• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

نماز میں سینے پر ہاتھ باندھنا

baig

رکن
شمولیت
فروری 06، 2017
پیغامات
103
ری ایکشن اسکور
47
پوائنٹ
70

لا مذہب (بمعنیٰ غیر مقلد) نام نہاد اہلحدیث کے سینہ پر ہاتھ باندھنے کے تمام دلائل کا دارومدار ’’علیٰ صدرہ‘‘ کے الفاظ پر ہے جس کا مفہوم ’’سامنے کی طرف‘‘ بھی ہے اور مناسب یہی ہے کہ جن احادیث میں ’’علیٰ صدرہ‘‘ آیا ہے اس سے یہی مفہوم لیا جائے کیونکہ خیر القرون کے محثین کرام اور فقہاء عظام میں سے کسی نے بھی سینہ پر ہاتھ باندھنے کی بات نہیں لکھی سوائے امام شافعی کے اور ان کا بھی بعد کا قول ’’فوق السرۃ‘‘ کا ہے۔


امام ابو بکر احمد بن حسین بن علی بیہقی رحمہ اللہ (متوفی:۴۵۸ھ) نے اپنی کتاب سنن الکبری میں باب:
باب وضع اليدين على الصدر في الصلاة من السنة
نماز میں سینے پر ہاتھ باندھنے کے مسنون ہونے کا بیان۔ ج۲ ص۳۰۷، مترجم حافظ ثناء اللہ، ابو محمد افتخار احمد ، ناشر مکتبہ رحمانیہ۔

{ج٢ ص٣٠، ونسخة الثاني: ج٢ ص٤٦، قبل حديث ٢٣٣٥، بتحقيق محمد عبد القادر عطا، ونسخة الثالث: ج٣ ص٣٧٥، قبل حديث:٢٣٦٩، بتحقيق الدكتور عبد الله بن عبد المحسن التركي}.
 

baig

رکن
شمولیت
فروری 06، 2017
پیغامات
103
ری ایکشن اسکور
47
پوائنٹ
70
محترم اس کی سند پر بحث نہیں اس کی سند اگر صحیح بھی ہے تو صرہ سے سینہ مراد لینا کسی قرینہ صارفہ سے ثابت نہیں بلکہ خیر القرون کی پوری امتِ مسلمہ کے عمل کے خلاف ہے۔ پوری امت کا گمراہی پر جمع ہونا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کی روشنی میں ممکن نہیں۔
پوری امت کے فقہاء، علماء اور عامی یا تو ناف کے نیچے ہاتھ باندھتے تھے یا ناف کے اوپر۔ سینہ پر ہاتھ باندھنے کا ذکر کسی ایک نے بھی نہیں کیا۔
لازم آتا ہے کہ ’’علی صدرہ‘‘ کی تفہیم میں غلطی ہو رہی ہے اور یہ لفظ ’’ظہرہ‘‘ کے متضاد معنیٰ میں بھی مستعمل ہے اور اس کا یہی معنیٰ کہ اس سے مراد ’’سامنے کیطرف‘‘ یعنی جہت لینا ہی اولیٰ ہے وگر نہ پوری امت کو گمراہی پر ماننا لازم آئے گا اور یہ محال ہے۔
لا مذہب (بمعنیٰ غیر مقلد) نام نہاد اہلحدیث کے سینہ پر ہاتھ باندھنے کے تمام دلائل کا دارومدار ’’علیٰ صدرہ‘‘ کے الفاظ پر ہے جس کا مفہوم ’’سامنے کی طرف‘‘ بھی ہے اور مناسب یہی ہے کہ جن احادیث میں ’’علیٰ صدرہ‘‘ آیا ہے اس سے یہی مفہوم لیا جائے کیونکہ خیر القرون کے محثین کرام اور فقہاء عظام میں سے کسی نے بھی سینہ پر ہاتھ باندھنے کی بات نہیں لکھی سوائے امام شافعی کے اور ان کا بھی بعد کا قول ’’فوق السرۃ‘‘ کا ہے۔



بسم الله الرحمن الرحيم

کتاب اللہ و سنت نبی کریم ﷺ اور فہم سلف صالحین کے خلاف باطل قیاس کرنے والے کا انجام
سمعت أبا يعقوب(١) يقول: سمعت الخليل بن أحمد(٢) يقول: سمعت أبا الحسين الطبسي(٣) يقول: سمعت أبا سعيد الإصطخري(٤) يقول: وجاءه رجل وقال له: أيجوز الاستنجاء بالعظم؟ قال: لا، قال: لم؟ قال: لأن رسول الله صلي الله عليه وسلم قال: "هو زاد إخوانكم من الجن" قال: فقال له: الإنس أفضل أم الجن؟ قال: بل الإنس، قال: فلم يجوز الاستنجاء بالماء وهو زاد الإنس؟ قال: فنزا عليه وأخذ بحلقه، وهو يقول: يا زنديق! تعارض رسول الله صلي الله عليه وسلم؟! وجعل يخنقه، فلو لا أني أدركته لقتله، أو كما قال.

ابو سعید الحسن بن احمد بن یزید الاصطخری رحمہ اللہ (متوفی۳۲۸ھ) کے پاس ایک آدمی آیا اور پوچھا: کیا ہڈی سے استنجا جائز ہے؟ انھوں نے فرمایا: نہیں، اس نے پوچھا: کیوں؟ انھوں نے فرمایا: کیونکہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے: یہ تمھارے بھائی جنوں کی خوراک ہے۔اس نے پوچھا: انسان افضل ہیں یا جن؟ انھوں نے فرمایا: انسان، اس نے کہا: پانی کے ساتھ استنجا کیوں جائز ہے جبکہ وہ انسانوں کی خوراک ہے، راوی (ابو الحسین الطبسی) کہتے ہیں کہ ابو سعید الاصطخری نے حملہ کرکے اس آدمی کی گردن دبوچ لی اور اس کا گلہ گھونٹتے ہوئے فرمانے لگے: ‘‘زندیق (بے دین، گمراہ)! تو رسول اللہ ﷺ کا رد کرتا ہے’’ اگر میں اس آدمی کو نہ چھڑا تا تو وہ اسے قتل کریتے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

{أخرجه: أبو إسماعيل عبد الله بن محمد بن علي بن محمد بن أحمد بن علي بن جعفر بن منصور بن مت الأنصاري الهروي (م٤٨١ھ) في الكتاب: ذم الكلام وأهله: [الطبقة السابعة وفيهم نجمت الكلابية] ج٤ ص٣٨٤-٣٨٥، ح١٢٥٨، بتحقيق أبو جابر عبد الله بن محمد بن عثمان الأنصاري. ونسخة الثاني: ج٦ ص١٧٩-١٨٠، ح١٢٤٩، بتحقيق عبد الرحمن بن عبد العزيز الشبل}.

{ ابو طاہر زبیر علی زئی (م۱۴۳۵ھ) نے اس روایت کی سند کو"وسندہ حسن" کہا ہے، دیکھئے کتاب: تحقیقی اصلاحی اور علمی مقالات: ج۲ ص۵۶۷-۵۶۸}۔

{(١)أبو يعقوب إسحاق بن أبي إسحاق إبراهيم بن محمد بن عبد الرحمن القراب السرخسي ثم الهروي (م٤٢٩ھ) قال: شمس الدين محمد بن أحمد بن عثمان الذهبي (م٧٤٨ھ) "الإمام الجليل محدث هراة" في الكتاب: تاريخ الإسلام ووفيات المشاهير والأعلام: ج٩ ص٤٥٨، ت٢٩٧، بتحقيق الدكتور بشار عواد معروف، ونسخة الثاني: ج٢٩ ص٢٥٦، ت٢٩٥، بتحقيق الدكتور عمر عبد السلام التدمري}.

{(٢)أبو سعيد الخليل بن أحمد بن محمد بن الخليل بن موسى بن عبد الله بن عاصم بن جنك السجزي الحنفي (م٣٧٨ھ) قال: أبو الطيب نايف بن صلاح بن علي المنصوري "ثقة مصنف فقيه جليل القدر" في الكتاب: الروض الباسم في تراجم شيوخ الحاكم: ج١ ص٤٨٦-٤٩٠، ت٣٥٤}.

{(٣)أبو الحسين أحمد بن محمد بن سهل الطبسي (م٣٥٨ھ) قال: أبو الطيب نايف بن صلاح بن علي المنصوري "ثقة فقيه بارع" في الكتاب: الروض الباسم في تراجم شيوخ الحاكم: ج١ ص٢٩٥، ت١٦٩}.

{(٤)أبو سعيد الحسن بن أحمد بن يزيد بن عيسى بن الفضل بن بشار بن عبد الحميد بن عبد الله بن هانئ بن قبيصة بن عمرو بن عامر الإصطخري (م٣٢٨ھ) قال: أبو الطيب نايف بن صلاح بن علي المنصوري "ثقة زاهد وفقيه مقدم" في الكتاب: الدليل المغني لشيوخ الإمام أبي الحسن الدارقطني: ص١٧٣-١٧٤، ت١٥٥}.
 
شمولیت
اپریل 15، 2017
پیغامات
194
ری ایکشن اسکور
2
پوائنٹ
23
امام ابو بکر احمد بن حسین بن علی بیہقی رحمہ اللہ (متوفی:۴۵۸ھ) نے اپنی کتاب سنن الکبری میں باب:
باب وضع اليدين على الصدر في الصلاة من السنة
نماز میں سینے پر ہاتھ باندھنے کے مسنون ہونے کا بیان۔ ج۲ ص۳۰۷، مترجم حافظ ثناء اللہ، ابو محمد افتخار احمد ، ناشر مکتبہ رحمانیہ۔

{ج٢ ص٣٠، ونسخة الثاني: ج٢ ص٤٦، قبل حديث ٢٣٣٥، بتحقيق محمد عبد القادر عطا، ونسخة الثالث: ج٣ ص٣٧٥، قبل حديث:٢٣٦٩، بتحقيق الدكتور عبد الله بن عبد المحسن التركي}.
اس کا کیا یہ ترجمہ غلط ہے؟
نماز میں ہاتھ باندھنا سامنے کی طرف (نہ کہ پیٹھ کی طرف) سنت ہے۔
 

baig

رکن
شمولیت
فروری 06، 2017
پیغامات
103
ری ایکشن اسکور
47
پوائنٹ
70
اس کا کیا یہ ترجمہ غلط ہے؟
نماز میں ہاتھ باندھنا سامنے کی طرف (نہ کہ پیٹھ کی طرف) سنت ہے۔
جناب @عبد الرحمن حنفی صاحب کیا آپ سے پھلے کوئی بھی احناف میں عربی کا جاننے والا تھا ہی نہیں؟ کیونکہ تمام احناف "علی صدرہ" کا ترجمہ سینےپر کرتے ہیں، مگر ایک آپ ہی علم والے ہیں یہ وہ تمام کے تمام جاہل مجھے! واللہ اعلم۔
 

عدیل سلفی

مشہور رکن
شمولیت
اپریل 21، 2014
پیغامات
1,717
ری ایکشن اسکور
430
پوائنٹ
197
جناب @عبد الرحمن حنفی صاحب کیا آپ سے پھلے کوئی بھی احناف میں عربی کا جاننے والا تھا ہی نہیں؟ کیونکہ تمام احناف "علی صدرہ" کا ترجمہ سینےپر کرتے ہیں، مگر ایک آپ ہی علم والے ہیں یہ وہ تمام کے تمام جاہل مجھے! واللہ اعلم۔
یہ چور دروازہ ڈھونڈ رہے ہیں اور وہ مل نہیں رہا اور نہ ملے گا
 
شمولیت
اپریل 15، 2017
پیغامات
194
ری ایکشن اسکور
2
پوائنٹ
23
اللہ تعالیٰ آپ کو ہدایت عطا فرمائے جناب @عبد الرحمن حنفی صاحب
آمین

جناب @عبد الرحمن حنفی صاحب کیا آپ سے پھلے کوئی بھی احناف میں عربی کا جاننے والا تھا ہی نہیں؟ کیونکہ تمام احناف "علی صدرہ" کا ترجمہ سینےپر کرتے ہیں، مگر ایک آپ ہی علم والے ہیں یہ وہ تمام کے تمام جاہل مجھے! واللہ اعلم۔
ان کو ملاحظہ فرمالیں
صحيح مسلم (2 / 606):
[شرح محمد فؤاد عبد الباقي]

[ش (ويشهدن الخير ودعوة المسلمين) أي يحضرن مجالس الخير كسماع العلم ويحضرن دعوة المسلمين أي دعاءهم كاستسقائهم (جلباب) قال النضر بن شميل هو ثوب أقصر وأعرض من الخمار وهي المقنعة تغطي به المرأة رأسها وقيل هو ثوب واسع دون الرداء تغطي به صدرها وظهرها وقيل هو الإزار وقيل الخمار (لتلبسها أختها من جلبابها) قال النووي الصحيح أن معناه لتلبسها جلبابا لا تحتاج إليه عارية]

یہ چور دروازہ ڈھونڈ رہے ہیں اور وہ مل نہیں رہا اور نہ ملے گا
چور دروازے استعمال کرنے والے کر رہے ہیں اور کرتے رہے۔ امید ہے سمجھ گئے ہوگے۔ عقلمند کے لئے اشارہ ہی کافی ہوتا ہے۔
 

baig

رکن
شمولیت
فروری 06، 2017
پیغامات
103
ری ایکشن اسکور
47
پوائنٹ
70
بات مردوں کی ہو رہی ہے۔ ابتسامہ
عورتوں کے بارے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز میں ایک اصول مقرر فرما دیا ’’ستر‘‘ کا لہٰذا ان کے کچھ معاملات جن کا تعلق ستر سے ہوگا ان کا حکم بھی مرد سے الگ ہوگا۔
کیا آپ کو یہ یاد نہیں ہے؟
اور جو آپ نے صحیح مسلم کی حدیث2056 کی شرح نقل کی ہے آپ سے میرا سوال ہے: کیا آپ لوگ اس روایت پر عمل کرتے ہیں؟
 

baig

رکن
شمولیت
فروری 06، 2017
پیغامات
103
ری ایکشن اسکور
47
پوائنٹ
70
آمین


ان کو ملاحظہ فرمالیں
صحيح مسلم (2 / 606):
[شرح محمد فؤاد عبد الباقي]

[ش (ويشهدن الخير ودعوة المسلمين) أي يحضرن مجالس الخير كسماع العلم ويحضرن دعوة المسلمين أي دعاءهم كاستسقائهم (جلباب) قال النضر بن شميل هو ثوب أقصر وأعرض من الخمار وهي المقنعة تغطي به المرأة رأسها وقيل هو ثوب واسع دون الرداء تغطي به صدرها وظهرها وقيل هو الإزار وقيل الخمار (لتلبسها أختها من جلبابها) قال النووي الصحيح أن معناه لتلبسها جلبابا لا تحتاج إليه عارية]


چور دروازے استعمال کرنے والے کر رہے ہیں اور کرتے رہے۔ امید ہے سمجھ گئے ہوگے۔ عقلمند کے لئے اشارہ ہی کافی ہوتا ہے۔
بات "علی صدرہ" کی ہورہی ہے۔
پھر سے میں آپ سے سوال کرتا ہوں: کیا احناف کے تمام نام نہاد علماء کرام "علی صدرہ" کا ترجمہ "سینے پر" کرتے رہے ہیں اور ابھی بھی یہی کرتے اور مانتے ہیں تو کیا وہ عربی نہیں جانتے تھے اور ہیں؟ کیا وہ سب کے سب جاہل تھے اور جاہل ہیں؟ یا آپ ہی ایک عربی کے عالم ہیں؟یا آپ کوئی تجدیدی کام انجام دے رہے ہیں؟ میرے بھائی @عبد الرحمن حنفی عقلمند کے لئے تو اشارہ ہی کافی ہوتا ہے مگر آپ کو کیا ہوگیا ہے؟ کیا آپ کی عقل اب کام نہیں کر رہی ہے؟ اللہ تعالیٰ آپ کو دین کی صحیح سمجھ عطا فرمائے اور حق کو قبول کرنے کی توفیق بھی عطا فرمائے آمین۔
 
Top