• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

نماز میں ہاتھوں کا سینے کے اوپر باندھنا

شاکر

تکنیکی ناظم
رکن انتظامیہ
شمولیت
جنوری 08، 2011
پیغامات
6,595
ری ایکشن اسکور
21,397
پوائنٹ
891
حدیث کا مفہوم؛
فرمایا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ وہ (نماز میں سلام کے بعد) دائیں اور باتےں طرف سے مڑتے تھے اور میں نے ان کو (یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو) دیکھا کہ وہ اس کو سینہ پر رکھتے۔
اب ھذہ کی ضمیر کس عضو کی جانب راجح ہے وہ بھی بتا دیں۔ ہاتھوں کے علاوہ کوئی اور بھی جسم کا حصہ سینے پر رکھا جا سکتا ہے؟
اگر نہیں اور یقیناً نہیں تو یہاں درست ترجمہ یہ ہوگا کہ وہ ہاتھوں کو سینہ پر رکھتے تھے۔
اب رہا یہ سوال کہ یہ عمل سلام کے بعد کا ہے یا قیام کا۔ تو عرض ہے کہ یہاں حدیث میں وہ کون سا لفظ ہے جو ترتیب ارکان پر دال ہے؟
اگر فقط کسی ایک عمل کا دوسرے سے قبل ذکر کر دیا جانا ترتیب کے لئے ہے تو ایسی کئی احادیث ہیں جن میں ارکان نماز وغیرہ کا بیان ترتیب کے الٹ بیان کیا گیا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ یہاں راوی فقط نماز کے تعلق سے دو اعمال کا تذکرہ کر رہا ہے ۔ ایک تو یہ کہ نماز میں سلام کے بعد امام فقط دائیں جانب سے مڑنے کو ضروری نہ سمجھے کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم دونوں جانب سے مڑتے تھے اور دوسرا یہ کہ ہاتھ سینے سے نیچے نہ رکھے کیونکہ انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھ رکھا تھا کہ وہ ہاتھوں کو سینہ پر رکھتے تھے۔

چلئے برسبیل تنزل مان بھی لیا جائے کہ یہاں سلام پھیرنے کے بعد کا ذکر ہے تو سوال ہے کہ سلام پھیرنے کے بعد ہاتھوں کو سینے پر کون رکھتا ہے؟ احناف اس صحیح حدیث کی مخالفت کیوں کرتے ہیں ۔ ہم تو چلیں اس حدیث سے یہ سجھے کہ نماز میں بحالت قیام ہاتھ سینے پر رکھنے کی بات ہو رہی ہے ، لہٰذا ہم اس حدیث پر عمل پیرا ہیں۔ آپ احناف کیوں اس حدیث پر عمل نہیں کرتے؟
 

عبدالرحمن بھٹی

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 13، 2015
پیغامات
2,435
ری ایکشن اسکور
293
پوائنٹ
165
اب ھذہ کی ضمیر کس عضو کی جانب راجح ہے وہ بھی بتا دیں۔ ہاتھوں کے علاوہ کوئی اور بھی جسم کا حصہ سینے پر رکھا جا سکتا ہے؟
اگر نہیں اور یقیناً نہیں تو یہاں درست ترجمہ یہ ہوگا کہ وہ ہاتھوں کو سینہ پر رکھتے تھے۔
محترم! ھذہ صیغہ واحد ہے(گو بعض اوقات واحد سے جمع بھی مستفاد ہوتی ہے) لیکن اس کا معنیٰ ”ہاتھوں“ کرنا بعید ہے ۔
لیکن یہاں پر صرف ہاتھ ہی ہؤا ہاتھوں نہ ہؤا۔
چلئے برسبیل تنزل مان بھی لیا جائے کہ یہاں سلام پھیرنے کے بعد کا ذکر ہے تو سوال ہے کہ سلام پھیرنے کے بعد ہاتھوں کو سینے پر کون رکھتا ہے؟ احناف اس صحیح حدیث کی مخالفت کیوں کرتے ہیں ۔ ہم تو چلیں اس حدیث سے یہ سجھے کہ نماز میں بحالت قیام ہاتھ سینے پر رکھنے کی بات ہو رہی ہے ، لہٰذا ہم اس حدیث پر عمل پیرا ہیں۔ آپ احناف کیوں اس حدیث پر عمل نہیں کرتے؟
برسبیل تنزل اس سے نماز میں ہاتھ باندھنے کا عمل ہی لے لیا جائے تب بھی یہ ”اتباع تبع تابعی“ کا قول ہے جو خلیفہ راشد علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے فرمان کہ نماز میں ناف کے نیچے ہاتھ باندھنا سنت ہے کے مقابلہ میں کوئی حیثیت نہیں رکھتا۔
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,589
پوائنٹ
791

شاکر

تکنیکی ناظم
رکن انتظامیہ
شمولیت
جنوری 08، 2011
پیغامات
6,595
ری ایکشن اسکور
21,397
پوائنٹ
891
محترم! ھذہ صیغہ واحد ہے(گو بعض اوقات واحد سے جمع بھی مستفاد ہوتی ہے) لیکن اس کا معنیٰ ”ہاتھوں“ کرنا بعید ہے ۔
لیکن یہاں پر صرف ہاتھ ہی ہؤا ہاتھوں نہ ہؤا۔
اچھا جی گویا سیاق و سسباق کی کوئی اہمیت نہیں۔ چلئے یہ تو طے ہوا کہ یہاں معاملہ سلام کے بعد کا نہیں، کیونکہ سلام کے بعد ایک ہاتھ یا دونوں ہاتھ سینے پر رکھنے کو کوئی سنت نہیں کہتا۔ اور اگر یہ حدیث قیام سے متعلق مانی جائے تو ایک ہاتھ سینے پر رکھنے کا بھی کوئی قائل نہیں۔ لہٰذا بات وہی درست ٹھہری کہ یہاں دونوں ہاتھ بحالت قیام سینے پر رکھنے کا تذکرہ ہے۔
برسبیل تنزل اس سے نماز میں ہاتھ باندھنے کا عمل ہی لے لیا جائے تب بھی یہ ”اتباع تبع تابعی“ کا قول ہے جو خلیفہ راشد علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے فرمان کہ نماز میں ناف کے نیچے ہاتھ باندھنا سنت ہے کے مقابلہ میں کوئی حیثیت نہیں رکھتا۔
پیچھے آپ حدیث کا یہ ترجمہ کر آئے ہیں۔

حدیث کا مفہوم؛
فرمایا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ وہ (نماز میں سلام کے بعد) دائیں اور باتےں طرف سے مڑتے تھے اور میں نے ان کو (یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو) دیکھا کہ وہ اس کو سینہ پر رکھتے۔
یہاں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے فعل کا بیان ہے یا اتباع تبع تابعی کا قول ہے؟
 

عبدالرحمن بھٹی

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 13، 2015
پیغامات
2,435
ری ایکشن اسکور
293
پوائنٹ
165
اچھا جی گویا سیاق و سسباق کی کوئی اہمیت نہیں۔ چلئے یہ تو طے ہوا کہ یہاں معاملہ سلام کے بعد کا نہیں، کیونکہ سلام کے بعد ایک ہاتھ یا دونوں ہاتھ سینے پر رکھنے کو کوئی سنت نہیں کہتا۔ اور اگر یہ حدیث قیام سے متعلق مانی جائے تو ایک ہاتھ سینے پر رکھنے کا بھی کوئی قائل نہیں۔ لہٰذا بات وہی درست ٹھہری کہ یہاں دونوں ہاتھ بحالت قیام سینے پر رکھنے کا تذکرہ ہے۔
”لا مذہبیوں“ کی تان سینہ پر آکر ہی ٹوٹتی ہے۔ شیخ زبیر علی زئی صاحب ”سینہ“ کا جھانسہ دے کر بھلے سینہ سے نیچے ہی ہاتھ بندھواتا رہے مگر لفظ ”سینہ“ موجود ہونا چاہئے۔
اس حدیث کو قیام سے متعلق کس نے کہا؟

پیچھے آپ حدیث کا یہ ترجمہ کر آئے ہیں۔
ترجمہ پر غور میں کروں گا؟

یہاں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے فعل کا بیان ہے یا اتباع تبع تابعی کا قول ہے؟
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فعل جو اس حدیث میں بیان ہؤا اس میں قیام کا تذکرہ نہیں یہ تو راوی (جواتباع تبع تابعی سے بھی نیچے کا ہے) اس کے بیان سے پتہ چلتا ہے کہ یہ قیام کا عمل ہے اور اس میں دوسرے ہاتھ کی وضاحت بھی اسی کے بیان سے ملتی ہے کہ ”یحیٰ نے سیدھا ہاتھ الٹے ہاتھ کے گٹ پر رکھا“ اس میں حدیث کے الفاط ”ھذہ علی صدرہ“ کی وضاحت ہو جاتی ہے کہ راوی حدیث کے الفاظ صحیح یہ ہیں ”ھذہ علی ھذہ “ جو کہ غلطی سے ”ھذہ علی صدرہ“ بن گئے۔
یہی وجہ ہے کہ”لا مذہب “والے اس حدیث کو رقم کرتے وقت راویئ حدیث کے عملی مظاہرے کو ترجمہ میں بیان نہیں کیا۔
رواه الامام أحمد في مسنده قال حدثنا يحيى بن سعيد عن سفيان ثنا سماك عن قبيصة بن هلب عن أبيه قال رأيت رسول الله صلى الله عليه و سلم ينصرف عن يمينه وعن يساره ورأيته يضع هذه على صدره ووصف يحيى اليمنى على اليسرى فوق المفصل ورواة هذا الحديث كلهم ثقات وإسناده متصل

امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ نے اپنی مسند میں روایت کیا فرمایا ہم سے یحیحی بن سعید نے سفیان ثوری سے بیان کیا وہ کہتے ہیں کہ ہم سے سماک نے قبیصہ بن وہب سے بیان کیا وہ اپنے باپ سے روایت کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا آپ اپنے دائیں اور بائیں جانب سلام پھیرتے تھے اور میں نے آپ کو دیکھا کہ آپ نے اپنے دائیں ہاتھ کو بائیں ہاتھ پر رکھا اور ان کو سینے کے اوپر رکھا تھا۔
حدیث کے ترجمہ میں دیدہ دلیری سے تحریف کے باوجود بھی بات نہیں بنتی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے آخری خلیفہ راشد علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نماز میں ہاتھ ناف کے نیچے باندھنے کو سنت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں لہٰذا ان کے مقابلہ میں کسی تابعی کا قول بھی قابلِ التفات نہیں کہاں اتباع تبع تابعی کے بھی بعد کے راوی کا قول!
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,589
پوائنٹ
791
اس سے نماز میں سینہ پر ہاتھ باندھنے کی دلیل لینا جہالت ہے۔
اکثر جاہل اپنی جہالت کے سبب دوسروں کو بھی جاہل سمجھتے ہیں ،
اس متن میں چونکہ کہیں لفظ ’’ الصلاۃ ‘‘ نہیں آیا ،تو جہالت کا فتوی جڑ دیا ۔
حالانکہ مسند احمد جہاں سے یہ روایت لی گئی تھی وہیں اس کے دوسرے طریق میں واضح موجود تھا کہ سینے پر ہاتھوں کا باندھنا نماز ہی میں تھا
مسند امام احمدؒ میں ہے :
حدثنا عبد الله حدثني أبو بكر بن أبي شيبة، حدثنا وكيع، عن سفيان، عن سماك بن حرب، عن قبيصة بن الهلب، عن أبيه، قال: " رأيت النبي صلى الله عليه وسلم واضعا يمينه على شماله في الصلاة، ورأيته ينصرف عن يمينه وعن شماله "
یعنی صحابی ہلب ؓ فرماتے ہیں :کہ میں نے جناب رسول کریم ﷺ کو نماز میں دایاں ہاتھ ، بائیں ہاتھ پر رکھے دیکھا ،اور آپ (نماز سے فارغ ہو کر )کبھی دائیں جانب سے رخ انور (مقتدیوں کی جانب ) پھیرتے اور کبھی بائیں جانب سے، ‘‘ مسند احمد حدیث نمبر :21968
 
Last edited:

عبدالرحمن بھٹی

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 13، 2015
پیغامات
2,435
ری ایکشن اسکور
293
پوائنٹ
165
اکثر جاہل اپنی جہالت کے سبب دوسروں کو بھی جاہل سمجھتے ہیں ،
اس متن میں چونکہ کہیں لفظ ’’ الصلاۃ ‘‘ نہیں آیا ،تو جہالت کا فتوی جڑ دیا ۔
حالانکہ مسند احمد جہاں سے یہ روایت لی گئی تھی وہیں اس کے دوسرے طریق میں واضح موجود تھا کہ سینے پر ہاتھوں کا باندھنا نماز ہی میں تھا
قال الامام احمد
حدثنا عبد الله حدثني أبو بكر بن أبي شيبة، حدثنا وكيع، عن سفيان، عن سماك بن حرب، عن قبيصة بن الهلب، عن أبيه، قال: " رأيت النبي صلى الله عليه وسلم واضعا يمينه على شماله في الصلاة، ورأيته ينصرف عن يمينه وعن شماله "
یعنی صحابی ہلب ؓ فرماتے ہیں :کہ میں نے جناب رسول کریم ﷺ کو نماز میں دایاں ہاتھ ، بائیں ہاتھ پر رکھے دیکھا ،اور آپ (نماز سے فارغ ہو کر )کبھی دائیں جانب سے رخ انور (مقتدیوں کی جانب ) پھیرتے اور کبھی بائیں جانب سے، ‘‘ مسند احمد حدیث نمبر :21968
محترم!دلائل اس طرح سے نہیں ہؤا کرتے کہ ایک فقرہ اس حدیث کا لیا دوسرا فقرہ دوسری حدیث سے لیا اور اسی طرح مختلف احادیث کے مختلف فقرات سے ایک مؤقف اختیار کر لیا! دلیل کا یہ طریقہ ٹھیک نہیں۔
پہلی حدیث میں سلام کے بعد سینہ پر ہاتھ (ایک یا دونوں اس کا صریحاً ذکر نہیں) رکھنے کا ذکر ہے۔ اور اس مذکورہ حدیث میں نماز میں ہاتھ باندھنے کا ذکر ہے کہاں باندھیں اس کا ذکر نہیں جیسا کہ اور بھی بہت سی احادیث میں نماز میں ہاتھ باندھنے کا ذکر ہے مقام کا تعین نہیں ہے۔
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,589
پوائنٹ
791
دلائل اس طرح سے نہیں ہؤا کرتے کہ ایک فقرہ اس حدیث کا لیا دوسرا فقرہ دوسری حدیث سے لیا اور اسی طرح مختلف احادیث کے مختلف فقرات سے ایک مؤقف اختیار کر لیا! دلیل کا یہ طریقہ ٹھیک نہیں۔
جہالت کا علاج ۔۔دوسروں کو جھٹلانا ۔۔نہیں ہوتا ۔۔۔بلکہ متعلقہ موضوع کے بارے معلومات حاصل کرنا ہوتا ہے ،
سیدنا قبیصہ بن ھلب ؓ کی حدیث کو اگر خود مسند احمد سے دیکھ لیتے تو اس اعتراض کی ضرورت پیش نہ آتی ،
یہ ایک ہی حدیث ہے ۔جس کا کچھ حصہ ایک سند کے ساتھ بیان ہوا ۔اور کچھ حصہ دوسری سند کے رواۃ نے بیان کردیا
اسی لئے میں نے عرض کیا تھا کہ :
مسند احمد جہاں سے یہ روایت لی گئی تھی وہیں اس کے دوسرے طریق میں واضح موجود تھا کہ سینے پر ہاتھوں کا باندھنا نماز ہی میں تھا

دیکھئے پہلی سند کے ساتھ یہ حدیث جو سفیان نے سماک سے اور انہوں نے قبیصہ سے روایت کی :
حدثنا يحيى بن سعيد، عن سفيان، حدثني سماك، عن قبيصة بن هلب، عن أبيه، قال: " رأيت النبي صلى الله عليه وسلم ينصرف عن يمينه وعن يساره، ورأيته، قال، يضع هذه على صدره " وصف يحيى: اليمنى على اليسرى فوق المفصل
ترجمہ :: ۔یعنی صحابی ہلب ؓ فرماتے ہیں :کہ میں نے جناب رسول کریم ﷺ کو دیکھا آپ (نماز سے فارغ ہو کر )کبھی دائیں جانب سے رخ انور (مقتدیوں کی جانب ) پھیرتے اور کبھی بائیں جانب سے، اور اپنے ہاتھوں کو (نماز میں ) سینے پر رکھتے ،
‘‘

اور دوسری بھی سفیان نے سماک سے اور انہوں نے قبیصہ سے روایت کی ۔۔البتہ سفیان سے نیچے روای نے وہی حدیث مکمل بیان کردی ۔
حدثنا عبد الله حدثني أبو بكر بن أبي شيبة، حدثنا وكيع، عن سفيان، عن سماك بن حرب، عن قبيصة بن الهلب، عن أبيه، قال: " رأيت النبي صلى الله عليه وسلم واضعا يمينه على شماله في الصلاة، ورأيته ينصرف عن يمينه وعن شماله "
یعنی صحابی ہلب ؓ فرماتے ہیں :کہ میں نے جناب رسول کریم ﷺ کو نماز میں دایاں ہاتھ ، بائیں ہاتھ پر رکھے دیکھا ،اور آپ (نماز سے فارغ ہو کر )کبھی دائیں جانب سے رخ انور (مقتدیوں کی جانب ) پھیرتے اور کبھی بائیں جانب سے، ‘‘ مسند احمد حدیث نمبر :21968
 

عبدالرحمن بھٹی

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 13، 2015
پیغامات
2,435
ری ایکشن اسکور
293
پوائنٹ
165
جہالت کا علاج ۔۔دوسروں کو جھٹلانا ۔۔نہیں ہوتا ۔۔۔بلکہ متعلقہ موضوع کے بارے معلومات حاصل کرنا ہوتا ہے ،
یہ ایک ہی حدیث ہے ۔جس کا کچھ حصہ ایک سند کے ساتھ بیان ہوا ۔اور کچھ حصہ دوسری سند کے رواۃ نے بیان کردیا
محترم جھٹلانے کی بات نہیں بلکہ تفہیم کی بات ہے کہ ایک حدیث کا کچھ حصہ ایک روایت سے ہے اور کچھ حصہ دوسری سے !!! ۔۔۔۔۔ ابتسامہ!
محترم میں نے جہاں تک سمجھا ہے کہ یہ تو احادیث میں ہوتا ہے کہ ایک راوی کسی بات کو مختراً بیان کرے اور کوئی دوسرا راوی تفصیلاً۔ مگر کسی عالم سے نہ سنا اور نہ کہیں پڑھا کہ ایک حدیث کا کچھ حصہ ایک روایت میں ہو اور کچھ حصہ دوسری میں اور نہ ہی اس کی امثال کبھی کسی نے دیں۔ یہ بات سمجھ سے بالا تر ہے۔
 

عبدالرحمن بھٹی

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 13، 2015
پیغامات
2,435
ری ایکشن اسکور
293
پوائنٹ
165
یہ الفاظ کس حدیث میں وارد ہیں ؟
سنن أبي داود - (ج 2 / ص 412)
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مَحْبُوبٍ حَدَّثَنَا حَفْصُ بْنُ غِيَاثٍ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ إِسْحَقَ عَنْ زِيَادِ بْنِ زَيْدٍ عَنْ أَبِي جُحَيْفَةَ أَنَّ عَلِيًّا رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ
مِنْ السُّنَّةِ وَضْعُ الْكَفِّ عَلَى الْكَفِّ فِي الصَّلَاةِ تَحْتَ السُّرَّةِ

خلیفہ راشد علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نےفرمایا کہ نماز میں ناف کے نیچے ہاتھ باندھنا سنت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے ۔
 
Top