محترم عبدہ بھائی آپ کا انداز بحث بہت اچھا ہے۔ اللہ پاک آپ کے علم و عمل میں برکت عطا فرمائیں۔
اللہ آپ کو جزائے خیر دے امین
مگر اس میں صرف متکلم کا کمال نہیں ہوتا بلکہ مخاطب کے رویے کا بھی کمال ہوتا ہے اللہ ہم سب کو جذبات پر کنٹرول کرنے کی توفیق دے امین -یہ تو ہو سکتا ہے کہ مجھ میں برانگیختہ ہونے کے جراثیم کچھ بھائیوں سے کم ہوں مگر مجھ سے بہتر بھی موجود ہیں کیونکہ ہوں تو انسان ہی- کبھی کبھی مخاطب کے روہے کی وجہ سے میں بھی غلط راہ اختیار کر لیتا ہوں- ہاں اس میں اللہ کا شکر ادا کرتا ہوں کہ وہ کسی کے یاد دلانے پر اپنی اصلاح کی توفیق اکثر دے دیتا ہے
میں واقعتا پہلا ہی سمجھا تھا۔ باقی دو میں سے کونسا احناف کا عمومی موقف ہے میں نہیں جانتا۔ ایک حنفی دیوبندی مناظر صاحب سے پال ٹاک پر تیسرا (تخصیص والا) موقف سنا تھا۔ امید ہے یہی ہوگا۔ انہوں نے کہا تھا کہ ہم اس کے قائل ہیں کہ جن جگہوں پر سماع کا آیا ہے وہاں سماع ہے اور جن جگہوں پر انکار آیا ہے وہاں سماع نہیں ہے۔
محترم بھائی میرا بیان کیا گیا تیسرا موقف اور پاک ٹاک والے موقف میں فرق لگا ہے- میں نے لکھا تھا کہ عام قاعدہ یہ ہے کہ سماع کا انکار ہے کیونکہ انکار عمومی صیغہ سے جگہ جگہ آیا ہے البتہ جہاں صحیح احادیث میں استثنی آیا ہے وہ تخصیص کے تحت لیا جائے گا
اسکی دلیل میں بخاری میں ہی بدر والی حدیث میں صحابی کا موقف بتایا گیا ہے کہ یہ استثنائی سورت ہے
میں کہتا ہوں کہ وہ جگہیں بچ گئیں جہاں انکار و اقرار میں کچھ منصوص نہیں۔
اسی وجہ سے میں نے اوپر فرق کی وضاحت کی ہے کہ میرے تیسرے موقف میں کوئی صورت نہیں بچتی
کشف یا حواس سے کسی کے سامنے کچھ واضح ہو جائے تو وہ اسے مان لے۔ واللہ اعلم
حواس پر تو کوئی انکار کر نہیں سکتا نہ کیا ہے مگر کشف سے مراد اگر کرامت ہے تو اس پر کوئی انکار نہیں کرتا اگر صاحب کرامت کے اختیار اور مرضی سے نہ ہو لیکن اگر کوئی اور چیز ہے تو مجھ تک اسکے دلائل نہیں پہنچے واللہ اعلم
(میرے اکثر اساتذہ حیات و ممات کی کسی بحث پر ایک لفظ بھی ادا نہیں کرتے۔ ایک مجلس خاص میں میرے ایک استاذ جو سرفراز خان صفدرؒ کے شاگرد ہیں، نے میرے ایک ساتھی سے اس بارے میں کوئی سوال پوچھا تو اس نے جواب میں عرض کیا کہ فی الحال ہمارے زمین کے اوپر کے معاملات ٹھیک نہیں ہو رہے اندر کو کیسے دیکھوں۔)
جی محترم بھائی یہ بات واقعی ٹھیک ہے کہ اگر حیات و ممات یا سماع موتی کے اختلاف کو صرف اس حد تک لیں جہاں تک صحابہ کا تھا تو اس پر زور دینے کی ضرورت نہیں اور ہمیں باقی معاملات پر وقت صرف کرنا چاہئے جیسے ایک اور تھریڈ میں محترم مفتی شفیع عثمانی کی بات کو کوٹ کیا گیا ہے کہ ہمیں ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے مسلک کے فروعی مسائل کو ثابت کرتے وقت لگ گیا اور دوسرے معاملات رہ گئے
لیکن بھائی یہاں معاملہ پھر اس سماع موتی سے واللہ آگے بڑھتے ہوئے میں نے موحدین میں بھی دیکھا ہے پس کیا اہل حدیث اور کیا دیوبندی (بریلوی کا اسکے بغیر ہی) اس معاملے میں سب کے کچھ علماء کو خطا کرتے دیکھا ہے کہ جس سے شرک کے دروازے کھل جاتے ہیں پس عام جب بات کی جائے تو کیوں نہ سماع موتی کا انکار ہی کیا جائے تاکہ کوئی دلیر نہ ہو جائے اس سے نقصان ہی کیا ہو گا
مثلا صدر زرداری کو قانون میں استثنی صاحل تھا اب عام آدمی جب قتل کرنے لگے تو ہم اسکو قانون سے ڈراتے ہوئے استثنائی صورت بتائیں گے یا دوسری- پس یہ میرا موقف تھا کہ اس میں احتیاط زیادہ ہے- ہاں اگر کوئی علم رکھنے والا پوچھے تو اسکو استثنائی صورتیں بے شک کھول کر واضح کر دی جائیں میرے ذین تو یہی احتیاطی پہلو ہے واللہ اعلم
کیا ان میں اس بارے میں اختلاف منصوص ہے؟ مجھے اس کا علم نہیں۔ اگر آپ بتا دیں!
جی محترم بھائی ساری شریعت صحابہ سے ہی ہم تک پہنچی ہے کوئی اور تو واسطہ نہیں پس جو اختلاف احادیث میں آیا ہے انکے ذریعے سے ہی آیا ہے
احتیاط کا مطلب کیا ہوتا ہے کہ ہم مثلین والے قول کو اختیار کر رہے ہیں۔ یعنی مثلین سے پہلے ایک قول کے مطابق عصر کا وقت نہیں ہوتا اور مثلین پر ہوجاتا ہے۔ تو اول وقت میں نماز اس قول کے مطابق مثلین کے اعتبار سے ہوگی۔ جب ہم احتیاطا اس قول کو اختیار کر رہے ہیں تو مکمل اختیار کریں گے اور اسی اعتبار سے ثواب کی امید رکھیں گے۔
جب کہ اس حدیث سے ثواب و استحباب ثابت ہوتا ہے۔ اگر واقعی اسے مان لیں کہ مثلین کا قول زیادہ درست تھا اور اس سے پہلے عصر کا وقت ہی نہیں ہوا تھا تو میری اوپر والی تفصیل سے صرف نظر کر کے یہ بتائیں ثواب سرے سے ملے گا؟واللہ اعلم بالصواب
محترم بھائی شاید آپ لاشعوری طور پر صحیح لنک نہیں کر سکے
عصر کی نماز کو دیکھنے کے دو طریقے ہیں
1-ایک طریقہ یہ ہے کہ دونوں قولوں کو لے کر احتیاط کے پہلو سے عصر کی نماز کو ادا کرنا
2-دوسرا طریقہ یہ کہ ایک قول کو اجتہاد سے فکس کر کے اسی پر اعتبار کرتے ہوئے لا یکلف اللہ نفسا الا وسعھا کت تحت عمل کر لینا
آپ نے اوپر پہلے طریقے کے حق میں دلائل دیتے ہوئے اپنا موقف صحیح ثابت کیا تھا مگر جب میں نے تیسری حدیث لا کر اس احتیاط والے پہلو میں ہی شک پیدا کر دیا تو آپ نے شاید غلطی سے دوسرا موقف سجھ لیا کہ ہم ایک قول کو فکس کر کے نماز پڑھیں
محترم بھائی میرے خیال میں اس سے پہلے محترم
شاکر بھائی یہی تو کہنا چاہ رہے تھے کہ جب آپ کے ہاں بھی زیادہ راجح مثل اول ہے تو پھر اسکو فکس کر کے نماز کیوں نہیں پڑھتے تو آپ نے وہاں کہ کہ اگرچہ زیادہ صحیح وہی ہے مگر احتیاط کے پہلو سے ہم ایسا نہیں کرتے- محترم شاکر بھائی کیا ایسا ہی معاملہ شروع کیا گیا تھا میں نے تو بعد میں جوائن کیا تھا