• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

نماز میں سینے پر ہاتھ باندھنا

عدیل سلفی

مشہور رکن
شمولیت
اپریل 21، 2014
پیغامات
1,717
ری ایکشن اسکور
430
پوائنٹ
197
بات "علی صدرہ" کی ہورہی ہے۔
پھر سے میں آپ سے سوال کرتا ہوں: کیا احناف کے تمام نام نہاد علماء کرام "علی صدرہ" کا ترجمہ "سینے پر" کرتے رہے ہیں اور ابھی بھی یہی کرتے اور مانتے ہیں تو کیا وہ عربی نہیں جانتے تھے اور ہیں؟ کیا وہ سب کے سب جاہل تھے اور جاہل ہیں؟ یا آپ ہی ایک عربی کے عالم ہیں؟یا آپ کوئی تجدیدی کام انجام دے رہے ہیں؟ میرے بھائی @عبد الرحمن حنفی عقلمند کے لئے تو اشارہ ہی کافی ہوتا ہے مگر آپ کو کیا ہوگیا ہے؟ کیا آپ کی عقل اب کام نہیں کر رہی ہے؟ اللہ تعالیٰ آپ کو دین کی صحیح سمجھ عطا فرمائے اور حق کو قبول کرنے کی توفیق بھی عطا فرمائے آمین۔
ان سے سوال کرنا بیکار ہے انکی دم پر پیر رکھ دیا ہے کہ یہ چور دروازے کی تلاش میں ہیں :)
 

عدیل سلفی

مشہور رکن
شمولیت
اپریل 21، 2014
پیغامات
1,717
ری ایکشن اسکور
430
پوائنٹ
197
مولانا ظفر احمد عثمانی کہتے ہیں جب حافظ ابن حجر رحمتہ اللہ کسی روایت پر سکوت کریں تو وہ روایت صحیح یا حسن ہوتی ہے اور یہ مولانا مرحوم کا اپنا بھی اصول ہے لہذا احناف بھی سر خم کریں ہٹ دھرمی کا مظاہر نہ کریں
وسكت عنه، فهو صحيح أو حسن عنده

ملاحظہ ہو عنوان الكتاب: إعلاء السنن (ط. كراتشي) المؤلف: ظفر أحمد العثماني التهانوي
ملاحظہ ہو الكتاب: قواعد في علوم الحديث. المؤلف: ظفر أحمد بن لطيف العثماني التهانوي رحمه الله.

حافظ ابن حجر رحمتہ اللہ نے اس روایت پر بھی سکوت کیا ہے اب یہ احناف کا اصول وسكت عنه، فهو صحيح أو حسن عنده اس روایت پر صادق آئے گا؟
وَقَدْ رَوَى اِبْنُ خُزَيْمَةَ مِنْ حَدِيثِ وَائِلٍ أَنَّهُ وَضَعَهُمَا عَلَى صَدْرِهِ ، وَلِلْبَزَّارِ عِنْدَ صَدْرِهِ ، وَعِنْدَ أَحْمَدَ فِي حَدِيثُ هُلْبٍ نَحْوُهُ
ابن خزیمہ رحمتہ اللہ نے حضرت وائل رضی اللہ عنہ کی حدیث بیان کی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز میں سینہ پر اور بزار میں ہے سینہ کے قریب ہاتھ باندھتے تھے، اور مسند احمد میں اسی طرح حضرت ھلب طائی کی حدیث ہے۔
 

baig

رکن
شمولیت
فروری 06، 2017
پیغامات
103
ری ایکشن اسکور
47
پوائنٹ
70
مولانا ظفر احمد عثمانی کہتے ہیں جب حافظ ابن حجر رحمتہ اللہ کسی روایت پر سکوت کریں تو وہ روایت صحیح یا حسن ہوتی ہے اور یہ مولانا مرحوم کا اپنا بھی اصول ہے لہذا احناف بھی سر خم کریں ہٹ دھرمی کا مظاہر نہ کریں
وسكت عنه، فهو صحيح أو حسن عنده

ملاحظہ ہو عنوان الكتاب: إعلاء السنن (ط. كراتشي) المؤلف: ظفر أحمد العثماني التهانوي
ملاحظہ ہو الكتاب: قواعد في علوم الحديث. المؤلف: ظفر أحمد بن لطيف العثماني التهانوي رحمه الله.

حافظ ابن حجر رحمتہ اللہ نے اس روایت پر بھی سکوت کیا ہے اب یہ احناف کا اصول وسكت عنه، فهو صحيح أو حسن عنده اس روایت پر صادق آئے گا؟
وَقَدْ رَوَى اِبْنُ خُزَيْمَةَ مِنْ حَدِيثِ وَائِلٍ أَنَّهُ وَضَعَهُمَا عَلَى صَدْرِهِ ، وَلِلْبَزَّارِ عِنْدَ صَدْرِهِ ، وَعِنْدَ أَحْمَدَ فِي حَدِيثُ هُلْبٍ نَحْوُهُ
ابن خزیمہ رحمتہ اللہ نے حضرت وائل رضی اللہ عنہ کی حدیث بیان کی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز میں سینہ پر اور بزار میں ہے سینہ کے قریب ہاتھ باندھتے تھے، اور مسند احمد میں اسی طرح حضرت ھلب طائی کی حدیث ہے۔
حدثنا يحيى بن سعيد عن سفيان حدثني سماك عن قبيصة بن هلب عن أبيه قال: رأيت النبي صلى الله عليه وسلم ينصرف عن يمينه وعن يساره ورأيته قال: يضع هذه على صدره وصف يحيى : اليمنى على اليسرى فوق المفصل.

ترجمہ: ھلب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نے نبی علیہ السلام کو دائیں جانب سے واپس جاتے ہوئے بھی دیکھا ہے اور بائیں جانب سے بھی اور میں نے نبی علیہ السلام کو اپنا داہنا ہاتھ بائیں ہاتھ پر سینے کے اوپر رکھے ہوئے دیکھا ہے جبکہ داہنا ہاتھ بائیں ہاتھ کے جوڑ پر تھا{عربی مع اردو ترجمہ: ج۱۰ ص۳۲۶، ح۲۲۳۱۳، مترجم : مولانا محمد ظفر اقبال، ناشر مکتبہ رحمانیہ}۔

{أخرجه: أبو عبد الله أحمد بن محمد بن حنبل بن هلال بن أسد بن إدريس بن عبد الله بن حيان بن عبد الله بن أنس بن عوف بن قاسط بن مازن بن شيبان بن ذهل بن ثعلبة بن عكابة بن صعب بن علي بن بكر وائل الذهلي الشيباني المروزي ثم البغدادي (م٢٤١ھ) في الكتاب: مسند، ج٥ ص٢٢٦.
ونسخة الثاني: ص١٦٢١، ح٢٢٣١٣، الطبعة بيت الأفكار الدولية.
ونسخة الثالث: ج٧ ص٣٣٧، ح٢٢٣١٣، الطباعة عالم الكتب بيروت لبنان.
ونسخة الرابع: ج١٠ ص٥١٥١-٥١٥٢، ح٢٢٣٨٦، الطبعة دار المنهاج، تحت إشراف الدكتور أحمد معبد عبد الكريم.
ونسخة الخامس: ج٩ ص١١٢، ح٢٢٥٩٨، بتحقيق محمد عبد القدر عطا.
ونسخة السادس: ج١٦ ص١٥٢، ح٢١٨٦٤، بتحقيق حمزة أحمد الزين، الطبعة دار الحديث القاهرة، وقال المحقق: "إسناده صحيح".
ونسخة السابع: ج٣٦ ص٢٩٩، ح٢١٩٦٧، بتحقيق شعيب الأرنؤوط، وعادل مرشد، وجمال عبد اللطيف، وعبد اللطيف حرز الله، وقال المحقق: "صحيح لغيره"، الطبعة مؤسسة الرسالة}.

{وأخرجه: جمال الدين أبو الفرج عبد الرحمن بن علي بن محمد بن علي بن عبيد الله بن عبد الله بن حمادى بن أحمد بن محمد بن جعفر بن عبد الله بن القاسم بن النضر بن القاسم بن محمد بن عبد الله بن عبد الرحمن بن القاسم بن محمد بن أبي بكر الصديق عبد الله بن أبي قحافة، القرشي التيمي البكري البغدادي المعروف بابن الجوزي (م٥٩٧
ھ) في الكتاب: التحقيق في أحاديث الخلاف: كتاب الصلاة: مسائل صفة الصلاة [مسألة: يسن وضع اليمين على الشمال خلافا لرواية عن مالك] ج١ ص٣٣٨، ح٤٣٤، بتحقيق مسعد عبد الحميد محمد السعدني، ومحمد فارس، وقال المحقق: "حسن".
ونسخة الثاني:
ومعه تنقيح التحقيق للذهبي: ج٢ ص١٨٩-١٩٠، مسألة:١٢٩، ح٤٧٧، بتحقيق الدكتور عبد المعطي أمين قلعجي، وقال المحقق: "وإسناده صحيح"}.

{وأخرجه: شمس الدين أبو عبد الله محمد بن أحمد بن عبد الهادي بن عبد الحميد بن عبد الهادي بن يوسف بن محمد بن قدامة المقدسي الجماعيلي الأصل ثم الدمشقي الصالحي المعروف بابن عبد الهادي (م٧٤٤
ھ) في الكتاب: تنقيح التحقيق في أحاديث التعليق لابن الجوزي: مسائل القيام إلى الصلاة [مسألة: ١٣١، يسن وضع اليمين على الشمال خلافا لرواية عن مالك] ج٢ ص١٤٣، ح٦٦٤، بتحقيق سامي بن محمد بن جاد الله، وعبد العزيز بن ناصر الخباني.
ونسخة الثاني: ج٢ ص٥٦٩-٥٧٠، بتحقيق الدكتور عامر حسن صبري}.

{وأخرجه: شمس الدين أبو عبد الله محمد بن أحمد بن عثمان بن قايماز بن عبد الله الفارقي التركماني الدمشقي المقرئ المعروف بالذهبي (م٧٤٨
ھ) في الكتاب: تنقيح التحقيق في أحاديث التعليق: كتاب الصلاة: مسائل صفة الصلاة [مسألة:١١٧، يسن وضع اليمين على الشمال خلافا لرواية عن مالك] ج١ ص١٣٩، تحقيق مصطفى أبو الغيط عبد الحي عجيب.
ونسخة الثاني: ومعه التحقيق في أحاديث الخلاف لابن الجوزي: ج٢ ص١٨٩، مسألة:١٢٩، ح٤٧٧، بتحقيق الدكتور عبد المعطي أمين قلعجي}.

{وأخرجه: عماد الدين أبو الفداء إسماعيل بن عمر بن كثير بن ضو بن درع القرشي البصروي ثم الدمشقي (م٧٧٤
ھ) في الكتاب: جامع المسانيد والسنن الهادي لأقوم سنن: ج٨ ص٣٦٦، ح١٠٥٦٨، الطبعة الثانية دار خضر، والطبعة الثالثة، ج٦ ص٢٢٠، ح١٠٥٥٤، بتحقيق الدكتور عبد الملك بن عبد الله بن دهيش.
ونسخة الثاني: ج١٢ ص٢٩٦-٢٩٧، ح٩٦٩٣، بتحقيق الدكتور عبد المعطي أمين قلعجي}.

{
قال: علاء الدين أبو عبد الله مغلطاي بن قليج بن عبد الله البكجري المصري الحكري الحنفي (م٧٦٢ھ) "حديث هلب، وفي موضع أخر: هو حديث صحيح. وخالف ذلك ابن المديني؛ فزعم أنّ قبيصة تفرد عنه بالرواية وهو مجهول، وهلب لم يرو عنه إلّا ابنه، وهو لعمري كما قاله، لكن العجلي قال في كتابه: هو تابعي ثقة، وذكره ابن حبان في الثقات مع تقدّم من صحح حديثه، فزالت عنه الجهالة. واللَّه أعلم. وفي مسند الإمام أحمد: "ورأيته يضع هذه على صدره" ووصف يحيى بن سعيد: اليمني على اليسرى فوق المفصل". في الكتاب: الإعلام بسنته عليه السلام المعروف بشرح سنن ابن ماجه: كتاب الصلاة [باب وضع اليمين على الشمال في الصلاة] ج٥ ص١٣٨٠، بتحقيق كامل عويضة}.

{
قال: محمد بن علي النيموي (م١٣٢٢ھ) "رواه أحمد وإسناده حسن لكن قوله علي صدر غير محفوظ" في الكتاب: آثار السنن مع التعليق الحسن: كتاب الصلوة [باب في وضع اليدين علي الصدر] ص١٠٨، ح٣٢٦، بتحقيق ذوالفقار علي. ونسخة الثاني: ص٧٤، ح٣٢٦، بتحقيق فيض أحمد الملتاني}.

{قال: أبو العلا محمد عبد الرحمن بن عبد الرحيم المباركفورى (م١٣٥٣ھ) "ورواة هذا الحديث كلهم ثقات وإسناده متصل" وقال "فحديث هلب الطائي هذا حسن وقد أعترف صاحب آثار السنن بأن إسناده حسن" في الكتاب: تحفة الأحوذي بشرح جامع الترمذي: أبواب الصلاة عن رسول الله صلى الله عليه وسلم [باب ما جاء في وضع اليمين على الشمال] ج١ ص٢١٦، الطبعة الهندية القديمة.
ونسخة الثاني: ص٥٦٤، الطبعة بيت الأفكار الدولية.
ونسخة الثالث: ج٢ ص٨١، الطبعة دار الكتب العلمية بيروت لبنان.
ونسخة الرابع: ج٢ ص٩٠-٩١، الطبعة دار الفكر تحت إشراف عبد الوهاب عبد اللطيف}.

{
قال: أبو الحسن عبيد الله بن محمد عبد السلام بن خان محمد بن أمان الله بن حسام الدين الرحماني المباركفوري (م١٤١٤ھ) "وهذا إسناد حسن وزيادة "على صدره" زيادة ثقة فيجب قبولها". في الكتاب: مرعاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح: كتاب الصلاة [باب صفة الصلاة: الفصل الثاني] ج٣ ص٧٤}.

{
قال: أبو عبد الرحمن محمد ناصر الدين بن نوح بن نجاتي بن آدم الأشقودري الألباني (م١٤٢٠ھ) "بسند رجاله ثقات رجال مسلم غير قبيصة هذا، وقد وثقه العجلي وابن حبان" في الكتاب: أحكام الجنائز وبدعها، ص١٥٠، الطبعة مكتبة المعارف الطبعة الجديدة}.
 
شمولیت
اپریل 15، 2017
پیغامات
194
ری ایکشن اسکور
2
پوائنٹ
23
ان سے سوال کرنا بیکار ہے انکی دم پر پیر رکھ دیا ہے کہ یہ چور دروازے کی تلاش میں ہیں :)
جناب خٍضر حیات اور انس نظر صاحبان کو ان صاحب کی زبان کی ’’شائستگی‘‘ نظر نہیں آتی؟
کیا یہ ’’عالم‘‘ ہیں یا ’’علم‘‘ ان پر کلنک کا ٹیکہہ ہے۔
 
شمولیت
اپریل 15، 2017
پیغامات
194
ری ایکشن اسکور
2
پوائنٹ
23
بات "علی صدرہ" کی ہورہی ہے۔
پھر سے میں آپ سے سوال کرتا ہوں: کیا احناف کے تمام نام نہاد علماء کرام "علی صدرہ" کا ترجمہ "سینے پر" کرتے رہے ہیں اور ابھی بھی یہی کرتے اور مانتے ہیں تو کیا وہ عربی نہیں جانتے تھے اور ہیں؟ کیا وہ سب کے سب جاہل تھے اور جاہل ہیں؟ یا آپ ہی ایک عربی کے عالم ہیں؟یا آپ کوئی تجدیدی کام انجام دے رہے ہیں؟ میرے بھائی @عبد الرحمن حنفی عقلمند کے لئے تو اشارہ ہی کافی ہوتا ہے مگر آپ کو کیا ہوگیا ہے؟ کیا آپ کی عقل اب کام نہیں کر رہی ہے؟ اللہ تعالیٰ آپ کو دین کی صحیح سمجھ عطا فرمائے اور حق کو قبول کرنے کی توفیق بھی عطا فرمائے آمین۔
سلف میں یا تو اس کا ترجمہ ’’سینہ‘‘ کسی نے نہیں جانا یا پھر یہ تمام روایات اس قبیل سے ہیں جنہیں سلف میں کوئی نہیں پہچانتا تھا۔ یہ امام مالک ہیں، احمد بن حنبل ہیں، امام ترمذی ہیں، امام نووی ہیں رحمہم اللہ علیہم اجمعین ان میں سے کوئی بھی سینہ پر ہاتھ باندھنے کی بات نہیں کرتا۔ بلکہ امام نووی رحمۃ اللہ صحیح مسلم کے باب میں باقائدہ تصریح فرماتے ہیں کہ سینہ کے نیچے ہاتھ باندھنے کی۔ فللہ الحمد
 
شمولیت
اپریل 15، 2017
پیغامات
194
ری ایکشن اسکور
2
پوائنٹ
23
اگر کسی حدیث میں اس بات کی تصریح ہو کہ ’’صدر‘‘ سے مراد صرف سینہ ہی ہے تو براہَ کرم پیش کی جائے۔ فضولیات اور فضول لوگوں سے پیشگی معذرت۔
 
شمولیت
اپریل 15، 2017
پیغامات
194
ری ایکشن اسکور
2
پوائنٹ
23
حدثنا يحيى بن سعيد عن سفيان حدثني سماك عن قبيصة بن هلب عن أبيه قال: رأيت النبي صلى الله عليه وسلم ينصرف عن يمينه وعن يساره ورأيته قال: يضع هذه على صدره وصف يحيى : اليمنى على اليسرى فوق المفصل.

ترجمہ: ھلب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نے نبی علیہ السلام کو دائیں جانب سے واپس جاتے ہوئے بھی دیکھا ہے اور بائیں جانب سے بھی اور میں نے نبی علیہ السلام کو اپنا داہنا ہاتھ بائیں ہاتھ پر سینے کے اوپر رکھے ہوئے دیکھا ہے جبکہ داہنا ہاتھ بائیں ہاتھ کے جوڑ پر تھا{عربی مع اردو ترجمہ: ج۱۰ ص۳۲۶، ح۲۲۳۱۳، مترجم : مولانا محمد ظفر اقبال، ناشر مکتبہ رحمانیہ}۔
سب سے پہلی بات یہ کہ کیا یہ ترجمہ صحیح ہے؟
دوسری بات یہ کہ اس میں ’’ينصرف عن يمينه وعن يساره‘‘ کا کیا مطلب ہے؟ تاکہ اس عمل کے موقع محل کی نشاندہی ہو سکے۔
تیسری بات یہ کہ یحیٰ رحمہ اللہ کا وضاحتی عمل کچھ اور ہی ظاہر کر رہا ہے جس میں ہاتھ باندھنے کا طریقہ بتایا گیا نہ کہ مقام۔
چوتھی بات یہاں ’’صدرہ‘‘ بمعنیٰ ’’سینہ‘‘ کس دلیل سے ہے جبکہ اس کا مطلب سامنے کی طرف ہاتھ باندھنا بھی ہو سکتا ہے اور یہاں یہی مناسب معلوم ہورہا ہے۔
 
شمولیت
اپریل 15، 2017
پیغامات
194
ری ایکشن اسکور
2
پوائنٹ
23
تحریر : حافظ زبیر علی زئی رحمہ اللہ
حدیث : ((عن سھل بن سعد قال: کان الناس یؤمرون أن یضع الرجل یدہ الیمنٰی علیٰ ذراعہ الیسریٰ فی الصلوٰۃ))سہل بن سعدؓ فرماتے ہیں کہ لوگوں کو (رسول اللہ ﷺ کی طرف سے) حکم دیاجاتاتھا کہ ہر شخص نماز میں اپنا دایاں ہاتھ اپنے بائیں بازوں پر رکھے۔ (بخاری: ۱۰۲/۱ ح ۷۴۰، و موطأ امام مالک ۱۵۹/۱ ح ۳۷۷ باب وضع الیدین احداہما علی الاخریٰ فی الصلوٰۃ، وروایۃ ابن القاسم بتحقیقی: ۴۰۹)فوائد:

۱: اس حدیث سے معلوم ہوا کہ نماز میں سینے پر ہاتھ باندھنے چاہئیں، آپ اگر اپنا دائیاں ہاتھ اپنی بائیں “ذراع” (بازو) پر رکھیں گے تو دونوں ہاتھ خودبخود سینہ پر آجائیں گے ۔
معذرت کے ساتھ یہاں زبیر علی زئی مرحوم نے ایک صحیح حدیث کو غلط معنیٰ پہنانے کی مذموم سعی کی ناسمجھی اور احناف دشمنی میں اور حقیقتاً ہاتھ پھر بھی سینہ سے نیچے ہی رہے مگر دل کے خوش رکھنے کو سینہ پر ہی کہیں گے۔ ابتسامہ
یہ خود بخود والی بات صحیح نہیں بلکہ مرحوم نے ایک وڈیو میں اس کا جس طرح عملی مظاہرہ کرکے دکھایا اس سے ہاتھ سینہ پر نہیں رہتے بلکہ ’’خؤد بخود‘‘ سینہ سے نیچے آجاتے ہیں۔
درج ذیل حدیث سے مرحوم زبیر علی زئی صاحب کےمجوزہ ہاستھ باندھنے کی نفی ہوتی ہے۔ اس مذکورہ حدیث میں دایاں ہاتھ بائیں ہاتھ کی ہتھیلی کی پشت پر رکھنے کا بھی ذکر ہے۔ صاف ظاہر ہے کہ افر سیدھا ہاتھ الٹے ہاتھ کی پشت پر رکھیں گے تو سیدھے ہاتھ کی انگلیاں الٹے ہاتھ کی کہنی تک نہیں پہنچ سکیں گی عملاً کر کے دیکھ لیں۔
ایک دوسری حدیث میں آیا ہے کہ آپ ﷺ نے اپنا دائیاں ہاتھ اپنی بائیں ہتھیلی کی پشت ، رُسغ (کلائی ) اور ساعد(کلائی سے لیکر کہنی تک) پر رکھا (سنن نسائی مع حاشیۃ السندھی : ج۱ ص ۱۴۱ ح ۸۹۰، ابوداود: ج۱ ص۱۱۲ ح ۷۲۷) اسے ابن خزیمہ (۲۴۳/۱ ح ۴۸) اور ابن حبان (الاحسان : ۲۰۲/۲ ح ۴۸۵) نے صحیح کہا ہے ۔
 
شمولیت
جولائی 01، 2017
پیغامات
401
ری ایکشن اسکور
155
پوائنٹ
47
محترم@عدیل سلفی محترم@ابن داود

شيوخ سے
گزارش یے کے حنفي صاحب کو شائستگی کا کیڑا کاٹ رہا ہے ذرا توجہ فرمائے
 
Top