ابی بن کعب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا بیس رکعات تراویح پڑھانا
ابی بن کعب رضی اللہ تعالیٰ عنہ رمضان میں مسجد نبوی میں بیس رکعات تراویح اور تین وتر پڑھایا کرتے تھے۔
مصنف ابن أبي شيبة: كَمْ يُصَلِّي فِي رَمَضَانَ مِنْ رَكْعَةٍ
حَدَّثَنَا حُمَيْدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ حَسَنٍ، عَنْ عَبْدِ الْعَزِيزِ بْنِ رُفَيْعٍ قَالَ: «كَانَ أُبَيُّ بْنُ كَعْبٍ يُصَلِّي بِالنَّاسِ فِي رَمَضَانَ بِالْمَدِينَةِ عِشْرِينَ رَكْعَةً، وَيُوتِرُ بِثَلَاثٍ»
روایت مذکور کا جواب
اس روایت میں علت یہ ہے کہ یہ روایت منقطع ہے کیوں کہ عبد العزیز بن رفیع نے ابی بن کعب کا دور نہیں پایا اور جب دور نہیں پایا تو ظاہر سی بات ہے کہ ان سے کچھ سنا بھی نہیں ہے۔ لہذا روایت منقطع ہے۔
ذیل میں ہم اس حقیقت کو بیان کرتے ہیں۔
امام بخاری رحمہ اللہ عبد العزیز بن رفیع کے تعلق سے کہتے ہیں کہ:
"قال محمد بن حميد عن جرير: أتي عليه نيف وتسعون سنة"
جریر نے کہا کہ عبد العزیز بن رفیع نے نوے سال سے زائد عمر پائی ہے۔
[التاریخ الکبیر للبخاری ۱۱/۶]
امام ابن حبان فرماتے ہیں کہ:
"مات بعد الثلاثين ومائة "
یعنی عبد العزیز بن رفیع کی وفات ۱۳۰ھ کے بعد ہوئی۔
[الثقات لابن حبان ۱۲۳/۵]
یعنی اس سے یہ بات واضح ہوئی کہ عبد العزیز بن رفیع نے 90 سال کی عمر پائی ہے اور یہ بھی معلوم ہوا کہ ان کی وفات 130 ہجری میں ہوئی ہے تو اس حساب سے ان کی پیدائش بنتی ہے 40 ہجری کے قریب قریب ہوئی ہے کیوں کہ 130 ہجری سے 90 سال پیچھے آیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ 40 ہجری یا 39 ہجری یا اسی کے قریب قریب عبد العزیز بن رفیع کی پیدائش ہوئی۔
جبکہ ابی بن کعب رضی اللہ عنہ کی وفات 30ھ میں ہوئی ہے۔
چنانچہ امام ابو نعیم الاصبھانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ
ابی بن کعب رضی اللہ عنہ کی وفات میں اختلاف ہے۔ بعض کہتے ہیں عمر رضی اللہ عنہ کی خلافت میں 22 ہجری میں ان کی وفات ہوئی اور بعض کہتے ہیں عثمان رضی اللہ عنہ کی خلافت میں 30ھ میں ان کی وفات ہوئی اور یہیں بات صحیح ہے کیوں کہ زر بن حبیش نے عثمان رضی اللہ عنہ کی خلافت میں ان سے ملاقات کی۔
[معرفۃ الصحابۃ لأبی نعیم ۲۱۴/1]
معلوم ہوا ابی بن کعب رضی اللہ عنہ کی وفات تو 30 ہجری میں ہو چکی تھی۔ اسی بات کو امام ابو نعیم رحمہ اللہ نے صحیح قرار دیا ہے۔
جبکہ عبد العزیز بن رفیع کی وفات 40ھ یا 39ھ یا اسی کے قریب قریب ہوئی تھی
تو گزشتہ تفصیل سے معلوم ہوا کہ عبد العزیز بن رفیع نے ابی بن کعب کا زمانہ نہیں پایا اور جب زمانہ نہیں پایا تو ظاہر ہے کہ ان سے کچھ سنا بھی نہیں ہے لہذا زیر بحث روایت منقطع ہے۔
تو اس کو اس صحیح روایت کے خلاف بھلا کیسے حجت بنایا جا سکتا ہے جس میں گیارہ رکعت کی تعداد مذکور ہے؟