- شمولیت
- اپریل 27، 2013
- پیغامات
- 26,585
- ری ایکشن اسکور
- 6,764
- پوائنٹ
- 1,207
الذین ان مکنھم فی الارض اقامو الصلوۃ واتوالزکوٰۃ وامروا بالمعروف ونھو اعن المنکر وللہ عاقبۃ الامور(الحج۲۲:۴۱)
ترجمہ :یہ وہ لوگ ہیں کہ اگر ہم ان کو زمین میں حکمرانی دیں تو یہ پوری پابندی سے نمازیں ادا کریں اور زکوٰۃ دیتے رہیں اور نیک کاموں کا حکم کریں اور برے کاموں سے روکیں اور تمام کاموں کا انجام اللہ ہی کے اختیار میں ہیں
توضیح:آیات بالا رحمۃ اللعلمین ﷺ کے جاں نثاروں صحابہ کرام رضی اللہ عنھم اجمعین کے بارے میں نازل ہوئی جنھوں نے اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول ﷺ کی خوشنودی کے لئے اپنے وطن عزیز کو چھوڑ کر اللہ کے دین کی سربلندی کے لئے نکل پڑے اور جب ان کے پاؤں اللہ تعالیٰ نے جما دئیے تو اقامت نماز اور ادائیگی زکوٰۃ اور امر بالمعروف و نھی عن المنکر کی ایسی مثال قائم کئے کہ قیامت تک آیات قرآنی و احادیث نبوی ﷺ ان کے اوصاف جمیلہ کی گواہی دیتے رہیں گے ان شاء اللہ۔
وجاھدوافی اللہ حق جھادہ ھواجتبکم وماجعل علیکم فی الدین من حرج ملۃ ابیکم ابراہیم ھوسمکم المسلمیں من قبل وفی ہذالیکون الرسول شھیدا علیکم وتکونواشھدآء علی الناس فاقیمو الصلوۃ و اتوالزکوٰۃ و اعتصموا باللہ ھومولکم فنعم المولیٰ ونعم النصیر (الحج۲۲:۷۸)
ترجمہ :اللہ کے راستہ میں ویساہی جہاد کروجیسے جہاد کا اس کا حق ہے اسی نے تم کو برگزیدہ بنایا ہے اور تم پر دین کے معاملہ میں کوئی تنگی نہیں ڈالی دین اپنے باپ ابراہیمؑ کا قائم رکھواسی اللہ نے تمہارا نام مسلمان رکھا اس قرآن سے پہلے اور اس میں بھی تاکہ پیغمبر تم پر گواہ ہو جائے اور تم تمام لوگوں کے گواہ بن جاؤ پس تمہیں چاہئے کہ نمازیں قائم رکھو اور زکوٰۃ ادا کرتے رہو اور اللہ ہی کو مضبوط تھامے رہو وہی تمہارا ولی اور مالک ہے ، پس کیا ہی اچھا مالک ہے اور کتنا ہی بہتر مددگار ہے۔
توضیح:اس آیت میں جہاد فی سبیل اللہ کی ترغیب ہے جہاد کے چند شرائط ہیں ، مثلاً قرآن کریم کی تعلیم میں پابندی لگا دینا، مساجد کی مسماری اذان اور نمازوں پر پابندی اور ناحق اہل اسلام پر ظلم ڈھانا وغیرہم جو بھی ملک اس کا مرتکب ہو گا تو مسلمانوں پر لازم ہو گا کہ وہ اپنے دین اسلام کے تحفظ اور اسلام کے وقار اور اعلاء کلمۃ اللہ کے لئے اپنے جان و مال کی قربانی دے کر جہاد کا حق ادا کریں اور اس وقت تک یہ جاری رہے گا جب تک کہ ظالم مذکورہ پابندیوں کو نہ ہٹا لیں ۔
اسی طرح اسلام دین فطرت ہے جوآسان دین ہے اللہ تعالیٰ نے ہم پرایسے احکامات نازل نہیں فرمائے کہ اسے بجا نہ لایا جائے نماز دین کا ستون ہے اس کے لئے وضو کا طریقہ بتایا گیا ہے کہ پانی میسرنہ ہو تو تیمم کر لیا جائے یا کوئی بیمار ہے تواس کے لئے تیمم کافی ہے کوئی کھڑا ہو کر نماز نہیں پڑھ سکتا اس کے لئے بیٹھ کر نماز پڑھنا اور جو بیٹھ کر بھی نہ پڑھ سکے تو وہ لیٹ کر اور اشاروں سے پڑھنے کا حکم دیا ہے حالت خوف میں صلوۃ خوف، حالت سفرمیں قصر و جمع بین صلاتین روزے رمضان میں بھی مریض و مسافر کے لئے رخصت وغیرہ اسی طرح اہل ایمان کے لئے سال میں صرف دوہی تہوار عیدین یعنی عیدالفطر اور عید الاضحی ہیں مگر آج کے پیٹ بھرو علماء سوء نے امت کو گمراہ کر کے ان پر بے شمار رسم و رواج مسلط کر دئیے ہیں مثلاً مزارات پرستی میں عرس کی ایجاد اور قوالیوں کے تماشے ، پیرپرستی اور صندل نکالنا، تیجہ اور چہلم اور گیارہویں کے پلاؤ، رجب کے کو نڈے اب کیا کیا گنایا جائے جس کا دین اسلام سے ذرہ برابر بھی تعلق نہیں ہے بس اتنا ہی کہا جا سکتا ہے کہ ’’امت خرافات میں کھو گئی‘‘ اللہ تعالیٰ نے ملت ابراہیمی پر قائم رہنے کی تاکید فرمائی ہے اور ہمارا نام مسلم رکھا گیا ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ ہر اعتبار سے اللہ ہی کی عبادت کرنا اس کے فرمانبردار بن کر زندگی گزارنا۔
اللہ تعالیٰ نے ہمیں اسی اطاعت اور فرمانبرداری کے لئے اقامت نماز اور ادائیگی زکوٰۃ کا حکم فرمایا آیت مذکورہ میں ایک نقطہ پر ہم نظر دوڑائیں ’’اور اللہ ہی کو مضبوط تھامے رہو‘‘ اگر ہم مذکورہ امور پر عمل کرتے ہیں تو تعلق باللہ قائم ہو گا ورنہ زبانی دعوے تو یہود و نصاریٰ کفار و مشرکین سب ہی کرتے ہیں ۔
ترجمہ :یہ وہ لوگ ہیں کہ اگر ہم ان کو زمین میں حکمرانی دیں تو یہ پوری پابندی سے نمازیں ادا کریں اور زکوٰۃ دیتے رہیں اور نیک کاموں کا حکم کریں اور برے کاموں سے روکیں اور تمام کاموں کا انجام اللہ ہی کے اختیار میں ہیں
توضیح:آیات بالا رحمۃ اللعلمین ﷺ کے جاں نثاروں صحابہ کرام رضی اللہ عنھم اجمعین کے بارے میں نازل ہوئی جنھوں نے اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول ﷺ کی خوشنودی کے لئے اپنے وطن عزیز کو چھوڑ کر اللہ کے دین کی سربلندی کے لئے نکل پڑے اور جب ان کے پاؤں اللہ تعالیٰ نے جما دئیے تو اقامت نماز اور ادائیگی زکوٰۃ اور امر بالمعروف و نھی عن المنکر کی ایسی مثال قائم کئے کہ قیامت تک آیات قرآنی و احادیث نبوی ﷺ ان کے اوصاف جمیلہ کی گواہی دیتے رہیں گے ان شاء اللہ۔
وجاھدوافی اللہ حق جھادہ ھواجتبکم وماجعل علیکم فی الدین من حرج ملۃ ابیکم ابراہیم ھوسمکم المسلمیں من قبل وفی ہذالیکون الرسول شھیدا علیکم وتکونواشھدآء علی الناس فاقیمو الصلوۃ و اتوالزکوٰۃ و اعتصموا باللہ ھومولکم فنعم المولیٰ ونعم النصیر (الحج۲۲:۷۸)
ترجمہ :اللہ کے راستہ میں ویساہی جہاد کروجیسے جہاد کا اس کا حق ہے اسی نے تم کو برگزیدہ بنایا ہے اور تم پر دین کے معاملہ میں کوئی تنگی نہیں ڈالی دین اپنے باپ ابراہیمؑ کا قائم رکھواسی اللہ نے تمہارا نام مسلمان رکھا اس قرآن سے پہلے اور اس میں بھی تاکہ پیغمبر تم پر گواہ ہو جائے اور تم تمام لوگوں کے گواہ بن جاؤ پس تمہیں چاہئے کہ نمازیں قائم رکھو اور زکوٰۃ ادا کرتے رہو اور اللہ ہی کو مضبوط تھامے رہو وہی تمہارا ولی اور مالک ہے ، پس کیا ہی اچھا مالک ہے اور کتنا ہی بہتر مددگار ہے۔
توضیح:اس آیت میں جہاد فی سبیل اللہ کی ترغیب ہے جہاد کے چند شرائط ہیں ، مثلاً قرآن کریم کی تعلیم میں پابندی لگا دینا، مساجد کی مسماری اذان اور نمازوں پر پابندی اور ناحق اہل اسلام پر ظلم ڈھانا وغیرہم جو بھی ملک اس کا مرتکب ہو گا تو مسلمانوں پر لازم ہو گا کہ وہ اپنے دین اسلام کے تحفظ اور اسلام کے وقار اور اعلاء کلمۃ اللہ کے لئے اپنے جان و مال کی قربانی دے کر جہاد کا حق ادا کریں اور اس وقت تک یہ جاری رہے گا جب تک کہ ظالم مذکورہ پابندیوں کو نہ ہٹا لیں ۔
اسی طرح اسلام دین فطرت ہے جوآسان دین ہے اللہ تعالیٰ نے ہم پرایسے احکامات نازل نہیں فرمائے کہ اسے بجا نہ لایا جائے نماز دین کا ستون ہے اس کے لئے وضو کا طریقہ بتایا گیا ہے کہ پانی میسرنہ ہو تو تیمم کر لیا جائے یا کوئی بیمار ہے تواس کے لئے تیمم کافی ہے کوئی کھڑا ہو کر نماز نہیں پڑھ سکتا اس کے لئے بیٹھ کر نماز پڑھنا اور جو بیٹھ کر بھی نہ پڑھ سکے تو وہ لیٹ کر اور اشاروں سے پڑھنے کا حکم دیا ہے حالت خوف میں صلوۃ خوف، حالت سفرمیں قصر و جمع بین صلاتین روزے رمضان میں بھی مریض و مسافر کے لئے رخصت وغیرہ اسی طرح اہل ایمان کے لئے سال میں صرف دوہی تہوار عیدین یعنی عیدالفطر اور عید الاضحی ہیں مگر آج کے پیٹ بھرو علماء سوء نے امت کو گمراہ کر کے ان پر بے شمار رسم و رواج مسلط کر دئیے ہیں مثلاً مزارات پرستی میں عرس کی ایجاد اور قوالیوں کے تماشے ، پیرپرستی اور صندل نکالنا، تیجہ اور چہلم اور گیارہویں کے پلاؤ، رجب کے کو نڈے اب کیا کیا گنایا جائے جس کا دین اسلام سے ذرہ برابر بھی تعلق نہیں ہے بس اتنا ہی کہا جا سکتا ہے کہ ’’امت خرافات میں کھو گئی‘‘ اللہ تعالیٰ نے ملت ابراہیمی پر قائم رہنے کی تاکید فرمائی ہے اور ہمارا نام مسلم رکھا گیا ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ ہر اعتبار سے اللہ ہی کی عبادت کرنا اس کے فرمانبردار بن کر زندگی گزارنا۔
اللہ تعالیٰ نے ہمیں اسی اطاعت اور فرمانبرداری کے لئے اقامت نماز اور ادائیگی زکوٰۃ کا حکم فرمایا آیت مذکورہ میں ایک نقطہ پر ہم نظر دوڑائیں ’’اور اللہ ہی کو مضبوط تھامے رہو‘‘ اگر ہم مذکورہ امور پر عمل کرتے ہیں تو تعلق باللہ قائم ہو گا ورنہ زبانی دعوے تو یہود و نصاریٰ کفار و مشرکین سب ہی کرتے ہیں ۔
Last edited: