نماز میں رفع الیدین کے بارے مختلف مقام کی کثیر تعداد میں احادیث وارد ہوئی ہیں۔
لیکن سب ایک درجہ کی نہیں ہیں، بعض صحیح بعض ضعیف جبکہ بعض مقلدین کی اپنی اختراع ہیں، صحیح احادیث پر ہمارا ایمان ہے اور عمل بھی، صحت و ضعف حدیث کے لئے محدثین کے اصول قرآن و حدیث کی روشنی میں مرتب ہیں اس لئے ان کا ہی اعتبار ہوگا، محدثین بھی انسان ہی تھے اگر کوئی مقلد ان کے اصولوں کو قرآن و حدیث کی روشنی میں غلط ثابت کر دے تو ہم اس کو قبول کرنے کو تیار ہیں.
چاروں فقہاء میں سے دو (حنفی اور مالکی) سوائے تکبیر تحریمہ کے کہیں بھی رفع الیدین کے قائل نہیں۔
ان کے مطابق رفع الیدین میں بتدریج کمی آئی ہے۔
آپ نے چاروں فقہاء کہہ کر جو بریکٹ میں حنفی مالکی لکھا ہے یہ آپ کی وہی ڈنڈی ہے جسے مار کر آپ اپنے جیسے مقلدوں کو بے وقوف بنا رہے ہیں، اگر حنفی مذہب سے مقلدین کے اقوال نکال دیے جائیں تو یہ مذہب بیس فیصد ہی بچے گا آپ کا یہ کہنا کہ
ان کے مطابق رفع الیدین میں بتدریج کمی آئی ہے
محض أمام ابو حنیفہ و مالک رحمہمااللہ پر افترا و جھوٹ ہے اگر آپ اپنے اس قول میں سچے ہیں تو ان کی کسی کتاب یا ان تک با سند صحیح اس قول کو ثابت کرکے دکھائیں؟ امام مالک رحمہ سے تو ان کی کتاب میں عند الرکوع کی حدیث بھی مروی ہے اس کی موجودگی میں آپ کی بات
هباء منثورا ہے حدیث اس طرح ہے
حَدَّثَنِي يَحْيَى، عَنْ مَالِكٍ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ ، عَنْ سَالِمِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ إِذَا افْتَتَحَ الصَّلَاةَ رَفَعَ يَدَيْهِ حَذْوَ مَنْكِبَيْهِ، وَإِذَا رَفَعَ رَأْسَهُ مِنَ الرُّكُوعِ رَفَعَهُمَا كَذَلِكَ أَيْضًا، وَقَالَ : " سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ، رَبَّنَا وَلَكَ الْحَمْدُ ". وَكَانَ لَا يَفْعَلُ ذَلِكَ فِي السُّجُودِ.(موطا مالك : 196)
دو فقہاء (شافعی اور حنبلی) تکبیر تحریمہ کے علاوہ صرف رکوع کی رفع الیدین کے قائل ہیں۔
ان کا تعلق چونکہ دور دراز کے علاقوں سے تھا اس لئے ممکن ہے کہ ان کو ترک رفع الیدین والی احادیث بوثوق ذرائع سے نا مل سکی ہوں۔
اور چونکہ آپ کا تعلق ان دو فقہاء سے بھی زیادہ دور سے ہے اسی لئے آپ کو حدیث کا کچھ بھی حصہ نہیں ملا، اور آپ کے دیوبند و بریلی کا تعلق تو آپ سے بھی زیادہ دور سے ہے اس لئے دیوبندی بریلوی کو اور بھی نہیں ملا؟ محترم اللہ کا خوف کھاؤ کبھی آپ (مقلدین احناف) اپنے مطلب پر امام شافعی اور احمد رحمہما اللہ کو واسطہ در واسطہ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کا شاگرد ثابت کرنے کی ناکام کوشش کرتے نظر آتے ہو اور آج یہ اتنی بڑی دشمنی کیوں؟ محترم بات دور اور نزدیک کی نہیں بلکہ اللہ کی دین، ائمہ کی کوششوں کی ہے إمام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کو اپنے رائے قیاس سے فرصت ہی نہیں ملی اسی لئے ان کو کوفہ میں رہکر جو آپ کے مطابق قریب تھا، کو احادیث کے بحر ذخار میں سے چند ہی ملیں، امام مالک رحمہ اللہ نے محبت رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں مدینہ کو چھوڑا ہی نہیں اور بہت کم مدینہ سے باہر گئے اس لئے ان کو مدینہ میں موجود تابعین کی یا بعض باہر سے آنے والے حفاظ حدیث سے ہی احادیث سیکھنے کا موقع ملا اور بے شمار صحابہ جو مدینہ چھوڑ کر احادیث کا ذخیرہ لیکر مکہ مصر عراق شام و ایران چلے گئے تھے ان سے احادیث سیکھنے کا موقع نہیں ملا جبکہ امام شافعی اور احمد رحمہما اللہ کا معاملہ اس کے برعکس تھا انہوں نے اپنے علاقے کے حفاظ حدیث سے تو سیکھا ہی ساتھ ہی ساتھ دور دراز کے اسفار بھی کئے مکہ بھی گئے مدینہ بھی مصر، عراق و شام وغیرہا بھی گئے امام شافعی کے مقابلے إمام احمد بعد کے ہیں لیکن احادیث کا ذخیرہ ان کے پاس شافعی رحمۃ اللہ علیہ سے بھی زیادہ ہے، ہاں اس محنت و مشقت کے بعد بھی ممکن ہے ان دونوں کو بھی بعض احادیث نا ملی ہوں اور نا ہی ان میں سے کسی نے تمام احادیث کے احاطے کا دعویٰ کیا ہے؟ اور جو ممکن آپ ان دونوں کے لئے ثابت کر رہے ہیں وہ ممکن اوپر دونوں ائمہ کے لئے زیادہ ممکن ہے.
امام ابوحنفہ رحمہ اللہ کوفہ کے رہنے والے تھے (جو کہ آخری خلیفہ راشد علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا دار الخلافہ رہا) اور امام مالک رحمہ اللہ مدین منورہ کے۔
اگر کوئی ان سب سے ہٹ کر کوئی راہ اختیار کرتا ہے تو وہ سَبِيلِ الْمُؤْمِنِينَ سے اعراض کے سبب قرآنی وعید کی زد میں آئے گا۔
لیکن حضرت علی رضی اللہ عنہ تو کوفہ اپنے چار، ساڑھے چار سالہ خلافت میں بمشکل آدھا وقت بھی نہیں گذارے ان کا زیادہ وقت تو مدینہ ہی میں گزرا اور جو خلفائے ثلاثہ تھے وہ بھی مدینہ ہی میں گزارے اس اعتبار سے امام مالک کی فضیلت ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر ہوئی اور چونکہ إمام شافعی ان کے شاگرد رہے اس لئے ان کی بھی فضیلت ثابت ہوئی اور چونکہ إمام احمد شافعی رحمہ اللہ کے شاگرد ہیں اس اعتبار سے حنفی مذہب سے حنبلی بھی بہتر ثابت ہوا،
محترم کیا ان ائمہ کے زمانہ کے وہ ائمہ جن کا فقہ و حدیث میں بلند مقام ہے جیسے إسحاق بن راہویہ عبداللہ بن مبارک یا وہ فقہاء جن کو امام ترمذی رحمہ اللہ نے اپنی سنن میں فقہاء کہا ہے اور ان میں سے بعض کے بہت سارے اقوال فقہاء اربعہ کے خلاف بھی ہیں، کیا یہ فقہاء آپ کی مزعومہ سبیل المومنین کے خلاف ہیں؟ اگر آپ کا جواب إثبات میں اور آپ کے اس پیراگراف کی روشنی میں اثبات میں ہی ہونا چاہیے تو یہ سبیل المومنین نہیں بلکہ سبیل الشیاطین ہے اور یہ آپ ہی کو مبارک ہو ہمیں اس کی ضرورت نہیں.