• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

نماز عصر کا وقت ایک مثل پر

شاکر

تکنیکی ناظم
رکن انتظامیہ
شمولیت
جنوری 08، 2011
پیغامات
6,595
ری ایکشن اسکور
21,396
پوائنٹ
891
علامہ عبد الجبار محدث کھنڈیلوی
نمازِ عصر کا وقت ایک مثل پر

حوالہ: سہ ماہی ترجمان السنۃ

''عن ابن عباس رضی اللہ عنہما قال قال رسول اللہ ﷺ امنی جبرائیل عند البیت مرّتین فصلّٰی بی الظہر حین زالت الشمس وکانت قدر الشراک و صلی بی العصر حین صار ظل کل شئی مثلہ ''۔ (رواہ ابوداؤد و الترمذی (مشکوٰۃ ص:۵۹ج۱)
''روایت ہے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ میری جبرائیل نے امامت کرائی بیت اللہ کے پاس دو مرتبہ، تو انہوں نے نماز پڑھائی مجھ کو ظہر کی جب کہ سورج ڈھل گیا اور سایہ بقدرتسمہ جوتی کے ہو گیا تھا، اور نماز پڑھائی مجھ کو عصر کی جب سایہ ہر چیز کا اس کے برابر ہو گیا تھا''۔

یہ حدیث صریح دلالت کر تی ہے کہ عصر کی نماز کا وقت ایک مثل پر ہو جاتا ہے، جبرائیل علیہ السلام نے آپ کو عصر کی نماز ایک مثل ہو جانے پر پڑھائی۔ قرآن مجید میں جہاں اور نمازوں کی محا فظت کی تاکید فرمائی ہے، وہاں عصر کی نماز کی خصوصیت سے تاکید فرمائی ہے۔

قال اللہ تعالیٰ: ''حافظوا علی الصلوٰت والصلوٰۃ الوسطیٰ''(البقرۃ:۲۳۸)۔
''مسلمانو! تمام نمازوں کی محافظت کرو اور خاص کر نماز وسطیٰ( عصر )کی''۔

ظاہر ہے کہ نمازوں کی حفاظت ان کے اوقات کی بھی محافظت ہے۔چنانچہ آنحضرت ﷺ عشاء کی نماز کے علاوہ اور سب نماز پنجگانہ اول وقت پر پڑھتے تھے۔ چنانچہ سید الطائفہ احنافِ دیوبند مولانا رشید احمد صاحب گنگوہی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

''ہاں وقت مثل، بندہ کے نزدیک زیادہ قوی ہے۔روایت حدیث سے ثبوت مثل کا ہوتا ہے۔دو مثل کا ثبوت حدیث سے نہیں، بناء علیہ ایک مثل پر عصر ہو جاتی ہے۔گو احتیاط دوسری روایت میں ہے''۔(مکاتیب رشیدیہ ص: ۲۲)

نیز مولانا موصوف اپنے فتاویٰ رشیدیہ ص۹۸ میں ایک سوال کے جواب میں لکھتے ہیں:

''ایک مثل کا مذہب قوی ہے ،لہٰذا اگر ایک مثل پر عصر پڑھے تو ادا ہو جاتی ہے۔اعادہ نہ کرے ''۔و اللہ تعالیٰ اعلم۔

نیز آپ کی سوانح عمری ''تذکرۃ الرشید'' کے ص:۱۴۶؍ج۱ میں لکھا ہے:
''کہ بعد ایک مثل کے وقت عصر ہو جانا مذہب صاحبین اور ائمہ ثلاثہ علیہم الرحمۃ کا ہے''

یہی مولانا موصوف اپنے ''مکاتیب رشیدیہ'' ص:۸۹ میں دربارۂ مذاہب ائمہ ثلاثہ امام شافعی ،امام مالک، و امام احمد بن حنبل علیہم الرحمۃ لکھتے ہیں:
''مذاہب سب حق ہیں مذہب شافعی پر عند الضرورت عمل کر نا کچھ اندیشہ نہیں، مگر نفسانیت اور لذت نفسانی سے نہ ہو، عذر یا حجت شرعیہ سے ہو کچھ حرج نہیں۔ سب مذاہب کو حق جانے، کسی پر طعن نہ کرے سب کو اپنا امام جانے''۔

بنابریں بقول مولانا جب عصر کا وقت مثل پر ہو نا امام شافعی و امام مالک و امام احمد بن حنبل علیہم الرحمۃ کا مذہب ہوا، تو اب اس کے حق و صحیح ہو نے میں کیا شک و شبہ ہے ،بلکہ یہی مذہب امام ابو یوسف و امام احمد و امام ابو حنیفہ علیہم الرحمۃ کا ایک روایت سے ثابت ہے، جیسا کہ شامی و غیرہ کتب فقہ میں لکھا ہے۔

مولانا شوق نیموی رحمہ اللہ حنفی محدث احنافِ دیوبند لکھتے ہیں:
''انی لم اجد حدیثاً صحیحاً او ضعیفاً یدل علی ان وقت الظہر الی ان یصیر الظل مثلیہ و عن الامام ابی حنیفۃ قولان''۔ (آثار السنن عربی:ص۴۳؍ج۱)
'' میں نے کوئی حدیث صحیح یا ضعیف ایسی نہیں پائی جس سے یہ ثابت ہو کہ ظہر کا وقت دو مثل تک رہتا ہے ،بلکہ امام ابو حنیفہ سے بھی اس مسئلہ میں دو روایتیں ہیں (ایک روایت دو مثل اور دوسری روایت ایک مثل کی )۔

مولانا قاضی رحمت اللہ صاحب راندیری حنفی دیوبندی فر ماتے ہیں:
''والانصاف فی ھٰذا المقام ان احادیث المثل صریحۃ صحیحۃ و اخبار المثلین انما ذکرفی تو جیہ احادیث استنبط منھا ھٰذا الامروا لامر المستنبط لا یعارض الصریح ''۔(کحل البصر فی ذکر وقت العصر:ص۹)
''انصاف یہی ہے کہ عصر کا وقت ایک مثل پر ہو نا احادیث صریحہ صحیحہ سے ثابت ہے اور جو روایات مثلین کی ہیں وہ غیر صریح ہیں۔صرف استنباطی طور سے ان روایات سے مثلین کو ثابت کیا جاتا ہے اور یہ (مسلم اصول ہے)کہ امر مستنبط، امر صریح کا معارض نہیں ہو سکتا ''۔

معلوم ہوا کہ ایک مثل پر عصر کا وقت ہو جاتا ہے جیسا کہ اہل حدیث کا عمل ہے۔
 

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,684
ری ایکشن اسکور
751
پوائنٹ
290
اشماریہ بھائی، آپ کی رائے اس ضمن میں کیا ہے؟
مثل اول میں وقت ہونا ہی زیادہ راجح معلوم ہوتا ہے۔ صاحبین (امام ابو یوسف و محمد رحمہما اللہ) سے بھی یہی مروی ہے۔
لیکن احتیاط مثلین میں ہے۔ تو مناسب یہ ہے کہ ظہر مثل اول سے پہلے پہلے پڑھ لی جائے اور عصر مثلین کے بعد۔ الا یہ کہ کوئی عذر شرعی ہو۔ میں خود بھی اگر کبھی جماعت سے نہ پڑھ پاؤں تو اسی کی کوشش کرتا ہوں۔
 

شاکر

تکنیکی ناظم
رکن انتظامیہ
شمولیت
جنوری 08، 2011
پیغامات
6,595
ری ایکشن اسکور
21,396
پوائنٹ
891
مثل اول میں وقت ہونا ہی زیادہ راجح معلوم ہوتا ہے۔ صاحبین (امام ابو یوسف و محمد رحمہما اللہ) سے بھی یہی مروی ہے۔
لیکن احتیاط مثلین میں ہے۔ تو مناسب یہ ہے کہ ظہر مثل اول سے پہلے پہلے پڑھ لی جائے اور عصر مثلین کے بعد۔ الا یہ کہ کوئی عذر شرعی ہو۔ میں خود بھی اگر کبھی جماعت سے نہ پڑھ پاؤں تو اسی کی کوشش کرتا ہوں۔
جزاک اللہ خیرا بھائی۔
لیکن جب مثل اول سے عصر کا وقت شروع ہونے کی صریح احادیث موجود ہیں۔ اور ان کی صراحت کے علمائے احناف بھی معترف ہیں۔ اور دوسری جانب صلوٰۃ الوسطیٰ کی حفاظت والی قرآنی آیت، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صحیح حدیث کہ منافق نماز عصر کے لئے سورج زرد ہونے کا انتظار کرتا ہے ، کیا یہ احادیث عصر کی نماز کو تاخیر سے ادا کرنے میں مانع نہیں۔۔۔؟

نماز عصر کے درست وقت کی اہمیت کا احساس مجھے دو وجوہات سے ہوا:

1۔ دوران حج جب خود ہمارے گروپ کے حنفی حضرات نماز عصر کو اول وقت پر ادا کرتے تھے تو مجھے حیرت ہوتی تھی کہ ان دنوں میں کیونکر نماز کا وقت بدل دیتے ہیں؟ خصوصیت سے منیٰ کے دنوں میں کہ جب مسجد کے بجائے کیمپ میں ہی الگ الگ نماز پڑھی جاتی تھی۔ اور یہ احساس میدان عرفات میں اور بھی شدت سے ہوا کیونکہ وہاں ہم نے ظہر و عصر ملا کر پڑھی جبکہ انہوں نے اپنے وقت پر عصر کی نماز ادا کی۔ لیکن وہ وقت بھی وہی تھا یعنی مثل اول۔ اور اس مجبوری کی وجہ غالباً یہ بھی تھی کہ مغرب تک زیادہ سے زیادہ وقت دعا میں گزارا جا سکے۔

2۔ وہ حدیث جس میں جمعہ کے دن دعا کی قبولیت کی گھڑی کا ذکر ہے۔ اور راجح قول کے مطابق یہ گھڑی عصر سے مغرب کے دوران ہوتی ہے۔ تو میں یہ سوچتا ہوں کہ ہمارا وقت تو کراچی میں آج کل کے حساب سے چار سوا چار بجے سے شروع ہو جاتا ہے۔ جبکہ احناف کے ہاں غالبا ساڑھے پانچ بجے نماز عصر پڑھی جاتی ہے۔ تو عصر کے وقت کے غلط فیصلے سے یہ گھڑی ڈھونڈنے کی خواہش رکھنے والے بھی بہت سارا وقت ضائع نہیں کر دیتے؟

مجھے اظہار مدعا پر عبور حاصل نہیں ہے۔ اس لئے ٹوٹے پھوٹے الفاظ میں اپنی بات واضح کرنے کی کوشش کی ہے ۔ امید ہے آپ سمجھ سکے ہوں گے۔
 

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,684
ری ایکشن اسکور
751
پوائنٹ
290
جزاک اللہ خیرا بھائی۔
لیکن جب مثل اول سے عصر کا وقت شروع ہونے کی صریح احادیث موجود ہیں۔ اور ان کی صراحت کے علمائے احناف بھی معترف ہیں۔ اور دوسری جانب صلوٰۃ الوسطیٰ کی حفاظت والی قرآنی آیت، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صحیح حدیث کہ منافق نماز عصر کے لئے سورج زرد ہونے کا انتظار کرتا ہے ، کیا یہ احادیث عصر کی نماز کو تاخیر سے ادا کرنے میں مانع نہیں۔۔۔؟

نماز عصر کے درست وقت کی اہمیت کا احساس مجھے دو وجوہات سے ہوا:

1۔ دوران حج جب خود ہمارے گروپ کے حنفی حضرات نماز عصر کو اول وقت پر ادا کرتے تھے تو مجھے حیرت ہوتی تھی کہ ان دنوں میں کیونکر نماز کا وقت بدل دیتے ہیں؟ خصوصیت سے منیٰ کے دنوں میں کہ جب مسجد کے بجائے کیمپ میں ہی الگ الگ نماز پڑھی جاتی تھی۔ اور یہ احساس میدان عرفات میں اور بھی شدت سے ہوا کیونکہ وہاں ہم نے ظہر و عصر ملا کر پڑھی جبکہ انہوں نے اپنے وقت پر عصر کی نماز ادا کی۔ لیکن وہ وقت بھی وہی تھا یعنی مثل اول۔ اور اس مجبوری کی وجہ غالباً یہ بھی تھی کہ مغرب تک زیادہ سے زیادہ وقت دعا میں گزارا جا سکے۔

2۔ وہ حدیث جس میں جمعہ کے دن دعا کی قبولیت کی گھڑی کا ذکر ہے۔ اور راجح قول کے مطابق یہ گھڑی عصر سے مغرب کے دوران ہوتی ہے۔ تو میں یہ سوچتا ہوں کہ ہمارا وقت تو کراچی میں آج کل کے حساب سے چار سوا چار بجے سے شروع ہو جاتا ہے۔ جبکہ احناف کے ہاں غالبا ساڑھے پانچ بجے نماز عصر پڑھی جاتی ہے۔ تو عصر کے وقت کے غلط فیصلے سے یہ گھڑی ڈھونڈنے کی خواہش رکھنے والے بھی بہت سارا وقت ضائع نہیں کر دیتے؟

مجھے اظہار مدعا پر عبور حاصل نہیں ہے۔ اس لئے ٹوٹے پھوٹے الفاظ میں اپنی بات واضح کرنے کی کوشش کی ہے ۔ امید ہے آپ سمجھ سکے ہوں گے۔


جزاک اللہ بھائی میں سمجھ گیا۔ وضاحت سے عرض کرتا ہوں۔

لیکن جب مثل اول سے عصر کا وقت شروع ہونے کی صریح احادیث موجود ہیں۔ اور ان کی صراحت کے علمائے احناف بھی معترف ہیں۔ اور دوسری جانب صلوٰۃ الوسطیٰ کی حفاظت والی قرآنی آیت، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صحیح حدیث کہ منافق نماز عصر کے لئے سورج زرد ہونے کا انتظار کرتا ہے ، کیا یہ احادیث عصر کی نماز کو تاخیر سے ادا کرنے میں مانع نہیں۔۔۔؟
مثلین کا وقت دنیا کے اکثر علاقوں میں سورج زرد ہونے سے ایک گھنٹہ یا کم از کم پونا گھنٹہ پہلے ہوجاتا ہے۔ آج کل عصر کی اذان تقریبا پانچ بجے ہو رہی ہے اور مغرب تقریبا ساڑھے چھ بجے۔ اصفرار شمس اسی حساب سے تقریبا سوا چھ بجے کے قریب ہوتا ہے۔ اس لیے اس حدیث کا اطلاق نہیں ہوتا۔ اصفرار شمس (سورج كے زرد ہونے) کے وقت کا انتظار کر کے اس میں نماز پڑھنا احناف کے نزدیک بھی مکروہ ہے۔ چوں کہ اتنا طویل وقت باقی ہوتا ہے اس لیے صلوۃ الوسطی کی حفاظت بھی رہتی ہے۔ یہ ضائع نہیں ہوتی۔ بلکہ یوں کہا جائے کہ احتیاط کے ساتھ سب پر عمل ہوجاتا ہے تو زیادہ مناسب ہے۔
جن علاقوں میں مثلین اصفرار شمس کے قریب ہو (شاید فن لینڈ یا انٹارکٹیکا کے قریب کہیں ہو) وہاں مثل اول پر ہی ادا کی جائے گی۔ خاص طور پر جب کہ مثلین کو ترجیح احتیاط کی وجہ سے دی گئی ہو تو اس احتیاط کے لیے نماز ضائع نہیں کی جا سکتی۔ اس لیے مثل اول میں ہی ادا کی جائے گی۔
اسی طرح کسی کو کوئی عذر شرعی ہو جیسے سفر درپیش ہو اور یہ گمان ہو کہ سفر میں موقع نہیں ملے گا تو مثل اول میں ہی ادا کرے۔

یہاں یہ یاد رہے کہ مثلین پر بھی دلائل موجود ہیں لیکن مثل اول دلائل کی بنیاد پر راجح ہے اکثر علماء کے نزدیک۔ بغیر دلائل کے مثلین کا قول نہیں کیا جاتا۔


نماز عصر کے درست وقت کی اہمیت کا احساس مجھے دو وجوہات سے ہوا:
1۔ دوران حج جب خود ہمارے گروپ کے حنفی حضرات نماز عصر کو اول وقت پر ادا کرتے تھے تو مجھے حیرت ہوتی تھی کہ ان دنوں میں کیونکر نماز کا وقت بدل دیتے ہیں؟ خصوصیت سے منیٰ کے دنوں میں کہ جب مسجد کے بجائے کیمپ میں ہی الگ الگ نماز پڑھی جاتی تھی۔ اور یہ احساس میدان عرفات میں اور بھی شدت سے ہوا کیونکہ وہاں ہم نے ظہر و عصر ملا کر پڑھی جبکہ انہوں نے اپنے وقت پر عصر کی نماز ادا کی۔ لیکن وہ وقت بھی وہی تھا یعنی مثل اول۔ اور اس مجبوری کی وجہ غالباً یہ بھی تھی کہ مغرب تک زیادہ سے زیادہ وقت دعا میں گزارا جا سکے۔

جی۔ اس کی وجہ یہی ہے کہ یہ راجح ہے یعنی مثل اول اور احتیاط مثلین میں ہے۔ لیکن ضرورت کے وقت مثل اول کو اختیار کیا جا سکتا ہے۔ واللہ اعلم
بہت سے لوگ وہاں بھی مثلین میں ہی نماز پڑھتے ہیں۔ جب یہ بھی عبادت ہی ہے تو اسے مثلین میں پڑھنے میں بھی کوئی حرج معلوم نہیں ہوتا۔ دعا کے دوران میں ہی اس کے لیے بھی وقت نکالا جا سکتا ہے۔

2۔ وہ حدیث جس میں جمعہ کے دن دعا کی قبولیت کی گھڑی کا ذکر ہے۔ اور راجح قول کے مطابق یہ گھڑی عصر سے مغرب کے دوران ہوتی ہے۔ تو میں یہ سوچتا ہوں کہ ہمارا وقت تو کراچی میں آج کل کے حساب سے چار سوا چار بجے سے شروع ہو جاتا ہے۔ جبکہ احناف کے ہاں غالبا ساڑھے پانچ بجے نماز عصر پڑھی جاتی ہے۔ تو عصر کے وقت کے غلط فیصلے سے یہ گھڑی ڈھونڈنے کی خواہش رکھنے والے بھی بہت سارا وقت ضائع نہیں کر دیتے؟
ایسے ہی ایک سوال کا جواب اس رمضان میں میں نے دیا تھا۔ سوال یہ تھا کہ سعودی عرب اور ہمارے یہاں اکثر تاریخ رمضان کا فرق ہوتا ہے تو جس دن آخری عشرے کی طاق رات وہاں ہوتی ہے یہاں نہیں ہوتی۔ جیسے پچیسویں شب وہاں ہوگی تو یہاں چوبیسویں ہوگی۔ تو شب قدر کا ثواب کسے ملے گا؟ میں نے کہا کہ ثواب اللہ پاک نے دینا ہے اور وہ جانتا ہے کہ ہم بھی اپنی حد تک بالکل خیال سے درست عمل کرتے ہیں اور وہ بھی۔ تو پھر کیا وجہ ہے کہ ہمیں یا انہیں اللہ پاک ثواب نہیں دے۔ جبکہ اللہ کے خزانے میں کوئی کمی نہیں ہے۔ تو اسی طرح یہاں بھی عصر جو جس وقت پڑھنا زیادہ درست سمجھتا ہے اللہ پاک اس کی نیت سے واقف ہے۔ اس کے ساتھ اسی طرح معاملہ ہوگا۔

باقی جس قول کے مطابق عصر سے مغرب کے درمیانی وقت میں یہ گھڑی ہے اس میں اکثر علماء نے عصر کے آخری وقت کو مراد لیا ہے جسے ہم اصفرار شمس کہتے ہیں۔ اس لیے نماز جلدی پڑھی جائے یا دیر سے کچھ اثر نہیں ہوتا۔
واللہ اعلم بالصواب۔

اگر کہیں کوئی اجمال ہو تو بلا جھجھک بیان کیجیے گا۔
 

شاکر

تکنیکی ناظم
رکن انتظامیہ
شمولیت
جنوری 08، 2011
پیغامات
6,595
ری ایکشن اسکور
21,396
پوائنٹ
891
جی۔ اس کی وجہ یہی ہے کہ یہ راجح ہے یعنی مثل اول اور احتیاط مثلین میں ہے۔ لیکن ضرورت کے وقت مثل اول کو اختیار کیا جا سکتا ہے۔ واللہ اعلم
۔۔۔۔۔
اگر کہیں کوئی اجمال ہو تو بلا جھجھک بیان کیجیے گا۔

دو اشکالات ہیں۔

ایک تو یہ کہ اگر علمائے احناف کے نزدیک بھی متفقہ طور پر راجح وقت مثل اول ہی ہے تو عوام الناس تک یہ آواز کیوں نہیں پہنچائی جاتی؟ بلکہ آج نماز کی کوئی سی بھی کتاب اٹھا کر دیکھ لیں، کسی خطیب کی تقریر لے لیں۔ اہلحدیث دشمنی میں اس راجح اور قوی مذہب کی مخالفت کی جاتی ہے یا نہیں؟

ٹھیک ہے احتیاط اپنی جگہ۔ لیکن کیا کبھی اس راجح اور قوی مذہب پر بھی باجماعت عمل کیا جاتا ہے؟ اگر دونوں ہی مؤقف درست ہیں، بلکہ مثل اول والا دلائل کے اعتبار سے بھی راجح ہے، صاحبین کا بھی فتویٰ اسی پر ہے، دیگر ائمہ بھی اس پر متفق ہیں۔ تو امت میں اختلاف و انتشار پیدا کرنا کیا ضروری ہے؟ اسی ایک مسئلے کی حد تک ہی امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کی تقلید چھوڑ کر اور اتفاق امت کی خاطر دلائل اور دیگر ائمہ کرام کے متفقہ قول کو کیوں نہیں لے لیا جاتا؟

یہ مسئلہ یہاں ہندوستان پاکستان میں اہلحدیث کے لئے تو سنگین ہے کہ مثلا میں آفس میں آج کل چار بجے کے قریب نماز کے لئے اٹھ جاتا ہوں، تو لوگ عجیب حیرت سے دیکھتے ہیں۔انہیں سمجھانے کی خاطر میں یہ بتاتا ہوں کہ حرمین میں بھی اسی وقت پر نماز ادا کی جاتی ہے۔نماز بنیادی معاملہ ہے۔ اس میں جتنا اختلاف ہوگا وہ ایک دوسرے سے دوری کا ہی ذریعہ بنے گا۔ خودبخود فاصلے بڑھ جاتے ہیں۔ وہ اس طرح کہ دیگر نمازوں میں ہم ایک دوسرے کے ساتھ بھی اور پیچھے بھی نماز پڑھ لیتے ہیں۔ لیکن عصر کی نماز کے لئے، اگر میں اول وقت ، راجح و قوی مذہب پر عمل کرنا چاہوں تو باجماعت نماز رہ جاتی ہے۔ اور باجماعت نماز کا سوچوں تو ہمیشہ نماز تاخیر سے پڑھنا لازم آتا ہے۔

لیکن جو حنفی حضرات ایسے ممالک میں موجود ہوں، جہاں باجماعت نماز اسی راجح اور قوی مذہب کے مطابق مثل اول میں ادا کی جاتی ہے، کم سے کم وہاں ہی حنفی عوام کو اختیار دے دیا جاتا کہ وہ مثل اول میں ادا کریں، بلکہ انہیں یہ بھی بتانا چاہئے کہ یہی وقت راجح اور قوی دلائل سے ثابت ہے۔ لیکن حیرت ہے کہ اس کے بالکل الٹ فتوے دئے جاتے ہیں۔ مثال کے طور پر:

http://darulifta-deoband.org/showuserview.do?function=answerView&all=ur&id=21110

یہاں کویت میں ساری مساجد میں عصر کی نماز شافعی وقت کے مطابق ہوتی ہے۔ اگر ہمیں باجماعت نماز پڑھنا ہو تو حنفی وقت تو شروع ہی نہیں ہوتا۔ نماز باجماعت کیسے پڑھیں؟ کیا ایسی صورت نکل سکتی ہے کہ جماعت سے نماز نہ پڑھیں اور مسجد میں ہی حنفی وقت کا انتظار کریں او رجب حنفی وقت ہو جائے او رکوئی آدمی مسجد میں آجائے جس نے عصر نہیں پڑھی ہو تو اس کے ساتھ مسجد ہی میں دوسری جماعت کرلی جائے؟ لیکن مسجد میں دوسری جماعت کرنا مکروہ تحریمی ہے؟ کیا کوئی صورت نکل سکتی ہے یا پھر شافعی وقت کے مطابق ہی پہلی جماعت سے نماز پڑھیں؟
Apr 18,2010 Answer: 21110
فتوی(م): 574=574-5/1431
مسجد میں دوسری جماعت نہ کریں کیوں کہ یہ مکروہ ہے، حنفیہ میں سے صاحبین کے نزدیک مثل اول پر عصر کا وقت ہوجاتا ہے بنا بریں اگر کبھی شافعی وقت کے مطابق عصر کی نماز پڑھ لیں تو صاحبین کے قول کے مطابق اگرچہ نماز ہوجائے گی لیکن مفتی بہ قول کے مطابق چونکہ مثلین پر عصر کا وقت شروع ہوتا ہے، اس لیے حنفی وقت کا انتظار کرلیں اور دوچار حنفی حضرات جمع ہوکر الگ خارج مسجد یا کسی مناسب مقام پر جماعت کرلیا کریں۔
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء، دارالعلوم دیوبند

http://darulifta-deoband.org/showuserview.do?function=answerView&all=ur&id=26363
میں حنفی مسلک پر عمل کرتاہوں، کیا میں شافعی یا حنبلی امام کے پیچھے عصر کی نماز پڑھ سکتاہوں؟ چونکہ ان کا وقت حنفی مسلک سے مختلف ہے ۔
(۲) کیا عصر کے علاوہ کسی نماز میں فرق ہے؟ دبئی میں اکثر مساجد شافعی ہیں یا حنبلی ہیں، اس لیے نماز کا وقت ہوتے ہی اذان دی جاتی ہے، کیا شافعی یا حنبلی مسلک کے مطابق اذان ختم ہوتے ہی میں تنہا عصر کی نماز پڑھ سکتاہوں؟
Oct 21,2010 Answer: 26363
فتوی(ل): 1643=1186-11/1431
(۱) صورت مسئولہ میں جب حنفی مسلک کے اعتبار سے عصر کی نماز کا وقت ہو اس وقت آپ نماز ادا کیا کریں، اگر ایک دو حضرات اور مل جائیں تو جماعت کرلیا کریں، ورنہ تنہا پڑھ لیں، مستقل طور پر شافعی یا حنبلی امام کی اقتداء میں عصر کی نماز نہ ادا کریں، اتفاقاً اگر کبھی پڑھ لیں تو اس کی گنجائش ہے۔
(۲) عصر کے علاوہ دیگر نمازوں کے اوقات میں اختلاف نہیں ہے، البتہ وہ کچھ نمازوں کو اولِ وقت میں ادا کرتے ہیں، ہم کچھ تاخیر سے ادا کرتے ہیں، مگر وقت اس نماز کا شروع ہوچکا ہوتا ہے اس لیے آپ دیگر نمازیں ان کی اقتداء ہی میں ادا کریں، تنہا نہ پڑھیں۔
(۳) وہاں عصر کی اذان ہوتے ہی آپ کے لیے تنہا عصر کی نماز پڑھنا صحیح نہیں بلکہ آپ توقف کریں اورمثلین کے بعد عصر کی نماز ادا کریں۔
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء، دارالعلوم دیوبند


ملاحظہ کیجئے۔ حدیث سے ایک مسئلہ ثابت ہے۔ معتدل علمائے احناف اسے راجح و قوی قرار دے رہے ہیں۔ صاحبین کا فتویٰ بھی اسی پر ہے۔ دیگر ائمہ بھی اسی پر متفق ہیں۔ اس کے باوجود ایک شاذ قول کو مفتی بہ اور احتیاط قرار دے کر اس پر زندگی بھر عمل کیا جاتا ہے، اسی کی تبلیغ کی جاتی ہے، بلکہ مخالفین کی تردید بھی کی جاتی ہے۔ عوام کو راجح وقت پر باجماعت نماز پڑھنے سے بھی روکا جاتا ہے۔ ایک تو باجماعت نماز کا ثواب گیا، دوسرے اول وقت کی فضیلت بھی گئی اور ہاتھ کیا آیا، نام نہاد احتیاط والا مسئلہ۔
 

شاکر

تکنیکی ناظم
رکن انتظامیہ
شمولیت
جنوری 08، 2011
پیغامات
6,595
ری ایکشن اسکور
21,396
پوائنٹ
891
اور دوسرا اشکال یہ ہے کہ اگر مرجوح پر اس بنیاد پر عمل کیا جا سکتا ہے کہ اس میں احتیاط ہے۔ تو یہی معاملہ دیگر اختلافی مسائل میں کیوں نہیں اختیار کر لیا جاتا۔

مثلاً رکوع کے وقت کا اختلافی رفع الیدین کرنا یا نہ کرنا، اس میں اکثر معتدل علمائے احناف کے نزدیک راجح مرجوح، یا افضل و غیر افضل کا اختلاف ہے۔ احتیاط تو اسی میں ہی ہے کہ کر لیا جائے۔ چاہے دلائل کے اعتبار سے آپ اسے مرجوح ہی سمجھیں۔

اس سے آگے بڑھیں تو قراءت خلف الامام کا انتہائی سنگین و نازک مسئلہ ہے۔ احتیاط تو اسی میں ہے کہ مقتدی بھی سورہ فاتحہ پڑھ لیا کرے، چاہے مرجوح ہی کیوں نہ سمجھتا ہو، تاکہ روز قیامت کہیں ساٹھ ستر سال کی باجماعت نمازیں ہباً منثوراً نہ کر دی جائیں کہ سورہ فاتحہ کے بغیر نماز نہیں قبول کی جاتی۔ پڑھ لینے میں تو حرج نہیں، جبکہ دلائل فاتحہ پڑھنے والوں کے پاس بھی ہیں، آپ کے نزدیک مرجوح ہیں تو کیا ہوا۔۔؟ احتیاط تو اسی میں ہی ہے نا؟

اس سے بھی آگے بڑھیں۔ سماع موتیٰ کا سنگین مسئلہ ہے جو عقیدے سے متعلق ہے بلکہ شرک کی پہلی سیڑھی کہا جائے تو غلط نہیں ہو سکتا۔ احتیاط تو اسی میں ہے کہ یہ مؤقف اختیار کیا جائے کہ مردے نہیں سنتے، اور احادیث سے جن مقامات پر اور جس قدر مردوں کا سننا ثابت ہے، اسے استثناء کی حیثیت دی جائے، نا کہ اسی کو اصل مان کر ہمہ وقت مردوں کے سننے کا عقیدہ رکھا جائے۔ آپ بھی مانتے ہیں کہ سماع موتیٰ کا مسئلہ اختلافی ہے اور طرفین کے پاس اپنے اپنے دلائل ہیں۔ تو احتیاط کس میں ہے یہ آپ فرما دیں؟ اور اسی کو اختیار کرنے میں آخر حرج کیا ہے؟ جبکہ شرک کا چور دروازہ بند ہو جانا بونس میں مل رہا ہے۔

مُردوں سے مدد مانگنا شرک ہے۔ تو مدد کی تعریف میں دنیوی و دینی کی قید لگا کر، دنیوی مدد مانگنے کو شرک اور دینی مدد یا آخرت میں مدد کو جائز و درست مانتے ہوئے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے براہ راست شفاعت طلب کرنا، یہ احتیاط والا معاملہ ہے؟ یا شرک میں مبتلا ہو جانا ہے۔
 

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,684
ری ایکشن اسکور
751
پوائنٹ
290
دو اشکالات ہیں۔

ایک تو یہ کہ اگر علمائے احناف کے نزدیک بھی متفقہ طور پر راجح وقت مثل اول ہی ہے تو عوام الناس تک یہ آواز کیوں نہیں پہنچائی جاتی؟ بلکہ آج نماز کی کوئی سی بھی کتاب اٹھا کر دیکھ لیں، کسی خطیب کی تقریر لے لیں۔ اہلحدیث دشمنی میں اس راجح اور قوی مذہب کی مخالفت کی جاتی ہے یا نہیں؟

ٹھیک ہے احتیاط اپنی جگہ۔ لیکن کیا کبھی اس راجح اور قوی مذہب پر بھی باجماعت عمل کیا جاتا ہے؟ اگر دونوں ہی مؤقف درست ہیں، بلکہ مثل اول والا دلائل کے اعتبار سے بھی راجح ہے، صاحبین کا بھی فتویٰ اسی پر ہے، دیگر ائمہ بھی اس پر متفق ہیں۔ تو امت میں اختلاف و انتشار پیدا کرنا کیا ضروری ہے؟ اسی ایک مسئلے کی حد تک ہی امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کی تقلید چھوڑ کر اور اتفاق امت کی خاطر دلائل اور دیگر ائمہ کرام کے متفقہ قول کو کیوں نہیں لے لیا جاتا؟

یہ مسئلہ یہاں ہندوستان پاکستان میں اہلحدیث کے لئے تو سنگین ہے کہ مثلا میں آفس میں آج کل چار بجے کے قریب نماز کے لئے اٹھ جاتا ہوں، تو لوگ عجیب حیرت سے دیکھتے ہیں۔انہیں سمجھانے کی خاطر میں یہ بتاتا ہوں کہ حرمین میں بھی اسی وقت پر نماز ادا کی جاتی ہے۔نماز بنیادی معاملہ ہے۔ اس میں جتنا اختلاف ہوگا وہ ایک دوسرے سے دوری کا ہی ذریعہ بنے گا۔ خودبخود فاصلے بڑھ جاتے ہیں۔ وہ اس طرح کہ دیگر نمازوں میں ہم ایک دوسرے کے ساتھ بھی اور پیچھے بھی نماز پڑھ لیتے ہیں۔ لیکن عصر کی نماز کے لئے، اگر میں اول وقت ، راجح و قوی مذہب پر عمل کرنا چاہوں تو باجماعت نماز رہ جاتی ہے۔ اور باجماعت نماز کا سوچوں تو ہمیشہ نماز تاخیر سے پڑھنا لازم آتا ہے۔

لیکن جو حنفی حضرات ایسے ممالک میں موجود ہوں، جہاں باجماعت نماز اسی راجح اور قوی مذہب کے مطابق مثل اول میں ادا کی جاتی ہے، کم سے کم وہاں ہی حنفی عوام کو اختیار دے دیا جاتا کہ وہ مثل اول میں ادا کریں، بلکہ انہیں یہ بھی بتانا چاہئے کہ یہی وقت راجح اور قوی دلائل سے ثابت ہے۔ لیکن حیرت ہے کہ اس کے بالکل الٹ فتوے دئے جاتے ہیں۔ مثال کے طور پر:

http://darulifta-deoband.org/showuserview.do?function=answerView&all=ur&id=21110

یہاں کویت میں ساری مساجد میں عصر کی نماز شافعی وقت کے مطابق ہوتی ہے۔ اگر ہمیں باجماعت نماز پڑھنا ہو تو حنفی وقت تو شروع ہی نہیں ہوتا۔ نماز باجماعت کیسے پڑھیں؟ کیا ایسی صورت نکل سکتی ہے کہ جماعت سے نماز نہ پڑھیں اور مسجد میں ہی حنفی وقت کا انتظار کریں او رجب حنفی وقت ہو جائے او رکوئی آدمی مسجد میں آجائے جس نے عصر نہیں پڑھی ہو تو اس کے ساتھ مسجد ہی میں دوسری جماعت کرلی جائے؟ لیکن مسجد میں دوسری جماعت کرنا مکروہ تحریمی ہے؟ کیا کوئی صورت نکل سکتی ہے یا پھر شافعی وقت کے مطابق ہی پہلی جماعت سے نماز پڑھیں؟
Apr 18,2010 Answer: 21110
فتوی(م): 574=574-5/1431
مسجد میں دوسری جماعت نہ کریں کیوں کہ یہ مکروہ ہے، حنفیہ میں سے صاحبین کے نزدیک مثل اول پر عصر کا وقت ہوجاتا ہے بنا بریں اگر کبھی شافعی وقت کے مطابق عصر کی نماز پڑھ لیں تو صاحبین کے قول کے مطابق اگرچہ نماز ہوجائے گی لیکن مفتی بہ قول کے مطابق چونکہ مثلین پر عصر کا وقت شروع ہوتا ہے، اس لیے حنفی وقت کا انتظار کرلیں اور دوچار حنفی حضرات جمع ہوکر الگ خارج مسجد یا کسی مناسب مقام پر جماعت کرلیا کریں۔
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء، دارالعلوم دیوبند

http://darulifta-deoband.org/showuserview.do?function=answerView&all=ur&id=26363
میں حنفی مسلک پر عمل کرتاہوں، کیا میں شافعی یا حنبلی امام کے پیچھے عصر کی نماز پڑھ سکتاہوں؟ چونکہ ان کا وقت حنفی مسلک سے مختلف ہے ۔
(۲) کیا عصر کے علاوہ کسی نماز میں فرق ہے؟ دبئی میں اکثر مساجد شافعی ہیں یا حنبلی ہیں، اس لیے نماز کا وقت ہوتے ہی اذان دی جاتی ہے، کیا شافعی یا حنبلی مسلک کے مطابق اذان ختم ہوتے ہی میں تنہا عصر کی نماز پڑھ سکتاہوں؟
Oct 21,2010 Answer: 26363
فتوی(ل): 1643=1186-11/1431
(۱) صورت مسئولہ میں جب حنفی مسلک کے اعتبار سے عصر کی نماز کا وقت ہو اس وقت آپ نماز ادا کیا کریں، اگر ایک دو حضرات اور مل جائیں تو جماعت کرلیا کریں، ورنہ تنہا پڑھ لیں، مستقل طور پر شافعی یا حنبلی امام کی اقتداء میں عصر کی نماز نہ ادا کریں، اتفاقاً اگر کبھی پڑھ لیں تو اس کی گنجائش ہے۔
(۲) عصر کے علاوہ دیگر نمازوں کے اوقات میں اختلاف نہیں ہے، البتہ وہ کچھ نمازوں کو اولِ وقت میں ادا کرتے ہیں، ہم کچھ تاخیر سے ادا کرتے ہیں، مگر وقت اس نماز کا شروع ہوچکا ہوتا ہے اس لیے آپ دیگر نمازیں ان کی اقتداء ہی میں ادا کریں، تنہا نہ پڑھیں۔
(۳) وہاں عصر کی اذان ہوتے ہی آپ کے لیے تنہا عصر کی نماز پڑھنا صحیح نہیں بلکہ آپ توقف کریں اورمثلین کے بعد عصر کی نماز ادا کریں۔
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء، دارالعلوم دیوبند


ملاحظہ کیجئے۔ حدیث سے ایک مسئلہ ثابت ہے۔ معتدل علمائے احناف اسے راجح و قوی قرار دے رہے ہیں۔ صاحبین کا فتویٰ بھی اسی پر ہے۔ دیگر ائمہ بھی اسی پر متفق ہیں۔ اس کے باوجود ایک شاذ قول کو مفتی بہ اور احتیاط قرار دے کر اس پر زندگی بھر عمل کیا جاتا ہے، اسی کی تبلیغ کی جاتی ہے، بلکہ مخالفین کی تردید بھی کی جاتی ہے۔ عوام کو راجح وقت پر باجماعت نماز پڑھنے سے بھی روکا جاتا ہے۔ ایک تو باجماعت نماز کا ثواب گیا، دوسرے اول وقت کی فضیلت بھی گئی اور ہاتھ کیا آیا، نام نہاد احتیاط والا مسئلہ۔


بھائی فی الحال ذرا مختصرا جواب دیتا ہوں۔
ایک تو یہ کہ اگر علمائے احناف کے نزدیک بھی متفقہ طور پر راجح وقت مثل اول ہی ہے تو عوام الناس تک یہ آواز کیوں نہیں پہنچائی جاتی؟ بلکہ آج نماز کی کوئی سی بھی کتاب اٹھا کر دیکھ لیں، کسی خطیب کی تقریر لے لیں۔ اہلحدیث دشمنی میں اس راجح اور قوی مذہب کی مخالفت کی جاتی ہے یا نہیں؟
مجھے یہ علم نہیں کہ متفقہ طور پر یہ وقت راجح ہے یا نہیں۔ میں نے اپنی رائے کی بنیاد پر کہا ہے۔ بہر حال بعض لوگ غلو میں آگے بڑھ جاتے ہیں ان کا کچھ نہیں کیا جاسکتا۔
اگر فتوی کسی مقام کے علماء کا دوسرے قول پر ہے چاہے احتیاط کی ہی بنا پر تو وہ احتیاط تو باقی ہی رہتی ہے اس لیے کبھی کبھار پڑھ لی جائے تو ٹھیک لیکن مستقل سے منع کریں گے کیوں کہ احتیاط اس کے خلاف میں ہے۔ یہ اردو والی احتیاط نہیں ہے جو دوائی کی بوتلوں پر بچوں سے دور رکھنے کے بارے میں لکھی ہوتی ہے بلکہ ایک مسئلہ میں نماز ہونے یا نہ ہونے کے اختلاف میں احتیاط ہے اس لیے مستقل عادت بنانا کیسے درست ہو سکتا ہے؟ احتیاط کا مطلب ہی یہ ہے کہ جب ایک قول اس وقت کا ہے تو ایسا نہ ہو کہ اس سے پہلے پڑھنے میں نماز نہ ہو۔ جب کہ مقلد بھی ابو حنیفہ کے ہی ہیں۔ اس لیے مستقل عادت سے منع کیا گیا ہے غالبا۔
بعض مسائل میں میرا یہ تجربہ ہوا ہے کہ دارالافتا دیوبند جو اس سائٹ پر ہے کافی سخت ہے اور کچھ عجیب سے فتاوی بھی دیتے ہیں یہ۔ اس لیے میں ان کے معاملے میں خاموش رہتا ہوں۔ اگر آپ اسی مسئلے کو ان کے بجائے مفتی تقی عثمانی صاحب سے تفصیلا معلوم کر لیں تو اچھی وضاحت ہو جائے گی۔

نام نہاد احتیاط والا مسئلہ۔
یہ دین کا مسئلہ ہے برادر۔ اسے نام نہاد کیسے کہہ سکتے ہیں؟ احتیاط ایک باقاعدہ وجہ ترجیح ہے کسی جانب کے دلائل کے راجح ہونے کے لیے۔

اور دوسرا اشکال یہ ہے کہ اگر مرجوح پر اس بنیاد پر عمل کیا جا سکتا ہے کہ اس میں احتیاط ہے۔ تو یہی معاملہ دیگر اختلافی مسائل میں کیوں نہیں اختیار کر لیا جاتا۔
مثلاً رکوع کے وقت کا اختلافی رفع الیدین کرنا یا نہ کرنا، اس میں اکثر معتدل علمائے احناف کے نزدیک راجح مرجوح، یا افضل و غیر افضل کا اختلاف ہے۔ احتیاط تو اسی میں ہی ہے کہ کر لیا جائے۔ چاہے دلائل کے اعتبار سے آپ اسے مرجوح ہی سمجھیں۔
[/hl]


احتیاط کس قسم کی؟ افضل و مفضول میں احتیاط کس چیز کی؟

اس سے آگے بڑھیں تو قراءت خلف الامام کا انتہائی سنگین و نازک مسئلہ ہے۔ احتیاط تو اسی میں ہے کہ مقتدی بھی سورہ فاتحہ پڑھ لیا کرے، چاہے مرجوح ہی کیوں نہ سمجھتا ہو، تاکہ روز قیامت کہیں ساٹھ ستر سال کی باجماعت نمازیں ہباً منثوراً نہ کر دی جائیں کہ سورہ فاتحہ کے بغیر نماز نہیں قبول کی جاتی۔ پڑھ لینے میں تو حرج نہیں، جبکہ دلائل فاتحہ پڑھنے والوں کے پاس بھی ہیں، آپ کے نزدیک مرجوح ہیں تو کیا ہوا۔۔؟ احتیاط تو اسی میں ہی ہے نا؟
اس میں چوں کہ راجح دلائل اس طرف ہیں کہ نہ پڑھی جائے اور پڑھی جانے کی صورت میں بعض فاسد بھی قرار دیتے ہیں غالبا۔ ورنہ نص قرآنی اور احادیث کی مخالفت تو ہوتی ہی ہے اس لیے احتیاط اسی جانب ہے کہ نہ پڑھی جائے۔
دونوں مسئلوں میں فرق سمجھیں۔ مثلین پر عصر پڑھنے سے کسی کے نزدیک عصر خراب نہیں ہوتی اور مثل اول پر پڑھنے سے ابو حنیفہؒ کے نزدیک عصر نہیں ہوتی۔ اب احتیاط اس مقام پر ہے جہاں کسی کے نزدیک عصر پر اثر نہیں پڑتا۔
جب کہ قراءت میں ایسا نہیں ہے۔ بلکہ نہیں کی تو ایک کے نزدیک نماز نہیں ہوگی۔ اور کرلی تو دوسرے کے نزدیک قرآن و حدیث کے خلاف ہو جائے گا۔ یہ آسان انداز میں سمجھایا ہے۔ ورنہ تفصیلا یہ بھی کہا جائے گا کہ قرآءت نہ کرنے کی صورت میں دونوں قسم کے دلائل میں تطبیق کی گئی ہے جب کہ کرنے کی صورت میں ایک طرف کی حدیث (من کان لہ امام) کو چھوڑنا پڑتا ہے۔ لہذا ہمارے نزدیک احتیاط بھی نہ کرنے میں ہے۔
جب کہ عصر میں غالبا ایسا کوئی معاملہ نہیں اور سب کے نزدیک مثلین پر ہو جاتی ہے تو جس میں سب متفق ہیں وہ زیادہ محتاط ہے۔


اس سے بھی آگے بڑھیں۔ سماع موتیٰ کا سنگین مسئلہ ہے جو عقیدے سے متعلق ہے بلکہ شرک کی پہلی سیڑھی کہا جائے تو غلط نہیں ہو سکتا۔ احتیاط تو اسی میں ہے کہ یہ مؤقف اختیار کیا جائے کہ مردے نہیں سنتے، اور احادیث سے جن مقامات پر اور جس قدر مردوں کا سننا ثابت ہے، اسے استثناء کی حیثیت دی جائے، نا کہ اسی کو اصل مان کر ہمہ وقت مردوں کے سننے کا عقیدہ رکھا جائے۔ آپ بھی مانتے ہیں کہ سماع موتیٰ کا مسئلہ اختلافی ہے اور طرفین کے پاس اپنے اپنے دلائل ہیں۔ تو احتیاط کس میں ہے یہ آپ فرما دیں؟ اور اسی کو اختیار کرنے میں آخر حرج کیا ہے؟ جبکہ شرک کا چور دروازہ بند ہو جانا بونس میں مل رہا ہے۔
مُردوں سے مدد مانگنا شرک ہے۔ تو مدد کی تعریف میں دنیوی و دینی کی قید لگا کر، دنیوی مدد مانگنے کو شرک اور دینی مدد یا آخرت میں مدد کو جائز و درست مانتے ہوئے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے براہ راست شفاعت طلب کرنا، یہ احتیاط والا معاملہ ہے؟ یا شرک میں مبتلا ہو جانا ہے۔

سماع موتی صحابہ کرام سے مختلف فیہ ہے۔ اور انہوں نے بھی اس احتیاط کو اختیار نہیں کیا۔ دلائل بھی مضبوط ہیں۔صرف احتیاط کے لیے مضبوط اور باقاعدہ دلائل کو "ترک" کیسے کیا جاسکتا ہے؟ جب کہ عصر میں دلائل کا نتیجہ صرف یہ ہے کہ مثل اول پر وقت ہو جاتا ہے۔ کوئی مثل ثانی پر پڑھے تو اس پر نکیر کسی جگہ نہیں اور نہ اس سے کسی دلیل کو "ترک" کرنا پڑتا ہے بلکہ مثل اول اور ثانی دونوں کے دلائل پر ایک ساتھ عمل ہوتا ہے۔ اس لیے احتیاط اس میں ہے۔
 
Top