فرد پر نفاذ شریعت کا منہج دعوت ہے
دعوت کا پہلا مرحلہ تبلیغ ( یعنی پیغام پہنچانا ) ہے اور یہ کم از کم درجہ ہے جو ہر مسلمان کے لیے فرض کی حیثیت رکھتا ہے یعنی ہر مسلمان پر یہ فرض ہے کہ اس کے پاس کتاب و سنت کا جو علم بھی محفوظ ہے، وہ اسے دوسروں تک پہنچائے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
يَا أَيُّهَا الرَّسُولُ بَلِّغْ مَا أُنزِلَ إِلَيْكَ مِن رَّبِّكَ ۖ وَإِن لَّمْ تَفْعَلْ فَمَا بَلَّغْتَ رِسَالَتَهُ ۚ(المائدة : ٦٧)
اے رسول صلی اللہ علیہ وسلم! آپ پہنچا دیں جو آپ کی طرف آپ کے رب کی طرف سے نازل کیا گیاہے۔ اور اگر آپ نے ایسا نہ کیا تو آپ نے اپنی رسالت کا حق ادا نہ کیا۔''
اس آیت مبارکہ میں ایک اہم بات یہ ہے کہ تبلیغ کا حکم تو ہے لیکن کس شیء کی تبلیغ مطلوب ہے، یہ بھی واضح کر دیاہے اور وہ مَا أُنزِلَ إِلَيْكَ یعنی قرآن و سنت کی تبلیغ کا حکم ہے نہ کہ قصے کہانیوں کی، جیسا کہ دیہاتوں میں جمعہ کے خطبات میں واعظین کا عمومی طرز عمل دیکھنے میں آیا ہے کہ قصے کہانیاں، بزرگوں اور اولیاء اللہ کے واقعات تو خوب ہوتے ہیں لیکن کتاب وسنت کا نام بھی موجود نہیں ہوتا اور اگر بھولے سے سنت میں سے کچھ بیان کیا بھی جاتا ہے تو وہ بھی فضائل اور مناقب سے متعلقہ موضوع اور منگھڑت روایات ہوتی ہیں کہ جن کا بیان کرنا ہی شرعاً حرام ہے۔
رسالت کی تبلیغ کی یہ ذمہ داری جو آپ کے کاندھوں پر تھی، حجة الوداع کے موقع پر آپ نے وہ اپنی امت کو سونپ دی۔ ایک روایت کے الفاظ ہیں :
'' ألا ھل بلغت قالوا نعم قال أللھم اشھد فلیبلغ الشاھد الغائب فرب مبلغ أوعی من سامع.'' (صحیح بخاری، کتاب الحج، باب الخطبة أیام منی)
'' ( آپ نے خطبہ حجة الوداع کے موقع تقریباً ایک لاکھ ٢٤ ہزار صحابہ سے سوال کیا ) کیا میں نے اپنا پیغام پہنچا دیا ہے ؟ انہوں نے جواب دیا : جی ہاں! آپ نے کہا : اے اللہ ! گواہ رہنا۔ پس جو تم میں سے حاضر ہے وہ اس کو یہ پیغام پہنچا دے جو یہاں موجود نہیں ہے۔ پس بہت سے ایسے لوگ کہ جنہیں یہ پیغام پہنچایا جائے گا وہ ( اس پیغام کو یہاں پر ) سننے والوں سے زیادہ محفوظ رکھنے والے ہوں گے۔''
پس تبلیغ ہر مسلمان کا فرض ہے اور اس کا یہ فرض اس وقت ادا ہو گا جب وہ کتاب وسنت کی تبلیغ کرے گا۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی جس تبلیغ پر گواہی لی یا جس کے کرنے کا حکم دیا وہ کتاب وسنت ہی کی تبلیغ ہے۔
تبلیغ کے بعد دعوت کا مرحلہ ہے اور دعوت کی اصطلاح کے ذریعے دعوت کے منہج کو بہت تفصیل سے قرآن میں نکھارا گیا ہے۔ ہم یہاںاس ذیل میں صرف دو تین نکات کی وضاحت کر دیتے ہیں۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
وَمَنْ أَحْسَنُ قَوْلًا مِّمَّن دَعَا إِلَى اللَّـهِ وَعَمِلَ صَالِحًا وَقَالَ إِنَّنِي مِنَ الْمُسْلِمِينَ ﴿٣٣﴾ ( فصلت )
'' اور اس سے بڑھ کر بہتر ین بات کس کی ہو سکتی ہے جو اللہ کی طرف پکارے اور نیک عمل کرے اور کہے : میں تو مسلمانوں میں سے ہوں۔''
اس آیت مبارکہ میں ایک تو یہ واضح کیا گیا ہے کہ اللہ کی مطلوب دعوت کون سی ہے؟ یعنی دعوت کس کی طرف دی جائے گی؟ قرآن کے بیان کے مطابق مطلوب دعوت اللہ کی بندگی کی دعوت ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ داعی کو خود بھی عامل ہونا چاہیے۔ تیسری بات یہ ہے کہ داعی کا تشخص ایک مسلمان ہونے کی حیثیت سے سامنے آئے نہ کہ کسی خاص مسلک کے نمائندے یا کسی جماعت کے رکن کی حیثیت سے۔
مسالک، جماعتوں اور تحریکوں کا اگرچہ جواز موجود ہے لیکن اگر کسی داعی الی اللہ کا تشخص مسلمان ہونے کی بجائے اس کا مسلک، جماعت یا تحریک بن جائے تو یہ قرآن کا بالکل بھی مطلوب نہیں ہے۔ اگرچہ تعارف کے لیے تو مسلمان سے علیحدہ تشخص کی اجازت موجود ہے جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے :
وَجَعَلْنَاكُمْ شُعُوبًا وَقَبَائِلَ لِتَعَارَفُوا ۚ(الحجرات : ١٣)
'' اور ہم نے تمہیں قوموں اور قبائل میں تقسیم کیا ہے تا کہ تم ایک دوسرے کی پہچان حاصل کرو۔''
اکثر اوقات فقہی مسالک، مذہبی جماعتوں اور اسلامی تحریکوں میں اپنے مسلک، جماعت اور تحریک کے حوالے سے تعصب اور غلو پیدا ہو جاتا ہے اور ان کی دعوت کا اصل مقصود اپنی تعداد کو بڑھانا بن جاتا ہے نہ کہ لوگوں کو اللہ کی بندگی اور اطاعت میں داخل کرنا۔
پس کسی جماعت کا آغاز تو دعوت الی اللہ کی بنیاد پر ہوتا ہے لیکن کچھ عرصے بعد 'اللہ' پیچھے رہ جاتا ہے اور جماعت یا تحریک یامسلک آگے آ جاتا ہے۔ اس آیت مبارکہ میں دعوت کے مقصدکو واضح کیا گیا ہے اور وہ لوگوں کوخالص اللہ کی طرف بلانا ہے۔
دعوت و تبلیغ میں حکمت، مصلحت ، سدر الذرائع اور عرف وغیرہ کا لحاظ رکھنے کا بھی شریعت نے حکم دیا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
ادْعُ إِلَىٰ سَبِيلِ رَبِّكَ بِالْحِكْمَةِ وَالْمَوْعِظَةِ الْحَسَنَةِ ۖ وَجَادِلْهُم بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ ۚ(النحل : ١٢٥)
'' تم اپنے رب کے رستے کی طرف دعوت دو، حکمت کے ساتھ اور اچھی وعظ ونصیحت کے ساتھ اور احسن طریقے سے مجادلہ کے ساتھ۔''
اس آیت مبارکہ میں دعوت میں حکمت ومصلحت کا لحاظ رکھنے کا حکم دیا گیا ہے۔ اسی طرح مجادلے میں بھی احسن اور بہترین طریقہ کار کو اختیارکرنے کا حکم دیا گیا ہے۔
قرآن مجید میں
وَإِذَا خَاطَبَهُمُ الْجَاهِلُونَ قَالُوا سَلَامًا ﴿٦٣﴾ (الفرقان : ٦٣) اور
وَلَا تَسُبُّوا الَّذِينَ يَدْعُونَ مِن دُونِ اللَّـهِ فَيَسُبُّوا اللَّـهَ عَدْوًا بِغَيْرِ عِلْمٍ ۗ (الأنعام : ١٠٨) اور
قُلْ هَـٰذِهِ سَبِيلِي أَدْعُو إِلَى اللَّـهِ ۚ عَلَىٰ بَصِيرَةٍ أَنَا وَمَنِ اتَّبَعَنِي ۖ ﴿١٠٨﴾ (یوسف : ١٠٨) اور
فَاصْدَعْ بِمَا تُؤْمَرُ وَأَعْرِضْ عَنِ الْمُشْرِكِينَ ﴿٩٤﴾ (الحجر : ٩٤) اور
وَأَنذِرْ عَشِيرَتَكَ الْأَقْرَبِينَ ﴿٢١٤﴾ ( الشعراء ) اور
فَإِنَّمَا يَسَّرْنَاهُ بِلِسَانِكَ لِتُبَشِّرَ بِهِ الْمُتَّقِينَ وَتُنذِرَ بِهِ قَوْمًا لُّدًّا ﴿٩٧﴾ ( مریم ) اور
قَالَ رَبِّ إِنِّي دَعَوْتُ قَوْمِي لَيْلًا وَنَهَارًا ﴿٥﴾ ( نوح ) اور
ثُمَّ إِنِّي دَعَوْتُهُمْ جِهَارًا ﴿٨﴾ ( نوح ) اور
ثُمَّ إِنِّي أَعْلَنتُ لَهُمْ وَأَسْرَرْتُ لَهُمْ إِسْرَارًا ﴿٩﴾ ( نوح ) وغیرہ
میں دعوت و تبلیغ کے منہج کی تفصیل بیان کی گئی ہے۔ ان آیات میں غور وفکر کرنے والے کے لیے دعوت و تبلیغ کے تفصیلی منہج کے حوالے سے علم و حکمت کے بہت سے خزانے پنہاں ہیں۔
پس انفرادی، شخصی اور فرد کی زندگی میں نفاذ شریعت کے لیے بہترین اسلوب اور منہج، اخلاص وعمل کی بنیادپر ،کتاب وسنت کی دعوت و تبلیغ ہے۔ بعض لوگوں کا یہ جو خیال ہے کہ دعوت و تبلیغ کا کام کرنے والی جماعتیں نفاذ شریعت یا اعلائے کلمة اللہ کے لیے کام نہیں کر رہی ہیں تو ہمیں اس خیال سے بالکل بھی اتفاق نہیں ہے۔ دعوت وتبلیغ کا کام کرنے والی جماعتیں افراد اور خاندان میں انقلاب برپا کررہی ہیں جو معاشرے کی اکائی ہے۔ اجتماعیت کی تبدیلی کی بنیاد بھی اس کی اکائی ہی ہوتی ہے۔ افراد کی اصلاح ہو گی یا افراد میں انقلاب برپا ہو گا تو معاشروں اور اجتماعیت میں بھی تبدیلی پیدا ہو گی۔ پس افراد میں نفاذ شریعت کے لحاظ سے دعوت وتبلیغ کا کام کرنے والی جماعتوں کا کام مستحسن ہے اگرچہ ان جماعتوں کے نصاب تعلیم، دعوت و تبلیغ کے منہج و طریق کار میں بہتری اور تبدیلی کی گنجائش اور ضرورت بہر صورت موجود ہے اور اس کی طرف ان جماعتوں کے اکابر کو توجہ دینی اور دلانی چاہیے۔