9: حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ، قَالَ: أَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ عُثْمَانَ، عَنِ الْحَكَمِ، عَنْ مِقْسَمٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، «أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يُصَلِّي فِي رَمَضَانَ عِشْرِينَ رَكْعَةً وَالْوِتْرَ»
جواب
اس روایت میں ابراہیم بن عثمان نامی ایک راوی ہے، یہ متروک ہے۔
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ ابراہیم بن عثمان کے متعلق فرماتے ہیں کہ:
"متروک الحدیث"
[تقریب التھذیب لابن حجر]
لہذا یہ روایت سخت ضعیف ہے۔
------------------------------------------------------------------
4: مصنف ابن أبي شيبة: كَمْ يُصَلِّي فِي رَمَضَانَ مِنْ رَكْعَةٍ
حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، عَنْ مَالِكِ بْنِ أَنَسٍ، عَنْ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ، «أَنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ أَمَرَ رَجُلًا يُصَلِّي بِهِمْ عِشْرِينَ رَكْعَةً»
جواب
اس روایت میں علت یہ ہے کہ یحیی بن سعید القطان نے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کا زمانہ پایا ہی نہیں ہے۔
امام ابن حزم فرماتے ہیں کہ:
یحیی بن سعید القطان رحمہ اللہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کی وفات کے پچیس سال بعد پیدا ہوئے۔
[المحلی لابن حزم ۲۰۷/۹]
معلوم ہوا زیر بحث روایت بھی منقطع ہے لہذا قابل حجت نہیں ہے بلکہ ضعیف ہے۔ اور صحیح روایت کے مخالف ہے جس میں سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے گیارہ رکعات پڑھانے کا حکم دیا۔
-----------------------------------------------------------------
مصنف ابن أبي شيبة: كَمْ يُصَلِّي فِي رَمَضَانَ مِنْ رَكْعَةٍ
حَدَّثَنَا حُمَيْدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ حَسَنٍ، عَنْ عَبْدِ الْعَزِيزِ بْنِ رُفَيْعٍ قَالَ: «كَانَ أُبَيُّ بْنُ كَعْبٍ يُصَلِّي بِالنَّاسِ فِي رَمَضَانَ بِالْمَدِينَةِ عِشْرِينَ رَكْعَةً، وَيُوتِرُ بِثَلَاثٍ»
عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے دور خلافت میں بیس رکعات تراویح
عمر ابن الخطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے زمانہ خلافت میں رمضان میں لوگ تئیس 23 رکعات (بیس تراویح تین وتر) پڑھا کرتے تھے۔
جواب
یہ روایت بھی ضعیف ہے۔
اس روایت میں علت یہ ہے کہ یہ روایت منقطع ہے کیوں کہ عبد العزیز بن رفیع نے ابی بن کعب کا دور نہیں پایا اور جب دور نہیں پایا تو ظاہر سی بات ہے کہ ان سے کچھ سنا بھی نہیں ہے۔ لہذا روایت منقطع ہے۔
ذیل میں ہم اس حقیقت کو بیان کرتے ہیں۔
امام بخاری رحمہ اللہ عبد العزیز بن رفیع کے تعلق سے کہتے ہیں کہ:
"قال محمد بن حميد عن جرير: أتي عليه نيف وتسعون سنة"
جریر نے کہا کہ عبد العزیز بن رفیع نے نوے سال سے زائد عمر پائی ہے۔
[التاریخ الکبیر للبخاری ۱۱/۶]
امام ابن حبان فرماتے ہیں کہ:
"مات بعد الثلاثين ومائة "
یعنی عبد العزیز بن رفیع کی وفات ۱۳۰ھ کے بعد ہوئی۔
[الثقات لابن حبان ۱۲۳/۵]
یعنی اس سے یہ بات واضح ہوئی کہ عبد العزیز بن رفیع نے 90 سال کی عمر پائی ہے اور یہ بھی معلوم ہوا کہ ان کی وفات 130 ہجری میں ہوئی ہے تو اس حساب سے ان کی پیدائش بنتی ہے 40 ہجری کے قریب قریب ہوئی ہے کیوں کہ 130 ہجری سے 90 سال پیچھے آیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ 40 ہجری یا 39 ہجری یا اسی کے قریب قریب عبد العزیز بن رفیع کی پیدائش ہوئی۔
جبکہ ابی بن کعب رضی اللہ عنہ کی وفات 30ھ میں ہوئی ہے۔
چنانچہ امام ابو نعیم الاصبھانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ
ابی بن کعب رضی اللہ عنہ کی وفات میں اختلاف ہے۔ بعض کہتے ہیں عمر رضی اللہ عنہ کی خلافت میں 22 ہجری میں ان کی وفات ہوئی اور بعض کہتے ہیں عثمان رضی اللہ عنہ کی خلافت میں 30ھ میں ان کی وفات ہوئی اور یہیں بات صحیح ہے کیوں کہ زر بن حبیش نے عثمان رضی اللہ عنہ کی خلافت میں ان سے ملاقات کی۔
[معرفۃ الصحابۃ لأبی نعیم ۲۱۴/1]
معلوم ہوا ابی بن کعب رضی اللہ عنہ کی وفات تو 30 ہجری میں ہو چکی تھی۔ اسی بات کو امام ابو نعیم رحمہ اللہ نے صحیح قرار دیا ہے۔
جبکہ عبد العزیز بن رفیع کی وفات 40ھ یا 39ھ یا اسی کے قریب قریب ہوئی تھی
تو گزشتہ تفصیل سے معلوم ہوا کہ عبد العزیز بن رفیع نے ابی بن کعب کا زمانہ نہیں پایا اور جب زمانہ نہیں پایا تو ظاہر ہے کہ ان سے کچھ سنا بھی نہیں ہے لہذا زیر بحث روایت منقطع ہے۔
تو اس کو اس صحیح روایت کے خلاف بھلا کیسے حجت بنایا جا سکتا ہے جس میں گیارہ رکعت کی تعداد مذکور ہے؟
------------------------------------------------------------------
1: موطأ مالك: مَا جَاءَ فِي قِيَامِ رَمَضَانَ
مَالِكٌ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ رُومَانَ؛ أَنَّهُ قَالَ: كَانَ النَّاسُ يَقُومُونَ فِي زَمَانِ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ، فِي رَمَضَانَ، بِثَلاَثٍ وَعِشْرِينَ رَكْعَةً
یزید بن رومان رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ عمر ابن الخطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے زمانہ خلافت میں لوگ تئیس 23 رکعات (بیس تراویح تین وتر) پڑھا کرتے تھے۔
2: مصنف عبد الرزاق الصنعاني: بَابُ قِيَامِ رَمَضَانَ
عَنِ السَّائِبِ بْنِ يَزِيدَ قَالَ: «كُنَّا نَنْصَرِفُ مِنَ الْقِيَامِ عَلَى عَهْدِ عُمَرَ، وَقَدْ دَنَا فُرُوعُ الْفَجْرِ، وَكَانَ الْقِيَامُ عَلَى عَهْدِ عُمَرَ ثَلَاثَةً وَعِشْرِينَ رَكْعَةً»
جواب
پہلی روایت یزید بن رومان کے حوالے سے پیش کی ہے آپ نے لیکن عرض ہے یہ روایت بھی غیر ثابت ہے۔
کیوں کہ یزید بن رومان نے عمر رضی اللہ عنہ کا زمانہ نہیں پایا۔
چنانچہ امام زیلی حنفی رحمہ اللہ امام بیہقی کی کتاب معرفۃ السنن والآثار سے ان کا قول نقل کرتے ہیں کہ امام بیھقی فرماتے ہیں کہ:
"يزيد بن رومان لم يدرك عمر"
یعنی یزید بن رومان نے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کا زمانہ نہیں پایا
[نصب الرایہ ۱۵۴/۲]
اور دوسری روایت جو آپ نے پیش کی مصنف عبد الرزاق کے حوالے سے لیکن آپ نے اس کی سند نہیں پیش کی چلیں ہم اس روایت کو مصنف عبد الرزاق سے مع سند لگاتے ہیں۔
ﻋﻦ اﻷﺳﻠﻤﻲ، ﻋﻦ اﻟﺤﺎﺭﺙ ﺑﻦ ﻋﺒﺪ اﻟﺮﺣﻤﻦ ﺑﻦ ﺃﺑﻲ ﺫﺑﺎﺏ، ﻋﻦ اﻟﺴﺎﺋﺐ ﺑﻦ ﻳﺰﻳﺪ ﻗﺎﻝ: «ﻛﻨﺎ ﻧﻨﺼﺮﻑ ﻣﻦ اﻟﻘﻴﺎﻡ ﻋﻠﻰ ﻋﻬﺪ ﻋﻤﺮ، ﻭﻗﺪ ﺩﻧﺎ ﻓﺮﻭﻉ اﻟﻔﺠﺮ، ﻭﻛﺎﻥ اﻟﻘﻴﺎﻡ ﻋﻠﻰ ﻋﻬﺪ ﻋﻤﺮ ﺛﻼﺛﺔ ﻭﻋﺸﺮﻳﻦ ﺭﻛﻌﺔ»
[مصنف عبد الرزاق]
اس روایت میں ایک راوی ہیں جن کا نام ابراہیم بن محمد بن أبی یحیی الأسلمی نامی راوی کذاب ہے۔
امام یحیی بن سعید القطان، امام یحیی بن معین، امام علی بن مدینی اور امام ابو حاتم نے کذاب وغیرہ قرار دیا ہے۔
لہذا یہ دونوں روایات بھی ثابت نہیں۔
والحمدللہ
----------------------------------------------------------
3: مسند ابن الجعد (مَخْلَدُ بْنُ خُفَافٍ)
حَدَّثَنَا عَلِيٌّ، أنَا ابْنُ أَبِي ذِئْبٍ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ خُصَيْفَةَ، عَنِ السَّائِبِ بْنِ يَزِيدَ قَالَ: «كَانُوا يَقُومُونَ عَلَى عَهْدِ عُمَرَ فِي شَهْرِ رَمَضَانَ بِعِشْرِينَ رَكْعَةً، وَإِنْ كَانُوا لَيَقْرَءُونَ بِالْمِئِينَ مِنَ الْقُرْآنِ
یہ روایت شاذ ہے۔
اس روایت کا راوی یزید بن خصیفہ ثقہ ہے لیکن اس پر کلام ہوا ہے
امام ابن حبان رحمہ اللہ ان کے متعلق فرماتے ہیں کہ:
وكان يهم كثيراً إذا حدث حفظه
جب یزید بن خصیفہ اپنے حافظہ سے بیان کرتا ہے تو بہر زیادہ وہم کا شکار ہو جاتا ہے
[مشاھیر علماء الامصار رقم ۱۰۶۶]
وہم کا شکار تو ہوتا ہی تھا ساتھ ہی ساتھ جب اس سے پوچھا گیا کہ سائب بن یزید رضی اللہ عنہ کتنی رکعت نماز کہی تھی تو یزید نے شک کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ:
حسبت أن السائب قال: احد وعشرین
مجھے ایسا لگتا ہے کہ سائب بن یزید نے 21 رکعت کہا
[فوائد أبی بکر النیسابوری ق۱۳۵/ب]
معلوم ہوا کہ یزید بن خصیفہ اپنے بیان میں شک کا اظہار کر رہے ہیں، تردد کا اظہار کر رہے ہیں۔
جبکہ یہیں روایت محمد بن یوسف جو اعلیٰ درجہ کے ثقہ راوی ہیں۔ وہ اس روایت کو سائب بن یزید سے 11 رکعات کے الفاظ کے ساتھ بیان کرتے ہیں
[دیکھیے موطا امام مالک]