ضمیمہ1: اثبات التعدیل فی توثیق مؤمل بن اسماعیل
اثبات التعدیل فی توثیق
مؤمل بن اسماعیل
ابو عبداللہ مؤمل بن اسماعیل القرشی العدوی البصری نزیل مکہ کے بارے میں مفصل تحقیق درج ذیل ہے ، کتب ستہ میں مؤمل کی درج ذیل روایتیں موجود ہیں:
صحیح البخاری = (ح۲۷۰۰، اور بقول راجح ح ۷۰۸۳، تعلیقاً)
سنن الترمذی = (ح ۴۱۵، ۶۷۲، ۱۸۲۲، ۱۹۴۸، ۲۱۳۵، ۳۲۶۶، ۳۵۲۵، ۳۹۰۶، ۳۹۴۹)
سنن النسائی الصغریٰ= (ح ۴۰۹۷، ۴۵۸۹)
سنن ابن ماجہ = (ح ۲۰۱۳، ۲۹۱۹، ۳۰۱۷)
مؤمل مذکور پر جرح درج ذیل ہے:
1۔
ابو حاتم الرازی: "صدوق، شدید فی السنۃ ، کثیر الخطا، یکتب حدیثہ"
وہ سچے (اور) سنت میں سخت تھے۔ بہت غلطیاں کرتے تھے، ان کی حدیث لکھی جاتی ہے۔(کتاب الجرح والتعدیل ۳۴۷/۸)
زکریا بن یحیٰ الساجی:
"صدق، کثیر الخطا ولہ اوھام یطو ل ذکرھا" (تہذیب التہذیب ۳۸۱/۱۰)
صاحب تہذیب التہذیب(حافظ ابن حجر) سے امام الساجی (متوفی ۳۰۷ھ کما فی لسان المیزان ۴۸۸/۲) تک سند موجود نہیں ، لہٰذا یہ قول بلا سند ہونے کی وجہ سے اصلاً مردود ہے۔
محمد بن نصر المروزی:
"المؤمل اذا انفرد بحدیث وجب ان یتوقف ویثبت فیہ الانہ کان سیئ الحفظ کثیر الخطا" (تہذیب التہذیب ۳۸۱/۱۰)
یہ قول بھی بلاسند ہے اور جمہور کے مخالف ہونے کی وجہ مردود ہے۔
2۔
یعقوب بن سفیان الفارسی:
"سنی شیخ جلیل ، سمعت سلیمان بن حرب یحسن الثناء علیہ یقول : کان مشیختنا یعرفون لہ ویوصون بہ الا ان حدیثہ لا یشبہ حدیث اصحابہ، حتی ربما قال : کان لا یسعہ ان یحدث وقد یجب علی اھل العلم ان یقفوا (عن) حدیثہ ویتخففوا من الروایۃ عنہ فانہ منکر یروی المناکیر عن ثقات شیوخنا وھذا اشد فلو کانت ھذہ المناکیر عن ضعاف لکنا نجعل لہ عذراً"
جلیل القدر سنی شیخ تھے، میں نے سلیمان بن حرب کو ان کی تعریف کرتے ہوئے سنا ، وہ فرماتے تھے: ہمارے استاد ان (کےحق) کی پہچان رکھتے تھے اور ان کے پاس جانے کا حکم دیتے تھے۔ مگر یہ ان کی حدیث ان کے ساتھیوں کی حدیث سے مشابہ نہیں ہے حتیٰ کہ بعض اوقات انھوں نے کہا: اس کے لیے حدیث بیان کرنا جائز نہیں تھا، اہل علم پر واجب ہے کہ وہ اس کی حدیث سے توقف کریں اور اس سے روایتیں کم لیں کیونکہ وہ ہمارے ثقہ استادوں سے منکر روایتیں بیان کرتے ہیں۔ یہ شدید ترین بات ہے، اگر یہ منکر روایتیں ضعیف لوگوں سے ہوتیں تو ہم انھیں معذور سمجھتے۔ (کتاب المعرفۃ والتاریخ ۵۲/۳)
اگر یہ طویل جرح سلیمان بن حرب کی ہے تو یعقوب الفارسی مؤمل کے موثقین میں سے ہیں اور اگر یہ جرح یعقوب کی ہے تو سلیمان بن حرب مؤمل کے موثقین میں سے ہیں۔
تنبیہ: یہ جرح جمہور کے مخالف ہونے کی وجہ سے مردود ہے۔
* ابوزرعہ الرازی : "فی حدیثہ خطا کثیر" (میزان الاعتدال ۲۲۸/۴ ت ۸۹۴۹)
یہ قول بھی بلا سند ہے۔
*
البخاری: "منکر الحدیث"(تہذیب الکمال ۵۲۶/۱۸، میزان الاعتدال ۲۲۸/۴، تہذیب التہذیب ۳۸۱/۱۰)
تینوں محولہ کتابوں میں یہ قول بلا سند وبلاحوالہ درج ہے جبکہ اس کے برعکس امام بخاری نے مؤمل بن اسماعیل کو التاریخ الکبیر (ج۸ ص۴۹ ت۲۱۰۷) میں ذکر کیااور کوئی جرح نہیں کی۔امام بخاری کی کتاب الضعفاء میں مؤمل کا کوئی ذکر موجود نہیں ہے۔ اور صحیح بخاری میں مؤمل کی روایتیں موجود ہیں۔ (دیکھئے ح۲۷۰۰، ۷۰۸۳ فتح الباری)
حافظ مزی فرماتے ہیں:
"استشھد بہ البخاری"
اس سے بخاری نے بطور استشہاد روایت لی ہے۔ (تہذیب الکمال ۵۲۷/۱۸)
محمد بن طاہر المقدسی (متوفی ۵۰۷ھ) نے ایک راوی کے بارے میں لکھا ہے:
"بل استشھد بہ فی مواضع لبیین انہ ثقۃ"
بلکہ انھوں (بخاری) نے کئی جگہ اس سے بطور استشہاد روایت لی ہے تاکہ یہ واضح ہو کہ وہ ثقہ ہے۔ (شروط الائمۃ الستہ ص۱۸)
معلوم ہوا کہ مؤمل مذکور امام بخاری کے نزدیک ثقہ ہے ، منکر الحدیث نہیں ہے۔
3۔
ابن سعد: "ثقۃ کثیر الغلط" (الطبقات الکبری لابن سعد ۵۰۱/۵)
4۔
دارقطنی: "صدوق کثیر الخطا" (سوالات الحاکم للدارقطنی: ۹۴۲)
یہ قول امام دارقطنی کی توثیق سے متعارض ہے جیسا کہ آگے آرہا ہے۔ امام دارقطنی کی کتاب الضعفاء والمتروکین میں مؤمل کا تذکرہ موجود نہیں ہے جو اس کی دلیل ہے کہ امام دارقطنی نے اپنی جرح سے رجوع کرلیا ہے۔
* عبدالباقی بن قانع البغدادی: "صالح یخطئ" (تہذیب التہذیب ۳۸۱/۱۰)
یہ قول بلا سند ہے اور خود عبدالباقی بن قانع پر اختلاط کا الزام ہے۔ بعض نے توثیق اور بعض نے تضعیف کی ہے۔ (دیکھئے میزان الاعتدال ۵۳۲/۲، ۵۳۳)
5۔
حافظ ابن حجر العسقلانی: "صدوق سیئ الحفظ" (تقریب التہذیب : ۷۰۲۹)
6۔
احمد بن حنبل: "مؤمل کان یخطئ" (سوالات المروزی:۵۳ وموسوعۃ اقوال الامام احمد ۴۱۹/۳)
یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ ثقہ راویوں کو بھی (بعض اوقات) خطا لگ جاتی ہے لہٰذا ایسا راوی اگر موثق عبدالجمہور ہوتو اس کی ثابت شدہ خطا کو چھوڑ دیا جاتا ہے اور باقی روایتوں میں وہ حسن الحدیث، صحیح الحدیث ہوتا ہے۔ نیز دیکھئے قواعد فی علوم الحدیث (ص۲۷۵)
7۔
ابن الترکمانی الحنفی والی جرح "قیل " کی وجہ سے مردود ہے ۔ دیکھئے الجوہر النقی (۳۰/۲)
اس جرح کے مقابلے میں درج ذیل محدثین سے مؤمل بن اسماعیل کی توثیق ثابت یا مروی ہے۔
1۔
یحیٰ بن معین: "ثقۃ" (تاریخ ابن معین راویۃ الدوری: ۲۳۵ والجرح والتعدیل لابن ابی حاتم ۳۷۳/۸)
کتاب الجرح والتعدیل میں ابن ابی حاتم نے لکھا ہے کہ
"انا یعقوب بن اسحاق فیما کتب الی قال : نا عثمان بن سعید قال قلت لیحیی بن معین: ای شیئ حال المؤمل فی سفیان؟ فقال : ھو ثقۃ، قلت: ھو احب الیک او عبیداللہ؟ فلم یفضل احدا علی الآخر" (۳۷۴/۸)
یعقوب بن اسحاق الہروی کا ذکر حافظ ذہبی کی تاریخ الاسلام میں ہے۔(۸۴/۲۵ وفیات سنۃ ۳۳۲ھ)
حافظ ذہبی فرماتے ہیں:
"ابو الفضل الھروی الحافظ ، سمع عثمان بن سعید الدارمی ومن بعدہ وصنف جزءاً فی الرد علی اللفظیۃ، روی عنہ عبدالرحمن ابن ابی حاتم بالاجازۃ وھو اکبر منہ، واھل بلدہ" (تاریخ الاسلام ۸۴/۲۵)
ابن رجب الحنبلی نے شرح علل الترمذی میں یہ قول عثمان بن سعید الدارمی کی کتاب سے نقل کیا ہے۔(دیکھئے ۵۴۱/۲ وفی نسخۃ اخریٰ ص ۳۸۴، ۳۸۵)
سوالات عثمان بن سعید الدارمی کا مطبوعہ نسخہ مکمل نہیں ہے۔
2۔
ابن حبان: "
ذکرہ فی کتاب الثقات (۱۸۷/۹)
وقال : "ربما اخطا" ایسا راوی ابن حبان کے نزدیک ضعیف نہیں ہوتا، حافظ ابن حبان مؤمل کی حدیثیں خود صحیح ابن حبان میں لائے ہیں۔ (مثلاً دیکھئے الاحسان بترتیب صحیح ابن حبان ج۸ ص ۲۵۳ ح ۶۶۸۱)
ابن حبان نے کہا:
"اخبرنااحمد بن علی بن المثنیٰ قال: حدثنا ابوعبیدۃ بن فضیل ابن عیاض قال: حدثنا مؤمل بن اسماعیل قال: حدثنا سفیان قال: حدثنا علقمۃ بن یزید۔۔۔"الخ (الاحسان ۲۷۴/۹ ح ۷۴۱۷)
معلوم ہوا کہ مؤمل مذکور امام ابن حبان کے نزدیک صحیح الحدیث یا حسن الحدیث ہے، حسن الحدیث راوی پر
"ربما اخطا" والی جرح کا کوئی اثر نہیں ہوتا۔
3۔
امام بخاری: "استشھد بہ فی صحیحہ"
امام بخاری سے منسوب جرح کے تحت یہ گزر چکا ہے کہ امام بخاری نے مؤمل بن اسماعیل سے صحیح بخاری میں تعلیقاً روایت لی ہے لہٰذا وہ ان کے نزدیک صحیح الحدیث (ثقہ صدوق ) ہیں۔
4۔
سلیمان بن حرب: "یحسن الثناء علیہ"
یعقوب بن سفیان الفارسی کی جرح کے تحت اس کا حوالہ گزرچکاہے۔
*
اسحاق بن راہویہ: "ثقۃ" (تہذیب التہذیب ۳۸۱/۱۰)
یہ قول بلا سند ہے لہٰذا اس کے ثبوت میں نظر ہے۔
5۔
ترمذی : صحح لہ (۴۱۵، ۶۷۲، ۱۹۴۸) وحسن لہ (۲۱۴۶، [۳۲۶۶])
تنبیہ: بریکٹ [ ] کے بغیر والی روایتیں مؤمل عن سفیان (الثوری) کی سند سے ہیں۔
لہٰذا ثابت ہوا کہ ترمذی کے نزدیک مؤمل صحیح الحدیث وحسن الحدیث ہیں۔
6۔
ابن خزیمہ : "صحح لہ" (مثلاً دیکھئے صحیح ابن خزیمہ ۲۴۳/۱ ح ۴۷۹)
7۔
دارقطنی نے "مؤمل بن سفیان " کی سند کے بارے میں لکھا ہے کہ
"اسنادہ صحیح" یعنی وہ ان کے نزدیک صحیح الحدیث عن سفیان (الثوری) ہے۔
8۔
الحاکم: "صحح لہ فی المستدرک علی شرط الشیخین ووافقہ الذہبی" (۳۸۴/۱ ح ۱۴۱۸)
یہ روایت مؤمل بن سفیان (الثوری) کے سند سے ہے لہٰذا مؤمل مذکور حاکم اور ذہبی دنوں کے نزدیک صحیح الحدیث ہیں۔
9۔
حافظ ذہبی: "کان من ثقات [البصریین]" (العبر فی خبر من غبر ۲۷۴/۱ وفیات ۲۰۶ھ)
اس سے معلوم ہوا کہ ذہبی کے نزدیک مؤمل پر جرح مردود ہے کیونکہ وہ ان کے نزدیک ثقہ ہیں۔
10۔
احمد بن حنبل : "روی عنہ"
اما م احمد بن حنبل مؤمل سے اپنی المسند میں روایت بیان کرتے ہیں مثلاً دیکھئے (۱۶/۱ح ۹۷ وشیوخ احمد فی مقدمۃ مسند الامام احمد ۴۹/۱)
ظفراحمد تھانوی دیوبندی نے لکھا ہے:
"وکذا شیوخ احمد کلھم ثقات"
اور اسی طرح احمد کے تمام استاد ثقہ ہیں۔ (قواعد فی علوم الحدیث ص ۱۳۳، اعلاء السنن ج ۱۹ ص ۲۱۸)
حافظ ہیثمی نے فرمایا:
"روی عنہ احمد وشیوخہ ثقات"
اس سے احمد نے روایت کی ہے اور ان کے استاد ثقہ ہیں۔ (مجمع الزوائد ۸۰/۱)
یعنی عام طور پر بعض راویوں کے استثنا کے ساتھ امام احمد کے سارے استاد (جمہور کے نزدیک) ثقہ ہیں ۔
11۔
علی بن المدینی: "روی عنہ کما فی تھذیب الکمال" (۵۲۶/۱۸) وتھذیب التہذیب (۳۸۰/۱۰)
وغیرھما وانظر الجرح والتعدیل (۳۷۴/۸)
ابوالعرب القیروانی سے منقول ہے:
ان احمد وعلی بن المدینی لا یرویان الا عن مقبول ۔ (تہذیب التہذیب ۱۱۴/۹ ت ۱۵۵)
یقیناً احمد اور علی بن المدینی (عام طور پر) صرف مقبول ہی سے روایت کرتے ہیں۔
12۔
ابن کثیر الدمشقی : "قال فی حدیث "مؤمل عن سفیان (الثوری) " الخ: "وھٰذا اسناد جید" (تفسیر ابن کثیر ۴۲۳/۴ سورۃ المعارج) وکذلک جودلہ فی مسند الفاروق (۳۶۷/۱)
معلوم ہوا کہ مؤمل مذکور حافظ ابن کثیر کے نزدیک جید الحدیث یعنی ثقہ صدوق ہیں۔
13۔
الضیاء المقدسی : "اورد حدیثہ فی المختارۃ" (۳۴۵/۱ ح ۲۳۷)
معلوم ہوا کہ مؤمل حافظ ضیاء کے نزدیک صحیح الحدیث ہیں۔
* ابوداؤد: "قال ابو عبید الآجری: سالت ابا داؤد عن مؤمل بن اسماعیل فعظمہ ورفع من شانہ الا انہ یھم فی الشیئ۔ (تہذیب الکمال ۵۲۷/۱۸)
اس سے معلوم ہوا کہ ابوداؤد سے مروی قول کے مطابق مؤمل ان کے نزدیک حسن الحدیث ہیں لیکن ابوعبیدالآجری کی توثیق معلوم نہیں لہٰذا اس قول کے ثبوت میں نظر ہے۔
15۔
حافظ الہیثمی: "ثقۃ وفیہ ضعف" (مجمع الزوائد ۱۸۳/۸)
یعنی مؤمل حافظ ہیثمی کے نزدیک حسن الحدیث ہے۔
16۔
حافظ النسائی: "روی لہ فی سننہ المجتبیٰ" (۴۰۹۷،۴۵۸۹، السلفیہ)
ظفر احمد تھانوی دیوبندی نے کہا:
"وکذا کل من حدث عنہ النسائی فھو ثقۃ"(قواعد علوم الحدیث ص ۲۲۲)
یعنی السنن الصغریٰ کے جس راوی پر امام نسائی جرح نہ کریں وہ (عام طور) ان (ظفر احمد تھانوی اور دیوبندیوں) کے نزدیک ثقہ ہوتا ہے۔
17۔
ابن شاہی: "ذکرہ فی کتاب الثقات" (ص۲۳۲ ت ۱۴۱۶)
18۔
الاسماعیلی: "روی لہ فی مستخرجہ (علیٰ صحیح البخاری)" (انظر فتح الباری ۳۳/۱۳ تحت ح ۷۰۸۳)
* ابن حجر العسقلانی: "ذکر حدیث ابن خزیمۃ (وفیہ مؤمل بن اسماعیل) فی فتح الباری ۲۲۴/۲ تحت ح ۷۴۰) ولم یتکلم فیہ"
ظفر احمد تھانوی نے کہا:
"ما ذکرہ الحافظ من الاحادیث الزائدۃ فی فتح الباری فھو صحیح عندہ او حسن عنہ کما صرح بہ فی مقدمتہ۔۔۔۔" (قواعد فی علوم الحدیث ص۸۹)
معلوم ہوا کہ تھانوی صاحب کے بقول حافظ ابن حجر کے نزدیک مؤمل مذکور صحیح الحدیث یا حسن الحدیث ہے گویا انھوں نے تقریب التہذیب کی جرح سے رجوع کرلیا ہے۔ اس تفصیل سے معلوم ہوا کہ جمہور محدثین کے نزدیک مؤمل بن اسماعیل ثقہ وصدوق یا صحیح الحدیث ، حسن الحدیث ہیں لہٰذا بعض محدثین کی جرح مردود ہے۔ جارحین میں سے امام بخاری وغیرہ کی جرح ثابت ہی نہیں ہے۔ امام ترمذی وغیرہ جمہور محدثین کے نزدیک مؤمل اگر سفیان ثوری سے روایت کرے تو وہ ثقہ و صحیح الحدیث ہے
حافظ ابن حجر کا قول:
"فی حدیثہ عن الثوری ضعف" (فتح الباری ۲۳۹/۹ تحت ح ۵۱۷۲) جمہور کے خلاف ہونے کی وجہ سے مردود ہے ۔
جب یہ ثابت ہوگیا کہ مؤمل عن سفیان: صحیح الحدیث ہے تو بعض محدثین کی جرح کو غیرسفیان پر محمول کیا جائے گا۔ آخر میں بطور خلاصہ یہ فیصلہ کن نتیجہ ہے:
مؤمل عن سفیان الثوری: صحیح الحدیث اور عن غیر سفیان الثوری: حسن الحدیث ہے۔
والحمدللہ ظفر احمد دیوبندی صاحب نے مؤمل عن سفیان کی ایک سند نقل کرنے کے بعد لکھا ہے کہ
"رجالہ ثقات" اس کے راوی ثقہ ہیں۔ (اعلاء السنن ج۳ص۱۳۳تحت ح ۸۶۵)
نیز تھانوی صاحب مؤمل کی ایک دوسری روایت کے بارے میں لکھتے ہیں:
"فالسند حسن" پس سند حسن ہے۔ (اعلاء السنن ۱۱۸/۳ تحت ح ۸۵۰)
یعنی دیوبندیوں کےنزدیک بھی مؤمل ثقہ ہے۔
کل جارحین = ۷
کل معدلین = ۱۸
زمانہ ٔ تدوین حدیث کے محدثین کرام نے ضعیف ومجروح راویوں پرکتابیں لکھی ہیں مثلاً:
- کتاب الضعفاء للامام البخاری
- کتاب الضعفاء للامام النسائی
- کتاب الضعفاء للامام ابی زرعۃ الرازی
- کتاب الضعفاء لابن شاہین
- کتاب المجروحین لابن حبان
- کتاب الضعفاء الکبیر للعقیلی
- کتاب الضعفاء والمتروکین للدارقطنی
- الکامل لابن عدی الجرجانی
- احوال الرجال للجوزجانی
یہ سب کتابیں ہمارے پاس موجود ہیں (والحمد للہ) اور ان میں سے کسی ایک کتاب میں بھی مؤمل بن اسماعیل پر جرح کا تذکرہ نہیں ہے۔ گویا ان مذکورین کے نزدیک مؤمل پر جرح مردود یاثابت نہیں ہے۔ حتٰی کہ ابن الجوزی نے کتاب الضعفاء والمتروکین (ج۳ ص ۳۱،۳۲) میں بھی مؤمل بن اسماعیل کا ذکر تک نہیں کیا ہے۔
* موجودہ زمانے میں بعض دیوبندی وبریلوی حضرت مؤمل بن اسماعیل المکی پر جرح کرتے ہیں اور امام بخاری سے منسوب غلط اور غیر ثابت جرح "منکر الحدیث" کو مزے لے لے کر بیان کرتے ہیں ، اس کی وجہ یہ ہے کہ سینے پر ہاتھ باندھنے والی ایک حدیث میں مؤمل کا ذکر آگیا ہے۔
[صحیح ابن خزیمہ ۲۴۳/۱ ح ۴۷۹ ، والطحاوی فی احکام القرآن۱۸۶/۱ح۳۲۹
مؤمل: نا سفیان (الثوری) عن عاصم بن کلیب عن ابیہ عن وائل بن حجر]
اس سند میں عاصم بن کلیب اور ان کے والد کلیب دونوں محدثین کے نزدیک ثقہ و صدوق ہیں، سفیان الثوری مدلس ہیں لہٰذا یہ سند ضعیف ہے۔
مدلس راوی کی اگر معتبر متابعت یا قوی شاہد مل جائے تو تدلیس کا الزام ختم ہوجاتا ہے۔
روایت مذکورہ کا قوی شاہد : مسند احمد (۲۲۶/۵ ح ۲۲۳۱۳) التحقیق فی اختلاف الحدیث لابن الجوزی (۲۸۳/۱ ح ۴۷۷) وفی نسخۃ اخری (۳۳۸/۱ ح ۴۳۴) میں
"یحیی بن سعید (القطان ) عن سفیان (الثوری) : حدثنی سماک (بن حرب) عن قبیصۃ بن ہلب عن ابیہ" کی سند سے موجود ہے۔
ہلب الطائی رضی اللہ عنہ صحابی ہیں ، یحیٰ بن سعید القطان زبردست ثقہ ہیں، سفیان ثوری نے سماع کی تصریح کردی ہے۔
قبیصہ بن ہلب کے بارے میں درج ذیل تحقیق میسر ہے:
حافظ مزی نے بغیر کسی سند کے علی بن المدینی اور نسائی سے نقل کیا کہ انھوں نے کہا:
"مجہول" (تہذیب الکمال ۲۲۱/۱۵)
یہ کلام کئی وجہ سے مردود ہے:
۱۔ بلاسند ہے۔
۲۔ علی بن المدینی کی کتاب العلل اور نسائی کی کتاب الضعفاء میں یہ کلام موجود نہیں ہے۔
۳۔ جس راوی کی توثیق ثابت ہوجائے اس پر مجہول ولائعرف وغیرہ کا کلام مردود ہوتاہے۔
۴۔ یہ کلام جمہور کی توثیق کے خلاف ہے۔
قبیصہ بن ہلب کی توثیق درج ذیل ہے:
۱۔ امام معتدل العجلی نے کہا:
"کوفی تابعی ثقۃ" (تاریخ الثقات: ۱۳۷۹)
۲۔ ابن حبان نے کتاب الثقات میں ذکر کیا (۳۱۹/۵)
۳۔ ترمذی نے اس کی بیان کردہ ایک حدیث کو "حسن" کہا (ح۲۵۲)
۴۔ بغوی نے اس کی ایک حدیث کو حسن کہا۔ (شرح السنۃ ۳۱/۳ ح ۵۷۰)
۵۔ نووی نے اس کی ایک حدیث کو
"باسناد صحیح" کہا۔(المجموع شرح المہذب ج۳ ص ۴۹۰ سطر ۱۵)
۶۔ ابن عبدالبر نے اس کی ایک حدیث کو
"حدیث صحیح " کہا۔ (الاستیعاب فی معرفۃ الاصحاب المطبوع مع الاصابۃ ج ۳ ص ۶۱۵)
ان چھ (۶) محدثین کے مقابلے میں کسی ایک محدث سے صراحتاً قبیصہ بن ہلب پر کوئی جرح ثابت نہیں ہے۔
حافظ ابن حجر کے نزدیک یہ راوی متابعت کی صورت میں "مقبول" ہے (تقریب التہذیب: ۵۵۱۶) ورنہ ان کے نزدیک وہ لین الحدیث ہے۔
مؤمل عن سفیان ثوری الخ والی روایت کی صورت میں قبیصہ مذکور حافظ ابن حجر کے نزدیک مقبول (مقبول الحدیث) ہوا۔
فتح الباری کے سکوت (۲۲۴/۳) کی روشنی میں دیوبندیوں کے نزدیک یہ راوی حافظ ابن حجر کے نزدیک حسن الحدیث ہے۔
نیز دیکھئے تعدیل نمبر:۲۰
حافظ ابن حجر کے کلام پر یہ بحث بطور الزام ذکر کی گئی ہےورنہ قبیصہ مذکور بذات خود حسن الحدیث ہیں۔ والحمدللہ
بعض لوگ مسند احمد میں سینے پر ہاتھ باندھنے والی حدیث کے راوی کے سماک بن حرب پر بھی جرح کردیتے ہیں لہٰذا درج ذیل مضمون میں سماک کے بارے میں مکمل تحقیق پیش خدمت ہے۔