• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

نفاذ شریعت کا منہج : دعوت وجہاد

سٹیٹس
مزید جوابات پوسٹ نہیں کیے جا سکتے ہیں۔

ابوالحسن علوی

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
2,521
ری ایکشن اسکور
11,555
پوائنٹ
641
نفاذ شریعت کا منہج : دعوت و جہاد

راقم کو شروع ہی سے دعوت وجہاد کے موضوع سے دلچسپی رہے ہے لہذا لڑکپن اور نوجوانی میں ہی جماعت اشاعت التوحید والسنۃ، جمعیت طلبہ عربیہ، سپاہ صحابہ اور جماعت اسلامی کو قریب سے دیکھنے کا موقع ملا۔ بعد ازاں جب شعور کچھ قوی ہوا تو تبلیغی جماعت، جماعۃ الدعوۃ اور تنظیم اسلامی کے قریب رہنے کا بھی موقع ملا۔ علاوہ ازیں تحریک طالبان افغانستان، تحریک طالبان پاکستان اور حزب التحریر کے کارکنان سے بھی براہ راست ملاقاتیں رہیں۔ اسی طرح صوفیا کے سلاسل میں سے نقشبندیہ اور قادریہ اور ان کے مرشدین کی محافل میں شرکت کر کے ان کے نظام کو بھی قریب سے سمجھنے کی کوشش کی۔

راقم نے ہمیشہ یہی کوشش کی ہے کہ کسی جماعت، مسلک یا تحریک کے موقف کو دوسروں کی بجائے خود ان کی زبانی سمجھا جائے اور پھر ان کی اس تعبیر کا ایک تجزیہ کیا جائے۔ اپنے اس مضمون میں راقم نے پاکستان میں دعوت وجہاد کے حوالہ سے ہونے والے کام کا ایک تجزیاتی مطالعہ پیش کیا ہے اور پاکستان میں نفاذ شریعت کے ممکنہ رستوں کی رہنمائی کی ہے۔ یہ مضمون ماہنامہ الاحیاء جنوری، فروری ٢٠١٢ء کے شمارہ میں شائع ہوا ہے۔
 

ابوالحسن علوی

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
2,521
ری ایکشن اسکور
11,555
پوائنٹ
641
دین، شریعت اور منہاج کا فرق
حضرت آدم علیہ السلام سے لے کر اللہ کے رسو ل صلی اللہ علیہ وسلم تک تمام انبیاء اور امتوں کا دین ایک ہی دین ہے اور وہ دین اسلام ہے۔ آپ کا ارشاد ہے:
'' الأنبیاء اخوة لعلات أمھاتھم شتی ودینھم واحد.'' (صحیح بخاری، کتاب أحادیث الأنبیاء، باب قول اللہ تعالیٰ واذکر فی الکتاب مریم اذ انتبذت من أھلھا)
'' انبیاء آپس میں علاتی بھائی ہیں ( علاتی بھائی انہیں کہتے ہیں جن کا باپ ایک ہو اور مائیں جدا ہوں)۔ ان کی مائیں جدا ہیں لیکن دین واحد ہے۔
اس حدیث میں دین کو باپ اور شریعت کو ماں سے تشبیہ دی گئی ہیں۔ پس تمام انبیاء کا دین تو دین اسلام ہی ہے جبکہ ان کی شریعت ( یعنی قانون ) تہذیب وتمدن کے ارتقا کی وجہ سے بدلتا رہتا ہے۔
قرآن کے بیان کے مطابق شریعت کے ساتھ ساتھ اس شریعت کو فرد و معاشرے پر نافذ کرنے کا طریقہ اور منہج بھی مختلف اقوام و ملل میں مختلف رہا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
لِكُلٍّ جَعَلْنَا مِنكُمْ شِرْعَةً وَمِنْهَاجًا ۚ(المائدة : ٤٨)
'' ہم نے تم میں سے ہر ایک ( امت ) کے لیے ایک شریعت اور ایک منہاج مقرر کیا ہے۔''

ہم یہاں اس طرف اشارہ کرنابھی مناسب سمجھتے ہیں کہ اصول فقہ میں مصادر شریعت کے عنوان کے تحت کتاب، سنت اور اجماع وغیرہ کی بحثیں شریعت کی بحثیں ہیں جبکہ مصلحت، سد الذرائع،عرف اور مقاصد شریعت کی بحثیں در اصل منہاج کی ابحاث ہیں یعنی ایک تو شریعت اور قانون ہے اور دوسرا اس کو نافذ کرنے کا طریق کار اور منہج ہے۔ پس کتاب وسنت کے احکامات کے نفاذ اور اجراء میں مصلحت، سد الذرائع،عرف اور مقاصد شریعہ کو سامنے رکھنے کا معنی منہاج محمدی صلی اللہ علیہ وسلم کو سامنے رکھنا ہے۔

شریعت محمدی صلی اللہ علیہ وسلم کتاب و سنت ہے اور کتاب و سنت کے نفاذ کا منہاج محمدی صلی اللہ علیہ وسلم دو قسم کا ہے :
١۔ بنیادی منہج اور یہ دعوت و جہاد ہے ۔
٢۔ تفصیلی منہج اور یہ مصلحت، سد الذرائع،عرف اور مقاصد شریعت وغیرہ کی ابحاث ہیں۔
اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے شریعت کے نفاذ میں مصلحت، سد الذرائع، عرف اور مقاصد کا لحاظ رکھا ہے، اس کے دلائل سے اصول فقہ کی کتابیں بھری پڑی ہیں، ہم طوالت کے خوف سے ان دلائل کا یہاں تذکرہ نہیں کر رہے ہیں۔
 

ابوالحسن علوی

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
2,521
ری ایکشن اسکور
11,555
پوائنٹ
641
کیا سابقہ مناہج ِنفاذِ شریعت منسوخ ہیں؟
یہاں ایک اہم سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا سابقہ اقوام کی شریعتوں کی مانند ان کی طرف بھیجے ہوئے انبیاء کا منہاج بھی منسوخ ہے یا نہیں؟۔ اس سوال کا جواب تفصیل چاہتا ہے۔ جس طرح سابقہ شرائع کے بنیادی احکامات مثلاً نماز، روزہ، حج، زکوة، زنا نہ کرنا، چوری نہ کرنا،قتل نہ کرنا، سود نہ کھانا وغیرہ کی ایک بڑی تعداد ہماری شریعت میں باقی رکھی گئی اسی طرح ان سابقہ شریعتوں کے نفاذ کا بنیادی منہج یعنی دعوت بھی اس شریعت اسلامیہ میں بطور منہج باقی رکھا گیا ہے۔

دوسری بات یہ ہے کہ سابقہ انبیاء کے نفاذ شریعت کے جن تفصیلی مناہج کا ذکر قرآن وسنت میں بطور خبر و تذکرہ بیان ہوا ہے تو یہ مناہج ہمارے حق میں ثابت ہیں یا نہیں ہیں؟ شرائع من قبلنا کے عنوان کے تحت اصولیین کے اختلاف کو بنیاد بناتے ہوئے اس بارے بنیادی طور پر دو موقف ہمارے سامنے آتے ہیں:
ا) جمہور حنفیہ، مالکیہ ، بعض شافعیہ ، جمہور حنابلہ اور ایک روایت کے مطابق امام احمد کا موقف یہ ہے کہ شرائع من قبلنا کے وہ احکام جو ہماری شریعت میں بطور خبر نقل ہوئے ہیں، ہمارے لیے حجت ہوں گے لہٰذا اس اصول کے مطابق ان فقہاء کے نزدیک سابقہ تفصیلی مناہج بھی ہمارے لیے حجت ہوں گے۔ اس گروہ کے مطابق ان مناہج کاہماری شریعت میں مذکور ہو جاناہی اس بات کی دلیل ہے کہ شارع نے ان مناہج کو ہمارے حق میں برقرار رکھا ہے ۔
ب) اشاعرہ 'معتزلہ، شیعہ ، ایک روایت کے مطابق امام احمداور شافعیہ کے ہاں راجح مسلک یہ ہے کہ شرائع من قبلنا کے وہ احکام جو ہماری شریعت میں بطور خبر نقل ہوئے ہیں، ہمارے لیے حجت نہیں ہیں۔ پس اس اصول کے مطابق یہ تفصیلی مناہج ہمارے حق میں حجت نہیں ہیں۔ (أصول الفقہ الاسلامی :جلد ٢، ص ٨٤٣۔٨٤٤)

سابقہ انبیاء کے تفصیلی منہج کی ایک دلچسپ مثال پیش خدمت ہے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے جب اپنی قوم کے سامنے دعوت رکھی اور ان کی قوم کے آباء و اجدادکا معاملہ سامنے آیا تو انہوں نے کچھ یوں جواب دیا :
إِذْ قَالَ لِأَبِيهِ وَقَوْمِهِ مَا هَـٰذِهِ التَّمَاثِيلُ الَّتِي أَنتُمْ لَهَا عَاكِفُونَ ﴿٥٢﴾ قَالُوا وَجَدْنَا آبَاءَنَا لَهَا عَابِدِينَ ﴿٥٣﴾ قَالَ لَقَدْ كُنتُمْ أَنتُمْ وَآبَاؤُكُمْ فِي ضَلَالٍ مُّبِينٍ ﴿٥٤﴾ ( الأنبیاء )
'' جب حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنے والد اور اپنی قوم سے کہا : یہ کیسی مورتیاں ہیں جن کے سامنے تم جم کر بیٹھے ہو۔ انہوں نے کہا : ہم نے اپنے باپ دادا کو ان کی عبادت کرتے پایا ہے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے کہا : تم اور تمہارے باپ دادا صریح گمراہی میں ہو۔''

اس کے برعکس جب حضرت موسی علیہ السلام نے فرعون کے سامنے اپنی دعوت رکھی اور اس نے اپنے آباء واجداد کے بارے وضاحت چاہی تو حضرت موسی علیہ السلام کا جواب کچھ یوں تھا:
فَأْتِيَاهُ فَقُولَا إِنَّا رَسُولَا رَبِّكَ فَأَرْسِلْ مَعَنَا بَنِي إِسْرَائِيلَ وَلَا تُعَذِّبْهُمْ ۖ قَدْ جِئْنَاكَ بِآيَةٍ مِّن رَّبِّكَ ۖ وَالسَّلَامُ عَلَىٰ مَنِ اتَّبَعَ الْهُدَىٰ ﴿٤٧﴾ إِنَّا قَدْ أُوحِيَ إِلَيْنَا أَنَّ الْعَذَابَ عَلَىٰ مَن كَذَّبَ وَتَوَلَّىٰ ﴿٤٨﴾ قَالَ فَمَن رَّبُّكُمَا يَا مُوسَىٰ ﴿٤٩﴾ قَالَ رَبُّنَا الَّذِي أَعْطَىٰ كُلَّ شَيْءٍ خَلْقَهُ ثُمَّ هَدَىٰ ﴿٥٠﴾ قَالَ فَمَا بَالُ الْقُرُونِ الْأُولَىٰ ﴿٥١﴾ قَالَ عِلْمُهَا عِندَ رَبِّي فِي كِتَابٍ ۖ لَّا يَضِلُّ رَبِّي وَلَا يَنسَى ﴿٥٢﴾ ( طہ )
''پس حضرت موسی اور حضرت ہارون علیہما السلام فرعون کے پاس آئے اور انہوں نے کہا : بلاشبہ ہم دونوں تیرے رب کے رسول ہیں پس تو ہمارے ساتھ بنی اسرائیل کو بھیج دے اور انہیں عذاب نہ دے۔ ہم دونوں تیرے پاس تیرے رب کی واضح نشانی لے کر آئے ہیں اور جس نے ہدایت کی پیروی کی تو اس پر سلامتی ہو۔ ہم دونوں پر یہ بھی وحی کی گئی ہے کہ جس نے جھٹلایا اور منہ پھیرا تو اس کے لیے عذاب ہے۔ فرعون نے کہا: اے موسی ! تم دونوں کا رب کون ہے۔ حضرت موسی علیہ السلام نے کہا : ہمارا رب وہ ہے جس نے ہر شیء کو پیدا کیا اور پھر اس کی رہنمائی کی۔ فرعون نے کہا : پس پہلی قوموں ( یعنی ہمارے آباء واجداد ) کا کیاحال ہو گا ؟۔ حضرت موسی علیہ السلام نے کہا : ان کا حال میرے رب کے پاس ایک کتاب میں محفوظ ہے اور میرا رب نہ تو بے اعتدالی کرتا ہے اور نہ ہی بھولتا ہے۔''

یہ بھی واضح رہے کہ حضرت موسی علیہ السلام کو فرعون کے سامنے دعوت پیش کرتے ہوئے فَقُولَا لَهُ قَوْلًا لَّيِّنًا لَّعَلَّهُ يَتَذَكَّرُ أَوْ يَخْشَىٰ ﴿٤٤﴾ ( طہ ) میں نرم رویہ اختیار کرنے کا حکم بھی دیا گیا تھا۔ اب دعوت کے مرحلے میں امت محمدیہ صلی اللہ علیہ وسلم کے افراد کو جب مخاطبین کی طرف سے کوئی ایسا سوال پیش آئے تو انہیں حضرت ابراہیم یا حضرت موسی علیہما السلام جیسا جواب دینے کی اجازت ہے یا نہیں؟تفصیلی منہج کے اختیار کرنے یا نہ کرنے سے ہماری مراد اس بحث کی وضاحت تھی۔
 

ابوالحسن علوی

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
2,521
ری ایکشن اسکور
11,555
پوائنٹ
641
منہاج محمدی صلی اللہ علیہ وسلم کے مصادر
امت محمدیہ صلی اللہ علیہ وسلم میں نفاذ شریعت کا منج کہاں سے معلوم ہو گا؟ یا اس کے مصادر کیا ہیں؟ یہ ایک اہم سوال ہے۔ شریعت محمدیہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بنیادی مصادر تو قرآن اور سنت ہیں اور ثانوی مصادر میں اجماع، قیاس ہیں اور فقہاء کے مابین شریعت کے اختلافی مصادر میں شرائع من قبلنا، قول صحابی اور استصحاب وغیرہ شامل ہیں۔

اس کے برعکس شریعت محمدی صلی اللہ علیہ وسلم کے نفاذ کے لیے منہاج محمدی صلی اللہ علیہ وسلم کا تعین بھی کتاب وسنت ہی سے ہوگا یعنی منہاج محمدی صلی اللہ علیہ وسلم کے بھی بنیادی مصادر میں کتاب اللہ اور سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔ اس کے ثانوی مصادر میں سیرت، مصلحت، سدالذرائع، عرف اور مقاصد شریعت وغیرہ ہیں۔

کتاب اللہ اور سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں نفاذ شریعت کے نبوی منہاج کو تبلیغ، دعوت، امر بالمعروف ونہی عن المنکر، جہاد اورقتال وغیرہ جیسی اصطلاحات کے ذریعے تفصیل سے بیان کیا گیا ہے۔ اسی طرح اجتہاد کے دو پہلو ہیں۔ اجتہاد کا ایک پہلو شریعت یعنی کتاب وسنت سے متعلق ہے جس کی ایک صورت اصولیین کی اصطلاح میں 'تنقیح المناط' ہے اور اجتہاد کا دوسرا پہلو تطبیقی ہے جو شرعی احکام کی تطبیق، نفاذ اور اجرا سے متعلق ہے جس کی ایک صورت اصولیین کی اصطلاح میں 'تحقیق المناط' ہے۔ پس جس طرح کسی مسئلے کے شرعی حکم کی قرآن و سنت کی وسعتوں اور گہرائیوں میں تلاش اجتہاد ہے اسی طرح ان شرعی احکام کاامر واقعہ پر اجرا اور نفاذ بھی اجتہاد ہی کی ایک صورت ہے اور اجتہاد کی اصل صورت اس کا یہی تطبیقی اور اجرائی پہلو ہوتا ہے۔ پس اجتہاد تطبیقی بھی نفاذ شریعت ہی کی ایک بحث ہے۔
 

ابوالحسن علوی

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
2,521
ری ایکشن اسکور
11,555
پوائنٹ
641
نفاذ شریعت کا منہاج محمدی صلی اللہ علیہ وسلم
اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کا اگر ہم جائزہ لیں تو آپ کے لائے ہونے انقلاب کے منہج و طریقہ کار کو ہم دو لفظوں یعنی' دعوت وجہاد' میں بیان کر سکتے ہیں۔ آپ کی مکی زندگی میں دعوت کا غلبہ ہے جبکہ مدنی زندگی میں جہاد غالب ہے۔ پس انقلاب محمدی صلی اللہ علیہ وسلم کا منہج دو لفظوں میں 'دعوت وجہاد' ہے۔

تبدیلی یا انقلاب کی دو سطحیں ہیں ۔ ایک انفرادی اور دوسری اجتماعی۔ انفرادی تبدیلی یا افراد کی اصلاح یاشخصی تزکیہ نفس یا فرد کاتعلق مع اللہ یا انفرادی زندگی میں انقلاب لانے کے لیے دعوت سے زیادہ موثر کوئی منہج نہیں ہے۔ جس شخص نے بھی سیرت کا مطالعہ کیا ہے وہ اس بات کو بخوبی جانتا ہے کہ سابقون الأولون اور کبار صحابہ رضی اللہ عنہم کی اعلی تر شخصیات دعوت وتبلیغ اور صبر و تحمل ہی کے ماحول میں ہی پروان چڑھی تھیں۔

یہی وجہ ہے کہ ذاتی زندگی میں نفاذ شریعت کے حوالے سے تبلیغی جماعتوں نے جو رجال کار پیدا کیے ہیں، اتنی بڑی تعداد میں مزکی و مربی شخصیات نہ تو تصوف کے حلقے پیش کر سکے ہیں اور نہ ہی انقلابی تحریکیں۔

اس کے برعکس اجتماعی سطح پرتبدیلی یا انقلاب یا نظام عدل کے قیام یا نفاذ شریعت کے لیے جہاد سے بہتر کوئی منہج موجود نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور خلافت راشدہ میں نظام عدل کے قیام کے لیے اسی منہج کو اختیار کیا گیا۔
 

ابوالحسن علوی

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
2,521
ری ایکشن اسکور
11,555
پوائنٹ
641
فرد پر نفاذ شریعت کا منہج دعوت ہے
دعوت کا پہلا مرحلہ تبلیغ ( یعنی پیغام پہنچانا ) ہے اور یہ کم از کم درجہ ہے جو ہر مسلمان کے لیے فرض کی حیثیت رکھتا ہے یعنی ہر مسلمان پر یہ فرض ہے کہ اس کے پاس کتاب و سنت کا جو علم بھی محفوظ ہے، وہ اسے دوسروں تک پہنچائے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
يَا أَيُّهَا الرَّسُولُ بَلِّغْ مَا أُنزِلَ إِلَيْكَ مِن رَّبِّكَ ۖ وَإِن لَّمْ تَفْعَلْ فَمَا بَلَّغْتَ رِسَالَتَهُ ۚ(المائدة : ٦٧)
اے رسول صلی اللہ علیہ وسلم! آپ پہنچا دیں جو آپ کی طرف آپ کے رب کی طرف سے نازل کیا گیاہے۔ اور اگر آپ نے ایسا نہ کیا تو آپ نے اپنی رسالت کا حق ادا نہ کیا۔''


اس آیت مبارکہ میں ایک اہم بات یہ ہے کہ تبلیغ کا حکم تو ہے لیکن کس شیء کی تبلیغ مطلوب ہے، یہ بھی واضح کر دیاہے اور وہ مَا أُنزِلَ إِلَيْكَ یعنی قرآن و سنت کی تبلیغ کا حکم ہے نہ کہ قصے کہانیوں کی، جیسا کہ دیہاتوں میں جمعہ کے خطبات میں واعظین کا عمومی طرز عمل دیکھنے میں آیا ہے کہ قصے کہانیاں، بزرگوں اور اولیاء اللہ کے واقعات تو خوب ہوتے ہیں لیکن کتاب وسنت کا نام بھی موجود نہیں ہوتا اور اگر بھولے سے سنت میں سے کچھ بیان کیا بھی جاتا ہے تو وہ بھی فضائل اور مناقب سے متعلقہ موضوع اور منگھڑت روایات ہوتی ہیں کہ جن کا بیان کرنا ہی شرعاً حرام ہے۔

رسالت کی تبلیغ کی یہ ذمہ داری جو آپ کے کاندھوں پر تھی، حجة الوداع کے موقع پر آپ نے وہ اپنی امت کو سونپ دی۔ ایک روایت کے الفاظ ہیں :
'' ألا ھل بلغت قالوا نعم قال أللھم اشھد فلیبلغ الشاھد الغائب فرب مبلغ أوعی من سامع.'' (صحیح بخاری، کتاب الحج، باب الخطبة أیام منی)
'' ( آپ نے خطبہ حجة الوداع کے موقع تقریباً ایک لاکھ ٢٤ ہزار صحابہ سے سوال کیا ) کیا میں نے اپنا پیغام پہنچا دیا ہے ؟ انہوں نے جواب دیا : جی ہاں! آپ نے کہا : اے اللہ ! گواہ رہنا۔ پس جو تم میں سے حاضر ہے وہ اس کو یہ پیغام پہنچا دے جو یہاں موجود نہیں ہے۔ پس بہت سے ایسے لوگ کہ جنہیں یہ پیغام پہنچایا جائے گا وہ ( اس پیغام کو یہاں پر ) سننے والوں سے زیادہ محفوظ رکھنے والے ہوں گے۔''
پس تبلیغ ہر مسلمان کا فرض ہے اور اس کا یہ فرض اس وقت ادا ہو گا جب وہ کتاب وسنت کی تبلیغ کرے گا۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی جس تبلیغ پر گواہی لی یا جس کے کرنے کا حکم دیا وہ کتاب وسنت ہی کی تبلیغ ہے۔

تبلیغ کے بعد دعوت کا مرحلہ ہے اور دعوت کی اصطلاح کے ذریعے دعوت کے منہج کو بہت تفصیل سے قرآن میں نکھارا گیا ہے۔ ہم یہاںاس ذیل میں صرف دو تین نکات کی وضاحت کر دیتے ہیں۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
وَمَنْ أَحْسَنُ قَوْلًا مِّمَّن دَعَا إِلَى اللَّـهِ وَعَمِلَ صَالِحًا وَقَالَ إِنَّنِي مِنَ الْمُسْلِمِينَ ﴿٣٣﴾ ( فصلت )
'' اور اس سے بڑھ کر بہتر ین بات کس کی ہو سکتی ہے جو اللہ کی طرف پکارے اور نیک عمل کرے اور کہے : میں تو مسلمانوں میں سے ہوں۔''


اس آیت مبارکہ میں ایک تو یہ واضح کیا گیا ہے کہ اللہ کی مطلوب دعوت کون سی ہے؟ یعنی دعوت کس کی طرف دی جائے گی؟ قرآن کے بیان کے مطابق مطلوب دعوت اللہ کی بندگی کی دعوت ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ داعی کو خود بھی عامل ہونا چاہیے۔ تیسری بات یہ ہے کہ داعی کا تشخص ایک مسلمان ہونے کی حیثیت سے سامنے آئے نہ کہ کسی خاص مسلک کے نمائندے یا کسی جماعت کے رکن کی حیثیت سے۔

مسالک، جماعتوں اور تحریکوں کا اگرچہ جواز موجود ہے لیکن اگر کسی داعی الی اللہ کا تشخص مسلمان ہونے کی بجائے اس کا مسلک، جماعت یا تحریک بن جائے تو یہ قرآن کا بالکل بھی مطلوب نہیں ہے۔ اگرچہ تعارف کے لیے تو مسلمان سے علیحدہ تشخص کی اجازت موجود ہے جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے :
وَجَعَلْنَاكُمْ شُعُوبًا وَقَبَائِلَ لِتَعَارَفُوا ۚ(الحجرات : ١٣)
'' اور ہم نے تمہیں قوموں اور قبائل میں تقسیم کیا ہے تا کہ تم ایک دوسرے کی پہچان حاصل کرو۔''
اکثر اوقات فقہی مسالک، مذہبی جماعتوں اور اسلامی تحریکوں میں اپنے مسلک، جماعت اور تحریک کے حوالے سے تعصب اور غلو پیدا ہو جاتا ہے اور ان کی دعوت کا اصل مقصود اپنی تعداد کو بڑھانا بن جاتا ہے نہ کہ لوگوں کو اللہ کی بندگی اور اطاعت میں داخل کرنا۔ پس کسی جماعت کا آغاز تو دعوت الی اللہ کی بنیاد پر ہوتا ہے لیکن کچھ عرصے بعد 'اللہ' پیچھے رہ جاتا ہے اور جماعت یا تحریک یامسلک آگے آ جاتا ہے۔ اس آیت مبارکہ میں دعوت کے مقصدکو واضح کیا گیا ہے اور وہ لوگوں کوخالص اللہ کی طرف بلانا ہے۔

دعوت و تبلیغ میں حکمت، مصلحت ، سدر الذرائع اور عرف وغیرہ کا لحاظ رکھنے کا بھی شریعت نے حکم دیا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
ادْعُ إِلَىٰ سَبِيلِ رَبِّكَ بِالْحِكْمَةِ وَالْمَوْعِظَةِ الْحَسَنَةِ ۖ وَجَادِلْهُم بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ ۚ(النحل : ١٢٥)
'' تم اپنے رب کے رستے کی طرف دعوت دو، حکمت کے ساتھ اور اچھی وعظ ونصیحت کے ساتھ اور احسن طریقے سے مجادلہ کے ساتھ۔''

اس آیت مبارکہ میں دعوت میں حکمت ومصلحت کا لحاظ رکھنے کا حکم دیا گیا ہے۔ اسی طرح مجادلے میں بھی احسن اور بہترین طریقہ کار کو اختیارکرنے کا حکم دیا گیا ہے۔

قرآن مجید میں
وَإِذَا خَاطَبَهُمُ الْجَاهِلُونَ قَالُوا سَلَامًا ﴿٦٣﴾ (الفرقان : ٦٣) اور
وَلَا تَسُبُّوا الَّذِينَ يَدْعُونَ مِن دُونِ اللَّـهِ فَيَسُبُّوا اللَّـهَ عَدْوًا بِغَيْرِ عِلْمٍ ۗ (الأنعام : ١٠٨) اور
قُلْ هَـٰذِهِ سَبِيلِي أَدْعُو إِلَى اللَّـهِ ۚ عَلَىٰ بَصِيرَةٍ أَنَا وَمَنِ اتَّبَعَنِي ۖ ﴿١٠٨﴾ (یوسف : ١٠٨) اور
فَاصْدَعْ بِمَا تُؤْمَرُ وَأَعْرِضْ عَنِ الْمُشْرِكِينَ ﴿٩٤﴾ (الحجر : ٩٤) اور
وَأَنذِرْ عَشِيرَتَكَ الْأَقْرَبِينَ ﴿٢١٤﴾ ( الشعراء ) اور
فَإِنَّمَا يَسَّرْنَاهُ بِلِسَانِكَ لِتُبَشِّرَ بِهِ الْمُتَّقِينَ وَتُنذِرَ بِهِ قَوْمًا لُّدًّا ﴿٩٧﴾ ( مریم ) اور
قَالَ رَبِّ إِنِّي دَعَوْتُ قَوْمِي لَيْلًا وَنَهَارًا ﴿٥﴾ ( نوح ) اور
ثُمَّ إِنِّي دَعَوْتُهُمْ جِهَارًا ﴿٨﴾ ( نوح ) اور
ثُمَّ إِنِّي أَعْلَنتُ لَهُمْ وَأَسْرَرْتُ لَهُمْ إِسْرَارًا ﴿٩﴾ ( نوح ) وغیرہ
میں دعوت و تبلیغ کے منہج کی تفصیل بیان کی گئی ہے۔ ان آیات میں غور وفکر کرنے والے کے لیے دعوت و تبلیغ کے تفصیلی منہج کے حوالے سے علم و حکمت کے بہت سے خزانے پنہاں ہیں۔

پس انفرادی، شخصی اور فرد کی زندگی میں نفاذ شریعت کے لیے بہترین اسلوب اور منہج، اخلاص وعمل کی بنیادپر ،کتاب وسنت کی دعوت و تبلیغ ہے۔ بعض لوگوں کا یہ جو خیال ہے کہ دعوت و تبلیغ کا کام کرنے والی جماعتیں نفاذ شریعت یا اعلائے کلمة اللہ کے لیے کام نہیں کر رہی ہیں تو ہمیں اس خیال سے بالکل بھی اتفاق نہیں ہے۔ دعوت وتبلیغ کا کام کرنے والی جماعتیں افراد اور خاندان میں انقلاب برپا کررہی ہیں جو معاشرے کی اکائی ہے۔ اجتماعیت کی تبدیلی کی بنیاد بھی اس کی اکائی ہی ہوتی ہے۔ افراد کی اصلاح ہو گی یا افراد میں انقلاب برپا ہو گا تو معاشروں اور اجتماعیت میں بھی تبدیلی پیدا ہو گی۔ پس افراد میں نفاذ شریعت کے لحاظ سے دعوت وتبلیغ کا کام کرنے والی جماعتوں کا کام مستحسن ہے اگرچہ ان جماعتوں کے نصاب تعلیم، دعوت و تبلیغ کے منہج و طریق کار میں بہتری اور تبدیلی کی گنجائش اور ضرورت بہر صورت موجود ہے اور اس کی طرف ان جماعتوں کے اکابر کو توجہ دینی اور دلانی چاہیے۔
 

ابوالحسن علوی

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
2,521
ری ایکشن اسکور
11,555
پوائنٹ
641
اجتماعیت پر نفاذ شریعت کا منہج جہاد ہے
جہاد کا لفظ قرآن میں وسیع معنوں میں استعمال ہوا ہے اور قرآنی اصطلاح میں اللہ کے دین کی سربلندی کے جذبے، نیت اور ارادے سے کی جانے والی ہرتبلیغی، دعوتی، تحریری، زبانی،قانونی، آئینی، معاشی، سیاسی، علمی، اصلاحی، تحریکی اورجہادی کوشش 'جہاد' ہے اور اس کا آخری درجہ اللہ کے لیے اپنی جان قربان کر دینا یعنی قتال فی سبیل اللہ ہے ۔قرآن مجید نے 'جہاد' کی اصطلاح اسی وسیع معنی میں استعمال کی ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
فَلَا تُطِعِ الْكَافِرِينَ وَجَاهِدْهُم بِهِ جِهَادًا كَبِيرًا ﴿٥٢﴾ ( الفرقان )
''پس آپ کافروں کی بات نہ مانیں اور ان کے ساتھ اس قرآن کے ذریعے بڑا جہاد کریں''۔

مفسرین کا اس بات پر اتفاق ہے کہ یہ سورت مکی ہے ۔اس آیت میں 'ہ' ضمیر قرآن کی طرف لوٹ رہی ہے۔ جمہور مفسرین حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ' جلیل القدر تابعی مقاتل بن حیان' امام ابن جریر طبری' امام قرطبی' امام بغوی' امام بیضاوی' امام ابن تیمیہ' امام ابن کثیر' علامہ ابن جوزی' امام عبد الرحمن الثعالبی' امام ابو جعفر النحاس' ابو لیث سمرقندی' امام نسفی' علامہ آلوسی' ابو الحسن الواحدی' شیخ عبد الرحمن بن ناصر السعدی' سید علامہ طنطاوی' شیخ ابن عجیبہ' علامہ زمخشری' امام ابو سعود'علامہ خازن' علامہ ابن عاشورا مالکی' علامہ شنقیطی' امام جلال الدین محلی' سید قطب شہید' علامہ ابو بکر الجزائری رضی اللہ عنہم اور سعودی علماء کی ایک جماعت نے( التفسیر المیسرمیں ) اس آیت مبارکہ میں 'ہ' ضمیر سے مراد قرآن لیا ہے۔ بعض مفسرین مثلاً امام رازی' ابن عادل حنبلی' امام بقاعی رحمہم اللہ وغیرہ نے اس ضمیر سے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی تبلیغ رسالت میں جدوجہد و انتہائی کوشش مراد لی ہے۔ جبکہ بعض مفسرین نے اس ضمیر سے مراد اسلام لیا ہے۔ ان مفسرین کی آراء نقل کرنے کا مقصد یہی ہے کہ ائمہ سلف کے نزدیک اس آیت میں جہاد سے مراد قتال نہیں ہے بلکہ یہ لفظ یہاں اپنی صلاحیتیں کھپانے اور کوشش کرنے کے معنی میں استعمال ہوا ہے۔

احادیث میں بھی جہاد کی اصطلاح انہی وسیع معنوں میں استعمال ہوئی ہے۔ ایک روایت کے الفا ظ ہیں:
'' عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ مَسْعُوْدٍ ص اَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ ۖ قَالَ: ((مَا مِنْ نَبِیٍّ بَعَثَہُ اللّٰہُ فِیْ اُمَّةٍ قَبْلِیْ اِلاَّ کَانَ لَہ مِنْ اُمَّتِہ حَوَارِیُّوْنَ وَاَصْحَاب یَاْخُذُوْنَ بِسُنَّتِہ وَیَقْتَدُوْنَ بِاَمْرِہ ' ثُمَّ اِنَّھَا تَخْلُفُ مِنْ بَعْدِھِمْ خُلُوْف یَقُوْلُوْنَ مَا لَا یَفْعَلُوْنَ وَیَفْعَلُوْنَ مَا لَا یُؤْمَرُوْنَ' فَمَنْ جَاھَدَھُمْ بِیَدِہ فَھُوَ مُؤْمِن وَمَنْ جَاھَدَھُمْ بِلِسَانِہ فَھُوَ مُؤْمِن وَمَنْ جَاھَدَھُمْ بِقَلْبِہ فَھُوَمُؤْمِن ' وَلَیْسَ وَرَآئَ ذٰلِکَ مِنَ الْاِیْمَانِ حَبَّةُ خَرْدَلٍ.'' (صحیح مسلم' کتاب الایمان' باب بیان کون النھی عن المنکر من الایمان )
حضرت عبد اللہ بن مسعودرضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلمنے فرمایا : '' مجھ سے پہلے کسی قوم میں اللہ تعالیٰ نے کوئی بھی نبی ایسا نہیں بھیجا کہ جس کے حواری اور ایسے ساتھی نہ ہوں جو اس کے طریقے کے مطابق چلتے تھے اور اس کے حکم کی پیروی کرتے تھے۔ پھر ان کے بعد کچھ ناخلف قسم کے لوگ ان کے جانشین بنتے تھے جو ایسی باتیں کہتے تھے کہ جن پر خود عمل نہیں کرتے تھے اور اس پر عمل کرتے تھے کہ جس پر عمل کرنے کا ان کو حکم نہیں دیا گیا تھا۔ پس جس نے ان ( حکمرانوں ) کے ساتھ اپنے ہاتھ سے جہاد کیا وہ مؤمن ہے اور جس نے ان کے ساتھ اپنی زبان سے جہاد کیا وہ مؤمن ہے اور جس نے ان کے ساتھ اپنے دل سے جہاد کیا وہ مؤمن ہے ۔اور اس کے بعد تو رائی کے دانے کے برابر بھی ایمان نہیں ہے''۔

محل استشہاد یہ ہے کہ اس روایت میں زبان اور دل کے جہاد کو بھی جہاد قرار دیا گیا ہے۔ ایک اور حدیث کے الفاظ ہیں:
'' جَاھِدُوا الْمُشْرِکِیْنَ بِأَمْوَالِکُمْ وَأَنْفُسِکُمْ وَاَلْسِنَتِکُمْ.'' (سنن أبی داؤد' کتاب الجھاد' باب کراہیة ترک الغزو)
''مشرکین کے ساتھ اپنی جانوں' اپنے مالوں اور اپنی زبانوں سے جہاد کرو''۔
پس جہاد کا معنی صرف قتال نہیں ہے جیسا کہ یہ غلط فہمی بہت عام ہو چکی ہے۔ البتہ قتال 'جہاد' کی ایک بلند ترین صورت ضرور ہے۔ جہاد سے مراد اعلائے کلمة اللہ کے لیے کی جانے والی ہر قسم کی جدوجہد اور کوشش ہے اور 'جہاد' کے اس معنی پر قرآن و سنت کی بیسیوں نصوص اور ائمہ سلف کے سینکڑوں اقوال شاہد ہیں جنہیں ہم طوالت کے خوف سے یہاں بیان نہیں کرنا چاہتے۔

اسی طرح آپ کی مدنی زندگی میں صرف قتال نہیں ہے بلکہ میثاق مدینہ میں ازلی دشمنوں یعنی یہود کے ساتھ مدینہ کے اجتماعی دفاع کا معاہدہ بھی ہے، صلح حدیبیہ کی طرح بدترین دشمنوں یعنی مشرکین مکہ سے صلح بھی ہے، خندق کے ذریعے صرف دفاع بھی ہے، بادشاہوں کے نام خطوط کے ذریعیبین الاقوامی سطح پر دعوت کا مرحلہ بھی ہے وغیرہ۔

پس حدیث مذکورہ بالا کے مطابق ناخلف ظالم و فاسق مسلمان حکمرانوں کے خلاف جہاد ہر مسلمان پر فرض ہے اور اس جہاد کا کم از کم درجہ ان حکمرانوں کے خلاف ِ اسلام اعمال وافعال سے دل سے نفرت کرنا ہے اور اعلی ترین درجہ انہیں مسند اقتدار سے ہٹانے کے لیے عملی کوشش اور جدوجہد کرنا ہے۔
 

ابوالحسن علوی

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
2,521
ری ایکشن اسکور
11,555
پوائنٹ
641
'نفاذ شریعت' اور 'نظام عدل کا قیام' کی اصطلاحات پر ایک گزارش
ہم یہاں اس بات کی وضاحت بھی مناسب سمجھتے ہیں کہ نفاذ شریعت کی نسبت ہم 'نظام عدل' کے قیام کی اصطلاح کو جامع سمجھتے ہیں جیسا کہ قر آن مجید نے سورة حدید کی آیت ٢٥ میں یہ اصطلاح استعمال کی ہے کیونکہ نفاذ شریعت کا عمومی مفہوم یہی سمجھا جاتا ہے کہ چند حدود کو نافذ کر دیا جائے بس یہی نفاذ شریعت ہے حالانکہ اسلام پسندوں کی نفاذ شریعت سے مراد صرف حدود کا نفاذ نہیں ہوتا بلکہ معاشرتی، معاشی ، تعلیمی، عدالتی، سیاسی، ریاستی، صحافتی،قانونی اور آئینی نظام حتی کہ ہر شعبہ زندگی کی اسلامی اصول وضوابط کی روشنی میں تبدیلی ہوتی ہے اور ان سب کے لیے ایک جامع لفظ قیام عدل ہے یعنی ہر شعبہ زندگی سے ظلم کا خاتمہ اسلامی نظام کے قیام کا مقصود ہے اور یہی علت اور سبب جہاد کی اعلی ترین صورت قتال کا بھی بیان کیا گیا ہے۔(الحج : ٣٩)

اسلام اپنا غلبہ چاہتا ہے، اس سے مراد یہ ہے کہ اسلام ظلم کا خاتمہ چاہتا ہے کیونکہ اسلام ہی دین عدل ہے اور کسی شخص کے مسلمان ہونے کا یہ بنیادی تقاضا ہے کہ وہ صرف دین اسلام ہی کو دین عدل مانے۔ پس جب ایک مسلمان اسلام کو دین عدل نہیں مانتا تو وہ نفاق میں مبتلا ہے اور اگر وہ اسلام کو دین عدل مانتا ہے تو عدل کے قیام اور ظلم کے خاتمے کے لیے جدوجہد شرعی حکم کے ساتھ ساتھ اس کا ایک اخلاقی اور منطقی فرض بھی بنتا ہے۔

یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ ظلم کے خاتمے کے لیے مسلمان جماعت سے قتال اور گردن اڑانے جیسے عقلاً قبیح عمل کو بھی جائز قرار دیتے ہیں جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
وَإِن طَائِفَتَانِ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ اقْتَتَلُوا فَأَصْلِحُوا بَيْنَهُمَا ۖ فَإِن بَغَتْ إِحْدَاهُمَا عَلَى الْأُخْرَىٰ فَقَاتِلُوا الَّتِي تَبْغِي حَتَّىٰ تَفِيءَ إِلَىٰ أَمْرِ اللَّـهِ ۚ ﴿٩﴾ ( الحجرات )
'' اور اگر مسلمانوں کے دو گروہ آپس میں لڑ پڑیں تو ان کے مابین صلح کرواؤ۔ پس ( اس صلح کے بعد ) اگر کوئی ایک جماعت دوسری جماعت پر ظلم کرے تو پس تم قتال کرو اس جماعت سے جو ظلم و زیادتی کرتی ہے یہاں تک کہ وہ اللہ کے حکم کی طرف لوٹ آئے۔''
 

ابوالحسن علوی

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
2,521
ری ایکشن اسکور
11,555
پوائنٹ
641
پاکستان میں نفاذ شریعت کے تین مناہج
نظام عدل کے قیام اور ظلم کے خاتمہ کے لیے اس وقت پاکستان میں تین بنیادی مناہج کے ساتھ کام ہو رہا ہے۔ ذیل میں ہم ان تینوں مناہج کے ذریعے نفاذ شریعت کی جدوجہد کے بارے اپنا تجزیہ بالتفصیل پیش کر رہے ہیں۔
١۔ انتخابی سیاست
٢۔ خروج و قتال
٣۔ تحریک و احتجاج
 

ابوالحسن علوی

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
2,521
ری ایکشن اسکور
11,555
پوائنٹ
641
انتخابی سیاست
ایک منہج تو جماعت اسلامی کا ہے جو انتخابی سیاست کے ذریعے نظام کی تبدیلی چاہتی ہے۔ ایک غلط نظام کی اصلاح کے لیے اس نظام کا حصہ بن کر اس کی اصلاح کرنا جائز ہے یا نہیں ؟ اس بارے اہل علم کے دو قول ہیں۔ ہمیں اس مسئلے میں اہل علم کی اس رائے سے اتفاق ہے کہ ایک غلط نظام کی اصلاح کے لیے اس نظام میں شامل ہوکر اس کی اصلاح کی جا سکتی ہے۔ اس مسئلے کے جواز اور اس کے دلائل کی تفصیل معروف اہل حدیث عالم دین مولانا ثناء اللہ مدنی حفظہ اللہ تعالیٰ کے فتاوی 'فتاوی ثنائیہ' میں موجود ہے۔

یہ واضح رہے کہ بعض مذہبی جماعتیں ایسی ہیں جو سیاست میں حصہ تو لیتی ہیں لیکن ان کا منشورنظام عدل کا قیام نہیں ہے بلکہ کچھ اور سیاسی اور مذہبی مقاصد ان کے پیش نظر ہوتے ہیں جیسا کہ مولانا فضل الرحمن وغیرہ کی سیاست کی ہم یہاں حمایت نہیں کر رہے ہیں۔ ہمارے خیال میں اس باطل سیاسی اور انتخابی نظام میں شمولیت کی اجازت صرف اسی صور ت جائز ہو سکتی ہے جبکہ کوئی بڑے شرعی مقاصد مثلاًنظام عدل کا قیام کسی جماعت کی سیاست کا بنیادی منشور ہو۔

یہ بات بھی ہر کسی کے لیے عیاں ہیں کہ انتخابی سیاست میں کس قدر گندگی، غنڈہ گردی، کرپشن، وڈیرہ شاہی اوراستحصال موجود ہے جس کی وجہ سے ان تمام سیاسی ہتھکنڈوں کو استعمال کیے بغیر اس رستے سے نظام کی اصلاح بظاہر ناممکن نظر آتی ہے لیکن اس میں بھی کوئی شک نہیں ہے کہ نظام کی مکمل اصلاح نہ سہی لیکن اسمبلیوں میں مذہبی عناصر اور اسلام پسند سیاسی جماعتوں کی موجودگی کے ضمنی اور جزوی فوائد کا انکار کسی طور بھی ممکن نہیں ہے۔

لہٰذا انتخابی سیاست کے ذریعے اسمبلیوں میں اپنی نمائندگی سے کسی قدر قانونی، آئینی اور دستوری اصلاح کا کام تو ہو سکتا ہے، جو اپنی جگہ بہت اہمیت کا حامل ہے، لیکن مکمل نظام کی تبدیلی ایک سراب سے زیادہ کچھ محسوس نہیں ہوتی۔ ہم یہ بات پہلے واضح کر چکے ہیں کہ نفاذ شریعت اور نظام کی اصلاح کے منہج' دعوت وجہاد' میں مصلحت، سد الذرائع اور عرف وغیرہ کا لحاظ رکھا جائے گا اور انہی قواعد عامہ کی روشنی میں انتخابی سیاست کے ذریعے نفاذشریعت کے قیام کا جواز نکلتا ہے۔
 
سٹیٹس
مزید جوابات پوسٹ نہیں کیے جا سکتے ہیں۔
Top