• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

نماز عصر کا وقت ایک مثل پر

عبدہ

سینئر رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 01، 2013
پیغامات
2,038
ری ایکشن اسکور
1,225
پوائنٹ
425
اگر ایک ہی وقت پر دونوں قول لیں گے تو لازما ایک کا رد ہو جائے گا۔
جب ہم احتیاطا اس قول کو اختیار کر رہے ہیں تو مکمل اختیار کریں گے اور اسی اعتبار سے ثواب کی امید رکھیں گے۔
ثواب کے سلسلے میں میں نے ایک بات عرض کی تھی۔
قطب شمالی کے قریب کے ---------
محترم بھائی ایک تو یہ بتانا ہے احتیاط صرف ایک طرح کی نہیں ہوتی بلکہ کئی قسم کی ہو سکتی ہے مثلا زیادہ راجح حدیث پر عمل کرنا یا افضل پر عمل کرنا بھی احتیاط ہی کا ایک پہلو ہے جو شاکر بھائی نے آپ کو کہا تھا پس جب آپ کے اکثر لوگوں کے نزدیک زیادہ راجح ایک قول ہے تواس پر عمل کرنا زیادہ احتیاط ہو گی
دوسرا عصر کی نماز کے بارے تین قسم کی روایات ملتی ہیں
1-مثل اول کے بارے روایات
2-مثل ثانی کے بارے روایات
3-اول وقت میں ثواب کی فضیلت اور نہ پڑھنے میں منافقت کا الزام کی روایات
پس احتیاط میں سب کو دیکھ کر چلنا ہوتا ہے
دوسرا آپ نے خود اقرار کیا ہے بلکہ قطبین کی مثالیں جگہ جگہ دے کر ثابت کیا ہے کہ جب دو مثل پر پڑھیں گے تو اللہ ہمیں غلط ہونے پر بھی نیت کے مطابق دو مثل پر ہی اول وقت کا ثواب دے گا تو یہ بھی ثابت ہوا کہ جب کسی دوسرے قول کو چھوڑ کر نیک نیتی سے ایک قول پر کسی بھی وجہ سے عمل کیا جائے تو وہ بھی احتیاط کا ہی پہلو ہوتا ہے ورنہ ثابت تو دونوں ہی ہوتے ہیں

اب میں خلاصہ بتانا چاہوں گا کہ اگر کوئی دو قول ثابت ہوں اور ان دونوں میں تطبیق بھی ممکن ہو تو ایسا طریقہ اختیار کیا جائے گا جو احتیاطی طور پر دونوں پر عمل کروا دے مگر اگر کوئی تیسرا ایسا قول موجود ہو جسکی وجہ سے پہلے دو قولوں میں تطبیق ممکن نہ ہو بلکہ تیسرا قول یہ مطالبہ کرتا ہو کہ پہلے دونوں قولوں میں تطبیق کی بجائے راجح اور افضل کو تلاش کیا جائے تو پھر ایسا ہی کیا جائے گا اور اللہ سے ثواب کی نیت رکھتے ہوئے اس پر عمل کر لیا جائے گا
میرے خیال میں یہ بات آپ کو محترم شاکر بھائی سمجھانا چاہ رہے تھے
 

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,684
ری ایکشن اسکور
751
پوائنٹ
290
3-اول وقت میں ثواب کی فضیلت اور نہ پڑھنے میں منافقت کا الزام کی روایات

اب میں خلاصہ بتانا چاہوں گا کہ اگر کوئی دو قول ثابت ہوں اور ان دونوں میں تطبیق بھی ممکن ہو تو ایسا طریقہ اختیار کیا جائے گا جو احتیاطی طور پر دونوں پر عمل کروا دے مگر اگر کوئی تیسرا ایسا قول موجود ہو جسکی وجہ سے پہلے دو قولوں میں تطبیق ممکن نہ ہو بلکہ تیسرا قول یہ مطالبہ کرتا ہو کہ پہلے دونوں قولوں میں تطبیق کی بجائے راجح اور افضل کو تلاش کیا جائے تو پھر ایسا ہی کیا جائے گا اور اللہ سے ثواب کی نیت رکھتے ہوئے اس پر عمل کر لیا جائے گا
میرے خیال میں یہ بات آپ کو محترم شاکر بھائی سمجھانا چاہ رہے تھے


جی میرے محترم بھائی۔
اور اسی کا میں نے جواب دیا تھا۔
لیکن جب مثل اول سے عصر کا وقت شروع ہونے کی صریح احادیث موجود ہیں۔ اور ان کی صراحت کے علمائے احناف بھی معترف ہیں۔ اور دوسری جانب صلوٰۃ الوسطیٰ کی حفاظت والی قرآنی آیت، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صحیح حدیث کہ منافق نماز عصر کے لئے سورج زرد ہونے کا انتظار کرتا ہے ، کیا یہ احادیث عصر کی نماز کو تاخیر سے ادا کرنے میں مانع نہیں۔۔۔؟
مثلین کا وقت دنیا کے اکثر علاقوں میں سورج زرد ہونے سے ایک گھنٹہ یا کم از کم پونا گھنٹہ پہلے ہوجاتا ہے۔ آج کل عصر کی اذان تقریبا پانچ بجے ہو رہی ہے اور مغرب تقریبا ساڑھے چھ بجے۔ اصفرار شمس اسی حساب سے تقریبا سوا چھ بجے کے قریب ہوتا ہے۔ اس لیے اس حدیث کا اطلاق نہیں ہوتا۔ اصفرار شمس (سورج كے زرد ہونے) کے وقت کا انتظار کر کے اس میں نماز پڑھنا احناف کے نزدیک بھی مکروہ ہے۔ چوں کہ اتنا طویل وقت باقی ہوتا ہے اس لیے صلوۃ الوسطی کی حفاظت بھی رہتی ہے۔ یہ ضائع نہیں ہوتی۔ بلکہ یوں کہا جائے کہ احتیاط کے ساتھ سب پر عمل ہوجاتا ہے تو زیادہ مناسب ہے۔
جن علاقوں میں مثلین اصفرار شمس کے قریب ہو (شاید فن لینڈ یا انٹارکٹیکا کے قریب کہیں ہو) وہاں مثل اول پر ہی ادا کی جائے گی۔ خاص طور پر جب کہ مثلین کو ترجیح احتیاط کی وجہ سے دی گئی ہو تو اس احتیاط کے لیے نماز ضائع نہیں کی جا سکتی۔ اس لیے مثل اول میں ہی ادا کی جائے گی۔
اسی طرح کسی کو کوئی عذر شرعی ہو جیسے سفر درپیش ہو اور یہ گمان ہو کہ سفر میں موقع نہیں ملے گا تو مثل اول میں ہی ادا کرے۔

2۔ وہ حدیث جس میں جمعہ کے دن دعا کی قبولیت کی گھڑی کا ذکر ہے۔ اور راجح قول کے مطابق یہ گھڑی عصر سے مغرب کے دوران ہوتی ہے۔ تو میں یہ سوچتا ہوں کہ ہمارا وقت تو کراچی میں آج کل کے حساب سے چار سوا چار بجے سے شروع ہو جاتا ہے۔ جبکہ احناف کے ہاں غالبا ساڑھے پانچ بجے نماز عصر پڑھی جاتی ہے۔ تو عصر کے وقت کے غلط فیصلے سے یہ گھڑی ڈھونڈنے کی خواہش رکھنے والے بھی بہت سارا وقت ضائع نہیں کر دیتے؟
ایسے ہی ایک سوال کا جواب اس رمضان میں میں نے دیا تھا۔ سوال یہ تھا کہ سعودی عرب اور ہمارے یہاں اکثر تاریخ رمضان کا فرق ہوتا ہے تو جس دن آخری عشرے کی طاق رات وہاں ہوتی ہے یہاں نہیں ہوتی۔ جیسے پچیسویں شب وہاں ہوگی تو یہاں چوبیسویں ہوگی۔ تو شب قدر کا ثواب کسے ملے گا؟ میں نے کہا کہ ثواب اللہ پاک نے دینا ہے اور وہ جانتا ہے کہ ہم بھی اپنی حد تک بالکل خیال سے درست عمل کرتے ہیں اور وہ بھی۔ تو پھر کیا وجہ ہے کہ ہمیں یا انہیں اللہ پاک ثواب نہیں دے۔ جبکہ اللہ کے خزانے میں کوئی کمی نہیں ہے۔ تو اسی طرح یہاں بھی عصر جو جس وقت پڑھنا زیادہ درست سمجھتا ہے اللہ پاک اس کی نیت سے واقف ہے۔ اس کے ساتھ اسی طرح معاملہ ہوگا۔
باقی جس قول کے مطابق عصر سے مغرب کے درمیانی وقت میں یہ گھڑی ہے اس میں اکثر علماء نے عصر کے آخری وقت کو مراد لیا ہے جسے ہم اصفرار شمس کہتے ہیں۔ اس لیے نماز جلدی پڑھی جائے یا دیر سے کچھ اثر نہیں ہوتا۔
واللہ اعلم بالصواب۔



احتیاط کا قول سوچتے وقت ہمیں بہت سی چیزیں دیکھنی ہوتی ہیں لیکن ہر چیز کو اس کے مناسب مقام بھی دینا ہوتا ہے۔
جیسے ایک جانب فضیلت ہو صرف اور دوسری جانب ہونے یا نہ ہونے کا امکان اور عمل کی صورت میں دونوں قولوں کے مطابق درستگی تو دوسری جانب کو ترجیح ہوگی۔
ویسے جانب فضیلت کے بارے میں بھی میں نے عرض کر دیا۔
ویسے میرا تجربہ یہ ہے کہ جب میں ان چیزوں کے بارے میں تحقیق شروع کرتا ہوں تو ان سب چیزوں کو محققین دیکھ چکے ہوتے ہیں اور اس کے بعد دلائل کے ساتھ فیصلے دے چکے ہوتے ہیں۔ پھر بھی ہمیں اپنی تحقیق جاری رکھنی چاہیے۔
 

عبدہ

سینئر رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 01، 2013
پیغامات
2,038
ری ایکشن اسکور
1,225
پوائنٹ
425
جی میرے محترم بھائی۔اور اسی کا میں نے جواب دیا تھا۔
اب میں خلاصہ بتانا چاہوں گا کہ اگر کوئی دو قول ثابت ہوں اور ان دونوں میں تطبیق بھی ممکن ہو تو ایسا طریقہ اختیار کیا جائے گا جو احتیاطی طور پر دونوں پر عمل کروا دے مگر اگر کوئی تیسرا ایسا قول موجود ہو جسکی وجہ سے پہلے دو قولوں میں تطبیق ممکن نہ ہو بلکہ تیسرا قول یہ مطالبہ کرتا ہو کہ پہلے دونوں قولوں میں تطبیق کی بجائے راجح اور افضل کو تلاش کیا جائے تو پھر ایسا ہی کیا جائے گا اور اللہ سے ثواب کی نیت رکھتے ہوئے اس پر عمل کر لیا جائے گا
میرے خیال میں یہ بات آپ کو محترم شاکر بھائی سمجھانا چاہ رہے تھے
محترم بھائی جلدی میں سمجھا نہیں سکا اصل میں بات یہ ہے کہ احادیث دو قسم کی ہوتی ہیں ایک محکم (جس میں اختلاف نہ ہو) اس میں عمل لازمی ہوتا ہے اور احتیاط کا سوال ہی نہیں آ سکتا
دوسری مختلف الحدیث (جس میں اختلاف ہو) اس میں تطبیق دیں گے جس میں احتیاط کو بھی مدنظر رکھا جائے گا
اب اگر صرف دو قول (مثل اور مثلین) کے ہوں تیسرا منافقت اور فضیلت والا نہ ہو تو پھر مختلف الحدیث ہونے کی وجہ سے احتیاط کو دیکھا جائے گا اور آپ والی بات کے مطابق وہ قول لیا جائے گا جس میں دونوں پر عمل ہو جائے
لیکن اگر صرف دو قول نہ ہوں بلکہ تیسرا منافقت والا اور فضیلت والا قول بھی ہو جو محکم ہے تو محکم ہونے کی وجہ سے اس پر تو عمل لازمی ہے جبکہ اس کی موجودگی میں دوسرے دو قولوں میں تطبیق ممکن نہیں لیکن کیا مختلف الحدیث دو قولوں میں احتیاط صرف وہی ہو سکتی ہے جس میں دونوں پر عمل ہو تو یہ ٹھیک نہیں بلکہ احتیاط اور قسم کی بھی ہو سکتی ہے مثلا راجح اور افضل اور صریح پر عمل کرنا بھی احتیاط اور prudence concept کے تحت ہی آتا ہے اب جب دوسری احتیاطی پہلو موجود ہے جس پر عمل سے محکم پر عمل نہیں چھوٹا- جبکہ آپ والے پہلے احتیاطی پہلو پر عمل سے محکم پر عمل چھوٹ سکتا ہے پس مجھے یہ زیادہ صحیح لگتا ہے باقی اہل سنت سے خارج میں کسی کو نہیں کرتا البتہ اپنی اپنی سمجھ ےس ہی عمل ہے اور اتنی پیچیدگیوں کی ضرورت بھی شاید نہیں- واللہ اعلم
 

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,684
ری ایکشن اسکور
751
پوائنٹ
290
محترم بھائی جلدی میں سمجھا نہیں سکا اصل میں بات یہ ہے کہ احادیث دو قسم کی ہوتی ہیں ایک محکم (جس میں اختلاف نہ ہو) اس میں عمل لازمی ہوتا ہے اور احتیاط کا سوال ہی نہیں آ سکتا
دوسری مختلف الحدیث (جس میں اختلاف ہو) اس میں تطبیق دیں گے جس میں احتیاط کو بھی مدنظر رکھا جائے گا
اب اگر صرف دو قول (مثل اور مثلین) کے ہوں تیسرا منافقت اور فضیلت والا نہ ہو تو پھر مختلف الحدیث ہونے کی وجہ سے احتیاط کو دیکھا جائے گا اور آپ والی بات کے مطابق وہ قول لیا جائے گا جس میں دونوں پر عمل ہو جائے
لیکن اگر صرف دو قول نہ ہوں بلکہ تیسرا منافقت والا اور فضیلت والا قول بھی ہو جو محکم ہے تو محکم ہونے کی وجہ سے اس پر تو عمل لازمی ہے جبکہ اس کی موجودگی میں دوسرے دو قولوں میں تطبیق ممکن نہیں لیکن کیا مختلف الحدیث دو قولوں میں احتیاط صرف وہی ہو سکتی ہے جس میں دونوں پر عمل ہو تو یہ ٹھیک نہیں بلکہ احتیاط اور قسم کی بھی ہو سکتی ہے مثلا راجح اور افضل اور صریح پر عمل کرنا بھی احتیاط اور prudence concept کے تحت ہی آتا ہے اب جب دوسری احتیاطی پہلو موجود ہے جس پر عمل سے محکم پر عمل نہیں چھوٹا- جبکہ آپ والے پہلے احتیاطی پہلو پر عمل سے محکم پر عمل چھوٹ سکتا ہے پس مجھے یہ زیادہ صحیح لگتا ہے باقی اہل سنت سے خارج میں کسی کو نہیں کرتا البتہ اپنی اپنی سمجھ ےس ہی عمل ہے اور اتنی پیچیدگیوں کی ضرورت بھی شاید نہیں- واللہ اعلم
میں یہی عرض کررہا ہوں میرے بھائی کہ محکم پر عمل نہیں چھوٹتا۔ نماز آخر وقت میں ادا نہیں ہوتی اور نہ ہی اول وقت کی فضیلت ختم ہوتی ہے۔ یہ تو وہ آخری وقت نہیں ہوتا جس پر منافق کی نماز کا ذکر ہے کیوں کہ سورج کے زرد ہونے میں بہت وقت باقی ہوتا ہے۔ حدیث مبارکہ میں نبی ﷺ کا مثلین پر نماز پڑھنا مذکور ہے۔ اگر بالفرض والمحال منافق کا وقت یہ ہوتا تو آپ ﷺ یہ کیسے کر سکتے تھے؟ اسی طرح اگر ابتدا کا افضل وقت مثل اول ہے اور اس سے پہلے تو نماز ہو ہی نہیں سکتی۔ اور روایت میں یہ ہے کہ تم نبی ﷺ سے زیادہ جلدی عصر پڑھتے ہو تو اگر نماز کا فضیلت والا وقت یہ تھا تو نبی ﷺ کیوں تاخیر فرماتے تھے؟
خلاصہ کلام یہ کہ محکم پر عمل نہیں چھوٹتا۔
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,783
پوائنٹ
1,069
نمازوں كے اوقات


كالج ميں پيريڈ اور نماز عصر كا وقت ايك ہى ہے اور پڑھانے والا پروفيسر عيسائى ہے جو ہميں نماز ادا كرنے كى فرصت نہيں ديتا، ہم ليكچر سے فارغ ہو كر غروب آفتاب سے ايك گھنٹہ قبل نماز عصر ادا كرتے ہيں كيا صحيح ہے ؟

الحمد للہ :

آپ كا اول وقت ميں نماز ادا كرنا افضل ہے، اور آپ كا اس وقت نماز ادا كرنا صحيح ہے جس كا ذكر آپ نے سوال ميں كيا ہے يہ واقعى وقت ميں ہى نماز ادا كرنا ہے، اور اسے سورج زرد ہونے تك موخر كرنا جائز نہيں كيونكہ اس سلسلہ ميں نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے حديث وارد ہے:

عمرو بن عاص رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" جب تم فجر كى نماز ادا كرو تو اس كا وقت طلوع شمس كى پہلى كرن نكلنے تك ہے، اور جب ظہر كى نماز ادا كرو تو اس كا وقت عصر كى نماز كا وقت ہونے تك ہے، اور جب تم عصر كى نماز ادا كرو تو اس كا وقت سورد زرد ہونے تك ہے، اور جب تم نماز مغرب ادا كرو تو اس كا وقت سرخى غائب ہونے تك ہے، اور جب تم عشاء كى نماز ادا كرو تو اس كا وقت آدھى رات تك ہے "

صحيح مسلم ( 5 / 109 ).

ديكھيں: فتاوى اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلميۃ والافتاء ( 6 / 121 ).

اور علاء بن عبد الرحمن رحمہ اللہ بيان كرتے ہيں كہ ہم ظہر كے بعد انس بن مالك رضى اللہ تعالى عنہ كے پاس گئے تو وہ وہ كھڑے عصر كى نماز ادا كر رہے تھے، جب نماز سے فارغ ہوئے تو ہم نے نماز جلد ادا كرنے كا ذكر كيا يا انہوں نے ذكر كيا تو وہ فرمانے لگے:

" ميں نے رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كو يہ فرماتے ہوئے سنا كہ: يہ منافقوں كى نماز ہے، يہ منافقوں كى نماز ہے، يہ منافقوں كى نماز ہے، وہ بيٹھے رہتے ہيں حتى كہ جب سورج زرد اور شيطان كے دونوں سينگوں كے درميان ہو جاتا ہے يا شيطان كے سينگوں پر ہو جاتا ہے تو كھڑے ہو كر چار ٹھونگے مارتا ہے، اس ميں اللہ كا ذكر نہيں كرتا، ليكن كچھ قليل سا "

سنن ابو داود حديث نمبر ( 350 ).

واللہ اعلم .

الشيخ محمد صالح المنجد

http://islamqa.info/ur/2183
 

عبدہ

سینئر رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 01، 2013
پیغامات
2,038
ری ایکشن اسکور
1,225
پوائنٹ
425
یہ تو وہ آخری وقت نہیں ہوتا جس پر منافق کی نماز کا ذکر ہے کیوں کہ سورج کے زرد ہونے میں بہت وقت باقی ہوتا ہے۔ حدیث مبارکہ میں نبی ﷺ کا مثلین پر نماز پڑھنا مذکور ہے۔ اگر بالفرض والمحال منافق کا وقت یہ ہوتا تو آپ ﷺ یہ کیسے کر سکتے تھے؟
جی میرے خیال میں منافق والی بات عموما کرنا تھی مگر عصر کے مثلین کے ساتھ فکس غلطی سے کر دیا آپ کی بات ٹھیک ہے اللہ جزائے خیر دے امین

اسی طرح اگر ابتدا کا افضل وقت مثل اول ہے اور اس سے پہلے تو نماز ہو ہی نہیں سکتی۔ اور روایت میں یہ ہے کہ تم نبی ﷺ سے زیادہ جلدی عصر پڑھتے ہو تو اگر نماز کا فضیلت والا وقت یہ تھا تو نبی ﷺ کیوں تاخیر فرماتے تھے؟
اس بارے میرا علم اتنا زیادہ نہیں محترم کفایت اللہ بھائی یا کوئی اور بھائی بتا سکتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم عموما تاخیر سے پڑھتے تھے کیا کوئی ایسی روایت ہے
اگر نہیں ہے تو ایک دفعہ ایسا کرنے کا کوئی عذر ہو سکتا ہے پس قول کو عمل پر ترجیح حاصل ہہو گی واللہ اعلم
خلاصہ کلام یہ کہ محکم پر عمل نہیں چھوٹتا۔
آدھا خلاصہ سمجھ آ گیا ہے اور اوپر اصلاح کر دی ہے اللہ جزا دے
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,783
پوائنٹ
1,069
" نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان:

" تمہارى حالت اس وقت كيا ہو گى جب تم پر ايسے حكمران ہونگے جو نماز وقت سے تاخير كر كے ادا كرينگے، يا نماز وقت سے مار دينگے ؟
راوى كہتے ہيں: ميں نے عرض كيا: آپ مجھے كيا حكم ديتے ہيں ؟
تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" تم نماز وقت پر ادا كر لينا، اور اگر ان كے ساتھ نماز پاؤ تو ان كے ساتھ بھى ادا كر لينا يہ تمہارے ليے نفلى نماز ہو گى "

وقت سے مار دينگے كا معنى يہ ہے كہ وہ نماز كو ليٹ كرينگے، اور اسے ميت كى طرح كر كے ركھ دينگے جس كى روح نكل چكى ہو.

اور وقت سے تاخير كرنے كا مقصد يہ ہے كہ: وہ اختيارى وقت سے ليٹ كرينگے، نہ كہ سارے وقت سے، كيونكہ متقدمين اور متاخير حكمرانوں سے اختارى وقت سے تاخير ہى منقول ہے، ان ميں سے كسى ايك نے بھى سارے وقت سے ليٹ كر كے نماز ادا نہيں كى، اس ليے اسے اس پر ہى محمول كيا جائيگا جو فى الواقع ہے. اھـ

ديكھيں: شرح مسلم للنووى ( 5 / 147 ).
 

انس

منتظم اعلیٰ
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 03، 2011
پیغامات
4,178
ری ایکشن اسکور
15,346
پوائنٹ
800
قابل صد احترام عبدہ بھائی!
شاید آپ انک لا تسمع الموتی وغیرہ صیغ کا فرمارہے ہیں تو ان میں تفصیلی بحث کی گئی ہے۔ ان کے معانی میں باریک فرق بیان کیا گیا ہے (مثال کے طور پر اس میں "اسماع" کی نفی ہے سماع کی نہیں اور اسماع پر واقعی قدرت نہیں ہے۔) وغیرہ لیکن چوں کہ میں نے اس پورے مسئلے پر ایک بار مکمل تحقیق کرنی ہے اور چند جگہوں پر ایک خاص زاویہ سے تو میں اس موضوع کو چھیڑا نہیں کرتا۔ البتہ جتنا میں نے پڑھا تھا اس کے مطابق یہی نتیجہ نکلتا ہے کہ جہاں جہاں نہیں سننے کا ذکر ہے وہاں نہ سننے کا کہا جائے اور جہاں جہاں سننے کا ذکر ہے (جیسے چپلوں کی آواز وغیرہ) وہاں سننے کا کہا جائے اور جہاں کسی چیز کا ذکر نہ ہو وہاں میری رائے کے مطابق توقف کیا جائے۔
محترم بھائی! صرف ’اسماع‘ کی نہیں بلکہ ’سماع‘ کی بھی نفی ہے:

وَالَّذِينَ تَدْعُونَ مِن دُونِهِ مَا يَمْلِكُونَ مِن قِطْمِيرٍ ١٣ إِن تَدْعُوهُمْ لَا يَسْمَعُوا دُعَاءَكُمْ وَلَوْ سَمِعُوا مَا اسْتَجَابُوا لَكُمْ ۖ وَيَوْمَ الْقِيَامَةِ يَكْفُرُونَ بِشِرْكِكُمْ ۚ وَلَا يُنَبِّئُكَ مِثْلُ خَبِيرٍ ١٤ ۔۔۔ فاطر
وَمَنْ أَضَلُّ مِمَّن يَدْعُو مِن دُونِ اللَّـهِ مَن لَّا يَسْتَجِيبُ لَهُ إِلَىٰ يَوْمِ الْقِيَامَةِ وَهُمْ عَن دُعَائِهِمْ غَافِلُونَ ٥ ۔۔۔ الأحقاف
وَالَّذِينَ تَدْعُونَ مِن دُونِهِ لَا يَسْتَطِيعُونَ نَصْرَكُمْ وَلَا أَنفُسَهُمْ يَنصُرُونَ ١٩٧ وَإِن تَدْعُوهُمْ إِلَى الْهُدَىٰ لَا يَسْمَعُوا ۖ وَتَرَاهُمْ يَنظُرُونَ إِلَيْكَ وَهُمْ لَا يُبْصِرُونَ ١٩٨ ۔۔۔ الأعراف
وَاتْلُ عَلَيْهِمْ نَبَأَ إِبْرَاهِيمَ ٦٩ إِذْ قَالَ لِأَبِيهِ وَقَوْمِهِ مَا تَعْبُدُونَ ٧٠ قَالُوا نَعْبُدُ أَصْنَامًا فَنَظَلُّ لَهَا عَاكِفِينَ ٧١ قَالَ هَلْ يَسْمَعُونَكُمْ إِذْ تَدْعُونَ ٧٢ ۔۔۔ الشعراء
 

انس

منتظم اعلیٰ
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 03، 2011
پیغامات
4,178
ری ایکشن اسکور
15,346
پوائنٹ
800
دوسری روایت امام اعظمؒ کے حق میں عصر کے وقت کے بارے میں یہ ہے:۔

حدثنا أبو مصعب، قال: حدثنا مالك، عن يزيد بن زياد عن عبد الله بن رافع مولى أم سلمة زوج النبي صلى الله عليه وسلم أنه سأل أبا هريرة عن وقت الصلاة فقال أبو هريرة فأنا أخبرك صل الظهر إذا كان ظلك مثلك وصل العصر إذا كان ظلك مثليك والمغرب إذا غربت الشمس والعشاء ما بينك وبين ثلث الليل فإن نمت إلى نصف الليل فلا نامت عينك وصل الصبح بغلس.
موطا امام مالک 1۔7 ط رسالۃ
ذرا واضح کیجئے گا کہ کیا سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے یہاں تمام نمازوں کے اول اوقات بیان کیے ہیں؟

اگر آپ اسے عصر کے اول وقت کی دلیل بنا رہے ہیں تو پھر کیا آپ کے نزدیک ظہر اور فجر کا اول وقت بھی اسی کے مطابق نہیں ہونا چاہئے؟ کیا خیال ہے؟
 

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,684
ری ایکشن اسکور
751
پوائنٹ
290
محترم بھائی! صرف ’اسماع‘ کی نہیں بلکہ ’سماع‘ کی بھی نفی ہے:

وَالَّذِينَ تَدْعُونَ مِن دُونِهِ مَا يَمْلِكُونَ مِن قِطْمِيرٍ ١٣ إِن تَدْعُوهُمْ لَا يَسْمَعُوا دُعَاءَكُمْ وَلَوْ سَمِعُوا مَا اسْتَجَابُوا لَكُمْ ۖ وَيَوْمَ الْقِيَامَةِ يَكْفُرُونَ بِشِرْكِكُمْ ۚ وَلَا يُنَبِّئُكَ مِثْلُ خَبِيرٍ ١٤ ۔۔۔ فاطر
وَمَنْ أَضَلُّ مِمَّن يَدْعُو مِن دُونِ اللَّـهِ مَن لَّا يَسْتَجِيبُ لَهُ إِلَىٰ يَوْمِ الْقِيَامَةِ وَهُمْ عَن دُعَائِهِمْ غَافِلُونَ ٥ ۔۔۔ الأحقاف
وَالَّذِينَ تَدْعُونَ مِن دُونِهِ لَا يَسْتَطِيعُونَ نَصْرَكُمْ وَلَا أَنفُسَهُمْ يَنصُرُونَ ١٩٧ وَإِن تَدْعُوهُمْ إِلَى الْهُدَىٰ لَا يَسْمَعُوا ۖ وَتَرَاهُمْ يَنظُرُونَ إِلَيْكَ وَهُمْ لَا يُبْصِرُونَ ١٩٨ ۔۔۔ الأعراف
وَاتْلُ عَلَيْهِمْ نَبَأَ إِبْرَاهِيمَ ٦٩ إِذْ قَالَ لِأَبِيهِ وَقَوْمِهِ مَا تَعْبُدُونَ ٧٠ قَالُوا نَعْبُدُ أَصْنَامًا فَنَظَلُّ لَهَا عَاكِفِينَ ٧١ قَالَ هَلْ يَسْمَعُونَكُمْ إِذْ تَدْعُونَ ٧٢ ۔۔۔ الشعراء
محترمی و مکرمی انس بھائی!
ویسے تو میں اس موضوع پر کوئی بات کرنے کا ارادہ نہیں رکھتا۔ اور میں نے "اسماع" کا ذکر مذکورہ آیت کے بارے میں کیا تھا۔
لیکن ایک چھوٹی سی بات عرض کرتا چلوں کہ ان آیات میں "پکار" کے نہ سننے کا ذکر ہے اور اگر آپ مکمل آیت کو دیکھیں تو اس میں مشرکین کی پکار کا ذکر ہے یعنی استغاثہ یا استعانت یا جس خاص طرز سے وہ مانگتے تھے۔ اس مدد مانگنے وغیرہ کے سننے کے تو ہم قائل نہیں ہیں۔ چوں کہ یہ ہیں بھی بتوں کے بارے میں اس لیے یوں کہہ لیں کہ مردوں میں اگر سن بھی لیں تو جواب نہیں دے سکتے یا مدد نہیں کر سکتے۔
 
Top