• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

شاکر

تکنیکی ناظم
رکن انتظامیہ
شمولیت
جنوری 08، 2011
پیغامات
6,595
ری ایکشن اسکور
21,397
پوائنٹ
891
دیوبندیہ کا ایک عجیب اصول

تھانوی صاحب فرماتے ہیں:
"ان الراوی اذا کان مختلفا فیہ فھو حسن الحدیث وحدیثہ حسن"
اگر راوی مختلف فیہ ہوتو وہ حسن الحدیث ہوتا ہے اور اس کی حدیث حسن ہوتی ہے۔
(قواعد فی علوم الحدیث ص۷۷ نیز ملاحظہ فرمائیں اعلاء السنن ۲۰۶/۲)

تھانوی صاحب کے اس قول سے معلوم ہوا کہ مؤمل حسن الحدیث ہے اور اس کی حدیث حسن ہے کیونکہ وہ مختلف فیہ ہے!
اگر کوئی کہے کہ مؤمل اس روایت میں تنہا ہے تو اس کا جواب یہ کہے کہ

۱: سفیاں ثوری سے روایت میں ثقہ ہے لہٰذا اس کی حدیث حسن ہے۔
۲: اس کی یہ روایت کسی ثقہ راوی کے خلاف نہیں ہے۔
۳: حافظ ابن قیم نے اس کی حدیث کو "ترک السنۃ الصحیحۃ الصریحۃ" کی مثال میں ذکر کیا ہے۔ (اعلام الموقعین ۴۰۰/۲)
۴: بہت سی احادیث اس کی شاہد ہیں مثلا حدیث سابق وحدیث لاحق۔
۵: یہ روایت مؤمل کی وجہ سے ضعیف نہیں بلکہ سفیان الثوری کی تدلیس کی وجہ سے ضعیف ہے، اسے حسن لذاتہ حدیث کی تائید میں بطور شاہد پیش کیا گیا ہے۔ نیز دیکھئے ماہنامہ "الحدیث" حضرو جلد اول شمارہ ۱ ص۲۶
شاہد نمبر ۲:
قال ابوداؤد فی سننہ :
"حدثنا ابوتوبۃ : ثنا الھیثم یعنی ابن حمید عن سلیمان بن موسیٰ عن طاؤس قال: کان رسول اللہ ﷺ یضع یدہ الیمنیٰ علیٰ یدہ الیسریٰ ثم یشد بھما علیٰ صدرہ وھو فی الصلاۃ"
طاؤس تابعی سے (مرسل) روایت ہے کہ نبی ﷺ نماز میں سینے پر ہاتھ رکھتے تھے۔
(سنن ابی داؤد مع بذل المجہود ۴۸۲/۴ ح ۷۵۹)
سند کی تحقیق:
اس روایت کے راویوں کی تحقیق درج ذیل ہے:
 

شاکر

تکنیکی ناظم
رکن انتظامیہ
شمولیت
جنوری 08، 2011
پیغامات
6,595
ری ایکشن اسکور
21,397
پوائنٹ
891
الہیثم بن حمید

صدوق رمی بالقدر (تقریب التہذیب : ۷۳۶۲)

جمہور محدثین نے اس کی توثیق کی ہے لہٰذا وہ حسن الحدیث ہیں۔
۱۔ دحیم: اعلم الاولین والآخرین بمکحول (المعرفۃ والتاریخ ۳۹۵/۲ وسندہ صحیح)
۲۔ احمد بن حنبل: ماعلمت الا خیراً (الجرح والتعدیل ۸۲/۹ وسندہ صحیح)
۳۔ یحییٰ بن معین : لا باس بہ (الجرح والتعدیل ۸۲/۹ وسندہ صحیح)
۴۔ دارقطنی: ثقۃ (سنن دارقطنی ۳۱۹/۱ ح ۲۰۴ قال: "کلھم ثقات " وفیھم الہیثم بن حمید)
۵۔ ابن شاہین: ذکرہ فی کتاب الثقات (۱۵۴۹)
۶۔ ابن حبان : ذکرہ فی کتاب الثقات (۲۳۵/۹)
۷۔ ابوزرعہ الدمشقی: اعلم اھل دمشق لھدیث مکحول واجمعہ لاصحابہ: الھیثم بن حمید ویحیی بن حمزۃ (تاریخ ابو زرعہ: ۹۰۲)
۸۔ الذہبی: "الفقیہ الحافظ" (تذکرۃ الحفاظ ۲۸۵/۱)
میزان الاعتدال میں ذہبی نے لکھا ہے "صح" یعنی یہ راوی ثقہ ہے (۳۲۱/۴)
حافظ ذہبی نے "معرفۃ الرواۃ المتکلم فیھم بما یوجب الرد" میں کہا: "صدوق" (ص ۱۸۷)
۹۔ بیہقی: بیہقی نے اس کی حدیث کے بعد کہا:
"وھٰذا اسناد صحیح ورواتہ ثقات" (کتاب القرات خلف الامام للبیہقی ص ۶۲)
۱۰۔ ابن حجر: صدوق رمی بالقدر (تقریب التہذیب: ۷۳۶۲)
محمد بن مہاجر ہیثم بن حمید کو طلب علم کے ساتھ پہچانتے تھے۔ (تاریخ ابو زرعہ : ۹۰۱ وسندہ صحیح)
اس تعدیل کے مقابلے میں ابو مسہر کا قول ہے کہ " کان ضعیفا ً قدریا ً" یہ قول جمہور محدثین کے خلاف ہونے کی وجہ سے ضعیف ہے۔
نتیجہ: ہیثم بن حمید ثقہ وصدوق ہے۔
 

شاکر

تکنیکی ناظم
رکن انتظامیہ
شمولیت
جنوری 08، 2011
پیغامات
6,595
ری ایکشن اسکور
21,397
پوائنٹ
891
ثور بن یزید بن زیاد الکلاعی ابو خالد الحمصی

ابن سعد، محمد بن اسحاق، دحیم، احمد بن صالح، یحییٰ بن معین ، یحییٰ بن سعید ، محمد بن عوف ، نسائی ، ابوداؤد اور العجلی نے کہا: ثقہ ہے۔
ابن حبان نے ثقہ لوگوں میں اس کا ذکر کیا۔
ساجی اور ابوحاتم نے کہا: صدوق۔

ابن عدی نے کہا:
"ھو مستقیم الحدیث صالح فی الشامیین" (تہذیب التہذیب ج۲ ص ۳۰،۳۲ ملخصا)

وہ قدری تھا اس وجہ سے بعض نے اس پر جرح کی ہے
ملاحظہ ہو(میزان الاعتدال ۲۷۴/۱)
خلیل احمدسہارنپوری دیوبندی نے بذل المجہود میں کہا: "وثقہ کثیرون۔۔۔"
بہت سے لوگوں نے اس کو ثقہ قراردیاہے۔ (بذل المجہود ۴۸۲/۴)
ثور کا قدری ہونے سے رجوع حافظ ذہبی نے نقل کیا ہے لہٰذا ان پر قدری ہونے کاالزام صحیح نہیں ہے۔ (اور یہ صحیح بخاری کے راوی ہیں)
خلاصۃ التحقیق: ثور ثقہ و صحیح الحدیث ہیں۔
 

شاکر

تکنیکی ناظم
رکن انتظامیہ
شمولیت
جنوری 08، 2011
پیغامات
6,595
ری ایکشن اسکور
21,397
پوائنٹ
891
سلیمان بن موسی ٰ الاموی الدمشقی الاشدق

تعدیل کرنے والے : تعدیل
۱: سعید بن عبدالعزیز : کان اعلم اھل الشام بعد مکحول
۲: دحیم: اوثق اصحاب مکحول سلیمان بن موسی(الجرح والتعدیل ۱۴۱/۴ وسندہ صحیح)
۳: ابن معین: ثقۃ (تاریخ عثمان بن سعید الدارمی : ۲۶، ۳۶۰)
۴: ابن عدی: وھوعندی ثبت صدوق (الکامل ۱۱۱۹/۳)
۵: الدارقطنی: من الثقات الحفاظ (کتاب العلل ج۵ورقہ ۱۱۰ موسوعۃ اقوال الدارقطنی ۳۰۳/۱)
۶: عطا ء بن ابی رباح: اثنی علیہ (کتاب المعرفۃ والتاریخ ۴۰۵/۲ وسندہ صحیح)
۷: ہشام بن عمار: ارفع اصحاب مکحول سلیمان بن موسی(کتاب المعرفۃ والتاریخ ۳۹۶/۲ وسندہ صحیح)
۸: ابن سعد: کان ثقۃ ، اثنی علیہ ابن جریج (طبقات ابن سعد ۴۵۷/۷)
۹: الزہری: اثنی علیہ (مسند احمد ۴۷/۶ ح ۲۴۲۰۵ وسندہ صحیح)
۱۰: ابن حبان: ذکرہ فی الثقات وقال: کان فقیھا ً ورعاً(کتاب الثقات ۳۷۹/۶ ، ۳۸۰)
۱۱: ابن المدینی: من کبار اصحاب مکحول وکان کولط قبل موتہ یسیر(یہ قول باسند صحیح نہیں ملا)
۱۲: الذہبی: الامام الکبیر مفتی دمشق (سیر اعلام النبلاء ۴۳۳/۵)
۱۳: ابن حجر : صدوق فقیہ فی حدیثہ بعض لین وخولط قبل موتہ بقلیل (تقریب التہذیب :۲۶۱۶)
۱۴: حاکم: صحح لہ (المستدرک ۱۶۸/۲ ح ۲۷۰۶)

جرح کرنے والے: جرح
۱: البخاری: عندہ مناکیر (الضعفاء للبخاری: ۱۴۸)
وقال : منکر الحدیث انا لا اروی عنہ شیئا
۲: ابوحاتم: محلہ الصدق وفی حدیثہ بعض الاضطراب
۳: النسائی: احد الفقہاء لیس بالقوی فی الحدیث (الضعفاء: ۲۵۲)
۴: ابوزرعہ الرازی: ذکرہ فی الضعفاء (۶۳۳/۲)
۵: العقیلی: ذکرہ فی الضعفاء (۱۴۰/۲)

اس تفصیل سے معلوم ہوا کہ سلیمان جمہور کے نزدیک ثقہ وصدوق ہیں (یاد رہے کہ وہ صحیح مسلم کے راوی ہیں ) لہٰذا اس حدیث میں سلیمان بن موسیٰ کی وجہ سے "لین" (کمزوری) نہیں ہے۔
"خولط بیسیر قبل موتہ" ثابت بھی نہیں ہے اور یہاں غیر مضر ہے۔ وللہ اعلم
ابوداؤد نے اس حدیث پر سکوت کیا ہے لہٰذا تھانوی صاحب کے اصول کے مطابق یہ روایت صالح ہے، شیخ البانی نے اس روایت کے بارے میں کہا:
"رواہ ابوداؤد (۷۵۹) باسناد صحیح عنہ" (ارواء الغلیل ۸۱۵/۲)
تنبیہ: ہمار ے نزدیک یہ روایت مرسل ہونے کی وجہ سے ضعیف ہے۔
طاؤس: ثقۃ فقیہ فاضل (التقریب : ۳۰۰۹)
یہ کتب ستہ کے راوی اور طبقۂ ثالثہ کے تابعی ہیں ، ابن عباس وغیرہ کے شاگرد ہیں۔

اگرچہ ہمارےنزدیک مرسل روایات ضعیف ہوتی ہیں مگر اس روایت کو دو وجہ سے پیش کیا گیا ہے۔
۱۔ فریق مخالف کے نزدیک مرسل حجت ہے، ظفر احمد عثمانی صاحب نے کہا:
"قلت: والمرسل حجۃ عندنا"
میں نے کہا: اور ہمارے نزدیک مرسل حجت ہے۔
(اعلاء السنن ج۱ ص ۸۲ بحث المرسل)
۲۔ یہ روایت حسن روایت کے شواہد میں ہے۔ (ملاحظہ فرمائیں مقدمہ ابن الصلاح ص ۳۸ بحث المرسل)
تنبیہ: السنن الکبری للبیہقی (۳۰/۲) میں محمد بن حجر الحضرمی سے روایت ہے کہ
"حدثنا سعید بن عبدالجبار بن وائل بن حجر عن ابیہ عن امہ عن وائل بن حجر قال: حضرتُ رسول اللہ ﷺ ۔۔۔ ثم وضع یمینہ علی یسراہ علی صدرہ"

یہ روایت سخت ضعیف ہے: محمد بن حجر کی روایتیں منکر ہیں۔ ام عبدالجبار کی توثیق معلوم نہیں اور سعید بن عبدالجبار بھی مجروح ہے۔ (ملاحظہ ہو الجوہر النقی ۳۰/۲ اور میزان الاعتدال ۵۱۱/۳، ۱۴۷/۲)
محمد بن حجر اور سعید بن عبدالجبار بقول ظفر احمد تھانوی صاحب مختلف فی التوثیق ہیں۔
(اعلاء السنن ۷۰/۱)
اور مختلف فیہ راوی تھانوی صاحب نزدیک حسن الحدیث ہوتا ہے۔ کماتقدم

ام عبدالجبار کی جہالت دیوبندیوں کو مضر نہیں ہے کیونکہ تھانوی صاحب فرماتے ہیں:
"والجہالۃ فی القرون الثلاثۃ لا یضر علینا"
پہلی تین صدیوں میں راوی کا مجہول ہونا ہمارے نزدیک مضر نہیں ہے۔
(اعلاء السنن ۱۶۱/۳)
 

شاکر

تکنیکی ناظم
رکن انتظامیہ
شمولیت
جنوری 08، 2011
پیغامات
6,595
ری ایکشن اسکور
21,397
پوائنٹ
891
خلاصۃ التحقیق

قبیصہ بن ہلب والی روایت بلحاظ سند حسن لذاتہ ہے اور بلحاظ شواہد صحیح لغیرہ ہے۔اس تحقیق سے واضح اور ثابت ہو اکہ نماز میں مردوں اور عورتوں ، سب کے لیے ہاتھ سینے پر باندھنا ہی سنت ہے۔ واللہ الموافق
آخر میں بعض دیوبندیوں کی ایک غلطی پر تنبیہ ضروری معلوم ہوتی ہے جسے علمی خیانت اور تحریف کہنا زیادہ مناسب ہے، تفصیل اس اجمال کی یہ ہے کہ مصنف ابن ابی شیبہ حال ہی میں کراچی کے ادارۃ القرآن والعلوم الاسلامیہ سے طبع ہوئی ہے، اس میں ایک حدیث اس طرح درج ہے:
وضع یمینہ علی شمالہ فی الصلوٰۃ تحت السرۃ (مصنف ۳۹۰/۱)
طبع کرنے والوں کا فر ض تھا اور علمی امانت داری کا تقاضا تھا کہ وہ بتاتے کہ تحت السرۃ کے الفاظ انھیں کس نسخہ سے دریافت ہوئے ہیں تاکہ حدیث کے طالب علم اس نسخہ کے نسب نامہ پر نظر ڈال سکتے مگر انھوں نے ایسا کوئی حوالہ نہیں دیا۔
مصنف ابن ابی شیبہ کا جو نسخہ ۱۹۶۶ء بمطابق ۱۳۸۶ھ حیدرآباد (الہند) میں طبع ہواتھا، اس میں اس حدیث کا اختتام "علی شمالہ فی الصلوٰۃ" پر ہوا ہے اور اس میں "تحت السرۃ" کے الفاظ سرے سے موجود ہی نہیں ہیں۔
• مصنف کے قدیم نسخوں میں یہ الفاظ موجود نہیں، علامہ محمد حیات سندھی کی گواہی عون المعبود (۴۶۲/۲) میں ثبت ہے کہ انھوں نے مصنف کے نسخہ میں الفاظ نہیں پائے۔
• استاذ محترم سید محب اللہ شاہ راشدی کے مکتبہ عامرہ میں مصنف کا قلمی نسخہ بھی اس اضافے سے خالی ہے۔

انور شاہ کشمیری فرماتے ہیں:
"فانی راجعت ثلاث نسخ للمصنف فما وجدتہ فی واحدۃ منھا"
پس بے شک میں نے مصنف کے تین (قلمی) نسخے دیکھے ہیں ، ان میں سے ایک نسخے میں بھی یہ (تحت السرۃ والی عبارت) نہیں ہے۔ (فیض الباری ۲۶۷/۲)
۱۔ یہ حدیث امام وکیع کے واسطے سے مسند احمد (۳۱۶/۴ ح ۱۸۸۴۶) شرح السنۃ (۳۰/۳ ح ۵۶۹) اور سنن دارقطنی (۲۸۶/۱ ح ۱۰۸۸) میں موجود ہے لیکن تحت السرۃ کے الفاظ کسی روایت میں موجود نہیں ہیں۔
۲۔ سنن نسائی (۱۲۵/۲، ۱۲۶ ھ ۸۸۸) اور سنن دارقطنی(۲۸۶/۱ح ۱۰۹۱) میں عبداللہ بن مبارک نے وکیع کی متابعت کی ہے لیکن یہ الفاظ ان کی راویت میں بھی موجود نہیں ہیں۔
۳۔ ابو نعیم الفضل بن دکین نے یہی حدیث موسیٰ بن عمیر سے "تحت السرۃ" کے بغیر روایت کی ہے۔ دیکھئے کتاب المعرفۃ والتاریخ للفارسی (۱۲۱/۳) السنن الکبری(۲۸/۲) المعجم الکبری للطبرانی (۹/۲۲ ح۱) اور تہذیب الکمال للمزی (۴۹۹/۱۸)
۴۔ اگر یہ حدیث اس مسئلہ میں موجود ہوتی تو متقدمین ِ حنفیہ اس سے بے خبر نہ رہتے جب کہ طحاوی ، ابن ترکمانی اور ابن ہمام جیسے اساطین حنفیہ نے اس کا کہیں ذکر تک نہیں کیا۔
نووی اور ابن حجر وغیرہما بھی اس کے متعلق خاموش ہیں۔

لہٰذا ادارۃ القرآن والعلوم الاسلامیہ (دیوبندیہ) کے کارپردازوں کو چاہیے کہ ہر جلد کے سرورق پر جہاں لکھتے ہیں کہ "یہ طبع ان ۴۹۰ ابواب پر مشتمل ہے جو ہندوستانی طبع میں رہ گئے تھے" اس نسخہ کی خصوصیت بھی بتائیں کہ "اس میں ایسے الفاظ بھی موجود ہیں جو ابن ابی شیبہ کو معلوم ہی نہ تھے بلکہ ہم (آل تقلید) نے ایجاد کئے ہیں۔‘‘
یہ الفاظ نویں صدی کے قاسم بن قطلوبغا حنفی (کذاب/ قالہ البقاعی انظر الضوء اللامع ۱۸۶/۶) نے پہلی مرتبہ مصنف ابن ابی شیبہ کی طرف غلط فہمی یاکذب بیانی کی وجہ سے منسوب کردیئے اور ادارۃ القرآن والعلوم الاسلامیہ (دیوبندیہ) نے طابع ہونے کا فائدہ اُٹھاتے ہوئے یہ الفاظ متن میں شامل کردیئے حالانکہ نیموی نے آثار السنن میں اس اضافہ کو غیر محفوظ قراردیا تھا، لیکن انھوں نے "تمہیں بھی لے ڈوبیں گے" کے مصداق ابن خزیمہ کی روایت میں موجود "علی صدرہ" کے الفاظ کو بھی اس کی نظیر قراردے دیا حالانکہ یہ الفاظ صحیح ابن خزیمہ کے تمام نسخوں میں موجود ہیں۔ یہ روایت مسند بزار میں بھی "عند صدرہ" کے الفاظ کے ساتھ مروی ہے۔
(ملاحظہ ہو فتح الباری ۱۷۸/۲)
اللھم ارنا الحق حقاً وارقنا اتباعہ وارنا الباطل باطلاً وارزقنا اجتنابہ آمین
(۱۲ جون ۲۰۰۴ء)
 

شاکر

تکنیکی ناظم
رکن انتظامیہ
شمولیت
جنوری 08، 2011
پیغامات
6,595
ری ایکشن اسکور
21,397
پوائنٹ
891
ضمیمہ1: اثبات التعدیل فی توثیق مؤمل بن اسماعیل

اثبات التعدیل فی توثیق
مؤمل بن اسماعیل


ابو عبداللہ مؤمل بن اسماعیل القرشی العدوی البصری نزیل مکہ کے بارے میں مفصل تحقیق درج ذیل ہے ، کتب ستہ میں مؤمل کی درج ذیل روایتیں موجود ہیں:
صحیح البخاری = (ح۲۷۰۰، اور بقول راجح ح ۷۰۸۳، تعلیقاً)
سنن الترمذی = (ح ۴۱۵، ۶۷۲، ۱۸۲۲، ۱۹۴۸، ۲۱۳۵، ۳۲۶۶، ۳۵۲۵، ۳۹۰۶، ۳۹۴۹)
سنن النسائی الصغریٰ= (ح ۴۰۹۷، ۴۵۸۹)
سنن ابن ماجہ = (ح ۲۰۱۳، ۲۹۱۹، ۳۰۱۷)

مؤمل مذکور پر جرح درج ذیل ہے:
ابو حاتم الرازی: "صدوق، شدید فی السنۃ ، کثیر الخطا، یکتب حدیثہ"
وہ سچے (اور) سنت میں سخت تھے۔ بہت غلطیاں کرتے تھے، ان کی حدیث لکھی جاتی ہے۔(کتاب الجرح والتعدیل ۳۴۷/۸)
زکریا بن یحیٰ الساجی:
"صدق، کثیر الخطا ولہ اوھام یطو ل ذکرھا" (تہذیب التہذیب ۳۸۱/۱۰)
صاحب تہذیب التہذیب(حافظ ابن حجر) سے امام الساجی (متوفی ۳۰۷ھ کما فی لسان المیزان ۴۸۸/۲) تک سند موجود نہیں ، لہٰذا یہ قول بلا سند ہونے کی وجہ سے اصلاً مردود ہے۔​
محمد بن نصر المروزی:
"المؤمل اذا انفرد بحدیث وجب ان یتوقف ویثبت فیہ الانہ کان سیئ الحفظ کثیر الخطا" (تہذیب التہذیب ۳۸۱/۱۰)
یہ قول بھی بلاسند ہے اور جمہور کے مخالف ہونے کی وجہ مردود ہے۔​

یعقوب بن سفیان الفارسی:
"سنی شیخ جلیل ، سمعت سلیمان بن حرب یحسن الثناء علیہ یقول : کان مشیختنا یعرفون لہ ویوصون بہ الا ان حدیثہ لا یشبہ حدیث اصحابہ، حتی ربما قال : کان لا یسعہ ان یحدث وقد یجب علی اھل العلم ان یقفوا (عن) حدیثہ ویتخففوا من الروایۃ عنہ فانہ منکر یروی المناکیر عن ثقات شیوخنا وھذا اشد فلو کانت ھذہ المناکیر عن ضعاف لکنا نجعل لہ عذراً"
جلیل القدر سنی شیخ تھے، میں نے سلیمان بن حرب کو ان کی تعریف کرتے ہوئے سنا ، وہ فرماتے تھے: ہمارے استاد ان (کےحق) کی پہچان رکھتے تھے اور ان کے پاس جانے کا حکم دیتے تھے۔ مگر یہ ان کی حدیث ان کے ساتھیوں کی حدیث سے مشابہ نہیں ہے حتیٰ کہ بعض اوقات انھوں نے کہا: اس کے لیے حدیث بیان کرنا جائز نہیں تھا، اہل علم پر واجب ہے کہ وہ اس کی حدیث سے توقف کریں اور اس سے روایتیں کم لیں کیونکہ وہ ہمارے ثقہ استادوں سے منکر روایتیں بیان کرتے ہیں۔ یہ شدید ترین بات ہے، اگر یہ منکر روایتیں ضعیف لوگوں سے ہوتیں تو ہم انھیں معذور سمجھتے۔ (کتاب المعرفۃ والتاریخ ۵۲/۳)
اگر یہ طویل جرح سلیمان بن حرب کی ہے تو یعقوب الفارسی مؤمل کے موثقین میں سے ہیں اور اگر یہ جرح یعقوب کی ہے تو سلیمان بن حرب مؤمل کے موثقین میں سے ہیں۔
تنبیہ: یہ جرح جمہور کے مخالف ہونے کی وجہ سے مردود ہے۔
* ابوزرعہ الرازی : "فی حدیثہ خطا کثیر" (میزان الاعتدال ۲۲۸/۴ ت ۸۹۴۹)
یہ قول بھی بلا سند ہے۔​
* البخاری: "منکر الحدیث"(تہذیب الکمال ۵۲۶/۱۸، میزان الاعتدال ۲۲۸/۴، تہذیب التہذیب ۳۸۱/۱۰)
تینوں محولہ کتابوں میں یہ قول بلا سند وبلاحوالہ درج ہے جبکہ اس کے برعکس امام بخاری نے مؤمل بن اسماعیل کو التاریخ الکبیر (ج۸ ص۴۹ ت۲۱۰۷) میں ذکر کیااور کوئی جرح نہیں کی۔امام بخاری کی کتاب الضعفاء میں مؤمل کا کوئی ذکر موجود نہیں ہے۔ اور صحیح بخاری میں مؤمل کی روایتیں موجود ہیں۔ (دیکھئے ح۲۷۰۰، ۷۰۸۳ فتح الباری)
حافظ مزی فرماتے ہیں: "استشھد بہ البخاری"
اس سے بخاری نے بطور استشہاد روایت لی ہے۔ (تہذیب الکمال ۵۲۷/۱۸)
محمد بن طاہر المقدسی (متوفی ۵۰۷ھ) نے ایک راوی کے بارے میں لکھا ہے:
"بل استشھد بہ فی مواضع لبیین انہ ثقۃ"
بلکہ انھوں (بخاری) نے کئی جگہ اس سے بطور استشہاد روایت لی ہے تاکہ یہ واضح ہو کہ وہ ثقہ ہے۔ (شروط الائمۃ الستہ ص۱۸)
معلوم ہوا کہ مؤمل مذکور امام بخاری کے نزدیک ثقہ ہے ، منکر الحدیث نہیں ہے۔

ابن سعد: "ثقۃ کثیر الغلط" (الطبقات الکبری لابن سعد ۵۰۱/۵)
دارقطنی: "صدوق کثیر الخطا" (سوالات الحاکم للدارقطنی: ۹۴۲)
یہ قول امام دارقطنی کی توثیق سے متعارض ہے جیسا کہ آگے آرہا ہے۔ امام دارقطنی کی کتاب الضعفاء والمتروکین میں مؤمل کا تذکرہ موجود نہیں ہے جو اس کی دلیل ہے کہ امام دارقطنی نے اپنی جرح سے رجوع کرلیا ہے۔
* عبدالباقی بن قانع البغدادی: "صالح یخطئ" (تہذیب التہذیب ۳۸۱/۱۰)
یہ قول بلا سند ہے اور خود عبدالباقی بن قانع پر اختلاط کا الزام ہے۔ بعض نے توثیق اور بعض نے تضعیف کی ہے۔ (دیکھئے میزان الاعتدال ۵۳۲/۲، ۵۳۳)​
حافظ ابن حجر العسقلانی: "صدوق سیئ الحفظ" (تقریب التہذیب : ۷۰۲۹)
احمد بن حنبل: "مؤمل کان یخطئ" (سوالات المروزی:۵۳ وموسوعۃ اقوال الامام احمد ۴۱۹/۳)
یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ ثقہ راویوں کو بھی (بعض اوقات) خطا لگ جاتی ہے لہٰذا ایسا راوی اگر موثق عبدالجمہور ہوتو اس کی ثابت شدہ خطا کو چھوڑ دیا جاتا ہے اور باقی روایتوں میں وہ حسن الحدیث، صحیح الحدیث ہوتا ہے۔ نیز دیکھئے قواعد فی علوم الحدیث (ص۲۷۵)
ابن الترکمانی الحنفی والی جرح "قیل " کی وجہ سے مردود ہے ۔ دیکھئے الجوہر النقی (۳۰/۲)

اس جرح کے مقابلے میں درج ذیل محدثین سے مؤمل بن اسماعیل کی توثیق ثابت یا مروی ہے۔
یحیٰ بن معین: "ثقۃ" (تاریخ ابن معین راویۃ الدوری: ۲۳۵ والجرح والتعدیل لابن ابی حاتم ۳۷۳/۸)
کتاب الجرح والتعدیل میں ابن ابی حاتم نے لکھا ہے کہ
"انا یعقوب بن اسحاق فیما کتب الی قال : نا عثمان بن سعید قال قلت لیحیی بن معین: ای شیئ حال المؤمل فی سفیان؟ فقال : ھو ثقۃ، قلت: ھو احب الیک او عبیداللہ؟ فلم یفضل احدا علی الآخر" (۳۷۴/۸)
یعقوب بن اسحاق الہروی کا ذکر حافظ ذہبی کی تاریخ الاسلام میں ہے۔(۸۴/۲۵ وفیات سنۃ ۳۳۲ھ)
حافظ ذہبی فرماتے ہیں:
"ابو الفضل الھروی الحافظ ، سمع عثمان بن سعید الدارمی ومن بعدہ وصنف جزءاً فی الرد علی اللفظیۃ، روی عنہ عبدالرحمن ابن ابی حاتم بالاجازۃ وھو اکبر منہ، واھل بلدہ" (تاریخ الاسلام ۸۴/۲۵)
ابن رجب الحنبلی نے شرح علل الترمذی میں یہ قول عثمان بن سعید الدارمی کی کتاب سے نقل کیا ہے۔(دیکھئے ۵۴۱/۲ وفی نسخۃ اخریٰ ص ۳۸۴، ۳۸۵)
سوالات عثمان بن سعید الدارمی کا مطبوعہ نسخہ مکمل نہیں ہے۔

ابن حبان: "ذکرہ فی کتاب الثقات (۱۸۷/۹) وقال : "ربما اخطا" ایسا راوی ابن حبان کے نزدیک ضعیف نہیں ہوتا، حافظ ابن حبان مؤمل کی حدیثیں خود صحیح ابن حبان میں لائے ہیں۔ (مثلاً دیکھئے الاحسان بترتیب صحیح ابن حبان ج۸ ص ۲۵۳ ح ۶۶۸۱)
ابن حبان نے کہا:
"اخبرنااحمد بن علی بن المثنیٰ قال: حدثنا ابوعبیدۃ بن فضیل ابن عیاض قال: حدثنا مؤمل بن اسماعیل قال: حدثنا سفیان قال: حدثنا علقمۃ بن یزید۔۔۔"الخ (الاحسان ۲۷۴/۹ ح ۷۴۱۷)
معلوم ہوا کہ مؤمل مذکور امام ابن حبان کے نزدیک صحیح الحدیث یا حسن الحدیث ہے، حسن الحدیث راوی پر "ربما اخطا" والی جرح کا کوئی اثر نہیں ہوتا۔

امام بخاری: "استشھد بہ فی صحیحہ"
امام بخاری سے منسوب جرح کے تحت یہ گزر چکا ہے کہ امام بخاری نے مؤمل بن اسماعیل سے صحیح بخاری میں تعلیقاً روایت لی ہے لہٰذا وہ ان کے نزدیک صحیح الحدیث (ثقہ صدوق ) ہیں۔

سلیمان بن حرب: "یحسن الثناء علیہ"
یعقوب بن سفیان الفارسی کی جرح کے تحت اس کا حوالہ گزرچکاہے۔
* اسحاق بن راہویہ: "ثقۃ" (تہذیب التہذیب ۳۸۱/۱۰)
یہ قول بلا سند ہے لہٰذا اس کے ثبوت میں نظر ہے۔

ترمذی : صحح لہ (۴۱۵، ۶۷۲، ۱۹۴۸) وحسن لہ (۲۱۴۶، [۳۲۶۶])
تنبیہ: بریکٹ [ ] کے بغیر والی روایتیں مؤمل عن سفیان (الثوری) کی سند سے ہیں۔
لہٰذا ثابت ہوا کہ ترمذی کے نزدیک مؤمل صحیح الحدیث وحسن الحدیث ہیں۔

ابن خزیمہ : "صحح لہ" (مثلاً دیکھئے صحیح ابن خزیمہ ۲۴۳/۱ ح ۴۷۹)

دارقطنی نے "مؤمل بن سفیان " کی سند کے بارے میں لکھا ہے کہ "اسنادہ صحیح" یعنی وہ ان کے نزدیک صحیح الحدیث عن سفیان (الثوری) ہے۔
الحاکم: "صحح لہ فی المستدرک علی شرط الشیخین ووافقہ الذہبی" (۳۸۴/۱ ح ۱۴۱۸)
یہ روایت مؤمل بن سفیان (الثوری) کے سند سے ہے لہٰذا مؤمل مذکور حاکم اور ذہبی دنوں کے نزدیک صحیح الحدیث ہیں۔

حافظ ذہبی: "کان من ثقات [البصریین]" (العبر فی خبر من غبر ۲۷۴/۱ وفیات ۲۰۶ھ)
اس سے معلوم ہوا کہ ذہبی کے نزدیک مؤمل پر جرح مردود ہے کیونکہ وہ ان کے نزدیک ثقہ ہیں۔

10۔ احمد بن حنبل : "روی عنہ"
اما م احمد بن حنبل مؤمل سے اپنی المسند میں روایت بیان کرتے ہیں مثلاً دیکھئے (۱۶/۱ح ۹۷ وشیوخ احمد فی مقدمۃ مسند الامام احمد ۴۹/۱)
ظفراحمد تھانوی دیوبندی نے لکھا ہے: "وکذا شیوخ احمد کلھم ثقات"
اور اسی طرح احمد کے تمام استاد ثقہ ہیں۔ (قواعد فی علوم الحدیث ص ۱۳۳، اعلاء السنن ج ۱۹ ص ۲۱۸)
حافظ ہیثمی نے فرمایا: "روی عنہ احمد وشیوخہ ثقات"
اس سے احمد نے روایت کی ہے اور ان کے استاد ثقہ ہیں۔ (مجمع الزوائد ۸۰/۱)
یعنی عام طور پر بعض راویوں کے استثنا کے ساتھ امام احمد کے سارے استاد (جمہور کے نزدیک) ثقہ ہیں ۔

11۔ علی بن المدینی: "روی عنہ کما فی تھذیب الکمال" (۵۲۶/۱۸) وتھذیب التہذیب (۳۸۰/۱۰) وغیرھما وانظر الجرح والتعدیل (۳۷۴/۸)
ابوالعرب القیروانی سے منقول ہے:
ان احمد وعلی بن المدینی لا یرویان الا عن مقبول ۔ (تہذیب التہذیب ۱۱۴/۹ ت ۱۵۵)
یقیناً احمد اور علی بن المدینی (عام طور پر) صرف مقبول ہی سے روایت کرتے ہیں۔

12۔ ابن کثیر الدمشقی : "قال فی حدیث "مؤمل عن سفیان (الثوری) " الخ: "وھٰذا اسناد جید" (تفسیر ابن کثیر ۴۲۳/۴ سورۃ المعارج) وکذلک جودلہ فی مسند الفاروق (۳۶۷/۱)
معلوم ہوا کہ مؤمل مذکور حافظ ابن کثیر کے نزدیک جید الحدیث یعنی ثقہ صدوق ہیں۔

13۔ الضیاء المقدسی : "اورد حدیثہ فی المختارۃ" (۳۴۵/۱ ح ۲۳۷)
معلوم ہوا کہ مؤمل حافظ ضیاء کے نزدیک صحیح الحدیث ہیں۔
* ابوداؤد: "قال ابو عبید الآجری: سالت ابا داؤد عن مؤمل بن اسماعیل فعظمہ ورفع من شانہ الا انہ یھم فی الشیئ۔ (تہذیب الکمال ۵۲۷/۱۸)
اس سے معلوم ہوا کہ ابوداؤد سے مروی قول کے مطابق مؤمل ان کے نزدیک حسن الحدیث ہیں لیکن ابوعبیدالآجری کی توثیق معلوم نہیں لہٰذا اس قول کے ثبوت میں نظر ہے۔​

15۔ حافظ الہیثمی: "ثقۃ وفیہ ضعف" (مجمع الزوائد ۱۸۳/۸)
یعنی مؤمل حافظ ہیثمی کے نزدیک حسن الحدیث ہے۔

16۔ حافظ النسائی: "روی لہ فی سننہ المجتبیٰ" (۴۰۹۷،۴۵۸۹، السلفیہ)
ظفر احمد تھانوی دیوبندی نے کہا: "وکذا کل من حدث عنہ النسائی فھو ثقۃ"(قواعد علوم الحدیث ص ۲۲۲)
یعنی السنن الصغریٰ کے جس راوی پر امام نسائی جرح نہ کریں وہ (عام طور) ان (ظفر احمد تھانوی اور دیوبندیوں) کے نزدیک ثقہ ہوتا ہے۔
17۔ ابن شاہی: "ذکرہ فی کتاب الثقات" (ص۲۳۲ ت ۱۴۱۶)

18۔ الاسماعیلی: "روی لہ فی مستخرجہ (علیٰ صحیح البخاری)" (انظر فتح الباری ۳۳/۱۳ تحت ح ۷۰۸۳)

* ابن حجر العسقلانی: "ذکر حدیث ابن خزیمۃ (وفیہ مؤمل بن اسماعیل) فی فتح الباری ۲۲۴/۲ تحت ح ۷۴۰) ولم یتکلم فیہ"
ظفر احمد تھانوی نے کہا:
"ما ذکرہ الحافظ من الاحادیث الزائدۃ فی فتح الباری فھو صحیح عندہ او حسن عنہ کما صرح بہ فی مقدمتہ۔۔۔۔" (قواعد فی علوم الحدیث ص۸۹)
معلوم ہوا کہ تھانوی صاحب کے بقول حافظ ابن حجر کے نزدیک مؤمل مذکور صحیح الحدیث یا حسن الحدیث ہے گویا انھوں نے تقریب التہذیب کی جرح سے رجوع کرلیا ہے۔ اس تفصیل سے معلوم ہوا کہ جمہور محدثین کے نزدیک مؤمل بن اسماعیل ثقہ وصدوق یا صحیح الحدیث ، حسن الحدیث ہیں لہٰذا بعض محدثین کی جرح مردود ہے۔ جارحین میں سے امام بخاری وغیرہ کی جرح ثابت ہی نہیں ہے۔ امام ترمذی وغیرہ جمہور محدثین کے نزدیک مؤمل اگر سفیان ثوری سے روایت کرے تو وہ ثقہ و صحیح الحدیث ہے
حافظ ابن حجر کا قول: "فی حدیثہ عن الثوری ضعف" (فتح الباری ۲۳۹/۹ تحت ح ۵۱۷۲) جمہور کے خلاف ہونے کی وجہ سے مردود ہے ۔
جب یہ ثابت ہوگیا کہ مؤمل عن سفیان: صحیح الحدیث ہے تو بعض محدثین کی جرح کو غیرسفیان پر محمول کیا جائے گا۔ آخر میں بطور خلاصہ یہ فیصلہ کن نتیجہ ہے:
مؤمل عن سفیان الثوری: صحیح الحدیث اور عن غیر سفیان الثوری: حسن الحدیث ہے۔
والحمدللہ ظفر احمد دیوبندی صاحب نے مؤمل عن سفیان کی ایک سند نقل کرنے کے بعد لکھا ہے کہ "رجالہ ثقات" اس کے راوی ثقہ ہیں۔ (اعلاء السنن ج۳ص۱۳۳تحت ح ۸۶۵)

نیز تھانوی صاحب مؤمل کی ایک دوسری روایت کے بارے میں لکھتے ہیں:
"فالسند حسن" پس سند حسن ہے۔ (اعلاء السنن ۱۱۸/۳ تحت ح ۸۵۰)
یعنی دیوبندیوں کےنزدیک بھی مؤمل ثقہ ہے۔
کل جارحین = ۷
کل معدلین = ۱۸

زمانہ ٔ تدوین حدیث کے محدثین کرام نے ضعیف ومجروح راویوں پرکتابیں لکھی ہیں مثلاً:
  1. کتاب الضعفاء للامام البخاری
  2. کتاب الضعفاء للامام النسائی
  3. کتاب الضعفاء للامام ابی زرعۃ الرازی
  4. کتاب الضعفاء لابن شاہین
  5. کتاب المجروحین لابن حبان
  6. کتاب الضعفاء الکبیر للعقیلی
  7. کتاب الضعفاء والمتروکین للدارقطنی
  8. الکامل لابن عدی الجرجانی
  9. احوال الرجال للجوزجانی
یہ سب کتابیں ہمارے پاس موجود ہیں (والحمد للہ) اور ان میں سے کسی ایک کتاب میں بھی مؤمل بن اسماعیل پر جرح کا تذکرہ نہیں ہے۔ گویا ان مذکورین کے نزدیک مؤمل پر جرح مردود یاثابت نہیں ہے۔ حتٰی کہ ابن الجوزی نے کتاب الضعفاء والمتروکین (ج۳ ص ۳۱،۳۲) میں بھی مؤمل بن اسماعیل کا ذکر تک نہیں کیا ہے۔

* موجودہ زمانے میں بعض دیوبندی وبریلوی حضرت مؤمل بن اسماعیل المکی پر جرح کرتے ہیں اور امام بخاری سے منسوب غلط اور غیر ثابت جرح "منکر الحدیث" کو مزے لے لے کر بیان کرتے ہیں ، اس کی وجہ یہ ہے کہ سینے پر ہاتھ باندھنے والی ایک حدیث میں مؤمل کا ذکر آگیا ہے۔
[صحیح ابن خزیمہ ۲۴۳/۱ ح ۴۷۹ ، والطحاوی فی احکام القرآن۱۸۶/۱ح۳۲۹ مؤمل: نا سفیان (الثوری) عن عاصم بن کلیب عن ابیہ عن وائل بن حجر]
اس سند میں عاصم بن کلیب اور ان کے والد کلیب دونوں محدثین کے نزدیک ثقہ و صدوق ہیں، سفیان الثوری مدلس ہیں لہٰذا یہ سند ضعیف ہے۔
مدلس راوی کی اگر معتبر متابعت یا قوی شاہد مل جائے تو تدلیس کا الزام ختم ہوجاتا ہے۔
روایت مذکورہ کا قوی شاہد : مسند احمد (۲۲۶/۵ ح ۲۲۳۱۳) التحقیق فی اختلاف الحدیث لابن الجوزی (۲۸۳/۱ ح ۴۷۷) وفی نسخۃ اخری (۳۳۸/۱ ح ۴۳۴) میں
"یحیی بن سعید (القطان ) عن سفیان (الثوری) : حدثنی سماک (بن حرب) عن قبیصۃ بن ہلب عن ابیہ" کی سند سے موجود ہے۔
ہلب الطائی رضی اللہ عنہ صحابی ہیں ، یحیٰ بن سعید القطان زبردست ثقہ ہیں، سفیان ثوری نے سماع کی تصریح کردی ہے۔

قبیصہ بن ہلب کے بارے میں درج ذیل تحقیق میسر ہے:
حافظ مزی نے بغیر کسی سند کے علی بن المدینی اور نسائی سے نقل کیا کہ انھوں نے کہا:
"مجہول" (تہذیب الکمال ۲۲۱/۱۵)
یہ کلام کئی وجہ سے مردود ہے:
۱۔ بلاسند ہے۔
۲۔ علی بن المدینی کی کتاب العلل اور نسائی کی کتاب الضعفاء میں یہ کلام موجود نہیں ہے۔
۳۔ جس راوی کی توثیق ثابت ہوجائے اس پر مجہول ولائعرف وغیرہ کا کلام مردود ہوتاہے۔
۴۔ یہ کلام جمہور کی توثیق کے خلاف ہے۔

قبیصہ بن ہلب کی توثیق درج ذیل ہے:
۱۔ امام معتدل العجلی نے کہا: "کوفی تابعی ثقۃ" (تاریخ الثقات: ۱۳۷۹)
۲۔ ابن حبان نے کتاب الثقات میں ذکر کیا (۳۱۹/۵)
۳۔ ترمذی نے اس کی بیان کردہ ایک حدیث کو "حسن" کہا (ح۲۵۲)
۴۔ بغوی نے اس کی ایک حدیث کو حسن کہا۔ (شرح السنۃ ۳۱/۳ ح ۵۷۰)
۵۔ نووی نے اس کی ایک حدیث کو "باسناد صحیح" کہا۔(المجموع شرح المہذب ج۳ ص ۴۹۰ سطر ۱۵)
۶۔ ابن عبدالبر نے اس کی ایک حدیث کو "حدیث صحیح " کہا۔ (الاستیعاب فی معرفۃ الاصحاب المطبوع مع الاصابۃ ج ۳ ص ۶۱۵)

ان چھ (۶) محدثین کے مقابلے میں کسی ایک محدث سے صراحتاً قبیصہ بن ہلب پر کوئی جرح ثابت نہیں ہے۔
حافظ ابن حجر کے نزدیک یہ راوی متابعت کی صورت میں "مقبول" ہے (تقریب التہذیب: ۵۵۱۶) ورنہ ان کے نزدیک وہ لین الحدیث ہے۔ مؤمل عن سفیان ثوری الخ والی روایت کی صورت میں قبیصہ مذکور حافظ ابن حجر کے نزدیک مقبول (مقبول الحدیث) ہوا۔
فتح الباری کے سکوت (۲۲۴/۳) کی روشنی میں دیوبندیوں کے نزدیک یہ راوی حافظ ابن حجر کے نزدیک حسن الحدیث ہے۔
نیز دیکھئے تعدیل نمبر:۲۰
حافظ ابن حجر کے کلام پر یہ بحث بطور الزام ذکر کی گئی ہےورنہ قبیصہ مذکور بذات خود حسن الحدیث ہیں۔ والحمدللہ
بعض لوگ مسند احمد میں سینے پر ہاتھ باندھنے والی حدیث کے راوی کے سماک بن حرب پر بھی جرح کردیتے ہیں لہٰذا درج ذیل مضمون میں سماک کے بارے میں مکمل تحقیق پیش خدمت ہے۔
 

شاکر

تکنیکی ناظم
رکن انتظامیہ
شمولیت
جنوری 08، 2011
پیغامات
6,595
ری ایکشن اسکور
21,397
پوائنٹ
891
نصرالرب فی توثیق سماک بن حرب


سماک بن حرب کتب ستہ کے راوی اور اوساط تابعین میں سے ہیں۔ صحیح بخاری وصحیح مسلم میں ان کی درج ذیل روایتیں ہیں:
صحیح البخاری: (ح۶۷۲۲ قال: تابعہ یونس وسماک بن عطیۃ وسماک بن حرب۔۔۔۔"الخ)
صحیح مسلم: (۲۲۴، ۱۲۸/۴۳۶ ۴۵۸،۴۵۹، ۴۹۹، ۶۰۶، ۶۱۸، ۶۴۳(۶۷۰) ۷۳۴، ۸۶۲، ۸۶۶، ۹۶۵، ۹۷۸، ۱۷۳/۱۰۷۵، ۱۳۸۵، ۱۱/۱۵۰۴، ۶/۱۶۲۸، ۱۸/۱۶۵۱، ۱۳/۱۶۷۱، ۱۶۸۰، (۱۶۹۲)، ۱۶۹۳، ۱۷۴۸، ۶/۱۸۲۱، ۱۸۴۶۷، ۱۹۲۲، ۱۹۸۴، ۲۰۵۳، ۲۱۳۵، ۲۲۴۸، ۲۲۷۷، ۴۴/۲۳۰۵، ۲۳۲۲، ۲۳۲۹، ۲۳۳۹، ۲۳۴۴، ۲۳۶۱، ۲۷۴۵، ۴۲/۲۷۶۳، ۴۳، ۷۸/۲۹۱۹، ۲۹۲۳، ۲۹۷۷، ۲۹۷۸)
فوادعبدالباقی کی ترقیم کے مطابق یہ پنتالیس (۴۵) روایتیں ہیں۔ ان میں سے بعض روایتیں دو دفعہ ہیں لہٰذا معلوم ہوا کہ صحیح مسلم میں سماک کی پنتالیس سے زیادہ روایتیں موجود ہیں۔ سنن ابی داؤد ، سنن ترمذی، سنن ابن ماجہ اور سنن النسائی میں ان کی بہت سی روایتیں ہیں۔
اب سماک بن حرب پر جرح اور اس کی تحقیق پڑھ لیں:
 

شاکر

تکنیکی ناظم
رکن انتظامیہ
شمولیت
جنوری 08، 2011
پیغامات
6,595
ری ایکشن اسکور
21,397
پوائنٹ
891
جارحین اور ان کی جرح


* شعبہ: قال یحیٰ بن معین : "سماک بن حرب ثقۃ وکان شعبۃ یضعفہ"۔۔۔ الخ (تاریخ بغداد ۲۱۵/۹ ت ۴۷۹۲)
ابن معین ۱۵۷ھ میں پیدا ہوئے اور شعبہ بن الحجاج ۱۶۰ھ میں فوت ہوئے یعنی یہ روایت منقطع ہونے کی وجہ سے مردود ہے۔​

سفیان الثوری : "کان یضعفہ بعض الضعف"
امام العجلی (مولود ۱۸۲ھ متوفی ۲۶۱ھ) نے کہا:
"جائز الحدیث۔۔۔۔وکان فصیحاً الا انہ کان فی حدیث عکرمۃ ربما وصل عن ابن عباس ۔۔۔۔وکان سفیان الثوری یضعفہ بعض الضعف" (تاریخ الثقات:۶۲۱وتاریخ بغداد۲۱۹/۹)
سفیان الثوری ۱۶۱ھ میں فوت ہوئے تھے لہٰذا یہ سند بھی منقطع ہے، اس کے برعکس شعبہ اور سفیان دونوں سے ثابت ہے کہ وہ سماک بن حرب سے روایتیں بیان کرتے تھے لہٰذا اگر یہ جرح ثابت بھی ہوتی تو العجلی کے قول کی روشنی میں اسے "سماک عن عکرمۃ عن ابن عباس" کی سند پر محمول کیا جاتا۔ ابن عدی نے احمد بن الحسین الصوفی(؟) ثنا محمد بن خلف بن عبدالحمید کی سند کے ساتھ سفیان سے نقل کیا کہ سماک ضعیف ہے (الکامل ۱۲۹۹/۳) محمد بن خلف مذکور کے حالات نامعلوم ہیں لہٰذا یہ قول ثابت نہیں ہے۔
احمد بن حنبل: "مضطرب الھدیث" (الجرح والتعدیل ۲۷۹/۴)
اس قول کے ایک راوی محمد بن حمویہ بن الحسن کی توثیق نامعلوم ہے لیکن کتاب المعرفۃ والتاریخ یعقوب الفارسی (۶۳۸/۲) میں اس کا ایک شاہد (تائید کرنے والی روایت) بھی موجود ہے۔ کتاب العلل ومعرفۃ الرجال (۱۵۴/۱، رقم : ۷۷۵) میں امام احمد کے قول: "سماک یرفعھما عن عکرمۃ عن ابن عباس" سے معلوم ہوتا ہے کہ مضطرب الحدیث کی جرح کا تعلق صرف "سماک عن عکرمۃ عن ابن عباس" کی سند سے ہے، نیز دیکھئے اقوال تعدیل: ۷

محمد بن عبداللہ بن عمار الموصلی: "یقولون انہ کان یغلط ویختلفون فی حدیثہ"(تاریخ بغداد ۲۱۶/۹ وسندہ صحیح)
اس میں یقولون کا فاعل نامعلوم ہے۔
* صالح بن محمد البغدادی: "یضعف" (تاریخ بغداد ۲۱۶/۹)
اس قول کا راوی محمد بن علی المقرئی ہے جس کاتعین مطلوب ہے۔ ابو مسلم عبدالرحمن بن محمد بن عبداللہ بن مہران بن سلمہ الثقہ الصالح کے شاگردوں میں خطیب بغدادی کا استاد قاضی ابوالعلاء الواسطی ہے۔ (تاریخ بغداد ۲۹۹/۱۰) یہ ابوالعلاء محمد بن علی (القاری) ہے (تاریخ بغداد ۹۵/۳) المقرئی اور قاری (قرا علیہ القرآن بقرأت جماعۃ) ایک ہی شخص کے مختلف القاب ہوتے ہیں، ابوالعلاء المقرئی کے حالات (معرفۃ القراء الکبار للذہبی ۳۹۱/۱ت ۳۲۸) وغیرہ میں موجود ہیں اور یہ شخص مجروح ہے۔
دیکھئے میزان الاعتدال (۶۵۴/۳ت ۷۹۷۱) وغیرہ لہٰذا اس قول کے ثبوت میں نظر ہے۔​
* عبدالرحمن بن یوسف بن خراش: "فی حدیثہ لین" (تاریخ بغداد ۶۱۶/۹)
ابن خراش کے شاگرد محمد بن محمد بن داؤد الکرجی کے حالات ِتوثیق مطلوب ہیں اور ابن خراش بذات خود جمہور کے نزدیک مجروح ہے ، دیکھئے میزان الاعتدال (۶۰۰/۲ت۵۰۰۹)​

ابن حبان: "ذکرہ فی الثقات" (۳۳۹/۴) وقال: "یخطئ کثیراً۔۔۔ روی عنہ الثوری وشعبۃ"
یہ قول تین وجہ سے مردود ہے:
۱۔ اگر ابن حبان کے نزدیک سماک "یخطئ کثیراً" ہے تو ثقہ نہیں ہے لہٰذا اسے کتاب الثقات میں ذکر کیوں کیا؟ اور اگر ثقہ ہے تو "یخطئ کثیراً" نہیں ہے، مشہور محدث شیخ ناصرالدین الالبانی رحمہ اللہ ایک راوی پر حافظ ابن حبان البستی کی جرح " کان یخطئ کثیراً" نقل کرکے لکھتے ہیں:
"وھذا من افرادہ وتناقضہ، اذلوکان یخطئ کثیراًلم یکن ثقۃ"
یہ ان کی منفرد باتوں اور تناقضات میں سے ہے کیونکہ اگر وہ غلطیاں زیادہ کرتے تھے تو ثقہ نہیں تھے۔ ! (الضعفیۃ ۳۳۳/۲ ح ۹۳۰)
۲۔ حافظ ابن حبان نے خود اپنی صحیح میں سماک بن حرب سے بہت سی روایتیں لی ہیں مثلاً دیکھئے الاحسان بترتیب صحیح ابن حبان (۱۴۳/۱ ح ۶۶ص ۱۴۴ ح ۶۸، ۶۹) واتحاف المہرۃ (۶۳/۳، ۶۴، ۶۵)
لہٰذا ابن حبان کے نزدیک اس جرح کاتعلق حدیث سے نہیں ہے اسی لیے تو وہ سماک کی روایات کو صحیح قراردیتے ہیں۔
۳۔ حافظ ابن حبان نے اپنی کتاب "مشاہیر علما الامصار" میں سماک بن حرب کو ذکر کیا ہے اور کوئی جرح نہیں (ص ۱۱۰ت۸۴۰) یعنی خود ابن حبان کے نزدیک بھی جرح باطل ومردود ہے۔​

العقیلی: ذکرہ فی کتاب الضعفاء الکبیر (۱۷۸/۲، ۱۷۹)

جریر بن عبدالحمدی: انھوں نے سماک بن حرب کو دیکھا کہ وہ (کسی عذر کی وجہ سے) کھڑے ہوکر پیشاب کررہے تھے لہٰذا جریر نے ان سے روایت ترک کردی۔(الضعفاء للعقیلی ۱۷۹/۲ ، والکامل لابن عدی ۱۲۹۹/۳)
یہ کوئی جرح نہیں ہے کیونکہ موطا امام مالک میں باسند صحیح ثابت ہے کہ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ (کسی عذر کی وجہ سے) کھڑے ہو کر پیشاب کرتے تھے۔ (۱/۶۵ ح ۱۴۰ بتحقیقی)
بریکٹ میں عذر کا اضافہ دوسرے دلائل کی روشنی میں کیا گیا ہے، سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت کے بارے میں کیا خیال ہے؟

النسائی: "لیس بالقوی وکان یقبل التلقین" (السنن المجتبیٰ ۳۱۹/۸ح۵۶۸۰ بتحقیقی)
تہذیب التہذیب میں امام نسائی والا قول: "فاذا انفرد باصل لم یکن حجۃ"
تحفۃ الاشراف للمزی (۱۳۷/۵، ۱۳۸ ح ۶۱۰۴) میں مذکور ہے۔
* ابن المبارک: "سماک ضعیف فی الحدیث" (تہذیب الکمال ۱۳۱/۸ ، تہذیب التہذیب ۲۰۴/۴)
یہ روایت بلا سند ہے۔ کامل ابن عدی (۱۲۹۹/۳) میں ضعیف سند کے ساتھ یہی جرح "عن ابن المبارک عن سفیان الثوری" مختصراً مروی ہے جیسا کہ نمبر ۱ کے تحت گزرچکا ہے۔​
* البزار: "کان رجالً مشھوراً لا اعلم احداً ترکہ وکان قد تغیر قبل موتہ" (تہذیب التہذیب ۲۰۵/۴ بلاسند)
اس کا تعلق اختلاط ے ہے جس کا جواب آگے آرہا ہے۔​
* یعقوب بن شیبہ: "وروایتہ عن عکرمۃ خاصۃ مضطربۃ وھو فی غیر عکرمۃ صالح ولیس من المتشبتین ومن سمع من سماک قدیماً مثل شعبۃ وسفیان فحدیثھم عنہ صحیح مستقیم والذی قال ابن المبارک انما یری انہ فیمن سمع منہ باخرۃ"
(تہذیب الکمال ۱۳۱/۸)
اس قول کا تعلق سماک عن عکرمہ (عن ابن عباس) اور اختلاط سے ہے ، ابن المبارک کا قول باسند نہیں ملا، اور باقی سب توثیق ہے جیسا کہ آگے آرہا ہے۔ (دیکھئے اقوال تعدیل: بعد ۲۶)​
 

شاکر

تکنیکی ناظم
رکن انتظامیہ
شمولیت
جنوری 08، 2011
پیغامات
6,595
ری ایکشن اسکور
21,397
پوائنٹ
891
معدلین اوران کی تعدیل

ان جارحین کی جرح کے مقابلے میں درج ذیل محدثین سے تعدیل مروی ہے:

مسلم: احتج بہ فی صحیحہ (دیکھئے میزان الاعتدال ۲۳۳/۲)
شروع میں سماک کی بہت سی روایتوں کا حوالہ دیا گیا ہے جو صحیح مسلم میں موجود ہیں لہٰذا سماک مذکور امام مسلم کے نزدیک ثقہ وصدوق اور صحیح الحدیث ہیں۔

البخاری: شروع میں گزرچکا ہے کہ امام بخاری نےصحیح بخاری میں سماک سے روایت لی ہے(۶۷۲۲) حافظ ذہبی نے اجتناب بخاری کا ذکرکرتے ہوئے لکھا ہے:
"وقد علق لہ البخاری استشھاداً بہ" (سیر اعلام النبلاء ۲۴۸/۵)
اثبات التعدیل فی توثیق مؤمل بن اسماعیل میں گزرچکا ہے کہ امام بخاری جس راوی سے بطور استشہاد روایت کریں وہ (عام طور پر) امام بخاری کے نزدیک ثقہ ہوتا ہے۔ (دیکھئے ص ۳۰)

شعبہ: "روی عنہ " (صحیح مسلم : ۲۲۴)
شعبہ کے بارے میں ایک قاعدہ ہے کہ وہ (عام طور پر اپنے نزدیک) صرف ثقہ سے روایت کرتے ہیں۔ دیکھئے تہذیب التہذیب (ج۱ ص۴، ۵) ووقواعد فی علوم الحدیث للتھانوی الدیوبندی (ص۲۱۷)

سفیان الثوری: "ما یسقط لسماک بن حرب حدیث"
سماک بن حرب کی کوئی حدیث ساقط نہیں ہوئی۔ (تاریخ بغداد ۲۱۵/۹ وسندہ حسن لذاتہ)
اس قول پر حافظ ابن حجر کی تنقید (تہذیب التہذیب ۲۰۵/۴) عجیب و غریب ہے، یاد رہے کہ سماک بن حرب پر ثوری کی جرح ثابت نہیں۔

یحییٰ بن معین: "ثقۃ" (الجرح والتعدیل ۲۷۹/۹ وتاریخ بغداد ۲۱۵/۹ وسندہ صحیح)
ابوحاتم الرازی: "صدوق ثقۃ" (الجرح والتعدیل ۲۸۰/۴)
احمد بن حنبل: "سماک اصلح حدیثاً من عبدالملک بن عمیر"(الجرح والتعدیل ۲۷۹/۴، ۲۸۰ وسندہ صحیح)
ابو اسحاق السبیعی: "خذوا العلم من سماک بن حرب"(الجرح والتعدیل ۲۷۵/۴ وسندہ حسن)
العجلی: "جائز الحدیث" (دیکھئے اقوال جرح:۱) ذکرہ فی تاریخ الثقات
10۔ ابن عدی: "واحادیثہ حسان عن من روی عنہ وھو صدوق لا باس بہ"(الکامل ۱۳۰۰/۳)
11۔ ترمذی: انھوں نے سماک کی بہت سی حدیثوں کو "حسن صحیح" قراردیا ہے۔
(مثلاً دیکھئے ح ۶۵، ۲۰۲، ۲۲۷) بلکہ امام ترمذی نے سنن کا آغاز سماک کی حدیث سے کیا ہے (ح۱)
12۔ ابن شاہین: ذکرہ فی کتاب الثقات (۵۰۵)
13۔ الحاکم: صحح لہ فی المستدرک (۲۹۷/۱)
14۔ الذہبی: صحح لہ فی تلخیص المستدرک (۲۹۷/۱)
وقال الذہبی : "صدوق جلیل" (المغنی فی الضعفاء: ۲۶۴۹)
وقال : "الحافظ الامام الکبیر" (سیر اعلام النبلاء ۲۳۵/۵)
وقال: "وکان من حملۃ الحجۃ ببلدہ" (ایضاً ص ۲۴۶)
15۔ ابن حبان: احتج بہ فی صحیحہ (دیکھئے اقوال الجرح: ۴/۲)
16۔ ابن خزیمہ: صحح لہ فی صحیحہ (۸/۱ ح۸)
17۔ البغوی: قال:"حذا حدیث حسن" (شرح السنۃ ۳۱/۴ ح ۵۷۰)
18۔ نووی: حسن لہ فی المجموع شرح المھذب (۴۹۰/۳)
19۔ ابن عبدالبر: صحح لہ فی الاستیعاب (۶۱۵/۳)
20۔ ابن الجارود: ذکر حدیثہ فی المنتقیٰ (ح ۲۵)
اشرف علی تھانوی دیوبندی نے ایک حدیث کے بارے میں کہا:
"واورد ھذا الحدیث ابن الجارود فی المنتقیٰ فھو صحیح عندہ"
(بوادر النوادر ص ۱۳۵ نویں حکمت حرمت سجدہ تحیہ)
21۔ الضیاء المقدسی: احتج بہ فی المختارۃ (۱۱/۱۲۔ ۹۸ ح ۱۔۱۱۵)
22۔ المنذری: حسن لہ حدیثہ الذی رواہ الترمذی (۲۶۵۷) برمزہ "عن"(دیکھئے الترغیب والترہیب ۱۰۸/۱ ح ۱۵۰)
23۔ ابن حجر العسقلانی: "صدوق وروایتہ عن عکرمۃ خاصۃ مضطربۃ وقد تغیر باخرۃ فکان ربما یلقن" (تقریب التہذیب: ۲۶۲۴)
یعنی سماک بن حرب حافظ ابن حجر کے نزدیک صدوق (حسن الحدیث) ہیں اور جرح کا تعلق عن عکرمہ (عن ابن عباس ) سے ہے، اختلاط کا جواب آگے آرہا ہے۔
حافظ ابن حجر نے فتح الباری میں اس کی حدیث پر سکوت کیا۔ (۲۲۴/۲ تحت ح ۷۴۰)
ظفر احمد تھانوی صاحب لکھتے ہیں کہ
"ایسی روایت حافظ ابن حجر کے نزدیک صحیح یا حسن ہوتی ہے۔" [لہٰذا یہ راوی بقول تھانوی حافظ ابن حجر کے نزدیک صحیح الحدیث یا حسن الحدیث ہیں۔]
(دیکھئے قواعد فی علوم الحدیث ص ۸۹)
24۔ ابوعوانہ: احتج بہ فی صحیحہ المستخرج علی صحیح مسلم (۲۳۳/۱)
25۔ ابو نعیم الاصبہانی: احتج بہ فی صحیحہ المستخرج علی صحیح مسلم(۲۸۹/۱، ۲۹۰ ح ۵۳۵)
26۔ ابن سید الناس: صحح حدیثہ فی شرح الترمذ ، قالہ شیخنا الامام محمد بدیع الدین الراشدی السندی" (دیکھئے نماز میں خشوع اور عاجزی یعنی سینے پر ہاتھ باندھنا ص ۱۰ ح۳)
* یعقوب بن شیبہ: کہا جاتا ہے کہ انھوں نے سفیان ثوری کی سماک سے روایت کو صحیح قراردیا ہے، جیسا کہ گزر چکا ہے۔
اس تفصیل سے معلوم ہوا کہ سماک بن حرب مذکور کو جمہور محدثین نے ثقہ و صدوق اور صحیح الحدیث قراردیا ہےلہٰذا ان پر بعض محدثین کی جرح مردود ہے۔ بعض علماء نے اس جرح کو اختلاط پر محمول کیا ہے یعنی اختلاط سے پہلے والی روایتوں پر کوئی جرح نہیں ہے۔
 
Top