗ بِرَازِقِیْنَ ‘‘ (الحجر:۲۰) اس میں کلمہ (من) کا عطف (لکم) پر ہے اور حرف عطف کے بغیر ہے۔ کلام عرب میں سے قطرب روایت کرتے ہیں’’ ما فیھا غیرہ وفرسہ‘‘ (البحر المحیط: ۲/۱۴۷، الحجّۃ لابن خالویہ ص۹۴) اتنے واضح دلائل کے بعد ایک ہی نتیجہ نکلتا ے کہ قراء ت متواترہ کو صحیح سمجھتے ہوئے بنیاد بنایا جائے اور اس کے مطابق نحوی قاعدے کی اصلاح کردی جائے۔
 
Top