• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

نمازی کے آگے سے گزرنا

آزاد

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
363
ری ایکشن اسکور
919
پوائنٹ
125
نمازی کا حق سجدہ والے مقام تک ہے ،جہاں وہ نماز ادا کر رہا ہے،اسے یہ حق حاصل نہیں ہے کہ وہ لوگوں کو مشقت میں ڈالتا رہے ،لہذا سجدہ والی جگہ چھوڑ کر آگے سے گزرا جا سکتا ہے۔شیخ صالح العثیمین نے مقام سجدہ کی تحدید والے قول کو ترجیح دی ہے۔
محترم بھائی!
پھر سترہ رکھنے کا کیا فائدہ؟
وہ بھی تو سجدہ والی جگہ سے آگے ہی رکھا جاتا ہے۔
 

عمیر

تکنیکی ذمہ دار
رکن انتظامیہ
شمولیت
جنوری 08، 2011
پیغامات
221
ری ایکشن اسکور
703
پوائنٹ
199
شمولیت
مئی 28، 2016
پیغامات
202
ری ایکشن اسکور
58
پوائنٹ
70
السلام علیکم و رحمة اللہ وبرکاتہ! !!!
محترم شیخ @اسحاق سلفی صاحب
یہ مسئلہ صحیح سے کلیر نہیں ہوا کتنے فاصلے سے بندہ نمازی کے آگے سے گزر سکتا ہیں. دلائل سے اس پر روشنی ڈالیے آپ کی مہربانی ہوگی.
جزاکم اللہ خیرا
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,562
پوائنٹ
791
یہاں بھی ہمارے علم میں کچھ اضافہ کر دیجیے.
اللہ آپ کو جزا خیر دے.
اس مسئلہ میں محدث فتوی کمیٹی کا فتویٰ ہی درست ہے :
ـــــــــــــــــــــــــــــــ
نمازی کے آگےاگر سترہ نہ ہو تو کتنے فاصلے سے گزرا جاسکتاہے
شروع از عبد الوحید ساجد بتاریخ : 30 December 2013 01:20 PM
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
نمازی کے آگےاگر سترہ نہ ہو تو کتنے فاصلے سے گزرا جاسکتاہے۔؟
الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

اصل حکم یہی ہے کہ سترہ رکھ کر نماز ادا کی جائے،اگر کوئی شخص سترہ نہیں رکھتا تو اس کے سامنے سے گزرنے کے حوالے سے کوئی صریح نص موجود نہیں ہے،جس کی بناء پر اہل علم کے ہاں اختلاف پایا جاتا ہے۔بعض کے ہاں نمازی کے آگے سے گزرنا درست نہیں ، خواہ کئی میلوں کا فاصلہ ہو ۔ اس کی دلیل نمازی کے آگے سترہ کے بغیر گزرنے سے منع والی تمام احادیث ہیں کیونکہ ان میں سترہ کی بات ہے فاصلہ کی تحدید کی بات نہیں۔
جبکہ بعض اہم علم اس مسافت کی تحدید کرتے ہیں کہ نمازی کا حق سجدہ والے مقام تک ہے ،جہاں وہ نماز ادا کر رہا ہے،اسے یہ حق حاصل نہیں ہے کہ وہ لوگوں کو مشقت میں ڈالتا رہے ،لہذا سجدہ والی جگہ چھوڑ کر آگے سے گزرا جا سکتا ہے۔شیخ صالح العثیمین نے مقام سجدہ کی تحدید والے قول کو ترجیح دی ہے۔
ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب
فتوی کمیٹی

محدث فتوی

ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
شیخ ابن بازؒ کا فتوی بھی یہی ہے کہ :
المسافة التي يحرم فيها المرور بين يدي المصلي

السؤال: سمعت حديثاً يحرم المرور بين يدي المصلي فكم هي المسافة التي يحرم فيها المرور بين يدي المصلي إذا لم يضع أمامه شيئاً؟
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

الجواب: يقول النبي ﷺ: لو يعلم المار بين يدي المصلي ماذا عليه -يعني من الإثم- لكان أن يقف أربعين خيراً له من أن يمر بين يدي المصلي متفق عليه، قال الراوي أبو هريرة : «لا أدري قال أربعين يوماً أو شهراً أو سنة ».
والمقصود أن هذا يدل على تحريم ذلك وأن فيه خطراً عظيماً، إذا كان وقوفه أربعين ولو يوماً خيراً له من أن يمر بين يديه فهذا يدل على أنه أمر خطير لا يجوز.
وأرجح ما قيل في ذلك أن الحد ثلاثة أذرع إذا كان ما له سترة، إذا كان وراه ثلاثة أذرع فلا حرج أو كان وراءه سترة فلا حرج، أما إن كان بينه وبين السترة فهذا لا يجوز، أو كان قريباً منه في أقل من ثلاثة أذرع فهذا لا يجوز.
والأصل في هذا أنه ﷺ لما صلى في الكعبة جعل بينه وبين جدار الكعبة الغربي ثلاثة أذرع، قالوا: هذا يدل على أن هذا المقدار هو الذي يعتبر بين يدي المصلي، فإذا كان بعيداً من هذا المقدار من قدم المصلي فإنه لا يعتبر ماراً بين يديه هذا هو الأرجح.
المقدم: جزاكم الله خيراً ۔

فتوی لنک
اس فتوی کا خلاصہ یہ ہے کہ :
جناب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے اگر نمازی کے سامنے سے گزرنے والا جانتا کہ اس کا کتنا بڑا گناہ ہے تو اس کے سامنے سے گزرنے پر چالیس تک وہیں کھڑے رہنے کو ترجیح دیتا۔ اس حدیث کے راوی سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ مجھے یاد نہیں کہ آپ نے چالیس دن کہا یا مہینہ یا سال۔"
مراد یہ کہ یہ حدیث نمازی کے آگے سے گزرنے کی حرمت اور عظیم خطرہ بتاتی ہے ،
اس مسئلہ میں جتنے اقوال منقول ہیں ان میں راجح قول یہ ہے کہ اگر نمازی کے سامنے سترہ نہ ہو تو آگے سے گزرنے کی حد تین ذراع ( تقریباً ساڑھے چار فٹ ) ہے ، یا اگر سترہ ہے تو سترے کے آگے قبلہ کی طرف سے گزرنا بھی جائز ہے ،
اس شرعی حکم کی بنیاد پیغمبر اکرم ﷺ کا عمل ہے کہ آپ نے جب کعبہ میں نماز پڑھی تو آپ نے اپنے اور کعبہ کی
مغربی دیوار تین ذراع کا فاصلہ رکھا ، اس لئے اہل علم کہتے ہیں کہ نمازی کے قدم سے سامنے تین ذراع کا فاصلہ رکھ کر گزرنا جائز ہوگا ،
 

مظاہر امیر

مشہور رکن
شمولیت
جولائی 15، 2016
پیغامات
1,426
ری ایکشن اسکور
409
پوائنٹ
190
اسحاق بھائی اس میں ایک بات یہ بھی ہے کہ نمازی کے آگے سے گزرنے والے کو ہاتھ سے روکنے کا حکم ہے ، تو ہاتھ کی حد تقریباً 3 ذراع یا 4 فٹ تک ہی ہوسکتی ہے ۔ میلوں دور سے گزرنے والے کو ہاتھ سے کیسے روک سکتے ہیں؟ مندرجہ بالا فتویٰ اس کے مطابق ہے ۔ واللہ اعلم
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,562
پوائنٹ
791
اسحاق بھائی اس میں ایک بات یہ بھی ہے کہ نمازی کے آگے سے گزرنے والے کو ہاتھ سے روکنے کا حکم ہے ، تو ہاتھ کی حد تقریباً 3 ذراع یا 4 فٹ تک ہی ہوسکتی ہے ۔ میلوں دور سے گزرنے والے کو ہاتھ سے کیسے روک سکتے ہیں؟ مندرجہ بالا فتویٰ اس کے مطابق ہے ۔ واللہ اعلم
جی آپ نے بالکل درست فرمایا ، میرے پاس استاذ الاساتذہ شیخ عبدالمنان نورپوریؒ کا فتوی موجود ہے جس پر میں نے یہی بات لکھی ہے
ـــــــــــــــــــ
نمازی کے آگے سے گزرنا
_________________________
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
اگر نمازی کھلے میدان میں ہو یا صحراء میں تو گزرنے والا نمازی کے نماز ختم ہونے کاانتظار کرے اور آپ نے فرمایا تھا کہ کئی میلوں سے بھی نہیں گزر سکتا۔
-------------------------
الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
نمازی کے آگے سے گزرنا درست نہیں ، خواہ کئی میلوں کا فاصلہ ہو ۔ اس کی دلیل نمازی کے آگے سترہ کے بغیر گزرنے سے منع والی تمام احادیث ہیں کیونکہ ان میں سترہ کی بات ہے فاصلہ کی تحدید کی بات نہیں۔ سترہ والی احادیث صحیح مسلم میں دیکھ لیں۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جب تم میں سے کوئی اپنے سامنے پالان کی پچھلی لکڑی کے برابر کچھ رکھ لیوے تو نماز پڑھے اور پرواہ نہ کرے جو چیز چاہے سامنے سے گزر جائے۔‘‘
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب عید کے دن باہر نکلتے تو اپنے سامنے برچھا گاڑنے کا حکم فرماتے ، پھر اس کی آڑ میں نماز پڑھتے اور لوگ آپ کے پیچھے ہوتے اور یہ امر سفر میں کرتے اسی وجہ سے امیروں نے اس کو مقرر کر لیا ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی اونٹنی کو قبلہ کی طرف کر کے اس کی طرف نماز پڑھتے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جب تم میں سے کوئی نماز پڑھ رہا ہو تو اپنے سامنے سے کسی کو نہ نکلنے دے ، بلکہ اس کو روکے ، جہاں تک ہو سکے اگر وہ نہ مانے تو اس سے لڑے کیونکہ وہ شیطان ہے۔‘‘
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اگر نمازی کے سامنے سے گزرنے والا جانے جو گناہ اس پر ہے البتہ اگر چالیس سال تک کھڑا رہے تو یہ بہتر ہو سامنے گزرنے سے ۔‘‘
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جس جگہ نماز کے لیے کھڑے ہوتے تھے اس میں اور قبلہ کی دیوار میں اتنی جگہ رہتی کہ ایک بکری نکل جائے۔
یہ تمام احادیث صحیح مسلم،کتاب الصلاة، باب سترة المصلی، باب منع الماربین یدی المصلی،باب دنو المصلی من السترة میں ہیں۔
عطاء فرماتے ہیں کہ پالان کے پچھلے حصہ کی لکڑی ایک ہاتھ یا اس سے کچھ زیادہ لمبی ہوتی ہے۔ [ابو داؤد،الصلاة، باب ما یستر المصلی ، حدیث:۶۸۶ اسے ابن خزیمہ نے صحیح کہا ہے۔

قرآن وحدیث کی روشنی میں احکام ومسائل (جلد 02 ) محدث فتویٰ
__________________________٭٭٭

لیکن اس فتوی میں مذکورحدیث جس میں آگے گزرنے والے سے لڑنے کی اجازت دی ہے یہ اس بات کی دلیل ہے کہ نمازی کے سامنے قریب سے گزرنے والے لڑا جائے گا ،یعنی قریب سامنے سے گزرنا منع ہے دور سے گزرنا جائز ہے ؛ (اسحاق سلفی )
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
 
Last edited:

usmansahfi

مبتدی
شمولیت
جنوری 05، 2023
پیغامات
2
ری ایکشن اسکور
0
پوائنٹ
9
سنن ترمذي​
کتاب: نماز کے احکام و مسائل​
336​
(مرفوع) حدثنا إسحاق بن موسى الانصاري، حدثنا معن، حدثنا مالك بن انس، عن ابي النضر، عن بسر بن سعيد، ان زيد بن خالد الجهني ارسله إلى ابي جهيم يساله: ماذا سمع من رسول الله صلى الله عليه وسلم في المار بين يدي المصلي؟ فقال ابو جهيم: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " لو يعلم المار بين يدي المصلي ماذا عليه لكان ان يقف اربعين خير له من ان يمر بين يديه " قال ابو النضر: لا ادري، قال: اربعين يوما او شهرا او سنة. قال ابو عيسى: وفي الباب عن ابي سعيد الخدري , وابي هريرة , وابن عمر , وعبد الله بن عمرو، قال ابو عيسى: وحديث ابي جهيم حديث حسن صحيح، وقد روي عن النبي صلى الله عليه وسلم، انه قال: " لان يقف احدكم مائة عام خير له من ان يمر بين يدي اخيه وهو يصلي " والعمل عليه عند اهل العلم كرهوا المرور بين يدي المصلي، ولم يروا ان ذلك يقطع​
صلاة الرجل، واسم ابي النضر: سالم مولى عمر بن عبيد الله المديني.​
بسر بن سعید سے روایت ہے کہ زید بن خالد جہنی نے انہیں ابوجہیم رضی الله عنہ کے پاس بھیجا تاکہ وہ ان سے یہ پوچھیں کہ​
انہوں نے مصلی کے آگے سے گزرنے والے کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کیا سنا ہے؟ تو ابوجہیم رضی الله عنہ نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: اگر مصلی کے آگے سے گزرنے والا جان لے کہ اس پر کیا (گناہ) ہے تو اس کے لیے مصلی کے آگے سے گزرنے سے چالیس … تک کھڑا رہنا بہتر ہو گا۔ ابونضر سالم کہتے ہیں: مجھے نہیں معلوم کہ انہوں نے چالیس دن کہا، یا چالیس مہینے کہا یا چالیس سال۔​
امام ترمذی کہتے ہیں:​
۱- ابوجہیم رضی الله عنہ کی حدیث حسن صحیح ہے،​
۲- اس باب میں ابو سعید خدری، ابوہریرہ، ابن عمر اور عبداللہ بن عمرو رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں،​
۳- نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ بھی مروی ہے کہ آپ نے فرمایا: ”تم میں سے کسی کا سو سال کھڑے رہنا اس بات سے بہتر ہے کہ وہ اپنے بھائی کے سامنے سے گزرے اور وہ نماز پڑھ رہا ہو“،​
۴- اہل علم کے نزدیک عمل اسی پر ہے، ان لوگوں نے نمازی کے آگے سے گزرنے کو مکروہ جانا ہے، لیکن ان کی یہ رائے نہیں کہ آدمی کی نماز کو باطل کر دے گا۔​
 
شمولیت
مارچ 02، 2023
پیغامات
647
ری ایکشن اسکور
23
پوائنٹ
53
یہاں ایک مسئلہ قابل غور ہے کہ اگر نمازی نے اپنے آگے سترہ نہیں رکھا تو کیا اس کے سجدہ والی جگہ سے آگے گزرا جا سکتا ہے؟
اقرب الاقوال یہی ہے کہ گزرا جا سکتا ہے کیونکہ نمازی کا حق سجدہ گا تک ہی ہے اس کے بعد والی جگہ بین یدی المصلی میں نہیں آئے گی واللہ اعلم
 
شمولیت
مارچ 02، 2023
پیغامات
647
ری ایکشن اسکور
23
پوائنٹ
53
السلام علیکم و رحمة اللہ وبرکاتہ! !!!
محترم شیخ @اسحاق سلفی صاحب
یہ مسئلہ صحیح سے کلیر نہیں ہوا کتنے فاصلے سے بندہ نمازی کے آگے سے گزر سکتا ہیں. دلائل سے اس پر روشنی ڈالیے آپ کی مہربانی ہوگی.
جزاکم اللہ خیرا
محترم اہل علم کا اس میں اجتہادی اختلاف ہے لیکن اقرب واللہ اعلم یہی ہے کہ نمازی کا حق سجدہ گا تک ہی ہے۔ کیونکہ نمازی کے آگے سے گزرنے کے منع ہونے کی ایک علت یہ بھی ہے کہ ایسا کرنے سے اس کےخشوع وخضوع میں خلل پیدا ہوتا ہے اور یہ خلل اسی وقت ہو گا جب آپ نمازی اور اس کی سجدہ گا ہ کے درمیان سے گزریں گے۔سجدہ گاہ سے آگے جو جگہ ہے وہ نمازی کی حدود میں نہیں ہیں وہاں تک اس کی نظر ہی نہیں ہوتی تو خشوع وخضوع میں خلل پیدا ہونے کا تصور بھی نہیں ہے۔ اسی طرح ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کی روایت میں الفاظ اس طرح ہیں کہ نمازی آگے سے گزرنے والے شخض کو اپنے ہاتھ سے روکے اگر وہ نہ رکے تو اس سے لڑائی کرے اب ہاتھ سے روکنا اور لڑائی کرنا اسی صورت ممکن ہے جب وہ بالکل قریب سے گزرے گا اب سوال ہے کہ اگر گزرنے والا دو چار صفیں چھوڑ کر گزر رہا ہو تو کیا نمازی بھاگ کے اسے روکنےجائے گا؟!
 
Top