السلام علیکم ورحمۃ اللہ
اس حدیث پر جمہور علمائے کرام نے عمل کیا ہے، چنانچہ انہوں نے حدیث میں مذکور ان جگہوں پر نمازی کیلئے رفع الیدین کرنے کو مستحب کہا ہے۔
بھائی اسی کا رونا رو رہا ہوں کہ ایک مستحب عمل کو فرض و واجب بنا کر جھگڑا کا موجب بنانا کہاں کی عقلمندی ہے؟
جبکہ رفع الیدین کی احادیث امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کو پہنچی تھی یا نہیں تو اس بارے میں ہمیں علم نہیں ہے، تاہم امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے پیروکاروں کا ضرور پہنچی ہیں، لیکن پھر بھی انہوں نے ان احادیث پر عمل نہیں کیا، اس کی وجہ یہ ہے کہ رفع الیدین والی احادیث دیگر ان احادیث سے معارض ہیں جن میں تکبیر تحریمہ کے علاوہ رفع الیدین چھوڑنے کا ذکر ہے، ان میں سے چند یہ ہیں:
- ابو داود (479) نے براء بن عازب رضی اللہ عنہ سے روایت کی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب نماز شروع کرتے تو اپنے ہاتھوں کو کانوں تک اٹھاتے، اور پھر ایسا نہ کرتےتھے ۔
- ابو داود (748) میں عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں : "کیا میں تمہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز نہ پڑھاؤں؟" تو انہوں نے نماز پڑھائی، اور انہوں نے صرف ایک بار رفع الیدین کیا۔
مزید کیلئے دیکھیں: "نصب الرایہ "از زیلعی: (1/393-407)
لیکن ان احادیث کو محدثین اور حفاظ حدیث نے ضعیف قرار دیا ہے۔
اختلافی مسائل میں سب سدے بڑی خرابی یہی ہے کہ ہر فریق یک طرفہ کاروائی کرتا ہے۔
میں نے ابتدا میں بہت سی صحیح احادیث لکھی ہیں انہیں پھر سے ملاحظہ فرما لیں۔
ایک صحیح حدیث سے نماز میں چند جگہوں کی رفع الیدین ثابت ہو۔ دوسری احادیث سے ان میں سے چند ایک کی ممانعت ثابت ہو تو بقیہ جگہ کی رفع الیدین باقی رہے گی یا منسوخ ہوگی؟
صحیح احادیث سے ثابت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہر تکبیر کے ساتھ رفع الیدین کرتے تھے۔
سجدوں کے درمیان رفع الیدین نہ کرنے کی حدیث آگئی (گو اس حدیث سے یہ ثابت نہیں ہو رہا کہ سجدوں کے درمیان رفع الیدین کرنا چھوڑا بلکہ صرف خبر ہے کہ ایسا نہ کرتے تھے لہٰذا ممکن ہے کہ بعد میں کرنے لگ گئے جیدا کہ صحیح حدیث میں آچکا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہر تکبیر کے ساتھ رفع الیدین کرتے تھے) لہٰذا بقیہ مقامات کی جب تک نفی نہ آئے وہ مسنون ہی رہنی چاہیئیں۔
مثلاًسجدہ کو جھکتے وقت دوسرا سجدہ کرکے اٹھتے وقت۔