• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

نماز قائم کرو اور زکوٰۃ ادا کرو

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
الذین ان مکنھم فی الارض اقامو الصلوۃ واتوالزکوٰۃ وامروا بالمعروف ونھو اعن المنکر وللہ عاقبۃ الامور(الحج۲۲:۴۱)
ترجمہ :یہ وہ لوگ ہیں کہ اگر ہم ان کو زمین میں حکمرانی دیں تو یہ پوری پابندی سے نمازیں ادا کریں اور زکوٰۃ دیتے رہیں اور نیک کاموں کا حکم کریں اور برے کاموں سے روکیں اور تمام کاموں کا انجام اللہ ہی کے اختیار میں ہیں

توضیح:آیات بالا رحمۃ اللعلمین ﷺ کے جاں نثاروں صحابہ کرام رضی اللہ عنھم اجمعین کے بارے میں نازل ہوئی جنھوں نے اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول ﷺ کی خوشنودی کے لئے اپنے وطن عزیز کو چھوڑ کر اللہ کے دین کی سربلندی کے لئے نکل پڑے اور جب ان کے پاؤں اللہ تعالیٰ نے جما دئیے تو اقامت نماز اور ادائیگی زکوٰۃ اور امر بالمعروف و نھی عن المنکر کی ایسی مثال قائم کئے کہ قیامت تک آیات قرآنی و احادیث نبوی ﷺ ان کے اوصاف جمیلہ کی گواہی دیتے رہیں گے ان شاء اللہ۔

وجاھدوافی اللہ حق جھادہ ھواجتبکم وماجعل علیکم فی الدین من حرج ملۃ ابیکم ابراہیم ھوسمکم المسلمیں من قبل وفی ہذالیکون الرسول شھیدا علیکم وتکونواشھدآء علی الناس فاقیمو الصلوۃ و اتوالزکوٰۃ و اعتصموا باللہ ھومولکم فنعم المولیٰ ونعم النصیر (الحج۲۲:۷۸)
ترجمہ :اللہ کے راستہ میں ویساہی جہاد کروجیسے جہاد کا اس کا حق ہے اسی نے تم کو برگزیدہ بنایا ہے اور تم پر دین کے معاملہ میں کوئی تنگی نہیں ڈالی دین اپنے باپ ابراہیمؑ کا قائم رکھواسی اللہ نے تمہارا نام مسلمان رکھا اس قرآن سے پہلے اور اس میں بھی تاکہ پیغمبر تم پر گواہ ہو جائے اور تم تمام لوگوں کے گواہ بن جاؤ پس تمہیں چاہئے کہ نمازیں قائم رکھو اور زکوٰۃ ادا کرتے رہو اور اللہ ہی کو مضبوط تھامے رہو وہی تمہارا ولی اور مالک ہے ، پس کیا ہی اچھا مالک ہے اور کتنا ہی بہتر مددگار ہے۔

توضیح:اس آیت میں جہاد فی سبیل اللہ کی ترغیب ہے جہاد کے چند شرائط ہیں ، مثلاً قرآن کریم کی تعلیم میں پابندی لگا دینا، مساجد کی مسماری اذان اور نمازوں پر پابندی اور ناحق اہل اسلام پر ظلم ڈھانا وغیرہم جو بھی ملک اس کا مرتکب ہو گا تو مسلمانوں پر لازم ہو گا کہ وہ اپنے دین اسلام کے تحفظ اور اسلام کے وقار اور اعلاء کلمۃ اللہ کے لئے اپنے جان و مال کی قربانی دے کر جہاد کا حق ادا کریں اور اس وقت تک یہ جاری رہے گا جب تک کہ ظالم مذکورہ پابندیوں کو نہ ہٹا لیں ۔

اسی طرح اسلام دین فطرت ہے جوآسان دین ہے اللہ تعالیٰ نے ہم پرایسے احکامات نازل نہیں فرمائے کہ اسے بجا نہ لایا جائے نماز دین کا ستون ہے اس کے لئے وضو کا طریقہ بتایا گیا ہے کہ پانی میسرنہ ہو تو تیمم کر لیا جائے یا کوئی بیمار ہے تواس کے لئے تیمم کافی ہے کوئی کھڑا ہو کر نماز نہیں پڑھ سکتا اس کے لئے بیٹھ کر نماز پڑھنا اور جو بیٹھ کر بھی نہ پڑھ سکے تو وہ لیٹ کر اور اشاروں سے پڑھنے کا حکم دیا ہے حالت خوف میں صلوۃ خوف، حالت سفرمیں قصر و جمع بین صلاتین روزے رمضان میں بھی مریض و مسافر کے لئے رخصت وغیرہ اسی طرح اہل ایمان کے لئے سال میں صرف دوہی تہوار عیدین یعنی عیدالفطر اور عید الاضحی ہیں مگر آج کے پیٹ بھرو علماء سوء نے امت کو گمراہ کر کے ان پر بے شمار رسم و رواج مسلط کر دئیے ہیں مثلاً مزارات پرستی میں عرس کی ایجاد اور قوالیوں کے تماشے ، پیرپرستی اور صندل نکالنا، تیجہ اور چہلم اور گیارہویں کے پلاؤ، رجب کے کو نڈے اب کیا کیا گنایا جائے جس کا دین اسلام سے ذرہ برابر بھی تعلق نہیں ہے بس اتنا ہی کہا جا سکتا ہے کہ ’’امت خرافات میں کھو گئی‘‘ اللہ تعالیٰ نے ملت ابراہیمی پر قائم رہنے کی تاکید فرمائی ہے اور ہمارا نام مسلم رکھا گیا ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ ہر اعتبار سے اللہ ہی کی عبادت کرنا اس کے فرمانبردار بن کر زندگی گزارنا۔

اللہ تعالیٰ نے ہمیں اسی اطاعت اور فرمانبرداری کے لئے اقامت نماز اور ادائیگی زکوٰۃ کا حکم فرمایا آیت مذکورہ میں ایک نقطہ پر ہم نظر دوڑائیں ’’اور اللہ ہی کو مضبوط تھامے رہو‘‘ اگر ہم مذکورہ امور پر عمل کرتے ہیں تو تعلق باللہ قائم ہو گا ورنہ زبانی دعوے تو یہود و نصاریٰ کفار و مشرکین سب ہی کرتے ہیں ۔
 
Last edited:

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
رجال تلھیھم تجارۃ ولابیع عن ذکراللہ واقام الصلوۃ وایتآء الزکوٰۃ یخافون یوماتتقلب فیہ القلوب والابصار(النور۲۴:۳۷)
ترجمہ :ایسے لوگ جنھیں تجارت اور خریدو فروخت اللہ کے ذکر سے اور نماز کے قائم کرنے اور زکوٰۃ کے ادا کرنے سے غافل نہیں کرتی وہ اس دن سے ڈرتے ہیں جس دن بہت سے دل اور بہت سی آنکھیں الٹ پلٹ ہو جائیں گی

توضیح:آیت ہٰذا میں ان لوگوں کی تعریف کی گئی ہے جو باوجود مصروف تجارت اور مشغول کاروبار ہونے کے کبھی اللہ تعالیٰ کے ذکر سے غافل نہیں رہتے ہیں چونکہ انہیں اللہ کا خوف لگا رہتا ہے ، جب بھی اور جہاں بھی نماز کا وقت ہو جائے وہ فوراً ادائیگی کے لئے حاضر ہو جاتے ہیں آیت کریمہ سے معلوم ہوا کہ جو لوگ نمازیں قائم نہیں کرتے اور زکوٰۃ کی ادائیگی نہیں کرتے ان کے دل بڑے سخت ہوتے ہیں اور وہ لوگ قیامت کے دن کے بھی انکاری ہیں ایسے لوگ اللہ تعالیٰ کی اس سرزمین میں بوجھ ہیں اور قیامت کے دن ان کے لئے رسوائی اور درد ناک عذاب ہے

وعداللہ الذین امنوامنکم وعملوالصلحت لیستخلفنھم فی الارض ومن کفربعدذالک فاولئک ھم الفسقون واقیموالصلوۃ واتوا الزکوٰۃ واطیعوالرسول لعلکم ترحمون(النور۲۴:۵۵۵۶)
ترجمہ :اللہ وعدہ فرما چکا ہے تم میں سے ان لوگوں کے لئے جو ایمان لائے اور نیک اعمال کئے کہ انہیں ضرور زمین کی حکمرانی عطا فرمائے گا اسی طرح جیسے اس سے پہلے کے لوگوں کو عطا فرمایا تھا اور یقیناً ان لوگوں کے لئے ان دین کو مضبوطی کے ساتھ محکم کر کے جما دے گا، جسے ان کے لیے وہ پسند کر چکا اور ان کے خوف و خطرہ کو وہ امن و امان سے بدل دے گا کہ وہ لوگ میری ہی عبادت کریں گے ، میرے ساتھ کسی کو بھی شریک نہیں ٹھہرائیں گے اور اس کے بعد بھی جو لوگ ناشکری اور کفر کریں گے یقیناً وہ لوگ فاسق ہی ہیں اور نماز کی پابندی کرو اور زکوٰۃ ادا کرتے ہو اور اطاعت کرو ہمارے پیغامبر کی تاکہ تم پر رحم و کرم کیا جائے ۔

توضیح:اللہ تعالیٰ نے آیات ہذا میں اہل ایمان سے ایک وعدہ فرمایا ہے اس سرزمین کی حکمرانی وبالادستی جو ایمان اور نیک اعمال کے ساتھ مشروط ہے اور یہ وعدہ اللہ تعالیٰ نے خلافت راشدہ کی شکل میں پورا بھی فرمایا اور اس نے مومنوں کو زمین میں غلبہ عطا فرمایا اور اپنے پسندیدہ دین اسلام کو عروج بخشا اور مومنوں کے خوف و ڈر کو امن وسکون سے بدل دیا اسلام سے پہلے وہی عرب میں لوٹ مار، چوری ڈکیتی عام تھی ، خواتین کی آبرو محفوظ نہیں تھی جب نبوت کی شعاعیں حجاز میں پڑتی ہیں تو وہ وقت بھی آیا کہ ایک عورت تن تنہا مقام حیرہ سے چل پڑتی ہے اور بیت اللہ کا طواف کرتی ہے اسے سوائے اللہ کے اور خوف نہیں رہتا اور امن وسکون سے واپس چلی جاتی ہے اسی طرح قیصروکسریٰ کے خزانے مومنوں کے قدموں کے نیچے ڈھیر ہو گئے یہ کو ن لوگ تھے ؟یہ وہ لوگ تھے جنھوں نے توحید باری تعالیٰ کو اپنایا تھا یہ وہ لوگ تھے جنھوں نے تلواروں کے سائے میں بھی نمازوں کو نہیں چھوڑا اور زکوٰۃ کی ادائیگی کے لئے جن کو وقت کا شدت سے انتظار رہتا تھا اور اللہ کے رسول کی اطاعت میں ایسے محو تھے کہ رب کائنات نے ان کے ایمان و یقین تعریف فرمائی ہے ۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
سیماھم فی وجوھم من اثرالسجود(الفتح۴۸:۲۹)

’’نماز اور زکوٰۃ کی اہمیت کو انھوں نے سمجھا تھا اسی لئے وہ لوگ رحم کئے تھے ‘‘

اور آج ہم ہیں کہ ہماری شکلوں پر بارہ بج رہے ہیں چوپاؤں کی طرح دن بھر ہوٹلوں اور بازاروں میں بیٹھ کر شیطان کو خوش کرتے ہیں اور گدھوں کی طرح دن چڑھے تک سوئے رہتے ہیں کیا خاک ہمیں سربلندی نصیب ہو گی۔
بسم اللہ الرحمن الرحیم
طٰسٓ تلک آیات القران و کتاب مبین ھدی وبشری للؤمنین الذین یقیمون الصلوۃ ویوتون الزکوٰۃ وھم با الاخرۃ ھم یوقنون

(النمل۲۷:۱۲۳)
ترجمہ :طٰسٓ یہ قرآن کی آیتیں ہیں اور واضح روشن کتاب ہدایت اور خوش خبری ہے ایمان والوں کے لئے جو نمازیں قائم کرتے ہیں اور زکوٰۃ ادا کرتے ہیں اور یہی تو ہیں آخرت پر ایمان و یقین رکھنے والے ۔

توضیح:طٰسٓ یہ حروف مقطعات میں سے ہیں جس کے معنی و مراد اللہ تعالیٰ کے ہی علم میں ہیں اس کے بعد قرآن مجید کے فھم اور آسانی کی وضاحت کتنے احسن انداز میں بیان کئے گئے ہیں ’’واضح روشن کتاب‘‘ افسوس کہ امت مسلمہ کو علماء سوء نے خواہ مخواہ الجھا دیا کہ یہ قرآن تمہارے سمجھ سے باہر ہے اس لئے آج گمراہی کا بازار گرم ہے بہر کیف اللہ تعالیٰ نے نمازیں قائم کرنے والوں اور زکوٰۃ کے ادا کرنے والوں کو آخرت پر ایمان و یقین رکھنے والے قرار دیا ہے گویا بے نمازی اور بے زکاتی منکرین اسلام ہیں !۔

بسم اللہ الرحمن الرحیم
الٓمٓ تلک آیت الکتب الحکیم ھدًورحمۃ للمحسنین الذین یقیمنون الصلوۃ ویوتون الزکوٰۃ وھم بالاخرۃ ھم یوقنون

(لقمان۳۱:۱۲۳۴)
ترجمہ :ا لٓ مٓ یہ حکمت والی کتاب کی آیتیں ہیں جو نیکو کاروں کے لئے رہبر اور (سراسر) رحمت ہے جو نمازوں کو پابندی سے ادا کرتے ہیں اور زکوٰۃ بھی پابندی سے دیتے رہتے ہیں اور آخرت پر کامل یقین رکھتے ہیں اور یہی لوگ ہیں اپنے رب کی ہدایت پر اور یہی لوگ نجات پانے والے ہیں

توضیح:الٓ مٓ حروف مقطعات میں سے ہیں جن کے معنی و مطالب صرف اللہ ہی کو ہیں اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے آیات کے اعجاز کا ذکر فرمایا اور کفار و مشرکین کے بطلان اور اس کا رد فرما کر اس پر عمل کرنے والوں کو بشارت عظمیٰ کی سندعطا کی گئی ہے محسنین کہتے ہیں احسان کرنے والا اور نیکیاں کرنے والا اور اللہ تعالیٰ کی عبادت پورے اخلاص کے ساتھ کرنے والا کہ اس کی عبادت میں کسی کو شریک نہ کیا جائے اس کے بعد تشریح موجود ہے کہ اصل ہدایت پانے والے کو ن لوگ ہیں جو نمازیں قائم کرتے ہیں اور زکوٰۃ ادا کرتے رہتے ہیں یہی لوگ ہیں جو اپنے رب کی طرف سے ہدایت پر ہیں اور یہی لوگ کامیابی سے ہمکنار ہونے والے ہیں سبحان اللہ۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
یٰنسآء النبی لستن کا حدمن النسآء وقرن فی بیوتکن ولا تبرجن تبرج الجاھلیۃ الاولیٰ واقمن الصلوۃ واتین الزکوٰۃ واطعن اللہ ورسولہ انما یریداللہ لیذھب عنکم الرجس اھل البیت ویطھر کم تطھیرا واذکرن مایتلیٰ فی بیوتکن من آیات اللہ والحکمۃ ان اللہ کان لطیفا خبیرا (الاحزاب۳۳:۳۳۳۴)
ترجمہ :اے نبی کی بیویو! تم عام عورتوں کی طرح نہیں ہو اگر تم پرہیزگاری اختیار کرو تو نرم لہجے سے بات نہ کرو کہ جس کے دل میں بیماری ہو وہ کوئی برا خیال کرے اور ہاں قاعدے کے مطابق کلام کرو اور اپنے گھروں میں قرار سے رہو اور قدیم جہالت کے دور کی طرح اپنے بناؤ سنگھار کا اظہار نہ کرو اور نمازیں برابر ادا کرتی رہو اور زکوٰۃ بھی دیتی رہو اور اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرتے رہو اللہ یہی چاہتا ہے کہ اے نبی کے گھر والیو!تم سے وہ ہرقسم کی گندگی کو دور کر دے اور تمہیں خوب پاک کر دے اور تمہارے گھروں میں اللہ کی جو آیتیں اور رسول کی احادیث پڑھی جاتی ہیں ان کا ذکر کرتی رہو یقیناً اللہ باریک سے باریک خبر رکھنے والا ہے ۔

توضیح:نبوت کے ابتدائی حالات بڑے ہی آزمائشی تھے فیضان محمدی ﷺ تھا کہ مومنین صبر و ثبات واستقلال کے پہاڑ ثابت ہوئے مدنی دور بھی کچھ کم نہ تھا پھر اللہ تعالیٰ مومنین کے قدم جما دئیے اور فتوحات کے دروازے کھلے تو چین وسکون حاصل ہوا مومنین کی حالت پہلے سے بہتر ہو گئی اس سے قبل خود رحمۃ اللعلمین رسول اللہ ﷺ کے گھرانے کا حال ایسا تھا کہ کئی کئی دن چولہے نہیں جلتے تھے آپؐ اور آپ کی ازدواج مطہرات کے فاقوں کا معمول بن چکا تھا بعد میں مال غنیمت سے اللہ تعالیٰ نے غناء کے دروازے کھول دیئے اور انصارو مہاجرین خوشحالی کی زندگی میں آ چکے تھے تو ان کی عورتوں کو دیکھ کر، امہات المومنینؓ بھی رحمۃ اللعلمین ﷺ سے مزید نان و نفقہ گھریلو ضرورتوں کے اضافے کا ۔

مطالبہ فرمانے لگیں رحمۃ اللعلمین ﷺ کی زندگی کا کیا کہنا کسی نے سچ کہا ہے کہ سلام اس پر کہ جس نے بادشاہی میں فقیری کی اس لئے ازدواج مطہرات کے مطالبے پرایسے کبیدہ خاطر ہوئے کہ بیویوں سے علیحدگی اختیار فرما لی بالاخر ایک مہینے کے بعد اللہ تعالیٰ نے امہات المومنین رضی اللہ عنھن کی اصلاح کے لئے آیات مذکورہ نازل فرمائی۔

اس وقت آپ کے حرم مبارک میں نو ازواج مطہرات تھیں آپؐ نے ہر ایک کو آیات سنا کر اختیار دیا کہ آیا تمہیں دنیا کا عیش و آرام پسندہے یا پھر رحمۃ اللعلمین ﷺ سب نے ایک زبان ہو کر کہا کہ ہم سب کائنات کے آخری نبی رحمۃ اللعلمین سیدالمرسلین افضل الرسل کو پسندکرتے ہیں ۔

سورۃ الاحزاب کی ۲۸ویں آیت سے ۳۵ ویں آیت تک یہی مضمون ہے (قارئین سے درخواست ہے کہ قرآن کریم جو ایک موجودہ معجزہ ہے اس کے مطالعہ کو زندگی کا معمول بنا لیں )۔

اب میں اصل موضوع کے طرف آتا ہوں اللہ تعالیٰ نے امہات المومنینؓ کی اصلاح کے لئے جو آیات نازل فرمائی ہیں اس میں خصوصیت کے ساتھ نمازوں کی پابندی اور زکوٰۃ کی ادائیگی کے بارے میں حکم ہے ۔

کیا معاذاللہ ہماری مائیں نمازیں ترک کرتی تھیں ؟نہیں ہرگز نہیں بلکہ اس کی اہمیت کو واضح کرنے کے لئے اللہ تعالیٰ نے اس کا خصوصی ذکرفرمایا ہے تاکہ امت مسلمہ کے مرد اور عورتیں اس پر عمل کریں اور اس سے غفلت نہ برتیں اور جواس سے غفلت برتے گا اس سے بڑا محروم اور بدنصیب کوئی نہیں ۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
یا ایھا الذین امنوا اذاناجیتم الرسول اء شفقتم ان تقدموابین یدی نجوا کم صدقات فاذلم تفعلواوتاب اللہ علیکم فاقیمو الصلوۃ واتو الزکوٰۃ واطیعواللہ ورسولہ واللہ خبیر بما تعملون (المجادلۃ۵۸:۱۲۱۳)
ترجمہ :اے مومنو! جب تم رسول اللہ ﷺسے سرگوشی کرنا چاہو تو اپنی سرگوشی سے پہلے کچھ صدقہ دے دیا کرو یہ تمہارے لئے بہتر اور پاکیزہ تر ہے ہاں اگر نہ پاؤ تو بے شک اللہ بخشنے والا ہے مہربانی ہے کیا تم اپنی سرگوشی سے پہلے صدقہ نکالنے سے ڈر گئے ؟پس جب تم نے یہ نہ کیا اور اللہ نے بھی تمہیں معاف کر دیا تو اب تم (بخوبی) نمازوں کو قائم رکھو اور زکوٰۃ دیتے رہا کرو اور اللہ کی اور اس کے رسول کی تابعداری کرتے رہو اور اللہ کو خبر ہے جو کچھ تم کر رہے ہو۔

توضیح:ہر ایمان والی نفوس رحمۃ اللعلمین ﷺسے سرگوشی کا اشتیاق رکھتی تھی اور کیوں نہ رکھے حصے رب کائنات نے المومنین رؤف رحیم کے اعجاز سے نوازا ہو التوبہ ۹:۱۲۸۔

اسی کے پیش نظر فیضان رسول سے معطر ہونے کے لئے پروانوں کے جھرمٹ دیر تک آپ کے پاس بیٹھ کر گفتگو فرماتے تھے کبھی آپ پر یہ بات ذرا شاق سی گزرتی تھی مگر آپ کچھ نہ کہہ سکتے تھے جیسے سورۃ الاحزاب ۳۳:۵۳ میں بھی شامل ہے۔

اسی طرح یہود و نصاریٰ اور مشرکین مومنوں کو دیکھ کر آپس میں سرگوشیاں کرتے تھے تاکہ مومنوں کو تکلیف پہنچائیں تواس سے ان کو روکا گیا ہے اور مومنوں کو اس کے آداب سکھلائے ہیں اور اسلام کی اہم باتوں کا حکم دیا گیا کہ کسی بھی صورت میں نماز معاف نہیں ہے اسی لئے نمازوں کی پابندی کرتے رہیں اور زکوٰۃ دیتے رہیں تاکہ اللہ تعالیٰ کی اور اس کے رسول ﷺ کی تابعداری کا حق ادا ہو سکے۔

سب سے زیادہ یہود و نصاریٰ و مشرکین و کفار کو اسی نماز اور زکوٰۃ سے دشمنی ہے اس سے امت مسلمہ کو دور کرنے کے لئے ان لوگوں نے ذرائع ابلاغ کے تحت گھروں گھر فحش و بے حیائی پہنچا دی گئی ہے اللہ تعالیٰ حفاظت فرمائے آمین۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
ان ربک یعلم انک تقوم واخرون یضربون فاقرء واما تیسر منہ واقیموا الصلوۃ واتوالزکوٰۃ واقرضوا اللہ قرضا حسنا ان اللہ غفور رحیم (المزمل۳۷:۲۰)
ترجمہ :آپ کا رب بخوبی جانتا ہے کہ آپ اور آپ کے ساتھ کے لوگوں کی ایک جماعت قریب دو تہائی رات کے اور آدھی رات کے اور ایک تہائی رات کے تہجد پڑھتی ہے اور رات دن کا پورا اندازہ اللہ ہی کو ہے وہ خوب جانتا ہے کہ تم اسے ہرگز نہ نبھا سکو گے پس اس نے تم پر مہربانی کی ہے اس لئے جتنا قرآن پڑھنا تمہارے لئے آسان ہو اتنا ہی پڑھو وہ جانتا ہے کہ تم میں بعض بیمار بھی ہوں گے بعض دوسرے زمین میں چل پھر کر اللہ کا فضل (یعنی روزی بھی) تلاش کریں گے اور کچھ لوگ اللہ کی راہ میں جہاد بھی کریں گے سوتم بہ آسانی جتنا قرآن پڑھ سکوپڑھواور نماز کی پابندی رکھو اور زکوٰۃ دیتے رہا کرو اور اللہ کو اچھا قرض دو اور جو نیکی تم اپنے لئے آگے بھیجو گے اسے اللہ کے یہاں بہتر سے بہتر اور ثواب میں بہت زیادہ پاؤ گے اللہ سے معافی مانگتے رہو یقیناً اللہ بخشنے والا مہربان ہے ۔

توضیح:ابتدائی دور میں رحمۃ اللعلمین رسول اللہ ﷺاور آپ کے پیارے اصحاب کرامؓ نماز تہجد میں ہر ارکان کو طول کر کے کیا کرتے تھے اور حالت قیام میں قرآن کی قرأت بہت لمبی ہوتی تھی رات کا ایک بڑا حصہ گزر جاتا تھا یہاں تک کہ خود حضور پاک ﷺ کے قدم مبارک سوجھ جاتے تھے ’’لایکلف اللہ نفسا الا وسعھا‘‘ کے تحت اللہ رب العلمین نے تخفیف کا حکم ایت بالامیں نازل فرمایا اور اس میں اس کی حکمتیں بھی بیان فرما دیں کہ لوگوں میں کئی قسم کے لوگ ہوتے ہیں قرأت قرآن میں بھی جتنا ہو سکے پڑھنے کا حکم دیا سبحان اللہ۔ اللہ تعالیٰ کی مہربانی پر ذرا غور تو کرو؟اب نماز تہجد فرض نہیں ہے بلکہ استحباب کا درجہ برقرار ہے جو پڑھے اس کے لئے اجر و ثواب زائد ہے اور جو نہ پڑھے اس پر کسی قسم کی گرفت نہیں ہے البتہ فرائض کا ترک کرنا کفر ہے اس لئے آگے کی آیت میں بیان ہوا کہ نمازوں کو پابندی کے ساتھ پڑھتے رہو اور زکوٰۃ کی ادائیگی بھی پابندی سے کرتے رہوپھر اس کے بعد اجر و ثواب کے ذخیروں کا ذکر ہے کہ اس کے کرنے سے اللہ تعالیٰ یہاں بے حساب اس کا ثمرہ حاصل کرو گے اس لئے اللہ سے معافی مانگتے رہو تا کہ وہ تم پر مہربان ہو جائے ۔

وما امروالالیعبدواللہ مخلصین لہ الدین حنفآء ویقیمون الصلوۃ ویوتون الزکوٰۃ وذالک دین القیمۃ (البینۃ۹۸:۵)
ترجمہ :اور انہیں اس کے سواکوئی حکم نہیں دیا گیا مگر یہ کہ صرف اللہ ہی کی عبادت کریں دین اسی کے لئے خالص رکھیں توحیدی دین اور نماز کو قائم رکھیں اور زکوٰۃ دیتے رہیں اور یہی ہے دین سیدھی ملت کا۔

توضیح:یہ مدنی سورت کی آیت ہے یہود و نصاریٰ و مشرکین رحمۃ اللعلمین رسول اللہ ﷺ کو نبی برحق و پیغامبر موعود ہیں یہ جانتے تھے مگر محض حسدوبغض و عناد کی وجہ سے آپ پر ایمان نہیں رکھتے تھے ’’الاماشاء اللہ‘‘ اللہ تعالیٰ اس سورت میں اپنے پیغامبر کی بعثت کا مقصد بیان فرما رہا ہے کہ مختلف معبود ان باطل اور اپنے آباء و اجداد کے رسوم کو چھوڑ کر خالص ایک اللہ وحدہٗ لاشریک کو اپنا معبود حقیقی بنا لیں جس کا دین خالص ہے جو اس دین میں داخل ہوتا ہے اسے نماز اور زکوٰۃ جیسی نعمتیں جو خیر خواہی و اجتماعیت کی بہترین مثالیں ہیں اسے ادا کرنے کی سعادت نصیب ہوتی ہے جوان پر عمل کرے اسے مخلوق میں سب سے بہتری کا درجہ ملا ہے اور جواسے چھوڑے وہ مخلوق میں سب سے برا ہے۔

رحمۃ اللعلمین کے پیارے اصحاب کرام نے اس پر عمل کیا تو انہیں اللہ تعالیٰ نے رضی اللہ عنھم و رضوعنہ کے لقب سے ملقب فرمایا ہے کاش یہ امت اسے سمجھ لے ۔

*****​
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
دوسراباب
یقیمون الصلوٰۃ و ممّا رزقنھم ینفقون

بسم اللہ الرحمن الرحیم
الٓمٓ ذالک الکتاب لاریب فیہ ھدی للمتقینالذین یومنون بالغیب ویقیمون الصلوۃ ومما رزقنھم ینفقون والذین یومنون بما انزل الیک وما انزل من قبلک وبا الاخرۃ ھم یوقنوناولئک علی ھدی من ربھم واولئک ھم المفلحون(البقرہ۲:۱۲۳۴۵)
ترجمہ :اس کتاب کے (حق ہونے میں ) کوئی شک نہیں پرہیز گاروں کو راستہ دکھانے والی ہے جو لوگ غیب پر ایمان لاتے ہیں اور نماز کو قائم رکھتے ہیں اور ہمارے دیئے ہوئے (مال) میں سے خرچ کرتے ہیں اور جو لوگ ایمان لاتے ہیں اس پر جو آپ کی طرف اتارا گیا اور جو آپ سے پہلے اتارا گیا اور وہ آخرت پر بھی یقین رکھتے ہیں یہی لوگ اپنے رب کی طرف سے ہدایت پر ہیں اور یہی لوگ فلاح اور نجات پانے والے ہیں ۔

توضیح :اللہ تعالیٰ نے ان آیات میں متقین پرہیز گاروں کی صفات بیان فرمایا ہے ان میں سے ایک اہم وصف پرہیزگاری کے لیے اقامت نماز اور اس کے راستوں میں خرچ کرنا ہے ۔

جو لوگ ان صفات سے متصف ہوں گے وہی ہدایت والے اور وہی کامیاب ہونے والے ہیں افسوس آج ہم بے نمازی ہیں اور بخل وکنجوسی کو اپنائے ہوئے ہیں اسی لئے اللہ تعالیٰ کی رحمت ہم سے دور ہو چکی ہے ہم بین الاقوامی حیثیت سے بھی پچھڑ چکے ہیں اور آخرت میں اس سے برا انجام ہونے والا ہے اللہ تعالیٰ ہمیں ہدایت مذکورہ سے سرفراز فرما دے آمین۔

انما المومنون الذین اذاذکراللہ وجلت قلوبھم واذتلیت علیھم ایتہ زادتھم ایمانا وعلیٰ ربھم یتوکلون الذین یقیمون الصلوۃ ومما رزقنھم ینفقون اولئک ھم المومنون حقالھم درجت عندربھم ومغفرۃ ورزق کریم(الانفال۸:۲سے ۴تک)
ترجمہ :بس ایمان والے توایسے ہوتے ہیں کہ جب اللہ تعالیٰ کا ذکر آتا ہے تو ان کے قلوب ڈر جاتے ہیں اور جب اللہ کی آیتیں ان کو پڑھ کرسنائی جاتیں تو وہ آیتیں ان کے ایمان کو اور زیادہ کر دیتی ہیں اور وہ لوگ اپنے رب پر توکل کرتے ہیں جو کہ نماز کی پابندی کرتے ہیں اور ہم نے ان کو جو کچھ دیا ہے وہ اس میں سے خرچ کرتے ہیں سچے ایمان والے یہ لوگ ہیں ان کے لئے بڑے درجے ہیں ان کے رب کے پاس اور مغفرت اور عزت کی روزی ہے ۔

توضیح :اللہ تعالیٰ نے ان آیات میں مومنین کے ایمان کی کیفیت بیان فرمائی ہے کہ ایمان والے ہمیشہ اللہ سے ڈرتے رہتے ہیں جب کبھی بھی قرآنی آیات ان کے کانوں میں سنائی دیتی ہے یا پھر خود وہ تلاوت قرآن کے یا مطالعۂ قرآن میں محو رہتے ہیں تو ان کے ایمان میں زیادتی ہو جاتی ہے چونکہ وہ لوگ نمازوں کی پابندی کرتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کے دیئے ہوئے مال سے ضرور ت مندوں حاجت مندوں کو دیتے رہتے ہیں انھیں فی سبیل اللہ خرچ کرنے میں لطف حاصل ہوتا ہے اسی لئے اللہ تعالیٰ نے جنت میں ایسے نیک لوگوں کے لئے عظیم درجات بخشش و مغفرت اور رزق کریم کی بشارت سنائی ہے (اللھم اجعل منھم آمین)۔

قل انفقواطوعا اوکرھالن یتقبل منکم انکم کنتم قوما فسقین ومامنعھم ان تقبل منھم نفقتھم الا انھم کفروا باللہ وبرسولہٖ ولآیاتون الصلوۃ الاوھم کسالی ولا ینفقون الاوھم کرھون فلا تعجبک اموالھم ولا اولادھم انما یرید اللہ لیعذبہم بھافی الحیوۃ الدنیا وتزھق انفسھم وھم کفرون ویحلفون باللہ انھم لمنکم وماھم منکم ولکنھم قوم یفرقون(التوبۃ۹:۳۳سے ۵۶تک)
ترجمہ :کہہ دیجئے کہ تم خوشی یا ناخوشی کسی طرح بھی خرچ کرو قبول تو ہر گز نہ کیا جائے گا، یقیناً تم فاسق لوگ ہو کوئی سبب ان کے خرچ کی قبولیت کے نہ ہونے کا اس کے سوانہیں کہ یہ اللہ اور اس کے رسول کے منکر ہیں اور بڑی کاہلی سے ہی نماز کو آتے ہیں اور برے دل سے ہی خرچ کرتے ہیں پس آپ کو ان کے مال و اولاد تعجب میں نہ ڈال دیں اللہ کی چاہت یہی ہے کہ اس سے انھیں دنیا کی زندگی میں ہی سزادے اور ان کے کفر ہی کی حالت میں ان کی جانیں نکل جائیں یہ اللہ کی قسم کھا کھا کر کہتے ہیں کہ یہ تمہاری جماعت کے لوگ ہیں حالانکہ وہ دراصل تمہارے نہیں بات صرف اتنی ہے کہ یہ ڈرپوک لوگ ہیں ۔

توضیح : آیات بالاسورۂ التوبہ کی ہیں جس میں بسم اللہ نہیں ہے منافقین و مشرکین کے عہد شکنی کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کی ناراضگی نازل ہوئی اس سورۂ میں منافقین اور مومنین کے فرق کو بتایا گیا ہے منافقین کے نیتوں میں کھوٹ تھا یہ لوگ نمازیں تو ضرور پڑھتے تھے مگر کاہلی اور سستی سے اذان سن کر فوراً نہیں آتے تھے بلکہ جب جماعت ختم ہونے کی ہوتی تو آتے تھے پھر کو ے کی ٹھونگ کی طرح جلدی جلدی پڑھ کر نکل جاتے تھے اور خرچ بھی کرتے تھے مگر منہ سکڑا کر دیتے اور بہانے بناتے ، دکھنے میں وضع قطع صوفیوں کی طرح، سلیقے میں امیر زادوں کی طرح اور قسمیں کھاکھا کر مسلمان کے دعوے کرتے تھے اور رسول اللہ ﷺ کے ساتھی ہونے کا ڈھونگ رچتے تھے مگر اللہ تعالیٰ نے ان کی پول کھول دی جو مذکورہ آیات میں بتایا گیا ہے کہیں ہماری زندگی ایسی تو نہیں ذرامحاسبہ کریں ۔

وہ نمازیں پڑھتے تھے مگرسستی سے پھر بھی ان کا حشر جہنم ہوا اور آج ہم تو نمازیں پڑھتے ہی نہیں اور بخیل ہیں ہمارا انجام کیا ہو گا ؟
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
والذین صبروا ابتغآء وجہ ربھم واقاموا الصلوٰۃ وانفقوا ممار زقنھم سراوعلانیۃ ویدرؤن بالحسنۃ السیئتہ اولئک لھم عقبی الدار جنت عدن یدخلونھاومن صلح من اباۂم وازواجھم وذریتھم والملئکۃ ید خلون علیھم من کل باب(الرعد۱۳:۲۲۲۳)
ترجمہ :اور وہ اپنے رب کی رضامندی کی طلب کے لیے صبر کرتے ہیں اور نمازوں کو برابر قائم رکھتے ہیں اور جو کچھ ہم نے انہیں دے رکھا ہے اسے چھپے کھلے خرچ کرتے ہیں اور برائی کو بھی بھلائی سے ٹالتے ہیں ان ہی کے لیے عاقبت کا گھر ہے ہمیشہ رہنے کے باغات جہاں یہ خود جائیں گے اور ان کے باپ دادوں اور بیویوں اور اولادوں میں سے بھی جو نیکو کا رہوں گے ان کے پاس فرشتے ہر ہر دروازے سے آئیں گے ۔

توضیح : اللہ تعالیٰ نے ان آیات میں اپنی خوشنودی و رضا مندی کے لئے صبر کرنے کی تاکید کے ساتھ نمازوں کو برابر قائم کرنے اور اس کے دیئے ہوئے مال سے اس کے راستوں میں خرچ کرنے تاکید فرمائی ہے اور اسی کے ساتھ اہل جنت کے صفات میں اخلاق حسنہ کی تعلیم ہے کہ ہمارے نیک بندے ایسے ہیں کہ ان کے ساتھ کوئی برائی سے پیش آئے بد تمیزی کرے بدزبانی کرے گالیاں دے تو وہ اس کا جواب اچھائی سے دیتے ہیں اور معاف کر دیتے ہیں اور بہترین صبر کی مثال قائم کرتے ہیں ایسے ہی لوگوں کے لئے ہم نے جنت کا وعدہ کیا ہے جن کے استقبال کے لئے جنت کے ہر دروازے پر ہمارے فرشتے کھڑے ہوں گے اور ان سے ملاقات کریں گے سبحان اللہ۔

وجعلوا للہ اندادالیضلواعن سبیلہ قل تمتعوا فان مصیرکم الی النار قل لعبادی الذین امنوایقیموا الصلوۃ وینفقوا ممارزقنھم سراواعلانیۃ من قبل ان یاتی یوم لابیع فیہ ولاخلل (ابراہیم۱۴:۳۰۳۱)
ترجمہ :انھوں نے اللہ کے ہمسربنالیے کہ لوگوں کو اللہ کی راہ سے بہکائیں آپ کہہ دیجئے کہ خیر مزے کر لو تمہاری بازگشت تو آخر جہنم ہی ہے میرے ایماندار بندوں سے کہہ دیجئے کہ نمازوں کو قائم رکھیں اور جو کچھ ہم نے انہیں دے رکھا ہے اس میں سے کچھ نہ کچھ پوشیدہ اور ظاہر خرچ کرتے رہیں اس سے پہلے کہ وہ دن آ جائے جس میں نہ خرید و فروخت ہو گی نہ دوستی اور محبت۔

توضیح : اللہ تعالیٰ نے آیات ہٰذا میں کافرین و مشرکین کی بغاوت کا ذکرفرمایا کہ انھوں نے رب کائنات کو بھلا کر اس کے ساجھی اس کے ہمسربنالئے ہیں اللہ کے بندوں کو اللہ کی صف میں کھڑا کئے ہیں کوئی کہہ رہا ہے یاغوث یا غریب نواز کوئی کوئی جئے جئے کے نعرہ وغیرہ وغیرہ اس کے بعد کتنے پیارے انداز میں رب العلمین نے فرمایا کہ میرے ایمان والے بندوں سے کہدو کہ میرے تعلق کے لئے نمازوں کی پابندی کریں میرے راستوں میں خرچ کرتے رہیں اس سے پہلے کہ وہ دن آئے جس دن کوئی خرید و فروخت ہو گی نہ کوئی دوستی اور محبت اعمال صالحہ ہی اصل وسیلہ ہیں نہ کہ غیر اللہ کے دامنوں کو تھامنا وسیلہ نیک اعمالوں میں نمازیں پڑھنا انفاق فی سبیل اللہ کرنا ہے وسیلہ یعنی ذریعہ ساری عبادتیں اللہ کے لئے خاص ہیں اور عبادتیں ہی وسیلہ ہیں ۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
ولکل امۃ جعلنا منسکالیذ کروا اسم اللہ علی ما رزقھم من بھیمۃ الانعام فالھکم الہ واحد فلہ اسلموا وبشر المخبتین الذین اذا ذکراللہ وجلت قلوبھم والصبرین علی ما اصابھم والمقیمی الصلوۃ وممارزقنھم ینفقون(الحج۲۲:۳۴۳۵)
ترجمہ :اور ہر امت کے لیے ہم نے قربانی کے طریقے مقرر فرمائے ہیں تاکہ وہ ان چوپائے جانوروں پر اللہ کا نام لیں جو اللہ نے انہیں دے رکھے ہیں سمجھ لو کہ تم سب کا معبود برحق صرف ایک ہی ہے تم اسی کے تابع فرمان ہو جاؤ عاجزی کرنے والوں کو خوشخبری سنا دیجئے انہیں کہ جب اللہ کا ذکر کیا جائے ان کے دل تھرا جاتے ہیں ، انہیں جو برائی پہنچے اس پر صبر کرتے ہیں ، نماز قائم کرنے والے ہیں اور جو کچھ ہم نے انہیں دے رکھا ہے وہ اس میں سے بھی دیتے رہتے ہیں ۔

توضیح :اللہ تعالیٰ نے ان آیات میں قربانی کا ذکر فرمایا کہ اے امت محمدیہ (ﷺ) صرف تم پر ہی قربانی نہیں لادی گئی ہے بلکہ ہر امت میں ہم نے اسے بطور آزمائش قربانی کے طریقے مقرر کئے تھے کہ تم ان چوپاؤں حلال جانوروں پر صرف اللہ کا نام ہی لینا اس میں کسی کی خوشنودی نہیں چاہنا ساری نذرو نیاز ہمارے لئے ہی کرنا کسی قبرو مزار والے بت وآستانے چرچ و مندر میں نہیں بلکہ ہمارے ہی واسطے سب مخصوص ہیں سمجھ لو کہ تم سب کا معبود صرف اللہ وحدہٗ لاشریک ہے تم سب اس کے تابع ہو کر اسی کے لئے قربانیاں کیا کروپھر اس کے بعد وہ اللہ کے بندوں کا تذکرہ ہے جن کے دل خوف الٰہی سے لرز جاتے ہیں مصیبت کے وقت صبر کرتے ہیں نمازیں قائم کرتے ہیں اور ہماری عطا کی گئی امانت مال سے خرچ بھی کرتے اقامت نماز اور انفاق فی سبیل اللہ کرنے والے بندے اللہ رب العلمین سے ڈرنے والے ہیں ۔

بسم اللہ الرحمن الرحیم
قدافلح المومنون الذین ھم فی صلاتھم خشعون والذین ھم عن اللغومعرضون والذین ھم للزکوٰۃ فعلون والذین ھم لفروجھم حفظون الاعلی ازواجھم اوماملکت ایمانھم فانہم غیر ملومین فمن ابتغی وراء ذلک فاولئک ھم العدون والذین ھم لامنتھم وعھدھم رعون والذین ھم علی صلوتھم یحافظون اولیک ھم الورثون الذین یرثون الفردوس ھم فیھا خلدون

(المؤمنون۲۳:۱سے ۵تک)
ترجمہ :شروع کرتا ہوں اللہ تعالیٰ کے نام سے جو بڑا مہربان نہایت رحم والا ہے یقیناً ایمان والوں نے فلاح حاصل کر لی جو اپنی نماز میں خشوع کرتے ہیں اور جو لغویات سے منہ موڑ لیتے ہیں اور جو زکوٰۃ ادا کرنے والے ہیں اور جو اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کرنے والے ہیں بجز اپنی بیویوں اور ملکیت کی لونڈیوں کے یقیناً یہ ملامتوں میں سے نہیں ہیں جواس کے سوا کچھ اور چاہیں وہی حدسے تجاوز کر جانے والے ہیں اور جو اپنی امانتوں اور وعدے کی حفاظت کرنے والے ہیں اور جواپنی نمازوں کی نگہبانی کرتے ہیں یہی وارث ہیں جوفردوس کے وارث ہوں گے جہاں وہ ہمیشہ رہیں گے

توضیح : اللہ تعالیٰ نے ان آیات میں جن چیزوں کو بیان فرمایا ہے وہ بالکل واضح ہے مذکورہ فہرست میں اقامت نماز اور ادائیگی زکوٰۃ کو خصوصیت کے ساتھ ذکر کیا ہے مومنین کی کامیابی میں سب سے پہلے نماز کے خشوع اور خضوع کو ذکر فرمایا نماز میں خشوع کیا ہے اس کے ہر ارکان کو اطمینان کے ساتھ ادا کئے جائیں جلدی جلدی کو ے کی ٹھونک نہیں مارنا ہے اور پھر آخری دسویں آیت میں دوبارہ نماز کی حفاظت کا ذکر ہے جس سے اس اہمیت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے پھر مذکورہ ہدایات پر عمل کرنے والوں کو جنت الفردوس کے وارثین کہا گیا ہے کہ وہ اس میں ہمیشہ ہمیشہ رہیں گے جنت الفردوس جنت کا سب سے اعلیٰ درجہ ہے سبحان اللہ۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
ان الذین یتلون کتب اللہ واقاموالصلوۃ وانفقواممارزقنھم سراوعلانیۃ یرجون تجارۃ لن تبور(فاطر۳۵:۲۸۲۹۳۰)
ترجمہ :اور اسی طرح آدمیوں اور جانوروں اور چوپایوں میں بھی بعض ایسے ہیں کہ ان کی رنگتیں مختلف ہیں اللہ سے اس کے وہی بندے ڈرتے ہیں جو علم رکھتے ہیں واقعی اللہ تعالیٰ زبردست بڑا بخشنے والا ہے جو لوگ کتاب اللہ کے تلاوت کرتے ہیں اور نماز کی پابندی رکھتے ہیں اور جو کچھ ہم نے ان کو عطا فرمایا ہے اس میں سے پوشیدہ اور علانیہ خرچ کرتے ہیں وہ ایسی تجارت کے امیدوار ہیں جو کبھی خسارہ میں نہ ہو گی تاکہ ان کو ان کی اجرتیں پوری دے اور ان کو اپنے فضل سے اور زیادہ دے بے شک وہ بڑا بخشنے والا قدردان ہے ۔

توضیح : اللہ تعالیٰ نے اپنی قدرت کے نمونے کا ذکر فرمایا کہ اس کائنات میں کیسے کیسے انسانوں اور جانوروں کے اقسام ہیں اس کے بعد اس سے ڈرنے والوں کی پہچان بتائی ہے کہ جنہیں کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ کا علم ہے وہی اس سے ڈرتے ہیں ورنہ جہلاء بڑے ہی شقی و بدبخت ہوتے ہیں اور وہ علماء کے دشمن ہوتے ہیں انہیں حقارت سے دیکھتے ہیں مگر اللہ نے علماء کی تعریف فرمائی ہے علماء سے مراد علماء حاملین کتاب وسنت ہیں ورنہ آج علماء سوء کا بازار گرم جو بدعات و خرافات کے موجد ہیں شرک و بدعات کو عام کرنے کا بیڑا اٹھائے ہوئے ہیں پھر اللہ تعالیٰ نے اپنے نیک بندوں اس سے ڈرنے والوں کی وضاحت فرمائی ہے کہ وہ لوگ اس کی کتاب کی تلاوت کرتے ہیں نمازیں پڑھتے اور ہمارے دیئے ہوئے مال میں سے پوشیدہ ہو یا علانیہ خرچ کرتے ہیں اور یہ عمل وہ تجارت ہے جس میں کبھی بھی گھاٹا نہیں اور اس کا نفع اللہ کے یہاں ڈھیرسارا ہو گا جہاں ایک ایک نیکی کے لئے لوگ ترس رہے ہوں گے اللہ تعالیٰ پورا پورا بدلہ دے گا چونکہ اس کی شان ہی بخشش مغفرت ہے ۔

والذین یجتنبون کبیرا الاثم والفواحش واذاما غضبواھم یغفرون والذین استجابوالربھم واقاموا الصلوۃ وامرھم شوریٰ بینھم ومما رزقنھم ینفقون(الشوریٰ۴۲:۳۷سے ۴۰تک)
ترجمہ :اور کبیرہ گناہوں سے اور بے حیائیوں سے بچتے ہیں اور غصے کے وقت (بھی) معاف کر دیتے ہیں اور اپنے رب کے فرمان کو قبول کرتے ہیں اور نماز کی پابندی کرتے ہیں اور ان کا(ہر) کام آپس کے مشورے سے ہوتا ہے اور جو ہم نے انہیں دے رکھا ہے اس میں سے (ہمارے نام پر) دیتے ہیں اور جب ان پر ظلم (و زیادتی) ہو تو وہ صرف بدلہ لے لیتے ہیں اور برائی کا بدلہ اسی جیسی برائی ہے اور جو معاف کر دے اور اصلاح کر لے اس کا اجر اللہ کے ذمے ہے ،(فی الواقع) اللہ تعالیٰ ظالموں سے محبت نہیں کرتا۔

توضیح : اللہ تعالیٰ نے اپنے عاجزین بندوں کا ذکر فرماتے ہوئے تعلیم بندگی سمجھائی ہے کہ یہ لوگ کبیرہ گناہوں ، بے حیائی کے کاموں سے بچتے ہیں اور معافی کو معمول بتاتے ہیں اور اپنے رب کے فرمان پرعمل کرتے ان کی پہچان یہ ہے کہ وہ لوگ نمازوں کو قائم کرتے ہیں اپنے کاموں کو باہمی مشورہ سے کرتے ہیں شورائی نظام اپناتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کے راستوں میں خرچ کرتے ہیں اور ساری وہ چیزوں پرعمل کرتے ہیں جس کا مذکورہ آیات میں ذکر ہے اور جو مذکورہ باتوں پرعمل نہ کرے وہ بڑاظالم ہے اور اللہ ظالموں کو بالکل پسندنہیں فرماتا ہے۔
 
Top