• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

نماز میں کمی ،بیشی کا شک اور سہو کے سجدے

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,562
پوائنٹ
791
فیس بک پر ایک محترم بھائی نے نماز میں سجدہ سہو کے متعلق ایک سوال کیا ، اس کا سوال اور ہمارا جواب دیگر بھائیوں کیلئے یہاں پیش خدمت ہے :
ـــــــــــــــــــــــــــــ
نماز میں کمی ،بیشی کا شک اور سہو کے سجدے
سوال :
ایک شخص کو نماز کے آخر میں شک ہوا کہ اس نے چار کی بجائے تین رکعت پڑھی ہیں ،
اس نے ایک رکعت مزید پڑھی ، لیکن یہ ایک رکعت پڑھتے ہوئے اس کو شک ہوا کہ میں نے چار کی بجائے پانچ رکعت پڑھ دی ہیں ،
اب اسے نماز کے آخر میں سلام کے بعد سہو کے دو سجدےکرنا تھے ، لیکن سجدہ سہو میں بھی اس سے غلطی ہوگئی ،اور بجائے دو سجدوں کے ایک ہی سجدہ کرکے سلام پھیر دیا ،
تو اس طرح کرنے سے کیا وہ نماز میں اضافہ کا مجرم تو نہیں ، اور کیا اس کی نماز ہوگئی یا نہیں ؟

ـــــــــــــــــــــــــــــــ
بسم اللہ الرحمن الرحیم

الجواب :
جب امام کو یا اکیلے نمازی کو چار رکعت والی نماز میں شک پیدا ہوجائے کہ اس نے تین رکعت پڑھی ہیں یا چار تو اس لازم ہے کہ وہ یقینی بات کوبنیاد بنائے اور وہ کم رکعت ہی ہوسکتی ہیں گویا انہیں تین شمار کر کے چوتھی ادا کر لے۔ پھر سلام سے پہلے سجدہ سہو کرے۔ جیساکہ سیدنا ابوسعید خدری رضى الله عنه نبیﷺ سے روایت کرتے ہوے فرماتے ہیں کہ آپﷺ نے فرمایا:

((عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " إِذَا شَكَّ أَحَدُكُمْ فِي صَلَاتِهِ، فَلَمْ يَدْرِ كَمْ صَلَّى، ثَلَاثًا، أَمْ أَرْبَعًا، فَلْيَطْرَحِ الشَّكَّ، وَلْيَبْنِ عَلَى مَا اسْتَيْقَنَ، ثُمَّ يَسْجُدُ سَجْدَتَيْنِ، قَبْلَ أَنْ يُسَلِّمَ، فَإِنْ كَانَ صَلَّى خَمْسًا، شَفَعْنَ لَهُ صَلَاتَهُ، وَإِنْ كَانَ صَلَّى إِتْمَامًا لِأَرْبَعٍ، كَانَتَا تَرْغِيمًا لِلشَّيْطَانِ ".
سیدنا ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب تم میں سے کوئی اپنی نماز میں شک کرے (کہ کتنی رکعتیں پڑھی ہیں) اور معلوم نہ ہو سکے تین پڑھیں یا چار تو شک کو دور کرے اور جس قدر کا یقین ہوا اس کو قائم کرے پھر سلام سے پہلے دو سجدے کرے۔ اب اگر اس نے پانچ رکعتیں پڑھیں تو یہ دو سجدے مل کر چھ رکعتیں ہو جائیں گی اور اگر پوری چار پڑھیں ہیں تو ان دونوں سجدوں سے شیطان کے منہ میں خاک پڑ جائے گی۔“۔‘‘

اس حدیث کو مسلم نے اپنی صحیح میں (کتاب المساجد ومواضع الصلوۃ ) میں روایت کیا ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
شیخ عبدالعزیز بن باز رحمہ اللہ لکھتے ہیں :

س: إذا شك الإمام في الصلاة الرباعية ولم يعلم أصلى ثلاثا أم أربعا ثم سلم، وبعد السلام أخبره بعض المأمومين أنه لم يصل إلا ثلاثا، في هذه الحالة هل يكبر الإمام تكبيرة الإحرام للرابعة أو يقوم فقط ويقرأ الفاتحة بدون تكبير؟ وما موقع سجود السهو، قبل السلام أم بعده؟ .
ج: إذا شك الإمام أو المنفرد في الصلاة الرباعية هل صلى ثلاثا أم أربعا، فإن الواجب عليه البناء على اليقين وهو الأقل فيجعلها ثلاثا، ويأتي بالرابعة ثم يسجد للسهو قبل أن يسلم؛ لما ثبت عن أبي سعيد الخدري عن النبي - صلى الله عليه وسلم - أنه قال: «إذا شك أحدكم في الصلاة فلم يدر كم صلى ثلاثا أم أربعا فليطرح الشك، وليبن على ما استيقن، ثم ليسجد سجدتين قبل أن يسلم، فإن كان صلى خمسا شفعن له صلاته، وإن كان صلى تماما كانتا ترغيما للشيطان ( صحيح مسلم المساجد ومواضع الصلاة (571) ، سنن الترمذي الصلاة (396) ، سنن النسائي السهو (1238) ، سنن أبو داود الصلاة (1024) ، سنن ابن ماجه إقامة الصلاة والسنة فيها (1210)أما إن سلم من ثلاث ثم نبه على ذلك فإنه يقوم بدون تكبير بنية الصلاة ثم يأتي بالرابعة ثم يجلس للتشهد وبعد فراغه من التشهد والصلاة على النبي - صلى الله عليه وسلم - والدعاء يسلم ثم يسجد سجدتين بعد ذلك للسهو ثم يسلم هذا هو الأفضل في حق كل من سلم عن نقص في الصلاة ساهيا؛ لما ثبت عن النبي - صلى الله عليه وسلم - «أنه سلم من اثنتين في الظهر أو العصر فنبهه ذو اليدين، فقام فأكمل صلاته ثم سلم ثم سجد للسهو ثم سلم (1) » . وثبت عنه - صلى الله عليه وسلم - «أنه سلم من ثلاث في العصر فلما نبه على ذلك أتى بالرابعة ثم سلم ثم سجد سجدتي السهو ثم سلم (2) » .
__________
(1) صحيح البخاري الأدب (6051) ، صحيح مسلم المساجد ومواضع الصلاة (573) ، سنن الترمذي الصلاة (399) ، سنن النسائي السهو (1224) ، سنن أبو داود الصلاة (1008) ، سنن ابن ماجه إقامة الصلاة والسنة فيها (1214) ، مسند أحمد بن حنبل (2/235) ، موطأ مالك النداء للصلاة (211) ، سنن الدارمي الصلاة (1496) .
(2) صحيح مسلم المساجد ومواضع الصلاة (574) ، سنن الترمذي الصلاة (395) ، سنن النسائي السهو (1237) ، سنن أبو داود الصلاة (1018) ، سنن ابن ماجه إقامة الصلاة والسنة فيها (1215) ، مسند أحمد بن حنبل (4/427) .

ترجمہ :
سوال :جب امام کویا اکیلے نمازی کو رکعتوں کی تعداد میں شک پیدا ہو

جب چار رکعت والی نماز میں امام کو شک پڑجائے اور اسے معلوم نہ ہو کہ تین رکعت ادا کی ہیں یا چار او رسلام کے بعد کوئی مقتدی خبر دے کہ اس نے تو تین ہی رکعت ادا کی ہیں ۔ اس صورت میں کیا امام چوتھی رکعت کے لیے تکبیر تحریمہ کہے گا یا بغیر تکیبر کے فقط سورہ فاتحہ پڑھے گا… نیز سجو دسہو کا موقع کونسا ہے ۔ سلام سے پہلے ای اس کے بعد ؟

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
الجواب بعون الوهاب
جب امام کو یا اکیلے نمازی کو چار رکعت والی نماز میں شک پیدا ہوجائے کہ اس نے تین رکعت پڑھی ہیں یا چار تو اس لازم ہے کہ وہ یقینی بات کوبنیاد بنائے اور وہ کم رکعت ہی ہوسکتی ہیں گویا انہیں تین شمار کر کے چوتھی ادا کر لے۔ پھر سلام سے پہلے سجدہ سہو نکاے۔ جیساکہ ابوسعید خدری رضى الله عنه نبیﷺ سے روایت کرتے ہوے فرماتے ہیں کہ آپﷺ نے فرمایا:

((إِذَا شَکَّ أَحَدُکُمْ فِی صَلٰوتِہٖ فَلَمْ یَدْرِ کَمْ صَلّٰی ثَلَاثًا أَمْ أَرْبَعًا فَلْیَطْرَحْ الشَّکَّ وَلْیَبْنِ عَلٰی مَا اسْتَیْقَنَ ثُمَّ یَسْجُدُ سَجْدَتَیْنِ قَبْلَ أَنْ یُّسَلِّمَ فَإِنْ کَانَ صَلّٰی خَمْسًا شَفَعْنَ لَہٗ صَلٰوتَہٗ وَإِنْ کَانَ صَلّٰی إِتْمَامًا لِأَرْبَعٍ کَانَتَا تَرْغِیمًا لِلشَّیْطَانِ))

’’ جب تم میں سے کسی کو نماز میں شک پڑجائے اور نہ جانتا ہو کہ تین رکعت ادا کی ہیں یا چار تو شک کو نکال پھینکیں اور نماز کی بنا اس بات پر رکھیں جو یقیقنی ہو۔ پھر سلام پھیرنے سے پہلے دو سجدہ نکال لیں ۔ اگر پانچ رکعت پڑھ لیں تو یہ سجدے نماز کو جواڑ بنادیں گے اور اگر نماز پوری ہوئی تو یہ سجدے شیطان کو خاک آلود کریں گے۔‘‘

اس حدیث کو مسلم نے اپنی صحیح میں روایت کیا ہے

اور اگر اس نے تین رکعت کے بعد سلام پھیرے دییا پھر اسے اس بت کی خبردی گئی تو وہ نماز کی نیت سے بلا تکبیر اٹھ کھڑا ہوا اور چوتھی رکعت ادا کرے پھر تشہد کے لیے بیٹھ جائے اور تشہد نبی ﷺ پر دور اور دعا کے بعد سلام پھیرے ۔ پھر اس کے بعد سہوکے دو سجدے نکالے۔ پھر سلام پھیرے۔ یہی طریقہ نماز میں ہر طرح کی بھول کے نقص کے لیے افضل ہے ۔ کیونکہ نبیﷺ سے ثابت ہے کہ آپ نے ظہر یا عصر کی دو رکعت ادا کرکے سلام پھیردیا ۔ ذولیدین رضى الله عنه نے آپﷺ سے یہ بھی اٹھے ، اپنی نماز مکمل کی، پھر سلام پھیرا۔ نیز آپﷺ سے یہ بھی ثابت ہے کہ آپ نے عصر کی نماز میں تین رکعت کے بعد سلام پھیردیا۔ پھرجب آپ کو بتلایا تو آپ ﷺ نے چوتھی رکعت پڑھی سلام پھیرا۔ پھر سہو کے دوسجدے کیے پھر سلام پھیرا۔

فتاوی بن باز رحمہ اللہ جلد 11 ص 252.

ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
عن ابي هريرة رضي الله عنه،‏‏‏‏ قال:‏‏‏‏ "صلى بنا النبي صلى الله عليه وسلم الظهر او العصر فسلم، ‏‏‏‏‏‏فقال له ذو اليدين:‏‏‏‏ الصلاة يا رسول الله انقصت، ‏‏‏‏‏‏فقال النبي صلى الله عليه وسلم لاصحابه احق ما يقول؟، ‏‏‏‏‏‏قالوا:‏‏‏‏ نعم، ‏‏‏‏‏‏فصلى ركعتين اخريين، ‏‏‏‏‏‏ثم سجد سجدتين"، ‏‏‏‏‏‏قال سعد:‏‏‏‏ ورايت عروة بن الزبير صلى من المغرب ركعتين فسلم وتكلم، ‏‏‏‏‏‏ثم صلى ما بقي وسجد سجدتين، ‏‏‏‏‏‏وقال:‏‏‏‏ هكذا فعل النبي صلى الله عليه وسلم.
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ظہر یا عصر کی نماز پڑھائی جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سلام پھیرا تو ذوالیدین کہنے لگا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! کیا نماز کی رکعتیں کم ہو گئی ہیں؟ (کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھول کر صرف رکعتوں پر سلام پھیر دیا تھا) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اصحاب سے دریافت کیا کہ کیا یہ سچ کہتے ہیں؟ صحابہ نے کہا جی ہاں، اس نے صحیح کہا ہے۔ تب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دو رکعت اور پڑھائیں پھر دو سجدے کئے۔ سعد نے بیان کیا کہ عروہ بن زبیر کو میں نے دیکھا کہ آپ نے مغرب کی دو رکعتیں پڑھ کر سلام پھیر دیا اور باتیں بھی کیں۔ پھر باقی ایک رکعت پڑھی اور دو سجدے کئے اور فرمایا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی طرح کیا تھا۔
صحیح بخاری ( 1227)

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
اب آپ کی مسئولہ صورت یہ ہے کہ اس نمازی کو نماز میں سہو تو یقیناً ہوا ہے خواہ اس نے چار کی جگہ تین رکعت پڑھ کر سہو کا مظاہرہ کیا یا چار کی جگہ پانچ پڑھ کر غلطی کی ، دونوں صورتوں میں اس پر سہو کے دو سجدے واجب تھے ،
اور سہو کے سجدوں کی ادائیگی میں اس سے غلطی دو طرح سے ہوئی ایک تو یہ کہ سجدے سلام کے بعد کرنے تھے اور پھر سلام پھیرنا تھا ،جبکہ اس نے سلام سے پہلے ایک سجدہ کرلیا اور ایک سجدہ اس س ے پھر رہ گیا یہ دوسری غلطی تھی ،
اس طرح اس کے سہو کے سجدے ادا نہیں ہوئے یعنی اس کا وہ ایک سجدہ کالعدم ہے ،اور اب وقت بھی زیادہ گزرچکا ہے تو اسے چاہیئے کہ وہ یہ نماز دوبارہ پڑھے ،
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,562
پوائنٹ
791
سجدہ سہو کن اسباب کی وجہ سے کیا جاتا ہے
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
سجدہ سہو کن اسباب کی وجہ سے کیا جاتا ہے؟
الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

نماز میں سجدہ سہو کے عموماً درج ذیل تین اسباب ہیں:
(۱) نماز میں اضافہ کا صدورہوجانا۔
(۲) یا نمازکمی کا وقوع ہو جانا
(۳) یانمازی کاشک میں مبتلا ہو جانا
اضافے کی مثال یہ ہے کہ انسان نماز میں رکوع یا سجدہ یا قیام یا قعدہ کا اضافہ کر دے۔ اور کمی کی مثال یہ ہے کہ نماز کے کسی رکن کو کم کر دے یا واجبات میں کسی واجب کی ادائیگی میں نقص واقع ہوجائے۔ اور شک کی مثال یہ ہے کہ نمازی اس شک میں مبتلا ہو جائے آیا اس نے تین رکعتیں پڑھی ہیں یا چار؟ اگر کوئی شخص جان بوجھ کر نماز میں رکوع یا سجدہ یا قیام یا قعدہ کا اضافہ کر دے تو اس کی نماز باطل ہو جائے گی کیونکہ اس نے نماز کو اس طرح ادا نہیں کیا جس طرح اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے ادا کرنے کا حکم دیا ہے۔ اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے:
«مَنْ عَمِلَ عَمَلًا لَيْسَ عَلَيْهِ اَمْرُنَا فَهُوَ رَدٌّ)) صحيح مسلم، الاقضية باب نقض الاحکام الباطلة ح:۱۷۱۸، ۱۸۔

’’جس شخص نے کوئی ایسا عمل کیا جس کے بارے میں ہمارا امر نہ ہو تو وہ مردود ہے۔‘‘
اگر بھول کر اضافہ ہو جائے تو اس سے نماز باطل نہیں ہوگی، البتہ سلام کے بعد سجدہ سہو کرنا ہوگا اس کی دلیل حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی یہ حدیث ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جب ظہر یا عصر کی نماز میںـ ایک بار دو رکعتیں پڑھ کر سلام پھیر دیا تھا اس کے بعد صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کا ذکر کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے باقی ماندہ نماز پڑھائی، پھر سلام پھیر ااور سلام پھیرنے کے بعد دوسجدے کیے۔ صحیح البخاری، الصلاۃ، باب تشبیک الاصابع فی المسجد وغیرہ، حدیث: ۴۸۲۔
اور حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث میں ہے کہ ایک بار نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ظہر کی پانچ رکعتیں پڑھا دیں اور جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نماز سے فارغ ہوئے تو عرض کیا گیا: کیا نماز میں اضافہ کر دیا گیا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’وہ کیسے؟‘‘ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پانچ رکعتیں پڑھائی ہیں، یہ سن کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے دونوں پاؤں کو موڑا، قبلہ کی طرف رخ کیا اور دو سجدے کیے۔ صحیح البخاری، الصلاۃ، باب باب ماجاء فی القبلۃ ومن لم یر الاعادۃ… حدیث: ۴۰۴۔
اگر کمی کا تعلق نماز کے ارکان میں سے کسی رکن سے ہو تو اس کی دو صورتیں ہو سکتی ہیں:
(۱) اسے یہ بات دوسری رکعت میں اس مقام پر پہنچنے سے پہلے یاد آئے تو اس صورت میں لازم ہوگا کہ وہ اس رکن کو ادا کرنے کے بعد باقی نماز کو ادا کرے۔
(۲) اگر اسے یہ بات دوسری رکعت میں اس مقام پر پہنچنے کے وقت یاد آئے تو یہ رکعت اس رکعت کے قائم مقام ہوگی جس میں اس نے رکن کو ترک کر دیا تھا اور اس دوسری رکعت کے بدلے میں اور رکعت پڑھنی چاہیے اور ان دونوں حالتوں میں اسے سلام کے بعد سجدہ سہو کرنا چاہیے۔
پہلی صورت اس کی مثال یہ ہے کہ ایک شخص پہلی رکعت میں پہلے سجدہ کے بعد ہی اٹھ کھڑا ہو اور نہ بیٹھا ہو نہ اس نے دوسرا سجدہ کیا ہو اب جب اس نے قراء ت شروع کی تو اسے یاد آیا کہ اس نے سجدہ نہیں کیا ہے اور نہ وہ دو سجدوں کے درمیان بیٹھا ہے تو اسے چاہیے کہ وہ لوٹ کر دو سجدوں کے درمیان بیٹھے، پھر سجدہ کرے اور پھر کھڑے ہو کر باقی نماز ادا کرے اور سلام کے بعد سجدئہ سہو کرے۔
دوسری صورت کی مثال یہ ہے کہ ایک شخص پہلی رکعت میں پہلا سجدہ کرنے کے بعد اٹھ کھڑا ہو اور اس نے دوسرا سجدہ نہ کیا ہو اور نہ وہ دونوں سجدوں کے درمیان میں بیٹھا ہو اس کے بعد پھر اسے یہ بات اس وقت یاد آئی ہو۔ جب وہ دوسری رکعت میں دونوں سجدوں کے درمیان بیٹھا ہو، اس حال میں اس کی یہ دوسری رکعت پہلی رکعت ہوگی اور اسے ایک رکعت اور پڑھنا ہوگی اور پھر سلام کے بعد سجدہ سہو کرنا ہوگا۔
جب کسی واجب میں کمی رہ جائے اور وہ اس کی جگہ دوسری جگہ منتقل ہو جائے، مثلاً: وہ سجدہ میں ’’سُبْحَانَ رَبِّیَ الْاَعْلٰی‘‘ پڑھنا بھول گیا اور سجدے سے سر اٹھانے کے بعد اسے یاد آیا کہ اس نے اسے نہیں پڑھا۔ اس نے بھول کر واجبات نماز میں سے ایک واجب کو ترک کر دیا ہے، تو اسے نماز کو جاری رکھنا چاہیے اور سلام سے قبل سجدہ سہو کر لینا چاہیے، کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم جب تشہد اول کو بھول گئے تھے تو آپ نے نماز کو جاری رکھا تھا، واپس نہیں آئے تھے اور آپ نے سلام سے پہلے سجدہ سہو کر لیا تھا۔
شک کی صورت یہ ہوتی ہے کہ آدمی کو کمی اور بیشی میں تردد ہوتا ہے، مثلاً: یہ کہ اسے تردد ہو کہ اس نے تین رکعتیں پڑھی ہیں یا چار، تو اس کی دو حالتیں ہو سکتی ہیں:
(۱) کمی یا بیشی میں سے کوئی ایک صورت اس کے نزدیک راجح ہو تو جو صورت راجح ہو اسے اختیار کرکے نماز پوری کر لے اور سلام کے بعد سجدہ سہو کر لے اور اگر کوئی ایک صورت راجح نہ ہو تو پھر یقین پر انحصار کرے اور وہ کم تعداد ہے، اس کے بعد باقی نماز کو پورا کرنے کے بعد سلام سے پہلے سجدہ سہو کر لے۔ اس کی مثال یہ ہے کہ ایک شخص ظہر کی نماز پڑھ رہا تھا کہ وہ اس شک میں مبتلا ہوگیا کہ وہ تیسری رکعت پڑھ رہا ہے یا چوتھی؟ اسے یہ بات راجح معلوم ہوئی کہ یہ اس کی تیسری رکعت ہے، اس صورت میں وہ ایک رکعت اور پڑھ کر سلام پھیر دے اور پھر سجدہ سہو کر لے۔
دونوں صورتوں میں برابری کی مثال یہ ہے کہ ایک شخص کو نماز ظہر ادا کرتے ہوئے یہ شک ہوا کہ یہ اس کی تیسری رکعت ہے یا چوتھی اور اس کے نزدیک یہ بات راجح نہ تھی کہ یہ تیسری رکعت ہے اور نہ ہی یہ بات راجح تھی کہ یہ چوتھی رکعت ہے تو اس صورت میں اسے یقین پر انحصار کرنا ہوگا اور ظاہر ہے کہ وہ کم تعداد ہے، لہٰذا وہ اسے تیسری رکعت قرار دے، پھر ایک رکعت اور پڑھے اور سلام سے پہلے سجدہ سہو کرے۔
اس تفصیل سے معلوم ہوا کہ سجدہ سہو قبل از سلام اس وقت ہوگا، جب نمازی واجبات نماز میں سے کسی واجب کو ترک کر دے یا نماز کی رکعات کی تعداد میں اسے شک ہو جائے اور کوئی ایک پہلو اس کے نزدیک راجح نہ ہو۔ اور جب نماز میں اضافہ ہو جائے یا شک کی صورت میں کوئی ایک پہلو اس کے نزدیک راجح ہو تو پھر سجدہ سہو بعد از سلام ہوگا۔
وباللہ التوفیق

نمازکے مسائل

 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,562
پوائنٹ
791
سجدہ سہو کا ایک اصولی قاعدہ
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته​
سجدہ سہو کے لیے ایک اصول تحریر فرما دیں۔ نیز ثناء سے لے کر سلام تک جن مقامات کے ترک سے سجدہ لازم آتا ہے وہ تحریر فرمائیں۔

الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!​
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!​
نماز میں اگر کوئی چیز کرنے کو چھوٹ جائے یا نماز میں اضافہ ہوجائے تو اس پر سجدہ سہو لازم ہوجاتا ہے، مثلاً: پہلاتشہد رہ جائے یا کوئی فعل مسنون چھوٹ جائے یا قراءت جہری کے بجائے قراءت سری کرے یا چار کے بجائے پانچ یا تین پڑھنے کا شبہ ہو تو گمان غالب پر عمل کرے اور سجدہ سہو کرے۔ حنفیہ کے نزدیک نماز میں خواہ کمی ہو یا زیادتی، سجدہ بہرحال بعد سلام کے ہے۔ اور شافعیہ کے نزدیک بہرھال سلام سے پہلے ہے۔ مگر صحیح مسلک یہ ہے کہ اگر نماز میں کمی کا شبہ ہو تو سلام سے پہلے کرنا چاہے اور اگر نماز میں زیادتی کا شبہ ہو تو سلام کے بعد سجدہ کرنا چاہیے۔ اور سہوکے سجدوں کے بعد التحیات پڑھنا کسی صحیح حدیث سے ثابت نہیں ہے۔ واللہ اعلم! (تحفۃ الاحوذی ج۱ص۳۰۳)​
ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب​

ج 1 ص 366​

محدث فتویٰ​
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,562
پوائنٹ
791
سجدہ سہو کا کیا طریقہ
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ-
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
سجدہ سہو کا کیا طریقہ ہے ؟ یہ کسی وقفہ کے دوران کرنا چاہیے (یہاں امام صاحب تشہد کے لیے بیٹھتے ہی ہیں کہ دو سجدے کر لیتے ہیں پھر پوری تشہد کے بعد سلام پھیرتے ہیں) دو سجدے کرنے سے پہلے ایک طرف (دائیں) سلام پھیرتے ہیں؟
الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

کچھ صورتوں میں سجدہ سہو سلام پھیرنے سے پہلے ہے اور کچھ میں سلام پھیرنے کے بعد۔ کتب حدیث میں ان صورتوں کی تفصیل موجود ہے وہاں دیکھ لیں ۔ جو صورت آپ نے لکھی ہے کسی صحیح حدیث میں دیکھنے میں نہیں آئی۔
وباللہ التوفیق


 
Top