• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

نماز عصر کا وقت ایک مثل پر

عبدہ

سینئر رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 01، 2013
پیغامات
2,038
ری ایکشن اسکور
1,225
پوائنٹ
425
اس سے بھی آگے بڑھیں۔ سماع موتیٰ کا سنگین مسئلہ ہے جو عقیدے سے متعلق ہے بلکہ شرک کی پہلی سیڑھی کہا جائے تو غلط نہیں ہو سکتا۔ احتیاط تو اسی میں ہے کہ یہ مؤقف اختیار کیا جائے کہ مردے نہیں سنتے، اور احادیث سے جن مقامات پر اور جس قدر مردوں کا سننا ثابت ہے، اسے استثناء کی حیثیت دی جائے، نا کہ اسی کو اصل مان کر ہمہ وقت مردوں کے سننے کا عقیدہ رکھا جائے۔ آپ بھی مانتے ہیں کہ سماع موتیٰ کا مسئلہ اختلافی ہے اور طرفین کے پاس اپنے اپنے دلائل ہیں۔ تو احتیاط کس میں ہے یہ آپ فرما دیں؟ اور اسی کو اختیار کرنے میں آخر حرج کیا ہے؟ جبکہ شرک کا چور دروازہ بند ہو جانا بونس میں مل رہا ہے۔
محترم اشماریہ بھائی آپ نے محترم شاکر بھائی کی اوپر بات کو ہی شاید نہیں سمجھا
جیسے آپ نے مثل اور مثلین میں یہ تطبیق دی کہ وہ سورت اختیار کی جائے جس میں دونوں احادیث پر عمل ہو جائے تو مثلین پر دونوں احادیث پر عمل ہو جاتا ہے حالانکہ وہاں دو نہیں بلکہ تین احادیث ہیں جن میں تیسری بخاری کی اول وقت میں نماز سب سے زیادہ محبوب عمل والی حدیث ہے تو مثلین میں نماز پڑھنے سے مثل اول کے اول وقت والے حکم پر عمل تو احتیاط کی نذر ہو جائے گا
دوسری طرف سماع موتی کے بارے تین گروہ ہیں
1- مطلق انکار والا موقف
2- مطلق سماع والا
3- عمومی انکار کے ساتھ تخصیص کی گنجائش والا موقف (جو شاکر بھائی کہنا چاہ رہے ہیں مگر آپ نے غالبا پہلا سمجھ لیا)

سماع موتی صحابہ کرام سے مختلف فیہ ہے۔ اور انہوں نے بھی اس احتیاط کو اختیار نہیں کیا۔
انھوں نے تو مثلین والی احتیاط کو بھی اختیار نہیں کیا

دلائل بھی مضبوط ہیں۔صرف احتیاط کے لیے مضبوط اور باقاعدہ دلائل کو "ترک" کیسے کیا جاسکتا ہے؟
میرا یہ دعوی ہے کہ اوپر تیسرے موقف کے دلائل انتہائی مضبوط ہیں اور صرف یہی موقف ساری نصوص پر عمل کے قابل بناتا ہے چنانچہ احتیاط صرف اسی میں ہے

عصر میں دلائل کا نتیجہ صرف یہ ہے کہ مثل اول پر وقت ہو جاتا ہے۔ کوئی مثل ثانی پر پڑھے تو اس پر نکیر کسی جگہ نہیں اور نہ اس سے کسی دلیل کو "ترک" کرنا پڑتا ہے بلکہ مثل اول اور ثانی دونوں کے دلائل پر ایک ساتھ عمل ہوتا ہے۔ اس لیے احتیاط اس میں ہے۔
مثلین پر نقصان کی بخاری کی حدیث کا ذکر اوپر کر دیا ہے جبکہ محترم شاکر بھائی کے سماع موتی کے اوپر تیسرے موقف پر نکیر میں نے کہیں نہیں دیکھی پس میرے ناقص علم کے مطابق اصل احتیاط تو اس میں ہے نہ کہ مثلین والے معاملے میں
آپ یا شاکر بھائی نے کہیں نکیر دیکھی ہو تو مجھے بھی بتا دیں اللہ جزا دے امین
 

شاکر

تکنیکی ناظم
رکن انتظامیہ
شمولیت
جنوری 08، 2011
پیغامات
6,595
ری ایکشن اسکور
21,396
پوائنٹ
891
جزاک اللہ خیرا عبدہ بھائی۔ آپ نے احسن انداز میں سمجھا دیا۔ میں شاید ایسے نہ سمجھا پاتا۔ آپ کی پوسٹ سے شہ پا کر میں بھی مزید اشکالات لکھ دیتا ہوں جن پر میں غیرمطمئن ہوں۔

دونوں مسئلوں میں فرق سمجھیں۔ مثلین پر عصر پڑھنے سے کسی کے نزدیک عصر خراب نہیں ہوتی اور مثل اول پر پڑھنے سے ابو حنیفہؒ کے نزدیک عصر نہیں ہوتی۔ اب احتیاط اس مقام پر ہے جہاں کسی کے نزدیک عصر پر اثر نہیں پڑتا۔
محترم اشماریہ بھائی آپ نے محترم شاکر بھائی کی اوپر بات کو ہی شاید نہیں سمجھا
جیسے آپ نے مثل اور مثلین میں یہ تطبیق دی کہ وہ سورت اختیار کی جائے جس میں دونوں احادیث پر عمل ہو جائے تو مثلین پر دونوں احادیث پر عمل ہو جاتا ہے حالانکہ وہاں دو نہیں بلکہ تین احادیث ہیں جن میں تیسری بخاری کی اول وقت میں نماز سب سے زیادہ محبوب عمل والی حدیث ہے تو مثلین میں نماز پڑھنے سے مثل اول کے اول وقت والے حکم پر عمل تو احتیاط کی نذر ہو جائے گا


مثلین پر نماز عصر پڑھنے کو اگر احتیاط کہا جائے۔ تو دو اشکالات ہیں۔ ایک تو وہی جو عبدہ بھائی نے بیان کیا کہ اول وقت والا حکم احتیاط کی نذر ہو جاتا ہے۔
دوسری بات یہ کہ یہ کہنا کہ مثلین پر عصر پڑھنے سے کسی کے نزدیک عصر خراب نہیں ہوتی، اگرچہ درست ہے۔
لیکن اس سے ظہر ضرور خراب ہو جاتی ہے۔ کیونکہ حدیث موجود ہے اور حنفی عوام کا تعامل بھی اسی پر ہے کہ ظہر کا وقت عصر کا وقت شروع ہونے تک گنا جاتا ہے۔ تو جس شخص کی ظہر کی نماز رہ گئی، وہ عین ممکن ہے کہ ایک ایسے وقت میں نماز پڑھے جب کہ ظہر کا وقت ختم ہو کر عصر کا وقت شروع ہو چکا ہو۔ جو راجح و قوی مذہب کے مطابق مثل اول ہی ہے۔ لہٰذا وہ شخص اپنے مطابق تو ظہر کے وقت پر ہی ظہر ادا کر رہا ہوگا، لیکن دراصل اس کی نماز قضاء ہو چکی ہوگی۔

لہٰذا ان دونوں وجوہات کی بنا پر مثلین پر ہمیشہ نماز ادا کرنا احتیاط نہیں بجائے خود وبال ہے، کم فضیلت اور زیادہ نقصان پہنچانے والا عمل ہے۔

پھر مثلین پر عصر ادا کرنے کو احتیاط کہنا بجائے خود محل نظر ہے۔ غور کیجئے کہ احتیاط کا مطلب یہ ہے کہ مثل اول اور مثلین پر ادا کرنے کے دلائل یکساں ہوں، اور تطبیق ممکن نہ محسوس ہوتی ہو یا فقط احتمال کے تحت مثل اول کو راجح قرار دیا گیا ہو تب تو یہ کہا جا سکتا ہے کہ مثلین پر ادا کرنے میں احتیاط ہے کہ معلوم نہیں اللہ کے نزدیک درست وقت مثل اول ہے یا مثلین۔ مثلین پر ادا کریں گے تو احتیاط ہے وغیرہ۔
لیکن یہاں دلائل کا تو معاملہ یہ ہے کہ خود گنگوہی صاحب فرماتے ہیں:

''ہاں وقت مثل، بندہ کے نزدیک زیادہ قوی ہے۔روایت حدیث سے ثبوت مثل کا ہوتا ہے۔دو مثل کا ثبوت حدیث سے نہیں، بناء علیہ ایک مثل پر عصر ہو جاتی ہے۔گو احتیاط دوسری روایت میں ہے''۔(مکاتیب رشیدیہ ص: ۲۲)
اور مولانا شوق نیموی رحمہ اللہ حنفی محدث احنافِ دیوبند لکھتے ہیں:
''انی لم اجد حدیثاً صحیحاً او ضعیفاً یدل علی ان وقت الظہر الی ان یصیر الظل مثلیہ و عن الامام ابی حنیفۃ قولان''۔ (آثار السنن عربی:ص۴۳؍ج۱)
'' میں نے کوئی حدیث صحیح یا ضعیف ایسی نہیں پائی جس سے یہ ثابت ہو کہ ظہر کا وقت دو مثل تک رہتا ہے ،بلکہ امام ابو حنیفہ سے بھی اس مسئلہ میں دو روایتیں ہیں (ایک روایت دو مثل اور دوسری روایت ایک مثل کی )۔
لہٰذا احتیاط کس چیز کی؟ صحیح احادیث میں جس صراحت سے ایک مثل کا ذکر ہے، کیا اس کے مقابل مثلین کی کوئی صریح و صحیح حدیث موجود ہے؟ اگر نہیں تو پھر مثلین پر پڑھنے کو احتیاط گرداننا ناانصافی ہی ہے۔
دوسری بات یہ کہ اس "احتیاط" پر عمل صرف اس وجہ سے کیا جاتا ہے کہ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کا قول اس ضمن میں موجود ہے۔ حدیث چاہے صحیح اور صریح ہی کیوں نہ ہو، احتیاط کا فائدہ نہیں دیتی۔ لیکن امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کا قول کفایت کر جاتا ہے۔

اشماریہ بھائی جب آپ یہ کہتے ہیں کہ:
جب کہ عصر میں غالبا ایسا کوئی معاملہ نہیں اور سب کے نزدیک مثلین پر ہو جاتی ہے تو جس میں سب متفق ہیں وہ زیادہ محتاط ہے۔
تو بہت عجیب محسوس ہوتا ہے۔
پہلی بات تو یہ کہ کیا آپ ہر مسئلے میں اسی "احتیاط" کا خیال کرتے ہیں؟ کہ جس پر سب متفق ہوں اس قول کو اختیار کیا جائے۔ یا کم سے کم اسی اصول کو اپنا لیں کہ جس پر "اکثر" ائمہ متفق ہوں تو اسے اختیار کر لیا جائے؟؟؟ ہر گز نہیں۔ ورنہ شاید طلاق ثلاثہ اور رفع الیدین والا مسئلہ بھی بڑی آسانی سے حل ہو جاتا۔
دوسری بات یہ کہ مولانا نیمویؒ کے بقول، ائمہ ثلاثہ اور صاحبین جب ایک طرف ہیں، تو کیا اتنے سارے علماء کا اتفاق احتیاط کے لئے کافی نہیں؟ اگر امام ابو حنیفہ کی شاذ رائے ، دلائل سے مرجوح ثابت ہو جائے تو انہیں "اتفاق" میں شامل کرنے کی ایسی کیا ضرورت ہے کہ پوری امت کا اتحاد تہہ و بالا کر کے رکھ دیا جائے؟

ایسے میں اس "احتیاط" کو نام نہاد احتیاط نہ کہا جائے تو اور کیا نام دیں؟
 

شاکر

تکنیکی ناظم
رکن انتظامیہ
شمولیت
جنوری 08، 2011
پیغامات
6,595
ری ایکشن اسکور
21,396
پوائنٹ
891
اس سے آگے بڑھیں تو قراءت خلف الامام کا انتہائی سنگین و نازک مسئلہ ہے۔ احتیاط تو اسی میں ہے کہ مقتدی بھی سورہ فاتحہ پڑھ لیا کرے، چاہے مرجوح ہی کیوں نہ سمجھتا ہو، تاکہ روز قیامت کہیں ساٹھ ستر سال کی باجماعت نمازیں ہباً منثوراً نہ کر دی جائیں کہ سورہ فاتحہ کے بغیر نماز نہیں قبول کی جاتی۔ پڑھ لینے میں تو حرج نہیں، جبکہ دلائل فاتحہ پڑھنے والوں کے پاس بھی ہیں، آپ کے نزدیک مرجوح ہیں تو کیا ہوا۔۔؟ احتیاط تو اسی میں ہی ہے نا؟


اس میں چوں کہ راجح دلائل اس طرف ہیں کہ نہ پڑھی جائے اور پڑھی جانے کی صورت میں بعض فاسد بھی قرار دیتے ہیں غالبا۔ ورنہ نص قرآنی اور احادیث کی مخالفت تو ہوتی ہی ہے اس لیے احتیاط اسی جانب ہے کہ نہ پڑھی جائے۔
دونوں مسئلوں میں فرق سمجھیں۔ مثلین پر عصر پڑھنے سے کسی کے نزدیک عصر خراب نہیں ہوتی اور مثل اول پر پڑھنے سے ابو حنیفہؒ کے نزدیک عصر نہیں ہوتی۔ اب احتیاط اس مقام پر ہے جہاں کسی کے نزدیک عصر پر اثر نہیں پڑتا۔
جب کہ قراءت میں ایسا نہیں ہے۔ بلکہ نہیں کی تو ایک کے نزدیک نماز نہیں ہوگی۔ اور کرلی تو دوسرے کے نزدیک قرآن و حدیث کے خلاف ہو جائے گا۔ یہ آسان انداز میں سمجھایا ہے۔ ورنہ تفصیلا یہ بھی کہا جائے گا کہ قرآءت نہ کرنے کی صورت میں دونوں قسم کے دلائل میں تطبیق کی گئی ہے جب کہ کرنے کی صورت میں ایک طرف کی حدیث (من کان لہ امام) کو چھوڑنا پڑتا ہے۔ لہذا ہمارے نزدیک احتیاط بھی نہ کرنے میں ہے۔
جب کہ عصر میں غالبا ایسا کوئی معاملہ نہیں اور سب کے نزدیک مثلین پر ہو جاتی ہے تو جس میں سب متفق ہیں وہ زیادہ محتاط ہے۔


مثل اول پر نماز عصر ادا کرنا بھی دلائل کی رو سے قوی اور راجح مذہب ہے۔ اکثریت کا قول بھی اسی طرف ہے۔ مثلین پر ادا کرنے سے اول وقت نماز کی فضیلت سے محرومی، نماز ظہر میں تاخیر ہو جانے والوں کی قضا لازم آتی ہے۔ لہٰذا مثلین پر ادا کرنے کے بھی اپنے مفاسد ہیں۔ پھر شارع کی جانب سے مقرر کردہ وقت پر ادا نہ کر کے نماز کو جان بوجھ کر فقط اس وجہ سے تاخیر سے ادا کرنا کہ فلاں امام کے قول کے مطابق بھی نماز درست ہو جائے بجائے خود غلط فعل بلکہ وبال ہے۔

مقتدی کا امام کے پیچھے قراءت کرنا اس کے بھی دلائل موجود ہیں۔ لہٰذا اگر آپ اسے خلاف قرآن و حدیث مانتے ہیں، تو مثلین پر ادا کرنا بھی خلاف حدیث قرار پائے گا کیونکہ اگرچہ عصر کا وقت ابھی ہے، لیکن یہ نماز کا وہ وقت نہیں، جو شارع نے ہمارے لئے مقرر کیا ہے۔
اسی طرح مقتدی کا امام کے پیچھے قراءت کرنے سے نماز کے فاسد ہو جانے پر ایک بھی صحیح دلیل موجود نہیں۔
جبکہ قراءت نہ کرنے سے نماز نہ ہونے پر کثیر دلائل موجود ہیں۔ جس کی بحث متعلقہ کتب میں دیکھی جا سکتی ہے۔

پھر یہاں ہم دلائل کا موازنہ تو کر ہی نہیں رہے۔ ہم تو یہ کہہ رہے ہیں کہ جس طرح مثلین پر عصر پڑھنا دلائل کی رو سے مرجوح ہے، لیکن فقط "احتیاط" کے طور پر اس پر عمل کیا جاتا ہے۔
تو قراءت خلف الامام بھی اگر دلائل کی رو سے مرجوح ہی تسلیم کر لیا جائے، "احتیاط" تو اسی میں ہے کہ فاتحہ پڑھ لی جائے۔ اس لئے کہ اگر پڑھ لیں تو کسی صحیح حدیث کے خلاف نہیں ہوتا، جبکہ فاتحہ نہ پڑھیں تو صحیح حدیث سے ثابت ہے کہ نماز نہیں ہوگی۔ اب چاہے دلائل کی رو سے یہ مؤقف ضعیف و مرجوح ہی کیوں نہ ہو، "احتیاط" اسی میں ہی منحصر ہے کہ مقتدی لازمی امام کے پیچھے فاتحہ پڑھے۔
اور جب کہ حنفی مقتدی امام کے پیچھے اللہ اکبر کہتا ہے، تعوذ و تسمیہ اور دعائے افتتاح تلاوت کرتا ہے، تو فاتحہ کی تلاوت تو بدرجہ اولیٰ کی جا سکتی ہے۔

آپ کا یہاں یہ کہنا کہ اگر مقتدی پڑھے گا تو خلاف قرآن و حدیث ہو جائے گا، اگرچہ نماز ہو جائے گی۔ (میں نے کسی کا فتویٰ نہیں دیکھا کہ مقتدی اگر فاتحہ خلف الامام تلاوت کرے گا تو اس کی نماز نہیں ہوگی)۔ تو محترم عصر مثلین پر ادا کرنا بھی تو خلاف قرآن و حدیث ہو جاتا ہے، اگرچہ نماز ہو جاتی ہے۔
 

شاکر

تکنیکی ناظم
رکن انتظامیہ
شمولیت
جنوری 08، 2011
پیغامات
6,595
ری ایکشن اسکور
21,396
پوائنٹ
891
اس سے بھی آگے بڑھیں۔ سماع موتیٰ کا سنگین مسئلہ ہے جو عقیدے سے متعلق ہے بلکہ شرک کی پہلی سیڑھی کہا جائے تو غلط نہیں ہو سکتا۔ احتیاط تو اسی میں ہے کہ یہ مؤقف اختیار کیا جائے کہ مردے نہیں سنتے، اور احادیث سے جن مقامات پر اور جس قدر مردوں کا سننا ثابت ہے، اسے استثناء کی حیثیت دی جائے، نا کہ اسی کو اصل مان کر ہمہ وقت مردوں کے سننے کا عقیدہ رکھا جائے۔ آپ بھی مانتے ہیں کہ سماع موتیٰ کا مسئلہ اختلافی ہے اور طرفین کے پاس اپنے اپنے دلائل ہیں۔ تو احتیاط کس میں ہے یہ آپ فرما دیں؟ اور اسی کو اختیار کرنے میں آخر حرج کیا ہے؟ جبکہ شرک کا چور دروازہ بند ہو جانا بونس میں مل رہا ہے۔
سماع موتی صحابہ کرام سے مختلف فیہ ہے۔ اور انہوں نے بھی اس احتیاط کو اختیار نہیں کیا۔ دلائل بھی مضبوط ہیں۔صرف احتیاط کے لیے مضبوط اور باقاعدہ دلائل کو "ترک" کیسے کیا جاسکتا ہے؟ جب کہ عصر میں دلائل کا نتیجہ صرف یہ ہے کہ مثل اول پر وقت ہو جاتا ہے۔ کوئی مثل ثانی پر پڑھے تو اس پر نکیر کسی جگہ نہیں اور نہ اس سے کسی دلیل کو "ترک" کرنا پڑتا ہے بلکہ مثل اول اور ثانی دونوں کے دلائل پر ایک ساتھ عمل ہوتا ہے۔ اس لیے احتیاط اس میں ہے۔
اس پر عبدہ بھائی نے جواب دے دیا ہے، جو کافی و شافی ہے۔
یعنی اول یہ کہ مثلین والی احتیاط بھی صحابہ نے اختیار نہیں کی۔
دوم یہ کہ سماع موتیٰ کے عمومی انکار کے ساتھ تخصیص یا بعض مقامات و اوقات میں سماع کا استثناء والا مؤقف سب سے زیادہ محفوظ اور محتاط مؤقف ہے، جس میں ہر دو جانب کے دلائل کی تطبیق ہو جاتی ہے۔ یہاں بقول آپ کے "مضبوط اور باقاعدہ دلائل کو ترک" نہیں کرنا پڑتا۔ اور طرفین کے دلائل پر ایک ساتھ عمل بھی ممکن ہے۔

لہٰذا آپ بتائیے کہ سماع موتیٰ کا عقیدہ رکھنا، جو کہ شرکیہ عقائد کی جڑ ہے بلکہ خود دیوبندی علماء اس حد تک شرک میں مبتلا ہوئے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر پر ان سے براہ راست سفارش کرنے کو جائز و درست قرار دیتے ہیں، کیسے "محتاط" مؤقف ہو سکتا ہے جبکہ یہ مسئلہ بقول آپ کے صحابہ کرام سے مختلف فیہ ہے، لہٰذا دلائل دونوں جانب ہی ہیں۔

مردے سنتے ہیں، کا عقیدہ رکھیں گے تو قبروں سے فیض بھی حاصل ہوگا اور مردے مدد کرتے بھی دکھائی دیں گے۔ تو پھر عوام ان سے مدد بھی مانگے گی۔
مردے نہیں سنتے سوائے چند مخصوص اوقات و مقامات کے، کا عقیدہ رکھیں تو ان سب جہالتوں سے جان چھوٹ جاتی ہے۔
محتاط مؤقف کون سا ہوا؟
 

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,684
ری ایکشن اسکور
751
پوائنٹ
290
محترم اشماریہ بھائی آپ نے محترم شاکر بھائی کی اوپر بات کو ہی شاید نہیں سمجھا
جیسے آپ نے مثل اور مثلین میں یہ تطبیق دی کہ وہ سورت اختیار کی جائے جس میں دونوں احادیث پر عمل ہو جائے تو مثلین پر دونوں احادیث پر عمل ہو جاتا ہے حالانکہ وہاں دو نہیں بلکہ تین احادیث ہیں جن میں تیسری بخاری کی اول وقت میں نماز سب سے زیادہ محبوب عمل والی حدیث ہے تو مثلین میں نماز پڑھنے سے مثل اول کے اول وقت والے حکم پر عمل تو احتیاط کی نذر ہو جائے گا
دوسری طرف سماع موتی کے بارے تین گروہ ہیں
1- مطلق انکار والا موقف
2- مطلق سماع والا
3- عمومی انکار کے ساتھ تخصیص کی گنجائش والا موقف (جو شاکر بھائی کہنا چاہ رہے ہیں مگر آپ نے غالبا پہلا سمجھ لیا)
محترم عبدہ بھائی آپ کا انداز بحث بہت اچھا ہے۔ اللہ پاک آپ کے علم و عمل میں برکت عطا فرمائیں۔
میں واقعتا پہلا ہی سمجھا تھا۔ باقی دو میں سے کونسا احناف کا عمومی موقف ہے میں نہیں جانتا۔ ایک حنفی دیوبندی مناظر صاحب سے پال ٹاک پر تیسرا (تخصیص والا) موقف سنا تھا۔ امید ہے یہی ہوگا۔ انہوں نے کہا تھا کہ ہم اس کے قائل ہیں کہ جن جگہوں پر سماع کا آیا ہے وہاں سماع ہے اور جن جگہوں پر انکار آیا ہے وہاں سماع نہیں ہے۔
میں کہتا ہوں کہ وہ جگہیں بچ گئیں جہاں انکار و اقرار میں کچھ منصوص نہیں۔ وہاں ہمیں بھی خاموش رہنا چاہیے۔ کشف یا حواس سے کسی کے سامنے کچھ واضح ہو جائے تو وہ اسے مان لے۔ واللہ اعلم
(میرے اکثر اساتذہ حیات و ممات کی کسی بحث پر ایک لفظ بھی ادا نہیں کرتے۔ ایک مجلس خاص میں میرے ایک استاذ جو سرفراز خان صفدرؒ کے شاگرد ہیں، نے میرے ایک ساتھی سے اس بارے میں کوئی سوال پوچھا تو اس نے جواب میں عرض کیا کہ فی الحال ہمارے زمین کے اوپر کے معاملات ٹھیک نہیں ہو رہے اندر کو کیسے دیکھوں۔)

انھوں نے تو مثلین والی احتیاط کو بھی اختیار نہیں کیا
کیا ان میں اس بارے میں اختلاف منصوص ہے؟ مجھے اس کا علم نہیں۔ اگر آپ بتا دیں!

مثلین پر نقصان کی بخاری کی حدیث کا ذکر اوپر کر دیا ہے
احتیاط کا مطلب کیا ہوتا ہے کہ ہم مثلین والے قول کو اختیار کر رہے ہیں۔ یعنی مثلین سے پہلے ایک قول کے مطابق عصر کا وقت نہیں ہوتا اور مثلین پر ہوجاتا ہے۔ تو اول وقت میں نماز اس قول کے مطابق مثلین کے اعتبار سے ہوگی۔ جب ہم احتیاطا اس قول کو اختیار کر رہے ہیں تو مکمل اختیار کریں گے اور اسی اعتبار سے ثواب کی امید رکھیں گے۔
ثواب کے سلسلے میں میں نے ایک بات عرض کی تھی۔
ایسے ہی ایک سوال کا جواب اس رمضان میں میں نے دیا تھا۔ سوال یہ تھا کہ سعودی عرب اور ہمارے یہاں اکثر تاریخ رمضان کا فرق ہوتا ہے تو جس دن آخری عشرے کی طاق رات وہاں ہوتی ہے یہاں نہیں ہوتی۔ جیسے پچیسویں شب وہاں ہوگی تو یہاں چوبیسویں ہوگی۔ تو شب قدر کا ثواب کسے ملے گا؟ میں نے کہا کہ ثواب اللہ پاک نے دینا ہے اور وہ جانتا ہے کہ ہم بھی اپنی حد تک بالکل خیال سے درست عمل کرتے ہیں اور وہ بھی۔ تو پھر کیا وجہ ہے کہ ہمیں یا انہیں اللہ پاک ثواب نہیں دے۔ جبکہ اللہ کے خزانے میں کوئی کمی نہیں ہے۔ تو اسی طرح یہاں بھی عصر جو جس وقت پڑھنا زیادہ درست سمجھتا ہے اللہ پاک اس کی نیت سے واقف ہے۔ اس کے ساتھ اسی طرح معاملہ ہوگا۔
قطب شمالی کے قریب کے چند علاقوں میں سال کے دوران ایسے دن بھی آتے ہیں جب رات صرف دو گھنٹوں کی ہوتی ہے۔ اور تھوڑا وقت گزرنے پر ڈھائی تین گھنٹوں کی ہو جاتی ہے۔ اس میں عشا کا اول وقت کیا ہوگا؟ اسی وقت اس کے مخالف قطب جنوبی کے پاس دن اتنا ہی ہوتا ہے تو وہاں دن کی تین نمازوں کا اول وقت کیا ہوگا؟ ظاہر ہے اول اور آخری وقت ایک ہی ہوگا۔ تو یہ ثواب تو اللہ کریم کا کرم ہے اور اگر ہماری نیت میں اخلاص ہوگا اور عمل درست ہوگا تو وہ ان شاء اللہ محروم نہیں فرمائے گا۔
یہ تو ایک بات ہوئی۔ اب یہاں ایک اور بات یہ ہے کہ احتیاط نماز کے ہونے یا نہ ہونے کے سلسلے میں ہے۔ جب کہ اس حدیث سے ثواب و استحباب ثابت ہوتا ہے۔ اگر واقعی اسے مان لیں کہ مثلین کا قول زیادہ درست تھا اور اس سے پہلے عصر کا وقت ہی نہیں ہوا تھا تو میری اوپر والی تفصیل سے صرف نظر کر کے یہ بتائیں ثواب سرے سے ملے گا؟
واللہ اعلم بالصواب
 

عبدہ

سینئر رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 01، 2013
پیغامات
2,038
ری ایکشن اسکور
1,225
پوائنٹ
425
محترم عبدہ بھائی آپ کا انداز بحث بہت اچھا ہے۔ اللہ پاک آپ کے علم و عمل میں برکت عطا فرمائیں۔
اللہ آپ کو جزائے خیر دے امین
مگر اس میں صرف متکلم کا کمال نہیں ہوتا بلکہ مخاطب کے رویے کا بھی کمال ہوتا ہے اللہ ہم سب کو جذبات پر کنٹرول کرنے کی توفیق دے امین -یہ تو ہو سکتا ہے کہ مجھ میں برانگیختہ ہونے کے جراثیم کچھ بھائیوں سے کم ہوں مگر مجھ سے بہتر بھی موجود ہیں کیونکہ ہوں تو انسان ہی- کبھی کبھی مخاطب کے روہے کی وجہ سے میں بھی غلط راہ اختیار کر لیتا ہوں- ہاں اس میں اللہ کا شکر ادا کرتا ہوں کہ وہ کسی کے یاد دلانے پر اپنی اصلاح کی توفیق اکثر دے دیتا ہے

میں واقعتا پہلا ہی سمجھا تھا۔ باقی دو میں سے کونسا احناف کا عمومی موقف ہے میں نہیں جانتا۔ ایک حنفی دیوبندی مناظر صاحب سے پال ٹاک پر تیسرا (تخصیص والا) موقف سنا تھا۔ امید ہے یہی ہوگا۔ انہوں نے کہا تھا کہ ہم اس کے قائل ہیں کہ جن جگہوں پر سماع کا آیا ہے وہاں سماع ہے اور جن جگہوں پر انکار آیا ہے وہاں سماع نہیں ہے۔
محترم بھائی میرا بیان کیا گیا تیسرا موقف اور پاک ٹاک والے موقف میں فرق لگا ہے- میں نے لکھا تھا کہ عام قاعدہ یہ ہے کہ سماع کا انکار ہے کیونکہ انکار عمومی صیغہ سے جگہ جگہ آیا ہے البتہ جہاں صحیح احادیث میں استثنی آیا ہے وہ تخصیص کے تحت لیا جائے گا
اسکی دلیل میں بخاری میں ہی بدر والی حدیث میں صحابی کا موقف بتایا گیا ہے کہ یہ استثنائی سورت ہے

میں کہتا ہوں کہ وہ جگہیں بچ گئیں جہاں انکار و اقرار میں کچھ منصوص نہیں۔
اسی وجہ سے میں نے اوپر فرق کی وضاحت کی ہے کہ میرے تیسرے موقف میں کوئی صورت نہیں بچتی

کشف یا حواس سے کسی کے سامنے کچھ واضح ہو جائے تو وہ اسے مان لے۔ واللہ اعلم
حواس پر تو کوئی انکار کر نہیں سکتا نہ کیا ہے مگر کشف سے مراد اگر کرامت ہے تو اس پر کوئی انکار نہیں کرتا اگر صاحب کرامت کے اختیار اور مرضی سے نہ ہو لیکن اگر کوئی اور چیز ہے تو مجھ تک اسکے دلائل نہیں پہنچے واللہ اعلم

(میرے اکثر اساتذہ حیات و ممات کی کسی بحث پر ایک لفظ بھی ادا نہیں کرتے۔ ایک مجلس خاص میں میرے ایک استاذ جو سرفراز خان صفدرؒ کے شاگرد ہیں، نے میرے ایک ساتھی سے اس بارے میں کوئی سوال پوچھا تو اس نے جواب میں عرض کیا کہ فی الحال ہمارے زمین کے اوپر کے معاملات ٹھیک نہیں ہو رہے اندر کو کیسے دیکھوں۔)
جی محترم بھائی یہ بات واقعی ٹھیک ہے کہ اگر حیات و ممات یا سماع موتی کے اختلاف کو صرف اس حد تک لیں جہاں تک صحابہ کا تھا تو اس پر زور دینے کی ضرورت نہیں اور ہمیں باقی معاملات پر وقت صرف کرنا چاہئے جیسے ایک اور تھریڈ میں محترم مفتی شفیع عثمانی کی بات کو کوٹ کیا گیا ہے کہ ہمیں ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے مسلک کے فروعی مسائل کو ثابت کرتے وقت لگ گیا اور دوسرے معاملات رہ گئے
لیکن بھائی یہاں معاملہ پھر اس سماع موتی سے واللہ آگے بڑھتے ہوئے میں نے موحدین میں بھی دیکھا ہے پس کیا اہل حدیث اور کیا دیوبندی (بریلوی کا اسکے بغیر ہی) اس معاملے میں سب کے کچھ علماء کو خطا کرتے دیکھا ہے کہ جس سے شرک کے دروازے کھل جاتے ہیں پس عام جب بات کی جائے تو کیوں نہ سماع موتی کا انکار ہی کیا جائے تاکہ کوئی دلیر نہ ہو جائے اس سے نقصان ہی کیا ہو گا
مثلا صدر زرداری کو قانون میں استثنی صاحل تھا اب عام آدمی جب قتل کرنے لگے تو ہم اسکو قانون سے ڈراتے ہوئے استثنائی صورت بتائیں گے یا دوسری- پس یہ میرا موقف تھا کہ اس میں احتیاط زیادہ ہے- ہاں اگر کوئی علم رکھنے والا پوچھے تو اسکو استثنائی صورتیں بے شک کھول کر واضح کر دی جائیں میرے ذین تو یہی احتیاطی پہلو ہے واللہ اعلم

کیا ان میں اس بارے میں اختلاف منصوص ہے؟ مجھے اس کا علم نہیں۔ اگر آپ بتا دیں!
جی محترم بھائی ساری شریعت صحابہ سے ہی ہم تک پہنچی ہے کوئی اور تو واسطہ نہیں پس جو اختلاف احادیث میں آیا ہے انکے ذریعے سے ہی آیا ہے

احتیاط کا مطلب کیا ہوتا ہے کہ ہم مثلین والے قول کو اختیار کر رہے ہیں۔ یعنی مثلین سے پہلے ایک قول کے مطابق عصر کا وقت نہیں ہوتا اور مثلین پر ہوجاتا ہے۔ تو اول وقت میں نماز اس قول کے مطابق مثلین کے اعتبار سے ہوگی۔ جب ہم احتیاطا اس قول کو اختیار کر رہے ہیں تو مکمل اختیار کریں گے اور اسی اعتبار سے ثواب کی امید رکھیں گے۔
جب کہ اس حدیث سے ثواب و استحباب ثابت ہوتا ہے۔ اگر واقعی اسے مان لیں کہ مثلین کا قول زیادہ درست تھا اور اس سے پہلے عصر کا وقت ہی نہیں ہوا تھا تو میری اوپر والی تفصیل سے صرف نظر کر کے یہ بتائیں ثواب سرے سے ملے گا؟واللہ اعلم بالصواب
محترم بھائی شاید آپ لاشعوری طور پر صحیح لنک نہیں کر سکے
عصر کی نماز کو دیکھنے کے دو طریقے ہیں
1-ایک طریقہ یہ ہے کہ دونوں قولوں کو لے کر احتیاط کے پہلو سے عصر کی نماز کو ادا کرنا
2-دوسرا طریقہ یہ کہ ایک قول کو اجتہاد سے فکس کر کے اسی پر اعتبار کرتے ہوئے لا یکلف اللہ نفسا الا وسعھا کت تحت عمل کر لینا

آپ نے اوپر پہلے طریقے کے حق میں دلائل دیتے ہوئے اپنا موقف صحیح ثابت کیا تھا مگر جب میں نے تیسری حدیث لا کر اس احتیاط والے پہلو میں ہی شک پیدا کر دیا تو آپ نے شاید غلطی سے دوسرا موقف سجھ لیا کہ ہم ایک قول کو فکس کر کے نماز پڑھیں
محترم بھائی میرے خیال میں اس سے پہلے محترم شاکر بھائی یہی تو کہنا چاہ رہے تھے کہ جب آپ کے ہاں بھی زیادہ راجح مثل اول ہے تو پھر اسکو فکس کر کے نماز کیوں نہیں پڑھتے تو آپ نے وہاں کہ کہ اگرچہ زیادہ صحیح وہی ہے مگر احتیاط کے پہلو سے ہم ایسا نہیں کرتے- محترم شاکر بھائی کیا ایسا ہی معاملہ شروع کیا گیا تھا میں نے تو بعد میں جوائن کیا تھا
 

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,684
ری ایکشن اسکور
751
پوائنٹ
290
جزاک اللہ خیرا عبدہ بھائی۔ آپ نے احسن انداز میں سمجھا دیا۔ میں شاید ایسے نہ سمجھا پاتا۔ آپ کی پوسٹ سے شہ پا کر میں بھی مزید اشکالات لکھ دیتا ہوں جن پر میں غیرمطمئن ہوں۔




مثلین پر نماز عصر پڑھنے کو اگر احتیاط کہا جائے۔ تو دو اشکالات ہیں۔ ایک تو وہی جو عبدہ بھائی نے بیان کیا کہ اول وقت والا حکم احتیاط کی نذر ہو جاتا ہے۔
دوسری بات یہ کہ یہ کہنا کہ مثلین پر عصر پڑھنے سے کسی کے نزدیک عصر خراب نہیں ہوتی، اگرچہ درست ہے۔
لیکن اس سے ظہر ضرور خراب ہو جاتی ہے۔ کیونکہ حدیث موجود ہے اور حنفی عوام کا تعامل بھی اسی پر ہے کہ ظہر کا وقت عصر کا وقت شروع ہونے تک گنا جاتا ہے۔ تو جس شخص کی ظہر کی نماز رہ گئی، وہ عین ممکن ہے کہ ایک ایسے وقت میں نماز پڑھے جب کہ ظہر کا وقت ختم ہو کر عصر کا وقت شروع ہو چکا ہو۔ جو راجح و قوی مذہب کے مطابق مثل اول ہی ہے۔ لہٰذا وہ شخص اپنے مطابق تو ظہر کے وقت پر ہی ظہر ادا کر رہا ہوگا، لیکن دراصل اس کی نماز قضاء ہو چکی ہوگی۔

لہٰذا ان دونوں وجوہات کی بنا پر مثلین پر ہمیشہ نماز ادا کرنا احتیاط نہیں بجائے خود وبال ہے، کم فضیلت اور زیادہ نقصان پہنچانے والا عمل ہے۔

پھر مثلین پر عصر ادا کرنے کو احتیاط کہنا بجائے خود محل نظر ہے۔ غور کیجئے کہ احتیاط کا مطلب یہ ہے کہ مثل اول اور مثلین پر ادا کرنے کے دلائل یکساں ہوں، اور تطبیق ممکن نہ محسوس ہوتی ہو یا فقط احتمال کے تحت مثل اول کو راجح قرار دیا گیا ہو تب تو یہ کہا جا سکتا ہے کہ مثلین پر ادا کرنے میں احتیاط ہے کہ معلوم نہیں اللہ کے نزدیک درست وقت مثل اول ہے یا مثلین۔ مثلین پر ادا کریں گے تو احتیاط ہے وغیرہ۔
لیکن یہاں دلائل کا تو معاملہ یہ ہے کہ خود گنگوہی صاحب فرماتے ہیں:



اور مولانا شوق نیموی رحمہ اللہ حنفی محدث احنافِ دیوبند لکھتے ہیں:
محترم شاکر بھائی یہاں نیمویؒ کے قول میں سے صرف ایک لفظ غائب کیا گیا ہے۔ کیوں کیا گیا اس کا مجھے علم نہیں۔ آپ بہتر جانتے ہوں گے۔ میں نے بشری اور حقانیہ کے نسخوں میں دیکھا ہے۔
نیموی کی عبارت یہ ہے:۔
انی لم اجد حدیثاً صریحا صحیحاً او ضعیفاً یدل علی ان وقت الظہر الی ان یصیر الظل مثلیہ و عن الامام ابی حنیفۃ فیہ قولان
میں نے کوئی حدیث "صریح" صحیح یا ضعیف نہیں پائی۔ یعنی مطلقا اس موقف کی تائید میں حدیث پائی ہے لیکن صریح نہیں پائی۔ دیگر احادیث سے اس بات پر دلالت بخوبی ہوتی ہے کہ مثل اول کے وقت ظہر کا وقت باقی رہتا ہے۔


حدثنا هناد بن السري قال: حدثنا عبد الرحمن بن أبي الزناد، عن عبد الرحمن بن الحارث بن عياش بن أبي ربيعة، عن حكيم بن حكيم وهو ابن عباد بن حنيف قال: أخبرني نافع بن جبير بن مطعم، قال: أخبرني ابن عباس، أن النبي صلى الله عليه وسلم قال: " أمني جبريل عند البيت مرتين، فصلى الظهر في الأولى منهما حين كان الفيء مثل الشراك، ثم صلى العصر حين كان كل شيء مثل ظله، ثم صلى المغرب حين وجبت الشمس وأفطر الصائم، ثم صلى العشاء حين غاب الشفق، ثم صلى الفجر حين برق الفجر، وحرم الطعام على الصائم، وصلى المرة الثانية الظهر حين كان ظل كل شيء مثله لوقت العصر بالأمس، ثم صلى العصر حين كان ظل كل شيء مثليه، ثم صلى المغرب لوقته الأول، ثم صلى العشاء الآخرة حين ذهب ثلث الليل، ثم صلى الصبح حين أسفرت الأرض، ثم التفت إلي جبريل، فقال: يا محمد، هذا وقت الأنبياء من قبلك، والوقت فيما بين هذين الوقتين ".
الترمذی 1۔278 ط مصطفی البابی الحلبی
حکم الالبانی: حسن صحیح

"اور دوسری بار ظہر پڑھائی جب ہر چیز کا سایہ اس کے مثل تھا گزشتہ دن عصر کے وقت۔ پھر عصر اس وقت پڑھائی جب ہر چیز کا سایہ اس کے دو مثل تھا۔"
اس حدیث سے یہ پتا چلتا ہے کہ جس وقت گزشتہ روز عصر پڑھائی تھی اسی وقت ظہر پڑھائی اور جب اس وقت ظہر پڑھائی تو عصر مثلین کے وقت پڑھائی۔ اب مسئلہ یہ ہے کہ ظہر اس وقت سے عصر کے مثلین تک باقی رہتی ہے یا نہیں تو یہ اجتہادی چیز ہے۔ امام اعظمؒ سے اس بارے میں مختلف روایات ہیں۔ اور امام شافعیؒ کے ایک مسئلہ سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ وہ اس وقت میں عصر اور ظہر دونوں کی شرکت کے قائل ہیں۔ اس کی تفصیل آپ عرف الشذی میں دیکھ سکتے ہیں۔
زیادہ سے زیادہ یہ کہا جا سکتا ہے کہ روایت کے آخر میں ہے کہ وقت ان دو وقتوں کے درمیان ہے۔ لیکن اس پر سب کا اتفاق ہے کہ عصر کا وقت اس کے بعد مغرب تک باقی رہتا ہے چناں چہ اس میں تاویل کی جائے گی کہ اس سے مراد وقت مستحب یا کچھ اور ہے۔
یہاں ایک بات واضح کرتا چلوں کہ مبارکپوریؒ نے یہ موقف اختیار کیا ہے کہ دوسرے دن ظہر سے فارغ اس وقت ہوئے جب پہلے دن کی عصر کا وقت تھا۔ لیکن اس پر کوئی قرینہ نہیں ہے کہ پہلے دن کی روایت میں مذکور وقت میں شروع کرنا مراد لیا جائے اور دوسرے دن کی روایت میں مذکور وقت پر ختم کرنا مراد لیا جائے۔

دوسری روایت امام اعظمؒ کے حق میں عصر کے وقت کے بارے میں یہ ہے:۔


حدثنا أبو مصعب، قال: حدثنا مالك، عن يزيد بن زياد عن عبد الله بن رافع مولى أم سلمة زوج النبي صلى الله عليه وسلم أنه سأل أبا هريرة عن وقت الصلاة فقال أبو هريرة فأنا أخبرك صل الظهر إذا كان ظلك مثلك وصل العصر إذا كان ظلك مثليك والمغرب إذا غربت الشمس والعشاء ما بينك وبين ثلث الليل فإن نمت إلى نصف الليل فلا نامت عينك وصل الصبح بغلس.
موطا امام مالک 1۔7 ط رسالۃ


" عبد اللہ بن رافع نے ابو ہریرہ رض سے نماز کے وقت کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے فرمایا: میں تمہیں خبر دیتا ہوں۔ ظہر اس وقت پڑھو جب تمہارا سایہ تمہارے جتنا ہو جائے (ایک مثل) اور عصر اس وقت پڑھو جب تمہارا سایہ تمہارے دو مثل ہو جائے۔"
اوقات غیر قیاسی چیز ہیں اس لیے یہ حدیث مرفوع کے ہی حکم میں ہوگا غالبا۔
یہ حدیث بھی صحیح ہے۔

اوپر بیان کردہ ایک حدیث میں عصر کے اور ظہر کے دو وقت بیان ہوئے ہیں۔ ان میں نبی ﷺ کا عام وقت کیا تھا اس کا اندازہ اس حدیث سے ہوتا ہے۔


حدثنا علي بن حجر قال: حدثنا إسماعيل ابن علية، عن أيوب، عن ابن أبي مليكة، عن أم سلمة، أنها قالت: كان رسول الله صلى الله عليه وسلم أشد تعجيلا للظهر منكم، وأنتم أشد تعجيلا للعصر منه
الترمذی 1۔302
حکم الالبانی: صحیح

"ام سلمۃ رض عنہا نے فرمایا: رسول اللہ ﷺ ظہر میں تم سے جلدی کیا کرتے تھے اور تم عصر میں ان سے جلدی کرتے ہو۔"
یعنی ظہر میں نبی ﷺ کا عمل ابتدا کا اور عصر میں تاخیر کا تھا۔

یہ حدیثیں نیمویؒ نے بھی روایت کی ہیں اور میں نے یہاں اصل حوالہ جات سے نقل کی ہیں۔ ان سے معلوم ہوتا ہے کہ عصر کے مثل ثانی پر پڑھے جانے پر ابو حنیفہؒ کا موقف بلا دلیل نہیں ہے۔
مکاتیب رشیدیہ میرے پاس ہے نہیں ورنہ اس میں بھی دیکھتا کہ کیا لکھا ہے۔ جو حقیقت حال ہے وہ عرض کر دی۔

پہلی بات تو یہ کہ کیا آپ ہر مسئلے میں اسی "احتیاط" کا خیال کرتے ہیں؟ کہ جس پر سب متفق ہوں اس قول کو اختیار کیا جائے۔ یا کم سے کم اسی اصول کو اپنا لیں کہ جس پر "اکثر" ائمہ متفق ہوں تو اسے اختیار کر لیا جائے؟؟؟ ہر گز نہیں۔ ورنہ شاید طلاق ثلاثہ اور رفع الیدین والا مسئلہ بھی بڑی آسانی سے حل ہو جاتا۔
دوسری بات یہ کہ مولانا نیمویؒ کے بقول، ائمہ ثلاثہ اور صاحبین جب ایک طرف ہیں، تو کیا اتنے سارے علماء کا اتفاق احتیاط کے لئے کافی نہیں؟ اگر امام ابو حنیفہ کی شاذ رائے ، دلائل سے مرجوح ثابت ہو جائے تو انہیں "اتفاق" میں شامل کرنے کی ایسی کیا ضرورت ہے کہ پوری امت کا اتحاد تہہ و بالا کر کے رکھ دیا جائے؟

شاید آپ ابھی تک احتیاط کا مفہوم نہیں سمجھ سکے یا یوں کہہ لیں میں اپنی نالائقی کی وجہ سے نہیں سمجھا سکا۔ خیر یہ احتیاط ایک باقاعدہ اصول ہے اور اسے دلائل کی روشنی میں دیکھا جاتا ہے۔ میں ایک ایک مسئلے میں دلائل تفصیلا لکھ کر تو یہ نہیں سمجھا سکتا۔ آپ تو سمجھ جائیں گے لیکن میں اپنی کم علمی اور قلت وقت کی بنیاد پر یہ نہیں کر سکوں گا۔
امام اعظمؒ کے دلائل میں نے عرض کر دیے۔ اور بھی ہوں گے لیکن مجھے فی الحال علم نہیں۔ آپ ان کو سامنے رکھ کر خود ہی اندازہ لگا سکتے ہیں کہ ہم صرف قول کو بچانے کے لیے احتیاط کا کہہ رہے ہیں یا کچھ اور بھی ہے۔
میں نے یہ دلائل تلاش کرنے سے پہلے یہ سوچ لیا تھا کہ اگر دلائل نہ ہوئے تو اس مسئلہ کو نوٹ کر لوں گا اور وقت آنے پر علماء احناف سے اس پر بحث کروں گا۔ لیکن جب نیمویؒ کے حوالے میں گڑبڑ دیکھی تو خیال ہوا کہ دلائل اب تو لازمی ڈھونڈنے چاہیئں۔
واللہ اعلم
 

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,684
ری ایکشن اسکور
751
پوائنٹ
290
محترم بھائی میرا بیان کیا گیا تیسرا موقف اور پاک ٹاک والے موقف میں فرق لگا ہے- میں نے لکھا تھا کہ عام قاعدہ یہ ہے کہ سماع کا انکار ہے کیونکہ انکار عمومی صیغہ سے جگہ جگہ آیا ہے البتہ جہاں صحیح احادیث میں استثنی آیا ہے وہ تخصیص کے تحت لیا جائے گا
اسکی دلیل میں بخاری میں ہی بدر والی حدیث میں صحابی کا موقف بتایا گیا ہے کہ یہ استثنائی سورت ہے


قابل صد احترام عبدہ بھائی!
شاید آپ انک لا تسمع الموتی وغیرہ صیغ کا فرمارہے ہیں تو ان میں تفصیلی بحث کی گئی ہے۔ ان کے معانی میں باریک فرق بیان کیا گیا ہے (مثال کے طور پر اس میں "اسماع" کی نفی ہے سماع کی نہیں اور اسماع پر واقعی قدرت نہیں ہے۔) وغیرہ لیکن چوں کہ میں نے اس پورے مسئلے پر ایک بار مکمل تحقیق کرنی ہے اور چند جگہوں پر ایک خاص زاویہ سے تو میں اس موضوع کو چھیڑا نہیں کرتا۔ البتہ جتنا میں نے پڑھا تھا اس کے مطابق یہی نتیجہ نکلتا ہے کہ جہاں جہاں نہیں سننے کا ذکر ہے وہاں نہ سننے کا کہا جائے اور جہاں جہاں سننے کا ذکر ہے (جیسے چپلوں کی آواز وغیرہ) وہاں سننے کا کہا جائے اور جہاں کسی چیز کا ذکر نہ ہو وہاں میری رائے کے مطابق توقف کیا جائے۔

جی محترم بھائی ساری شریعت صحابہ سے ہی ہم تک پہنچی ہے کوئی اور تو واسطہ نہیں پس جو اختلاف احادیث میں آیا ہے انکے ذریعے سے ہی آیا ہے
محترم بھائی بسا اوقات صحابہ سے صرف روایات ہم تک پہنچتی ہیں اور یہ نہیں پہنچتا کہ صحابہ نے اس میں اختلاف کیا تھا یا نہیں۔ اس میں یہ بھی واضح امکان ہوتا ہے کہ ان کا عمل روایت کے خلاف ہو اور یہ امکان بھی کہ ان کے پاس دوسری روایت پہنچی ہی نہ ہو۔
تو اسلیے میں نے پوچھا کہ کیا اس بارے میں ان سے اختلاف مروی ہے؟


محترم بھائی شاید آپ لاشعوری طور پر صحیح لنک نہیں کر سکے
عصر کی نماز کو دیکھنے کے دو طریقے ہیں
1-ایک طریقہ یہ ہے کہ دونوں قولوں کو لے کر احتیاط کے پہلو سے عصر کی نماز کو ادا کرنا
2-دوسرا طریقہ یہ کہ ایک قول کو اجتہاد سے فکس کر کے اسی پر اعتبار کرتے ہوئے لا یکلف اللہ نفسا الا وسعھا کت تحت عمل کر لینا
آپ نے اوپر پہلے طریقے کے حق میں دلائل دیتے ہوئے اپنا موقف صحیح ثابت کیا تھا مگر جب میں نے تیسری حدیث لا کر اس احتیاط والے پہلو میں ہی شک پیدا کر دیا تو آپ نے شاید غلطی سے دوسرا موقف سجھ لیا کہ ہم ایک قول کو فکس کر کے نماز پڑھیں
محترم بھائی میرے خیال میں اس سے پہلے محترم شاکر بھائی یہی تو کہنا چاہ رہے تھے کہ جب آپ کے ہاں بھی زیادہ راجح مثل اول ہے تو پھر اسکو فکس کر کے نماز کیوں نہیں پڑھتے تو آپ نے وہاں کہ کہ اگرچہ زیادہ صحیح وہی ہے مگر احتیاط کے پہلو سے ہم ایسا نہیں کرتے- محترم شاکر بھائی کیا ایسا ہی معاملہ شروع کیا گیا تھا میں نے تو بعد میں جوائن کیا تھا

نہیں میرے بھائی غالبا میں آپ کو سمجھا نہیں پایا۔
پہلے طریقہ کو اگر آپ صرف لیں تو دونوں قولوں کو ایک وقت میں لینا ہوگا جب کہ دونوں قول الگ الگ بات کر رہے ہیں۔ پہلے قول کے مطابق عصر کا وقت مثل اول پر شروع ہوتا ہے مثلین پر نہیں اور دوسرے قول کے مطابق عصر کا وقت مثلین پر شروع ہوتا ہے مثل اول پر نہیں۔ یوں کہہ لیں کہ قول عصر کے وقت کے شروع ہونے کے بارے میں ہیں۔ اگر ایک ہی وقت پر دونوں قول لیں گے تو لازما ایک کا رد ہو جائے گا۔
ہم عمل تو ایک قول پر کرتے ہیں لیکن احتیاط کے تناظر سے یہ دیکھتے ہیں کہ ایسا قول ہو اور عقلا بھی ایسا معاملہ ہو جس سے دوسرے قول کے قائلین کے مسلک کے خلاف بھی نہ جائیں تو دونوں کے مطابق اس تناظر میں عمل ہو جائے۔
اب جب پہلا قول لیا اور مثل اول پر نماز پڑھنے لگے تو ایک تو دوسرے قول کے مطابق نماز نہیں ہوئی۔ اور دوسرا عقلا بھی ہم اسے ایسا وقت نہیں کہہ سکتے جس میں اختلاف کا احتمال ہی نہیں ہے۔
اور جب دوسرا قول لیا اور مثلین پر نماز پڑھنے لگے تو پہلے قول والوں کے نزدیک بھی نماز ہو گئی اور عقلا بھی یہ صورت نماز کے ہونے نہ ہونے کے اختلاف سے خالی ہو گئی کیوں کہ یہ آخری وقت ہے اور اس کے بعد کا کوئی قائل نہیں۔
اب دیکھیں عمل ایک پر ہی ہو رہا ہے لیکن احتیاط اس تناظر میں دیکھی جا رہی ہے کہ دوسرے قول کے قائلین کے نزدیک بھی نماز درست ہو رہی ہے اور کسی حدیث کی مخالفت بھی نہیں ہو رہی۔
یہاں شاکر بھائی نے یہ اشکال فرمایا کہ ظہر کے وقت اخیر میں مسئلہ ہو رہا ہے تو میں نے اس کا جواب اوپر عرض کر دیا ہے۔
 

عبدہ

سینئر رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 01، 2013
پیغامات
2,038
ری ایکشن اسکور
1,225
پوائنٹ
425
اس میں "اسماع" کی نفی ہے سماع کی نہیں اور اسماع پر واقعی قدرت نہیں ہے۔) وغیرہ لیکن چوں کہ میں نے اس پورے مسئلے پر ایک بار مکمل تحقیق کرنی ہے اور چند جگہوں پر ایک خاص زاویہ سے تو میں اس موضوع کو چھیڑا نہیں کرتا۔ البتہ جتنا میں نے پڑھا تھا اس کے مطابق یہی نتیجہ نکلتا ہے کہ جہاں جہاں نہیں سننے کا ذکر ہے وہاں نہ سننے کا کہا جائے اور جہاں جہاں سننے کا ذکر ہے (جیسے چپلوں کی آواز وغیرہ) وہاں سننے کا کہا جائے اور جہاں کسی چیز کا ذکر نہ ہو وہاں میری رائے کے مطابق توقف کیا جائے۔
محترم بھائی میں نے یہ موقف پہلی دفعہ سنا ہے اور میری تحقیق نہیں ہے البتہ اگر اسماع کی نفی سے مراد یہ ہے کہ ہم نہیں سنا سکتے صرف اللہ جب چاہتا ہے سنا دیتا ہے تو پھر تو اختلاف ہی نہیں ہے
لیکن اگر ہم یہ کہیں کہ مردہ قبر کے باہر ہونے والی بات اندر خود سن لیتا ہے تو میرے عقل میں یہ نہیں آتا کیونکہ اگر ہم یہ عقیدہ رکھیں کہ مردہ دنیا کی طرح سنتا ہے تو پھر بھی ہم کسی مردے کو نہیں سنا سکتے کیوں کہ کسی زندہ کو بھی قبر میں ڈال کر اور مٹی ڈال دیں تو اوپر لاؤڈ سپیکر کی آواز بھی وہ اندر نہیں سن سکتا ہاں اگر یہ کہیں کہ مرنے کے بعد اس کی طاقتیں بڑھ گئی ہیں تو پھر ہو سکتا ہے اور ایسا تب ہوتا ہے جب اللہ چاہے پس میرے خیال میں جب اللہ چاہے تو اسوقت وہ سن سکتے ہیں
لیکن چونکہ یہ اصل موضوع نہیں پس میں کوشش کرتا ہوں کہ اس کے لئے ایک نا تھریڈ بنا لوں اور وہاں اپنی معلومات آپ کو دوں اور آپ کی معلومات خود لوں تاکہ کچھ بہتری آئے

محترم بھائی بسا اوقات صحابہ سے صرف روایات ہم تک پہنچتی ہیں اور یہ نہیں پہنچتا کہ صحابہ نے اس میں اختلاف کیا تھا یا نہیں۔ اس میں یہ بھی واضح امکان ہوتا ہے کہ ان کا عمل روایت کے خلاف ہو اور یہ امکان بھی کہ ان کے پاس دوسری روایت پہنچی ہی نہ ہو۔
جھی محترم بھائی آپ کی بات ٹھیک ہے اور اس بارے محترم شیخ کفایت اللہ بھائی ہی بہتر بتا سکتے ہیں لیکن میں غلطی سے یہ سمجھا تھا کہ چونکہ جبرائیل کی امامت والی حسن صریح حدیث کا پتا ہے جو صحابہ سے ہی مروی ہے تو صحابی کے عمل کا علم نہ ہونے پر وہی موقف سمجھا جائے گا اب دوسری طرف اگر کوئی قول یا روایت ہی نہیں تو پھر تو مسئلہ ہی نہیں اگر ہے تو پھر اختلاف ثابت ہو جائے گا واللہ اعلم
باقی عصر کی نماز کے وقت پر نماز کے بعد پوسٹ لکھتا ہوں ان شاٗاللہ
 
Top